ملائیشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا میں احمدیت

خطبہ جمعہ 27؍ ستمبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر مجھے اس علاقے کے احمدیوں سے ملنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے حالات جماعتی لحاظ سے ایسے ہیں کہ وہاں میرا جانا مشکل ہے۔ اس لئے سنگا پور ہی ایسی جگہ ہے جہاں ان جماعتوں کے افراد سے ملاقات کے سامان اللہ تعالیٰ مہیا فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ایسے حالات پیدا فرمائے کہ ان ملکوں میں بھی آسانیاں پیدا ہو جائیں اور جماعت کے لئے آسانیاں پیدا ہوں اور وہاں جانا خلیفہ وقت کے لئے بھی سہولت سے ہو۔

اس دفعہ انڈونیشیا اور ملائیشیا سے تین ہزار سے اوپر احمدی آئے ہیں۔ زیادہ تعداد انڈونیشیا کے احمدیوں کی ہے۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ، برما، میانمار، فلپائن وغیرہ سے احمدی بھی اور بعض غیراز جماعت بھی تشریف لائے ہیں۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ملاقات کے سامان پیدا فرما دیئے۔ اس خطے میں انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں احمدیت کی وجہ سے افرادِ جماعت پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے اور بعض شہادتیں بھی ہوئی ہیں اور حکومتی اہلکاروں کی موجودگی میں سب کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ یہ نہیں کہ بند ہوگیا ہے یاایک دفعہ ہوا۔ تقریباً سات سال پہلے میں یہاں پہلی دفعہ آیا تھا تو اس وقت بھی کچھ عرصہ پہلے احمدیوں پر انڈونیشیا میں ظلموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مساجد پر حملے ہوئے، توڑپھوڑ ہوئی، جماعتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ احمدیوں پر حملے ہوئے، جانی اور مالی نقصان ہوا۔ بہرحال اس کے بعدتو دشمنی کا یہ سلسلہ جوہے وہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ جانی و مالی نقصان ہوتا رہا اور آپ سب جانتے ہیں کہ کس طرح ظالمانہ اور وحشیانہ طور پر پولیس کی نگرانی میں احمدیوں کو شہید کیا گیا۔ ایسا ظلم تھا کہ انصاف پسند لوکل پریس نے بھی اس ظلم کی مذمت کی۔ آج کل میڈیا کی وجہ سے دنیا اتنی قریب ہو چکی ہے کہ جو ظلم ہوئے وہ فوری طور پر دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئے۔ یعنی اس کی تفصیل دنیاکے ہر شخص تک پہنچ گئی اور دنیا کی نظر بھی اس طرف مبذول ہوئی اور اس کے لئے آوازیں بھی اٹھائی گئیں۔ بہرحال وہ سب ادارے یا لوگ جنہوں نے جماعت کے خلاف ان مظالم پر آواز اٹھائی ہم ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہر ظلم جو جماعت پر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دوسرے لحاظ سے بعض اچھے نتائج بھی پیدا فرمادیتا ہے۔ انڈونیشیا کے احمدیوں پراس ظلم کی وجہ سے جماعت کا بہت وسیع تعارف دنیا میں ہوا۔ افریقہ کے ایک دور دراز علاقے میں جب یہ ویڈیو دکھائی گئی، جب ان تین احمدیوں کو شہید کیا گیا تو وہاں کے ایک بڑے عالم نے جب یہ ویڈیو دیکھی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا ظلم صرف مومنوں پر ہو سکتا ہے اس لئے آج سے مَیں احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرتا ہوں۔ اس ظلم کی وجہ سے صرف انڈونیشیا میں ہی بعض بیعتیں نہیں ہوئیں بلکہ دنیا کے بہت سارے علاقوں میں بھی بیعتیں ہوئیں۔ پاکستان کے بعد انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہوتی چلی جارہی ہیں۔ جہاں احمدیوں پر وحشیانہ طور پر مظالم ہورہے ہیں۔ انڈونیشیا میں تو اب کچھ حد تک کمی واقعہ ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں مسلسل یہ ظلم جاری ہے اور یہ ظلم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہے ہیں۔ اُس خدا کے نام پر یہ ظلم ہو رہے ہیں جس کی تعلیم حقوق العباد کی ادائیگی سے بھری پڑی ہے۔ اُس خدا کے نام پر ظلم ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کو رحم اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ اُس رسول کے نام پر ظلم ہو رہے ہیں جو رحمۃ للعالمین ہے۔ اُس رسول کے نام پر ظلم ہو رہے ہیں جس نے جنگ کی حالت میں بھی ظلم سے روکا ہے۔ جس نے کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنے پر اپنے صحابی سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور جب صحابی نے جواب دیا کہ یہ کلمہ تو اس کافر نے تلوار کے خوف سے پڑھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ خوف سے کلمہ پڑھا گیا تھا یا دل سے کلمہ پڑھا گیا تھا؟ بہرحال پاکستان میں تو ظلموں کی انتہا ہے اور کلمہ پڑھنے والوں پر ظلم کیا جا رہا ہے اور کلمہ کے نام پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اور اُنہی کا اثر اور اُن پاکستانی مُلّاؤں کا اثر ہی انڈونیشیا کے مُلّاؤں پر بھی ہے جو یہ ظلم کرتے رہے ہیں یا کرنے کی طرف لوگوں کو ابھار رہے ہیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے مخالفین نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جتنا مخالفت میں دشمن بڑھ رہا ہے، احمدیوں میں استقامت بھی اُس سے بڑھ کر بڑھ رہی ہے۔ ہمارے مخالفین نہیں جانتے کہ احمدیت وہ حقیقی اسلام ہے جس نے اپنی جڑیں ہمارے دلوں میں لگائی ہوئی ہیں اور کوئی مخالفت اور کوئی تیز آندھی ہمارے ایمان کی مضبوط جڑوں کو ہم سے جدا نہیں کرسکتی۔ احمدی خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نظاروں کو دیکھ کر کس طرح اپنے خدا سے کئے ہوئے عہد سے منہ موڑ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے جڑ کر پھر کس طرح اپنے بندھن کو توڑ سکتا ہے۔ وہ بندھن جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بندھن کو مزید مضبوط کردیا ہے، جس نے ایمان میں ترقی کے وہ راستے دکھائے ہیں جن سے غیر احمدی مسلمان ناآشنا ہیں۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ ان مخالفتوں کی آندھیوں کے باوجود اپنے ایمان کو بڑھاتا چلا جائے۔ استقامت کے اِن نمونوں پر ہمیشہ قائم رہے۔ ایمان و اخلاص میں بڑھتا چلا جائے اور ثبات قدم کے لئے دُعا بھی کرے کیونکہ ثبات قدم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی عطا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے جھکنا اور اُس کی عبادت کا حق ادا کرنا بھی بہت زیادہ ضروری ہے۔ اِسی طرح اپنی عملی حالتوں کو پہلے سے بہتر کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا اور اپنی عملی حالتوں کو بہتر کرنا صرف اُن احمدیوں کا کام نہیں جن پر سختیاں ہورہی ہیں بلکہ ہر احمدی کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں۔ سنگاپور کے احمدی بھی اور برما کے احمدی بھی اور تھائی لینڈ کے احمدی بھی اور دنیا کے ہر ملک کے احمدی اگر اپنی ایمانی حالتوں کا جائزہ نہیں لیں گے تو اس میں ترقی نہیں کریں گے اور اگر احمدیت میں ترقی نہیں ہوگی تو احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنے ایمان و ایقان میں ترقی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

میں نے ملائیشیا کا بھی ذکر کیا تھا، وہاں بھی مخالفت ہے۔ وقتاً فوقتاً وہاں بھی ابال اُٹھتا رہتا ہے۔ لیکن انڈونیشیا والے حالات وہاں نہیں ہیں۔ سنا ہے مسلمان تنظیموں نے جگہ جگہ سائن بورڈ لگائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے ’’قادیانی مسلمان نہیں ہیں‘‘ یا اِس قسم کے الفاظ ہیں۔ جو یقینا جب ایک احمدی گزرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اُس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ یہ لکھی ہوئی تحریریں احمدیوں کی دل آزاری کرتی ہیں۔ لیکن احمدی قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کی وجہ سے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم احمدی مسلمان ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اِن دوسروں سے زیادہ اچھے مسلمان ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دل اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرما یا تھا کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ کہنے والے کو کافر نہ کہو کیونکہ یہ کافر کہنا تم پر اُلٹ کر پڑے گا بلکہ فرمایا کہ جو صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے وہ بھی مسلمان ہے۔ بلکہ قرآن شریف تو کہتا ہے کہ جو تمہیں جو سلام کہے اُسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ پس قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے اور اِن لوگوں نے اپنا ایک علیحدہ اسلام بنا لیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھی اِنہوں نے اپنے مفادات اور اپنی ذاتی خواہشوں کی وجہ سے غیروں کی نظر میں ایک مذاق بنا لیا ہوا ہے۔

ملائیشیا کے صدر جماعت ملے تھے کہہ رہے تھے کہ بورڈ تو لگے ہوئے ہیں لیکن لوگوں کو اب اِن کی پرواہ نہیں رہی۔ غیراز جماعت شرفاء کو بھی اب پتہ لگ گیا ہے کہ یہ مولوی کے اپنے مفادات ہیں جن کا اِظہار ہورہا ہے۔ اسلام کو اِس طرح یہ غیروں کی نظر میں ہنسی اور ٹھٹھے کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ یہ اسلام کو اس کی پرانی تعلیم کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں لیکن حقیقی اسلام وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول کے احکامات ہیں۔ اب کچھ عرصہ پہلے ملائیشیا میں ایک عیسائی پادری نے کہہ دیا تھا کہ عیسائی بھی اللہ تعالیٰ کا لفظ استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارا بھی اللہ ہے۔ اِس پر اُن نام نہاد علماء نے شور ڈال دیا کہ ہیں ! یہ ایسی جرأت کس طرح کرلی اِنہوں نے؟ عدالت میں مقدمہ لے جایا گیا اور پھر عدالت کا یہ حال ہے کہ فیصلہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کا نام صرف مسلمان استعمال کرسکتے ہیں اور کوئی کسی کو حق نہیں کہ یہ کہہ سکے کہ اللہ میرا بھی ہے۔ گویا اِن دنیا داروں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر اللہ تعالیٰ کو بھی محدود کردیا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر صرف اِن نام نہاد مسلمانوں کی اِجارہ داری ہے۔ جاہل مولوی تو ایسی باتیں کریں تو کریں، حیرت ہوتی ہے اُن پڑھے لکھے فیصلہ کرنے والوں پر بھی جو اِن باتوں سے اسلام کو بدنام کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الفاتحہ: 2) کہ اللہ ہرایک کا رب ہے، چاہے مسلم ہے یا غیر مسلم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ (الرعد: 27) کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے۔ کیا عیسائیوں کو یا یہودیوں کو یا کسی اور کو کوئی اَور رزق دے رہا ہے؟ اِن کے اِس فیصلے کی رُو سے اگر ایک عیسائی کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں پہلے نبیوں کے ذریعہ سے بھی کہلواتا ہے کہ اللّٰہَ رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآءِ کُمُ الْاَوَّلِیْنَ(الصفّٰت: 127) اللہ جو تمہارا رب ہے اور تمہارے آباؤ اجداد کا بھی رب ہے۔ پس اللہ تعالیٰ پر مسلمانوں کی کہاں سے اجارہ داری ہوگئی۔ پھر اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی اُن عیسائیوں کے بارے میں جن کے متعلق ملائیشیا کی عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ اللہ کا لفظ صرف مسلمان استعمال کرسکتے ہیں کہ قُلْ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ  (آل عمران: 65)

تو کہہ دے کہ اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ یعنی قدرِ مشترک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قدرِ مشترک اللہ تعالیٰ ہے۔ جس طرح مسلمانوں کو اللہ کہنے کا حق ہے اِسی طرح عیسائیوں کو بھی اللہ کہنے کا حق ہے۔ اِسی طرح کسی کو بھی ’’اللہ‘‘ کہنے کا حق ہے۔ پس یہ مثالیں مَیں نے اس لئے دی ہیں کہ بعض احمدی اس بارے میں پوچھتے ہیں۔ قرآن کریم تو ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو سب کا اللہ کہا ہے۔ کسی شخص کی، کسی فرقے کی، کسی مذہب کی، کسی حکومت کی، کسی عدالت کی اللہ تعالیٰ کے لفظ پر اجارہ داری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی ٹریڈ مارک نہیں ہے۔ وہ ربّ العالمین ہے۔

آج دنیا کو احمدی ہی بتا سکتے ہیں کہ حقیقی اسلامی تعلیم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کا مقام کیا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کیا ہے۔ غیر احمدی مسلمانوں نے تو جیسا کہ مَیں نے کہا اسلام کو غیروں کے لئے اِستہزاء کا سامان بنا دیا ہے۔ بہرحال ملائیشیا کے احمدیوں کا کام ہے کہ حکمت سے اسلام کی تعلیم اپنے ہم وطنوں کو بتاتے رہیں۔ اُن کو بتائیں کہ تم کیوں اِن نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کررہے ہو؟ اللہ تعالیٰ اِن کی جہالت کے پردوں کو دُور فرمائے۔

میں نے انڈونیشیا اور ملائیشیا کا ذکر کیا ہے۔ شاید سنگاپور کے احمدی سوچتے ہوں کہ آئے تو ہمارے ملک میں ہیں اور ذِکر دوسرے ملکوں کا ہورہا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ مومن ایک جسم کی طرح ہے۔ ایک کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ اس لئے اُن ملکوں میں رہنے والے احمدیوں کو جہاں اُن کو تکلیفیں دی جا رہی ہیں ہر احمدی کو دنیا کے ہر احمدی کو محسوس کرنا چاہئے۔

دوسرے سنگاپور کے احمدیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ یہاں کے حالات اچھے ہیں۔ حکومت کسی مذہب کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتی۔ لیکن اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے سے بھی نہیں روکتی۔ پس حکمت کے ساتھ اپنے تبلیغ کے میدان کو وسیع تر کرتے چلے جائیں۔ ہر طبقے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ یہاں میرے سامنے جو احمدی بیٹھے ہوئے ہیں چاہے سنگاپور کے ہوں یا کسی دوسرے ملک کے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ چاہے حالات اچھے ہوں یا خراب، ہم احمدی مسلمانوں نے اسلام کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا ہے۔ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کو دنیا پر ظاہر کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے کسی پہلو کو بھی لے لیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر پہلو ایک حقیقی مسلمان کے لئے اُسوئہ حسنہ ہے۔ چاہے وہ گھریلو معاملات ہیں یا معاشی اور معاشرتی اور غیروں کے ساتھ معاملات ہیں یا غیر قوموں کے ساتھ یا دوسروں کے ساتھ معاملات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے کامل نمونہ ہیں۔ پس جب ہم نے غیروں کے سامنے سیرت بیان کرنی ہے تو خود بھی اِس پر عمل کرنا ہوگا۔ اپنے عملی نمونوں سے اسلام کی طرف غیروں کو کھینچنا ہوگا۔ جب رحمۃ للعالمین کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھانا ہے تو خود بھی ہر سطح پر پیار، محبت، بھائی چارے کے نمونے دکھانے ہوں گے۔ قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے اس زمانے میں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیجا ہے تو اس کے ساتھ جُڑے بغیر اس تعلیم کی حقیقت سمجھ نہیں آ سکتی۔ اگر زمانے کے امام کے ساتھ نہیں جڑو گے تو ایک دوسرے پر کفر کے فتوے ہی لگاتے رہو گے۔ اس کے بغیر غیر مذاہب کو اسلام کے قریب لانے کی بجائے اسلام سے دُور ہی کرتے رہو گے۔

پس ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکرگزار ہو کہ اُس نے ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے زمانے کے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ لیکن یہ شکر گزاری کس طرح ہوگی؟ اس شکر گزاری کے لئے ہمیں اپنی خواہشات کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہوگی، اپنے جذبات کی قربانی دینی ہوگی، حقیقی تعلیم کو سمجھنے کے لئے محنت کرنی ہوگی، پس اِس طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

باتیں تو بہت سی کرنے والی ہیں لیکن ابھی وقت نہیں کہ مَیں ساری باتیں اسی وقت کھول کر بیان کروں۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں فاصلوں کی دُوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت اور خلافت کے تعلق کو جوڑ دیا ہے۔ اس لئے میرے خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں۔ مَیں نے جائزہ لیا ہے بعض عہدیداران بھی خطبات کو باقاعدگی سے نہیں سنتے۔ یہ خطبات وقت کی ضرورت کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے اپنے آپ کو اِن سے ضرور جوڑیں تاکہ دنیا میں ہر جگہ احمدیت کی تعلیم کی جو اکائی ہے اس کا دنیا کو پتہ لگ سکے۔ آخر میں مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنی جماعت کو کس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ضروری ہے کہ جو اِقرار کیا جاتا ہے کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، اِس اِقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی عملی زندہ کا عمدہ نمونہ پیش کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 605۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ کی نصرت اُنہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 456۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ  (الاحقاف: 16) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 456۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر فرماتے ہیں کہ: ’’چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 272۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت کو یہ بات بہت ہی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے۔ ہر وقت اُسی سے مدد مانگتے رہنے چاہئے۔ اُس کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 279۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں پاک تبدیلیاں ہیں؟ کس حد تک ہم اپنے بچوں کو بھی جماعت سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں؟ کس حد تک ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کررہے ہیں؟ ایسا عمل کہ غیر بھی ہمیں دیکھ کر برملا کہیں کہ یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ کیا ہمارے نمونے ایسے ہیں کہ اسلام کے مخالف ہمیں دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوں؟ اگر ہم یہ معیار حاصل کررہے ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ باتیں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث بنائیں گی وہاں ہمیں تعداد میں بھی بڑھائیں گی اور جماعت کے خلاف جو مخالفتیں ہیں ایک دن ہوا میں اُڑ جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو اور مجھے بھی ایمان و ایقان میں ترقی دے اور ہر لمحہ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور دشمن کے ہر منصوبے کو خاک میں ملا دے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ ستمبر 2013ء شہ سرخیاں

    یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر مجھے اس علاقے کے احمدیوں سے ملنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے حالات جماعتی لحاظ سے ایسے ہیں کہ وہاں میرا جانا مشکل ہے۔ اس لئے سنگا پور ہی ایسی جگہ ہے جہاں ان جماعتوں کے افراد سے ملاقات کے سامان اللہ تعالیٰ مہیا فرمادیتا ہے۔

    پاکستان کے بعد انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہوتی چلی جارہی ہیں۔

    پاکستان میں تو ظلموں کی انتہا ہے اور کلمہ پڑھنے والوں پر ظلم کیا جا رہا ہے اور کلمہ کے نام پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اور اُنہی کا اثر اور اُن پاکستانی مُلّاؤں کا اثر ہی انڈونیشیا کے مُلّاؤں پر بھی ہے جو یہ ظلم کرتے رہے ہیں یا کرنے کی طرف لوگوں کو ابھار رہے ہیں۔ ہر احمدی کو چاہئے کہ ان مخالفتوں کی آندھیوں کے باوجود اپنے ایمان کو بڑھاتا چلا جائے۔ استقامت کے اِن نمونوں پر ہمیشہ قائم رہے۔ ایمان و اخلاص میں بڑھتا چلا جائے اور ثبات قدم کے لئے دُعا بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا اور اپنی عملی حالتوں کو بہتر کرنا صرف اُن احمدیوں کا کام نہیں جن پر سختیاں ہورہی ہیں بلکہ ہر احمدی کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں۔ حکمت کے ساتھ اپنے تبلیغ کے میدان کو وسیع تر کرتے چلے جائیں۔ ہر طبقے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ چاہے حالات اچھے ہوں یا خراب،

    ہم احمدی مسلمانوں نے اسلام کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا ہے۔

    یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں فاصلوں کی دوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت اور خلافت کے تعلق کو جوڑ دیا ہے۔ اس لئے میرے خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں۔ یہ خطبات وقت کی ضرورت کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے اپنے آپ کو اِن سے ضرور جوڑیں تاکہ دنیا میں ہر جگہ احمدیت کی تعلیم کی جو اِکائی ہے اس کا دنیا کو پتہ لگ سکے۔

    فرمودہ مورخہ 27ستمبر 2013ء بمطابق 27تبوک 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجدطٰہٰ۔ سنگاپور

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور