جلسہ سالانہ آسٹریلیا۔ تقویٰ کی ضرورت و اہمیت
خطبہ جمعہ 4؍ اکتوبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ آسٹریلیا کا جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے اور مجھے یہاں کے جلسہ میں شامل ہونے کی تقریباً سات سال بعد توفیق مل رہی ہے۔ یہ جلسہ سالانہ جس کی بنیاد آج سے تقریباً 123 سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھی تھی، جب پہلا جلسہ آج سے 123 سال پہلے منعقد ہوا تھا جو ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ قادیان میں منعقد ہوا اور جس میں صرف 75 افراد شامل ہوئے تھے۔ آج یہ جلسے دنیا کے ایک بڑے خطے میں منعقد ہوتے ہیں جس میں بڑے ممالک بھی شامل ہیں اور چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں، امیر ملک بھی شامل ہیں اور غریب ملک بھی شامل ہیں۔ دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جس میں یہ جلسہ منعقدنہ ہوتا ہو۔ یقینا یہ جلسے دنیا کے کونے کونے میں اور ملک ملک میں منعقد ہونے تھے، کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسہ کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدِ حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ281-282اشتہار نمبر91مطبوعہ ربوہ)
پس دنیا میں جلسوں کے انعقاد صرف لوگوں کا اکٹھ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ جماعت احمدیہ کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے بڑی شان سے پورا ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) کے روشن تر نشانوں کے ساتھ پورا ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کہ ’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے‘‘ صرف الفاظ نہیں بلکہ آج یہ الفاظ ہر نیا دن طلوع ہونے کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نظارے دکھا رہے ہیں۔ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل مانگتے ہیں۔ اگر آنکھیں بندنہ ہوں، اگر دل و دماغ پر پردے نہ پڑے ہوں تو آپ علیہ السلام کی صداقت کے لئے یہ جلسوں کے انعقاد ہی جو دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں بہت بڑی دلیل ہیں۔ کہ وہ جلسہ جو صرف 123 سال پہلے قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں منعقد ہوا تھا، آج دنیا کے تمام براعظموں میں منعقد ہو رہا ہے۔ دنیا کے اس برّاعظم میں بھی منعقد ہورہا ہے اور اس براعظم کے اور اس ملک کے بڑے شہر میں منعقد ہو رہا ہے جو وہاں سے ہزاروں میل دور ہے اور ہزاروں مرد و خواتین اور بچے اس میں شامل ہیں۔ اور یہی جلسہ تقریباً ایک مہینہ پہلے بڑی شان کے ساتھ دنیا کے اُس ملک کے دارالحکومت میں منعقد ہوا جس نے ایک لمبا عرصہ ہندوستان پر حکومت کی اور جس کے بعض افسران اور پادریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مقدمے بھی کروائے۔ آپ علیہ السلام کو عدالتوں میں بھی کھینچا۔ لیکن آج اُس ملک کی حکومت کے افسران اور لیڈر حتی کہ اُس ملک کے پادری بھی اس اعتراف کے بغیر نہیں رہ سکے کہ جماعت احمدیہ کا پیغام دنیا کی قوموں اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کا پیغام ہے۔ محبت، پیار اور بھائی چارے کا پیغام ہے اور اس پیغام کو دنیا میں پھیلنا چاہئے۔ اسی طرح امریکہ جو دنیا کی بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے، اُس کے اربابِ حکومت بھی ہمارے جلسہ میں آ کر، یا اپنے پیغام کے ذریعہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیغام کا ہمیں جماعت احمدیہ سے پتہ چلا ہے۔
پس یہ جلسے جہاں احمدیوں کے لئے علمی اور روحانی ترقی کا باعث بنتے ہیں اور بننے چاہئیں، وہاں غیروں کو بھی اسلام کی خوبیوں کا معترف بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کو بڑی شان سے پورا کرتے ہیں کہ ان کی خالص تائید حق پر بنیاد ہے، اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے، اسلام کے نام کو بلند کرنے پر بنیاد ہے، اسلام کے اعلیٰ و ارفع مذہب ہونے کو دنیا پر ثابت کرنے کا ذریعہ ہے۔
پس اس زمانے میں جب غیر بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ اسلام کی خوبصورتی کا اقرار کرتے ہیں، جو حقیقی اسلام ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہے تو کیا ایک احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کااحساس نہیں ہونا چاہئے۔ ایک احمدی کی ذمہ داری تو ان باتوں سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ اس جلسہ میں شامل ہو کر اپنی علمی، عملی، اعتقادی اور روحانی صلاحیتوں کوکئی گنا بڑھانے کا ذریعہ بنائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں بتایا تھا کہ اس میں شامل ہو کر تقویٰ اور خدا ترسی میں نمونہ بنو۔ یہ جلسہ تمہارے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے والا بن جائے۔ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جاؤ۔ بھائی چارے میں ایک مثال قائم کرو۔ انکسار اور عاجزی پیدا کرو۔ دین کی خدمت کے لئے اپنے اندر ایک جوش اور جذبہ پید کرو۔ اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اس جلسہ کے دنوں میں اپنے عہدِ بیعت کے جائزے لو، جس میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’مجھے ایسے لوگوں سے کیا کام ہے جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر اُٹھا نہیں لیتے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ363اشتہار نمبر117التوائے جلسہ 17دسمبر1893 ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ایک احمدی کے کرنے کے بہت بڑے کام ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک بہت بڑا مشن لے کر آئے تھے۔ اگر ہم نے آپ کی بیعت کا حق ادا کرنا ہے اور اس مشن کو پورا کرنا ہے جو آپ لے کر آئے تو پھر ہمیں اُن تعلیمات پر غور کرنا ہو گا جو آپ نے ہمیں دیں۔ ہمیں اُن تمام توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنی ہو گی جو آپ نے ہم سے رکھیں۔ پس ہمیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں اور مقصد پورا ہو گیا ہے۔ اب احمدی ہونے کے بعد ان باتوں اور ان چیزوں اور اُن توقعات کی تلاش کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں۔ یہ جلسہ کے تین دن کیونکہ اجتماعی طور پر روحانی ماحول کے دن ہیں اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر تلاش کر کے اور یہاں کے پروگراموں سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں ایک حقیقی احمدی بننے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
اِس وقت میں اُس فہرست میں سے چند باتوں کا ذکر کروں گا اور آپ کے سامنے پیش کروں گا جو اُن معیاروں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔
جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد آپ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ تا آنے والوں کے دل میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کیا ہے؟ اس بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں، اس کے ذریعہ سے اُن تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہر ایک اندرونی قوّت و طاقت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام قوّتیں نفسِ امّارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں‘‘۔ نفسِ امّارہ نفس کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جو بار بار بدی کی طرف لے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے کی بجائے شیطان نے جو دنیا میں بے حیائی پھیلائی ہوئی ہے، اُس کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ برائیوں کو خوبصورت کر کے دکھاتا ہے۔ فرمایا کہ یہی انسان کا شیطان ہے جو تمہیں ہر وقت بہکاتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ یہ انسانی قوتیں جو انسان کو ورغلاتی رہتی ہیں، ’’اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کر لیں گی‘‘۔ فرمایا کہ ’’علم و عقل ہی بُرے طور پر استعمال ہو کر شیطان ہو جاتے ہیں‘‘۔ بعض انسانوں کو اپنے علم پر اور اپنی عقل پر بڑا ناز ہوتا ہے اور یہ ناز ہی اُن کو شیطان بنا دیتا ہے اور یہی علم اور عقل ہی شیطان بن جاتا ہے۔ ’’متقی کا کام کو اُن کی اور ایسا ہی اور دیگر کُل قُویٰ کی تعدیل کرنا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 21۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یعنی اپنی ان طاقتوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ٹھیک کرنا ہو گا، صحیح موقعوں پر اور انصاف کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا اور جب یہ ہو گا تو یہ تقویٰ ہے۔
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے۔ تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسا ہی رُوبہ دنیا تھے، اُن تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 7۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس بیعت میں آ کر بھی اگر پاک تبدیلیاں نہ ہوں تو وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لئے بیعت کی گئی ہے۔
پھر ایک جگہ تقویٰ کی وضاحت فرماتے ہوئے، ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں، کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلبِ صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(المآئدۃ: 28)گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اُس کا وعدہ ہے اور اُس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ’’جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (الرعد: 32)۔ پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیّتِ دعا کے لئے ایک غیر مُنفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیتِ دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے؟ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک اُن میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیّت دعا کا سُرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 68۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہر وقت اپنے قویٰ سے کام لینا چاہئے۔ فرمایا کہ: ’’غرض یہ قویٰ جو انسان کو دئے گئے ہیں اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہو سکتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں یقینا کہتا ہوں کہ اس امت میں بڑی قوّت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق اور صفاسے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قُویٰ سے محروم نہ سمجھے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا‘‘۔ یعنی فلاں لوگوں کو ملنا ہے اور ہمیں نہیں مل سکتا، ایسی کوئی فہرست نہیں ہے۔ فرمایا: ’’خداتعالیٰ بڑا کریم ہے۔ اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی بھی محروم نہیں رہا۔ اس لئے تم کو چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی ایک مواقع ہیں۔ رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ۔ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء۔ ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 233-234۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر اس بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے کہ نماز کی اصل غرض اور مغز دعا ہی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ: ’’نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے۔ اُلوہیّت اور عبودیّت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اور بندے میں اسی قسم کا تعلق ہے۔ ’’جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو اُلوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے‘‘۔ رونے اور آہ و زاری کو چاہتا ہے۔ ’’اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 234۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید رونے دھونے سے اور دعاؤں سے کچھ نہیں ملتا۔ اور آجکل دہریت نے نوجوانوں میں بھی اور بعض لوگوں میں بھی اس قسم کے خیالات بڑے زور شور سے پیدا کرنے شروع کئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا بالکل غلط اور باطل ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے‘‘۔ یہ سچی توبہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دئیے ہیں، اُن کی پابندی کرنی ہو گی۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے۔ یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے ؎
عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ دردنیست وگرنہ طبیب ہست‘‘
کہ یہ عاشق کیسا ہے کہ یار نے اُس کے حال کو دیکھا تک نہیں۔ اے دوست! درد ہی نہیں ہے ورنہ طبیب تو حاضر ہے۔ تمہارے اندر ہی وہ درد پیدا نہیں ہو رہا ورنہ علاج کے لئے اللہ تعالیٰ تو حاضر ہے۔
فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ۔ صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ۔ اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنا دیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب درعجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل وبرکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو۔ اگر سچی محبت ہو تو خد اتعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 234۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر عاجزی اور انکساری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ’’اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچناہی ہے۔ عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے‘‘ غرور و تکبر غضب سے پیدا ہوتا ہے ’’اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب وپندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘یعنی غصہ بھی تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور تکبر اور نخوت کی وجہ سے غصہ پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا: ’’کیونکہ غضب اُس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘ انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے۔ ’’مَیں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں، یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں‘‘۔ یعنی کسی کو اپنے آپ سے کم سمجھیں ’’خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندرحقارت ہے ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے‘‘۔ اگر یہ حقارت دل میں رکھی تو جس طرح ایک بیج بویا جاتا ہے اور بڑھتا ہوا پودا بن جاتا ہے اور پھر درخت بن جاتا ہے، اسی طرح یہ حقارت بڑھے گی اور جب یہ حقارت بڑھے گی تو انسان کو ہلاک کر دے گی۔ فرمایا کہ: ’’بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں‘‘۔ بڑوں کو ملے، بڑے ادب سے پیش آئے، بڑی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ ’’لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پرنہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوْ ابِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ (الحجرات: 12) کہ تم ایک د وسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسّاق و فُجّار کا ہے‘‘۔ اُن لوگوں کا ہے جو دین بھولنے والے ہیں اور دور ہٹنے والے ہیں۔ ’’جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مر ے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلانہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے‘‘۔ ہیں تو ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے، جب وہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سب کو ملنے ہیں تو کیا پتہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس پر زیادہ ہونے ہیں۔ ’’مکرّم ومعظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خداتعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متّقی ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(الحجرات: 14)۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ22-23۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک موقع پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوّت اور محبّت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزّت سے پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے‘‘۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو‘‘۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی لڑائی تو نہیں، اللہ تعالیٰ سے سچی صلح یہی ہے کہ اُس کے احکامات پر عمل کیا جائے اور اُس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے، اُس کے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیں۔ ’’اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے‘‘۔ کوشش کرو گے ’’تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو‘‘ جڑی بوٹیوں کو ’’اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اور کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے۔ مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں، ان کی مالک پروا نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑہارا ان کو کاٹ کر اپنے تنور میں پھینک دیوے۔ سو ایسا ہی تم بھی یاد رکھو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہدنہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی بھی پروا نہیں۔ ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتیں ہیں۔ پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا۔ اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پُرس ہوتی ہے‘‘۔ ایک انسان مارا جاتا ہے تو بازپرس ہوتی ہے، قانون پوچھتا ہے، لیکن جانور ذبح ہوتے ہیں، کوئی رحم نہیں کرتا۔ ’’سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لاپروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔ چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے، کیونکہ کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پرہو نہیں سکتی۔ ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔ …یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خُلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 174-175۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر جماعت کو اخلاقی ترقی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں کیونکہ اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ مشہور ہے۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی اُن پر سختی کرے تو حتی الوسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں۔ تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں‘‘۔ اور یہی ایک سبق ہے جو ہم دنیا کو دیتے ہیں کہ یہ معیار ہے دنیا میں امن قائم کرنے کا، اور دنیا پھراس کو پسند کرتی ہے۔ لیکن ہمارے عملی نمونے بھی ایسے ہونے چاہئیں۔ فرمایا: ’’انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں۔ اَمّارہ، لَوّامہ، مُطمَئِنّہ۔ اَمّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوش کو سنبھال نہیں سکتا‘‘ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا ’’اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے۔ مگر حالت لوّامہ میں سنبھال لیتا ہے‘‘۔ دل بار بار اُس کوملامت کرتا ہے کہ میں نے برائی کی۔ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتّے نے کاٹا۔ گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتّے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی۔ وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟‘‘ اُس کتّے کو۔ ’’اس نے جواب دیا۔ بیٹی! انسان سے کُتپن نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔ نہیں تو وہی کُتپن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا، مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ (الاعراف: 200) کا ہی خطاب ہوا۔ خوداُس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خُلق مجسّم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ اُن کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزّت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اُس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپؐ کی عزّت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ غرض یہ صفت لوّامہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔ روزمرّہ کی بات ہے اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے۔ جس قدر اس سے اعراض کرو گے، اسی قدراُس سے عزت بچا لو گے۔ اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاؤ گے اور ذلّت خرید لو گے۔ نفسِ مُطمئنہ کی حالت میں انسان کا ملکہ حسنات اور خیرات ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا اور ماسوی اللہ سے بکلّی انقطاع کر لیتا ہے۔ وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا۔ جہاں وہ ہوتا ہے وہ دنیا اور ہی ہوتی ہے اور وہاں کا آسمان اور زمین اور ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 64۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یہی نئی زمین اور آسمان پیدا کرنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تھے۔ پس اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس پر قابو رکھنے والا ہو تو جہاں ہم اپنے تعلقات میں، محبت اور پیار میں بڑھنے والے ہوں گے وہاں تبلیغ کے بھی کئی راستے کھولنے والے ہوں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر لڑائی اور جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور جلسوں پر بھی ایسے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہ سب باتیں جلسہ کے تقدس کو خراب کر رہی ہوتی ہیں۔ یہاں سے بھی مجھے شکایتیں آتی رہی ہیں کہ باہر نکلے، پارکنگ میں گئے، لڑائیاں ہو گئیں، پرانے جھگڑے تھے، خاندانی جھگڑے تھے یا کاروباری جھگڑے تھے اُس پر لڑائیاں ہو گئیں اور ایک جلسہ کا جو تقدس تھا، جو ماحول تھا اُس کو خراب کر دیا۔ یا نکلتے ہی بھول گئے کہ ہم کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر کے جا رہے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف غیروں کے سامنے صبر اور برداشت کی تلقین نہیں فرمائی ہے کہ غیروں کے سامنے صبر اور برداشت کرو بلکہ آپس میں بھی قرآنِ کریم فرماتا ہے رُحَمٓاءُ بَیْنَھُمْ (الفتح: 30) کہ رحم اور محبت کو اپنے آپ میں بھی رائج کرو اور پہلے سے بڑھ کر کرو، دوسروں سے بڑھ کر کرو۔ اس کی بہت زیادہ تلقین فرمائی گئی ہے۔ اس لحاظ سے بھی ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔
پھر وہ لوگ جو آپ کی جماعت میں شامل ہو کر آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کو بشارت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (آل عمران: 56) یہ تسلّی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا‘‘۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا۔ ’’مگر مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارتِ عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وُہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے، تو یاد رکھو اور دل سے سن لو مَیں ایک بار پھر ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں، بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر (نہ صرف میری ذات تک) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسان کاملؐ کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی۔ مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان کر کے سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفّرین پر غالب رہو گے) کی سچّی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی مَیں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اُس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنّہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ اس سے زیادہ اور مَیں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 64-65۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوّت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو یقین سے اپنا ہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا ردّ نہیں کرتا ہے۔ پس خدا سے مانگو اور یقین اور صدقِ نیّت سے مانگو۔ میری نصیحت پھر یہی ہے کہ اچھے اخلاق ظاہر کرنا اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں کراماتی نہیں بننا چاہتا تو یاد رکھے کہ شیطان اسے دھوکہ میں ڈالتا ہے۔ کرامت سے عُجب اور پندار مرادنہیں ہے۔ کرامت سے لوگوں کو اسلام کی سچائی اور حقیقت معلوم ہوتی ہے اور ہدایت ہوتی ہے۔ مَیں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ عُجب اور پندار تو کرامتِ اخلاقی میں داخل ہی نہیں۔ پس یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ دیکھو یہ کروڑ ہا مسلمان جو رُوئے زمین کے مختلف حِصَص میں نظر آتے ہیں کیا یہ تلوار کے زور سے، جبرو اکراہ سے ہوئے ہیں؟ نہیں ! یہ بالکل غلط ہے۔ یہ اسلام کی کراماتی تاثیر ہے جو ان کو کھینچ لائی ہے۔ کرامتیں انواع واقسام کی ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے‘‘۔ اچھے اخلاق دکھاؤ تو یہی کرامت بن جاتی ہے۔ ’’انہوں نے جومسلمان ہوئے صرف راستبازوں کی کرامت ہی دیکھی اور اس کا اثر پڑا۔ انہوں نے اسلام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا۔ نہ تلوار کو دیکھا۔ بڑے بڑے محقق انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ اسلا م کی سچّائی کی روح ہی ایسی قوی ہے جو غیرقوموں کو اسلام میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 92۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اگر آپ کے عمل تعلیم کے مطابق ہوں گے، اگر ہمارا ہر قول و فعل قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہو گا، اُس طرح ہو گا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں تو ایک تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جائے گا۔ صرف پاکستانیوں کی یا چند فجین (Fijian) لوگوں کی یہاں تعداد بڑھنے سے احمدیت نہیں پھیلے گی۔ مقامی لوگوں میں تبلیغ کرنے کے لئے بھی اپنے عملوں کو ایسا بنانا ہوگا کہ لوگوں کی توجہ ہماری طرف پیدا ہو اور یہ بھی ایک جلسہ کا بہت بڑا مقصد ہے۔
پس یہ تقویٰ میں ترقی، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ، اللہ تعالیٰ سے تعلق، دعاؤں اور نمازوں کی طرف توجہ، یہی باتیں ہیں جو افرادِ جماعت کو انفرادی طور پر بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی اور من حیث الجماعت، جماعت کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی۔ جماعت کی ترقی میں ہر اُس شخص کو شامل کریں گی جو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ جلسہ کے اس ماحول میں ان دنوں میں اپنے جائزے لیں۔ ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک ان نصائح اور توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں اور کوشش بھی ہر احمدی کو کرنی چاہئے کہ ہم ان باتوں پر عمل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے کی گئی دعاؤں کے بھی وارث بنیں۔ ان دنوں میں بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر ادا کریں کہ اُس نے ہمیں جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق دے کر ہماری اصلاح کا ایک اور موقع عطا فرمایا ہے۔ دعا کریں ہم اُن لوگوں میں شامل نہ ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ نہیں لیتے۔ بلکہ اُن میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ان دنوں سے بھر پور فیض اُٹھانے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنیں۔ نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صاحبہ کا جنازہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں اور محترم میاں عبد الرحیم احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ 30؍ ستمبر کو 95 سال کی عمر میں مَیری لینڈ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوتی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی، اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور خلیفۃ المسیح الرابع کی بہن اور میری خالہ تھیں۔ گویا حضرت خلیفہ اول سے لے کر اب تک خلفاء سے ان کا رشتہ تھا۔ پہلے بھی ان کا میرے سے بڑا پیار کا تعلق رہا۔ پھر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے مجھے امیر مقامی اور ناظرِ اعلیٰ بنایا تو اُس وقت پیار کے ساتھ احترام بھی شامل ہو گیا اور خلافت کے بعد تو اس تعلق میں ایک عجیب طرح کا رنگ آ گیاکہ حیرت ہوتی تھی۔ انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ناصرات جواحمدی بچیاں ہیں، اُن پر بھی ان کا ایک اس لحاظ سے احسان ہے جو تاریخ احمدیت میں درج بھی ہے کہ 1939ء میں احمدی بچیوں کے لئے مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا تھا، جس کی پہلی صدر یا نگران محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ تھیں اور سیکرٹری صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ تھیں اور اس کی تحریک بھی انہی نے کی تھی۔ آپ کہتی ہیں جب مَیں دینیات کلاس میں پڑھتی تھی تو میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ جس طرح خواتین کی تعلیم کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم ہے، اسی طرح لڑکیوں کے لئے بھی کوئی مجلس ہونی چاہئے۔ چنانچہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی بیگم صاحبہ اور محترم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کی بیگم صاحبہ اور اسی طرح اپنی کلاس کی بعض اور بہنوں سے خواہش کا اظہار کیا اور ہم نے مل کر لڑکیوں کی ایک انجمن بنائی جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے ناصرات الاحمدیہ رکھا گیا۔ بلکہ یہ مجلس ہی تھی یا کوئی اجلاس ہو رہا تھا کہ خلیفۃ المسیح الثانی وہاں سے گزرے۔ انہوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟تو انہوں نے کہا یہ نوجوان لجنہ یا اس طرح کا کوئی لفظ استعمال کیا تھا، کی کوئی تنظیم ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ تو بہر حال پھر ان کے جو استاد تھے، اُن کی تحریک پر اجازت لی اور پھرباقاعدہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ناصرات الاحمدیہ نام تجویز کیا اور یہ مجلس بنی۔ ہر ایک کا ان کے بارے میں یہی خیال اور تبصرہ ہے کہ انتہائی سادہ مزاج اور غریب نواز تھیں۔ مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں تھی۔ خصوصاً جلسہ کے دنوں میں اپنا سارا گھر مہمانوں کے لئے دے دیا کرتی تھیں اور ایک سٹور میں سارا خاندان اکٹھا ہو جاتا تھا۔ بلکہ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ سٹور بھی نہیں، مہمانوں کے سپرد سارا گھر ہوتا تھا اور آپ گھر والے باہر ٹینٹ لگا کر رہتے تھے۔ مہمانوں کی بہت ہی زیادہ خاطر مدارت کرتی تھیں۔ اور یہ ان میں غیر معمولی صفت تھی۔ امیر و غریب سب کے لئے برابر مہمان نوازی تھی۔ بہت غریب پرور تھیں۔ غریبوں کا بہت خیال رکھنے والی تھیں۔ نہایت خندہ پیشانی سے ان سے پیش آتیں۔ ان کے جو بچے جو انہوں نے پالے، اُن میں سے کئی کے یہی بیان ہیں کہ ہمیں بیٹے یا بیٹی کی طرح رکھا۔ اچھے سکولوں میں تعلیم دلوائی، گھر میں اچھی طرح رکھا، کپڑے اچھے پہنائے اور اُن کی خوراک وغیرہ کا خیال رکھا۔ کئی یتیم بچیوں کی شادیوں کا انتظام آپ نے کیا۔ اور بہر حال مَیں نے تو ان جیسا غریب پرور کوئی کم ہی دیکھا ہے۔ گھر میں اگر کسی یتیم یا غریب کی پرورش کی ذمہ داری لی ہے تو پھر اپنے بچوں کی طرح اُنہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچے تین بیٹیاں اور ایک بیٹے ہیں ڈاکٹر ظہیر الدین منصور۔ سارے امریکہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اپنی والدہ اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ آسٹریلیا کا جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے اور مجھے یہاں کے جلسہ میں شامل ہونے کی تقریباً سات سال بعد توفیق مل رہی ہے۔
دنیا میں جلسوں کے انعقاد صرف لوگوں کا اکٹھ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ جماعت احمدیہ کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے بڑی شان سے پورا ہونے کی دلیل ہے۔
یہ جلسے جہاں احمدیوں کے لئے علمی اور روحانی ترقی کا باعث بنتے ہیں اور بننے چاہئیں، وہاں غیروں کو بھی اسلام کی خوبیوں کا معترف بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کو بڑی شان سے پورا کرتے ہیں کہ ان کی خالص تائیدحق پر بنیاد ہے، اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔
جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد آپ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ تا آنے والوں کے دل میں تقویٰ پیدا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ ارشادات کے حوالہ سے تقویٰ کی ضرورت و اہمیت اور اس کے تقاضوں کا تذکرہ اور افراد جماعت کو اہم نصائح۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیٹی مکرمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میاں عبد الرحیم احمد صاحب کی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 04اکتوبر 2013ء بمطابق 04اخاء 1392 ہجری شمسی، بمقام بیت الہدیٰ، سڈنی، آسٹریلیا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔