بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت
خطبہ جمعہ 11؍ اکتوبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں، کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالَمِ آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ بھروسہ اُس کو دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اُس کو خدا تعالیٰ اور عالَمِ آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعفِ ایمان کا خاصہ ہے، یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانے میں بھی یہی حالت ہے۔ سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہو گا، بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 291 تا 294 حاشیہ)
پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ مَیں ایمانوں کو قوی کرنے آیا ہوں۔ اُن میں مضبوطی پیدا کرنے آیا ہوں۔ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے ایمان مضبوطی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ فرمایا کہ ایمان مضبوط ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثابت ہونے سے، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین سے۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل دنیا میں دنیا کے جاہ و مراتب پر بھروسہ خدا تعالیٰ پر بھروسے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف پڑنے کی بجائے دنیا کی طرف زیادہ نگاہ پڑتی ہے۔ وہ یقین جو خداتعالیٰ پر ہونا چاہئے وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دنیا والے اور دنیا کی چیزیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ اگر ہم اپنے ارد گردنظر دوڑائیں تو یہی صورتحال ہمیں نظر آتی ہے، لیکن اپنے ارد گردنظر دوڑانا صرف یہ دیکھنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے کہ آج دنیا خدا تعالیٰ کی نسبت دنیاوی چیزوں پر زیادہ یقین اور بھروسہ کرتی ہے۔ بلکہ یہ نظر دوڑانا اس لئے ہو کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم دنیاوی وسائل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یا خدا تعالیٰ پر۔ اگر ہم بیعت کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کو اُس طرح نہیں پہچان سکے جو اس کے پہچاننے کا حق ہے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو احمدی کہلانا کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ اگر آج ہم اپنے دنیاوی مالکوں کو خوش کرنے کی فکر میں ہیں اور یہ فکر جو ہے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے سے زیادہ ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے۔ ہم آپ سے کئے گئے عہدِ بیعت کو نہیں نبھا رہے۔ اگر ہم دنیا کے رسم و رواج کو دین کی تعلیم پر ترجیح دے رہے ہیں تو ہمارا احمدی کہلانا صرف نام کا احمدی کہلانا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ زبانوں سے تو دعوے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ہے اور ہم خدا تعالیٰ کو ہی سب سے بالا ہستی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہماری ہر محبت پر غالب ہے، لیکن عملاً دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ ہمیں اب ہمارے چاروں طرف نظر آتا ہے کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم ہر ایک دنیا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ دنیا کی لغویات اور بے حیائیوں نے خدا تعالیٰ کی یاد کو بہت پیچھے کر دیا۔ مسلمانوں کو پانچ وقت نمازوں کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کی وجہ سے اس عبادت کا حکم ہے، لیکن عملاً صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے۔ ایک احمدی جب اس لحاظ سے دوسروں پر نظر ڈالتا ہے تو اُسے سب سے پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی نمازوں کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی عبادتوں کو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس دعوے کی نفی کر رہے ہیں کہ آپ کے آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان قوی کرنا ہے۔ آپ کے آنے کا مقصد سچائی کے زمانے کو پھر لانا ہے۔ آپ کے آنے کا مقصد آسمان کو زمین کے قریب کرنا ہے یعنی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا ہے۔ یقینا ہمارے ایمان اور اعمال کی کمی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کی نفی نہیں ہوتی۔ ہاں ہم اُس فیض سے حصہ لینے والے نہیں ہیں جو آپ کی بعثت سے جاری ہوا ہے۔ ہمارے ایمان لانے کے دعوے بھی صرف زبانی دعوے ہیں۔ پس بجائے اس کے کہ ہر ایک دوسرے پر نظر رکھے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اُس کا ایمان کیسا ہے، اُس کا عمل کیسا ہے اور اُس میں کیا کمزوری ہے، ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کس حد تک اپنے عہدِ بیعت کوپورا کر رہا ہے۔ کس حد تک آپ علیہ السلام کے مقصد کو پورا کر رہا ہے۔ کس حد تک اعمالِ صالحہ بجا لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کس حد تک اپنی اخلاقی حالت کو درست کر رہا ہے۔ کس حد تک اپنے اس عہد کو پورا کر رہا ہے کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے دس شرائطِ بیعت رکھی ہیں کہ اگر تم حقیقی طور پر میری جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہو یا شامل ہونے والے کہلانا چاہتے ہو تو مجھ سے پختہ تعلق رکھنا ہو گا۔ اور یہ اُس وقت ہو گا جب ان شرائطِ بیعت پر پورا اترو گے۔ ان کی جگالی کرتے رہو تا کہ تمہارے ایمان بھی قوی ہوں اور تمہاری اخلاقی حالتیں بھی ترقی کرنے والی ہوں، ترقی کی طرف قدم بڑھانے والی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں مختلف مواقع پر بڑی شدت اور درد سے نصیحت فرمائی ہے کہ تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو، میری بیعت میں آنے کا اعلان کرتے ہو اگر احمدی کہلانے کے بعد تمہارے اندر نمایاں تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں تو تم میں اور غیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری نیکیوں کے معیار اُس سطح تک بلند ہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض نصائح جو بیعت کرنے والوں کو آپ علیہ السلام نے مختلف اوقات میں فرمائیں، اُن کا مَیں اس خطبہ میں ذکر کروں گا۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے‘‘۔ یعنی اگر صرف رسمی بیعت ہے تو انسان اس بیعت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ دار نہیں بن سکتا، نہ انعامات کا وارث بنتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والے کے حق میں مقرر فرمائے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کرکے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے‘‘۔ یعنی جس کی بیعت کی ہے اُس کے ساتھ ہو جائے، خدا تعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کر لے۔ پھر فرمایا: ’’تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔ اگر ان تعلقات کو وہ (طالب) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا‘‘ یعنی جس نے بیعت کی ہے اگر وہ یہ تعلقات نہیں بڑھاتا اور اس کے لئے کوشش نہیں کرتا، اللہ سے بھی تعلق اور جس کی بیعت کی ہے اُس سے بھی تعلق ’’تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے‘‘۔ پھر یہ شکوہ نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اُن انعامات سے نہیں نواز رہا جن کا وعدہ ہے۔ فرمایا کہ ’’محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو اُس انسان (مُرشد) کے ہمرنگ ہو۔ طریقوں میں اور اعتقاد میں‘‘۔ یعنی جس کی بیعت کی ہے اُس کے طریق پر چلو اور اعتقادی لحاظ سے بھی اُس معیار کو حاصل کرو۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے۔ اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ3-4۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
سچائی اور عبادت کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو اور صبح سے شام تک اپنے جائزے لو کہ کیا تم نے حاصل کیا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے۔ مغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چِھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے۔ مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی، جو کسی کام نہیں آسکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں …۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر ان دونوں باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا‘‘ یعنی بیعت اور ایمان کی حقیقت نہیں پتہ اور عمل اس کے مطابق نہیں ’’تو اُسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ اُس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا۔ اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اُس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اور اسلام کا مدعی سچامدعی نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ416۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر یہ سب باتیں غلط ہیں کہ میں ایمان لایا، میری محبت ہے، میں کامل اطاعت کرنے والا ہوں، میں نے بیعت کی ہوئی ہے، مَیں اعتقادی طور پر یقین رکھتا ہوں، میں سچا مسلمان ہوں۔ فرمایا یہ سب دعوے ہیں۔ پس بیعت کے بعد ایمان میں بھی ترقی ہونی چاہئے، محبت میں بھی ترقی ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہو، یہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اُس کے سب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ہو، خلافت سے محبت ہو اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو۔
پھر فرمایا کہ اطاعت کے معیار حاصل کرو۔ اطاعت یہ نہیں کہ خلیفۂ وقت کے یا نظامِ جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لئے اور جو اپنی مرضی کے نہ ہوئے اُس میں کئی قسم کی تاویلیں پیش کرنی شروع کر دیں، اُس میں اعتراض کرنے شروع کر دئیے۔ فرمایا کہ یہ بیعت کا دعویٰ اگر ہے تو پھر اطاعت بھی کامل ہونی چاہئے۔ پس یہ بیعت کا دعویٰ، اعتقاد کا دعویٰ، مریدی کا دعویٰ اور اس حقیقی اسلام پر عمل کرنے کا دعویٰ یا مسلمان ہونے کا دعویٰ تبھی حقیقی دعویٰ ہے جب یہ اعلان ہو کہ آج بیعت کرنے کے بعد میرا کچھ نہیں رہا بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے اور اُس کے دین کے لئے ہے۔ اور یہی بیعت کا مقصد ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا۔
پھر ایک دوست کو نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’یہ یاد رکھو کہ بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہوتی ہے۔ اگر بیعت کے بعد اپنی حالت میں تبدیلی نہ کی جاوے تو یہ استخفاف ہے‘‘۔ یعنی توبہ اور بیعت کا مذاق اڑانا ہے، اس کو کم نظر سے دیکھنا ہے، اُس کا احترام نہ کرنا ہے۔ ’’بیعت بازیچۂ اطفال نہیں ہے‘‘۔ بیعت کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، بیعت ایک مطالبہ کرتی ہے۔ ’’درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر ایک امر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 257۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج بھی ایسے مخلص اللہ تعالیٰ عطا فرما رہا ہے جو بیعت کرنے کے بعد پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور غیر بھی اُن کی اس پاک تبدیلی کے معترف ہیں۔ ہمارے ایک مبلغ ہیں برکینا فاسو کے، وہ لکھتے ہیں کہ وہاں دینیہ ایک جگہ ہے، ایک مرتبہ وہاں وہ دورے پر گئے اور یہ جماعت جو ہے یہ مالی کے بارڈر پر ہے اور یہاں جماعت کی کافی مخالفت ہے۔ کیونکہ وہاں بھی وہابیوں کا زور ہے۔ وہاں کے ایک مسجد کے امام وِدراگو یعقوبو صاحب ہیں یہ مسجد کے امام صاحب ہیں لیکن کم از کم ان میں اتنی سچائی ہے، پاکستانی مولویوں کی طرح نہیں کہ حقیقت کو ہی نہ مانیں۔ کہتے ہیں انہوں مجھے بتایا کہ باوجود مخالفت کے ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اس گاؤں میں تین بہترین مسلمان ہیں اور وہ تینوں ہمارے لئے نمونہ ہیں اور اُن تینوں کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔
اس طرح مخالفین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں آنے کے بعد لوگوں میں ایک حقیقی اور پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ پس جو بیعت کی حقیقت کو سمجھ کر بیعت کرتے ہیں وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں اور یہ نمونہ ہی ہے جو پھر آگے تبلیغ کے میدان کھولتا ہے۔ اگر تبلیغی میدان بڑھانا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو، جو کہیں بھی رہتا ہے، اس ملک کے ہر کونے میں اپنے نمونے ایسے قائم کرنے ہوں گے کہ لوگوں کی آپ کی طرف توجہ پیدا ہو اور تا کہ اُس کے نتیجہ میں پھر تبلیغ کے میدان کھلیں۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اُن اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جن کی آپ نے ہم سے توقع فرمائی ہے۔
آپ ایک حقیقی احمدی کا معیار بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’لازم ہے کہ انسان ایسی حالت بنائے رکھے کہ فرشتے بھی اس سے مصافحہ کریں۔ ہماری بیعت سے تو یہ رنگ آنا چاہئے‘‘۔ اگر بیعت کی ہے تو یہ رنگ پیدا ہونا چاہئے ہر احمدی میں ’’کہ خداتعالیٰ کی ہیبت اور جلال دل پر طاری رہے جس سے گناہ دور ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 397۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو‘‘۔ فرمایا ’’اگر بیعت دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔ میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے، غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔ تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 194۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ توبہ کے معیار اور پاک تبدیلی ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہار وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے، وہ نہ رہو‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ195۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھرآپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’بیعت کی حقیقت سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کاربند ہونا چاہئے۔ اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے۔ اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس کے واسطے اور بھی باعثِ عذاب ہو گی کیونکہ معاہدہ کر کے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 604-605۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ’’بیعت کرنے سے مطلب بیعت کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہے۔ ایک شخص نے رُو برو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی۔ اصل غرض اور غایت کو نہ سمجھا یا پروا نہ کی تو اُس کی بیعت بے فائدہ ہے‘‘۔ ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کر لی لیکن غرض نہیں سمجھی تو بے فائدہ بیعت ہے ’’اور اس کی اس بیعت کی خدا کے سامنے کچھ حقیقت نہیں ہے۔ مگر دوسرا شخص ہزار کوس سے بیٹھا بیٹھا صدقِ دل سے بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت کو مان کر بیعت کرتا ہے‘‘۔ ایک دوسرا شخص ہے جس نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت تو نہیں کی، ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا ہے لیکن بیعت کی غرض و غایت کو سمجھا ہے، ’’اور پھر اس اقرار کے اوپر کاربند ہو کر اپنی عملی اصلاح کرتا ہے، وہ اُس رُوبرو بیعت کر کے بیعت کی حقیقت پر نہ چلنے والے سے ہزار درجہ بہتر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 457۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ حقیقت ہے بیعت کی اور آپ کے آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی، کہ بیعت کی حقیقت کو جاننے اور بیعت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے بیعت کی حقیقت اُس وقت معلوم ہو گی جب آپ کی بیان فرمودہ دس شرائطِ بیعت پر غور ہو گا اور اُن پر عمل ہو گا۔ مَیں نے ابھی ایک مثال دی کہ کس طرح افریقہ کے دور دراز علاقے میں بیٹھے ہوئے لوگ بیعت کر کے اپنے ماحول میں نمونہ بن رہے ہیں اور مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حقیقی مسلمان دیکھنا ہے تو ان احمدیوں میں دیکھو۔
پس یہ نمونے ہیں جو ہم نے قائم کرنے ہیں۔ نئے بیعت کرنے والوں کی بعض اَور مثالیں بھی میں دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شرائطِ بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ سے تعلق محبت اور اخوت تمام دنیوی تعلقوں سے بڑھ کر ہو گا۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160مطبوعہ ربوہ) جب موقع ملے تو آج بھی دور دراز بیٹھے ہوئے لوگ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو ایمان سے بھرا ہوا ہے۔
رشین ممالک میں بیعت کرنے والے احباب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان اور اخلاص میں غیرمعمولی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک گزشتہ سال قادیان کے جلسہ میں بھی شامل ہوئے اور واپس آنے کے بعد، اپنے ملک پہنچنے کے بعد جو اپنے تاثرات انہوں نے بھجوائے اُن میں سے ایک صاحب نے لکھا کہ: اس مبارک جگہ کے بارے میں کتب میں پڑھا اور ٹی وی پر دیکھا تھا لیکن جب ہمارے قدم اس زمین پر پڑے تو وہی ماحول جو مسیح موعود علیہ السلام کے وقت تھا ہم پر بھی طاری ہو گیا۔ یہاں پر سانس لینا بہت آسان تھا اور آدمی دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ حتی کہ اس کے خیالات تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مستغرق ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور محسوس کیا اس کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔
پھر ایک دوست نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے قادیان جانے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مہدی آخر الزمان کو سلام پہنچانے کی توفیق ملی۔ مَیں نے پہلی مرتبہ احمدیہ مسجد سے اذان کی آواز سنی، کیونکہ وہاں روس میں بھی پابندیاں ہیں، مسجد میں اذان نہیں دے سکتے۔ میں نے اپنا سامان جلدی سے رکھا اور وضو کرتے ہوئے یہ سوچتے سوچتے مسجد پہنچا کہ یہ مسیح موعود کی مسجد ہے اور دو رکعت نماز ادا کر کے ایک احمدی بھائی سے پوچھا کہ کیا یہ امام مہدی علیہ السلام کی ہی مسجد ہے؟ تو اُس نے کہا نہیں، یہ مسجد دارالانوار ہے۔ اس پر مَیں کچھ غمگین سا ہو کر اپنے بھائیوں کی طرف گیا اور اُن کو بتایا۔ بہر حال ہم نے فجر کی نماز اُسی مسجد میں ادا کی اور پھر ہم امام مہدی علیہ السلام کے مزار پر گئے اور دعا کی۔ اُس وقت میں اللہ کے حضور شکر کے ایسے جذبات سے بھرا ہوا تھا کہ جن کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس کے بعدہم قادیان میں ہر طرف گھومے۔ امام مہدی کی مسجد بیت الفکر، بیت الدعا، وہ گھر جہاں امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوئے اور رہے، جہاں انہوں نے روزے رکھے، اور مسجدنور بھی گئے۔ ان جگہوں پر دعا کی توفیق ملی اور ایسی حالت طاری ہوئی جو ناقابلِ بیان ہے۔ ایسے لگا جیسے دماغ چکرا گیا ہو۔ ہم تمام اہم جگہوں پر گئے اور میں اس وجہ سے اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ پس یہ لوگ ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ موقع نہیں ملا کہ قادیان جا سکیں۔ لیکن یہ لوگ بھی اخلاص و وفا سے پُر ہیں جن لوگوں کے خطوط آتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے ان کی وفا اور اخلاص کو دیکھ کر۔ اپنی دنیاوی ضروریات سے زیادہ اپنی روحانیت کی فکر ان میں ہے۔
مَیں گزشتہ دنوں میں جب سنگاپور گیا ہوں، وہاں انڈونیشیا سے بھی بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے اور بڑا لمبا سفر کر کے آئے تھے۔ بعض غریب لوگ ایسے بھی آئے تھے کہ جن کے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے تو اگر اُن کی تھوڑی سی کوئی جائیداد زمین یا جگہ تھی، تو وہ بیچ کر انہوں نے کرایہ پورا کیا اور سنگاپور پہنچے ہوئے تھے۔ اور جب بھی انہوں نے کوئی دعا کے لئے کہا، تو یہ نہیں تھا کہ دنیاوی ضروریات پوری ہوں، بلکہ یہ تھا کہ ہمارے بچے دین پر قائم رہیں اور جس انعام کو ہم نے پا لیا ہے یہ ہم سے ضائع نہ ہو۔ یہ عورتوں کے بھی جذبات تھے اور مَردوں کے بھی۔ پھر خلافت سے محبت بے انتہا تھی۔ وہی محبت و اخوت کا اظہار تھا جو محض لِلّٰہ تھا۔
پھر ایک اور مثال پیش کرتا ہوں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ہے اور عَقدِاخوت کا اظہار بھی ہے۔
فرانس سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع عبدالعزیز صاحب پچھلے تین چار ماہ سے ملازمت کی تلاش میں تھے۔ اسی دوران جب ان کو بتایا گیا کہ ماہِ جون کے آخر میں جلسہ سالانہ جرمنی منعقد ہو گا جس میں بتایا کہ خلیفۃ المسیح نے بھی شامل ہونا ہے تو کہنے لگے کہ وہ ہر قیمت پر اس جلسہ میں شامل ہوں گے اور اُن کی بڑی خواہش ہے کہ خلیفۃ المسیح سے ملاقات ہو۔ بہر حال کہتے ہیں 2؍جون کو جب ان سے جرمنی جانے کے لئے دوبارہ رابطہ کیا گیا توا نہوں نے بتایا کہ آج ہی ایک ملازمت ملی ہے۔ اگر وہ شروع ہی میں چار غیر حاضریاں کریں گے تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ ان کو نوکری سے فوری جواب مل جائے گا۔ اب یہ نو مبائع ہیں اور حالات جو دنیا کے آجکل ہیں، خاص طور پر یورپ میں، وہ ایسے ہیں کہ نوکری مشکل سے ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ بے روز گار ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ وہ ہر حال میں جلسہ سالانہ پر جائیں گے۔ اگر نوکری جاتی ہے تو جائے، مَیں تو خلیفۃ المسیح سے ملاقات کے لئے ضرور جاؤں گا۔ الحمد للہ انہوں نے جلسہ میں شرکت کی اور پھر جو دستی بیعت تھی اُس میں بھی شامل ہوئے۔
پھر مالی سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہماری ریجن کے ایک نومبائع آدم کلو بالی صاحب ایک کمپنی میں ملازم ہیں۔ ایک دن انہیں خدام الاحمدیہ کی میٹنگ کے لئے بلایا گیا۔ عین اُسی وقت اُن کی کمپنی کی بھی بہت اہم میٹنگ تھی اور اس میٹنگ کی نوعیت اس قسم کی تھی کہ اگر وہ اس میں شامل نہ ہوتے تو نوکری سے بھی نکالا جا سکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ کئے بغیر جماعتی میٹنگ میں شامل ہوئے اور جماعتی میٹنگ کے اختتام پر جب وہ کمپنی کی میٹنگ کیلئے گئے تو اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور یہی گمان تھا کہ کمپنی کا مالک بہت سخت ناراض ہو گا۔ مگر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے اس خادمِ احمدیت پر بجائے ناراض ہونے کے اُن کا مالک اُن کے کام سے بہت خوش ہوا اور انعام کے طور پر اُن کو ایک موٹر سائیکل بھی دی۔ اس نومبائع کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ یہ انعام انہیں احمدیت کی برکت کی وجہ سے ملا ہے۔ پس ان کا اخلاص ہے کہ دین کو دنیا پرمقدم رکھنے کا انہوں نے عہدنبھایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی پھر ان کو نوازا۔
یہاں بھی مجھے جلسہ پر بعض لوگ ملے ہیں ایک دو کو تو میں جانتا ہوں جو فجی کے تھے۔ نئی نئی نوکریاں تھی لیکن چھوڑ کے آگئے اور جلسہ میں شامل ہوئے لیکن بہت سے ایسے بھی یہاں ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کی وجہ سے یا کسی وجہ سے، حالانکہ نوکری کا مسئلہ نہیں تھا، جلسہ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ جبکہ اُن کو چاہئے تھا کہ جلسہ میں ضرور شامل ہوتے۔
پھر ایک دور دراز ملک کے رہنے والے کے اخلاص کی ایک اور مثال دیکھیں کہ دین کا علم حاصل کرنے کی اُن میں کیا تڑپ تھی؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر کیسا فضل فرمایا۔ آئیوری کوسٹ سے عمر سنگارے صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے قبولیتِ دعا اور امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے بہت سے نشانات دکھائے اور ہر روز دکھا رہا ہے جس سے میرے ایمان میں ترقی ہو رہی ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ناں کہ میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ کے ایام قریب تھے اور میری مالی حالت ایسی تھی کہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے زادِ راہ پاس نہیں تھا۔ کرایہ وغیرہ نہیں تھا۔ میں نے دعا کی کہ اے اللہ! تیرے مہدی سچے ہیں اور مجھے اُن کے قائم کردہ جلسہ میں جانا ہے۔ اُن کی صداقت کے نشان کے طورپر اپنی جناب سے میرے لئے زادِ راہ مہیا فرما۔ یہ دعا کی انہوں نے۔ اب ان لوگوں کو دیکھیں جنہیں جلسہ کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ اور ہر ایک اپنا بھی جائزہ لے۔ کہتے ہیں اگلے روز ایک غیر از جماعت دوست نے مجھ سے جلسہ پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مَیں نے جلسہ پر جانے والے قافلہ کی انتظامیہ کو اپنا اور اُس دوست کا نام لکھوا دیا۔ جلسہ پر جانے میں دو روز رہ گئے تھے لیکن ابھی جلسہ پر جانے کا کوئی انتظام نہ ہوا تھا۔ کرایہ پاس نہ تھا۔ کہتے ہیں مَیں نے دعا جاری رکھی۔ اسی دوران مجھے قریبی ایک گاؤں میں جانا پڑ گیا۔ وہاں ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میں تو کل سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں اور اُس نے میرے ہاتھ میں بیس ہزار فرانک تھما دئیے اور یہ کہا کہ یہ آپ کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس دوسرے شخص کے دل میں ڈالا کہ تم اُس کو پیسے دو۔ کہتے ہیں مَیں نے رقم لے کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس رقم سے میں نے سولہ ہزار فرانک دو افراد کا کرایہ ادا کر دیا اور چار ہزار سفر کے لئے رکھ لیا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل یقینا اُن کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جیسا کہ انہوں نے خود بھی لکھا ہے۔ بیعت کے بعد وہ تبدیلی پیدا ہوئی جس نے دنیا کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے پر اُن کو مائل کیا۔ کسی انسان کے پاس نہیں گئے بلکہ دعا میں لگے رہے کہ اللہ تعالیٰ انتظام کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول بھی کی اور اُن کی خواہش کو پورا فرمایا۔
پس ایسے ایسے ایمان سے پُر لوگوں کے دل میں کس طرح شبہات پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ احمدیت جھوٹی ہے یا خدا تعالیٰ کا کوئی وجودنہیں ہے۔ یقینا یہ لوگ ایمان میں مزید پختہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور یہی باتیں جب اپنی نسلوں کو بتائیں گے تو اُن کے ایمان میں ترقی ہو گی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیوں کو فرمایا کہ پاک تبدیلیاں پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں پر عمل کرو تو تبھی تمہارے ایمان کا صحیح پتہ لگے گا۔
اب یورپ میں رہنے والی ایک لڑکی کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس کو اپنے ایمان کو سلامت رکھنے کی کوشش میں کامیابی عطا فرمائی اور انعامات سے نوازا۔
سوئٹزرلینڈ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ جماعت کی ایک نوجوان بچی تھی جو پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اُس کے لئے اُسے دو دن کالج جانا پڑتا تھا جبکہ ہفتے میں تین دن ایک فرم میں کام سیکھنا ہوتا تھا۔ وہ بچی اس فرم میں اکیلی مسلمان تھی۔ فرم نے اُسے نماز پڑھنے کی سہولت مہیا کی ہوئی تھی۔ جب اُس نے اس فرم میں کورس شروع کیا تو اچانک فرم کو غیر معمولی منافع ہونے لگا اور فرم کو نئے گاہک ملنے لگے۔ نہایت مختصر عرصے میں فرم کی دو نئی بلڈنگز اور کئی نئے ورکرز ہائر (Hire) کرنا پڑے۔ جس کالج میں بچی جاتی تھی، وہاں سپورٹس کا ایک پیریڈ ہوتا تھا اور سوئمنگ سپورٹس کا ایک حصہ تھی۔ بچی کو سپورٹس کے پیریڈ میں سوئمنگ میں حصہ لینے کے لئے زور دیا گیا۔ بچی نے انکار کر دیا کہ لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ مَیں نہیں کر سکتی۔ ہاں علیحدہ ہو تو اور بات ہے۔ کالج کی انتظامیہ کی طرف سے پھر دباؤ پڑا۔ لیکن اس نے مطالبہ نہیں مانا، ردّ کر دیا۔ سکول نے اُس فرم میں شکایت کی۔ فرم کی طرف سے بھی بچی کو دباؤ پڑا کہ یہ کالج کی تعلیم کا حصہ ہے اور اگر تم نہیں کرو گی تو نوکری سے نکال دیں گے۔ لیکن بچی جو تھی اپنے ایمان پر قائم رہی اور اُس نے کہا ٹھیک ہے جو مرضی کرو، لڑکوں کے ساتھ میں سوئمنگ نہیں کر سکتی۔ بہر حال ان کا رویہ سخت ہوتا گیا اور بچی نے خود ہی تنگ آ کر فرم کو نوٹس بھیج دیا اور اپنا کورس جاری نہیں رکھ سکی۔ فرم کو چھوڑ کر اس نے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لے لیا اور جب اس نے فرم چھوڑی تو اللہ تعالیٰ نے بھی عجیب قدرت کا نمونہ دکھایا کہ فرم کو جو فائدہ ہونا شروع ہوا تھا وہ نقصان ہونے لگا اور کام آہستہ آہستہ بالکل ختم ہوتا چلا گیا۔ لوگوں کو فارغ کرنا پڑا۔ آخر جب اس نقصان کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے میٹنگ بلائی گئی تو فرم کے ایم ڈی نے برملا اس بات کا اقرار کیا کہ ان کو کسی معصوم کی بددعا لگی ہے۔ اس فرم میں سے کسی نے اس بچی کو اس بارے میں ای میل کے ذریعہ بتایا اور لکھا کہ جب تم نے ہماری فرم کو چھوڑا تو چند دن تک تو تم ہماری فرم میں لوگوں کی گفتگو کا موضوع رہی اور پھر اس کے بعد کبھی تمہارا ذکر نہیں ہوا۔ اب جب سے ایم ڈی نے یہ کہا ہے کہ ہماری فرم کو کسی معصوم کی بددعا لگی ہے تو تم پھر گفتگو کا موضوع بن گئی ہو اور سب کا یہی خیال ہے کہ وہ معصوم تم ہی ہو جس کے ساتھ فرم نے زیادتی کی تھی۔ وہ عورت جو اس کی مینیجر تھی، جس نے بچی کو بہت زیادہ تنگ کیا تھا، اُس کو فرم نے اُس عہدے سے برطرف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہ بچی پرائیویٹ کالج میں پڑھی اور اچھے نمبروں سے پاس ہو ئی اور اپنا کورس مکمل کر لیا، اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس نے خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا۔ سب کچھ جو دنیاوی خواہش تھی اُس کی، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دی۔ پس ہماری بچیوں کے لئے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھیں تو اللہ تعالیٰ فضل فرماتا رہتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہاں کی ہر چیز کو اپنایا جائے کہ جو کسی نے کہہ دیا اُس پر عمل کرنا ہے۔ نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے جو ان کی اچھائیاں ہیں، وہ لیں۔ جو ان کی برائیاں ہیں، اُن سے بچنے کی کوشش کریں۔ سوئمنگ کرنا بچوں کے لئے، لڑکیوں کے لئے منع نہیں ہے، ضرور کریں لیکن لڑکیاں لڑکیوں میں سوئمنگ کریں اور یہ اچھی بات ہے تیراکی تو ہر ایک کو آنی چاہئے۔ یہ جو آجکل سوئمنگ کی تربیت دینے کا زور پڑ گیا ہے۔ ہماری دادی مجھے بتایا کرتی تھیں کہ اُس زمانے میں جب سوئمنگ پول تو نہیں ہوتے تھے، نہروں پر جا کر سوئمنگ کی جاتی تھی اور وہ بڑی اچھی تیراک تھیں۔ سوسال سے زیادہ پرانی بات ہے، اُس وقت بھی تیراکی کیا کرتی تھیں اور بڑی اچھی اَپ سٹریم (up stream) تیرا کرتی تھیں۔ تو ہماری عورتیں بھی تیرتی ہیں اور تیرنا آنا چاہئے، سوئمنگ کرنی چاہئے لیکن ایسا انتظام یہاں انتظامیہ سے رابطہ کر کے کروائیں کہ لڑکیوں کے وقت میں صرف لڑکیاں ہوں اور یہ ہو جاتا ہے۔ یورپ میں مَیں نے کئی جگہ اس طرح دیکھا ہے جب کوشش کی تو ہو گیا۔
ایک مخلص دوست سعید کاکو صاحب کو غانا میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا جو اس وقت ہائی کورٹ کے ہمارے ایک جج ہیں، ان کو اپیل کورٹ کا جج بنایا گیا ہے۔ غانا بار ایسوسی ایشن نے ان کے اعزاز میں ایک سائٹیشن (citation)پیش کی۔ اس میں لکھا کہ اگرچہ آپ انسان ہیں جس سے غلطی ہونا لازمی ہے مگر آپ نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی۔ فیصلہ کرنے کے بعد آپ شکریہ کا تحفہ لینا بھی پسندنہیں کرتے۔ آپ کی شخصیت میں کرپشن کا مادّہ ہرگز نہیں پایا جاتا۔ غانا بار ایسوسی ایشن نے آپ کو ایماندار، محنتی اور اِنکرپٹ ایبل (incorruptible) جج یعنی ایسا جج جو کرپٹ نہیں کیا جا سکتا، قرار دیا ہے۔ یہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر اور اس کی حقیقت کو سمجھنے والوں میں آتا ہے۔ اب پاکستان میں جج دیکھیں، ایک فیصلہ کرتے ہیں، اُس کے بعد مولویوں سے ڈر کے اُسے بدل دیتے ہیں۔ کئی فیصلے جماعت کے حق میں ایسے ہوئے، ہائی کورٹ نے، سپریم کورٹ نے مظلوموں کے حق میں فیصلہ کیا اور پھر بدل دیا۔ پس یہ اعزاز بھی آج جماعت احمدیہ کو حاصل ہے اور ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ یہ اعزاز حاصل رہے کہ کوئی اُن پر انگلی نہ اُٹھا سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شرائطِ بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اپنی خداداد صلاحتیوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچاؤ۔ غیروں کی طرف سے اس کا اظہار کس طرح ہوتا ہے، اس کا مَیں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں۔ صدرِ مملکت سیرالیون نے جماعت احمدیہ سیرالیون کے باونویں (52) جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ میں جماعت احمدیہ ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کے ایک اہم پروگرام میں حاضر ہوں۔ میں یہاں جماعت احمدیہ کی ملک و قوم کی ترقی کے لئے خدمات کی قدردانی کرنے اور خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے آیا ہوں اور بحیثیت صدرِ مملکت یہ بھی بتانے آیا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی گورنمنٹ اور سیرالیون کی عوام کے دل میں کتنی عزت اور احترام ہے۔ جماعت احمدیہ کا ماٹو Love for all اور Hatred for none ہے جس کا جماعت احمدیہ کئی سالوں سے صرف زبان سے ہی دعویٰ نہیں کر رہی بلکہ اس کی عملی تصویر بھی دکھا رہی ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کا میرے لوگوں سے پیار ہی تو ہے کہ عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ملک کے ہر کونے میں سکول کھول رکھے ہیں اور بلا امتیاز ملت و مذہب ہمارے لوگ جماعت کے سکولوں سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ اور Hatred for none کا یہ عملی نمونہ ہے کہ جماعت نے لوگوں کی صحت کی حفاظت کے لئے ہسپتال کھول رہے ہیں اور ہر قسم کے لوگ بلا امتیاز ہسپتالوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ جماعت کے وسیع حوصلے کا ثبوت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو آپ کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے اور ان مقاصد میں آپ کی معاونت کرنی چاہئے۔ مَیں بحیثیت صدرِ مملکت یہاں آیا ہوں کہ آپ کی ان خدمات پر مبارکباد پیش کر سکوں اور بتا سکوں کہ آپ کی دیرینہ خدمات پر مَیں اور میرے ملک کے لوگ خوش ہیں اور ہم جماعت احمدیہ کے ممنون ہیں۔ اب عربوں میں سے تیل کے پیسے والے تو یہاں آئے نہیں لیکن جماعت کا جب یہ اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اس کو دیکھ کر اب بعض حکومتوں کے نمائندے وہاں جانے شروع ہوئے ہیں کہ ہم تمہارے لئے سکول بھی کھولیں گے اور ہسپتال بھی کھولیں گے اور کالج بھی کھولیں گے اور پھر مدد بھی دیں گے۔ بہر حال اللہ کرے کہ ان لوگوں کی انصاف کی آنکھ جو ہے وہ کھلی رہے اور کبھی بے انصافی نہ کریں۔ پھر قال اللہ اور قال الرسول پر عمل کرنے کے اظہارپر غیروں کی طرف سے تبصرہ اس طرح ہے۔ سیرالیون پیپلز پارٹی کے سابق نیشنل چیئرمین الحاج نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کے باونویں جلسہ سالانہ کے انعقاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں جلسہ سالانہ یوکے میں بھی کافی دفعہ شرکت کر چکا ہوں۔ اور وہاں لوگوں کی اعلیٰ کوالٹیز (qualities) اور اسلامی تعلیمات پر کاربند ہونے سے بھی آگاہ ہوں۔ ان باتوں سے جو میں نے اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا مستقبل جماعت احمدیہ ہی کے ذریعہ روشن ہو گا اور اس بات کا ثبوت ہم دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہو سکتے تو اپنی کم علمی کی وجہ سے جماعت کی ترقی اور تعلیمات کے بارے میں اپنے غلط خیالات کا اظہار تو نہ کریں۔ اس جلسہ کا تھیم (Theme) اور جلسہ گاہ میں لگائے ہوئے پوسٹرز کو دیکھیں تو ان عبارات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے ہی افراد ہیں۔ مَیں اس بات کا برملا اظہار کروں گا کہ جو بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہو گا وہ اس بات کا اظہار کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ اسلام کا روشن مستقبل صرف جماعت احمدیہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔
پس یہ ہے حسن جماعت احمدیہ کا اور یہ ہونا چاہئے کہ غیر بھی اقرار کریں کہ حقیقی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے کی کوشش احمدی کرتے ہیں۔ سپین سے عائشہ بوترساس صاحبہ کہتی ہیں، مجھے انہوں نے خط لکھا ہے کہ مَیں اپنے احمدی خاوند کے ساتھ اپنے سسرال کے ساتھ رہتی ہوں جو سب غیر احمدی ہیں۔ وہ آپس میں بیٹھے ہوئے مجلس میں جب چغلی کرتے ہیں تو مجھے بڑا دُکھ ہوتا ہے اور میں اُن میں بیٹھنا پسندنہیں کرتی۔ اسی طرح جب سے میں نے بیعت کی ہے، مردوں سے ہاتھ ملانا چھوڑ دیا ہے اور غیر مردوں کی مجلس میں بیٹھنا بھی ترک کر دیا ہے۔ یہ بات اُنہیں بری لگتی ہے اور مجھ سے ناروا سلوک کرتے ہیں اور حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں مردوں سے مصافحہ کی مناہی ہو۔ ہم دونوں میاں بیوی ان حالات میں صبر سے گزارہ کر رہے ہیں۔ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنا الگ مکان عطا فرمائے جہاں آزادی سے امام الزمان علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کر سکیں۔ پس یہ تبدیلی ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہو رہی ہے۔ اب کسی احمدی کو، کسی لڑکی کو کسی بات میں کوکمپلیکس (complex) میں نہیں آنا چاہئے کہ مَردوں میں بعض دفعہ ہمیں سلام کرنا پڑ جاتا ہے۔ کوئی ضرورت نہیں سلام کرنے کی۔ جب مَردوں سے ہاتھ ملانامنع ہے تو اُس کی پابندی ہونی چاہئے۔ اسی طرح مَردوں کو بھی کوشش یہی کرنی چاہئے کہ عورتوں سے ہاتھ نہ ملائیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے تو پھر ہر چھوٹے سے چھوٹے حکم پر بھی، جو بظاہر چھوٹا لگے، عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر گوداوری جگہ کے ایک مبلغ صاحب لکھتے ہیں، یہ غالباً انڈیا کے ہیں۔ جماعت احمدیہ چٹیالہ میں غیر احمدی علماء اور چند شرپسندوں نے مشن ہاؤس پر حملہ کیا اور مسجد پر قبضہ کر لیا جس کو جماعت احمدیہ نے آباد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسجد میں امامت ہم کریں گے، لیکن آپ لوگ مسجد میں آ کر نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے احباب کے دل میں سلسلہ کے لئے ایسی غیرت رکھی ہے کہ کسی بھی فردنے اُن کا مقتدی ہونا پسندنہیں کیا۔ اور ہر ایک نے اُن کے پیچھے نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا اور احمدیت پر ثابت قدم رہے۔ پس یہ ایک مثال ہے دینی غیرت کی کہ ایسے لوگ جو زمانے کے امام کو نہیں مانتے، اُس امام کو نہیں مانتے جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا ہے تو پھر ایسے شخص کے پیچھے ہم کس طرح نماز پڑھ لیں۔ ایسے شخص کو کس طرح امام بنا لیں جو زمانے کے امام کا انکاری ہو۔ ہم نے بندوں کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ اور اس بارے میں بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور جنہوں نے پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں اور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک بیعت کا حق ادا کرنے والا بن جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درد کو جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے آپ علیہ السلام کے دل میں تھا، اُسے سمجھنے والا ہمیں بنا دے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں خوب جانتا ہوں کہ ان باتوں کا کسی کے دل میں پہنچا دینا میرا کام نہیں اور نہ ہی میرے پاس کوئی ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ سے میں اپنی بات کسی کے دل میں بٹھا دوں‘‘۔ پھر فرماتے ہیں: ’’ہزارہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص میں تو بڑی ترقی کی ہے، مگر بعض اوقات پرانی عادات یا بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافر حصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ایسے لوگ ہیں جو محبت اور اخلاص میں بہت بڑھے ہوئے ہیں، لیکن بعض کمزوریاں دکھا جاتے ہیں۔ اُن کمزوریوں کو بھی دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرمایا: ’’ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہو جاویں کہ دین کے سامنے امور دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں اور قسما قسم کی غفلتیں جو خدا سے دُوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں، وہ دور ہو جاویں۔ جب تک یہ بات پیدا نہ ہو، اُس وقت تک حالت خطرناک ہے اور قابلِ اطمینان نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس ہمیں خاص طور پر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے، اپنی حالتوں کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری نیکیوں کے معیار اُس سطح تک بلند ہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت کا تذکرہ اور بعض نو مبایعین کی پاک تبدیلی پیدا کرنے اور شرائط بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیاروں سے تعلقات محبت میں بڑھنے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے، اخلاص و فدائیت، مالی قربانی، غیرت دینی اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے پاکیزہ نمونوں کا ایمان افروز بیان اور احباب جماعت کو اس حوالہ سے اہم نصائح۔
خوش قسمت ہیں وہ جو بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور جنہوں نے پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں اور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک بیعت کا حق ادا کرنے والا بن جائے۔
فرمودہ مورخہ 11اکتوبر 2013ء بمطابق 11اخاء 1392 ہجری شمسی، بمقام میلبرن، آسٹریلیا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔