مساجد کی تعمیر اور ہماری ذمّہ داریاں

خطبہ جمعہ 25؍ اکتوبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَاَقِیْمُوا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنِ کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُونَ(الاعراف: 30) یٰبَنِیٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الاعراف: 32)

ان آیات کا ترجمہ ہے۔ تُو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو۔ اور دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اسی کو پکارا کرو۔ جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم مرنے کے بعد لوٹو گے۔

پھر فرمایا کہ: اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت یعنی لباسِ تقویٰ ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقینا وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے برِزبن (Brisbane)کے احمدیوں کو توفیق دی یا آسٹریلیا کے احمدیوں کو توفیق دی کہ یہاں اس شہر میں باقاعدہ مسجد کی تعمیر کریں۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے۔ تقریباً پندرہ سال پہلے آپ نے یہ جگہ خریدی تھی۔ اس پر مشن ہاؤس اور ایک ہال بھی بنایا جس میں آپ نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ پھر جب 2006ء مَیں پہلی دفعہ میں آیا ہوں تو ان عمارتوں کے ہونے کے باوجود وہ رونق مجھے نہیں لگتی تھی جو اب باقاعدہ مسجد بننے سے نظر آتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت پر احسان ہے کہ جماعت اور خلافت کا ایک ایسا رشتہ قائم کیا ہے جو دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ دراصل اُس تعلیم اور اُس عہدِ بیعت کا نتیجہ ہے جس پر کاربند ہونے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو تلقین فرمائی تھی۔ اس محبت و اخوت و اطاعت کے رشتہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرائطِ بیعت میں ذکر فرمایا ہے اور یہی محبت اور اخوت اور اطاعت کا رشتہ پھر آگے آپ علیہ السلام کے جاری نظامِ خلافت کے ساتھ بھی جاری ہے۔ اس مسجد کی تعمیر بھی علاوہ اس بات کے کہ مساجد ہماری ضرورت ہیں اور جیسے جیسے جماعت پھیلتی جائے گی، مساجد بھی انشاء اللہ تعالیٰ بنتی چلی جائیں گی اور بن رہی ہیں، لیکن یہاں جو میں نے خلافت کی بات کی، یہ اس لئے کہ مساجد کی تعمیر خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے بھی دنیا میں ہو رہی ہے۔ عموماً دنیا میں ہر جگہ میں جماعتوں کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ مساجد کی تعمیر کریں، کیونکہ یہ تبلیغ کا ذریعہ ہیں۔ اور حقیقت میں یہ بات سچ بھی ثابت ہو رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا یہاں بھی جب مَیں 2006ء میں آیا تھا تو مَیں نے کہا تھا کہ نماز سینٹر اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن مسجد بھی یہاں باقاعدہ مسجد کی شکل میں تعمیر ہونی چاہئے۔ تو جماعت نے لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کی تعمیر کر دی۔

آپ لوگوں کو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جو مختلف روکوں سے گزرنا پڑا، مختلف فیزز(Phases) آئے، اس سے خود آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مسجد کا تصور مقامی لوگوں کے ذہنوں میں کتنا مختلف ہے۔ یہاں سینٹر قائم تھا، لوگ نمازیں پڑھنے کے لئے آتے تھے۔ باقی جماعتی activities بھی ہوتی ہوں گی لیکن جب مسجد کے لئے منصوبہ منظوری کے لئے دیا گیا تو ہمسایوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مجھے جو رپورٹ ملی ہے اُس کے مطابق آٹھ نو مہینوں کی کوششوں کے بعد کونسل کی طرف سے اجازت مل گئی اور یوں اس سٹیٹ کوئنز لینڈ (Queensland) میں جماعت احمدیہ کی پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا جو دسمبر 2012ء کے بعد شروع ہوا اور آج آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبصورت مسجد ہے۔

جو اعداد و شمار میرے پاس آئے ہیں اُس کے مطابق اس مسجد کی تعمیر پر اور پہلی عمارتوں کی درستی وغیرہ پر ساڑھے چار ملین ڈالر خرچ کئے گئے اور افرادِ جماعت نے دل کھول کر قربانیاں دیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک دوست نے ایک لاکھ پچیس ہزار ڈالر دئیے۔ ایک نے ایک لاکھ ڈالر دئیے اور ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق قربانیاں دیں بلکہ شاید اس سے بڑھ کر قربانیاں دیں۔ خواتین نے جیسا کہ جماعت احمدیہ کی خواتین کی روایت ہے، یہاں بھی اپنے زیور مسجد کے لئے پیش کئے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کو بے انتہا دے، ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قربانی، یہ محبت و اخلاص کی روح، یہ اطاعت کے نمونے ایک احمدی کے اندر کسی وقتی جذبہ کے تحت نہیں ہوتے، نہ ہونے چاہئیں، بلکہ ہمیشہ جاری رہنے والے نمونے اور جذبے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ اور پھر اپنے اندر ہی جاری رکھنے والے جذبے نہیں ہیں بلکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کو منتقل کرتے چلے جانے والے جذبے ہیں۔ اور یہی ایک احمدی کی، حقیقی احمدی کی روح ہے اور ہونی چاہئے۔ اور یہ جذبے اُسی وقت جاری رہ سکتے ہیں جب ہم خدا تعالیٰ کے حکموں پر توجہ دینے والے ہوں۔ جب ہم اپنے خدا سے سچا تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔ جب ہم مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ پس ہم اُس وقت اس مسجد کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں اور بنیں گے جب ہم ان باتوں کا خیال رکھیں گے، ان کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے۔

پس آج اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان میں سے بعض حکموں کو مَیں آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ ہم اور ہماری نسلیں یہ حق ادا کرتی چلی جانے والی بن جائیں۔ یہ جو آیات شروع میں مَیں نے تلاوت کی ہیں، سورۃ اعراف کی آیات 30 اور 32 ہیں اور مسجد سے متعلق ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے ایک مومن سے بعض توقعات رکھی ہیں بلکہ مومنین کو نصیحت کی ہے کہ مسجد سے منسلک ہونے والے اور حقیقی عبادت گزار ان باتوں کا خیال رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ان پر پڑے گی۔

پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کا حکم دیا ہے اور انصاف ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے کی بنیادی اکائی، جو گھر ہے، اس سے شروع ہو کر بین الاقوامی معاملات تک قائم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے قائم ہونے سے دنیا کا امن و سکون ہر سطح پر قائم ہو سکتا ہے۔ اور یہی چیز ہے جس کا حق ادا نہ کرنے کی صورت میں دنیا میں فتنہ و فساد پیدا ہو سکتا ہے اور ہوتاہے۔ پھر انصاف صرف معاشرتی معاملات میں نہیں اور بندوں کے ساتھ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا حق ادا کرنا، یہ بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ عبادت کا حق ادا کرنا جس طرح کہ اُس کا حکم ہے، یہ عبادت کے ساتھ انصاف ہے۔ اور اس انصاف کا فائدہ خود انسان کو، عبادت کرنے والے کو اپنی ذات کے لئے ہو رہا ہوتا ہے۔ پس ہر حقیقی مومن کو اپنے عبادت کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ حق ادا ہو گا جب آپ سب اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت کریں گے۔ جب قیامِ نماز کی طرف توجہ ہو گی۔ جب ان نمازوں کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو گی۔ جب نمازوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق بھی حق ادا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی۔ مخلوق کے جو حق ہیں، مثلاً خاوند کو حکم ہے کہ بیوی کے حق ادا کرو۔ اُن کی ضروریات کا خیال رکھو۔ ان سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آؤ۔ اُن کے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ بیوی کے ماں باپ اور بہن بھائی اور دوسرے رشتوں کا احترام کرو۔ بیویوں کے مال پر اور اُن کی کمائی پر نظر نہ رکھو۔ بچوں کے حق ادا کرو، اُن کی تعلیم تربیت کی طرف توجہ کرو۔ اپنے نمونے دکھاؤ کہ وہ دین کی اہمیت کو سمجھیں اور دین سے جُڑے رہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں لڑکے اُس وقت خاص طور پر جب تیرہ چودہ سال کے ہو جائیں عموماً دین کا احترام کرتے ہیں جب وہ دیکھیں کہ اُن کا باپ بھی دین کا احترام کرنے والا ہے۔ اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والا ہے۔ نمازوں کا پابند ہے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کا پابند ہے۔

مَیں نے دیکھا ہے کہ عموماً ماؤں کو اپنے بچوں کی دین کی زیادہ فکر ہوتی ہے یا کم از کم اظہار ضرور میرے سامنے ہوتا ہے۔ دعا کے لئے کہتی ہیں۔ اسی طرح ہر عورت جو ہے، ہر بیوی جو ہے، اُن کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے انصاف کرنا ہوگا۔ اپنے گھر کے فرائض ادا کریں۔ سب سے پہلی ذمہ داری عورت کی گھر کی ذمہ داری ہے، اس کو سنبھالنا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ خاوند کے احترام کے ساتھ اُس کے رحمی رشتہ داروں کا بھی احترام کریں۔ بچوں کی تربیت اور نگرانی کریں۔ اس ماحول میں خاص طور پر بچوں کی تربیت کی ماں باپ کو بہت فکر ہونی چاہئے اور توجہ کی ضرورت ہے۔ اور یہ دینی تربیت ماں اور باپ دونوں کا کام ہے۔ بچوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ تم احمدی مسلمان ہو، اور اس کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو احمدی مسلمان ثابت کرنا ہوگا۔ یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ تمہاری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ سب سے پہلے ماں باپ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا۔ بچوں کو یہ بتانا ہوگا کہ تم میں اور دوسروں میں ایک فرق ہونا چاہئے۔ بچوں کی جب اس نہج پر تربیت ہوگی تو تبھی بچے دین سے جُڑے رہیں گے۔ اور یہی چیز ہے جو بچوں کا حق انصاف سے ادا کرنے والی بناتی ہے۔ اگر ماں باپ اپنے عملی نمونے نہیں دکھا رہے، اگر بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہیں ہے تو پھر انصاف نہیں کر رہے۔

پھر معاشرے کے عمومی تعلقات ہیں۔ یہاں بھی ہر مرد اور عورت جو اپنے آپ کو مومنین میں شمار کرتا ہے یا کروانا چاہتا ہے، اُس کا یہ فرض ہے کہ ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ کاروباری معاملات ہیں یا کسی بھی قسم کے معاملات ہیں، عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جماعت کو ایک وجود بنایا ہے۔ پس ایک وجود کا معیار اُس وقت قائم ہو سکتا ہے جب دوسرے کی تکلیف کا احساس ہو، اُس کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو۔ جب انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ جس طرح جسم کے کسی حصہ کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے، اسی طرح دوسرے کی تکلیف کا احساس ہمیں ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ دوسرے کی تکلیف کا احساس کرو اور یہ ہم جب دنیا کو بتاتے ہیں کہ انصاف اس طرح قائم ہوتا ہے، جب باتیں سناتے ہیں کہ یہ انصاف کس طرح قائم ہونا چاہئے، اسلام کیا کہتا ہے اور دنیا والے یہ باتیں سن کر بڑے متاثر ہوتے ہیں تو اس کے نیک نمونے بھی ہمیں دکھانے ہوں گے۔ یہ بتانا ہو گا کہ یہ پرانی تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ حقیقی مومنین کا موجودہ عمل بھی ہے۔

پرسوں یہاں غیروں کے ساتھ، مقامی آسٹریلین باشندوں کے ساتھ مسجد کی افتتاحی تقریب ہوئی تھی تو جو باتیں میں نے کیں وہ اس بات کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھیں کہ اگر انسانوں کے حقوق کی ادائیگی میں انصاف نہیں اور اس کا باریکی سے احساس نہیں تو عبادتیں بھی ہیچ ہیں، بے فائدہ ہیں۔ اور اگر یہ ادائیگی ہو رہی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہر عمل عبادت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والی عبادت کے حسن کو مزیدنکھار دیتا ہے۔ پس وہ مسلمان جس کے نزدیک نمازوں کی بڑی اہمیت ہے، عبادت کی بڑی اہمیت ہے، وہ اس تلاش میں بھی ہمیشہ رہے گا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ بھی انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے والے تعلقات رکھوں۔ اور ایک احمدی اس حکمت کی بات کو سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے اور جانتا ہے۔ کیونکہ اُس نے زمانے کے امام کو قبول کیا ہے، زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ سکے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر سکے، تا کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچان سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’نوعِ انسان پر شفقت اور اُس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ438 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو جہاں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے، وہاں خدا تعالیٰ کا قرب بھی دلاتی ہے۔ اور جب انسان مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حق خالص ہو کر ادا کرنے کے لئے مسجد میں جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں آ جاتا ہے۔ پھر عبادت کا حقیقی لطف بھی حاصل ہوتا ہے۔ پھر ایک مومن کی اس عمل پر حکم کرنے کی کوشش کہ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ یعنی اور تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھو، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بھی بنائے گی۔ اُن لوگوں میں شامل کرے گی جو یہ مقام حاصل کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری ہر کوشش پر اللہ تعالیٰ کا ایک فعل بھی ہوتا ہے۔ اور ہم کسی نیکی کو اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فعل ہمارے کسی عمل کے ساتھ شامل نہ ہو اور اس کے شامل ہو کر ہمیں نیکی کے اعلیٰ نتائج حاصل کرنے والا نہ بنائے تو وہ ہم نیکی حاصل ہی نہیں کر سکتے۔

پس ہماری نیک خواہشات اور ہمارے ہر معاملے میں نیک عمل کی کوشش وہی ہے جو ہماری توجہات اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھنے والا بنائے گی اور اس کے ساتھ جب عبادتیں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی کرے تو پھر وہ حقیقی عبادت بن جاتی ہے اور ہم اس قابل ہوں گے کہ پھر اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کا گروہ ہے۔ اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو دین کو اُس کے لئے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسے پکارتے ہیں اور جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ کا یہ روشن پیغام راستے دکھا رہا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ: 187) کہ جب دعا کرنے والے مجھے پکارتے ہیں تو میں اُن کی دعا قبول کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ21ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس انسان کا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنا اُس وقت کہلاتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی تمام قسم کی حدود کا بھی خیال رکھے۔ اور ان حدود کا پتہ چلتا ہے جب ہم قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اُس میں سے خدا تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے اُن کو نکالتے ہیں۔ یہ احکامات ہی وہ حدود ہیں جن کے اندر رہ کر انسان پھر خدا تعالیٰ کا قرب پاتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت ساتھ لے جایا کرو۔ ایک مومن کی زینت اُس کا تقویٰ کا لباس ہے۔ پس یہاں اُن حدود کی مزید وضاحت ہو گئی جو ایک مومن کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط وخال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عَہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، اُن کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا۔ اور ناجائز مواضع سے روکنا اور اُن کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا‘‘۔ اور اس سے ہوشیار رہنا۔ ان اعضاء کے پوشیدہ حملے کیا ہوں گے؟ ان کے پوشیدہ حملے یہ ہیں کہ شیطان ان کے غلط استعمال کی طرف ورغلاتا ہے۔ فرمایا: ’’اور اس کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التّقْویٰ، قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کاربند ہوجائے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 ایڈیشن 2003ء صفحہ 219-210) یعنی کہ باریک سے باریک پہلو جو ہیں اُن کے متعلق بھی حتی الوسع کوشش کرے کہ اُن پر کاربند رہنا ہے، اُن پر عمل کرنا ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید وضاحت فرمادی ہے کہ پہلے اپنی امانتوں کا خیال رکھنا ہے اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنا ہے۔ ایک احمدی کے سپرد وہ امانت ہے جو ادا کرنے کا خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اُس نے عہد کیا ہے اور وہ ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنا۔ اگر اس امانت کی حفاظت اور اس کی ادائیگی ہم کرتے رہیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری عبادتیں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی رہیں گی۔ دعاؤں کی قبولیت کے نشان ہم دیکھنے والے ہوں گے، انشاء اللہ۔ ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تلاش میں اُٹھنے والا ہو گا۔ ہمارا مسجد میں آنا خالصۃً لِلّٰہ ہو گا۔ مسجد کی تعمیر کے بعد اب جو لوگوں کی اس طرف توجہ ہو گی، اس کا حق ادا کرنے کے لئے بھی ہم ہوں گے۔

پس مسجد کے بننے پر اس بات پر راضی نہ ہو جائیں کہ ہم نے مسجد بنا لی۔ اب مسجد بننے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسجد میں اُس کی زینت کے ساتھ جاؤ۔ جس کا حسن تقویٰ سے نکھرتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے بتایا کہ تقویٰ اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کئے جا رہے ہوں۔ جب اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی کوشش ہو، جب اپنی نمازوں کی بھی حفاظت ہو، جب مسجد کے تقدس کا بھی خیال ہو۔

بہت سے لوگ جو دعا کے لئے کہتے ہیں۔ یہاں بھی بعض ملاقاتوں کے دوران ملتے ہیں، تو کہتے ہیں تو اُن میں سے بعض کے چہروں سے پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ ایک رسمی بات ہے یا کم از کم خود جو بات کہہ رہے ہیں اُس پر عمل نہیں کر رہے۔ خود اُن کی دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ جب بھی مَیں نے اُن سے پوچھا یا پوچھتا ہوں کہ تم خود بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہو؟ تو ٹال مٹول والا جواب ہوتا ہے۔ یہ جو تصور ہے کہ دعا کے لئے کہہ دو اور خود کچھ نہ کرو، یہ بالکل غلط تصور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اسلام کی نشأۃ ثانیہ ہے۔ نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرنا ہے اور یہ مقصد اُس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک ہم میں سے ہر ایک مرد عورت، جوان اور بوڑھا تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی امانتوں کا حق ادا کرنے والا نہ بنے۔ اپنے عہد کو پورا کرنے والا نہ بنے۔ اگر مجھے دعا کے لئے کہا ہے تو خود بھی تو دعاؤں کی طرف توجہ کریں۔ خود بھی تو نمازوں کی طرف توجہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ایک صحابی کو یہی فرمایا تھا کہ اگر تم وہ مقصد چاہتے ہو اور اُس کے لئے مجھے دعا کے لئے کہہ رہے ہو تو پھر خود بھی تم دعاؤں سے میری مدد کرو اور اپنے عمل سے میری مدد کرو۔ الٰہی جماعتوں کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہر ایک کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے، پہلے بھی میں یہاں کسی خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو اور پیر بنو اور پیر پرست نہ بنو۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 2013ء۔ ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 139۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یعنی ہر ایک اپنا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھے اور پھر مومنین کی جماعت دعاؤں سے ایک دوسرے کی مدد کریں اور اُن کے دوسرے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کریں اور مخلوق کے بھی حق ادا کریں۔ اپنے اخلاق کے وہ معیار قائم کریں جس سے غیروں کی بھی آپ کی طرف توجہ پیدا ہو۔ لیکن یہاں یاد رکھنا چاہئے کہ پیر اور ولی بننے کا یہ مقصدنہیں ہے کہ ہر ایک اپنی اپنی گدی بنا لے گا، بلکہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور یہ بھی اُسی صورت میں پیدا ہو گا جب خلافت کے ساتھ ایک وفا کا تعلق ہو گا اور جماعت کے ساتھ جب جڑے رہیں گے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی جماعت کی ترقی کی پیشگوئی فرمائی ہے اُنہی لوگوں کی ترقی کی پیشگوئی فرمائی ہے جو جماعت کے ساتھ منسلک رہیں گے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم حدیث3992)

پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس مسجد کے بننے سے یہاں رہنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ انہوں نے اس مسجد کو آباد بھی کرنا ہے اور اس مسجد میں اس زینت کو لے کر آنا ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں زینت ہے۔ یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی۔ اور ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی۔ اور علاقے میں حقیقی اسلام کا پیغام بھی پہنچانا ہے۔ یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی۔ اگر یہ حق ادا کرتے رہیں گے تو امید ہے آپ کی مسجد کی تعمیر کے لئے کی گئی مالی قربانیاں اور وقت کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں یقینا مقبول ہوں گی۔ اور اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر کے نظارے آپ دیکھنے والے ہوں گے۔

پس اس سوچ کے ساتھ اس مسجد میں آئیں اور اُسے آباد رکھیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ عبادت کے جذبے سے صبح شام مسجد میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں مہمان نوازی ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل من غدا الی المسجد و من راح حدیث662)۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کا جو درمیانی فاصلہ ہے ایک مومن کے لئے اگر وہ خالص توجہ اللہ تعالیٰ کے لئے رکھتا ہے تو اسی طرح ہے جس طرح سرحد کی حفاظت کے انتظامات کررہا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ حدیث587)۔ شیطان سے حفاظت میں رہتا ہے۔ اور جب اگلی نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوتا ہے تو پھر لباسِ تقویٰ کے ساتھ جاتا ہے جو بہترین زینت ہے۔ پس اس مادی دنیا میں یہ معیار قائم کرنا ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور جب یہ حقیقت ہم سمجھ لیں گے، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے، اس زینت کے ساتھ مسجدوں میں جائیں گے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر انشاء اللہ تعالیٰ حاصل کرتے چلے جائیں گے۔

اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ کہ کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، کیونکہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ کھانے پینے میں اعتدال ہونا چاہئے اور ہر قسم کی حلال اور طیب غذا کھانی چاہئے اور اُس میں بھی اعتدال ہو۔ کیونکہ غذا کا اثر بھی انسان کے خیالات اور جذبات پر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا انسان کو سست اور کاہل بنا دیتا ہے۔ رات کا کھانا زیادہ کھایا ہو تو ایسی گہری نیند آتی ہے کہ انسان صبح فجر کی نماز پہ نہیں اُٹھ سکتا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے اور یہ تو دوسری جگہ قرآنِ شریف میں بھی ہے کہ غیر مومنوں کی نشانی ہے کہ وہ کھانے پینے کی طرف ہی دھیان رکھتے ہیں، جس طرح صرف جانوروں کا یہ کام ہے کہ کھانا اور پینا اُن کا مقصد ہو، جبکہ مومن کا مقصد بہت بالا ہے۔ اور یہ مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام حلال اور طیب چیزیں انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہیں لیکن دنیا کا حصول مقصدنہیں ہونا چاہئے۔ ان سے فائدہ ضرور اُٹھائے لیکن یہی مقصدنہ ہو۔ بلکہ خدا کی رضا کا حصول مقصد ہو اور یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دنیاوی فائدوں کے حصول کے لئے اسراف نہ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ اُن کو سر پر سوار نہ کیا جائے، اُن کو عبادتوں میں روک نہ بننے دیا جائے۔ اگر یہ دنیاوی اَکل و شرب، کھانا پینا عبادتوں میں روک بن جائے، دنیاوی لذات عبادت پر غالب آ جائیں تو ایسے اسراف کو خدا تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اعتدال کے ساتھ ہر کام ہو تو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ دنیا کمانے سے خدا تعالیٰ نے نہیں روکا، بلکہ اس بات پر توجہ دلائی ہے کہ مومنین کو اپنے کام کرنے چاہئیں اور پوری توجہ سے کرنے چاہئیں اور وہاں بھی انصاف کرنا چاہئے۔ لیکن اگر دنیا کمانا دین کو بھلانے کا باعث بن جائے، نمازوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کا باعث بن جائے تو یہ بات پھر انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دیتی ہے۔ خدا تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایسے اسراف سے بچائے جو خدا تعالیٰ سے دُور کرے۔

یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت کی اکثریت ان ذمہ داریوں کو سمجھنے والی ہے اور جیسا کہ میں نے مالی قربانی کے ذکر میں بتایا تھا، کہ بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے والی ہے۔ اور مالی قربانی کی روح کو سمجھنے والی ہے۔ صرف اپنی ذات پر ہی خرچ نہیں کرتے۔ لیکن جیسا کہ مَیں کئی مرتبہ اس فکر کا اظہار کر چکا ہوں کہ مسجدوں کی آبادی کی طرف بھی اسی جذبے سے مستقل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ مسجد جو آپ نے بنائی ہے بڑی خوبصورت ہے۔ منارہ ہے، گنبد بھی ہے، باہر سے بہت خوبصورت لگتے ہیں۔ مسجد کا جو مسقف حصہ ہے، covered area ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑا ہے۔ اور ہال کا بھی مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں، یہاں ہال بھی ہے۔ پہلا، پرانا ہال ہے، اس کو بھی رینوویٹ (renovate) کر کے بڑا خوبصورت بنا دیا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں ہال ملا کے اب یہاں تقریباً ایک ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے اس وقت آپ شاید پانچ چھ سو کی تعداد میں یہاں ہوں گے، اور اس لحاظ سے بہت گنجائش موجود ہے۔ اور آپ کو یہ مسجد شاید بڑی لگ رہی ہو۔ آج تو سڈنی سے بھی اور باقی جگہوں سے بھی شاید کچھ لوگ آئے ہوں، اس لئے مسجد بھری ہوئی ہے۔ لیکن اگر یہاں کی لوکل آبادی ہو تو شاید مسجد تھوڑی سی خالی بھی نظر آئے۔ بہر حال میری دعا ہے کہ یہ تعداد بڑھے اور مقامی لوگوں سے یہ مسجد بھر جائے اور تھوڑی پڑ جائے۔ لیکن ہماری حقیقی خوشی اُس وقت ہو گی جب پاکستان سے آنے والے احمدیوں سے نہیں بلکہ مقامی باشندوں سے یہ مسجد بھرے اور نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ لیکن یہ خواہش اور یہ کام تبلیغ کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ پس تبلیغ کی کوشش اور اس کے لئے دعا کو بڑھائیں۔ کوشش بھی بڑھنی چاہئے اور دعا کی طرف توجہ بھی ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد جلد چھوٹی پڑجائے اور مزید مسجدیں بنتی چلی جائیں۔ یہ مسجد اس علاقے میں آپ کی انتہا نہیں ہے بلکہ یہ پہلا قدم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ مسجد سے اسلام کا تعارف ہوتا ہے اور لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی ہے اسلام کی طرف۔ (ماخوذاز ملفوظات جلد4صفحہ93 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ کرے کہ مقامی لوگوں میں جلد سے جلد اس طرف توجہ پیدا ہو اور انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ ہو گی۔ دنیا میں جہاں بھی ہماری مساجد بنی ہیں اسلام کا تعارف کئی گنا بڑھا ہے۔ پس پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں کہ اس تعارف کی وجہ سے آپ کی طرف ارد گرد کے لوگوں کی نظر پہلے سے زیادہ گہری پڑے گی۔ آپ جو پاکستان سے آئے ہیں، اس لئے کہ وہاں آزادی سے مسجدوں میں عبادت نہیں کر سکتے تھے، اس لئے آئے ہیں کہ آزادی سے اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، احمدی مسلمان ہونے کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ پس یہاں اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے والے بنیں کہ لوگوں کو اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچائیں۔ آپ کا یعنی اکثریت کا یہاں کسی خوبی کی وجہ سے آنا نہیں ہوا بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا، احمدیت کی پاکستان میں مخالفت کی وجہ سے ہے۔ پس اپنی نسلوں کو بھی یہ احساس دلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر اُس وقت ادا ہو گا، جب ہم مسجد کی آبادی کی طرف توجہ دیں گے، اس کا حق ادا کرنے والے بنیں گے اور پھر تبلیغ کی طرف بھی توجہ دیں گے۔

آج بھی کوئی نہ کوئی مقدمہ پاکستان میں اسی طرح ہر روز بنتا رہتا ہے۔ اور بڑے مضحکہ خیز مقدمے بنتے ہیں۔ ابھی کل پرسوں کی ڈاک میں مَیں دیکھ رہا تھا۔ ایک گاؤں میں دو آدمیوں کی طرف سے ایک ایف آئی آر درج کروائی گئی کہ میں نے دیکھا تھا ایک منارہ تھا اور ایک گنبدنظر آیا، میں وہاں قریب گیا تو پتہ لگا یہ مسجد تو قادیانیوں کی ہے۔ میرے جذبات مجروح ہو گئے۔ شروع اس طرح کیا جس طرح کوئی مسافر ہے۔ پھر میں چار دن اس تلاش میں رہا کہ یہ مسجد بنانے والا کون شخص ہے۔ پھر پتہ لگا آٹھ آدمی یہاں رہتے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں۔ اُن کو میں نے سمجھایا کہ منارہ گرا دو، گنبد گرا دو، لیکن وہ نہیں مانے اور میرے جذبات مجروح ہو گئے ہیں اس لئے مقدمہ درج کیا جائے۔ تو یہ حالات ہیں پاکستان میں۔ اب تو چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی یہ حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ تو ایسے حالات میں وہاں لوگ رہ رہے ہیں اور آپ میں سے بعض بھی ایسے حالات میں رہتے ہوئے یہاں آئے ہیں۔ پس ان حالات کو بھول نہ جائیں، یاد رکھیں اور اپنی مسجدوں کے حق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 25؍ اکتوبر 2013ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے برِزبن (Brisbane)کے احمدیوں کو توفیق دی یا آسٹریلیا کے احمدیوں کو توفیق دی کہ یہاں اس شہر میں باقاعدہ مسجد کی تعمیر کریں۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے۔

    یہاں سینٹر قائم تھا، لوگ نمازیں پڑھنے کے لئے آتے تھے۔ باقی جماعتی activities بھی ہوتی ہوں گی لیکن جب مسجد کے لئے منصوبہ منظوری کے لئے دیا گیا تو ہمسایوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مجھے جو رپورٹ ملی ہے اُس کے مطابق آٹھ نو مہینوں کی کوششوں کے بعد کونسل کی طرف سے اجازت مل گئی اور یوں اس سٹیٹ کوئنزلینڈ (Queensland) میں جماعت احمدیہ کی پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا جو دسمبر 2012ء کے بعد شروع ہوا اور آج آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبصورت مسجد ہے۔

    اس مسجد کی تعمیر پر اور پہلی عمارتوں کی درستی وغیرہ پر، جو اعداد و شمار میرے پاس آئے ہیں اُس کے مطابق، ساڑھے چار ملین ڈالر خرچ کئے گئے اور افرادِ جماعت نے دل کھول کر قربانیاں دیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کو بے انتہا دے، ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔

    انسان کا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنا اُس وقت کہلاتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی تمام قسم کی حدود کا بھی خیال رکھے۔ اور ان حدود کا پتہ چلتا ہے جب ہم قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اُس میں سے خدا تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے اُن کو نکالتے ہیں۔ یہ احکامات ہی وہ حدود ہیں جن کے اندر رہ کر انسان پھر خدا تعالیٰ کا قرب پاتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتا ہے۔

    مسجد کے بننے پر اس بات پر راضی نہ ہو جائیں کہ ہم نے مسجد بنا لی، اب مسجد بننے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی ہماری مساجد بنی ہیں اسلام کا تعارف کئی گنا بڑھا ہے۔

    اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر اُس وقت ادا ہو گا، جب ہم مسجد کی آبادی کی طرف توجہ دیں گے، اس کا حق ادا کرنے والے بنیں گے اور پھر تبلیغ کی طرف بھی توجہ دیں گے۔

    فرمودہ مورخہ 25اکتوبر 2013ء بمطابق 25اخاء 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت المسرور، برزبن (Brisbane)، آسٹریلیا

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور