مساجد کی تعمیر اور عبادت میں مستقل مزاجی

خطبہ جمعہ یکم نومبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ رِجَالٌلَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوۃِ۔ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الُقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۔ لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۔ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ (النور: 37-39)

ان آیات کا ترجمہ ہے۔ ’’کہ ایسے گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے اذن دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ ان میں صبح وشام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل (خوف سے) الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی۔ تاکہ اللہ اُنہیں اُن کے بہترین اعمال کے مطابق جزادے جو وہ کرتے رہے ہیں اور اپنے فضل سے اُنہیں مزیدبھی دے اور اللہ جسے چاہتاہے بغیرحساب کے رزق دیتاہے۔

آج اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ کوباقاعدہ اپنی مسجدبنانے کی توفیق عطافرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے یہ مسجد ہر لحاظ سے مبارک فرمائے۔ نیوزی لینڈکی جماعت چھوٹی سی جماعت ہے۔ کُل چار سو افراد چھوٹے بڑے ملاکر ہیں۔ لیکن مسجداللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی اور خوبصورت بنائی ہے۔ اور جماعت کی موجودہ تعداد سے زیادہ کی گنجائش اس میں ہے۔ اللہ کرے کہ یہ جلداپنی گنجائش سے بھی باہرنکلنا شروع ہو جائے۔ بہت سے کام کرنے والوں نے دن رات بڑی محنت سے کام کیا۔ مجھے بتایاگیا ہے کہ بہت ساکام بعض افرادِ جماعت نے بغیراس بات کی پرواہ کئے کہ دن ہے یا رات، بڑی لگن اور بڑے جذبے سے یہاں خدمت کی ہے۔ اور یوں جیسا کہ ہماری روایت ہے، خودکام کرکے اخراجات کی بچت بھی کی ہے۔ اس مسجد پر مسجد، ہال اور دوسری چیزیں ملاکے کُل ساڑھے تین ملین کے قریب خرچ ہواہے۔ جس میں 3.1 ملین مسجد پر، اور باقی کچن اور باقی Renovation پر خرچ ہوا۔ جماعت کی تعدادتھوڑی ہونے کی وجہ سے فوری طور پراتنی بڑی رقم جماعت جمع نہیں کر سکی۔ یا وعدے جو تھے وہ پورے نہیں ہوسکے اس لئے قرض بھی لیناپڑا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ قرض افرادِجماعت جلد اتار دیں گے۔ کیونکہ جماعت کو یہاں قائم ہوئے اس سال 25سال ہو گئے ہیں۔ اس لئے جماعت کی شدید خواہش تھی اور میں سمجھتاہوں یہ خواہش یقینا ہوگی کہ باوجودجماعت کی تعداد کم ہونے کے ایک مسجدکا تحفہ کم ازکم ضروراللہ تعالیٰ کے حضورپیش کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیرکی صورت میں یہ تحفہ پیش کیا جائے۔

پس یہ یادرکھیں کہ جس جذبے کے تحت آپ نے یہ تحفہ اللہ تعالیٰ کے حضورپیش کیا ہے یہ قرض کا تحفہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ جلد سے جلد قرض اتارنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے اور اس کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ آپ اپنی خالص قربانی اللہ تعالیٰ کے حضورپیش کرنے والے بنیں۔ جماعت نے یہ قرض اس توقع اور آپ افرادِجماعت پرحسنِ ظن کرتے ہوئے لیاہے کہ احباب اپنی قربانیوں سے اس مسجدکی تعمیرکریں گے چاہے وہ دیرسے قربانیاں اداہوں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے والے بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جس نے اس دنیامیں خداتعالیٰ کا گھربنایااللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے گھر بنائے گا۔ پس کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی جنت کا حصول نہ چاہتا ہو، اپنے لیے جنت میں گھر نہ چاہتاہو۔ یقینا کوئی احمدی بھی کبھی بھی یہ سوچ نہیں سکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے والا نہ بنے، وہ جنت میں خداتعالیٰ کی طرف سے انعام کے طورپردیئے گئے گھر کی خواہش نہ رکھتاہو۔ جماعت احمدیہ کی یہ خوبصورتی دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے کہ وہ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں۔ جو جاگ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مالی قربانیوں کی اپنے صحابہ میں لگائی تھی تاکہ اسلام کے پیغام کو دنیاکے کونے کونے میں پہنچایاجا سکے اور جس کو دیکھ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ لاانتہا اخلاص ہے بے انتہااخلاص اور محبت کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ حالت دنیا میں اس وقت اس زمانے میں آج بھی، سوسال بعدبھی جماعت کے افرادکی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کون کس ملک سے تعلق رکھتاہے وفااور اخلاص میں سب احمدی بڑھے ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں جو اس وقت جماعت کی تعداد ہے اس میں ساٹھ فیصدسے اوپر یہاں فجی سے آئے ہوئے لوگ ہیں اور تقریباً 23 فیصدپاکستانی مہاجر ہیں اور باقی دوسری قومیں ہیں۔ گو یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن متفرق قوموں کے لوگ ہیں مگر اخلاص ووفا میں ہرایک، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن یہ یادرکھناچاہئے کہ صرف ظاہری اخلاص اور وقتی طورپر چاہے وہ وقت کی قربانی ہویا مال کی قربانی ہو، ایک حقیقی مومن کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ مستقل مزاجی سے نیکیوں پر قدم مارنا اور تقویٰ پر چلنا اور اپنی پیدائش کے مقصد کو ہمیشہ یادرکھنایہ ایک حقیقی مومن کی شان ہے، اور شان ہونی چاہئے۔ اور مقصدِ پیدائش کے بارے میں خداتعالیٰ نے جو ہمیں توجہ دلائی ہے اُسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں یاددہانی کرواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اگرچہ مختلف طبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے‘‘ یعنی اگراتنی سمجھ بوجھ نہ ہویا ہمت چھوٹی ہو اس کی وجہ سے ’’مختلف قسم کے مدّعااپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کرآگے ٹھہر جاتے ہیں۔ مگر وہ مدّعاجو خداتعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے یہ ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ  (الذّٰاریّٰت: 57) یعنی میں نے جنّوں اور انسانوں کواس لئے پیداکیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس فرمایاکہ اس آیت کی رُو سے اصل مدّعاانسان کی زندگی کاخداتعالیٰ کی پرستش اور خداتعالیٰ کی معرفت اور خداتعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ414)

پس یہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں آکر وقتی جوش اور جذبے کے تحت بعض قربانیاں کر لینا ہمارا مقصدنہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد مستقل مزاجی سے خداتعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور عبادت کے معیار اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب خداتعالیٰ کی معرفت حاصل ہو۔ یہ علم ہو کہ خداتعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے اور میرے ہرقول اور ہر فعل کو دیکھ رہا ہے اور نہ صرف ظاہری طورپر دیکھ رہا ہے بلکہ میرے دل کی گہرائی تک اس کی نظر ہے۔ میری نیتوں کا بھی اُس کو علم ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں۔ اور جب یہ حالت ہو تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک انسان کوشش کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے لئے ہوجائے۔ یعنی کوئی عمل صرف دنیاوی خواہشات پوری کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ ہر کوشش اور ہر نیکی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ ہماری عبادتیں صرف اُس وقت نہ ہوں جب ہمیں خداتعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے، جب ہم کسی مشکل میں گرفتار ہیں، جب ہماری دنیاوی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں، بلکہ ہماری عبادتیں آسائش اور کشائش میں بھی ہوں۔ یہ نہ ہو کہ دنیاوی معاملات اور دنیاوی بکھیڑے اور دنیاوی کاروبار ہمیں خداتعالیٰ کی عبادت سے دُور کردیں۔ یہ مسجدصرف ایک عمارت نہ رہے اس مسجدکی وسعت اور خوبصورتی صرف یہی نہ یاددلائے کہ ہم نے اتنا وقت مسجدکی تعمیر کے لئے صَرف کر دیا۔ اتنے وقارِعمل ہم نے کئے، اتنے پیسے ہم نے بچائے۔ ہم نے اتنے گھنٹے وقارِ عمل کیا۔ ہم نے اتنا چندہ اس کی تعمیر کے لئے دیا، بلکہ یہ عمارت یہ یادکروانے والی ہوکہ اس دنیا میں مسجد کی تعمیر کرنا اگلی زندگی میں خداتعالیٰ کے اُس انعام کاوارث بنائے گا جس میں خداتعالیٰ جنت میں گھر بنا کر دے گا۔ اور یہ گھر بھی اُس وقت بنے گاجب اِس گھر کی تعمیر کے بعد اس کا حق ادا ہورہا ہوگا۔ اور مسجد کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشادپر عمل کرنے سے جس کا ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُن آیات میں ذکر فرمایا ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومن وہ ہیں جن کو اُن کی تجارتیں اور خرید و فروخت غافل نہیں کرتیں۔ کس چیز سے غافل نہیں کرتیں؟ فرمایا: عَنْ ذِکْرِاللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نمازوں کے قائم کرنے سے اور زکوٰۃ اداکرنے سے۔ پس ہم احمدیوں نے وہ حقیقی مومن بننا ہے جوان خصوصیات کے حامل ہوں۔ یہاں نماز سینٹر تو پہلے بھی تھالیکن سینٹر اور باقاعدہ مسجدمیں ایک ظاہری فرق بھی ہے۔ سینٹرایک ہال ہے۔ مسجدمیں گنبدبھی ہوتاہے، مینارہ بھی ہوتاہے اور مسجد کے نام سے ہی اس کاایک علیحدہ تقدس بڑھتاہے۔ پہلے دورے میں جب میں نے آپ کو کہا تھاکہ یہاں باقاعدہ مسجد بنائیں۔ تو ایک تو یہ مقصد تھا کہ مسجدکا مینارہ اور گنبد آپ کو یاددلاتارہے کہ ہم نے مال اور وقت کو قربان کرنے کے بعدجو مسجدبنائی ہے اس کا حق بھی ہم نے اداکرنا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مسجدکا مینارہ اور گنبد اردگردکے ماحول کے لئے بھی قابلِ توجہ ہوتاہے۔ اور اس سے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔ لوگوں کی اس طرف توجہ پید اہوگی اور اسلام کی حقیقی تصویر دیکھنے کی تلاش میں لوگ یہاں آئیں گے یا ویسے تجسّس میں آئیں گے۔ یہ لوگ کیسے ہیں، کیسے مسلمان ہیں؟ ابھی تک مَیں نے یہی دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدکی تعمیر کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعارف کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اس تعارف کی وجہ سے پھر اس مسجدکا حق اداکرنے کی طرف توجہ بھی پیداہوتی ہے۔ جو یہاں رہنے والے لوگ ہیں وہ اس مسجدکاحق اداکرنے والے ہوتے ہیں۔ افرادِ جماعت کواس طرف توجہ پیداہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ ہم نے یہ حق اداکرنا ہے۔

مسجد کا حق کیاہے؟ سب سے پہلا حق تویہی ہے کہ تمہاری تجارتیں، تمہارے کاروبار، تمہاری مصروفیات تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دُور کرنے والی نہ ہوں بلکہ نمازوں اور ذکرکی طرف یہ تجارتیں بھی تمہیں توجہ دلانی والی ہوں۔ جب حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ کی آواز آئے کہ اے لوگو! نمازکی طرف آؤ توکاروبار بھول جاؤ، سب تجارتیں بھول جاؤ اور مسجدکی طرف دوڑو۔ اب یہ بھی اس زمانے میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے تو فاصلے بہت ہیں۔ اذان بھی اندر ہوتی ہے آواز تونہیں آتی۔ اور جس آواز میں آج اذان دی گئی ہے یہ تو اتنی ہلکی آواز تھی کہ ہال میں بھی مشکل سے آتی تھی۔ تو اس کے لئے پھر کیا کیا جائے؟ تو اس کے لئے تو آپ کو ویسے ہی احساس دلاتے رہناچاہئے کہ ہم نے مسجد اس لئے بنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں۔ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچانیں۔ دوسرے میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ آجکل ہرایک موبائل فون جیب میں ڈالے پھرتا ہے توپھراس کا بہترین استعمال کریں کہ نمازوں کے اوقات میں اذان کی آواز میں ہی الارم بج جائے۔ اور جو قریب ترین ہیں وہ مسجد میں آئیں اور جو دُورہیں وہ اپنی نمازیں اداکرنے کی طرف توجہ کریں۔ اپنے کاموں کی جگہ پر جب آپ نمازوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز اداکررہے ہوں گے تو اردگرد لوگوں کو توجہ پیدا ہو گی کہ تم کون ہو؟ پھر مسجدکی عمارت کا تعارف ذریعہ بن جائے گا۔ آپ اپنے دوستوں کو مسجدمیں آنے کی دعوت دیں گے اور یوں اللہ تعالیٰ کا ذکربھی ہو رہا ہوگااوراللہ تعالیٰ کا پیغام غیروں کو پہنچانے کاسلسلہ بھی ساتھ شروع ہو جائے گا۔ اور اس طرح پھر نیکیوں کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کاقرب دلانے والا بھی بنائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انقلاب بھی اپنے صحابہ میں پیدا کیا تھا۔ اور یہ مثال اللہ تعالیٰ ان آیات میں اُن لوگوں کی ہی دے رہا ہے جو آپ کے صحابہ تھے کہ یہ کروڑوں کا کاروبار بھی کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دل بھرے رہتے تھے۔ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ رہتی تھی، مالی قربانیوں کی طرف توجہ رہتی تھی اور یہی انقلاب پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کوبھیجا ہے کہ اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرو۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، اپنے اموال کے تزکیہ کے لئے، اس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانیاں دو۔

مَیں اکثر کہتارہتاہوں اور جماعت کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے افرادِ جماعت کا رویہ بھی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ مالی قربانیوں میں تو جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھی ہوئی ہے، بڑھ رہی ہے اور اس طرف توجہ بھی رہتی ہے لیکن نمازوں کے قیام کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ عبادتوں کے میعارحاصل کرنے کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ پس اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ مسجدکوآبادکریں۔ قیامِ نماز اسی وقت حقیقی رنگ میں ہوتاہے جب باجماعت نمازیں اداکی جائیں اور مسجدکی تعمیر کی یہی غرض ہے کہ یہاں باجماعت نماز ادا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ حقیقی مومن کواس دنیا سے زیادہ آخرت کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ جب انسان بڑھاپے کی عمر کی پہنچتاہے توبڑی فکر ہوتی ہے، روتاہے، دعاکرتاہے اور دعاکے لئے کہتے بھی ہیں کہ دعاکریں انجام بخیر ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ حقیقی مومنوں کی یہ حالت عمر کے آخری حصے میں جاکر نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی توجہ، عبادت کی طرف توجہ، اپنے دلوں کوپاک کرنے کے لئے کوشش وہ جوانی میں اور آسائش کی حالت میں بھی کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں جوانی اور آسائش میں بھی یادرہتاہے۔ صبح شام اللہ تعالیٰ کو یادرکھتے ہیں اس لئے کہ آخرت کا خوف ہر وقت ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ ان کے دل کانپتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ نقشہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اور یہ حالت ہے جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں پیداکرنے آئے ہیں۔ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’ہمیشہ دل غم میں ڈوبتارہتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بھی صحابہؓ کے انعامات سے بہرہ ور کرے۔ ان میں وہ صدق ووفا، وہ اخلاص اور اطاعت پیداہوجو صحابہؓ میں تھی۔ یہ خداکے سواکسی سے ڈرنے والے نہ ہوں۔ متّقی ہوں۔ کیونکہ خداکی محبت متّقی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْن  (البقرہ: 195)‘‘ (ملفوظات جلد1 صفحہ405۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس اگر اللہ تعالیٰ کے انعامات لینے ہیں، اپنے گھروں کو ان گھروں میں شمارکروانا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے اِذن سے بلند کیا جاتا ہے تواللہ تعالیٰ کے ذکر سے گھروں کوبھی بھرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہر وقت اپنے دلوں میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیاکے تمام خوف، دنیاوی تجارتوں کے خوف، یہ تمام چیزیں اللہ کے خوف کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھنے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارباراپنی جماعت کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تقوٰی پیداکرو اور اللہ تعالیٰ کوہرچیزپر مقدم رکھو۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیاکے پیچھے چلنے سے (یہ الفاظ تو میرے ہیں انہیں الفاظ میں فرمایا) کہ دنیا کے پیچھے چلنے سے کچھ عرصے کے لئے عارضی دنیاوی فائدہ تمہیں شاید ہو جائے اور اس میں بھی ہر وقت بے چینی رہتی ہے اور دھڑکالگارہتاہے کہ اب یہ نہ ہو جائے اب وہ نہ ہو جائے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی تلاش میں رہوگے، اگراس کے بنوگے تودین بھی ملے گا اور دنیابھی غلام بن جائے گی۔ خداتعالیٰ بھی ملے گا اور دنیا بھی مل جائے گی۔ جیساکہ میں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کروڑوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن کبھی اپنی عبادتوں کو نہیں بھولے۔ کبھی ذکرِ الٰہی کو نہیں بھولے، کبھی اللہ تعالیٰ کا خوف ان کو نہیں بھولا۔

پس ہم جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا اظہار کرتے ہیں، یہ تبدیلیاں اُس وقت فائدہ مند اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی جب حقیقی رنگ میں ہوں۔ صرف ہمارے مونہوں کی باتیں نہ ہوں، صرف زبانی اقرار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ پاک تبدیلیاں حقیقت میں تم پیدا کر لو، تقویٰ پر قدم مارنے والے بن جاؤ، تمہاری نمازیں بھی وقت پر ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوں اور تمہارے دوسرے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پانے والے ہو گے۔ تمہیں دنیاوی رزق بھی ملے گا اور روحانی رزق بھی ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ دنیا کے کام نہ کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی یادنہیں بھولنی چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ تم دنیاوی کاروباروں کی وجہ سے اپنی نمازیں بھی ضائع کر دو اور اپنے مقصدِ پیدائش کو بھول جاؤ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ اگر ایسا ہے کہ تم نمازیں بھول رہے ہو، دنیا میں ڈوبے ہوئے ہو، تو پھر تمہارے میں اور غیر میں کیا فرق ہے۔ کیا فائدہ ہے اس بیعت کا؟

پس اس فرق کو واضح کر کے بتانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل سمجھتے ہیں تو یہ واضح کرنا ہو گا اور یہ واضح اُس وقت ہو گا جب ہم اپنے ہر عمل اور قول کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالیں گے، جب ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو گا، جب ہماری نظر دنیا سے زیادہ آخرت کی طرف ہو گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو کھول کر اس طرح پیش فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (النور: 38)۔ جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اس بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ15۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ162۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یہ بالکل درست ہے۔ لیکن فرمایا یہ بھی یاد رکھو کہ ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو اور ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے‘‘۔ یعنی کوئی کام ہی نہ کرے ’’بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (النور: 38) والا معاملہ ہو۔ دست با کار، دل بایاروالی بات ہو‘‘۔ یعنی ہاتھ کام کر رہے ہوں اور دل اپنا خدا تعالیٰ کی طرف توجہ میں رہے۔ فرمایا کہ ’’تاجر اپنے کاروبارِ تجارت میں اور زمیندار اپنے امورِ زراعت میں اور بادشاہ اپنے تختِ حکومت پر بیٹھ کر، غرض جو جس کام میں ہے، اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اُس کی عظمت اور جبروت کو پیشِ نظر رکھ کر اُس کے احکام اور اوامر و نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے حکم ہیں، جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے یہ کرو، اُن باتوں کے کرنے کو اپنے سامنے رکھو۔ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے رُک جاؤ، اُن باتوں سے رُکنے کو اپنے سامنے رکھو، اُن سے بچنے کی کوشش کرو۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے حکم اپنے سامنے رکھو گے تو ایک لائحہ عمل سامنے ہو گا اور پھر اُس کے اندر ہی انسان کام کرتا ہے۔ جو چاہے کرو سے مراد یہ ہے۔ پھر تمہارے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا کہ اُنہی رستوں پر چلو جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر‘‘۔ فرمایا کہ ’’اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لُولوں کی طرح نکمے بیٹھے رہو اور بجائے اس کے کہ اَوروں کی خدمت کرو، خود دوسروں پر بوجھ بنو‘‘۔ یہ نہیں اسلام کہتا کہ کام نہ کرو، سارا دن بیٹھے رہو، ذکرِ الٰہی بھی ہو لیکن اپنے کام بہر حال کرنے ہیں۔ فرمایا ’’نہیں بلکہ سست ہونا گناہ ہے۔ بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اُس کے دین کی کیا خدمت کر سکے گا۔ عیال و اطفال‘‘ یعنی بیوی بچے ’’جو خدا نے اُس کے ذمّے لگائے ہیں اُن کو کہاں سے کھلائے گا؟ پس یاد رکھو کہ خدا کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو۔ بلکہ اُس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشّمس: 10)۔ تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو‘‘۔ کسی پیشے میں بھی جاؤ، ’’جو چاہو کرو مگرنفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو‘‘۔ وہی لوگ فلاح پاتے ہیں جو اپنے نفس کو پاک رکھتے ہیں۔ ’’اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کردیں۔ پھر جو تمہاری دنیا ہے یہی دین کے حکم میں آ جاوے گی۔‘‘ یہ دنیا کمانا، یہ تجارتیں، یہ کاروبار، یہ ملازمتیں، یہ بھی پھر دین بن جاتا ہے اگر نیت نیک ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کا عہد ہو۔ فرمایا کہ: ’’انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا۔ دل پاک ہو اور ہر وقت یہ لَو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنیا بھی اُس کے واسطے حلال ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَات۔‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (ملفوظات جلد5صفحہ550۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہے وہ حالت جو ہر احمدی کی ہونی چاہئے اور جب آپ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری دنیا بھی دین کے تابع ہو گی۔ ہمارے سے کوئی ایسا کام سرزدنہیں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشاء کے خلاف ہو۔

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ، جو یہ سوچ بھی رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں بھی گزارتے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو نہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان ہمیں کچھ فائدہ دے گا، نہ ہمارا مسجدیں بنانا ہمیں فائدہ دے گا۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ان دنوں میں آپ کا جلسہ بھی ہو رہا ہے۔ تو یہ جلسہ بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی فرمایا ہے کہ یہ جلسہ بھی کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے۔ پس اس جلسہ میں آنے کا بھی مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا، دین کا علم حاصل کرنا، روحانی فیض اُٹھانا ہے۔

پس یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس مسجد کے بننے کے ساتھ آپ میں پہلے سے بڑھ کر پاک تبدیلیاں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی تبلیغ کے بھی نئے راستے کھلیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ، تو آپ کی عملی حالت دیکھ کر لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ بھی پیدا ہو گی۔ اس لئے اپنے عملوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ تبلیغ کے بارے میں بھی میں ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کو خاص توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہاں بھی صرف اپنے روایتی طریقِ تبلیغ جو ہے، اُسی پر انحصار نہ کریں اور بیٹھ نہ جائیں کہ بس ہم جو کر رہے ہیں وہ کافی ہے ہمارے لئے، بلکہ تبلیغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کریں، نئے نئے طریق تلاش کریں۔ اسلام کا زیادہ سے زیادہ تعارف کروائیں۔ اب ماؤری زبان میں جو قرآنِ کریم کا ترجمہ ہوا ہے، اس نے بھی جماعت کا ایک تعارف کروایا ہے۔ اُن کے اپنی زبان کے ٹی وی نے بھی اور ریڈیو نے بھی اُس کو اچھی کوریج دی ہے۔ دو دن پہلے جو فنکشن ہوا تو مسجد کے افتتاح سے مزید تعارف ہو گا۔

پس یہ تمام انتظامات جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اگر ہم ان کو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے استعمال کریں گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں گے۔ پس آج جہاں اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کا عہد کریں وہاں اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ آپس میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے محبت اور پیار اور تعاون کو بھی بڑھائیں اور پھر علاقے کے لوگوں کو بھی حقیقی اسلام کا تعارف کروائیں۔ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوئی ہیں اُن کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ تھوڑی تعداد بھی اگر ہے تو اگر اپنے ارادے پختہ ہوں، ارادے اچھے، ہمت جوان ہو تو تھوڑی تعداد بھی بہت کچھ کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔

یہ اتنی خوبصورت مسجد جو آپ نے بنائی ہے، دنیا میں جو احمدی بیٹھے ہیں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے آج سارے دیکھ بھی رہے ہیں۔ احمدیوں کو بھی کچھ خواہش ہوتی ہے، دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کی تفصیل بیان کی جائے، تو مختصراً مسجد کے کوائف بھی بتا دوں۔ یہ تو میں بتا ہی چکا ہوں کہ اس پر خرچ کتنا ہوا۔ تین اعشاریہ ایک ملین ڈالر، اور مسجد بیت المقیت اس کا نام ہے جو پہلے ہال کا نام تھا۔ اور یہ جگہ بھی اس لحاظ سے اچھی ہے۔ ریلوے اسٹیشن اور شہر کی دو بڑی موٹر وے (Motorway) اس سے چند منٹ کی دُوری پر واقع ہے اور اس کا کُل رقبہ یہاں کا پونے دو ایکڑ ہے جو 1999ء میں خریدی گئی تھی اور 256 مربع میٹر کا ایک ہال موجود تھا۔ 2002ء میں لجنہ کے لئے 112 مربع میٹر کا الگ ایک ہال بنایا گیا۔ اور یہ دونوں ہال اب تک بطور نماز سینٹر استعمال ہو رہے تھے۔ ہال کے اوپر مشنری کا گھر بھی ہے۔ بہر حال 2006ء میں جب مَیں نے دورہ کیا تو مسجد کے لئے کہا۔ 2012ء جولائی میں اس کی باقاعدہ تعمیر شروع ہوئی اور اگست 2013ء میں تعمیر مکمل ہوئی۔ دو منزلہ مسجد ہے اور نچلی منزل لجنہ کے لئے ہے، مسجد کا ہال، 239مربع میٹر، نیچے آڈیو وڈیو روم ہے نیچے، کانفرنس روم ہے، اور اس طرح وضو وغیرہ کے لئے سہولیات ہیں۔ باہر سے اس کا منارہ بھی نظر آتا ہے۔ ایم ٹی اے پر دنیا نے دیکھ لیا ہو گا۔ ساڑھے اٹھارہ میٹر اونچا ہے، گنبد کا سائز بھی آٹھ میٹر ہے۔ نمازیوں کی گنجائش دونوں ہالوں میں محتاط اندازہ جو ان کا کونسل کے مطابق ہے وہ چھ سو ہے لیکن بہرحال د ونوں ہالوں میں ساڑھے سات سو کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اور پرانی عمارت جو ہے اُس میں بھی تین سو نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ گویا تقریباً ایک ہزار میرے اندازے کے مطابق گنجائش نکل سکتی ہے۔ پارکنگ کے لئے ایک سو سات کاروں کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ لنگر خانہ بھی اس کے ساتھ بنایا گیا ہے جس میں ساڑھے تین لاکھ نیوزی لینڈ ڈالر خرچ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا جماعت کی روایت ہے، افرادِ جماعت نے بڑی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ خواتین نے اپنے زیور پیش کئے، بچوں نے اپنی جمع کی ہوئی جیب خرچ کی رقم پیش کی، مسجد فنڈ میں دی۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ دو موقع ایسے آئے، مہینے کے آخر میں جماعت کے اکاؤنٹ میں رقم نہیں ہوتی تھی اور کنٹریکٹر کو payment کرنی تھی تو نیشنل عاملہ اور ذیلی تنظیموں اور دوسرے افرادنے، بعض نے فوری طور پر لاکھ ڈالر یا ان سے بھی اوپر ڈالر جمع کرکے ادا کر دئیے۔ بعض افرادنے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک لاکھ ڈالر سے اوپر قربانیاں پیش کیں۔ اس کے علاوہ حسبِ توفیق ہر ایک نے اپنی اپنی بساط کے مطابق قربانیاں دیں۔ غیر معمولی قربانیوں کی توفیق ملی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا جماعت بہت چھوٹی سی ہے اور خرچ بہت زیادہ ہوا ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ اُن سب کو جنہوں نے یہ قربانیاں دی ہیں اور جنہوں نے وقارِ عمل کئے ہیں، قربانیاں مالی طور پر نہیں دے سکے، وقت کی قربانی دی۔ اُن سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ ان کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔ ان کی نسلوں کو بھی احمدیت سے ہمیشہ جوڑے رکھے اور ایمان اور ایقان میں بڑھاتا چلا جائے۔ نمازوں کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ مسجد میں آ کر مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اپنے گھروں کو بھی ذکرِ الٰہی سے بھرنے والے ہوں۔ حقوق العباد کے جذبے سے پُر ہوں۔ حقیقی اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ان دنوں میں آپ کا جلسہ بھی ہو رہا ہے، اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب میں پاک تبدیلیاں پیدا فرمائے۔ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہو اور پھر ہمیں ان پاک تبدیلیوں کو ہمیشہ اپنی زندگیوں میں جاری رکھنے والا بنائے۔ اور ہم سب جلسہ پر آنے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعائیں کی ہیں اُن سے حصہ لینے والے بھی ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • یکم نومبر 2013ء شہ سرخیاں

    جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ کی سب سے پہلی باقاعدہ مسجد، ’مسجد بیت المقیت‘ کا افتتاح۔ مسجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی اور خوبصورت ہے۔

    اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے یہ مسجد ہر لحاظ سے مبارک فرمائے۔

    نیوزی لینڈ میں گو ایک چھوٹی جماعت ہے لیکن متفرق قوموں کے لوگ ہیں مگر اخلاص و وفا میں ہر ایک، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    یادرکھناچاہئے کہ صرف ظاہری اخلاص اور وقتی طورپر چاہے وہ وقت کی قربانی ہویا مال کی قربانی ہو، ایک حقیقی مومن کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ مستقل مزاجی سے نیکیوں پر قدم مارنا اور تقوٰی پر چلنا اوراپنی پیدائش کے مقصد کو ہمیشہ یادرکھنایہ ایک حقیقی مومن کی شان ہے، اور شان ہونی چاہئے۔

    اور مقصدِ پیدائش کے بارے میں خداتعالی نے جو ہمیں توجہ دلائی ہے اُسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

    اگر اللہ تعالیٰ کے انعامات لینے ہیں، اپنے گھروں کو ان گھروں میں شمارکروانا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے اِذن سے بلند کیا جاتا ہے تواللہ تعالیٰ کے ذکر سے گھروں کوبھی بھرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہر وقت اپنے دلوں میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

    جب آپ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری دنیا بھی دین کے تابع ہو گی۔ ہمارے سے کوئی ایسا کام سرزدنہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشاء کے خلاف ہو۔

    اس مسجد کے بننے کے ساتھ آپ میں پہلے سے بڑھ کر پاک تبدیلیاں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی تبلیغ کے بھی نئے راستے کھلیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ، تو آپ کی عملی حالت دیکھ کر لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ بھی پیدا ہو گی۔ اس لئے اپنے عملوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ تبلیغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کریں، نئے نئے طریق تلاش کریں۔ اسلام کا زیادہ سے زیادہ تعارف کروائیں۔ جہاں اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کا عہد کریں وہاں اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ آپس میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے محبت اور پیار اور تعاون کو بھی بڑھائیں اور پھر علاقے کے لوگوں کو بھی حقیقی اسلام کا تعارف کروائیں۔ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوئی ہیں اُن کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ مسجد بیت المقیت کی تعمیر پر ساڑھے تین ملین نیوزی لینڈ ڈالرز خرچ ہوئے۔ مسجد اور اس کے ملحقہ دفاتر و عمارتوں کے کوائف اور افراد جماعت کی قربانیوں کا قابل رشک تذکرہ۔

    جماعت نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ کا خطبہ جمعہ سے افتتاح۔

    فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013ء بمطابق یکم نبوت 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت المقیت، آکلینڈ، نیوزی لینڈ

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور