مسجد کی تعمیر اور مقصدِ پیدائش
خطبہ جمعہ 8؍ نومبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً سات سال کے بعد مجھے جماعت احمدیہ جاپان سے یہاں آکر مخاطب ہونے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح جماعت احمدیہ جاپان بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی اور اس طرف قدم مارنے والی جماعتوں میں سے ہے۔ اخلاص ووفا اور مالی قربانیوں میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے۔ لیکن افرادِجماعت کو یہ ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کبھی ان کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ ہم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہماری تعدادمیں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے، ہماری مالی قربانیاں بھی بڑھی ہیں، ہم نے ایک نئی جگہ خرید لی ہے جویہاں ضروریات کے لئے کئی سال کے لئے کافی ہے۔ ہم نے ایک نئی جگہ اس لئے خرید لی کہ ہمارے عبادتوں کے علاوہ دوسرے فنگشنزبھی وہاں ہو سکیں۔ یہ نیا مرکز جوآپ نے خریدا ہے اس کی تفصیلات بھی مَیں آگے بیان کروں گا لیکن یہاں یہ بیان کرنا چاہتاہوں کہ یہ نئی وسیع جگہ جوآپ کی نمازوں کے لئے کافی ہے اور جو جماعت کی موجودہ تعداد ہے، اس کے لحاظ سے جلسوں کے لئے بھی کچھ عرصے کے لئے کافی ہو گی۔ دفاترکے لئے بھی آپ کو جگہ مل جائے گی۔ گیسٹ ہاؤس ہے، مشن ہاؤس ہے اور دوسری سہولتیں ہیں اور جماعت احمدیہ جاپان نے اس کی خرید کے لئے بڑی مالی قربانیاں بھی دی ہیں۔ اور مالی قربانیوں کا حق بھی ادا کیا ہے لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ حقیقی حق ادا ہوتا ہے جب ہم ان باتوں کو سمجھیں اور اُن پر عمل کریں جو حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں کرنے کے لئے کہی ہیں۔ آپ کی بیعت میں آکر ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ وقتی جذبات کے تحت بعض قربانیاں اور بعض عمل بے شک بعض اوقات نیکیوں کی طرف رغبت دلانے کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے ہوں تواللہ تعالیٰ کے فضلوں کوحاصل کرنے والے اور اُن کو سمیٹنے والے بھی بن جاتے ہیں لیکن ہم جو اپنے آپ کوحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والا کہتے ہیں، ہمارے مقصد حقیقت میں تب حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم مستقل مزاجی سے اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کریں۔ جب ہم جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصدکو اپنے پیشِ نظر رکھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مُنْعَم عَلَیْھِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ فرمایاہے ان کو حاصل کرناہر انسان کا اصل مقصدہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کوقائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیارکرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیارکی تھی تاکہ اس آخری زمانے میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پربطورِ گواہ ٹھہرے۔‘‘ (الحکم 31؍مارچ 1905ء جلد 9 شمارہ نمبر 11صفحہ 6 کالم 2)
پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے لگائی ہے کہ ہم نے اُن مقاصدکو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے حاصل کئے یا اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسلسل جان، مال اور وقت کی قربانی دی۔ اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ڈرتے ہوئے ادا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ڈرتے رہے اور اپنی دعائیں پیش کرتے رہے۔ کسی قربانی پر فخر نہیں کیا بلکہ یہ دعاکرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے توایسے کہ اپنی راتوں کو بھی عبادتوں سے زندہ رکھا اور اپنے دنوں کو بھی باوجود دنیاوی کاروباروں کے اور دھندوں کے یادِ خدا سے غافل نہیں ہونے دیا۔
پس یہ وہ مقصدہے جو ہم میں سے ہر ایک کوحاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ مقصدہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے یہ مقصدپا لیا تو اپنی پیدائش کے مقصدکو حاصل کرلیا۔ کیونکہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ ہم جب مساجد بناتے ہیں یا اجتماعی عبادت کے لئے کوئی جگہ خریدتے ہیں تو یہی مقصد پیشِ نظر ہوناچاہئے کہ ہم نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی پیدائش کے مقصد کی بلندیوں پر جانا ہے۔ دنیا میں تو جو مقاصدہیں اُن کی بعض حدودہیں۔ ایک خاص بلندی ہے جس کے بعد انسان خوش ہو جاتاہے کہ میں نے اُسے پا لیا ہے۔ یا اس دنیا میں ہی اس کے نتائج حاصل کر لئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا مقصد تو ایساہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے قربت کے نئے سے نئے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعدبھی اس دنیا کے عملوں کی اگلے جہان میں جزاہے جس میں اللہ تعالیٰ کے لا محدود رحم اور فضل کے تحت ترقی ممکن ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے انعامات کا انسان وارث بنتاہے جو انسان کی سوچ سے بھی باہرہیں۔ صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْھِم نے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں اور ’’رضی اللّٰہ عنہ‘‘ کا اعزاز پایا۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے افراد کو اسی طرح ترقی کی منازل طے کرتا دیکھنا چاہتا ہوں جس سے وہ اپنے مقصدِ پیدائش کوحاصل کرکے پھر اس کے مدارج میں ترقی کرتے چلے جائیں ان کے درجے بلند ہوتے چلے جائیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ آپ نے فرمایاکہ میری جماعت میں ایسے لوگ ہوں جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر بطورگواہ ٹھہریں۔ کیا قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کی آخری اور مکمل کتاب ہے اس کی عظمت ہماری گواہی سے ہی ثابت ہو گی؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی، سب سے پیارے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اُن کی عظمت ہمارے کسی عمل کی مرہونِ منت ہے؟ نہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سے مرادیہ ہے کہ ہمارے عملوں میں ایک انقلاب قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چل کرظاہر ہو۔ اور اس طرح ظاہر ہو کہ دنیا کہہ سکے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں یہ انقلاب قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم پرعمل کرکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر چل کر آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی جو عبادت کرنے کے اعلیٰ معیارحاصل کرنے سے ہوتی ہے، اس کا حق اداکرنے والے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی جو ہر قسم کے خُلق کی اعلیٰ مثال قائم کرنے سے ہوتی ہے اُس کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ پس جس طرح کہ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس میں اس بات کا اظہارکیا گیا ہے کہ ہمارے ایک جاپانی غیرمسلم وکیل دوست نے، آپ کی جو نئی جگہ خریدی گئی ہے جس کا نام ’’مسجد بیت الاحد‘‘ رکھا گیا ہے، ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے اس کے مختلف مواقع پر جو بھی روکیں پیداہوتی رہیں ان میں انہوں نے بے لوث مدد کی۔ وہ اس وجہ سے کہ جماعت کے حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے کی گئی مختلف کوششوں جو زلزلوں اور سونامی کے دوران میں کی گئیں اُن کاموں کی اُن کی نظرمیں بہت اہمیت تھی اور انہوں نے کہا کہ جماعت کے جاپان پر بہت احسانات ہیں جس کی وجہ سے مَیں یہ کام بلامعاوضہ کروں گا۔ بہر حال جماعت نے اگرکوئی کام کیا تو کسی احسان کی غرض کے لئے نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کیا اور کرنا چاہئے جہاں بھی وہ کسی کو کسی مشکل میں دیکھیں۔ لیکن انہوں نے بہرحال اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور جماعت کی اس تھوڑی سی خدمت کو سراہتے ہوئے وہ جماعت کے قریب آئے۔ تویہ حقوق العباد کی ادائیگی کا کام توہم نے کرتے رہنا ہے، چاہے کوئی ہمارے کام آئے یا نہ آئے۔ اور یہی حقوق العبادکا کام ہے جو جب ہم یہ بتائیں گے اور بتانا چاہئے کہ قرآن کریم کی تعلیم ہے اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے اور ہمیں حکم ہے کہ مخلوق کی خدمت کرو۔ تو مزید اس تعارف میں وسعت پیدا ہو گی، مزید لوگ اِن جاپانی وکیل جیسے سامنے آئیں گے جو جماعت کی خدمات کو سراہیں گے، جن پر اسلام کی حقیقی تعلیم روشن ہو گی۔ اسلام کا تعارف بڑھے گا اسلامی تعلیم کی عظمت ان پر قائم ہو گی اور یوں تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔ یہ مسجد بیت الاحد جس کوانشاء اللہ تعالیٰ جیساکہ میں نے کہا جو معمولی قانونی تقاضے رہ گئے ہیں اُن کے پوراہونے کے بعد مسجد کی شکل بھی دے دی جائے گی۔ تو اس سے جماعت کا مزید تعارف بڑھے گا۔ مزید قرآن کریم کی تعلیم کا تعارف کروانے کا موقع ملے گا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش بھی تھی اور آپ نے فرمایا بھی ہے کہ ان لوگوں کا اسلام کی طرف رحجان پیداہو رہا ہے اس لئے کہ یہ لوگ نیک فطرت لگتے ہیں اس لئے اسلام کی طرف رحجان پیدا ہو رہا ہے، اس لئے ان کے لئے اسلام کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے آپ نے فرمایا کہ اسلام کے تعارف پر مشتمل جاپانی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جائے۔ (ماخوذاز ملفوظات جلد4صفحہ371-372۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
تو بہرحال اس کتاب پر بھی کام ہو رہا ہے۔
آپ لوگ جو یہاں رہنے والے ہیں، جن کی اکثریت پاکستانیوں اور پرانے احمدیوں پر مشتمل ہے، آپ کواپنی عملی حالتوں کی طرف نظرکرنی ہو گی کہ اب پہلے سے بڑھ کر لوگ آپ کی طرف دیکھیں گے۔ آپ جب تبلیغ کریں گے، اسلام کا پیغام پہنچائیں گے تو لوگ آپ کی عملی حالتوں کی طرف دیکھیں گے کہ وہ کیا ہیں؟ یہ لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ آپ نے اس مسجد کے بنانے کے لئے کیا قربانیاں دیں؟ لوگ دیکھیں گے کہ آپ کی عملی حالت کیا ہے؟ آپ کا خداتعالیٰ سے زندہ تعلق کیساہے؟ آپ میں شامل ہو کر اُن لوگوں میں کیا انقلاب آسکتاہے؟ دنیاوی لحاظ سے تویہ لوگ آپ سے بہت آگے ہیں۔ ظاہری اخلاق بھی ان کے بہت اعلیٰ ہیں۔ کوئی نئی چیز اگر ہم ان کو دے سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کاطریق سکھا سکتے ہیں۔ ہم یہی ان کو بتا سکتے ہیں کہ اب زندہ مذہب صرف اسلام ہے۔ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی عبادت کاحق کس طرح اداہوتاہے؟ ہم یہ بتاسکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کس طرح دعاؤں کو سنتاہے؟ ہم یہ بتاسکتے ہیں کہ خداتعالیٰ اپنے بندوں سے کس طرح کلام کرتا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے ہمیں اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ خداتعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔ اپنی عبادتوں کے حق اداکرنے ہوں گے۔ آپس میں محبت اور پیار سے رہنا ہو گا۔ اپنے اخلاق کے وہ اعلیٰ معیارحاصل کرنے ہوں گے جو جاپانی قوم کے اخلاق سے بہتر ہوں۔ جیساکہ میں نے کہا ظاہری اخلاق تو ان میں بہت ہیں۔ انسانی ہمدردی بھی ان میں ہے۔ احسان کا بدلہ احسان کر کے اداکرنے کی اسلامی تعلیم پر بھی یہ عمل کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس لئے فرمایاہے کہ ان لوگوں میں جو توجہ پیدا ہوئی ہے، یہ کسی سعادت مندی کی وجہ سے ہے اس لئے ان کو اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ پس اس سعادت سے جو ان لوگوں میں ہے، بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جو اخلاق ان میں ہیں ان اخلاق سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں اسلام کا حُسن انہیں دکھانا ہوگا خدا تعالیٰ کا بندہ سے تعلق کاعملی نمونہ انہیں دکھانا ہو گا۔ اس کے لئے یہاں رہنے والے ہراحمدی کوقرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کوہر وقت سامنے رکھنا ہو گا۔ پس اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو راہنمائی فرمائی ہے اس کی جگالی کرتے رہیں۔ ان میں سے بعض باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پہلی بات تو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ عَہدوں کے بارے میں پوچھے گا۔ جو تم نے عَہد کئے ہیں اُس کے بارے میں پوچھے گا۔ اور اس زمانے میں ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت کیا ہے، اتنا کافی نہیں کہ ہم نے بیعت کر لی اور احمدی ہو گئے۔ جو پرانے احمدی ہیں وہ خلافت کے ہاتھ پر بیعت کی تجدید کر لیں اور اتنا ہی کافی سمجھیں۔ عہدِ بیعت ایک مطالبہ کرتا ہے جس کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دس شرائطِ بیعت کی صورت میں ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ اگر اس کا خلاصہ بیان کریں تو یہ ہے کہ ہر حالت میں دین، دنیاپر مقدم رہے گا۔ ہم ہمیشہ یہ کوشش کریں گے کہ دین کو دنیاپر مقدم رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’تم دیکھتے ہو کہ مَیں بیعت میں یہ اقرار لیتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ یہ اس لیے تاکہ میں دیکھوں کہ بیعت کنندہ اس پر کیا عمل کرتاہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ350۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
آپ نے فرمایاکہ: ’’اگر کوئی دنیاوی کام ہو تواس کے لئے تم بڑی محنت کرتے ہو تب جاکر اس میں کامیابی حاصل ہوتی ہے لیکن دین کے لئے محنت کرنے کا دردنہیں ہے، وہ کوشش نہیں ہے جس سے ہر وقت خداتعالیٰ سامنے رہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش رہے۔ (ماخوذاز ملفوظات جلد5صفحہ329۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
آپ فرماتے ہیں، مجھے سوزوگداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیداہو۔ جو نقشہ اپنی جماعت کی پاک تبدیلی کامیرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعراء: 4) یعنی توشاید اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مؤمن ہوتے۔ فرمایاکہ میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لئے جاویں، اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔ (ملفوظات جلد1صفحہ351-352۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اپنے نفس کو کس طرح پاک کرناہے یہ جاننے کی کوشش کرو۔
آپ نے بیعت میں آنے کے بعدکی اصل غرض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’تم اپنے اندرایک پاک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ۔ اس لئے ہرایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ میں اَور ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ352۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یعنی جو پہلے تھا، وہ نہیں رہا۔ پس یہ درد ہے جو ہمیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن لوگوں کے لئے کہے جوآپ کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ اگر ان کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق نہیں تھا اور کمیاں تھیں تو ہمارے زمانے میں تویہ کمیاں کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور ان کو دُورکرنے کے لئے ہمیں کوشش بھی کئی گنابڑھ کر کرنی ہوگی۔ تبھی ہم آپ کے درد کو ہلکا کرنے والے بن سکیں گے۔ اب یہ جو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں کی یہ حالت دیکھ کے میری یہ حالت ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک نہ کر لوں کہ کیوں نہیں مومن ہوتے؟ اس کا مطلب غیروں کے لئے تو بے شک یہ ہے کہ وہ ایمان کیوں نہیں لاتے لیکن یہاں آپ کو اپنوں کے لئے فکرہے اور یہ فکرہے کہ وہ مقام حاصل کیوں نہیں کرتے جوایک مومن کے لئے ضروری ہے۔ قرآن کریم نے ایسے ماننے والوں کے لئے یہ فرمایاہے کہ یہ تو کہوکہ ہم اسلام لائے، فرمانبرداری اختیارکی، نظامِ جماعت میں شامل ہو گئے، یہ مان لیاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ آنے والامسیح موعود اور مہدی موعود جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی وہ آگیا ہے۔ اور ہم نے اس کی بیعت کر لی ہے اور اُس میں شامل ہو گئے، لیکن ایمان ابھی کامل طورپر تم میں پیدانہیں ہوا۔ ایمان کے لئے بہت سی شرائط ہیں جن کو پوراکرنا ضروری ہے۔ مثلاً مومن سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا مطلب ہے کہ ہر دنیاوی چیزاوررشتے کوخداتعالیٰ کے مقابل پر اہمیت نہ دینا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کی شرط رکھی ہے۔ یعنی نیک عمل بھی ہوں اور موقع اور مناسبت کے لحاظ سے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضاکوحاصل کرنے کومدّ نظر رکھتے ہوئے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو حکم دیئے ہیں اُن میں عبادت کا حق اداکرنے کے ساتھ جو انتہائی ضروری ہے فرمایا مومن وہ ہے جو اصلاح بین الناس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے آپس میں اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، فساد اور فتنے نہیں ڈالتے۔ ان کے مشورے دنیا کی بھلائی کے لئے ہیں، نقصان پہنچانے کے لئے نہیں۔ مومن وہ اعلیٰ قوم ہیں جو نیکی کی ہدایت کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ مومن وہ ہیں جو امانتوں کا حق اداکرنے والے ہیں۔ جو اپنے عہدکی پابندی کرنے والے ہیں۔ جو سچائی پر قائم رہنے والے ہیں۔ جو قولِ سدیدکے اس قدر پابندہیں کہ کوئی پیچ داربات ان کے منہ سے نہیں نکلتی۔ اپنوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی خاطرقربانی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ صحابہ نے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کاایسا نمونہ دکھایا کہ اپنی دولت، گھرکاسامان، جائیداد غرض کہ ہر چیزایک دوسرے کے لئے قربان کرنے کے لئے تیارہوگئے۔
پھر مومن کی یہ نشانی ہے کہ حسنِ ظن رکھتے ہیں، ہر وقت بدظنیاں نہیں کر لیتے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے ایک دوسرے کے خلاف دل میں کینے اور بغض نہیں بھر لیتے۔ اگر آپ لوگ، ہرایک ہر فرد جماعت اس ایک بات پرہی سوفیصدعمل کرنے لگ جائے تویہاں ترقی کی رفتاربھی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔ اگر یہاں جاپانی عورتوں سے جنہوں نے شادیاں کی ہیں ہر ایک بیویوں سے اسلامی تعلیم کے مطابق حسنِ سلوک کرنے لگ جائے تویہ بات اُن کے سسرالی عزیزوں میں تبلیغ کا ذریعہ بن جائے گی۔ پھرمومن ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں اور صرفِ نظرکرنے والے ہیں۔ پھر مومن عاجزی دکھانے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو اپنے ایک شعرمیں یوں بیان فرمایاہے کہ: ؎
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ18)
عاجزی دکھاؤ گے ہرایک سے کم تر اپنے آپ کو سمجھو گے تبھی اللہ تعالیٰ کے پیارکوحاصل کرنے والے بن سکوگے۔
پس اگر اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں توعاجزی شرط ہے۔ تکبر اللہ تعالیٰ کو پسندنہیں ہے۔ عہدیداربھی اپنے دائرے میں عاجزی اختیار کریں اور افرادِ جماعت بھی عاجزی اختیارکریں۔ غصہ کو دبانے والے ہوں۔ یہ ایک مومن کی نشانی ہے۔ اپنے عَہدوں کو پوراکریں جیساکہ پہلے بھی مَیں کہہ چکاہوں کہ اللہ تعالیٰ عہدوں کے بارے میں پوچھے گا۔ اور ہم نے اس زمانے میں جو عہدِ بیعت کیا ہے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور اسے پوراکرنے اور نبھانے کی ضرورت ہے اور یہ اس صورت میں ہو گا جب ہم ہر نیک عمل بجالانے والے ہوں گے۔ اپنی زندگیوں کواللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جوجماعت کا مقصدبیان فرمایا ہے اُس کے مطابق چلنے والے ہوں گے۔
پس میں اس وقت زیادہ تفصیل میں تو یہ احکامات بیان نہیں کر سکتا، بے شماراحکامات ہیں۔ ہرایک اپنے جائزے لے کہ کیاوہ قرآنی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے والا ہے؟ کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکرآپ کی خواہش کو پوراکرنے والا ہے؟ کیا اس کاہرعمل خداتعالیٰ کی رضاکے حصول کے لئے ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو شعر میں نے پڑھا ہے۔ کہ ’’بدتربنوہرایک سے اپنے خیال میں‘‘یہ حالت اگر ہم میں سے ہر ایک پرطاری ہو گی تو تبھی ہم دوسروں کو معاف کرنا بھی سیکھیں گے، بدظنیاں کرنے سے بھی بچیں گے اور جماعت کی ترقی کے لئے مفید وجود بنیں گے۔
پس ہرایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے در داو رفکرکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی باتیں ہیں جو تزکیہ نفس کاباعث بنتی ہیں۔ آپس میں محبت، پیاراوربھائی چارے پیداکریں۔ ایک دوسرے کے نقص اور خامیاں تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی خوبیاں تلاش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہرایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کرکے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ175۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ’’تم یادرکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤگے اور اس کے دین کی حمایت میں سامعی ہو جاؤگے توخداتمام روکاوٹوں کو دورکردے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ175۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اعلیٰ کام جس کی طرف توجہ دلائی، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لئے سعی کرو، کوشش کرو۔
اس وقت جس کامیابی کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنا اور آپ کی بعثت کا مقصد بندے کو خداتعالیٰ کے قریب کرنا اور اس سے زندہ تعلق پیدا کروانا ہے۔ اسی طرح مخلوق کے جو ایک جو دوسرے پر حق ہیں اُن کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانااور اُن کی ادائیگی کرنا ہے۔ اور یہ سب کچھ اُس وقت ہو سکتاہے جب ہم کامل مومن بننے کی کوشش کریں تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہر جگہ تک پہنچا سکیں۔ پس پھر مَیں کہتاہوں کہ ہرایک کواپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
جاپان کی جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے، اس میں اگر چند ایک بھی ایسے ہوں جو اپنے قول و فعل میں تضاد رکھتے ہوں تو جماعت میں یہ بات ہر ایک پر اثر انداز ہوتی ہے، خاص طورپر نوجوانوں اور بچوں پر اس کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ وہ دین سے دُور ہٹ سکتے ہیں۔ جو جاپانی احمدیت کے قریب ہیں وہ بھی ایسی باتیں دیکھ کے دور ہٹ جائیں گے۔ جو جاپانی عورتیں یا مرد احمدی مرد یا عورت سے شادی کے بعد احمدیت کے قریب آئے ہیں، وہ بھی دُور چلے جائیں گے۔ پس یہ بہت فکر کا مقام ہے۔ سب سے پہلے اس کی ذمہ داری صدر جماعت اور مشنری انچارج کی ہے کہ وہ ایک باپ کا کردار ادا کرے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہے۔ اپنے عہدہ کے لحاظ سے بھی، اپنے علم کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی ذمہ داری اُسی کی ہے اور وہ اس کے لئے پوچھا جائے گا۔ لا علمی ہو، بے علمی ہو، کم علمی ہو تو اور بات ہے لیکن جب سب کچھ ہو اور پھر اُس پر عمل نہ ہو تو زیادہ سوال جواب ہوتے ہیں۔ اور افرادِ جماعت میں سے بھی ہرایک جو ہے وہ اپنے جائزے لے۔ پھر ہر جماعتی عہدیدار کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اپنے عَہدوں کا حق ادا کر رہا ہے؟ کیا کہیں اس حق کے ادا نہ کرنے سے وہ جماعت میں بے چینی تو نہیں پیداکر رہا؟ پھر ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہیں، اُن کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہرایک اپنی امانتوں اور عہدوں کے بارے میں پوچھاجائے گاکہ کس حد تک تم نے ادا کئے۔ اجلاسوں میں، جلسوں میں جو پروگرام ہیں، وہ جاپانی زبان میں ہونے چاہئیں۔ یہ بھی مجھے بعض شکوے پہنچتے ہیں کہ جو جاپانی چند ایک ہیں اُن کو سمجھ نہیں آتی کہ اجلاسوں میں کیا ہو رہا ہے۔ جن عورتوں کو یا مردوں کو جاپانی زبان اچھی طرح سمجھ نہیں آتی اُن کے لئے اردو میں ترجمہ کا انتظام ہو۔ نہ کہ اردو پروگرام ہوں اور جاپانی میں ترجمے ہوں۔ یہاں بات الٹ ہونی چاہئے۔ سارے اجلاسات جاپانی میں ہوں اور ترجمہ اردومیں ہو۔ جاپانی احمدیوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں کا حصہ بنائیں، ان سے تقریریں بھی کروائیں، ان کو نظام بھی سمجھائیں اور ان سے دوسری خدمات بھی لیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا، اب ایک نئی مسجد انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بن جائے گی، اس سے تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔ ان راستوں پر ہر احمدی کو نگران بن کر کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ جو اِن راستوں پر چلنے کے لئے آئے، جو اِن کی تلاش کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہر پرانا احمدی جو احمدیت کے بارے میں علم رکھتا ہے راہنمائی کے لئے موجود ہو۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، یہ کام نہیں ہو سکتا اگر ہر ایک کا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو، اُس احد خدا کی عبادت کا حق نہ ہو جس کے نام پریہ مسجدبنائی جا رہی ہے، اُس اَحد خدا کی غنٰی کا اِدراک نہ ہوجس کا کسی سے رشتہ نہیں۔ اُس کے لئے معزز وہی ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے، عبادتوں کا حق ادا کرنے والا ہے اور اعمالِ صالحہ بجالانے والا ہے، مخلوقِ خدا کی رہنمائی اور اُسے خدا تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنے والا ہے۔ آپس میں ایسے مومن بن کر رہنے والا ہے جو رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ کی مثال ہوتے ہیں۔ پس ہراحمدی کو یادرکھنا چاہئے کہ یہ صرف عہدیداران کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھے کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف عہدیداروں کی غلطیاں نکالنے پر مصروف نہ ہو جائے بلکہ اپنے جائزے لے کر اپنے آپ کو خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ تعلق جوڑنے والا بنائے، خدائے رحمان سے تعلق جوڑ کر عبدِ رحمان بنے۔ اور اس مسجد کا حق اداکرنے کی تیاری کریں جو انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کو ملنے والی ہے۔ اپنی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ دلانے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے، اپنی کوشش سے نہیں ہوتا۔ اُس کے لئے دعاؤں کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنے کی بھی ضرورت ہے، عاجزی کی بھی ضرورت ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ مسجد کے بارے میں کچھ تفصیل بتاؤں گا۔ جو تفصیل میرے سامنے آئی ہے، وہ اس وقت سامنے رکھتا ہوں۔ پرانا جو مشن ہاؤس 1981ء میں خریدا گیا تھا، اُس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا مکان تھا۔ لیکن بہر حال مسجد بیت الاحد کا رقبہ تقریباً تین ہزار مربع میٹر ہے اور ساٹھ فیصد حصہ مسقف ہے، چھتا ہوا ہے۔ نماز کا ہال ہے جس میں بیک وقت پانچ سو نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کمرے اور رہائشی کوارٹرز ہیں، تقریباً آٹھ لاکھ ڈالر میں اخراجات سمیت اس کی خرید کی گئی ہے۔
بہر حال جب آپ کو توجہ دلائی گئی کہ نیا مرکز خریدیں تو جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں، جماعت جاپان نے مالی قربانیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ خرید لی۔ چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اللہ کے فضل سے بڑی قربانی کی ہے، اس لحاظ سے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی رقمیں ادا کی ہیں۔ بچوں نے اپنے جیب خرچ ادا کئے، عورتوں نے اپنے زیور ادا کئے اور بعض نے اپنے پاکستان میں گھر بیچ کر رقمیں ادا کیں یا کوئی جائیداد بیچ کر رقم ادا کی۔ بعض نے اپنے قیمتی اور عزیز زیور، پرانے بزرگوں سے ملے ہوئے زیور، بیچ کر مسجد کے لئے قیمت ادا کی۔ غرض کہ مالی قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانی کرنے کی آپ نے کوشش کی اور پیش کیں۔ اللہ تعالیٰ یہ سب مالی قربانیاں قبول فرمائے اور آپ لوگوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔
اب جیسا کہ مَیں نے کہا تھا مسجد کی جو رجسٹریشن ہے وہ آخری مراحل میں ہے، اگر پہلے ہو جاتی تو شاید یہ جمعہ وہیں ہوتا، لیکن انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے جلد مل جائے گی۔ اور کہتے ہیں کہ جن جاپانی وکیل کا میں نے ذکر کیا ہے، اگر وہ بھی فیس لیتے تو کم از کم بیس ہزار ڈالر فیس ہوتی۔ تو یہ بھی اُن کا بڑا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جزا دے۔
پس یہ مسجد کی جو کوشش ہے، یہ آپ نے چند مہینوں میں کی۔ ان کوائف سے ظاہر ہو گیا کہ جو مسجد کی جگہ ملی ہے یہ غیر معمولی طور پر ایک تو قربانیاں جو آپ نے کیں وہ تو کیں، اس کے ملنے کی جو تاریخ ہے وہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی سوچ کے اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور ایک دم انتظام ہو گیا۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ یہ جگہ ملنا آپ کی کوششوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ثمرہ ہے۔ اتنی وسیع جگہ آپ کو مل گئی ہے۔ ایسی جگہ ہے کہ میرے خیال میں چند ماہ پہلے تک تو آپ میں سے بعض تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کہ یہ جگہ مل سکتی ہے۔ پس یہ چیز ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانے والی ہو۔
لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ فضل جو آج جماعت احمدیہ پر دنیا میں ہر جگہ ہو رہے ہیں، یہ دشمنانِ احمدیت کے اُن بلند بانگ دعووں کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے، اور جماعت احمدیہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کی تائید کا فعلی اظہار ہے، جو دشمن نے خلافت ثانیہ میں کئے تھے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور احمدیت کو نعوذ باللہ ختم کر دیں گے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 177)
اُس وقت حضرت مصلح موعودنے تحریکِ جدید کی بنیاد رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ اس کا جواب تبلیغ اور دنیا میں پھیل جانا ہے۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 23نومبر 1934ء الفضل قادیان جلد 22نمبر 66 مؤرخہ 29نومبر 1934 صفحہ 113-114)
چنانچہ احبابِ جماعت نے اُس وقت بھی مالی قربانیاں دیں اور دنیا میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام بھی پھیلنا شروع ہوا۔ مبلغین باہر گئے، مسجدیں بنیں اور انسانیت کی خدمت کے دوسرے کام بھی ہونے شروع ہوئے۔ ہسپتال بنے، سکول بنے۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے جو تھے اُن کا تو پتہ نہیں نام و نشان بھی ہے کہ نہیں لیکن جماعت احمدیہ آج دنیا کے دو سو سے اوپر ممالک میں موجود ہے۔ ہر سال مسجدیں بھی بن رہی ہیں اور لاکھوں لوگ اسلام میں احمدیت کے ذریعہ شامل بھی ہو رہے ہیں۔ اس سال اللہ تعالیٰ نے مسجد کی صورت میں آپ کو، جماعت احمدیہ جاپان کو بھی ایک انعام سے نوازا ہے جس کا بظاہر ملنے کا فوری طورپر کوئی امکان بھی نہیں تھا، جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں۔ پس ہمارے سر اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر جھکتے چلے جانے چاہئیں اور اس کا حقیقی حق جیسا کہ میں نے کہا یہی ہے کہ اپنے اندر ایک ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریکِ جدید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا اظہار جو ہو رہا ہے، اس کا ایک اور اظہار کرنے کا مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تحدیث بھی ضروری ہے۔ اتفاق سے تحریکِ جدید کا نیا سال میرے اس دورہ کے دوران شروع ہو رہا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ میرا یہ دورہ جو آسٹریلیا اور مشرقِ بعید کا دورہ ہے اس میں تحریکِ جدید کا گزشتہ سال ختم ہوا ہے جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بے شمار نظارے کئے ہیں۔ اس دورے کے دوران بھی وہ نظارے دیکھے ہیں جو یقینا ہماری کوششوں کا نتیجہ نہیں تھے۔ اس کی تفصیل تو انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور وقت بتاؤں گا۔ جیسا کہ میں نے کہا، اس وقت تحریکِ جدید کا سال ختم ہوا تو میں نے سوچا کہ اس کا اعلان، یعنی نئے سال کے آغاز کا اعلان بھی اس دورے کے دوران جاپان سے کر دوں۔ پس اس وقت میں اس کے مختصر کوائف جو حسبِ روایت پیش کیا کرتا ہوں وہ کر کے تحریکِ جدید کے نئے سال کا جو اسّی واں سال شروع ہوا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ، اُس کا اعلان کرتا ہوں۔ ان کوائف کے مطابق جو رپورٹس آئی ہیں، بہت ساری رپورٹس نہیں بھی آتیں، اُن کے مطابق اس سال تحریکِ جدید میں جماعت کو اٹھہتر لاکھ انہتر ہزار ایک سو پاؤنڈ (78,69,100) کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی اور جو گزشتہ سال سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے۔ اضافہ تو شاید زیادہ ہو، کیونکہ مقامی کرنسیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، لیکن پاؤنڈ کی قیمت کے مقابلے میں بہت سارے ممالک کی کرنسی کی قیمت کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ بظاہر کم نظر آتا ہے لیکن ملکوں کے لحاظ سے بہت بڑے بڑے اضافے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی جو پوزیشن ہوتی ہے وہ تو قائم ہے ہی، اُس کے بعد پوزیشن کے لحاظ سے نمبر ایک جرمنی ہے، ویسے نمبر دو۔ لیکن پاکستان کے باہر ملکوں میں نمبر ایک جرمنی پھر امریکہ پھر برطانیہ پھر کینیڈا پھر انڈیا، انڈونیشیا، آسٹریلیا پھر عرب کی دو جماعتیں ہیں پھر گھانا اور سوئٹزرلینڈ۔ اور جرمنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے لحاظ سے بھی بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ انہوں نے تحریکِ جدید میں ہی ساڑھے تین لاکھ یورو سے زائد کا اضافہ کیا ہے۔ اور امریکہ سے تقریباً ایک لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ زیادہ وصولی کی ہے۔ امریکہ نے برطانیہ سے پچہتّر ہزار پاؤنڈ زیادہ وصولی کی ہے۔ اور برطانیہ نے کینیڈا سے چار لاکھ پاؤنڈ زیادہ وصولی کی ہے اور اُس کے بعد جیسا کہ میں نے تفصیل بتائی، وہ ہے۔
جرمنی کے چندہ جات میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے مجھے ہمیشہ امیر صاحب جرمنی اور عاملہ کے یہ فکر والے الفاظ سامنے آ جاتے ہیں کہ جب میں نے یہ پابندی لگائی تھی کہ وہ احمدی جو کسی ایسی جگہ کام کر رہے ہوں جہاں حرام کام ہوتے ہیں، شراب بیچی جاتی ہے یا سؤر کا کاروبار ہوتا ہے، اُن سے چندہ نہیں لینا، تو اُن کی فکر یہ ہوتی تھی کہ ہمارے چندوں میں کمی آ جائے گی۔ اور پہلے سال ہی جب انہوں نے فکر کا اظہار کیا تو اُن کے چندوں میں کئی لاکھ کا اضافہ ہوا اور کوئی کمی نہیں آئی۔ اور اس سال پھر انہوں نے صرف تحریکِ جدید میں ہی ساڑھے تین لاکھ یورو کا زائد چندہ ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔
فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ پھر سوئٹزرلینڈ ہے، پھر آسٹریلیا ہے، پھر جاپان ہے۔ جاپان کی بھی چوتھی پوزیشن فی کس ادائیگی میں ہے۔ یعنی کہیں نہ کہیں نمبر آیا ہے۔ برطانیہ پھر جرمنی پھر ناروے، فرانس، بیلجیم، کینیڈا۔
اور مقامی کرنسی کے لحاظ سے جو اضافہ ہوا ہے سب سے زیادہ، گھانا میں ہوا ہے، پھر جرمنی میں پھر آسٹریلیا میں پھر پاکستان پھر برطانیہ پھر کینیڈا پھر انڈیا پھر امریکہ۔
اور میں نے کہا تھا اس سال چندہ ادا کرنے والوں کی طرف زیادہ توجہ دیں، شاملین کو زیادہ سے زیادہ کریں تو سوا دو لاکھ نئے چندہ دہندگان شامل ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد گیارہ لاکھ چونتیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
افریقہ کے ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانا سب سے آگے ہے، پھر نائیجیریا، ماریشس، بورکینا فاسو، تنزانیہ، گیمبیا، بینن، کینیا، سیرالیون اور یوگنڈا۔
شاملین میں سب سے زیادہ کوشش سیرالیون نے کی ہے، اُس کے بعد پھر مالی ہے، بورکینا فاسو ہے، گیمبیا ہے، بینن ہے، سینیگال، لائبیریا، یوگنڈا، تنزانیہ۔
دفتر اوّل کے مجاہدین کی تعداد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سو چھبیس زندہ ہیں۔ باقی سب کے کھاتے چل رہے ہیں۔ تحریکِ جدید کی مالی قربانی میں پاکستان کی جو تین بڑی جماعتیں ہیں، اُن میں اول لاہور ہے، دوم ربوہ ہے، سوم کراچی۔ اور اس کے علاوہ دس بڑی جماعتیں جو ہیں، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، کوئٹہ، شیخوپورہ، پشاور، حیدرآباد، بہاولنگر، اوکاڑہ، نوابشاہ۔
قربانی پیش کرنے والے اضلاع جو ہیں اُن میں سیالکوٹ، سرگودھا، عمر کوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، بدین، نارووال، سانگھڑ، ننکانہ صاحب شامل ہیں اور رحیم یار خان اور ٹوبہ ٹیک سنگھ برابر ہیں۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی جماعتیں نوائس نمبر ایک پہ، روڈرمارک، کولن، ہائیڈل برگ، کوبلنز، ڈرائش، مہدی آباد، وائن گارٹن، وزن برگ، نِڈا۔ اور وصولی کے لحاظ سے لوکل امارتیں اُن کی ہیں: ڈارم شَٹَد، ہمبرگ، فرینکفرٹ، گروس گراؤ، ویزبادن، مورفیلڈن والڈارف، آفن باخ، مَن ہائم، ریڈ شٹڈ اور ڈیٹسن باخ۔
امریکہ کی جو وصولی کے لحاظ سے جماعتیں ہیں، لاس اینجلس، اِن لینڈ امپائر، سلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ، ہیرس برگ، لاس اینجلس ایسٹ، کولمبس، سیٹل، لاس اینجلس ویسٹ، سلور سکرین اور فیون ایکس۔
برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں۔ مسجد فضل، ویسٹ ہل، نیو مولڈن، ووسٹر پارک، رینز پارک، برمنگھم سینٹرل، مسجد ویسٹ، بیت الفتوح، تھارٹن ہیتھ اور چِیم۔
اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کے پانچ ریجن ہیں، لنڈن، نارتھ ایسٹ، مڈلینڈ ساؤتھ اور مڈل سیکس۔
کینیڈا کی جماعتیں ہیں، پیس ولیج، کیلگری، وان، وینکوور، ایڈ منٹن، ڈرہم، آٹوا، سسکاٹون، لائٹ منسٹر۔
انڈیا کی دس جماعتیں ہیں، کیرولائی(کیرالہ)، کالی کٹ (کیرالہ)، حیدرآباد، آندھرا پردیش، کنا نور ٹاؤن (کیرالہ)، ونگاڈی(کیرالہ)، قادیان (پنجاب)، کولکتہ (بنگال)، یادگیر(کرناٹک)، چنائی، تامل ناڈو، موتھوٹم (کیرالہ)۔
کیرالہ کی جماعتیں ماشاء اللہ کافی ایکٹو (active) ہیں۔ اور بھارت کے پہلے دس صوبہ جات میں کیرالہ، آندھرا پردیش، جموں کشمیر، کرناٹک، بنگال، اڑیسہ، پنجاب، یو۔ پی، مہاراشٹرا، دہلی۔
اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ سے بھی اور انڈیا سے بھی دوسری جگہوں سے بھی مالی قربانی کے غیر معمولی نمونوں کے واقعات آئے ہیں، وقت نہیں ہے کہ اُن کی تفصیل بیان کی جائے۔ بہر حال کسی وقت بیان کر دی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس سال جماعت کبابیر نے بھی لکھا ہے، جب پتہ لگا کہ جاپان سے تحریکِ جدید کا اعلان ہونا ہے تو ہماری جماعت نے گزشتہ سال کے مقابلے میں اپنی قربانی بڑھا کر پیش کی۔ یہ عرب ممالک میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ اپنے لحاظ سے انہوں نے دوگنی تقریباً بیس ہزار پاؤنڈ کی قربانی دی ہے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے جو کسی بھی صورت میں قربانی کر رہے ہیں اور تحریکِ جدید میں بھی جنہوں نے حصہ لیا، اُن کو بھی، اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور اُن کو ایمان اور ایقان میں بھی بڑھاتا چلا جائے۔ اور یہ قربانیاں خالصۃً لِلّٰہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی فرماتا رہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح جماعت احمدیہ جاپان بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی اور اس طرف قدم مارنے والی جماعتوں میں سے ہے۔ اخلاص ووفا اور مالی قربانیوں میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے۔
انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ ہم جب مساجد بناتے ہیں یا اجتماعی عبادت کے لئے کوئی جگہ خریدتے ہیں تو یہی مقصد پیشِ نظر ہونا چاہئے کہ ہم نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی پیدائش کے مقصد کی بلندیوں پر جانا ہے۔
یہ لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ آپ نے اس مسجد کے بنانے کے لئے کیا قربانیاں دیں؟ لوگ دیکھیں گے کہ آپ کی عملی حالت کیا ہے؟ آپ کا خداتعالیٰ سے زندہ تعلق کیسا ہے؟ آپ میں شامل ہو کر اُن لوگوں میں کیا انقلاب آسکتاہے؟
کوئی نئی چیز اگر ہم ان کو دے سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کاطریق سکھا سکتے ہیں۔ ہم یہی ان کو بتاسکتے ہیں کہ اب زندہ مذہب صرف اسلام ہے۔ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی عبادت کاحق کس طرح اداہوتاہے؟ ہم یہ بتاسکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کس طرح دعاؤں کو سنتاہے؟ ہم یہ بتاسکتے ہیں کہ خداتعالیٰ اپنے بندوں سے کس طرح کلام کرتا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے ہمیں اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ خداتعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔ اپنی عبادتوں کے حق اداکرنے ہوں گے۔ آپس میں محبت اور پیار سے رہنا ہو گا۔ اپنے اخلاق کے وہ اعلیٰ معیارحاصل کرنے ہوں گے جو جاپانی قوم کے اخلاق سے بہتر ہوں۔ اس وقت جس کامیابی کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنا اور آپ کی بعثت کا مقصد بندے کو خداتعالیٰ کے قریب کرنا اور اس سے زندہ تعلق پیدا کروانا ہے۔ اسی طرح مخلوق کے جو ایک دوسرے پر حق ہیں اُن کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانااور اُن کی ادائیگی کرنا ہے۔
اب ایک نئی مسجد انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بن جائے گی، اس سے تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔ ان راستوں پر ہر احمدی کو نگران بن کر کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ جو اِن راستوں پر چلنے کے لئے آئے، جو اِن کی تلاش کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہر پرانا احمدی جو احمدیت کے بارے میں علم رکھتا ہے راہنمائی کے لئے موجود ہو۔
مسجد بیت الاحد کا رقبہ تقریباً تین ہزار مربع میٹر ہے اور ساٹھ فیصد حصہ مسقف ہے، چھتا ہوا ہے۔ نماز کا ہال ہے جس میں بیک وقت پانچ سو نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کمرے اور رہائشی کوارٹرز ہیں، تقریباً آٹھ لاکھ ڈالر میں اخراجات سمیت اس کی خرید کی گئی ہے۔
تحریک جدید کے 80ویں سال کے آغاز کا اعلان۔
اس سال تحریکِ جدید میں جماعت کو اٹھہتر لاکھ انہتر ہزار ایک سو پاؤنڈ (78,69,100) کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی جو گزشتہ سال سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے۔
تحریک جدید میں مالی قربانی میں پاکستان اوّل، جرمنی دوم، امریکہ سوم اور برطانیہ چوتھے نمبر پر رہے۔
مختلف پہلوؤں سے مالی قربانی پیش کرنے والے ممالک اور جماعتوں کا جائزہ۔
اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے جو کسی بھی صورت میں قربانی کر رہے ہیں اور تحریکِ جدید میں بھی جنہوں نے حصہ لیا، اُن کو بھی، اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور اُن کو ایمان اور ایقان میں بھی بڑھاتا چلا جائے۔ اور یہ قربانیاں خالصۃً لِلّٰہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی فرماتا رہے۔
فرمودہ مورخہ8 نومبر2013ء بمطابق 8 نبوت 1392 ہجری شمسی بمقام ناگویا، جاپان
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔