مشرقِ بعید کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضل

خطبہ جمعہ 15؍ نومبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ چند ہفتے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، مَیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور سنگاپور، جاپان وغیرہ کے دورے پر رہا ہوں۔ جیسا کہ عموماً میرا طریق ہے دوروں کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوتی ہے واپس آ کر اُس کا ذکر کیا کرتا ہوں۔ سو آج مختصراً یہ ذکر آپ کے سامنے کروں گا۔

اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گننا اور اس کی انتہا جاننا تو ممکن نہیں کیونکہ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم فضلوں کی حدوں کو چھونے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ فوراً ہی ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے اور ہماری اس غلط فہمی کو دور کر دیتا ہے کہ جن باتوں کو تم بیشمار فضل سمجھتے ہو، یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ اب میں تمہیں ایک قدم اَور آگے بڑھاتا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شمار اور اُس کی انتہا جاننا انسانی بس سے باہر ہے۔ خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کا سلسلہ ہر موڑ پر کھڑا ہمیں ایک اور خوشخبری سنا رہا ہو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں اور جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ فضلوں کی انتہا کا ذکر تو دور کی بات ہے، مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کس فضل کو لے کر بات شروع کروں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک خلاصہ مَیں پیش کروں گا جو ان سات ہفتوں کے دوران سفر میں ہمیں نظر آئے۔ ان جگہوں کی کچھ تفصیل تو وکیل التبشیر صاحب کی رپورٹس جو الفضل کو وہ بھیج رہے ہیں، اُس میں شائع ہو رہی ہیں، اُس میں سے بعض لوگوں نے پڑھ لی ہوں گی لیکن بعض باتوں کی تصویر کھینچنا، تصویر کَشی کرنا اور بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ غیروں کے تأثرات جو غیر جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کرتے ہیں، اُن کا سو فیصد بیان نہ مَیں کر سکتا ہوں، نہ کوئی اور کر سکتا ہے۔ ہاں ایم ٹی اے پر کچھ حد تک یہ دیکھے جا سکتے ہیں، شاید کچھ آبھی گئے ہوں۔ انگریزی دان طبقے کے لئے پریس ڈیسک نے اس دفعہ اچھا انتظام کیا ہوا تھا اور دورے کے جو مختلف خاص اہم مواقع تھے اُن کی خبر دنیا کے احمدیوں تک پہنچتی رہی ہے۔ بہرحال ہر دورہ اور ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کے شکر کے مضمون کی نئی آگاہی دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ بہرحال اب اس تمہید کے بعد مَیں حالاتِ سفر اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتا ہوں۔ ہمارے دورے کی پہلی منزل سنگاپور تھی۔ سنگاپور ائیرپورٹ پر سنگاپور کے احمدیوں کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائشیا کے بعض عہدیداران مرد و خواتین بھی آئے ہوئے تھے اور اُن سب کی ایک عجیب جذباتی کیفیت تھی جس کا کچھ اندازہ آپ کو ایم ٹی اے پر خطبے کے دوران بعض جھلکیاں دیکھ کے ہو گیا ہو گا۔ بہرحال سنگاپور کا یہ دورہ تقریباً دس دن کا تھا اور اس میں انڈونیشیا، ملائشیا، برونائی، فلپائن، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویتنام، پاپوا نیوگنی، سری لنکا، انڈیا اور میانمار سے آنے والے احمدیوں اور وفود سے ملاقات ہوئی۔ انڈونیشیا سے تقریباً اڑھائی ہزار کی تعداد میں احمدی آئے ہوئے تھے اور ان میں سے اکثر احمدی کوئی ایسے اچھے کھاتے پیتے نہیں تھے لیکن وفا اور اخلاص سے پُر تھے۔ بعض قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر یا جائداد بیچ کر سفر کا خرچ کر کے آئے تھے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ شاید سفر کے دوران کسی خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ ان لوگوں کو فکر تھی تو یہ کہ ہمارے دین کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دین پر قائم رکھے۔ ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جو بڑے عرصے سے تقریباً ایک سال سے گھر سے بے گھر ہیں۔ وہاں کے رہنے والوں نے اُن کو اُن کے گھروں سے نکال دیا ہے اور عارضی shelter میں رہ رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ایمان کو قربان نہیں کیا ہے بلکہ اِن کے ایمان مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جو جماعتی مصروفیات ہوتی ہیں، meetings ہیں، ملاقاتیں ہیں، کلاسیں ہیں۔ غیروں کے ساتھ جو دوسرے پروگرام تھے، وہ یہاں سنگاپور میں بھی ہوئے۔ ایک پروگرام reception کا تھا، جس میں انڈونیشیا سے آنے والے غیر از جماعت بھی شامل تھے، جن میں پروفیسر بھی تھے، سکالرز بھی تھے، سیاستدان بھی تھے۔ پڑھا لکھا طبقہ تھا اُن میں سے بعض جرنلسٹ بھی تھے۔ دو اخباروں کے جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے انٹرویو لیا اور جماعت کے بارے میں تعارف اور جو کچھ جماعت کے ساتھ وہاں ہو رہا ہے اُس کے بارے میں اُن سے کچھ باتیں ہوئیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جو احباب شامل ہوئے اُن میں جیسا کہ میں نے کہا غیر از جماعت بھی تھے، ان کی تعداد اڑتالیس افراد پر مشتمل تھی۔ ان میں یونیورسٹی کے پروفیسر، سابق ممبر پارلیمنٹ، ایک مذہبی جماعت ’’نَہْجَۃُ الْعُلَمَاء‘‘ کے آٹھ نمائندگان بھی اس میں شامل ہوئے اور اُن میں سے ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکچر جو تھوڑا سا مختصر خطاب تھا وہ سننے کے بعد کہنے لگے کہ انڈونیشیا آ کے ہماری یونیورسٹی میں بھی لیکچر دیں ہم وہاں arrange کرتے ہیں۔ میں نے کہا اگر آپ کر سکتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے لیکن جو لوگ وہاں شور مچائیں گے اس کا شاید آپ کو اندازہ نہیں۔ بہرحال اُن میں شرافت بہت تھی۔ بعض سعید فطرت تھے حالانکہ علماء کی کونسلوں کے ممبر تھے۔

سنگاپور کی اس reception میں وہاں کے ایک مہمان Mr. Lee Koon Choyبھی تھے۔ یہ 29سال تک آٹھ ممالک میں سنگاپور کے سفیر اور ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔ ممبر آف پارلیمنٹ تھے۔ سینیئر منسٹر آف سٹیٹ رہ چکے ہیں اور سنگاپور کے بانیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں ساٹھ کی دہائی میں مصر میں سفیر تھا اُس وقت مصر کے اور سارے عرب کے حالات بہت اچھے تھے، امن قائم تھا لیکن اب گزشتہ سالوں سے عرب ممالک میں امن برباد ہو گیا ہے اور اسلام کا ایک غلط تأثر پیش کیا جا رہا ہے۔ کہنے لگے: لیکن مجھے اس بات سے خوشی ہے اور میں اس بات کو سراہتا ہوں کہ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ دنیا کے سامنے حقیقی اور پُر امن اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں اور پیغام دے رہے ہیں۔ یہ ابھی بھی باوجودیکہ ریٹائر ہو چکے ہیں، سنگاپور کے ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کی وہاں کا ہر شخص بڑی عزت اور احترام کرتا ہے۔

اسی طرح Indonesian Mosuqe Council’s Muslimah Talent Department کے ہیڈ اور سٹیٹ اسلامی یونیورسٹی جکارتہ میں وِیمن سٹڈی سینٹر کے ہیڈ اور لیکچرر Mr Ida Rosyidah نے میرا خطاب سننے کے بعد کہا کہ جماعت کو چاہئے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے علوم و فنون، ترقی پذیر ممالک میں لے کر جائے اور اس طرح یہ عالمی نا انصافی اور غربت سے لڑنے کے لئے سب کی رہنما جماعت بنے۔ یہاں جو میرا لیکچر تھا وہ دنیا کی اقتصادی حالت اور اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے کے موضوع پر تھا۔ تو اس بات پر انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا۔ کہتے ہیں آج دنیا کی کسی بھی تنظیم کے پاس اس قسم کا نظام اور قیادت نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کے پاس ہے۔ آج جماعت احمدیہ ہی اسلام کا صحیح نمونہ ہے۔ اور یہ وہاں کی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ پھر تاسک ملایا میں یوتھ موومنٹ کے ایک ممبر ہیں، وہ خطاب کے بعد کہنے لگے کہ یہ تمام انڈونیشین لوگوں تک پہنچنا چاہئے تا کہ وہ امن اور ہم آہنگی پر مشتمل اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکیں۔ پھر ایکMr Kunto Sofianto صاحب ہیں۔ یہ پی ایچ ڈی ہیں۔ انڈونیشیا میں یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ انڈونیشیا کے وہ لوگ جو احمدیوں کے مخالف ہیں وہ خلیفۃ المسیح سے ملیں اور ان کی باتیں سنیں تا کہ اُن کے دل کھلیں۔ آج صرف جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہی ہیں جو اسلام کو امن پسند مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پھر انڈونیشین اخبار ٹریبیون جابار (Tribune Jabar) کے جرنلسٹ جو احمدیت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خلیفۃ المسیح نے انسانیت، انصاف اور امن پر مبنی اقتصادی نظام کے بارے میں جو تعلیمات بیان کی ہیں اس نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے۔

ایک انگریز نوجوان سنگاپور میں گزشتہ ستائیس سال سے مقیم ہیں اور وہاں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہیں ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے پروگرام میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو میری کمپنی والوں نے مجھے روکا کہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہونا۔ دو تین بار روکا۔ ہو سکتا ہے یہ کسی مسلمان کی ہو۔ کہتے ہیں مجھے یہ بھی کہا کہ تمہیں فارغ کر دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود میں شامل ہوا۔ پھر اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مَیں پہلے سے مسلمان ہوں لیکن اسلام کی جو سچی اور حقیقی تعلیم آج سنی ہے وہ زندگی میں پہلی بار سنی ہے اور اسلام کی یہ تصویر پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔ بلکہ اس بات پر بھی مائل تھے کہ اسلام احمدیت کے بارے میں مزید معلومات لوں گا تا کہ مجھے صحیح اسلام کا پتہ لگ سکے اور میں جماعت میں شامل بھی ہونا چاہوں گا اور جب یہاں یوکے آؤں گا تو ملوں گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کرے۔ اللہ ان کا سینہ کھولے۔ فلپائن سے بھی کچھ لوگ آئے ہوئے تھے۔ اُس کی یونیورسٹی میں ایشین اور اسلامک سٹڈی کے پروفیسر نے یہ اظہار کیا۔ پہلے تو انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ ان کو یہاں بلایا گیا، آنے کا موقع دیا گیا، ملاقات ہوئی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ جو باتیں ہوئیں (میرے ساتھ بیٹھ کے ان کی کافی باتیں ہوئیں ) اُن سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتی ہے اور میرا کہا کہ انہوں نے اکٹھا کرنے کا جو طریق بتایا ہے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور قرآنِ کریم کی جو حقیقی تعلیم ہے اُس کی طرف واپس چلے جائیں۔ اسی طرح فلپائن کے ایک سیکرٹری ایجوکیشن رہ چکے ہیں، یہ مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ جماعت غالب آنے والی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا تھا آج اسی طرح جماعت احمدیہ پر ظلم ہو رہا ہے۔ جس طرح اسلام کو پہلے زمانے میں فتح حاصل ہوئی اُسی طرح آج جماعت احمدیہ کو بھی فتح حاصل ہو گی جو کہ یقینی ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں۔ احمدیت کو جب عظیم الشان فتح حاصل ہو گی تو ہم بھی اُس میں شامل ہوں گے۔ ان میں سے بعض دل سے تقریباً احمدی ہوئے ہوئے ہیں صرف بعض تنظیمیں وہاں ایسی ہیں جن کا اُن کو خوف ہے۔ یہاں جو مختلف پروگرام تھے ان میں سے اصل پروگرام یہی سنگاپور کی reception کا تھا، باقی تو جمعہ تھا اور ملاقاتیں تھیں۔ بہرحال اس کے بعد آسٹریلیا کا دورہ شروع ہوا۔ وہاں سڈنی (Sydney) میں چند دن رہ کر میلبورن (Melbourne) میں گیا۔ میلبورن وہاں سڈنی سے کوئی آٹھ نو سو میل دور ہے۔ وہاں بھی Princess Reception Centre میں ایک reception تھی۔ اس میں تقریباً 220 کے قریب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مہمان شامل ہوئے۔ جن میں ممبر آف پارلیمنٹ بھی تھے، فوج کے اعلیٰ افسران، بلکہ اُن کے فوج کے جو آرمی چیف ہیں اُن کے نمائندے بھی شامل ہوئے تھے، میجر جنرل کے rank کے آدمی تھے اور مختلف ممالک کے کونسلرز تھے۔ فیڈرل پولیس کے افسران تھے، پھر دوسرے مقامی کونسلر تھے، پروفیسر تھے، اسی طرح مختلف لوگ تھے۔

ایک سٹیٹ ممبر پارلیمنٹ وکٹوریہ Ms Inga Peulich نے کہا کہ آپ کا یہ پیغام ایسا پیغام ہے جس کی تمام آسٹریلین تائید کرتے ہیں جو کہ مختلف قوموں اور تمدنوں کے باہم اختلاط سے ایک قوم بنے ہیں اور بطور آسٹریلین ہم اس طرح کے اعلیٰ پیغام کو اپنانا چاہتے ہیں اور اسی طرح آپ جیسے لوگوں سے مکمل تعاون کرتے ہیں جو ایسے پیغام کو پہنچا رہے ہیں۔ یہاں بھی اسلام کا پیغام امن اور سلامتی کے بارے میں تھا۔

پھر ایک اَور ممبر آف پارلیمنٹ کہتی ہیں آج جو پیغام آپ نے دیا ہے وہ مذہب سے بالا ہے۔ وہ انسانیت کا پیغام ہے۔ ہمیں سب کو یہی پیغام اپنانا ہے۔ امن، انصاف، رواداری اور خدمتِ انسانیت ایسی خوبیاں ہیں جو امام جماعت احمدیہ نے آج بیان کی ہیں۔ ہم نے انہی خوبیوں کو لے کر چلنا ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ میں اس بات کو جانتی ہوں کہ احمدی عورتیں اس پیغام کو نہ صرف آگے پہنچا رہی ہیں بلکہ عملی طور پر اس پر عمل بھی کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں تو یہی جانتی ہوں کہ احمدی بچے بااخلاق، تعلیم یافتہ اور انتہائی مؤدّب ہوتے ہیں۔ بس ہم سب کو یہی خوبیاں اپنانی چاہئیں۔ تو یہ ایک تأثر ہے جو احمدیوں کا دنیا میں اکثر جگہوں پر ہے۔ جرمنی میں بھی یا کہیں بھی جاؤں تو مجھ سے جب باتیں ہوں تو اس حوالے سے وہ ذکر کرتے ہیں۔ پس اس تأثر کو ہر عورت کو، ہر بچے کو آگے بڑھانا چاہئے اور اپنی سوچ ہمیشہ اونچی رکھنی چاہئے۔ کسی قسم کے complex میں آنے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہیں اور نہ صرف تیار ہیں بلکہ اُس کو پسند کرتے ہیں اور اپنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح یہاں Church of Jesus Christ کے Murray Lobley صاحب تھے۔ کہتے ہیں کہ جس انداز سے امام جماعت احمدیہ نے امن کی بات کو انتہائی عام فہم الفاظ میں بیان کیا ہے ہر آسٹریلین اس کو باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ آج اس ہال میں موجود ہر شخص کے دل کی یہی آواز تھی کہ امن کے قیام کے لئے محبت ہی واحد راستہ ہے اور بہت ہی اچھا ہوا کہ آج ہم یہ پیغام اپنے ساتھ اپنی اپنی communities میں لے کر جائیں گے۔

پھر ایک مہمان نے کہا کہ مَیں اور میری بیوی گزشتہ اٹھارہ سال سے سچ کی تلاش میں ہیں اور آج رات جو ہم نے سنا وہ سچ کے سوا کچھ نہ تھا۔ امام جماعت کا خطاب ایک مکمل پیغام تھا۔ اب صرف ایک ہی بات ہے کہ ہم سب کو اس پر عمل کرنا چاہئے اور اس پیغام کو اپنے دلوں میں سجا لینا چاہئے۔ خلیفۃ المسیح نے صرف یہ نہیں بتایا کہ امن کیسے قائم ہو سکتا ہے بلکہ یہ بھی بتایا کہ اگر امن قائم نہ ہوا تو کیا ہو سکتا ہے۔

اسی طرح وہاں کا آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کا ایک مشہور چینل اے بی سی ہے۔ سرکاری چینل ہے۔ اُس کے ایک جرنلسٹ نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا کہ امام جماعت کا خطاب انتہائی نَپا تلا اور متوازن اور منصفانہ تھا اور حقیقت پر مبنی تھا۔ اور اس خطاب نے ہمارے ذہنوں کو کھول دیا ہے۔

پھر ایک مہمان خاتون Adrienne Green نے کہاکہ مَیں بہت فخر محسوس کر رہی ہوں کہ آج میں نے ایک شاندار تقریب میں شمولیت کی اور میں بہت متأثر ہوں جو انہوں نے دنیا میں امن کے قیام کے بارے میں بات کی ہے۔ میں آج برملا یہ بات کہتی ہوں کہ مجھے آپ کے اقدار سے بہت محبت ہے اور میں خواہش کرتی ہوں کہ میرے ملک آسٹریلیا کے لوگ ان اقدار کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنائیں اور میں چاہتی ہوں کہ آپ ضرور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اور یہ باتیں کہتے ہوئے موصوفہ کے آنسو نکل رہے تھے۔

ایک کونسلر Knox City کے تھے وہ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہیں کہ امام جماعت کے خطاب سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ آپ اس بات کا پرچار کرتے ہیں جو حقیقت میں آپ کا مذہب ہے، یعنی امن و سلامتی کا مذہب۔ امام جماعت نے بالکل درست فرمایا کہ امن کے ذریعہ مسائل کا حل ہی درحقیقت امن کا قیام ہے۔ اس ملک آسٹریلیا کی تاریخ دو سو سال پرانی ہے۔ یعنی Aboriginals جو اس زمین کے اصل مالک ہیں اُن کے علاوہ باہر سے آنے والے افراد تو دو سو سال قبل ہی یہاں آئے۔ آج ایک مذہبی لیڈر کو اتنا خوبصورت اور عظیم الشان پیغام دیتے دیکھ کر ایسا لگا کہ آسٹریلیا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے یہی بات اپنی بیوی سے کہی تھی کہ جماعت احمدیہ کے افراد کے دلوں کی پُرخلوص محبت اُن کے چہروں اور جذبات سے جھلکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ احمدیہ کمیونٹی اور زیادہ باہر نکلے اور بہت سے لوگوں کو اپنا امن اور محبت کا پیغام پہنچا دے۔

پس اب آسٹریلیا کے احمدیوں کا کام ہے کہ اس کو لے کر آگے بڑھیں۔ ایک پاکستانی مسلمان بھی وہاں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس پروگرام کا جو وقار تھا میں نے کسی اور تقریب میں کبھی نہیں دیکھا۔

صومالیہ کے کونسل جنرل بھی موجود تھے۔ کہتے ہیں میں نے ایک ایک لفظ آپ کا انہماک سے سنا اور بڑا اثر ہوا۔

وہاں کویت کے ایک غالب جابر صاحب تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب سپرنگ کے بارے میں تجزیے سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اور یہ خطاب جو آپ نے کیا اس میں کافی نڈر لگے لیکن جو کچھ بھی آپ نے کہا وہ بالکل سچائی پر مبنی تھا۔ میرا یہ خیال نہیں تھا کہ تجزیہ اس قدر مکمل اور واضح ہو گا۔

یہاں تو بے شمار لوگ تھے، جیسا کہ میں نے بتایا 220 کے قریب لوگ تھے، ہر ایک نے اپنے تأثرات دئیے، چند ایک کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے بعد پھر جو ملاقات بھی ہوئی تو مَیں نے یہاں کے لوگوں میں دیکھا ہے کہ انتہائی اخلاص سے ملنے والے تھے۔ صرف ظاہری اخلاق دکھانے والے نہیں بلکہ لگ رہا تھا کہ اُن پر باتوں کا اثر بھی ہے۔ اور جن باتوں کا انہوں نے اثر لیا ہے اُس کا پھر انہوں نے علاوہ ان تأثرات کے مجھ سے ملتے ہوئے بڑا اظہار کیا۔

یہاں میلبورن میں احمدیہ سینٹر بھی لیا گیا ہے۔ پہلے کسی خطبہ میں اس کا ذکر نہیں کیا تھا اس لئے اس بارے میں بتا دوں کہ میلبورن میں ہم نے جو نیا سینٹر خریدا ہے یہ ساڑھے سات ایکڑ رقبہ پر ہے اور تعمیر شدہ ایک یہاں عمارت تھی جس کا رقبہ پچیس سو مربع میٹر ہے۔ اور اس رقبہ میں اوپر والا جو مین ہال ہے جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ہزار افرادنماز پڑھ سکتے ہیں اور اتفاق سے یہ تقریباً قبلہ رُخ بھی ہے اور اس بلڈنگ میں دوسرے ہال کو شامل کر کے مجموعی طور پر چار ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مشن ہاؤس، گیسٹ ہاؤس، دو ر ہائشی یونٹ، لائبریری، ریڈنگ روم، کچن، سٹور اور اس کے علاوہ ایک اور چھوٹا ہال یہ سب اس میں موجود ہیں۔ اس کی تین پارکنگ ہیں جن میں دو سو سے زائد گاڑیاں کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ اگست 2007ء میں یہ درخواست یہاں جمع کروائی گئی تھی کہ ہم لینا چاہتے ہیں تو ہمسایوں نے کئی اعتراضات کئے کہ یہاں مسلمانوں کی عبادتگاہ بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ آخر ڈیڑھ سال کے انتظار کے بعد 2009ء میں سٹی کونسل نے اس سینٹر کو جماعت احمدیہ کو دینے کا فیصلہ کیا اور ایسا فیصلہ ہے کہ تمام کونسلرز نے بلا استثناء اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ پہلے یہ ایک کلب تھا، پارک تھا، پھر اس کا status change کر کے اس کو کمیونٹی سینٹر اور مشن ہاؤس کے طور پر رجسٹر کر لیا۔ اور اس کے بعد جیسا کہ میں نے کہا، لوگوں کی رائے بھی آپ نے سنی۔ اکثر لوگوں کی جماعت احمدیہ کے بارے میں رائے بالکل تبدیل ہو گئی ہے۔ اس سینٹر کی خرید پر آٹھ لاکھ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ پھر اس کو ٹھیک کیا گیا، مرمت کیا گیا، تقریباً ایک اعشاریہ تین ملین ڈالر خرچ ہوا۔ یعنی تیرہ لاکھ ڈالر۔ اس کے علاوہ وقارِ عمل جس طرح ہماری روایت ہے، اس کو کر کے پانچ لاکھ ڈالر کی بچت ویسے بھی کی گئی ہے۔ بہرحال اگر ویسے اس کی value دیکھیں تو یہ اس وقت مارکیٹ میں کم از کم پانچ ملین ڈالر کی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بڑی سستی چیزیں اللہ تعالیٰ جماعت کو مہیا فرما دیتا ہے۔

پھر سڈنی میں واپس آئے۔ یہاں خلافت جوبلی ہال جو تعمیر ہوا ہے۔ اس کا افتتاح کیا۔ اس میں چودہ سو افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ دو منزلہ دفاتر بنائے گئے ہیں۔ میٹنگ روم ہے، لجنہ کے اور دوسری تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ بڑا مین(main) کچن ہے جس میں لنگر خانہ چلتا رہا۔ اِن ڈور گیمز بھی ہال میں کھیلی جا سکتی ہیں۔ افتتاح کے موقع پر یہاں وزیرِ اعظم آسٹریلیا کی نمائندگی میں وہاں کی ایک ممبر آف پارلیمنٹ Concetta Fierravanti Wells آئی ہوئی تھیں۔ پھر فیڈرل ممبر آف پارلیمنٹ تھے۔ Minister for Citizenship تھے۔ اَپوزیشن کے لیڈر تھے۔ اسی طرح بہت سارے ممبر آف پارلیمنٹ، پارلیمانی سیکرٹری فار لاء اینڈ جسٹس، پولیس کے افسران، ایریا کمانڈر آف پولیس اور کونسلر اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے کافی لوگ یہاں شامل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں خلافت جوبلی کے ہال کا افتتاح تھا اس لئے اسلام کی تعلیم، جماعت احمدیہ کیا ہے؟ اور اب جماعت احمدیہ میں خلافت کا کیا کردار ہے؟ اس بارے میں مَیں نے کچھ کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بھی بڑا اچھا اثر ہوا۔

ایک پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ امام جماعت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام کو انتہا پسندوں کے عمل نے بدنام کیا ہے۔ مَیں اس بات سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ اس تنقید کا انہوں نے جس طرح امن کے پیغام کے ساتھ جواب دیا ہے، وہ بہت شاندار ہے۔

پھر ایک مہمان اِندرا دیوی نے کہا کہ یہ جو خطاب تھا اس میں نہایت عمدہ اور اعلیٰ معلومات تھیں۔ مَیں اسلام کے متعلق کوئی کتابچہ حاصل کرنا چاہوں گی جس کی مدد سے مَیں اسلام کو بہتر طور پر سمجھ سکوں۔ میں اسلام کے متعلق متذبذب ہوں لیکن عمومی طور پر یہ دعوت میرے لئے باعثِ عزت ہے۔ لیکن پھر متذبذب اس لئے ہیں کہ مسلمانوں کا بہت سا طبقہ ان باتوں کے خلاف کرتا ہے۔ پس اسلام کی حقیقی تعلیم اب جب اُن کو پتہ لگی تو بہرحال وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ ان سے رابطہ بھی رکھیں اور ان کولٹریچر مہیا کریں۔ یہاں بھی بڑے اچھے تأثرات اَوروں نے بھی دئیے۔

پھر اس کے بعد آسٹریلیا میں برزبن (Brisbane) میں مسجد کا افتتاح ہوا ہے۔ وہ آپ نے خطبہ میں سن بھی لیا ہو گا۔ یہاں بھی اُس کے بعد ایک reception تھی۔ اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ آئے۔ ممبر آف پارلیمنٹ تھے، پولیس افسر، ڈاکٹر، پروفیسر، ٹیچر، انجینئر اور مختلف آرگنائزیشن کے لوگ اور چرچ کے لوگ، پادری، ہمسائے سب شامل ہوئے۔

ایک ہمسائے Mr. Claus Grimm ہیں جو مذہباً یہودی ہیں۔ انہوں نے مسجد کی شدید مخالفت کی تھی لیکن مسجد بننے کے بعد اور جماعت احمدیہ کا رویہ دیکھنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کا رویہ بالکل بدلا ہوا تھا۔

پھر ایک دوسرے ہمسائے ہیں Mr. Ralph Grimm۔ یہ بھی بڑے سخت مخالف تھے۔ لیکن جب ان کی غلط فہمیاں دور ہو گئیں تو دوست بن گئے اور جماعت کے حق میں پھر یہ آواز اُٹھانے لگ گئے۔ اسی طرح اور بہت سارے دوست ہیں۔ پھر وہیں کے ایک سٹی کونسل Logan کے ڈپٹی میئر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی خدمت انسانیت میں بہت آگے ہے اور احمدیہ کمیونٹی کی اعلیٰ خدمات اُسے دیگر کمیونٹیز سے ممتاز کرتی ہیں جن میں ہر سال آسٹریلیا کا کلین اَپ کے دوران صفائی کرنا، ریڈ کراس کے لئے فنڈ اکٹھے کرنا، بلڈ ڈونیشن اور دیگر فلاحی کام شامل ہیں۔ اسی طرح Queensland میں اس سال کے آغاز میں آنے والے سیلاب کے دوران جماعت احمدیہ کے پچاس افرادنے دو ہفتوں تک مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بیرونِ ملک سے ہجرت کر کے یہاں بسنے والے معاشرے میں نہیں گھلتے ملتے۔ لیکن ہم اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو آسٹریلیا سے پیار کرتے ہیں اور اس ملک کے لئے قابلِ قدر خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور یہی محبت اور رواداری ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے۔

پھر پولیس کمشنر بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھی جماعت کی خدمات کو بڑا سراہا اور کہنے لگے کہ جماعت ہمیشہ ہمارے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور تمام لوگوں سے عزت سے پیش آتی ہے اور آپ لوگ اعلیٰ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بول رہے تھے تو میرے ساتھ ایک ممبر آف پارلیمنٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس کے بعد جب یہ گئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ یہ جو کمشنر ہیں ہمارے یہاں ان کا سٹیٹس (status) بڑا اونچا ہوتا ہے۔ اور عموماً یہ فنکشنز میں شامل نہیں ہوا کرتے۔ مجھے بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ یہاں تم لوگوں کے فنکشن میں یہ آگئے۔

پھر ایک ممبر آف پارلیمنٹ نے جب میرا وہ ایڈریس سنا تو کہنے لگے کہ میں جذبات سے بھر گیا ہوں اور بے حد متاثر ہوا ہوں۔ یہ خطاب دل سے کیا گیا تھا۔ اس خطاب نے اس مسجد کے متعلق ہر ایک کو مطمئن کر دیا ہے۔ امام جماعت کے خطاب کے دوران میں نے خاص طور پر غیر مسلم سامعین کے چہروں کو دیکھا اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ امام جماعت کے اس پیغام کو گرمجوشی سے سراہ رہے ہیں۔ وہاں ایک ممبر آف پارلیمنٹ تھے۔ میرا خیال ہے غالباً یہ وہی ہیں جن کے ساتھ سائنس کے حوالے سے کچھ تبلیغی گفتگو بھی ہوئی کہ قرآن کیا کہتا ہے؟ بائبل کیا کہتی ہے؟ تو کہنے لگے کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ قرآن کی تعلیم بائبل سے بالا ہے اور بہتر لگتی ہے۔ بہرحال اُن کو میں نے کہا کہ پھر آپ قرآن شریف پڑھیں بھی اور وہاں کے جو مقامی احمدی تھے اُن سے کہا ان کو بعض آیتوں کے حوالے بھی نکال دیں اور five volume commentaryبھی اُن کو دی گئی تو اس طرح تبلیغ کے راستے بھی اللہ کے فضل سے کھلتے ہیں۔ Dr. John صاحب ایک مہمان تھے۔ کہتے ہیں کہ آج رات یہاں آنے سے پہلے میں بہت گھبرایا ہوا تھا کیونکہ میں مسلمان نہیں ہوں اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھ سے کس قسم کا سلوک کیا جائے گا لیکن آج مرزا مسرور احمدنے میری ساری گھبراہٹ دور کر دی ہے۔

یہ آسٹریلیا کا مختصر ذکر ہے۔ پھر وہاں سے ہم نیوزی لینڈ گئے۔ وہاں جو پہلی مسجد بنی ہے ’’بیت المقیت‘‘ اُس کا افتتاح بھی ہوا۔ لیکن اُس افتتاح سے پہلے وہاں کا Maori قبیلہ جو ہے، بہت پرانا قبیلہ ہے، اُس کے بادشاہ کی طرف سے استقبالیہ تھا۔ اور وہاں بادشاہ نے استقبالیہ دیا۔ جس طرح وہ باقی جو ہیڈ آف سٹیٹ آتے ہیں اُن کو استقبالیہ دیتے ہیں، اس طرح سارا انتظام انہوں نے کیا۔ وہاں جماعت احمدیہ کا ’’لوائے احمدیت‘‘ بھی اُن کے اپنے جھنڈے کے ساتھ پہلے ہی لہرایا جا رہا تھا۔ بادشاہ عموماً ایسے فنکشن میں چاہے کوئی بھی ہو خودنہیں بیٹھا کرتا لیکن وہاں خود بادشاہ بیٹھے تھے۔ تقریب جو اُن کی ایک روایتی تقریب ہے وہ تو جو ہوئی، اُس کے بعد پھر اُن کا ایک بڑا سارا ہال ہے، وہاں ہمیں لے گئے۔ وہاں اُن سے کچھ باتیں ہوتی رہیں اور پھر اُس کے بعد قرآنِ کریم کا جو ماؤری زبان میں ترجمہ ہوا ہے وہ اُن کو پیش کیا گیا۔ بہرحال بعد میں یہ ایک بڑی پُروقار تقریب تھی۔

اس کے بعد پھر مسجد کے افتتاح کی جو تقریب تھی ان کے بادشاہ نے وہاں بھی آنے کے لئے کہا بلکہ ان کی ملکہ نے پہلے نہیں آنا تھا لیکن انہوں نے بھی کہا کہ میں بھی آؤں گی اور بعض شخصیات کے ساتھ یہ لوگ وہاں آئے۔

ماؤری زبان میں قرآن کریم کا جو ترجمہ ہے اُس کے بارے میں پہلے مَیں ذکر کر دوں کہ یہ مکرم شکیل احمد منیر صاحب نے کیا تھا۔ پہلے پندرہ سپارے کئے جو شائع ہو گئے تھے، تو اب مکمل کر دیا ہے۔ اور یہ کوئی زبان دان نہیں ہیں بلکہ فزکس کے پروفیسر ہیں۔ لیکن انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے کہنے پر زبان سیکھی، پھر ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اکاسی (81) سال ان کی عمر ہے۔ پچیس سال انہوں نے لگائے۔ زبان بھی سیکھی اور ترجمہ بھی کیا اور کافی وقت ان کو لگا۔ کیونکہ کہتے ہیں ماؤری زبان میں جمع کے صیغے ہیں جن کو سمجھنے میں کافی دیر لگی۔ اور کہتے ہیں کہ میری عمر بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی، اخبار نے بھی اس بات کو لکھا۔ بہرحال بڑی محنت سے انہوں نے مسلسل یہ کام کیا۔ بعض روکیں بھی آئیں، مسائل بھی آئے۔ دوسروں سے جو ترجمے کروائے گئے تھے اُن کو جب چیک کیا تو وہ معیار کے نہیں تھے، اسی لئے پھر خود اُن کو توجہ پیدا ہوئی تھی۔ تو اس عمر میں یہ بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔

بہرحال اخباروں نے پھر وہاں اس ترجمے کے اوپر کافی لکھا اور اس کو سراہا گیا۔ مجھ سے بھی انہوں نے پوچھا کہ ماؤری قبیلے کے تھوڑے سے لوگ ہیں، (چھوٹا قبیلہ ہے، اتنا بڑا بھی نہیں )۔ تم نے ترجمہ کیوں کیا؟ میں نے کہا ہمارا تو کام ہے ہر زبان میں ترجمہ کرنا کیونکہ ہر ایک کو عربی پڑھنی نہیں آتی۔ اور قرآنِ کریم کا پیغام ہم نے ہر قوم تک پہنچانا ہے۔ اللہ کے فضل سے وہاں ایک ماؤری نے بیعت بھی کی ہے، جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور ایک دو اور تیار بھی ہیں۔ اور یہی میں نے اُن کو کہا کہ اب ترجمہ آیا ہے تو امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اَور لوگ بھی جماعت احمدیہ میں شامل ہوں گے اور اسلام کو قبول کریں گے۔

اس کے بعد جیسا کہ میں نے کہا وہاں مسجد بیت المقیت نئی بنی ہے اور اس کے حوالے سے وہاں ایک reception بھی تھی اور ماؤری بادشاہ بھی اور ملکہ بھی وہاں آئے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری نمایاں شخصیات وہاں تھیں۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں تھے۔ 107 کے قریب مہمان آئے اور مہمانوں نے جو تأثرات دئیے۔ ان میں Anglican Church کے ایک پادری نے کہا کہ تمام مذاہب کو بغیر کسی مزاحمت کے ایک دوسرے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے جو یہ کہا ہے کہ پریس میں اسلام کا نام بدنام کیا جا رہا ہے یہ بھی بالکل درست ہے۔ یہاں میں نے مسجد کے حوالے سے بات کی۔ اور کس طرح اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے اور کس طرح غیر مسلموں پر اس کاغلط تأثر ہے، اُس کے بارے میں کہا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ پریس میں اسلام کا نام جو امام جماعت نے کہا کہ بدنام کیا جا رہا ہے یہ بالکل درست ہے۔ جب کبھی بھی دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو میڈیا ہمیشہ مسجد یا مسلمانوں کو نماز ادا کرتے ہوئے ٹی وی پر دکھاتا ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام اور دہشت گردی کا ایک تعلق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام کا تشدد اور دہشتگردی سے کوئی بھی تعلق نہیں اور امام جماعت نے اس کو اپنے خطاب میں ثابت بھی کر دیا ہے۔ بہرحال وہاں پریس اور میڈیا نے ماؤری کا جوفنکشن تھا اُس کو بھی اور مسجد کے استقبال کو بھی بڑا نمایاں کیا۔

نیوزی لینڈ میں ہی ایک اَور فنکشن تھا۔ اُن کا دارالحکومت جو شہر آکلینڈ (Auckland) سے آٹھ سو میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں ایک ممبر آف پارلیمنٹ کنول جیت سنگھ ہیں، جو ویسے تو سکھ ہیں اور ہندوستان سے اُن کا تعلق ہے، انہوں نے اسے آرگنائز کیا تھا۔ پارلیمنٹ کی عمارت میں جو اُن کا گرینڈ ہال ہے، اُن کے نزدیک بڑا اہم ہال ہے، وہاں یہ فنکشن ہوا جس میں بعض اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوئے، سفارتکار شامل ہوئے اور سفارتکاروں میں اسرائیل کے بھی تھے، ایران کے بھی تھے اور برطانیہ کے بھی ڈپٹی ہائی کمشنر تھے۔ پولیس افسر تھے، یونیورسٹی پروفیسر تھے۔ وہاں بھی امن کے حوالے سے باتیں ہوئیں اور یہ کہ دنیا کو آج کل کیا کرنا چاہئے۔ اور اُس کے بعد پھر خیر ہم نے دیکھا بھی کہ اس پر بھی لوگوں کے کافی اچھے تأثرات تھے۔

نیوزی لینڈ کا جو ایک جو غیر کمرشل ریڈیو نیٹ ورک ہے، اُس نے اپنا جو ایک پروگرام ’’چیک پوائنٹ‘‘ ہے اور بڑا اہم پروگرام ہے، اُس میں بھی جواُس کا اپنا پرائم ٹائم ہے اُس میں ہمارے پروگرام کے بارے میں خبر دی۔ بہرحال مختلف ملکوں کی اخباروں کاکہ کتنی کوریج ہوئی، یہ مَیں آخر میں جا کر بیان کروں گا۔

بہرحال نیوزی لینڈ کے یہ دو پروگرام تھے۔ ایک غیروں کے ساتھ مسجد کا اور دوسرا پارلیمنٹ کے ساتھ۔ اس کے بعد پھر ہم جاپان گئے۔ جاپان میں بھی ایک reception ناگویا میں تھی۔ اس میں بھی 117 مہمان شامل ہوئے، جس میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر، کانگرس مین تھے، ناگویا کے میئر تھے، صوبائی پارٹی کے ممبر تھے، شنٹو ازم اور بدھ ازم کے نمائندے تھے۔ مختلف یونیورسٹیوں کے چودہ پروفیسر تھے، وکلاء تھے اور مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مہمان تھے۔

Mr Yoshiaki جو کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر ہیں اور ممبر سٹی پارلیمنٹ ہیں۔ متأثرین کے کیمپ کے انچارج بھی ہیں۔ ایک ہزار کلو میٹر کا سفر کر کے وہاں reception میں آئے تھے، اور کہنے لگے کہ 2011ء میں زلزلہ اور سونامی کے بعد انسانیت کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات ہمارے لئے ناقابلِ فراموش ہیں۔ مَیں اس بات پر اظہارِ تشکر کے لئے حاضر ہوا ہوں تا کہ اس جماعت اور تنظیم کے سربراہ کو ذاتی طور پر مل سکوں اور یہ بتا سکوں کہ آپ کی جماعت اور ماننے والے آپ کی تعلیمات پر چلتے ہوئے، آپ کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے، انسانیت سے ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہوئے خدمتِ انسانیت کے کاموں میں مصروف ہیں۔ پھر کہتے ہیں مَیں نے یہ خطاب سنا اور اس یقین پر پہنچا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے امام اور ان کی تعلیمات میں ہی دنیا کے امن کا راز چھپا ہوا ہے۔

پس اگر حقیقی اسلامی تعلیم دنیا کو بتائی جائے تو ہر شریف الطبع کو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ امن اسلام سے ہی وابستہ ہے۔ اللہ کرے کہ یہ دہشتگرد اور وہ لیڈر جو اپنی طاقت پربھروسہ کئے ہوئے ہیں اور غلط کام کر رہے ہیں اُن کو بھی اس بات کی سمجھ آ جائے۔

ایک مشہور وکیل ہیں وہ بھی آئے ہوئے تھے۔ اپنے تأثرات دیتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ میں دل کی گہرائیوں سے اپنی محبت اور تشکر کے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔ 1951ء کی سان فرانسسکو میں ہونے والی کانفرنس میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی عظیم الشان تقریر نے اس تعلق کی یعنی جاپان سے جو تعلق ہے، اس کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ جاپان سے عدل اور جاپان کا امن دنیا کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ مستقبل میں جاپان عالمی امن اور عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والا ہے۔

اُس وقت جاپان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک ہو رہا تھا جس پر کانفرنس میں جو سان فرانسسکو میں ہوئی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جاپان میں حق میں بہت تقریر کی تھی، اُس کا انہوں نے اظہار کیا کہ اس وجہ سے پھر لوگوں پر اثر ہوا اور ہمارے سے رویہ تبدیل ہوااور اس کی ہم قدر کرتے ہیں۔ اور اس قدر کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمارے تعلق ہیں اور جماعت احمدیہ کے اس تعلق کو مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اُس شخصیت کی آج اپنے ملک میں وہ قدر نہیں جہاں وہ وزیرِ خارجہ رہے اور سکولوں کے کورس میں پرائمری سکول میں تاریخ میں پہلے وزیرِ خارجہ کا نام لکھا ہوتا تھا۔ اب وہاں سے نکال دیا گیا ہے اور پہلا وزیرِ خارجہ کسی اَور کو بنا کے ایک غلط قسم کی تاریخ اب بچوں کو پڑھائی جا رہی ہے۔

پھر کہتے ہیں جاپان میں آنے والے زلزلوں اور سونامی کے بعد جماعت احمدیہ کی خدمات ہمارے لئے ناقابلِ فراموش ہیں۔ افرادِ جماعت احمدیہ کا کردار اور مزاج اور جس ملک میں رہتے ہیں اُس کی خدمت کا جذبہ اس جماعت کو ساری دنیا میں ممتاز بناتا ہے۔

پس یہ وہ اہم چیز ہے جسے ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔

پھر کہتے ہیں کہ آج ہم نے اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اور اس یقین پر پہنچے ہیں کہ اگر دنیا کسی ایک ہاتھ پر جمع ہو سکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کا ہاتھ ہی ہے جس کا ایک امام ہے۔

اسی طرح مختلف لوگوں کے تأثرات ہیں۔ بہرحال اس کی تفصیل تو بیان نہیں کی جا سکتی۔ میں نے صرف چند کا مختصراً ذکر کیا ہے اور تأثرات بھی پورے بیان نہیں کئے۔ انگریزی دانوں کے لئے تفصیل چھپ بھی جائے گی اور کچھ الفضل میں اور باقی اخباروں میں بھی آجائے گی۔

اخباروں کی جو سرکولیشن ہے جنہوں نے اس دورے کی اور reception کی خبریں دیں اور reception کے حوالے سے اسلام کا اور جماعت کا پیغام پہنچایا، یا میرے سے جو انٹرویو لئے اور جو براہِ راست ٹیلیویژن پر نشر ہوئے یا ریڈیو پر نشر ہوئے، اُن کے بارے میں کچھ بتا دوں۔ پہلے تو انڈونیشیا ہے۔ یہاں کے اخبار کے نمائندے دو جرنلسٹ آئے ہوئے تھے اُن کا ایک ہفت روزہ tempo magazine ہے، اُس نے انٹرویو شائع کیا۔ یہ بڑا مشہور میگزین ہے اور اس کی ہفتہ وار اشاعت ایک لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا اخبار بھی تھا، انہوں نے بھی اس کو شائع کیا۔

پھر West Java کے دو اخبارات Tribune Jabar اور Kadulatan Rakyat ہیں۔ کوئی ساٹھ ستر ہزار کے قریب ان کی سرکولیشن ہے۔ پھر ایک اور اخبار ہے اُس کی کافی سرکولیشن ہے اُس میں بھی شائع کیا۔

آسٹریلیا میں اصل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے کوریج دی ہے۔ اُن کا جو نیشنل ٹی وی اے بی سی ہے اور پھر National Radio ABC انہوں نے بھی انٹرویو لیا، اُس کی خبر بھی دی، انہوں نے سوالوں کے میرے کافی لمبے جواب بھی لکھ دئیے، اور یہ سارے ملک میں سنا جاتا ہے ریڈیو بھی اور ٹی وی بھی دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ ریڈیو پیسیفک جزائر میں بھی سنا جاتا ہے۔ اور ڈیڑھ سے دو ملین تک لوگ اس کو سنتے ہیں۔ ABC News آسٹریلیا کا ایک نیشنل نیوز چینل ہے۔ 46 ممالک میں اس کی نشریات سنی جاتی ہیں۔ اور دس ملین سے اوپر لوگ اس کے سننے والے ہیں۔ اس چینل میں جنہوں نے انٹرویو لیا، وہ کہنے لگے کہ یہ کیونکہ آسٹریلیا سے باہر بھی سنا جاتا ہے تو تمہارے اس انٹرویو کا بہت اچھا فیڈ بیک(feed back) مجھے ملا ہے اور میں حیران ہوں کہ دنیا میں لوگوں نے اتنی زیادہ توجہ دی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہوگی اگر آئندہ بھی تم آؤ تو میں کچھ زیادہ وقت لے کے مزید انٹرویو لینا چاہتا ہوں۔ آسٹریلیا کے ٹی وی چنیل اے بی سی کے مشہور اور غیر معمولی اہمیت کے حامل پروگرام نیوز لائن میں یہ انٹرویو آیا تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا، 46 ممالک میں سنا جاتا ہے۔ جو انٹرویو لینے والے ہیں یہ وہاں کے میڈیا میں مشہور شخص ہیں جو مختلف ممالک کے صدران اور وزرائے اعظم جب آسٹریلیا کا وِزٹ کرتے ہیں تو اُن کے انٹرویو لیتے ہیں۔ اور ان کے پروگراموں کو بڑی اہمیت سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ اس کو بھی دس سے پندرہ ملین لوگوں نے سنا۔

پھر نیوزی لینڈ کا جو میڈیا ہے اُس کا جائزہ یہ ہے کہ ماؤری ٹی وی، Te Karere ٹی وی وَن پر دکھایا جاتا ہے، اس کے پروگرام میں ماؤری بادشاہ کی طرف سے جو استقبال ہوا تھا اُس کو کوریج دی گئی۔ سارے ملک میں یہ پروگرام دکھایا جاتا ہے۔ ٹی وی وَن ملک کا پہلے نمبر پر آنے والی خبروں اور حالاتِ حاضرہ کا چینل ہے۔ روزانہ چھ لاکھ بیالیس ہزار کے قریب اس کو دیکھنے والے لوگ ہیں۔ مسجد بیت المقیت کی رپورٹ انہوں نے دکھائی۔ ماؤری بادشاہ کی طرف سے جو استقبالیہ تھا وہ دکھایا گیا۔ ریڈیو پر بھی اس کی خبر نشر ہوئی۔ اخباروں نے مسجد کے حوالے سے اور کچھ اُس میں میرے دورے کے حوالے سے بھی خبریں شائع کیں۔ ان میں Sunday Star ملک کا بڑا اخبار ہے، اس کی سرکولیشن ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے لیکن پانچ لاکھ سے اوپر اس کوپڑھنے والے ہیں، باقی جو میرا خیال ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے پڑھا جاتا ہے۔

پھر manukau courier ہے۔ یہ Auckland کا اخبار ہے، اخبار تو انہتّر ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے لیکن ایک لاکھ چورانوے ہزار اس کے پڑھنے والے ہیں۔ waikato times جو ہے اس کے بھی پڑھنے والے تقریباً چھیانوے ہزار ہیں۔ آن لائن میڈیا جو ہے، ویب سائٹ سکوپ (website scoop) یہ ملک کی مشہور ترین ویب سائٹ ہے۔ اس کو ساڑھے چار لاکھ کے قریب لوگ وِزٹ کرتے ہیں۔ اس پر یہ خبر آئی اور مسجد کے افتتاح کے حوالے سے بھی خبر تھی۔

پھر جاپان کا پرنٹ میڈیا ہے۔ Asahi newspaper۔ آساہی ایک بڑا اخبار ہے، اس کی سرکولیشن دو کروڑ سے زائد ہے۔ اس نے بھی میرے دورے کے حوالے سے میری تصویر دے کے خبر لگائی اور پھر اس میں یہ لکھا کہ اسلام کے ایک فرقہ احمدیت کے لیڈر لندن سے آئے ہیں۔ اور پہلی مسجد کے قیام کا اعلان کیا ہے جو پہلے ایک سپورٹس کمپلیکس تھا۔ اور پھر لکھا کہ امام جماعت نے کہا کہ مذہب یا قومیت سے الگ ہو کر ہر شخص اس مسجد میں آسکتا ہے۔

بہرحال خلاصہ یہ کہ جن جرنلسٹس سے جو مختلف انٹرویو ہوئے اور جو باتیں ہوتی رہیں اُن میں اسلام کی خوبصورت تعلیم تو بیان ہوتی ہی ہے، اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بھی بیان ہوا۔ اسلام میں جنگوں کا تصور کے بارے میں باتیں ہوئیں اور کس طرح جماعت احمدیہ تبلیغ کرتی ہے۔ مسلمان ممالک میں بدامنی اور اُس کے حل کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ دنیا میں حقیقی امن کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے، اس بارے میں باتیں ہوئیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کیا مقام ہے اس بارے میں باتیں ہوئیں۔ خلافت اور جماعت کا رشتہ کیا ہے اس بارے میں باتیں ہوئیں۔ پس مختلف مضامین کے لحاظ سے اس میں ایک بڑا وسیع تعارف جماعت کا ہوا۔ اور ان سارے ٹی وی چینل اور ریڈیو اور اخباروں کو اگر جمع کیا جائے تو ان کے اپنے اندازے کے مطابق ان کے سننے والے، دیکھنے والے، پڑھنے والے اس ریجن میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ ہیں جن تک یہ پیغام پہنچا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ ہر علاقے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا جو تعارف کروا رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں جو دنیا کو پتہ لگ رہا ہے، اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم جو پیش ہو رہی ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو یہ ارشاد ہے اس کے مطابق ہے کہ یہ زمانہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم۔ صفحہ 361-362۔ ایڈیشن 2013ء مطبوعہ لندن)۔ اور یہ جو میڈیا ہماری کوششوں سے بڑھ کر اتنا زیادہ کوریج دیتا ہے تو یہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے۔ ہمارے لئے تو ایسا ممکن نہیں تھا کہ اتنے وسیع طور پر نہ صرف ان چار ممالک میں بلکہ ان کے ذریعہ باقی چھیالیس ممالک میں بھی جس میں پاکستان بھی شامل ہے، احمدیت کا اور اسلام کا تعارف پہنچاسکتے اور پیغام پہنچاسکتے، کیونکہ وہاں سے بھی مجھے ایک خبر اس انٹرویوکے حوالے سے آئی تھی جو اس میں شائع ہوا تھا۔ پس اگر عقل ہو تو یہی ایک بات جو ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’یہ عاجز بحکم وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحٰی: 12) اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم و رحیم نے محض فضل و کرم سے اُن تمام امور سے اِس عاجز کو حصّہ وافر ہ دیا ہے اور اِس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا بلکہ یہ تمام نشان دیئے ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کرلے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ338-339)

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور اُن کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

کچھ افسوسناک خبریں بھی ہیں۔ تین جنازے میں ابھی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا جس میں پہلا جنازہ جو ہے ہمارے شہید بھائی مکرم بشیر احمد صاحب کیانی کا ہے جو مکرم عبدالغفور صاحب کیانی کے بیٹے تھے۔ اور نگی ٹاؤن کراچی میں یکم نومبر کو ان کی شہادت ہوئی ہے۔ اپنے ہمسائے محمد اکرم قریشی صاحب کے گیارہ سالہ بیٹے کے ساتھ یہ جمعہ کے لئے جارہے تھے۔ ایک بجے کے قریب گھر سے نکلے۔ اور نگی ٹاؤن کی مسجد بیت الحفیظ کی طرف پیدل ہی جا رہے تھے، کیونکہ تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر ان کا گھر ہے۔ جب مسجد کے قریب پہنچ چکے تھے تو پیچھے سے ایک موٹر سائیکل پر دو نامعلوم حملہ آوروں نے آ کر آپ پر فائرنگ کر دی۔ شدید زخمی ہو گئے۔ ایک گولی ان کو کنپٹی پر لگی، دو گولیاں سینے میں لگیں۔ ساتھ جانے والے بچے کی ٹانگ کی پنڈلی میں ایک گولی لگی جو آر پار گزر گئی۔ بہرحال فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں پہنچ کر بشیر کیانی صاحب کی شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے عزیزم محمد احمد واجد کے علاوہ جس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی، وہاں بازار میں کھڑے دو غیرازجماعت بھی زخمی ہوگئے۔ محمد احمد واجد جو بچہ ہے اُس کی مرہم پٹی وغیرہ کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے، اور اب بہتر حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو بھی شفائے کاملہ و عاجلہ عطافرمائے۔

بشیر کیانی صاحب شہید کے بڑے داماد ظہور احمد کیانی صاحب کو 21؍ اگست کو شہید کیا گیا تھا اور ان کے بیٹے اعجاز احمد کیانی کو 18؍ستمبر کو اسی علاقے اور نگی ٹاؤن میں دشمنانِ احمدیت نے شہید کیا تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دو چچا مکرم یوسف کیانی اور سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ 1936ء میں انہوں نے بیعت کی اور مطالعہ کرنے کے بعد جماعت مبائعین میں شامل ہوئے۔ بشیر کیانی صاحب میٹرک کی تعلیم کے بعد آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہو گئے اور 1979ء میں آپ کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا اور یہیں سے آپ ریٹائر ہوئے۔ مرحوم کی عمر اڑسٹھ) (68 سال تھی۔ بڑے خوش اخلاق تھے اور جذباتی طبیعت کے مالک تھے۔ دعوتِ الی اللہ کے انتہائی شوقین تھے۔ جب کہیں موقع ملتا تو دوست احباب کو تبلیغ کرتے۔ انتہائی دلیر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ یکے بعد دیگرے داماد اور بیٹے کی شہادت کے بعد خوفزدہ نہیں تھے بلکہ اپنی اولاد کو حوصلے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ شہادت کے روز اپنے بیٹے اعزاز احمد کیانی کو کہا کہ ہم نے خود اپنی حفاظت کرنی ہے اور یہاں سے جانا نہیں۔ ایک قائد علاقہ لکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے اعجاز کیانی صاحب کی شہادت کے بعد جب وہ شہید کے خاندان کے جملہ افراد کو چھوڑنے کے لئے ائیرپورٹ گئے تو اعجاز کیانی صاحب شہید کی والدہ کے غم کی حالت کو دیکھتے ہوئے ویل چیئر منگوائی، جسے دیکھ کر بشیر کیانی صاحب شہیدنے کہا کہ ابھی تو میرا ایک ہی بیٹا شہید ہوا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی سے بیٹھ جائیں؟ غیرت رکھنے والے تھے۔ سعودی عرب میں ان کی آرمی سروس کے دوران پوسٹنگ ہوئی۔ لیکن وہاں شرط یہ تھی کہ اپنے پاسپورٹوں پر احمدیت کا نام نہ لکھیں۔ انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔ بے شک مَیں نہ جاؤں، یہ شرط مجھے قبول نہیں۔ شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ فاطمہ بشیر کیانی صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اعزاز کیانی اور شہباز کیانی چھوڑے ہیں۔ پانچ بیٹیاں ہیں۔ ایک طاہرہ ظہور کیانی ہے جو شہید کی بیوہ ہیں۔ پھر ناہیدہ طیب، شاہدہ بشیر، ساجدہ بشیر اور وجیہ کنول۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان سب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

بشیر کیانی صاحب کے بارے میں اُن کی ایک عزیزہ نے لکھا کہ کراچی میں آپ کے دو عزیز شہید کر دئیے گئے تو میں نے اُن کو کہا کہ کراچی چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ بڑے غم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے، آنکھوں میں آنسو تھے تو ایک دم جھکی ہوئی کمر کو سیدھی کر کے کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو احمدیت کو زمین کے کناروں تک پھیلانا ہے اور تم کہہ رہی ہو کراچی چھوڑ دیں۔ یہ قربانیاں ہمارے حوصلے کو بلند کرنے والی ہیں۔ دشمن ہمارے ایمان کمزور نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ دشمن کی پکڑ کے بھی جلدی سامان کرے۔

دوسرا جنازہ تو یہاں بعض لوگ پڑھ چکے ہوں گے۔ یہیں کے رہنے والے ہمارے بھائی میاں عبدالسمیع عمر صاحب تھے۔ ان کودل کا عارضہ تھا۔ ان کا آپریشن ہوا لیکن کامیاب نہیں ہو سکا اور اس دوران میں ہی کچھ عرصے بعد وفات ہو گئی۔ 69 سال ان کی عمر تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پوتے تھے اور مفتی محمد صادق صاحبؓ کے نواسے تھے۔ مجلس انصاراللہ یوکے والے تو جانتے ہیں، یہاں خدمت کرتے رہے ہیں، قائد تعلیم تھے، قائد تربیت تھے۔ بڑے اخلاص اور وفا سے، محنت سے کام کرتے رہے۔ دعا گو اور حلیم اور شفیق، منکسر المزاج، صلہ رحمی کرنے والے، متوکل انسان تھے۔ خلافت سے بڑی محبت اور وفا کا تعلق تھا۔ کوئی بھی ان کا کام ہوتا تو یہ مجھے ضرور اطلاع دیا کرتے تھے۔ بڑی اچھی ان کی تلاوت تھی۔ ان کے ایک بھائی منیرعمر صاحب 28؍مئی 2010ء میں شہید ہو گئے تھے۔ آپ نے اپنے پسماندگان میں ایک اہلیہ اور بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

تیسرا جنازہ عزیزم مزمل الیاس کا ہے۔ یہ طالب علم جامعہ احمدیہ تھے۔ چک چٹھہ ضلع حافظ آباد کے رہنے والے تھے۔ اچانک جامعہ میں ہی 9؍ ستمبر کو فجر کے وقت ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سترہ سال ان کی عمر تھی۔ درجہ ممہدہ جامعہ کے طالب علم تھے اور بڑے شوق سے جامعہ میں داخل ہوئے تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی جو مرضی تھی وہ ہوا۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل کہتے ہیں کہ نمازوں کے بڑے پابند، باقاعدہ تلاوت کرنے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بڑے شوق سے مطالعہ کرنے والے تھے۔ میرے خطبات بڑے غور سے سنتے تھے اور بڑی محبت سے سنتے تھے۔ ان کے نانا نے کہا کہ نماز تہجد اس نے کبھی نہیں چھوڑی۔ حفاظتِ مرکز کی ڈیوٹیوں کے دوران اکثر شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ ان کے والدین نے بھی بڑا صبر دکھایا ہے اور انہوں نے کہا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اور اُس کے شکرگزار ہیں کہ ہمارے بچے کی قربانی کو اتنی جلدی قبول فرما لیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور والدین کو بھی صبر عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ نومبر 2013ء شہ سرخیاں

    سنگاپور، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کا نہایت ایمان افروز اور روح پرور تذکرہ۔

    اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گننا اور اس کی انتہا جاننا ممکن نہیں۔ ہر دورہ اور ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے شکر کے مضمون کی نئی آگاہی دیتا ہے۔

    ان ممالک کے دوروں کے دوران ہونے والی مختلف تقریبات اور ان کے غیرمعمولی نیک اثرات سے متعلق غیروں کے تأثرات کا اجمالی تذکرہ۔

    ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اسلام احمدیت کا وسیع پیمانے پر تعارف ہوا۔ ایک اندازہ کے مطابق اس ریجن کے 46ممالک میں ساڑھے تین کروڑ افراد تک پیغام پہنچا۔

    مساجد کے افتتاح، ماؤری بادشاہ کی طرف سے خصوصی استقبالیہ تقریب، ماؤری زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت اور متعدد ایمان افروز تفصیلات۔

    مکرم بشیر احمد صاحب کیانی آف کراچی کی شہادت، مکرم میاں عبدالسمیع عمر صاحب آف یو کے اور عزیز مزمّل الیاس صاحب متعلم جامعہ احمدیہ ربوہ کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 15نومبر 2013ء بمطابق 15 نبوت 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور