ایمان، صبر اور صلوٰۃ
خطبہ جمعہ 22؍ نومبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں، تحریرات میں، ارشادات میں ہمیں اپنی بعثت کے مقصد کے بارے میں بتایا۔ پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ اس مقصد بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اُن مقاصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں تا کہ آپ کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے والوں میں شمار ہو سکیں۔ ان مقاصد میں سے بعض اس وقت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
آپ علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں پھر ایمان کو زندہ کرنے کے لئے مامور کیا ہے اور اس لئے بھیجا ہے کہ تا کہ لوگ قوتِ یقین میں ترقی پیدا کریں۔ اس بات پر یقین ہو کہ خدا ہے اور دعاؤں کو سنتا ہے اور نیکیوں کا اجر دیتا ہے اور برائیوں کی سزا بھی دیتا ہے۔ آپ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک ایمان کامل نہ ہو، انسان مکمل طور پر نیک اعمال بجا لا نہیں سکتا۔ فرمایا کہ جو جو کمزور پہلو ہو گا، اُسی قدر نیک اعمال میں کمی ہو گی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 320۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس انبیاء اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین پیدا کرنے آتے ہیں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا ایک بہت بڑا مقصد ہے تا کہ کمزوریاں دور ہوں اور ایمان کامل ہو۔ یہ آپ کے بعض الفاظ کا ارشادات کا خلاصہ ہے۔ میں نے سارے الفاظ نہیں لئے، اُس کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ بہر حال یہ کمزوریاں کس طرح دُور ہوں گی اور ایمان کس طرح کامل ہو گا؟ اس بارے میں آپ نے بڑا کھل کر واضح فرمایا ہے کہ صرف میری بیعت میں آنے سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے مجاہدہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی اصول خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(العنکبوت: 70)یعنی اور وہ لوگ جو ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں …یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے کہ: وہ لوگ جو ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں، ہم اُن کے لئے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 338۔ ایڈیشن 2003ئمطبوعہ ربوہ)
پس ایمان میں کامل ہونے کا یہ اصول ہے کہ صرف بیعت کرنے سے اصلاح نہیں ہو گی۔ اگر اس کے ساتھ اپنی حالت بدلنے کے لئے مزید کوشش نہیں ہوگی، اگر خالص اللہ تعالیٰ کے ہو کر کوشش نہیں ہو گی، اپنے دلوں کو بدلنے اور پھر عمل کرنے اور جہاد کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: ’’دنیا میں ہر چیز کی ترقی تدریجی ہے۔ روحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بدُوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور مجاہدہ بھی وہ ہوجو خدا تعالیٰ میں ہو۔‘‘ یعنی خالص ہو کر اُس کی تلاش ہو، اُس کی تعلیم پر عمل ہو۔ ’’یہ نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضتیں اور مجاہدہ جوگیوں کی طرح تجویز کر بیٹھے۔ یہی کام ہے، جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تا کہ مَیں دنیا کو دکھلا دوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 339۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اور پھر آپ نے ہمیں کیا دکھایا اور ہم سے کیا امید کی؟آپ نے وہ نمونے قائم کئے اور اُن نمونوں پر چلنے کی تلقین کی جو آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادتوں کے بھی قائم کئے اور حُسنِ خلق کے بھی قائم کئے اور جن کو قائم کرنے کے لئے پھرصحابہ رضوان اللّٰہ علیھم نے بھی مجاہدہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے کہلائے اور نتیجۃً اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ایسے وارث ہوئے کہ ایک دنیا کو اپنے پیچھے چلا لیا۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ آپ کے ماننے والوں کو کیسا انسان بننے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لئے جاویں۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیۂ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔ … ہمارا کام اور ہماری غرض …یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ، اس لیے ہر ایک کوتم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ مَیں اَور ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 352۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اگر ہم اپنے وجود میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور وجودنہیں بناتے، اپنے آپ کو ایسا نہیں بناتے جو دنیا سے مختلف ہو تو آپ کے ارشاد کے مطابق ہمیں بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
پھر ایک جگہ بعثت کی غرض بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ تمام مذاہبِ موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآنِ کریم لایا ہے اور دار النّجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوُلُ اللّٰہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 392-393۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’ہمارا اصل منشاء اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا ہے۔ ہمارا ذکر تو ضمنی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 200۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ہے۔
پس ہم نے یہ غرض بھی پوری کرنے کے لئے بیعت کی ہے اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہمیں قرآنِ کریم کی تعلیم کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عمل کریں اور اس تعلیم کو پھیلائیں کیونکہ دنیا کی نجات بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ میں ہے۔ پس دنیا کو بتائیں کہ اس لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے جھنڈے تلے آ کر تم بھی نجات حاصل کرو۔
پھر آپ ایک جگہ اپنی آمد کا مقصد بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اسلام کو کُل ملّتوں پر غالب کرے۔ اُس نے مجھے اسی مطلب کے لئے بھیجا ہے اور اسی طرح بھیجا ہے جس طرح پہلے مامور آتے رہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 413۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر اپنے مشن کے غرض کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ مَیں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ‘‘ یعنی روشن دلائل کے ساتھ’’تمام ملّتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 432۔ ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک جگہ آپ نے اپنی آمد کا مقصد یہ بھی فرمایا کہ:
’’میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرانا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے وہ گناہ کی زہر سے بچ جاوے اور اُس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہو جاوے۔ اُس پر موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اُس کو ملے۔ گناہ سے لذّت پانے کی بجائے اُس کے دل میں نفرت پیدا ہو۔ جس کی یہ صورت ہو جاوے وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے خدا کو پہچان لیا ہے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اس زمانے میں یہی حالت ہو رہی ہے کہ خدا کی معرفت نہیں رہی۔ کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس منزل پر انسان کو پہنچا دے اور یہ فطرت اُس میں پیدا کرے۔ ہم کسی خاص مذہب پر کوئی افسوس نہیں کر سکتے۔ یہ بلا عام ہو رہی ہے اور یہ وبا خطرناک طور پر پھیلی ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں خدا پر ایمان لانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے، بلکہ ملائکہ کا مسجود ہوتا ہے‘‘۔ یعنی فرشتے بھی اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ’’نورانی ہو جاتا ہے۔ غرض جب اس قسم کا زمانہ دنیا پر آتا ہے کہ خدا کی معرفت باقی نہیں رہتی اور تباہ کاری اور ہر قسم کی بدکاریاں کثرت سے پھیل جاتی ہیں، خدا کا خوف اُٹھ جاتا ہے اور خدا کے حقوق بندوں کو دئیے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسی حالت میں ایک انسان کو اپنی معرفت کا نور دے کر مامور فرماتا ہے۔ اُس پر لعن طعن ہوتا ہے اور ہر طرح سے اُس کو ستایا جاتا اور دُکھ دیا جاتا ہے لیکن آخر وہ خدا کا مامور کامیاب ہو جاتا اور دنیا میں سچائی کا نور پھیلا دیتا ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں خدا نے مجھے مامور کیا اور اپنی معرفت کا نور مجھے بخشا‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 493-494۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 499۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
ایک موقع پر آپ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کے دعوے اور رسالت کا نتیجہ کیا ہو گا؟ یعنی اس سے آپ کو کیا مقاصد حاصل ہوں گے؟ آپ کیوں آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کے ساتھ جو رابطہ کم ہو گیا ہے اور دنیا کی محبت غالب آ گئی ہے اور پاکیزگی کم ہو گئی ہے۔ خدا تعالیٰ اس رشتہ کو جو عبودیت اور اُلوہیت کے درمیان ہے پھر مستحکم کرے گا اور گمشدہ پاکیزگی کو پھر لائے گا۔ دنیا کی محبت سرد ہو جائے گی‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 500۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) اور فرمایا: یہ میرے ذریعہ سے ہو گا۔
یہ بہت بڑا مقصد اور بہت بڑا دعویٰ ہے جو آپ نے بیان فرمایا۔ آج کی مادی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا جو ہے مادیت میں ڈوب کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھول چکی ہے اور جو بظاہر مذہب یا خدا کے وجود کو کچھ سمجھتے ہیں، کچھ تسلیم کرتے ہیں تو وہ بھی ظاہری رنگ میں۔ نہ اُنہیں خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کچھ یقین ہے، نہ اس کا ادراک ہے، نہ فہم ہے، نہ مذہب کا کچھ ادراک ہے۔ اُن کے لئے اصل چیز دنیا اور اس کی جاہ و حشمت ہے۔ صرف نام کے طور پر کسی مذہب کو ماننے والے ہیں۔ ایسے حالات میں یقینا یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس قدر یقین ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے پر کس قدر اعتماد ہے، اس کا اظہار جو الفاظ میں نے پڑھے ہیں ان کی شوکت سے ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ سب الفاظ، یہ آپ کا دعویٰ، یہ بعثت کی غرض اور مقاصد ہمیں بھی کچھ توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ہے جس کو پڑھ اور سن کر ہم جماعت میں داخل ہوئے ہیں، یا ہمارے باپ دادا جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے اور ہم نے ان کی اس نیکی کا فیض پایا، یہ ہم سے کچھ مطالبہ کر رہا ہے یا یہ مقاصد ہم سے کچھ مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ہم ان مقاصد کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ ہمیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے بھی ان کے نتائج کے حصول کی کوشش کرنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو جو باتیں دنیا میں پیدا کرنے آئے ہم نے بھی اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہم نے بھی مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے مددگار بننا ہے۔ جب ہم نے منادی کی آواز کو سنا اور ایمان لائے تو اب ہم بھی یہ اعلان کرتے ہیں اور ہمیں یہ اعلان کرنا چاہئے کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ۔ کہ ہم اپنی حالتوں میں یہ تبدیلیاں پیدا کریں گے اور اس پیغام کو پھیلائیں گے اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے۔
پس ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا، سوچنا ہو گا، منصوبہ بندی کرنی ہو گی، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہو گی تا کہ ہم کامیابیوں سے ہمکنار ہوں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اگر ہم آپ کو مان کر پھر آرام سے بیٹھ جائیں اور کوئی فکر نہ کریں تو یہ عہدِ بیعت کا حق ادا کرنے والی بات نہیں ہوگی۔ یہ دعویٰ قبول کر کے بیٹھ جانا اور سو جانا ہمیں مجرم بناتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی جب ہم اپنے وسائل کو دیکھتے ہیں، اپنی حالتوں کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ہم کریں بھی تو کیا کریں گے کہ ایک طرف ہمارے وسائل محدود اور دوسری طرف دنیا کی اسّی فیصد سے زائد آبادی کو مذہب سے دلچسپی نہیں ہے، دنیا کے پیچھے بھاگنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں دولت ہے، ہر قسم کی ترقی ہے، دوسرے مادّی اسباب ہیں جنہوں نے یہاں رہنے والوں کو خدا سے دور کر دیا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں کہ خدا تعالیٰ کی تلاش میں وقت ضائع کریں۔ ابھی کل کی ڈاک میں ہی ایک احمدی کا جاپان سے ایک خط تھا، بڑے درد کا اظہار تھا کہ میں نے اپنے ایک جاپانی دوست سے کہا، اُن کے بڑے اچھے اور اعلیٰ اخلاق ہیں، تعلقات بھی اُن سے اچھے ہیں، بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے، جب اُسے یہ کہا کہ خدا سے دعا کریں کہ ہدایت کی طرف رہنمائی ہو تو کہنے لگے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے کہ تمہارے خدا کی تلاش کرتا پھروں یا خدا سے رہنمائی مانگوں، مجھے اور بہت کام ہیں۔ تو یہ تو دنیا کی حالت ہے۔ ان قوموں کی جواپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتی ہیں یہ حالت ہے۔ اور غریب قوموں کو بھی اس ترقی اور دولت کے بل بوتے پر اپنے پیچھے چلانے کی بڑی طاقتیں اور امیر قومیں کوشش کر رہی ہیں۔ پس جب یہ صورتِ حال ہو، سننے کی طرف توجہ نہ ہو یا کم از کم ایک بڑے طبقہ کی توجہ نہ ہو اور دولت اور مادّیت ہر ایک کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کر رہی ہو اور ہمارے وسائل جیسا کہ مَیں نے کہا، محدود ہوں تو ایسے میں کس طرح ہم دجل اور مادّیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کہ ہم دنیا کی اکثریت کو خدا تعالیٰ کے وجود کی پہچان کروا سکیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کر سکیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اور بڑی تحدّی سے فرماتے ہیں کہ میں یہ سب کچھ کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں اور یہ ہو گا۔ انشاء اللہ
پس ہم بھی آپ کے اس دعویٰ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ اعلان کر رہے ہیں، چاہے ظاہراً کریں یا نہ کریں لیکن ہمارا بیعت میں آنا ہی ہم سے یہ اعلان کروا رہا ہے اور کروانا چاہئے کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کہ ہم اللہ کے دین میں مددگار ہیں اور رہیں گے انشاء اللہ۔ دنیا کے انکار سے مایوس نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ہم دنیا کی آنکھ سے دیکھ کر اس کام کو آگے نہیں بڑھا رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیں ہر قدم پر تسلی دلاتی ہیں کہ اگر تم اللہ میں ہو کر کوشش کرو گے تو نئے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔
پس ہم دنیاوی نظر سے دیکھیں اور وسائل پر بھروسہ کریں تو ہماری جوکامیابی ہے ایک دیوانے کی بَڑ نظر آتی ہے۔ اگر ہم دنیاوی طاقت اور وسائل کے لحاظ سے دیکھیں تو ایک ملک کو ہی دیکھ کر ہم پریشان ہو جائیں۔ مثلاً روس کو لے لیں، چین کو لے لیں، یورپ کے کسی ملک کو لے لیں، امریکہ کے کسی ملک کو لے لیں، جزائر کو لے لیں، افریقہ کے کسی ملک کو لے لیں، ہر جگہ بہت سی ایسی روکیں نظر آئیں گی جو ہمیں آگے بڑھنے سے ڈرائیں گی۔ ملکوں کے حالات اور دنیاوی جاہ و حشمت نہ آج سے چند دہائیاں پہلے ہمارے حق میں تھے، نہ آج ہمارے حق میں ہیں۔ لیکن یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ مثلاً ایک وقت میں روس اور اُس کے ساتھ جو تمام states تھیں، کمیونسٹ حکومت کی وجہ سے وہاں تبلیغ نہیں ہو سکتی تھی۔ اب ایک حصہ آزاد ہو کر مذہب سے دُور چلا گیا اور دنیاوی چکا چوندنے اُسے اندھا کر دیا۔ اور دوسری طرف جو مسلمان ریاستیں رشیا میں شامل تھیں وہاں مفتیوں اور مفاد پرست مذہبی لیڈروں نے حکومت کو اس طرح ڈرا دیا ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے راستے میں قدم قدم پر روکیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ جماعت پر پابندیاں ہیں اور وہاں کے احمدیوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کو دیکھیں تو دنیا داری نے یہاں بھی انتہا کر دی ہے۔ غلاظتوں اور بے حیائیوں کو قانون تحفظ دے دیتا ہے۔ جس بے حیائی پر اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو تباہ کیا تھا، اُس بے حیائی کو ہمدردی کے نام پر تحفظ دیا جا رہا ہے۔ چین میں مذہب سے دلچسپی کوئی نہیں، مادّی دوڑمیں آگے بڑھنے کی دوڑ وہاں لگی ہوئی ہے اور معاشی لحاظ سے وہ دنیا کی بہت بڑی طاقت بن رہا ہے۔
جاپان ہے توبہت ترقی یافتہ ملک ہے، وہاں بھی ٹیکنالوجی میں ترقی ہے اور حیرت انگیز ترقی نظر آتی ہے۔ اکثریت دنیا کی رسوم کے پیچھے لگی ہوئی ہے لیکن مذہب سے دُوری ہے اور وہ یہ کہنے والے ہیں جو میں نے مثال دی کہ خدا کے لئے نعوذ باللہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اکثریت کا یہی نظریہ ہے۔ کیسا خدا، کونسا خدا؟ بیشک اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ بڑے آگے ہیں لیکن دنیاداری نے مذہب سے دور کر دیا ہے۔ بظاہر کہنے کو اگر جاپانیوں سے پوچھو تو روایتی مذہب ان کا شنٹو ازم ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ شنٹو ازم، عیسائیت اور بدھ ازم کا ایک عجیب ملغوبہ یا عجیب مجموعہ بن چکے ہیں۔ عملاً صرف رسومات کی حد تک پیدا ہونے، زندگی گزارنے اور مرنے کے بعد کے جو مراحل ہیں وہ مختلف stages میں مختلف مذاہب ادا کر رہے ہیں لیکن بہر حال دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ مغرب کی اکثریت جیسا کہ میں نے کہا، خدا تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہے اور نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ مذہب کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ چرچوں میں جانے والے کوئی نہیں۔ عیسائیت کہتی تو ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن چرچ فروخت ہو رہے ہیں۔ پس یہ دنیا اس وقت بے حال ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا دنیاوی لحاظ سے ہمارے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان دنیا داروں کے سامنے ہمارے وسائل جو ہیں ایک ذرہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔
پس یہ جو سب باتیں ہیں یہ فکر پیدا کرتی ہیں اور فکر پیدا کرنے والی ہونی چاہئیں کہ ایسے حالات میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو کیسے آگے بڑھائیں گے؟ لیکن خدا تعالیٰ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لئے بھیجا ہے، خدا تعالیٰ جس نے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا، اُس نے ہمیں فرمایا کہ مجھ میں ہو کر میرے راستوں کو تلاش کرو۔
اور خدا تعالیٰ میں ہو کر اُس کے راستے کی تلاش کس طرح کرنی ہے؟ فرمایا یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرۃ: 154)کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر اور دعا کے ساتھ اللہ کی مدد مانگو، اللہ یقینا صابروں کے ساتھ ہو گا۔ پس یہ اللہ ہے جس سے مدد مانگی جائے تو بڑی سے بڑی روک بھی ہوا میں اُڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو تمام قدرتوں والا ہے، اللہ تعالیٰ جو اپنے جلال کے ساتھ سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ ہر انہونی چیز کو ہونی کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم اور ہر انسان کے لئے نجات دہندہ کے طور پر بنا کر بھیجا ہے جس نے قرآنِ کریم آپ پر نازل فرما کر تمام انسانوں کے لئے شریعت کو کامل کر دیا جس میں ہر زمانے کے دینی اور دنیاوی مسائل کا حل بھی ہے، جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس زمانے میں اسلام کے احیائے نَو کے لئے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب ایسے حالات آئیں کہ روکیں سامنے نظر آئیں، جب ایسے حالات آئیں کہ تمہاری عقلیں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں اُس وقت تم صبر اور صلوۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو۔
پس اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو گے تو بظاہر مشکل کام بھی آسان ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُس کے دین نے غالب آنا ہے لیکن تمہیں اس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے صبر اور صلوٰۃ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیسے صبر اور کیسی صلوٰۃ کی ضرورت ہے؟ اُس کے لئے پہلے اصول بیان ہو چکا ہے کہ اللہ میں ہو کر مجاہدہ کرو۔
صبر کے مختلف معنی لغات میں درج ہیں۔ مثلاً صبر یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور کوشش سے برائیوں سے بچنا۔ ایک مومن اور ایک احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس دنیاوی دور میں جب ہر طرف سے شیطانی حملے ہو رہے ہیں اور برائیاں ہر کونے پر منہ کھولے کھڑی ہیں ان برائیوں سے بچنے کے لئے جہاد کرے۔ اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔ پھر صبر کا مطلب ہے کہ نیکی پر ثابت قدم رہے۔ یہ نہیں کہ وقتی نیکی ہو اور جب کہیں دنیا کا لالچ اور بدی کی ترغیب نظر آئے تو نیکی کو بھول جاؤ۔ اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف ہمیشہ توجہ رہے۔ ان اعمالِ صالحہ کی قرآنِ کریم میں تلاش کی ضرورت ہے۔ پھر صبر یہ ہے کہ ہر صورت میں اپنے معاملات خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا۔ ہر مشکل میں، ہر پریشانی میں، ہر تکلیف میں خدا تعالیٰ کے سامنے معاملہ پیش کرنا۔ کسی بھی بات میں کوئی جزع فزع نہیں۔ پس صبر کی یہ حالتیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو گی۔ روحانی مدارج میں ترقی ہو گی۔ دنیا کی کروڑوں کی جو دولت ہے اُس کے مقابلے میں ایک مومن کا ایک پاؤنڈ، ایک ڈالر، ایک روپیہ جو ہے وہ وہ کام دکھائے گا جو دنیا کو حیران کر دے گا۔
پھر صبر کے ساتھ برائیوں سے بچنے اور نیکیوں پر ثابت قدم ہونے اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنے معاملات پیش کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صلوٰۃ کی بھی ضرورت ہے۔ اور صلوٰۃ کے بھی مختلف معنی ہیں۔ صلوٰۃ کے ایک معنی نماز کے ہیں۔ یعنی یہاں جو نصیحت ہے کہ مومنوں کو نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہئے اور نماز کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صبر کے اعلیٰ نتائج اُس وقت ظاہر ہوں گے جب نمازوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ پھر اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرو، استغفار کرو۔ صلوٰۃ میں یہ سب معنی آ جاتے ہیں۔ پھر صرف یہ ظاہری نماز نہیں بلکہ دعاؤں کی طرف اُن کا حق ادا کرتے ہوئے توجہ کرو۔ خدا تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرو۔ اُن کے بھی حق ادا کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو۔
پس یہ وسعت صبر اور صلوۃ میں پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت بھی حاصل ہو گی اور تمام کام آسان ہوں گے اور ہوتے چلے جائیں گے، انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے اور فضل اور رحم کے دروازے کھلیں گے۔
پس ایک مومن کا یہ کام ہے کہ اپنی کوششوں، اپنی عبادتوں، اپنی دعاؤں، اپنے اخلاق کو انتہا تک پہنچاؤ۔ جو کچھ تمہارے بس میں ہے وہ کر گزرو، پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ لیکن اگر صبر کا حق ادا نہیں کرو گے، اگر صلوٰۃ کا حق ادا نہیں کر رہے تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصہ دار نہیں بن سکتے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ صبر کا ایک مطلب برائیوں سے بچنا بھی ہے، اس کے لئے توبہ اور استغفار کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
سچی توبہ اُس وقت ہوتی ہے جب ان تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ پہلی بات یہ کہ اُن تمام خیالات اور تصورات کو دل سے نکال دو جو دل کے فساد کا ذریعہ بن رہے ہیں، جو غلط کاموں کی طرف ابھارتے اور اُکساتے ہیں۔ یعنی جو بھی برائی دل میں ہے یا جس برائی کا خیال آتا ہے اُس سے کراہت کا تصور پیدا کرو۔ تمہیں کراہت آنی چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ برائی پر ندامت اور شرم کا اظہار کرو۔ اپنے دل میں اتنی مرتبہ اُسے برا کہو کہ شرمندگی پیدا ہو جائے۔ دوسری بات ندامت اور شرم کا اظہار ہے اور تیسری بات یہ کہ ایک پکا اور مصمم ارادہ کرو کہ یہ برائی میں نے دوبارہ نہیں کرنی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 87-88۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
صبر میں یہی حالت پیدا کی جاتی ہے، تبھی صبر صحیح صبر کہلاتا ہے۔ پس اگر ہم نے اپنی یہ عادت کر لی اور اپنے صبر اور صلوٰۃ کے معیار حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی تائیدی نشان ظاہر ہوں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ وہ نشانات جن کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ نہ ہم برائیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوں، نہ ہم نیکیوں پر قدم مار رہے ہوں، نہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی روح کو سمجھ رہے ہوں، نہ ہم اپنے ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہے ہوں، نہ ہم مخلوق کے حق ادا کر رہے ہوں، نہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دے رہے ہوں جس کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں، نہ ہم نمازوں کا حق ادا کر رہے ہوں اور پھر بھی ہم یہ توقع رکھیں کہ دنیا کو ہم نے اسلام کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ ان مقاصد کو اور اغراض کو پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی ہیں۔ دنیا اسلام کے جھنڈے تلے آئے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور آئے گی لیکن اگر ہم نے اپنے حق ادا نہ کئے اور اپنے صبر اور صلوۃ کو انتہا تک نہ پہنچایا تو پھر ہم اُس فتح کے حصہ دار نہیں ہو سکیں گے۔ پس یہ حق ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہم یہی بتاتے ہیں کہ ایک دن ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ اس دورے کے دوران بھی نیوزی لینڈ میں ایک جرنلسٹ نے مجھے سوال کیا کہ تم تھوڑے سے ہو، تمہیں یہاں مسجد کی کیا ضرورت ہے؟ پہلے ایک ہال موجود ہے۔ تو میں نے اُسے یہی کہا تھا کہ آج تھوڑے ہیں لیکن اس تعلیم کے ذریعہ جو قرآنِ کریم میں ہمیں ملی، ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ کثرت میں بدل جائیں گے اور ایک کیا کئی مسجدوں کی ضرورت ہمیں یہاں پڑے گی۔ پس اس کے لئے دنیا میں ہر جگہ کوشش اور اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہاں میں افسوس سے یہ کہوں گا کہ نمازوں عبادتوں کی طرف، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف ہماری، جو توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہے ہماری۔ مثلاً کل پرسوں کی بات ہے۔ ایک خاتون ملاقات کے دوران آئیں اور بڑے روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مسجدیں بناؤ اور مسجدیں آباد کرو۔ مسجدوں کی رونق بڑھاؤ، صلوٰۃ کا حق ادا کرو لیکن جب آپ چلے جاتے ہیں تو مسجد میں حاضری بہت کم ہو جاتی ہے۔ اگر تو یہ حاضری دور سے آنے والوں کی وجہ سے کم ہوتی ہے، جو میرے یہاں ہونے کی وجہ سے مسجد فضل میں آتے ہیں (وہ مسجد فضل کی بات کر رہی تھیں) تو یہ اور بات ہے۔ لیکن پھر دُور سے آنے والے اگر یہاں نہیں آتے تو اپنے سینٹروں میں یا اپنی مساجد میں نماز باجماعت ادا کرنے والے ہونے چاہئیں۔ اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ جو آنے والے ہیں یہ (ادا) کرتے بھی ہوں گے۔ لیکن اگر حاضری کی یہ کمی قریب رہنے والوں کے نہ آنے کی وجہ سے ہے تو پھر بڑی قابلِ فکر ہے اور اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے دورے کے بعد مجھے وہاں سے کسی نے خط لکھا کہ مسجد کی حاضری بہت کم ہو گئی ہے۔ پس چاہے وہ آسٹریلیا ہے یا یوکے ہے یا کوئی اور ملک ہے یاد رکھیں کہ اگر انقلاب لانا ہے، اگر اُس ذمہ داری کو نبھانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لئے ہم پر ہے، اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو مسجدوں کی یہ رونقیں عارضی نہیں بلکہ مستقل قائم کرنی ہوں گی۔ اپنی تمام حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی۔ اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ نشان تبھی ظاہر ہوں گے جب صبر اور صلوۃ کے حق ادا ہوں گے۔ جب اپنے نفس کو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم فنا کریں گے۔ جب توحید پر قائم ہونے کا حق ادا کریں گے۔ اور جب یہ ہو گا تو اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ کا نظارہ بھی ہم دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ خود مدد کے لئے اُترے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر طاقتوں اور حسن کے جلووں سے ہماری مدد کو آئے گا اور دنیا دار ممالک اور دنیاوی طاقتوں کے عوام کے دل اللہ تعالیٰ اس طرف پھیر دے گا۔ ہمارے کاموں میں برکت پڑے گی اور دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچان کر آپ کے جھنڈے تلے آئے گی۔ توحید کا قیام ہو گا اور خدا تعالیٰ کی ذات کے انکاری خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنا حق ادا کرکے یہ نظارے دیکھنے والے ہوں۔
جمعہ اور عصر کی نمازوں کے بعد مَیں جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم ڈاکٹر بشیر الدین اُسامہ صاحب امریکہ کا ہے جن کی 2؍ نومبر کو 82 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے 1955ء میں احمدیت قبول کی تھی اور ابتدائی افریقن امریکن احمدیوں میں سے تھے۔ نمازوں کے بڑے پابند، بڑے باوفا اور سلسلہ کا درد رکھنے والے غیرت مند، خلافت کے فدائی، دعا گو وجود تھے۔ نہایت جوشیلے لیکن بہت منکسر المزاج اور عاجز انسان تھے۔ ان کو ربوہ کی زیارت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے شرفِ ملاقات کی بھی سعادت ملی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی ان کی ایک مرتبہ ملاقات ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ساتھ بھی کئی بار ملاقات ہوئی۔ ان سے ان کوپیار بھی بڑا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا بھی آپ سے بڑا خاص تعلق تھا۔ آپ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج بیت اللہ کی بھی توفیق پائی۔ گزشتہ بیس سال سے Cleveland میں نائب صدر جماعت کی حیثیت سے خدمات بجا لا رہے تھے۔ خدمتِ خلق کا بہت جذبہ رکھتے تھے۔ بالخصوص اپنے افریقن امریکن بھائیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ پچاس کی دہائی میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک چھوٹا سا کتابچہ لکھنے کی توفیق پائی۔ پیشے کے لحاظ سے Dentist تھے اور آپ کی اہلیہ محترمہ فاطمہ اُسامہ صاحبہ جو تھیں، یہ بھی کافی عرصہ Cleveland کی لجنہ کی صدر رہی ہیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے مقیت اُسامہ جن کی چھپن سال عمر ہے اور ظفراللہ اسامہ صاحب یادگار چھوڑے ہیں۔ ان دونوں کا بھی جماعت سے بڑا خاص اور گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں اور ان کی نسلوں کو ہمیشہ جماعت سے وابستہ رکھے۔
دنیا اسلام کے جھنڈے تلے آئے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور آئے گی لیکن اگر ہم نے اپنے حق ادا نہ کئے اور اپنے صبر اور صلوۃ کو انتہا تک نہ پہنچایا تو پھر ہم اُس فتح کے حصہ دار نہیں ہو سکیں گے۔ پس یہ حق ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔
چاہے وہ آسٹریلیا ہے یا یوکے ہے یا کوئی اور ملک ہے یاد رکھیں کہ اگر انقلاب لانا ہے، اگر اُس ذمہ داری کو نبھانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لئے ہم پر ہے، اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو مسجدوں کی یہ رونقیں عارضی نہیں بلکہ مستقل قائم کرنا ہوں گی۔
اپنی تمام حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی۔ اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔
نشان تبھی ظاہر ہوں گے جب صبر اور صلوٰۃ کے حق ادا ہوں گے۔
مکرم ڈاکٹر بشیر الدین اُسامہ صاحب آف کلیولینڈ امریکہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر ِخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 22؍نومبر 2013ء بمطابق 22 نبوت 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔