سچائی اور دیگر اخلاق کو مضبوطی سے اپنانے کی تاکیدی نصائح

خطبہ جمعہ 29؍ نومبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) جو اِس اصل غرض کو مدِّنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے۔ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اُس کے نزدیک وہ ایک قابلِ قدر شئے ہو جائے گا۔ اگر یہ درد اُس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اُس کے ما فیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 222۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا:

’’افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں، بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدّنظر رکھیں، وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اُس کی عزّتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 137۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وسعت ہے، یہ معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے جو فرمایا کہ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) کہ ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھنا ہی اصل عبادت ہے اور اصل عبادت وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کے احکامات سامنے ہوں۔ دنیا بھی کمانی ہے تو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے ساتھ، نہ یہ کہ ہر وقت دنیا کا حصول ہی پیشِ نظر رہے اور پھر اس کے لئے غلط ہتھکنڈے سچ، جھوٹ، دھوکہ، فریب سے جس طرح بھی ہوکام لیا جائے اور خدا تعالیٰ کو بالکل بھلا دیا جائے۔ عبادت کا حق صرف نمازیں پڑھنے سے ادا نہیں ہوتا۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس پر روشنی ڈالی تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کے باقی احکامات کی ادائیگی سامنے رکھتے ہوئے اُن پر عمل نہ ہو تو نمازیں بھی کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ مثلاً اگر انسان کے ہر معاملے میں سچائی نہیں تو عبادت کرنا اور مسجد میں آ کر نمازیں پڑھنا، عبادت کرنے والوں میں شمار نہیں کروائے گا۔ اسی طرح کینہ ہے، حسد ہے، بُغض ہے اور بہت سی برائیاں ہیں۔ یہ عبادت کی روح کو ختم کر دیتی ہیں۔ پس ایک حقیقی عابد اُسی وقت عابد کہلا سکتا ہے جب ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی رضا مدّنظر ہو اور اپنے دنیاوی فوائد کوئی حیثیت نہ رکھتے ہوں۔ اس مضمون کو مَیں اکثر بیان کر کے توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ آج اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق تھا کہ واقعات کے ساتھ مضمون کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے بعض پہلوؤں کی عملی شکل ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ بہرحال خاص طور پر واقعات مَیں بھی وہی بیان کروں گا۔ شاید مختصر ہو جائیں۔ اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو آگے چلاؤں، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کے بارے میں اُن کا ایک ارشاد بھی آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ نئی نسل اور آنے والوں کے علم میں اس لحاظ سے بھی اضافہ ہو۔ 1936ء کی شوریٰ کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ:

’’ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کرواتا ہے اور پھر اُسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں‘‘، (یعنی اُن کی) ’’یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہوکر میری خلافت پر اتفاق کیا، بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اُسے رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے، اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفہ بھی روز روز نہیں آتے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء صفحہ 17 بحوالہ سوانح فضل عمرؓ۔ جلد 4 صفحہ 508۔ ناشر فضل عمر فاؤنڈیشن)

پس آپ کا وجود اپنی ذات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم و عرفان عطا فرما یا تھا، اُ س کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوپہلے خبر دی تھی۔ اس لحاظ سے افرادِ جماعت کو آپ کے اُس علم و عرفان سے ذاتی مطالعہ کر کے بھی فائدہ اُٹھانا چاہئے اور کیونکہ لٹریچر ہر زبان میں میسر نہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مختلف وقتوں میں بیان بھی ہوتا رہنا چاہئے۔ اس لئے میں مختلف حوالوں سے بعض دفعہ حضرت مصلح موعود کا بیان کرتا رہتا ہوں اور چند مہینے پہلے مَیں نے تقریباً ایک مکمل خطبہ بھی اس پر دیا تھا یا کچھ تھوڑا سا خلاصہ بیان کر کے دیا تھا۔ آج پھر اُسی طرز پر میں خلاصۃً یا بعض باتیں اُسی طرح بیان کروں گا۔

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے یا اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے، کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لئے انسان کی پیدائش ہوئی، لیکن بڑے بڑے فلاسفر اور تعلیم یافتہ طبقہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا انسان کی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے اور کیا خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے وہ کام لے لیا ہے جسے مدّنظر رکھتے ہوئے اُس نے انسان کو پیدا کیا تھا؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعہ میں انسان اس مقصد کو پورا کر رہا ہے؟ اور کیا واقعہ میں اس نے اس قسم کی ترقی کی ہے کہ خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے کا مستحق ہو۔ تو فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ ’نہیں‘۔ اس لئے وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کو کوئی پیدا کرنے والا ہے تو کیوں اُسے اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اس سوال کا جواب دینے کے لئے آتے ہیں۔ اور نیکی کی ایسی رَو چلاتے ہیں جسے دیکھ کر دشمن کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ مقصد پورا ہو گیا ہے۔ اس دن کی آمد کے لئے اگر ہزار دن بھی انتظار کرنا پڑے تو گراں نہیں گزرتا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انبیاء کے زمانے کو لیلۃ القدر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ(القدر: 4)۔ یعنی وہ ایک رات ہزار مہینوں سے اچھی ہے۔ گویا ایک صدی کے انسان بھی اس ایک رات کے لئے قربان کر دئیے جائیں تو یہ قربانی کم ہو گی بمقابلہ اُس نعمت کے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے۔ فرمایا: اس سال مَیں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے لئے دئیے تھے۔ یہ 1936ء کی بات ہے۔ آپ نے اس عرصے میں کچھ خطبات دئیے تھے۔ اُس میں توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی اُسے پورا کرنے کے لئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں تھی، یہ ایک جاری سلسلہ ہے اور آج بھی اور آئندہ بھی اس کی ضرورت ہے اور ہوتی رہے گی۔ فرمایا کہ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکّہ جما لیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکّہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ نے مثال دی ہے کہ موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے۔ یعنی ایک مثال مَیں سچائی کی دیتا ہوں۔ اس کو اگر ہم عملی رنگ میں دیکھیں تو کس طرح ہے؟ فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے۔ دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سچائی بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ اُس زمانے میں بھی حضرت مصلح موعود کو فکر ہوتا تھا اور اب اس زمانے میں بھی مجھے بعض غیروں کے خط آتے ہیں جن میں احمدیوں کا سچائی کا جو پراسیس ہوتا ہے اُس کا ذکر کیا ہوتا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ جماعت کی تعریف کرتے ہیں۔ اور جن احمدیوں سے اُنہیں دھوکہ اور جھوٹ کا واسطہ پڑا ہو تو پھر وہ یہی لکھتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی نیک نامی کی وجہ سے اعتبار کر لیا لیکن آپ کے فلاں فلاں فردِ جماعت نے ہمیں اس طرح دھوکہ دیا ہے۔

پس ایسا دھوکہ دینے والے جو بظاہر تو اپنے ذاتی معاملات میں یہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی dealing ہے، بزنس ہے، کاروبار ہے جو ہم کر رہے ہیں، جماعت کا اس سے کیا واسطہ؟ لیکن آخر کار وہ جماعت پر بھی حرف لانے کا مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ جماعت کو بدنام کرنے کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوے سے پہلے کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ خاندانی جائداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا۔ اور جگہ بتائی کہ اس مکان کے چبوترے کے سامنے ایک تھڑا بنا ہوا تھا، جہاں خلافتِ ثانیہ میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہوا کرتے تھے، اب تو قادیان میں کچھ تبدیلیاں ہو گئی ہیں، دفاتر وہاں سے چلے گئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی، مگر اس پر دیرینہ قبضہ اُس گھر کے مالکوں کا تھا جن کا ساتھ ہی گھر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی نے اسے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کاطریق ہے، ایسے مقدموں میں جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں تا کہ جس کو وہ حق سمجھتے ہیں وہ اُنہیں مل جائے۔ آپ کے بڑے بھائی نے بھی ایسا ہی کیا اور گواہیاں بہت ساری لے کر آئے۔ گھر کے مالکوں نے کہا ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ان کے چھوٹے بھائی کو بلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں کہا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عدالت میں بلایا گیا اور آپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان لوگوں کو اس راستے سے آتے جاتے اور یہاں بیٹھے آپ عرصے سے دیکھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مَیں دیکھ رہا ہوں۔ عدالت نے مخالف فریق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ آپ کے بھائی آپ پر سخت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کیسے انکار کروں۔ اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلا کہ آپ نے ڈاکخانے کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص کسی پیکٹ میں، پارسل میں کوئی خط ڈال دے، چِٹھی ڈال دے تو خیال کیا جاتا تھا کہ اُس نے ڈاکخانہ کو دھوکہ دیا ہے اور پیسے بچائے ہیں۔ اور یہ ایک فوجداری جرم تھا جس کی سزا قید کی صورت میں دی جا سکتی تھی۔ آپ نے ایک پیکٹ میں یہ مضمون پریس کی اشاعت کے لئے بھیجا تھا اور اس میں ایک خط بھی ڈال دیا تھا جو اُس اشتہار یا مضمون کے متعلق ہی تھا، کچھ ہدایات تھیں اور اسے آپ اُس کا حصہ ہی سمجھتے تھے، نقصان پہنچانا مقصدنہیں تھا۔ پریس کے مالک نے جو غالباً عیسائی تھے، یہ رپورٹ کر دی۔ آپ پر مقدمہ چلایا گیا۔ وکیل نے کہا کہ مقدمہ کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اور گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ آپ انکار کر دیں کہ میں نے نہیں ڈالا تو کچھ نہیں ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ جو میں نے بات کی ہے، اُس کا انکار کیسے کر سکتا ہوں۔ چنانچہ جب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے پوچھا آپ نے کوئی ایسا مضمون ڈالا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ڈالا تھا لیکن کسی دھوکے کے لئے نہیں بلکہ خط کو مضمون کا حصہ ہی سمجھا تھا۔ اس سچائی کا عدالت پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے کہا کہ ایک اصطلاحی جرم کے لئے ایک سچے اور راستباز شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی اور بَری کر دیا۔

پھر آپ لکھتے ہیں کہ اسی طرح کئی واقعات، مقدمات میں آپ کو پیش آتے رہے جن کی وجہ سے اُن وکلاء کے دلوں میں جن کا ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا، آپ کی بہت عزت تھی۔ چنانچہ شیخ علی احمد صاحب ایک وکیل تھے۔ آپ نے ایک مقدمے میں شیخ علی احمد صاحب کو وکیل نہیں کیا توانہوں نے لکھاکہ مجھے افسوس ہے کہ اس مقدمے میں آپ نے مجھے وکیل نہیں کیا۔ اس لئے افسوس نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا، فیس لوں گا، بلکہ اس لئے کہ خدمت کا موقع نہیں مل سکا۔ سچائی اور راستبازی ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیر احمدی رہے۔ احمدی نہیں تھے اور انہوں نے بیعت نہیں کی، لیکن ظاہری رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اُن کا اخلاص کسی طرح بھی احمدیوں سے کم نہیں تھا۔

پھر آپ لکھتے ہیں کہ انہی پر موقوف نہیں بلکہ جن جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا، اُن کی یہی حالت تھی۔ جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپ پر مقدمہ کیا تو ایک ہندو وکیل لالہ بھیم سین صاحب تھے، اُن کی چھٹی آئی۔ اُن کا خط آیا کہ میرا لڑکا بیرسٹری پاس کر کے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اُسے آپ کی خدمت کی سعادت حاصل ہو اور اس میں آپ اُن کو وکیل کر لیں۔ یہ لڑکے جن کا ذکر ہے بڑے لائق وکیل تھے، وہاں لاء (Law) کالج کے پرنسپل بھی رہے اور پھر وہاں انڈیا میں ہائی کورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے۔ تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ لالہ بھیم سین صاحب نے الحاح سے یہ درخواست اس لئے کی کہ سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہ آپ کی سچائی دیکھ چکے تھے۔ سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں، غیروں پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آپ فرماتے ہیں کہ انبیاء دنیا میں آ کر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آ کر کوئی توپیں اور مشین گنیں ایجادنہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجادنہیں کی تھیں۔ پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اور جس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی۔ وہ سچائی کی روح اور اخلاقِ فاضلہ تھے۔ یہ پہلے مفقود تھی۔ آپ نے پہلے اُسے کمایا اور پھر یہ خزانہ دنیا کو دیا۔ اور صحابہ اور اُن کی اولادوں اور پھر اُن کی اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ یہ حکم سن کر کہ ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کا کلام پہنچائیں، کچھ گھبرا گئے۔ اس لئے کہ آپ اس عظیم الشا ن ذمہ داری کو کس طرح پورا کریں گے؟ اس گھبراہٹ میں آپ گھر آئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور شدتِ جذبات سے آپ اُس وقت سردی محسوس کر رہے تھے۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے کہا مجھے کپڑا پہنا دو، کپڑا اوڑھا دو۔ حضرت خدیجہ نے دریافت کیا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا۔ حضرت خدیجہ نے جواب دیا کہ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً۔ کہ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ خدا کی قَسم! کبھی خدا آپ کو رُسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں اور ان خوبیوں میں سے ایک یہ بتائی کہ جو اخلاق دنیا سے اُٹھ گئے ہیں آپ نے اپنے وجود میں ان کو دوبارہ پیدا کیا ہے اور بنی نوع انسان کی اس کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ تلاش کیا ہے۔ پھر بھلا خدا آپ جیسے وجود کو کس طرح ضائع کر سکتا ہے؟ تو انبیاء کی بعثت کی غرض یہی ہوتی ہے اور مومنوں کے سپرد یہی امانت ہوتی ہے جس کی حفاظت کرنا اُن کا فرض ہوتا ہے۔ محبت کی وجہ سے انبیاء کا وجود مومنوں کو بیشک بہت پیارا ہوتا ہے۔ مگر حقیقت کے لحاظ سے انبیاء کی عظمت کی وجہ وہی نور ہے جسے دنیا تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ اُنہیں مبعوث کرتا ہے، اُنہیں خدا تعالیٰ کا وہ پیغام ہی بڑا بناتا ہے جو وہ لاتے ہیں۔ پس جب نبی کے اَتْباع یعنی پیروکار اس وجود کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو اس پیغام کی حفاظت کے لئے کیا کچھ نہ کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے صحابہ کرام نے قربانیاں کیں، وہ واقعات پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُن کی محبت کو دیکھ کر آج بھی دل میں محبت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے۔ اُحد کی جنگ میں ایک ایسا موقع آیا کہ صرف ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر اور پتھر پھینک رہے تھے۔ اُس صحابی نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف کر دیا اور اُس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا۔ کسی نے صحابی سے پوچھا، یہ کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اتنے تیر اور پتھر اس پر لگے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے شل ہو گیا۔ اُس نے پوچھا کہ آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی۔ تو انہوں نے کہا اور بڑا لطیف جواب دیا۔ کہنے لگے کہ اُف نکلنا چاہتی تھی لیکن میں نکلنے نہیں دیتا تھا کیونکہ اگر اُف کرتا تو ہاتھ ہل جاتا اور کوئی تیر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جاتا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تم اس قربانی کا اندازہ کرو اور سوچو کہ اگر آج کسی کی انگلی کو زخم آ جائے تو وہ کتنا شور مچاتا ہے، مگر اُس صحابی نے ہاتھ پر اتنے تیر کھائے کہ وہ ہمیشہ کے لئے شَل ہو گیا۔

پھر ایک اور صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں، یہ بھی اُحد کا موقع ہے۔ اُحد کی جنگ میں بعض صحابہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پھر اکٹھے ہوئے تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صحابہ کو دیکھو کون کون شہید ہوا ہے اور کون کون زخمی ہوا ہے۔ اس پر بعض صحابہ میدان کا جائزہ لینے کے لئے گئے۔ ایک صحابی نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابی میدان میں زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ وہ اُن کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ اُن کے بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور اُن کی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ اس پر وہ صحابی اُن کے قریب ہوا اور پوچھا کہ اپنے عزیزوں کو کوئی پیغام دینا ہے تو بتا دیں، مَیں اُن کو پہنچا دوں۔ اُن زخمی صحابی نے کہا کہ میں انتظار ہی کر رہا تھا کہ میرے پاس سے کوئی گزرے تو میں اُسے پیغام دوں۔ سو تم میرے عزیزوں کو، میرے گھر والوں کو، بیوی بچوں کو یہ پیغام دے دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیمتی امانت ہیں۔ جب تک ہم زندہ رہے، ہم نے اپنی جانوں سے اس کی حفاظت کی۔ اور اب کہ ہم رخصت ہو رہے ہیں تو مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ یعنی عزیز رشتہ دار ہم سے بڑھ کر قربانیاں کر کے اس قیمتی امانت کی حفاظت کریں گے۔ فرماتے ہیں کہ غور کرو، موت کے وقت جبکہ وہ جانتے تھے کہ بیوی بچوں کو کوئی پیغام دینے کے لئے اب اُن کے لئے کوئی اَور وقت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب انسان کو جائداد اور لین دین کے بارے میں بتانے کا خیال آتا ہے، جب لوگ اپنے پسماندگان کی بہتری کی تشویش اور فکر میں ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اس صحابی کو یہی خیال آیا کہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں جان دے رہا ہوں اور عزیزوں کو پیغام دیتے ہیں کہ تم سے بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ تم اس پر گامزن رہو گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے۔ پس جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے یہ قربانیاں کیں، وہ اُس پیغام کے لئے جو آپ لائے، کیا کچھ قربانیاں نہ کر سکتے ہوں گے۔ اور انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا؟ صحابہ نے اس بارے میں جو کچھ کیا، حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کی مثال کے طور پر میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ آپ کی وفات کی خبر صحابہ میں مشہور ہوئی تو اُن پر شدتِ محبت کی وجہ سے گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ حتٰی کہ بعض صحابہ نے یہ خیال کیا کہ یہ خبر ہی غلط ہے کیونکہ ابھی آپ کی وفات کا وقت نہیں آیا، کیونکہ ابھی بعض منافق مسلمانوں میں موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس خیال میں مبتلا ہو گئے اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ آپ آسمان پر گئے ہیں، پھر دوبارہ تشریف لا کر منافقوں کو ماریں گے اور پھر وفات پائیں گے۔ بہت سے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے اور کہنے لگے ہم کسی کو یہ نہیں کہنے دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ بظاہر یہ محبت کا اظہار تھا مگر دراصل اُس تعلیم کے خلاف تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ کیونکہ قرآنِ کریم میں صاف موجود ہے کہ اَفَا ئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمَ(آل عمران: 145)یعنی کیا اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا اے مسلمانو! تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں نہیں تھے، باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ کو جب یہ خبر ملی تو آپ جلدی واپس مدینہ تشریف لائے اور سیدھے اُس حجرہ میں چلے گئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمِ اطہر رکھا ہوا تھا۔ اور آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے چادر اُٹھائی اور دیکھا کہ واقعہ میں آپ کی وفات ہو چکی ہے۔ پھر جھکے اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور جسمِ اطہر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں نہیں لائے گا۔ یعنی ایک تو ظاہری موت اور دوسرے یہ کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ جائے۔ پھر آپ باہر تشریف لائے جہاں صحابہ جمع تھے اور جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار ہاتھ میں لے کر بڑے جوش میں یہ اعلان کر رہے تھے کہ جو کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں وہ منافق ہے اور میں اُس کی گردن اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تشریف لائے اور لوگوں کو خاموش ہونے کو کہا۔ اور بڑے زور سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی فرمایا کہ چپ رہو اور مجھے بات کرنے دو۔ اور پھر یہ آیت پڑھی۔ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَا ئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمَ(آل عمران145) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف خدا کے رسول ہیں، آپ سے قبل جتنے رسول آئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔ اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم اپنے دین کو چھوڑ دو گے؟ اور سمجھو گے کہ تمہارا دین ناقص ہے؟ پھر نہایت جوش سے فرمایا کہ اے لوگو! مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَيٌ لَا یَمُوْتُ۔ جو تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور کبھی نہیں مر سکتا۔ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّداً فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ۔ لیکن جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، وہ سن لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ بالا آیت پڑھی، مجھے ایسا معلوم ہوا گویا آسمان پھٹ گیا ہے اور میری ٹانگیں لڑکھڑا گئیں اور پاؤں کی طاقت سلب ہو گئی اور میں بے اختیار ہو کر زمین پر گر پڑا۔ اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ دیکھو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی کہ جب اُنہیں معلوم ہو گیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں تو بے اختیار ہو کر آپ کے جسمِ مبارک کو بوسہ دیا، آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے مگر دوسری طرف اُس سچائی سے کتنی محبت تھی جو آپ لائے تھے کہ حضرت عمر جیسا بہادر تلوار لے کر کھڑا ہے کہ جو کہے گا آپ فوت ہو گئے ہیں مَیں اُسے جان سے مار دوں گا اور بہت سے صحابہ اُن کے ہم خیال ہیں۔ مگر باوجود اس کے آپ نڈر ہو کر کہتے ہیں کہ جو کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے۔ میں اُسے بتاتا ہوں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں۔ مگر وہ خدا جس کی آپ پرستش کرانے آئے تھے وہ زندہ ہے۔ یہ سچائی کا اثر تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے دلوں میں پیدا کر دی تھی کہ وہ صحابہ جو ننگی تلواریں لے کر کھڑے تھے انہوں نے یہ بات سنتے ہی سر جھکائے اور تسلیم کر لیا کہ ٹھیک ہے، آپ واقعہ میں فوت ہو گئے ہیں۔ پھر حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کو جو بے مثل محبت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے تھی، وہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر تیار کیا تھا کہ شام کے بعض مخالفین کو جا کر اُن کی شرارتوں کی سزا دے۔ ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ منتخب ہوئے اور اکثر صحابہ نے اتفاق کر کے آپ سے عرض کیا کہ اس لشکر کی روانگی ملتوی کر دی جائے کیونکہ چاروں طرف سے عرب میں بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں اور مکہ اور مدینہ اور صرف ایک اور گاؤں تھا جس میں باجماعت نماز ہوتی تھی۔ لوگوں نے نمازیں پڑھنی بھی چھوڑ دی تھیں اور لوگوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے۔ صحابہ نے حضرت عمر کو حضرت ابوبکر کے پاس بھیجاکہ اس لشکر کو روک لیں۔ کیونکہ اگر بوڑھے بوڑھے لوگ یا بچے ہی مدینہ میں رہ گئے تو وہ باغی لشکروں کا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے۔ یعنی جو دوسرے باغی لوگ تھے اُن کا مقابلہ مدینہ کے یہ بوڑھے کس طرح کر سکیں گے۔ مگر حضرت ابوبکر نے اُن کو یہ جواب دیا کہ کیا ابو قحافہ کے بیٹے کو یہ طاقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے۔ خدا کی قَسم! اگر باغی مدینہ میں داخل بھی ہو جائیں اور ہماری عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسیٹتے پھریں، جب بھی وہ لشکر ضرور جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کو آپ سے کتنا عشق تھا مگر چونکہ آپ صدیقیت کے مقام پر تھے اس لئے جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے۔ پس ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کو لیا اور اسے قائم رکھا۔ حتی کہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اُسے ذرہ بھر بھی نہیں بدلا گیا۔ عیسائی، ہندو، یہودی غرضیکہ سب مخالف قومیں تسلیم کرتی ہیں کہ قرآنِ کریم کا ایک شعشہ بھی نہیں بدلا۔ آج یہاں کے نام نہاد ریسرچرز (Researchers) کو جو یہ اُبال چڑھا ہے کہ قرآنِ شریف بدلا گیا، حالانکہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ایک شعشہ بھی بدلا گیا ہے۔ جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا، وہی قرآنِ کریم آج ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اب اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا کہ تا آپ اخلاقِ فاضلہ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق دلوں میں قائم کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا اجراء کریں۔ اور ہمیں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے ان چیزوں کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کی تھی۔ ہم میں اور دوسری قوموں میں ایسا امتیاز ہونا چاہئے کہ پتہ لگ سکے کہ ہم نے اس امانت کو قائم رکھا ہے۔

آپ پھر آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک جماعت ایسی موجود تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ نسلوں میں بھی یہی جذبہ موجود ہے؟ کیا کوئی عقلمند یہ پسند کر سکتا ہے کہ ایک اچھی چیز اُسے تو ملے مگر اُس کی اولاد اُس سے محروم رہے۔ پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کی قدروقیمت جانتا ہے، وہ پسند کرے گا کہ وہ اُس کے ورثاء کو نہ ملے لیکن اُس کی زمین اور اُس کے مکانات اُنہیں مل جائیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ (الانعام: 33)۔ کہ دنیوی زندگی لہو و لعب کی طرح ہے۔ یہ سب کھیل تماشے کی چیزیں ہیں۔ یہ ایسی ہی ہیں جس طرح فٹ بال، کرکٹ یا ہاکی ہوتی ہے۔ پھر کیا کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ حکومت اُس کی زمین، مکان اور جائیداد تو ضبط کر لے مگر گُلّی ڈنڈا اُسکے بیٹے کو دے دے یا کوئی پھٹا پرانا فٹبال یا ٹوٹا ہوا ٹینس ریکٹ یا ہاکی کی سٹک (stick) اُس کے بیٹوں کو دے دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیوی چیزیں لہو و لعب ہیں اور دین و دنیا میں وہی نسبت ہے جو حقیقی چیز کو کھیل تماشے سے ہوتی ہے اور کوئی شخص یہ کب پسند کر سکتا ہے کہ قیمتی ورثہ تو اُس کی اولاد کو نہ ملے اور لہو و لعب کی چیزیں مل جائیں۔ لیکن کیا ہم میں سے ایسے لوگ نہیں ہیں جو عملاً ایسا کرتے ہیں۔ جب اُن کا بیٹا جھوٹ بولے، چوری کرے یا کوئی اور جرم کرے تو اُس کی تائید کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ماں باپ چوری چھپے جرم کرنے والوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول تو وہ اس وجہ سے مجرم ہیں کہ انہوں نے اولاد کو دینی تعلیم سے محروم رکھا۔ اگر اُن کے نزدیک نیکی کی کوئی قیمت ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اس سے اپنی اولاد کو محروم رکھتے اور اگر تربیت میں کوتاہی ہو گئی تو پھر مجرم کی اعانت سے ہی باز رہتے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ  (المائدۃ: 3) کہ نیکی اور تقویٰ میں ضرور تعاون کرو مگر بدی اور عدوان میں تعاون نہ کرو۔ تو آپ نے فرمایا کہ پہلا جرم تو انہوں نے یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا(التحریم: 7) کہ اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اور دوسرا یہ جرم کرتے ہیں (بعض لوگوں کی شکایات آئی تھیں، اُس پر یہ بیان فرما رہے ہیں۔ اور اس طرح کی شکایتیں آجکل بھی آتی ہیں) کہ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدۃ: 3)۔ کے حکمِ الٰہی کو توڑتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو دین کو نعمت قرار دیتا ہے، مگر وہ جماعت جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی دعویدار ہے اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اول تو اپنی اولاد کو دین سے محروم رکھتے ہیں اور پھر جب وہ شرارت کریں تو اُن کی مدد کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ بعض ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جن پر شرافت اور انسانیت بھی چلّا اُٹھتی ہے۔ چہ جائیکہ احمدیت اور ایمان کے متحمل ہو سکیں۔ مگر ایسے مجرموں کے والدین، بھائی، رشتہ دار بلکہ دوست اُن کی مدد کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کرنے سے ایمان کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ ایسے آدمی کا دین تو آسمان پر اُڑ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو۔ ایک دفعہ بعض صحابہ نے آپ کے پاس کسی مجرم کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی سزاسے نہیں بچ سکے گی۔ تو تقویٰ اور طہارت ایسی نعمت ہے کہ اس کے حصول کے لئے انسان کو کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو ہمیں دولت ملی ہے وہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں اور اپنی اولادوں کو اُن کا وارث بنانا ہمارا فرض ہے۔ اور اگر غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو مومن کا فرض ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ نہ دکھائے، بلکہ اُسی وقت اس سے علیحدہ ہو جائے جس نے جرم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اس کی ایسی مثالیں ہمیں دکھائی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے، اُن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سید حامد شاہ صاحب مرحوم بہت مخلص احمدی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو اپنے بارہ حواریوں میں سے قرار دیا تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میرے سامنے بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے نام گنے تو ان کا بھی نام لیا تھا۔ اور پھر ان کے نیک انجام نے اُن کے درجہ کی بلندی پر مہر بھی لگا دی۔ ایک دفعہ اُن کے لڑکے کے ہاتھ سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ مگر یہ قتل ایسے حالات میں ہوا کہ عوام کی ہمدردی اُن کے لڑکے کے ساتھ تھی۔ یہ جو بزرگ صحابی سید حامد شاہ صاحب تھے، ان کے بیٹے سے قتل ہوا لیکن حالات ایسے تھے کہ اس قتل کے باوجود عوام الناس ان سے، ان کے بیٹے سے ہی ہمدردی کر رہے تھے۔ کیونکہ مقتول کی زیادتی تھی جس پر لڑائی ہو گئی اور اُن کے لڑکے نے اُسے مُکّہ مارا اور وہ مر گیا۔ وہ ایسے ہی واقعہ ہوا جیسے حضرت موسیٰ کے زمانے کا واقعہ ہے۔ سیالکوٹ کا ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا، وہ ایسے افسروں میں سے تھا جو جرم ثابت ہو یا نہ ہو، سزا ضرور دینا چاہتے ہیں تا رعب قائم ہو جائے۔ اُسے خیال آیا کہ میر حامد شاہ صاحب میرے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ اگر میں ان کے لڑکے کو سزا دوں گا تو میرے انصاف کی دھوم مچ جائے گی۔ اس لئے شاہ صاحب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ کے لڑکے نے قتل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ میں تو وہاں موجودنہ تھا لیکن سنا ہے کہ کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ آپ اُسے بلا کر کہہ دیں کہ وہ اقرار کر لے تا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ آپ نے اپنے لڑکے کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اس شخص کو مارا ہے۔ اُس نے کہا ہاں مارا ہے۔ آپ نے فرمایا پھر سچی بات کا اقرار کر لو۔ لوگوں نے کہا کیوں اپنے جوان لڑکے کو پھانسی لٹکوانا چاہتے ہو۔ مگر آپ نے فرمایا کہ اس دنیا کی سزا سے اگلی دنیا کی سزا زیادہ سخت ہے اور اپنے بیٹے کو یہی نصیحت کی کہ اقرار کر لے۔ لیکن خدا کی قدرت کہ اُس نے اقرار تو کر لیا مگر وہ لڑکا کرکٹ کا کھلاڑی تھا اور وہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ تھا، وہ بھی کرکٹ کھیلنے والا تھا، اُسے کرکٹ کلب میں معاملہ کی حقیقت معلوم ہو گئی اور چونکہ قانون ایسا ہے کہ اگر مجسٹریٹ کو کسی بات کا یقین ہو جائے تو ملزم سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اُس نے خود ہی پولیس کے گواہوں پر ایسی جرح کی کہ اُس لڑکے کی بریت ثابت ہو گئی اور اس نے اس وجہ سے کچھ پوچھے بغیر ہی اُسے رہا کر دیا۔ تو سچائی کی وجہ سے وہ اس سزا سے بھی چھوٹ گئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اسی قسم کا ایک مقدمہ پچھلے دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بھائی پر ہوا۔ چوہدری صاحب اُس وقت ولایت میں تھے۔ (یہاں لندن میں تھے)۔ انہوں نے اپنے بھائی کو لکھا کہ یہ ایمان کی آزمائش کا وقت ہے۔ اگر تم سے قصور ہوا ہے تو میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس دنیا کی سزا سے اگلے جہان کی سزا زیادہ سخت ہے۔ اس لئے اُسے برداشت کر لو اور سچی بات کہہ دو۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہمارے ایک دوست ہیں جو ابھی زندہ ہیں۔ احمدی ہونے کے بعد جب اُنہیں معلوم ہوا کہ رشوت لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو اُنہوں نے تمام اُن لوگوں کے گھروں میں جا جا کر جن سے وہ رشوتیں لے چکے تھے، واپس کیں۔ اس سے وہ بہت زیرِ بار بھی ہو گئے۔ مقروض ہو گئے۔ مگر اس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ہماری جماعت میں ہر قسم کے اعمال کے لحاظ سے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کے نمونے ہیں لیکن ہمیں اس پر خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ساری جماعت ایسی ہو جائے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امانت کی قدر کریں جو اُن کے سپرد کی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر ہمیں جائیدادیں نہیں دیں، حکومتیں نہیں دیں، کوئی ایجادیں نہیں کیں، سامانِ تعیش ہمیں مہیا نہیں کئے، عیش کرنے کے سامان مہیا نہیں کئے، صرف ایک سچائی ہے جو ہمیں دی ہے۔ اگر وہ بھی جاتی رہے تو کس قدر بدقسمتی ہو گی اور ہم اس فضل کو اپنے ہاتھ سے پھینک دینے والے ہوں گے جو تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم کو اسلام دیا، اخلاقِ فاضلہ دئیے اور نمونے سے بتا دیا کہ ان پر عمل ہو سکتا ہے۔

پھر آپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کے لئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے۔ مسلمانوں میں علماء کہلانے والے اُس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت الہاماً بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اُسے ذلیل کرے گا۔ لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلت کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کے لئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے مگر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے پیروی کر رہے تھے، سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جو ذاتی سوال تھا، جس سے مولوی محمد حسین کی ذلت ہوتی تھی۔ مطلب اس وجہ سے ذات پر اُن کے حرف آتا تھا۔ تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوالات کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی۔ مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں، ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ جو وکیل تھے مولوی فضل دین، یہ احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکیل تھے اور آپ کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے تھے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حنفیوں کے لیڈر بھی تھے یہ، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے، اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے مگر جب بھی کبھی غیر احمدیوں کی مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پُر زور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے ایسے ایسے مواقع پر اُن کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر آپ کھڑے تھے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی، اُس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کر دیا۔ اور یہ اس طرح ہوا کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اُس نے جونہی آپ کی شکل دیکھی، اُس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت سے اُس کے سامنے پیش ہوئے تھے اُس نے کرسی منگوا کر اپنے سامنے بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھوایا۔ جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی دینے کے لئے آئے، چونکہ وہ اس امید پر آئے تھے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی یا کم سے کم آپ کو ذلت سے کھڑا کیا گیا ہو گا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصہ سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے۔ ا س پر عدالت نے کہا کہ نہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جب انہوں نے اصرار کیا تو جج نے اُن کو بڑا سخت ڈانٹا۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی۔ اس کے بالمقابل ہماری جماعت کے کتنے دوست ہیں جو غصے کے موقع پر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ ایسے شدید دشمن کے صحیح واقعات سے بھی اُس کی تذلیل گوارا نہیں کرتے مگر ہمارے دوست جوش میں آ کر گالیاں دینے بلکہ مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:

؎ رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

پس ہماری جماعت کو ایک طرف تو یہ اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں اور دوسری طرف بدی سے پوری پوری نفرت کرنی چاہئے۔ ایسی ہی نفرت جیسی حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں بھی یہ دونوں نظارے پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن ایک سمویا ہوا انسان ہے۔ اور پھر واقعہ بیان کیا کہ پنڈت لیکھرام کو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُس نے زبان درازی کی تھی۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی رحم ہے کہ اپنے متعلق جو بات ہو رہی ہے اُس میں فرمایا کہ نہیں۔ ایسا کام نہیں کرنا جس سے مولوی محمد حسین صاحب کوذلت کا سامنا کرنا پڑے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کہ جو شخص اپنی اولاد کو نیک اخلاق نہیں سکھاتا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے دشمنی کرتا ہے بلکہ سلسلہ سے بھی دشمنی کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتا ہے اور خدا سے دشمنی کرتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ مَیں بہت ساری نصیحتیں کرتا رہتا ہوں، خطبات دیتا رہتا ہوں، اور یہ سلسلہ تو ہر دور میں چلتا ہے، تمام خلفاء نے دیئے، دیتے رہے ہیں، مَیں بھی دیتا ہوں۔ آپ مثال اس کی دیتے ہیں کہ جب تک خطبات چلتے رہتے ہیں، کچھ نہ کچھ اثر رہتا ہے اور جب خطبات کا سلسلہ بند ہوتا ہے یا پھر کچھ عرصے بعد وہ اثر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس کی مثال دی کہ ایک کھلونا ہوتا ہے جس کا نام ہے jack in the box۔ وہ باکس کے اندر ایک لچکدار گڈا ہوتا ہے۔ جب ڈھکنا بند کر دیں تو وہ اندر بند ہو جاتا ہے۔ ڈھکنا کھولو تو پھر اچھل کے باہر آ جاتا ہے۔ تو یہی حال ان لوگوں کا ہے جن کو نصیحت کرتے رہو، کرتے رہو، کچھ عرصہ اثررہتا ہے اور جب نصیحت بند ہوتی ہے تو پھر وہ اُسی طرح اچھل کے باہر آ جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ خدا نے کسی کو اتنا وقت نہیں دیا کہ ایسے وعظ کر سکے کہ مستقل چلتے چلے جائیں۔ اصل چیز یہی ہے کہ انسان مومن بنے، پھر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ کشمکش اُسی وقت تک کے لئے ہے جب تک ایمان نہ ہو۔

پس جب توجہ دلائی جائے تو اُس کو غور سے سننے کے بعد پھر اُس کو عملی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے اور یہی جماعت کی ترقی کا راز ہے اور یہی چیز جو ہے انسان کو صحیح عبد بناتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے اُن پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے۔ انسان کے اندر کمزوریاں خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، اگر وہ چھوڑنے کا ارادہ کر لے تو کچھ مشکل نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور مقولہ ہے کہ اگر تمہارے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑ کو اُن کی جگہوں سے ہٹا سکتے ہو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ گناہ خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، انسان کے اندر ایمان اگر رَتّی برابر بھی ہے تو وہ ان پہاڑوں کو اُڑا سکتا ہے۔ جس دن مومن ارادہ کر لے تو اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں رہتی۔ وہ سب روکیں دور ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ اس وقت مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی اولادوں کی اور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کی اصلاح کریں۔ اپنی اصلاح کریں۔ جھوٹ، چوری، دغا، فریب، دھوکہ، بدمعاملگی، غیبت وغیرہ بدعادات ترک کر دیں۔ حتی کہ اُن کے ساتھ معاملہ کرنے والا محسوس کرے کہ یہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ اور اچھی طرح یاد رکھو کہ اس نعمت کے دوبارہ آنے میں تیرہ سو سال کا عرصہ لگا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملی۔ اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اور پھر تیرہ سو سال پر یہ جا پڑی تو اُس وقت تک آنے والی تمام نسلوں کی لعنتیں ہم پر پڑتی رہیں گی۔ اس لئے کوشش کرو کہ اپنی تمام نیکیاں اپنی اولادوں کو دو اور پھر وہ آگے دیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کو دیں۔ اور یہ امانت اتنے لمبے عرصے تک محفوظ چلی جائے کہ ہزاروں سالوں تک ہمیں اس کا ثواب ملتا جائے۔ کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیکی کسی شخص کے ذریعہ سے قائم ہو، وہ جب تک دنیا میں قائم رہے اور جتنے لوگ اُسے اختیار کرتے جائیں اُن سب کا ثواب اُس شخص کے نام لکھا جاتا ہے۔ پس جو بدلہ ملتا ہے وہ بھی بڑا ہے اور امانت بھی اپنی ذات میں بہت بڑی ہے۔ اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ (الفضل 26؍اگست 1936ء۔ بحوالہ خطباتِ محمود۔ جلد 17 صفحہ 547 تا 559)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمارے بزرگوں کی طرف سے جو امانت عطا ہوئی ہے ہم اس کا حق ادا کرنے والے بنیں اور جن لوگوں نے خود اس امانت کو یہ عہد کرتے ہوئے قبول کیا ہے کہ ہم اس کا حق ادا کریں گے اُن کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور نسلاً بعدنسل یہ حق ادا ہوتا چلا جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 29؍ نومبر 2013ء شہ سرخیاں

    عبادت کا حق صرف نمازیں پڑھنے سے ادا نہیں ہوتا۔ اگر خدا تعالیٰ کے باقی احکامات کی ادائیگی سامنے رکھتے ہوئے اُن پر عمل نہ ہو تو نمازیں بھی کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ مثلاً اگر انسان کے ہر معاملے میں سچائی نہیں تو عبادت کرنا اور مسجد میں آ کر نمازیں پڑھنا، عبادت کرنے والوں میں شمار نہیں کروائے گا۔ اسی طرح کینہ ہے، حسد ہے، بُغض ہے اور بہت سی برائیاں ہیں، یہ عبادت کی روح کو ختم کر دیتی ہیں۔ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکّہ جما لیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکّہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہو سکتا۔ اس کی ایک موٹی مثال سچائی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے۔ دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے۔

    حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرمودہ ایک خطبہ جمعہ کے حوالہ سے سچائی اور دیگر اخلاق کو مضبوطی سے اپنانے کی تاکیدی نصائح۔

    فرمودہ مورخہ 29نومبر 2013ء بمطابق 29 نبوت 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور