محاسبہ اور اصلاحِ عمل
خطبہ جمعہ 6؍ دسمبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک خطبہ کے حوالے سے عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپ کے غلامِ صادق کے طریق اور طرزِ عمل کے واقعات بیان کئے تھے جن میں ایک خُلق ’’سچائی‘‘ کا تفصیل کے ساتھ بیان ہوا تھا کہ ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلامِ صادق کس اعلیٰ معیار پرقائم تھے۔ اور پھر معیاروں کی یہ بلندی آگے صحابہ کو بھی ان نمونوں کی پیروی کرتے ہوئے کس اعلیٰ مقام پر لے گئی۔
سچائی کے حوالے سے بات تو ایک مثال کے طور پر تھی۔ حقیقت میں تو ہر نیکی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم فرمایا ہے، اُس کا حصول اور ہر برائی جس سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے، اُس سے نہ صرف رکنا بلکہ نفرت کرنا عملی اصلاح کی اَصل اور جڑ ہے۔ پس ہم تب حقیقی مسلمان کہلائیں گے، ہم تب زمانے کے امام کی حقیقی جماعت کے فرد کہلائیں گے جب نیکیاں اور اعلیٰ اخلاق ہم میں پیدا ہوں گے، جن کے پیدا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو حکم دیا ہے۔ اور دوسری طرف بدی سے انتہائی کراہت کے ساتھ نفرت ہو۔ گویا حقیقی مومن ایک ایسا سمویا ہوا انسان ہوتا ہے جو نیکیوں کی تلاش کر کے اُنہیں سینے سے لگانے والا اور بدیوں سے دور بھاگنے والا ہو۔ تبھی وہ اعتدال کے ساتھ اپنے معاملات طے کر سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ برائیوں اور نیکیوں کے بیچ لٹکا ہوا ہو اور پھر دعوے بھی بلند بانگ ہوں۔ گزشتہ خطبہ میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ اعتقادی لحاظ سے ہمارے پاس بڑے ٹھوس دلائل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں صداقتِ اسلام اور صداقتِ احمدیت کے لئے دئیے ہیں۔ اور یہ بات ہمیشہ ہمارا پلّہ دشمن پر بھاری رکھتی ہے۔ ڈھٹائی اور ضد اور شقاوتِ قلبی کی وجہ سے اگر کوئی نہ مانے تو اور بات ہے، لیکن بہر حال ان کا ردّ مخالفینِ اسلام کے پاس نہیں ہے اور اس وجہ سے بحث سے بھی کتراتے ہیں جب ایک دفعہ پتہ لگ جائے کہ احمدی کس نہج پر بحث کر رہا ہے۔ ’’الحوار المباشر‘‘ کے ہمارے عربی پروگرام میں کئی عیسائیوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے پاس دلائل ٹھوس ہیں۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کی صداقت کی بھی ہمارے پاس بہت دلیلیں ہیں۔ ایک طرف غیروں پراسلام کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں، دوسری طرف مسلمانوں میں سے جو جماعت پراعتراض کرتے ہیں، اُن کے اعتراض کا ردّ بھی ہے۔ مخالفین اگر ضدنہ کریں اور توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو اور فرمودہ دلائل کو پیش نہ کریں یا نہ دیکھیں تو احمدیت کی سچائی کو مانے بغیر اُن کو چارہ نہیں ہے۔ لیکن ان علماء کے ذاتی مفادات اُنہیں اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پلندوں سے عوام الناس کو ورغلاتے رہیں اور جب دلیل کوئی نہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی کرتے رہیں۔ پس جہاں تک دلائل کا سوال ہے، ہمارا پلّہ ہر مخالفِ اسلام اور مخالفتِ احمدیت پر بھاری ہے۔ ہم میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں، اُن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے سامنے تو کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر تم میری کتب پڑھ لو تو تمہارے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ (ماخوز از رجسٹرروایات (غیرمطبوعہ) رجسٹر نمبر 7صفحہ 49 روایت حضرت میاں محمد الدین صاحبؓ)
لیکن جب ہم اس پہلو کی طرف دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں جو عملی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُس کی حالت کیا ہے؟ تو پھر فکر پیدا ہوتی ہے۔ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہم میں سے ہر ایک معاشرے کی ہر برائی کا مقابلہ کر کے اُسے شکست دے رہا ہے؟ کیا ہم میں سے ہر ایک کے ہر عمل کو دیکھ کر اُس سے تعلق رکھنے والا اور اُس کے دائرے اور ماحول میں رہنے والا اُس سے متاثر ہو رہا ہے، یا پھر ہم ہی معاشرے کے اثر سے متاثر ہو کر اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھولتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہر ایک بھرپور کوشش کرتے ہوئے اپنی اس طرح عملی اصلاح کر رہا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے، یہ پوچھتی ہے کہ کیا ہم نے سچائی کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں کہ جھوٹ اور فریب ہمارے قریب بھی نہ پھٹکے؟ کیا ہم نے اپنے دنیاوی معاملات سے واسطہ رکھتے ہوئے آخرت پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے؟ کیا ہم حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایک بدی سے اور بدعملی سے انتہائی محتاط ہو کر بچنے کی کوشش کرنے والے ہیں؟ کیا ہم کسی کا حق مارنے سے بچنے والے اور ناجائز تصرف سے بچنے والے ہیں؟ کیا ہم پنجگانہ نماز کا التزام کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہمیشہ دعا میں لگے رہنے والے اور خدا تعالیٰ کو انکسار سے یاد کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایسے بد رفیق اور ساتھی کو جو ہم پر بد اثر ڈالتا ہے، چھوڑنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ماں باپ کی خدمت اور اُن کی عزت کرنے والے اور امورِ معروفہ میں اُن کی بات ماننے والے ہیں؟ کیا ہم اپنی بیوی اور اُس کے رشتہ داروں سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ہمسائے کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے محروم تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنے قصور وار کا گناہ بخشنے والے ہیں؟ کیا ہمارے دل دوسروں کے لئے ہر قسم کے کینے اور بُغض سے پاک ہیں؟ کیا ہر خاوند اور ہر بیوی ایک دوسرے کی امانت کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ کیا ہم عہدِ بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالتوں کی طرف نظر رکھنے والے ہیں؟ کیا ہماری مجلسیں دوسروں پر تہمتیں لگانے اور چغلیاں کرنے سے پاک ہیں؟ کیا ہماری زیادہ تر مجالس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کرنے والی ہیں؟
اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے دُور ہیں اور ہمیں اپنی عملی حالتوں کی فکر کرنی چاہئے۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہم میں سے وہ خوش قسمت ہیں جن کو یہ جواب ہاں میں ملتا ہے کہ ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دے کر بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے ہم دیکھیں تو ہمیں یہی جواب نظر آتا ہے کہ بسا اوقات معاشرے کی رَو سے متاثر ہوتے ہوئے ہم ان باتوں یا ان میں سے اکثر باتوں کا خیال نہیں رکھتے اور معاشرے کی غلطیاں بار بار ہمارے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم اکثر اوقات بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے 99.99 فیصد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عقیدے کے لحاظ سے پختہ ہیں اور کوئی ہمیں ہمارے عقیدے سے متزلزل نہیں کر سکتا، ہٹا نہیں سکتا۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ عملی کمزوریاں جب معاشرے کے زور آور حملوں کے بہاؤ میں آتی ہیں تو اعتقاد کی جڑوں کو بھی ہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ شیطان آہستہ آہستہ حملے کرتا ہے۔ نظامِ جماعت سے دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو خلافت سے بھی دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔
پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک کمزوری دوسری کمزوری کی جاگ لگاتی ہے اور آخر کار سب کچھ برباد ہو جاتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ احمدیت کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کی لڑی میں پرویا جانا ہے۔ اور یہی ہماری اعتقادی طاقت بھی ہے اور عملی طاقت بھی ہے۔ اس لئے ہمیشہ خلفائے وقت کی طرف سے کمزوریوں کی نشاندہی کر کے جماعت کو توجہ دلائی جاتی رہتی ہے تا کہ اس سے پہلے کہ کوئی احمدی اتنا دور نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ملنا مشکل ہو، استغفار کرتے ہوئے اپنی عملی کمزوریوں پر نظر رکھے اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو یاد کرے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کیا ہے۔
مشرقِ بعید کے میرے حالیہ دورے کے دوران مجھے انڈونیشیا کے کچھ غیر از جماعت سکالرز اور علماء سے بھی ملنے کا موقع ملا۔ سنگا پور میں جو reception ہوئی تھی اُس میں آئے ہوئے تھے اور جیسا کہ میں اپنے دورے کے حالات میں بیان کر چکا ہوں کہ اکثر نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے علماء کو جماعت احمدیہ کے امام کی باتیں سننی چاہئیں۔ تو بہر حال اُن کے ایک سوال کے جواب میں مَیں نے اُنہیں یہی کہا تھا کہ آج رُوئے زمین پر جماعت احمدیہ ایک واحد جماعت ہے جو ملکی یا علاقائی نہیں بلکہ تمام دنیا میں ایک جماعت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جس کی ایک اکائی ہے، جس میں ایک نظام چلتا ہے اور ایک امام سے منسلک ہے اور دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل کا فرد اس میں شامل ہے۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان اور پیشگوئی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ مسلم اُمّۃ میں ایک جماعت ہوگی۔ آپ نے فرمایا تھا ایک جماعت ہو گی جو صحیح رستے پر ہو گی۔ (سنن الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ حدیث نمبر 2641) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی صداقت کی دلیل ہے۔ جو عقل مند اور سعید فطرت مخالفین بھی ہیں اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ لیکن اس دلیل کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی عملی حالتوں کی طرف ہر وقت نظر رکھنی ہو گی کیونکہ اس زمانے میں شیطان پہلے سے زیادہ منہ زور ہوا ہوا ہے۔
آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤ ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادیٔ اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں۔ یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے۔ لیکن آج سفروں کی سہولتیں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو ورغلا کر اُن کی عملی حالتوں کی کمزوری تو ایک طرف رہی، دین سے بھی دور ہٹا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں میرے علم میں ایک بات آئی کہ پاکستان میں اور بعض ملکوں میں، وہاں کی یہ خبریں ہیں کہ لڑکیوں کو شادیوں کا جھانسہ دے کر پھر بالکل بازاری بنا دیا جاتا ہے۔ وقتی طور پر شادیاں کی جاتی ہیں پھر طوائف بن جاتی ہیں اور یہ گروہ بین الاقوامی ہیں جو یہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ یقینا یہ خوفناک حالت رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ اسی طرح نوجوان لڑکوں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف عملی بلکہ اعتقادی طور پر بھی بالکل مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ پس جہاں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان غلاظتوں سے محفوظ رکھے، وہاں ہر احمدی کو بھی اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے ان غلاظتوں سے بچنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے۔ زمانے کی ایجادات اور سہولتوں سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے زمانے کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر تکمیلِ اشاعتِ ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مددگار بننا ہے نہ کہ بے حیائی، بے دینی اور بے اعتقادی کے زیرِ اثر آ کر اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا ہے۔
پس ہر احمدی کے لئے یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔ ہمارے بڑوں کو بھی اپنے نمونے قائم کرنے ہوں گے تا کہ اگلی نسلیں دنیا کے اس فساد اور حملوں سے محفوظ رہیں اور نوجوانوں کو بھی بھر پور کوشش اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے آپ کو دشمن کے حملوں سے بچانا ہو گا۔ وہ دشمن جو غیر محسوس طریق پر حملے کر رہا ہے، وہ دشمن جو تفریح اور وقت گزاری کے نام پر ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہماری جماعت کے نوجوانوں اور کمزور طبع لوگوں کو متاثر بھی کر رہا ہے۔ اُن میں نقص پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔
بیشک جیسا کہ میں نے کہا، خلفائے احمدیت عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ گزشتہ خلفاء بھی اور میں بھی خطبات وغیرہ کے ذریعہ اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں اور ان ہدایات کی روشنی میں ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی پروگرام بناتے ہیں تا کہ ہم ہر طبقے اور ہر عمر کے احمدی کو دشمن کے ان حملوں سے بچانے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی طرف خود توجہ کرے، مخالفینِ دین کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دشمنانِ دین کی اصلاح کا عزم لے کر کھڑا ہواور صرف دفاع نہیں کرنا بلکہ حملہ کر کے اُن کی اصلاح بھی کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک خاص تعلق پیدا کرے تو نہ صرف ہم دین کے دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنا رہے ہوں گے بلکہ اُن کی اصلاح کر کے اُن کی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بھی ہوں گے۔ بلکہ اس فتنہ کا خاتمہ کر رہے ہوں گے جو ہماری نئی نسلوں کو اپنے بد اثرات کے زیرِ اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ذریعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو بچانے والے ہوں گے۔ ہم اپنے کمزوروں کے ایمانوں کے بھی محافظ ہوں گے اور پھر اس عملی اصلاح کی جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا۔ ہماری عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے مزید کھلتے چلے جائیں گے۔ نئی ایجادات برائیاں پھیلانے کے بجائے ہر ملک اور ہر خطّے میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گی۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم حقائق سے کبھی نظریں نہیں پھیر سکتے کیونکہ ترقی کرنے والی قومیں، دنیا کی اصلاح کرنے والی قومیں، دنیا میں انقلاب لانے والی قومیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتی ہیں۔ اگر آنکھیں بند کر کے ہم کہہ دیں کہ سب اچھا ہے تو یہ بات ہمارے کاموں میں روک پیدا کرنے والی ہو گی۔ ہمیں بہر حال حقائق پر نظر رکھنی چاہئے اور نظر رکھنی ہو گی۔ ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ پچاس فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے یا اتنے فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے بلکہ اگر ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے تو سو فیصد کے ٹارگٹ رکھنے ہوں گے۔
مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر عملی اصلاح میں ہم سو فیصد کامیاب ہو جائیں تو ہماری لڑائیاں اور جھگڑے اور مقدمے بازیاں اور ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کی کوششیں، مال کی ہوس، ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر بیہودہ پروگراموں کو دیکھنا، ایک دوسرے کے احترام میں کمی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش، یہ سب برائیاں ختم ہو جائیں۔ محبت، پیار اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہو جو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دے۔ یہ ایسی برائیاں ہیں جو عملاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ جماعت کے اندر بھی بعض معاملات ایسے آتے رہتے ہیں، اس لئے میں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہم میں پیدا ہو جائے تو خدمتِ دین کے اعلیٰ مقصد کو ہم فضلِ الٰہی سمجھ کر کرنے والے ہوں گے۔ میری اس بات سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم خدمتِ دین کو تو فضلِ الٰہی سمجھ کر ہی کرتے ہیں لیکن سو فیصد عہدیداران اس پر پورا نہیں اترتے۔ میرے سامنے ایسے معاملات آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عہدیداروں میں وسعتِ حوصلہ اور برداشت کی طاقت نہیں ہے۔ کسی نے اونچی آواز میں کچھ کہہ دیا تو اپنی اَنا اور عزت آڑے آ جاتی ہے۔ کبھی جھوٹی غیرت کے لبادے اوڑھ لئے جاتے ہیں۔ پس کسی کام کو فضلِ الٰہی سمجھ کر کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر بات برداشت کرتا ہے۔ اپنی عزت کے بجائے ’’اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہ‘‘ کے الفاظ اُسے عاجزی اور انکساری پر مجبور کرتے ہیں۔ پس اگر باریکی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ ’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 18) پر عمل نہیں ہو رہا۔ کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی اَنانیت کی رَگ پھڑک اُٹھتی ہے۔ کسی نہ کسی رنگ میں تکبر آڑے آ جاتا ہے۔ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘ سے ہم ذوقی حظّ تو اُٹھاتے ہیں۔ ہم یہ مثال تو دیتے ہیں کہ ہم اس شخص کی بیعت میں شامل ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘ (تذکرہ صفحہ595 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)۔ لیکن ہم آگے یہ نہیں دیکھتے کہ اُس نے اپنے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی تھی کہ اگر تمہیں مجھ سے کوئی تعلق ہے تو تم بھی یہی رویہ اپناؤ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 28۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا کہ مَیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے احیائے نَو کے لئے آیا ہوں (ماخوز از ملفوظات جلد اول صفحہ 490۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ تو ہمارے سامنے یہ نمونہ رکھتا ہے کہ آپ کا غلام بھی کہتا ہے کہ مجھ سے کبھی آپ نے سخت الفاظ نہیں کہے، کبھی سخت بات نہیں کہی۔ اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے ایک شخص پر کپکپی طاری ہو گئی تو فرمایا۔ ’’گھبراؤ نہیں، میں کوئی جابر بادشاہ نہیں۔ مَیں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید حدیث نمبر 3312)
پس یہ وہ عمل ہے جس کا عملی اظہار ہر عہدیدار کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے، ہر جماعتی کارکن کو اپنی عملی زندگی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے۔ پس اگر کوئی عہدہ ملتا ہے، کوئی خدمت ملتی ہے تو ہمیشہ مسیح محمدی کے اس فرمان کو سامنے رکھنا چاہئے کہ
’میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 20)
پس جب ہم اپنی عملی حالتوں میں بیکسی، غربت اور بے ہنری کے اظہار پیدا کریں گے تو پھر ہی خدمت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اور ’’شاید کہ اس سے دخل ہو دارالوصال میں‘‘ کی امید رکھنے والے بھی ہوں گے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 18) اگر یہ نہیں تو ہم دعوے کی حد تک تو بے شک درست ہوں گے کہ زمانے کے امام کو مان لیا لیکن حقیقت میں زبانِ حال سے ہم دعوے کا مذاق اُڑا رہے ہوں گے۔ کسی غیر کی دشمنی ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہی ہو گی بلکہ خود ہمارے نفس کا دوغلا پن ہمیں رُسوا کر رہا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مستزاد ہے۔
پس خاص طور پر ہر اُس شخص کو جس کو جماعت کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عام طور پر ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ حقِّ بیعت زبانی دعووں سے اور صرف ماننے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ عمل کی قوت جب تک روشن نہ ہو، کچھ فائدہ نہیں۔ پس ہم اگر یہ اعلان کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے کہ کوئی بشر موت سے باہر نہیں رہا۔ اگر ہمارا یہ اعلان ہے کہ خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبی بھیج سکتا ہے اور آج بھی جس سے چاہے کلام کر سکتا ہے اور وحی کر سکتا ہے کیونکہ اُس کی کوئی صفت محدود اور خاص وقت کے لئے نہیں۔ اور ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور آپ کی پیروی اور محبت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر شرعی نبی کا اعزاز دے کر بھیجے گئے ہیں اور ہم نے اُن کو مانا ہے۔ اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم وہ آخری شرعی کتاب ہے جو چودہ سو سال سے اپنی اصلی حیثیت میں محفوظ چلی آ رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی ہے اور کوئی دوسری شرعی کتاب آج اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں۔ جب ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ تم جتنا شور مچا لو کہ قرآنِ کریم اپنی اصلی حالت میں نہیں یا چند صدیاں پہلے لکھی گئی ہے۔ جیسا کہ آج کل اسلام مخالف ٹی وی پروگراموں میں اور تحریروں میں بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآنِ کریم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں اترا تھا بلکہ یہ چھ سات سو سال پہلے لکھا گیا تھاتو ہم ثابت کرتے ہیں کہ تم غلط ہو۔ آج جماعت احمدیہ ان کو چیلنج کر کے دلائل سے ان کا منہ بند کرتی ہے اور ہمارے دلائل کا ہی اثر ہے کہ جس نے یہ دعویٰ کیا تھا اور ٹی وی چینل پر یہاں پروگرام بھی کیا تھا کہ قرآنِ کریم خدائی صحیفہ نہیں، اُس کو جب ہم نے مقابل پر بلایا تو اُس نے آنے سے انکار کر دیا۔
بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عیسیٰ کی بعثتِ ثانی کے طورپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانے میں بھیجا ہے۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی آخری شرعی کتاب آج تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے تو کیا یہ سب اور متفرق اعتقادی باتیں ہمیں ہمارا مقصد پورا کرنے میں کامیاب کر دیں گی!؟ تو جواب یہ ہے اور یقینا یہی جواب ہے کہ ’’نہیں‘‘۔ کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو ثابت کرنے کے بعد عیسیٰ کی آمدِ ثانی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت میں سے ہونی تھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے وجود سے ہونی تھی، اس بات کو اگر ہم وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4) کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ہوئیں تو صرف عقیدے پر قائم ہونا فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح موعود ہیں جس کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی اور آپ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا تھا تو پھر آپ کی تعلیم کا اثر بھی ہمیں اپنے پر ظاہر کرنا ہوگا۔ ورنہ صرف عقیدہ بے معنی ہے۔
اگر ہم قرآنِ کریم کو آج تک محفوظ سمجھتے ہیں لیکن اس میں بیان احکامات جو ہماری عملی زندگی کے لئے ضروری ہیں اُن پر عمل نہیں کرتے تو قرآنِ کریم کے دفاع میں صرف ہمارا اعلان ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ یہ اعلان تبھی پُر اثر ہو گا جب ہم اس تعلیم کو اپنی عملی حالتوں پر جاری کریں گے۔
پس یہ عقائد جو ہم پر عملی ذمہ داری ڈالتے ہیں اُنہیں پورا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی عملی حالتوں کی درستگی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم نے ادا کرنی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’پس یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی، جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 48۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’اپنے ایمانوں کو وزن کرو‘‘۔ ’’اپنے ایمانوں کو وزن کرو۔ عمل ایمان کا زیور ہے۔ اگر انسان کی عملی حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے۔ مومن حسین ہوتا ہے‘‘۔ ایک خوبصورت انسان ہوتا ہے۔ ’’جس طرح ایک خوبصورت انسان کو معمولی اور ہلکا سا زیور بھی پہنا دیا جائے تو وہ اُسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے‘‘۔ اسی طرح پر ایک ایمان دار کو اُس کا عمل نہایت خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ’’ا گر وہ بد عمل ہے تو پھر کچھ بھی نہیں۔ انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اُس کو اعمال میں ایک خاص لذّت آتی ہے اور اُس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔ گناہوں سے اُسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ ناپاک مجلس سے نفرت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 249۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سُورۃ ہُودنے بوڑھا کر دیا۔ کیونکہ اس کے حکم کے رُو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے۔ اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری کرنا جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے، ممکن ہے کہ وہ اُس کو پورا کرے لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے۔ اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اور قوتِ قدسی کا پتہ لگتا ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی۔ صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ اُن کو ’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111)‘‘ کہا گیا اور ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (المائدہ: 120)‘‘ کی آواز اُن کو آگئی۔ آپؐ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیّبہ میں نہ رہا۔ غرض ایسی کامیابی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعاتِ زندگی میں نہیں ملتی۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قال ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے۔ کیونکہ اگر نِرے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تودوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہو گا اور دوسروں پر کیا شرف!‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں‘‘۔ اس تمہید کے بعد آپ نے پھر جماعت کو نصیحت فرمائی کہ ’’تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو، کوئی اس کو قبول نہیں کرتا۔ کیا کوئی انسان میلی چیز پسند کر سکتا ہے؟ جب تک کپڑے میں ایک داغ بھی ہو، وہ اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہو گی، کوئی خریدار نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص عمدہ چیز کو پسند کرتا ہے، اسی طرح جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکو گے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 115-116۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں اعلیٰ اخلاق اپنانے والا بنائے۔ ہمارے اندر وہ پاک تبدیلی پیدا کرے جس کی چمک دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرنے والی ہو۔ پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کے راستے کھلیں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں۔
جہاں تک دلائل کا سوال ہے، ہمارا پلّہ ہر مخالفِ اسلام اور مخالفتِ احمدیت پر بھاری ہے۔ ہم میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں، اُن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے سامنے تو کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر تم میری کتب پڑھ لو تو تمہارے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن جب ہم اس پہلو کی طرف دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں جو عملی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُس کی حالت کیا ہے؟ تو پھر فکر پیدا ہوتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ احمدیت کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کی لڑی میں پرویا جانا ہے۔ اور یہی ہماری اعتقادی طاقت بھی ہے اور عملی طاقت بھی ہے۔ اس لئے ہمیشہ خلفائے وقت کی طرف سے کمزوریوں کی نشاندہی کر کے جماعت کو توجہ دلائی جاتی رہتی ہے تا کہ اس سے پہلے کہ کوئی احمدی اتنا دور نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ملنا مشکل ہو، استغفار کرتے ہوئے اپنی عملی کمزوریوں پر نظر رکھے اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے، اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو یاد کرے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کیا ہے۔
زمانے کی ایجادات اور سہولتوں سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے زمانے کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر تکمیلِ اشاعتِ ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مددگار بننا ہے نہ کہ بے حیائی، بے دینی اور بے اعتقادی کے زیرِ اثر آ کر اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا ہے۔
ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ پچاس فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے یا اتنے فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے، بلکہ اگر ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے تو سو فیصد کے ٹارگٹ رکھنے ہوں گے۔
ہر اُس شخص کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے جس کو جماعت کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے اور عام طور پر ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ حقِّ بیعت زبانی دعووں سے اور صرف ماننے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ عمل کی قوت جب تک روشن نہ ہو، کچھ فائدہ نہیں۔
فرمودہ مورخہ 06دسمبر 2013ء بمطابق 06 فتح 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔