عملی اصلاح کی راہ میں حائل مختلف اسباب کا تذکرہ
خطبہ جمعہ 20؍ دسمبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خطبات سے استفادہ کرتے ہوئے عملی اصلاح کی روک کے دو اسباب بتائے تھے۔ اس بارے میں جو باقی اہم اسباب ہیں، وہ آج بیان کروں گا۔
عملی اصلاح میں روک کا تیسرا سبب فوری یا قریب کے معاملات کو مدّنظر رکھناہے۔ جبکہ عقیدے کے معاملات دُور کے معاملات ہیں، ایسے معاملات ہیں جن کا تعلق زیادہ تر بعد کی زندگی سے ہے جسے آجِل کہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ عملی حالت کے معاملات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں یا بظاہر انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر میں کوئی غلط کام کر لوں تو اس سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا جوعقیدہ ہے وہ تو متأثر نہیں ہوتا۔ مثلاً سنار ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں سونے میں کھوٹ ملا لوں تو اس سے میرے ایک خدا کو ماننے کے عقیدے پہ کوئی حرف نہیں آتا لیکن میری کمائی زیادہ ہو جائے گی۔ جلد یا زیادہ رقم حاصل کرنے والا مَیں بن جاؤں گا۔
پس اُس نے اپنے قریب کے فائدے کو دیکھ کر ایک ایسا راہِ عمل اختیار کر لیا جو صرف اخلاقی گراوٹ ہی نہیں بلکہ چوری بھی ہے اور دھوکہ بھی ہے۔ اس لئے یہ عمل کیا۔ اُس نے سمجھا کہ اُس کے عقیدے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بڑے بڑے حاجی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کاروباری دھوکے کرتے ہیں لیکن اپنے حاجی ہونے پر فخر ہے۔ ان دھوکوں کے وقت یہ بھول جاتے ہیں یا اس بات کی اہمیت نہیں سمجھتے کہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی ہے اور ان دنیاوی اعمال کا مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح نبی کی دی ہوئی تعلیم پر عمل فائدہ مند ہے یا نجات کس کو ملے گی، ایسے سوال عام طور پر انسانوں کو دُور کے سوال نظر آتے ہیں۔ اصل چیزجو دل و دماغ پر حاوی ہوتی ہے، وہ فوری فائدہ یا فوری تسکین ہے۔ اسی وجہ سے جوسنار ہے وہ سونے میں کھوٹ ملاتا ہے، چاندی کو وزن میں کم کر دیتا ہے۔ دوکاندار ہے جو جنس میں ملاوٹ کر دیتا ہے۔ کارخانے دار ہے جو کسی چیز کا نمونہ دکھا کر آرڈر وصول کرتا ہے اور ترسیل جو ہے وہ کم معیار کی چیز کی کرتا ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں یہ چیز عام ہے۔ پس عمل کی اصلاح کے راستے میں دنیوی ضروریات حائل ہو جاتی ہیں اور دھوکہ، جھوٹ اور فریب کے فوری فوائد دُور کے نقصان کو دل اور دماغ سے نکال دیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بعض مثالیں بھی دی ہیں۔ مثلاً غیبت ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ کسی کا افسر اپنے ماتحت کو تکلیفیں دیتا ہے، ظلم و ستم کرتا ہے، لیکن ماتحت اپنے افسر کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ اتفاقاً اس ماتحت کی اُس افسر سے بھی بڑے افسر سے ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ بڑا افسر اس افسر کے خلاف کچھ کہتا ہے تو یہ شخص جس کو اپنے افسر سے تکلیفیں پہنچ رہی ہوتی ہیں خوش ہو جاتا ہے کہ جس موقع کی مجھے تلاش تھی وہ آج مجھے مل گیا۔ اور اس چھوٹے افسر کے خلاف جس نے اُسے تنگ کیا ہوتا ہے، ایسی باتیں کرتا ہے اور اُس کے ایسے عیوب بیان کرتا ہے کہ بڑا افسر اُس چھوٹے افسر پر اور زیادہ ناراض ہو۔ اور جھوٹ، سچ جو کچھ ہو سکتا ہے بیان کر دیتا ہے تا کہ اپنا بدلہ لے سکے اور اُس وقت اُسے یہ خیال آتا ہے کہ آج اگر میں غیبت نہ کروں تو میری جان اور مال کا خطرہ دُور نہیں ہوگا اور وہ اس وجہ سے بے دھڑک غیبت کا ارتکاب کر دیتا ہے اور اس دنیا کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ پس دنیوی فوائد کے لئے انسان بدیوں کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 351-352 خطبہ جمعہ 29مئی 1936ء)
چوتھا سبب عملی اصلاح کی کمزوری کا یہ ہے کہ عمل کا تعلق عادت سے ہے اور عادت کی وجہ سے کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور خصوصاً ایسے وقت میں جب مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو۔ یعنی حکومت کے قوانین کی وجہ سے بعض عملی اصلاحیں ہو جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلام میں جن باتوں کو اخلاقی گراوٹیں کہا جاتا ہے اور اُس کی اصلاح کی طرف اسلام توجہ دلاتا ہے ان میں اسلامی ممالک میں انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے، دو عملی کی وجہ سے، باوجود اسلامی حکومت ہونے کے اسلامی ممالک میں بھی عملی حالت قابلِ فکر ہے۔ اور غیر اسلامی ممالک میں بعض باتیں جن کے لئے اصلاح ضروری ہے، وہ اُنہیں بدعملی اور اخلاقی گراوٹ نہیں سمجھتے، اس لئے بعض باتوں کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
پس عملی اصلاح کے لئے حکومت کا ایک کردار ہے۔ جہاں مذہب اور حکومت کی عملی اصلاح کی تعریف ایک ہے اور عملی اصلاح اُس کے مطابق ہے، وہاں عادتیں قانون کی وجہ سے ختم کی جا سکتی ہیں۔ لیکن جہاں حکومت کا قانون عملی اصلاح کے لئے مددگار نہ ہو، وہاں عادتیں نہیں بدلی جا سکتیں اور عملی کمزوریاں معاشرے کا ناسور بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ آزادی کے نام پر ترقی یافتہ ممالک میں ہم بہت سی عملی کمزوریاں دیکھتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے عملی کمزوریاں اب دنیا میں ہر جگہ پھیلائی جا رہی ہیں اور ایسے ماحول میں پڑنے والے، ماحول کا حصہ ہونے کی وجہ سے، مستقل ان چیزوں کو دیکھ کر عادتاً بعض عملی کمزوریاں اپنا چکے ہیں۔ اور لاشعوری اور غیر ارادی طور پر بچے اور یا جو نوجوان ہیں اُن میں بھی، لڑکے اور لڑکیوں میں بھی یہ کمزوریاں راہ پکڑ رہی ہیں اور جب عادت پکی ہو جائے تو پھر اُسے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً نشہ ہے، اس کی عادت پڑ جائے تو چھوڑنا مشکل ہے۔ ایک شخص یہ قربانی تو کر لیتا ہے کہ تین خداؤں کی جگہ ایک خدا کو مان لے اور یہ تو کبھی نہیں ہوگا کہ جب ایک خدا کو مان لیا تو دوسرے دن اُسے ایک خدا کی جگہ تین خداؤں کا خیال آ جائے۔ مگر نشہ کرنے والے کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو گی کہ نشہ مل جائے۔ ساری عمر کے عقیدے کو تو ایک شخص چھوڑ سکتا ہے، مگر نشہ کی عادت جو چند مہینوں یا چند سالوں کی عادت ہے اس میں ذرا سی نشے کی کمی ہو جائے تو وہ اُسے بے چین کر دیتی ہے۔ سگریٹ پینے والے بھی بعض ایسے ہی ہیں جو اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر، اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر، اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کرجماعت میں بھی داخل ہوئے، انہوں نے قربانی دی اور احمدی ہو گئے لیکن اگر سگریٹ چھوڑنے کو کہو تو سو بہانے تلاش کریں گے۔ کسی کا پیٹ پھول جاتا ہے، کسی کو نشہ نہ کرنے سے نیندنہیں آتی، کسی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اُس کے خیال میں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کے لئے وہ پھر بے چین رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ صرف اُن کے لئے نہیں جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں، ہر ایک شخص کے لئے ہے۔ بعض بہت نیک کام کر رہے ہوتے ہیں اور بڑی قربانی کر کے کر رہے ہوتے ہیں لیکن چھوٹی سی عادت نہیں چھوڑ سکتے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہمارے ایک تایا تھے، جو دہریہ تھے اور بے دین تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جب ایسے دوست آتے تھے جن کو حُقّے کی عادت تھی تو وہاں تو حُقّہ ملتا نہیں تھا، لیکن یہ جو تایا تھے اُن کے ہاں حُقّہ ہر وقت چلتا رہتا تھا۔ اَور بھی ان کونشے کی عادت تھی، تو یہ حقہ پینے والے وہاں چلے جایا کرتے تھے اور حُقّے کے نشے کی وجہ سے اُن کی فضول اور بیہودہ باتیں سننے پر مجبور ہوتے تھے۔ اُن تایا سے ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پوچھا کہ کبھی آپ نے نماز بھی پڑھی ہے؟ اُن کی دینی حالت کا یہ حال تھا، کہنے لگے کہ بچپن سے ہی میری طبیعت ایسی ہے کہ جب میں کسی کو سر نیچے کئے دیکھتا ہوں تو مجھے ہنسی آنی شروع ہو جاتی ہے۔ مراد یہ تھی کہ جب میں کسی کو سجدے میں دیکھتا ہوں، نماز پڑھتے دیکھتا ہوں تو اُس وقت سے مَیں مذاق اُڑایا کرتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ان صاحب کے پاس دوست چلے جاتے تھے اور حُقّے کی مجبوری کی وجہ سے اسلام کے خلاف اور سلسلے کے خلاف باتیں بھی سننی پڑتی تھیں اور سنتے تھے۔ ایک دفعہ ایک دوست وہاں گئے اور اپنے آپ کو گالیاں دیتے ہوئے، برا بھلا کہتے ہوئے باہر نکلے۔ کسی نے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟ تو کہتے ہیں، اس حقے کی وجہ سے، اس لعنت کی وجہ سے میرے نفس نے مجھے ایسی باتیں سننے پر مجبور کیا ہے جو عام حالات میں مَیں برداشت نہیں کر سکتا۔
تو عادتیں بعض دفعہ انسان کوبہت ذلیل کروا دیتی ہیں۔ بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ لاکھ سمجھاؤ، نگرانی کرو مگر جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ اُن کی اصلاح مشکل ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہو نہیں سکتی۔ اگر اصلاح نہ ہو سکے تو اُن کو سمجھانے کی ضرورت کیا ہے۔ خطبات میں بھی مستقل سمجھایا جاتا ہے، نصیحتیں کی جاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا سمجھائے جانے کا حکم ہے۔ اگرایمان کی کچھ بھی رمق ہے تو نصیحت بہرحال فائدہ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ مومنوں کو نصیحت کرو اُن کے لئے فائدہ مند ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 367تا 369 خطبہ جمعہ 5 جون 1936ء)
ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کو گالی دینے کی، ہر وقت گالی دینے کی، ہر بات پر گالی دینے کی عادت تھی۔ اور اُن کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ میں گالی دے رہا ہوں۔ اُن کی شکایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی نے کی۔ آپ نے جب اُن کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں تو گالی دے کر کہنے لگے کون کہتا ہے مَیں گالی دیتا ہے۔ تو عادت میں احساس ہی نہیں ہوتا کہ انسان کیا کہہ رہا ہے۔ بعض بالکل ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ عادت کی وجہ سے اُن کو احساس ختم ہو جاتے ہیں، احساس مٹ جاتے ہیں۔ لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اُن مٹے ہوئے احساسات کو، ختم ہوئے ہوئے احساسات کو دوبارہ پیدا بھی کیا جا سکتا ہے، اصلاح بھی کی جا سکتی ہے۔
بہرحال عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے۔ آجکل ہم دیکھتے ہیں، بیہودہ فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ انٹرنیٹ پر لوگوں کے شوق ہیں اور بعض لوگوں کی ایسی حالت ہے کہ اُن کی نشے والی حالت ہے۔ وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور بیٹھے فلمیں دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے چلے جائیں گے۔ انٹرنیٹ پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے چلے جائیں گے۔ نیند آ رہی ہے تب بھی وہ بیٹھے دیکھتے رہیں گے۔ نہ بچوں کی پرواہ، نہ بیوی کی پرواہ تو ایسے لوگ بھی ہیں۔ پس یہ جوعادتیں ہیں، یہ عملی اصلاح میں روک کا بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ عملی اصلاح میں روک کا پانچواں سبب بیوی بچے بھی ہیں۔ یہ عملی اصلاح کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 375خطبہ جمعہ 12جون 1936ء)
بسا اوقات انسان کو بیوی بچوں کی تکالیف عملی طور پر ابتلا میں ڈال دیتی ہیں۔ مثلاً اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا۔ اب اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی رقم بطور امانت رکھوائی ہو لیکن اُس کا کوئی گواہ نہ ہو، کوئی ثبوت نہ ہو تو جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے اُس کی نیت میں بعض دفعہ اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کی وجہ سے کھوٹ آ جاتا ہے، نیت بد ہو جاتی ہے، اُسے خیال آتا ہے کہ میری بیوی نے کچھ رقم کا مطالبہ مجھ سے کیا تھا اور اس وقت میرے پاس رقم نہیں تھی میں نے مطالبہ پورا نہیں کیا۔ یا میرے بچے نے فلاں چیز کے لئے مجھ سے رقم مانگی تھی اور میں اُسے دے نہ سکا تھا۔ اب موقع ہے۔ یہ رقم مار کر میں اپنے بیوی اور بچے کے مطالبہ کو پورا کر سکتا ہوں یا بچے کی بیماری کی وجہ سے علاج کے لئے رقم کی ضرورت ہے، رقم نہیں ہے۔ اس امانت سے فائدہ اُٹھا کر اور یہ رقم خرچ کر کے میں اس کا علاج کروا لوں، بعد میں دیکھا جائے گا کہ رقم دینی ہے یا نہیں دینی۔ یا کسی اور مقصد کے لئے جو بیوی بچوں سے متعلقہ مقصد ہے، انسان کسی دوسرے کی رقم غصب کر لیتا ہے۔ تو یہ امانت کے متعلق اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کہ جب امانت رکھوائی جائے تو تم نے بہرحال واپس کرنی ہے، چاہے اُس کے گواہ ہیں یا نہیں ہیں، کوئی ثبوت ہے یا نہیں ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ اپنے بچوں کے فوائد کے لئے، اُن کے لئے جائیداد بنانے کے لئے نابالغ یتیموں کا حق مار لیتے ہیں یا کچھ حد تک اُنہیں نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ پھر صرف مالی معاملات کی بات نہیں ہے۔ صرف یہی مثالیں نہیں ہیں۔ اس آزاد اور ترقی پسند معاشرے میں بعض ماں باپ خاص طور پر اور عموماً یہ بات کرتے ہیں، لیکن غریب ممالک میں بھی یہ چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ لاڈ پیار کی وجہ سے بچوں کو اسلامی تعلیم کی پابندی کروانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ باتیں جو مَیں کر رہا ہوں، افسوس سے مَیں کہوں گا کہ یہ ہمارے احمدی معاشرے میں نظر آ جاتی ہیں، وقتاً فوقتاًسامنے آتی رہتی ہیں۔ کسی نے کسی کی امانت کھا لی۔ کسی نے کسی کو کسی اَور قسم کا مالی دھوکہ دے دیا۔ کسی نے یتیم کا مال پورا ادا کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔ قضاء میں بعض ایسے معاملات آتے ہیں یا شکایات آتی ہیں کہ کوئی امیر ممالک میں رہنے والا اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں کرتا ہے اور داماد کو پہلے دن ہی کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے اپنی بچی بڑے لاڈ پیار سے پالی ہے اور اس کو ہر قسم کی آزادی ہے۔ اس پر کسی قسم کی پابندی نہ لگانااور بیٹی کا دماغ باپ کی شَہ پر عرش پر پہنچا ہوتا ہے۔ خاوند کو وہ کوئی چیز نہیں سمجھتی۔ حالانکہ اسلامی تعلیم ہے کہ بیوی خاوند کے حقوق ادا کرے اور اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے، یہ اُس کے فرائض میں داخل ہے۔ کبھی لڑکے پاکستان سے لڑکیاں بیاہ کر لاتے ہیں اور لڑکی کو ظلم کی چکی میں پیستے چلے جاتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ کہتے ہیں کہ لڑکی سب کچھ برداشت کرے، مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کا لاڈ جہاں ماں باپ کی عملی حالت کو برباد کر رہا ہوتا ہے، وہاں گھروں کو بھی برباد کر رہا ہوتا ہے۔
پس بیوی بچوں کی وجہ سے عملی اصلاح میں روک کی بے شمار مثالیں ہیں۔ کئی اعمال ایسے ہیں جو انسان کی کمزوری ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ بیوی بچوں کے لاڈ یا ضروریات اُن کے آڑے آ جاتی ہیں۔ ان کی محبت اُس کو نیک عمل سے روک لیتی ہے۔ بچوں کے حق میں جھوٹی گواہیاں، بچوں کے لاڈ کی وجہ سے دی جاتی ہیں۔ غریب ممالک میں یا تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ بیماری عام ہے کہ افسران رشوت لیتے ہیں۔ صرف اپنے لئے نہیں لیتے بلکہ بچوں کے لئے، جائیدادیں بنانے کے لئے، بچوں کے لئے جائیدادیں بنا کر چھوڑ جانے کے لئے وہ رشوت لیتے ہیں یا اُنہیں تعلیم دلوانے کے لئے، مہنگے سکولوں میں پڑھوانے کے لئے رشوت لی جاتی ہے۔
پس انسانی اعمال کی درستی میں جذبات اور جذبات کو اُبھارنے والے رشتے روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی درستی اس صورت میں ممکن ہے جب خدا تعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس محبت کی شدت کے مقابلے میں بیوی بچوں کی محبت اور اُن کے لئے پیدا ہونے والے جذبات معمولی حیثیت اختیار کر لیں۔ اور انسان اس کے اثرات سے بالکل آزاد ہو جائے۔ اگر یہ نہیں تو عملی اصلاح بہت مشکل ہے۔
چھٹا سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل نگرانی نہیں رکھتا۔ یعنی عمل کا خیال ہر وقت رکھنا پڑتا ہے تبھی عملی اصلاح ہو سکتی ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 380خطبہ جمعہ 12جون 1936ء)
ہر کام کرتے وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کام کے نتائج نیک ہیں یا نہیں۔ اس کام کو کرنے کی مجھے اجازت ہے یا نہیں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بات پر عمل کر رہاہوں یا نہیں کہ قرآنِ کریم کے جو سات سو حکم ہیں اُن پر عمل کرو۔ کہیں میں ان سے دُور تو نہیں جا رہا۔ مثلاً دیانت سے کام کرنا ایک اہم حکم ہے۔ ایک دکاندار کو بھی یہ حکم ہے، ایک کام کرنے والے مزدور کو بھی یہ حکم ہے اور اپنے دائرے میں ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ دیانتدار بنو۔ ایک دکاندار ہے، اُس کے سامنے دیانت سے چلنے کا حکم کئی بار آتا ہے۔ ایک انجان گاہک آتا ہے تو اُسے وہ یا کم معیار کی چیز دیتا ہے، یا قیمت زیادہ وصول کرتا ہے، یا اُس مقررہ قیمت پر کم وزن کی چیز دیتا ہے۔ یہ بیماری جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا، ان ملکوں میں تو کم ہے لیکن غریب ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ پس گاہک کو چیز دیتے ہوئے کوئی تو یہ سوچتا ہے کہ اس گاہک کی کم علمی کی وجہ سے میں فائدہ اُٹھاؤں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر میں وزن میں اتنی کمی ہر گاہک کے سودے میں کروں تو شام تک میں اتنا بچا لوں گا۔ بعض دفعہ گاہک کی سخت ضرورت اور مجبوری دیکھ کر اصل منافع سے کئی گنا زیادہ منافع کما لیا جاتا ہے۔ یہ تو ویسے بھی تجارت کے جو اخلاق ہیں اُن کے خلاف ہے لیکن اسلام تو اس کو سختی سے منع کرتا ہے۔ منافع کے ضمن میں یہ بھی کہوں گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ جو آباد ہوا ہے تو وہاں کے دکانداروں کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم منافع کم لو تو تمہارے پاس گاہک زیادہ آئیں گے۔ لیکن میرے پاس بعض شکایات ایسی آ رہی ہیں یا آتی رہتی ہیں کہ ربوہ میں دوکاندار اتنا منافع کمانے لگ گئے ہیں کہ لوگ چنیوٹ جا کر سودا خریدنے لگ گئے ہیں۔ یعنی اپنوں کے بجائے غیروں کے پاس احمدیوں کا روپیہ جانے لگ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ربوہ کے احمدی دکاندار ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمارے احمدی دکاندار سوچیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ جہاں بھی ہوں، صرف ربوہ کی بات نہیں ہے۔ جہاں بھی دکاندارہو، ایک احمدی دکاندار کا معیار ہمیشہ اچھا ہونا چاہئے، اُن کا وزن پورا ہونا چاہئے، کسی چیز میں نقص کی صورت میں گاہک کے علم میں وہ نقص لانا ضروری ہونا چاہئے۔ منافع مناسب اور کم ہونا چاہئے۔ اس سے انشاء اللہ تعالیٰ تجارت میں برکت پڑتی ہے، کمی نہیں آتی۔ اسی طرح ہر میدان کے احمدی کو اپنی دیانت کا حسن ظاہر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت اس حکم کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی پڑھا ہے، تبھی عملی اصلاح ممکن ہو گی۔ ہر وقت دہراتے رہنا پڑے گا کہ میری عملی اصلاح کے لئے مَیں نے یہ یہ کام کرنے ہیں۔ اسی طرح دوسری برائیاں ہیں، مثلاً جھوٹ ہے۔ ہر بات کہتے وقت یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ میری بات میں کوئی غلط بیانی نہ ہو۔
پھر اس کی دکانداروں کی لاپرواہی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دکاندار نماز کا وقت آتا ہے تو نماز کے لئے چلا جاتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں دکان کھلی رکھوں تا کہ اس عرصے میں جتنے گاہک آئیں وہ میرے پاس آئیں۔ پس ایک طرف تو نیک اعمال کا خیال رکھنے والے نماز کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف پیسہ کمانے کا سوچنے والے اس سے بے پرواہ اپنے دنیاوی فائدے دیکھنے کے لئے منافع بنانے کی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہر کام کرنے سے پہلے نیک اعمال کی اصلاح کو سوچیں، اُن کی نظر دنیاوی فائدے کی طرف ہوتی ہے اور وہ اُس کے متعلق سوچتے ہیں۔ ربوہ کے دکانداروں کے بارے میں پھر میں کہوں گا کہ ایک دفعہ ایک شکایت آئی تھی کہ نماز کے وقت میں دکانیں بندنہیں کرتے۔ تو اب بہرحال اُن کی رپورٹ آئی ہے کہ سب نے یہی کہا ہے کہ اب ہم انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کرتے رہیں گے۔ خدا کرے کہ یہ لوگ اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ اسی طرح قادیان کے دکاندار ہیں اور آجکل تو قادیان میں جلسے کی وجہ سے گہما گہمی ہے، اُنہیں بھی اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ گاہک باہر سے آئے ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے فرائض جو ہیں اُن کو بھول جائیں۔ وہاں اُن کو نمازوں کے اوقات میں اپنی دکانیں یا اپنے سٹال جو ہیں وہ بہرحال بند کرنے چاہئیں اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو فرائض ہیں، اُن کی ادائیگی کے لئے اُن کو بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اعمال پر بار بار توجہ دینے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی تیز رفتار گھوڑے پر سوار چلا جا رہا ہو لیکن بے احتیاطی سے اگر بیٹھے گا تو گھوڑا اُسے نیچے گرا دے گا۔ پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے اعمال پر نگاہ رکھنی پڑے گی اور رکھنی چاہئے۔ لمحہ بھر کے لئے اگربے احتیاطی ہو جائے تو مومن کا جو معیار ہے اُس سے وہ گر جائے گا اور اس کے اعمال کی اصلاح بھی نہیں ہو گی۔
پس ہر معاملے میں ہر وقت نظر رکھ کر ہی عملی اصلاح کی طرف ہر ایک جو ہے صحیح قدم اُٹھا سکتا ہے۔ برائیوں کی طرف ایک مرتبہ انسان جھک گیا تو پھر وہ اُس میں ڈوب جاتا ہے۔ گویا برائیوں سے بچنے کے لئے ہر کام پر نظر رکھ کر انسان ایک حجاب میں آ جاتا ہے اور جب یہ حجاب ختم ہو جائے تو ایک کے بعد دوسری کمزوری اُس پر غلبہ پا لیتی ہے۔
عورتوں کے لئے بھی مَیں ایک مثال دوں گا۔ پردہ اور حیا کی حالت ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض بڑی عمر کی عورتوں نے جو پاکستان سے وہاں آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے پاس نئی نئی گئی تھیں، اپنی بچیوں کو یہ دیکھ کر کہ پردہ نہیں کرتیں اُنہیں پردے کا کہا کہ کم از کم حیا دار لباس پہنو، سکارف لو تواُن کی لڑکیوں میں سے بعض جوایسی ہیں کہ پردہ نہ کرنے والی ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ یہاں پردہ کرنا بہت بڑا جرم ہے اور آپ بھی چھوڑ دیں تو مجبوراً ان عورتوں نے بھی جو پردہ کا کہنے والی تھیں، جن کو ساری عمر پردے کی عادت تھی اس خوف کی وجہ سے کہ جرم ہے، خود بھی پردہ چھوڑ دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے، نہ جرم ہے۔ کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ دیتا ہے۔ صرف فیشن کی خاطر چندنوجوان عورتوں اور بچیوں نے پردے چھوڑ دئیے ہیں۔ پاکستان سے شادی ہو کروہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبردستی پردہ چھڑوا دیا گیا تھا۔ یا ماحول کی وجہ سے میں بھی کچھ اس دام میں آ گئی اور پردہ چھوڑ دیا۔ اب میں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت میں نے برقع پہنا ہوا تھا تو اُس وقت سے میں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب میں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں۔ اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا۔ تو پردے اس لئے چُھٹ رہے ہیں کہ اس حکم کی جو قرآنی حکم ہے، بار بار ذہن میں جگالی نہیں کی جاتی۔ نہ ہی گھروں میں اس کے ذکر ہوتے ہیں۔ پس عملی اصلاح کے لئے بار بار برائی کا ذکر ہونا اور نیکی کا ذکر ہونا ضروری ہے۔
ساتواں سبب اعمال کی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسانی تعلقات اور رویے جو ہیں وہ حاوی ہو جاتے ہیں اور خشیت اللہ میں کمی آ جاتی ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 383خطبہ جمعہ 12جون 1936ء)
بسا اوقات لالچ، دوستانہ تعلقات، رشتے داری، لڑائی، بُغض اور کینے ان اعمال کے اچھے حصوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ مثلاً امانت کی جو میں نے مثال دی ہے، دوبارہ دیتا ہوں کہ انسان امانت کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہوا ہے، بلکہ اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس خاص موقع پر امانت کی وجہ سے اُس کے دوستوں یا دشمنوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح وہ سچ کو اس نقطہ سے نہیں دیکھتا کہ سچ بولنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے بلکہ اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ آیا اُسے یا اُس کے دوستوں، عزیزوں کو اس سچ بولنے سے کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا؟ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف گواہی اس لئے دے دیتا ہے کہ فلاں وقت میں اُس نے مجھے نقصان پہنچایا تھا۔ پس آج مجھے موقع ملا ہے کہ میں بھی بدلہ لے لوں اور اُس کے خلاف گواہی دے دوں۔ تو اعمال میں کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ خشیت اللہ کا خانہ خالی ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اپنے خلاف یا اپنے پیاروں اور والدین کے خلاف بھی تمہیں گواہی دینی پڑے تو دو اور سچائی کو ہمیشہ مقدم رکھو۔
آٹھواں سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ عمل کی اصلاح اُس وقت تک بہت مشکل ہے جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 384خطبہ جمعہ 12جون 1936ء)
مثلاً دیانتداری اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی یا اُس کا معیار قائم نہیں رہ سکتا، جب تک بیوی بچے بھی پورا تعاون نہیں کرتے۔ گھر کا سربراہ کتنا ہی حلال مال کمانے والا ہو لیکن اگر اُس کی بیوی کسی ذریعہ سے بھی ہمسایوں کو لُوٹتی ہے یا کسی اور ذریعہ سے کسی کو نقصان پہنچاتی ہے، مال غصب کرنے کی کوشش کرتی ہے یا اُس کا بیٹا رشوت کا مال گھر میں لاتا ہے تو اس گھر کی روزی حلال نہیں بن سکتی۔ خاص طور پر اُن گھروں میں جہاں سب گھر والے اکٹھے رہتے ہیں، جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اور اُن کے اکٹھے گھر چل رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اعمال ہیں۔ جب تک سب گھر والوں کے اعمال میں ایک ہو کر بہتری کی کوشش نہیں ہو گی، کسی نہ کسی وقت ایک دوسرے کو متاثر کر دیں گے۔ بیوی نیک ہے اور خاوند رزقِ حلال نہیں کماتا تو تب بھی گھر متاثر ہو گا۔ نمازوں کی طرف اگر باپ کی توجہ ہے لیکن اپنے بچوں کو توجہ نہیں دلاتا یا باپ کہتا ہے لیکن ماں توجہ نہیں کر رہی۔ یا ماں توجہ دلا رہی ہے اور باپ بے نمازی ہے تو بچے اُس کی نقل کریں گے۔ گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے یہ مثالیں دی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے: قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا(التحریم: 66) کہ نہ صرف اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ تمہارا صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچانا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی بچانا فرض ہے۔ اگر دوسروں کو نہیں بچاؤ گے تو وہ تمہیں ایک دن لے ڈوبیں گے۔
پس اعمال کی اصلاح کے لئے پورے گھر کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سب کو کوشش کرنی چاہئے۔ اس میں گھر کے سربراہ کا سب سے اہم کردار ہے۔ اکثر اوقات بیوی بچوں کی طرف سے غفلت یا اُن کی تکلیف کا احساس یا بے جا لاڈ اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح میں روک بن جاتا ہے۔
ان آٹھ باتوں کے علاوہ بھی بعض وجوہات عملی اصلاح میں روک کی ہو سکتی ہیں۔ یہ چند اہم باتیں جیسا کہ میں نے کہی ہیں لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو تقریباً تمام باتیں انہی آٹھ باتوں میں سمٹ بھی جاتی ہیں۔ بہرحال خلاصہ یہ کہ اعمال کے بارے میں ایسی روکیں موجود ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹا دیتی ہیں۔ اُس کے قرب سے دور پھینک دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے اعمال کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ صرف کہہ دینے سے اصلاح نہیں ہو گی بلکہ اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ سے اصلاح ممکن ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مثال دی ہے کہ یورپ کا ایک مشہور لیکچرر تھا اور بڑے اعلیٰ قسم کے لیکچر دیا کرتا تھا لیکن لیکچر دیتے وقت وہ اپنے کندھے بہت زور زور سے ہلایا کرتا تھا، اوپر نیچے کیا کرتا تھا۔ لوگوں نے اُسے کہا کہ تم لیکچر تو بہت اچھا دیتے ہو لیکن تمہارے کندھوں کی اوپر نیچے کی حرکت کی وجہ سے اکثر لوگوں کو ہنسی آ جاتی ہے۔ اُس نے بڑی کوشش کی کہ یہ جونقص ہے وہ دُور ہو جائے لیکن دور نہ ہوا۔ آخر اُس نے اس کا علاج اس طرح شروع کیا کہ دو تلواریں اُس نے چھت سے ٹانگ لیں جو اُس کی height تک پہنچتی تھیں، کندھوں تک پہنچتی تھیں اور اُن کے نیچے کھڑا ہو کر اُس نے تقریر کی مشق کرنا شروع کر دی۔ جب کبھی کندھا ہلاتا تھا تو تلوار اُس کے کندھے پر لگتی تھی، کبھی دائیں کبھی بائیں۔ چنانچہ چند دن کی کوشش کے بعد اُس کی یہ عادت ختم ہو گئی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 390خطبہ جمعہ 12جون 1936ء)
پس نیک عمل کی عادت ڈالنے کے لئے ایسے طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے مجبور ہو کر نیک اعمال بجا لانے کی طرف توجہ پیدا ہو اور اس کے لئے سب کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر گھر کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور ہر گھر کے ہر فرد کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کوشش بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتی۔ بغیر وہ طریقہ اختیار کئے نہیں ہو سکتی جس سے برائیوں کو چھوڑنے کے لئے اگر تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں تو کی جائیں۔ ہر فردِ جماعت کو جائزے کی ضرورت ہے، قربانی کی ضرورت ہے، پختہ عہد کی ضرورت ہے، ورنہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ بہت بڑا مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، یہ ہے کہ ہمارے عقیدے اور اعمال دونوں کی اصلاح ایسے اعلیٰ معیار پر ہو کہ جس پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 454-455مطبوعہ ربوہ)
جیسا کہ مَیں پہلے خطبوں میں کہہ چکا ہوں، بیشک ہم نے عقیدے کے میدان میں بہت عظیم الشان فتح حاصل کر لی ہے، یہاں تک کہ وہی عقائد جن کو جب جماعت کی طرف سے پیش کیا جاتا تھا تو دشمن کی طرف سے سختی سے انکار کیا جاتا تھا لیکن آج بعض دشمن بھی اُن باتوں کے قائل ہو رہے ہیں۔ ایسے بھی مسلمان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر نہیں گئے یا انہوں نے نازل نہیں ہونا۔ یہ کہنے یا اس بات کے قائل ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو لیکن لاشعوری طور پر جماعت احمدیہ کا عقیدہ اُن کے منہ بند کر کے اُن کو اس بات پر قائل کر رہا ہے۔ جہاد کے بارے میں اب بعض بڑے بڑے علماء نے یہ بیان دئیے ہیں کہ اس وقت جہاد کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، یہ دہشت گردی ہے اور آجکل جہاد جائز نہیں اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس بارے میں وہ جو چاہے دلیل دیں لیکن احمدیت کی تعلیم ہی اُنہیں متاثر کر رہی ہے۔ لیکن جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو عمل کے بارے میں ہماری کوتاہی ہے یا کمزوری ہے کہ ابھی وہ روح ہم میں پیدا نہیں ہوئی جس روح کے تحت ہم کام کر کے دنیا کو وہ نمونہ دکھلا سکیں جس کے بعد کوئی شخص ہماری جماعت کی برتری اور فوقیت تسلیم کرنے سے انکار نہ کرے۔ ابھی تک ہم اُس تعلیم پر پورے طور پر عمل نہیں کر رہے جو عملی اصلاح کے متعلق اسلام نے پیش کی ہے۔ بلکہ اکثر اوقات دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی نقل کر کے اس طرف مائل ہو جاتے ہیں، جیسا کہ میں نے بعض مثالیں بھی دی ہیں اور غیروں سے اپنا لوہا منوانے کی بجائے ہم نقّال بن جاتے ہیں، اُن کی نقلیں کرنی شروع کر دیتے ہیں اور پھر عمل کے میدان میں بعض جگہ ہمیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔
پس ضرورت ہے کہ عمل کے میدان میں کامیابی حاصل کریں۔ ضرورت ہے کہ وہ پانی جس سے ہم نے اس زمانے میں فیض پایا ہے، اُسے بکھرا نہ دیں، ضائع نہ کریں بلکہ اُن نہروں میں سمیٹ لیں جو زمینوں کو سیراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں نہ کہ اُس پانی کی طرح جو ادھر اُدھر بہہ جاتا ہے۔ ہمیں اپنی حد بندیاں مقرر کرنی ہوں گی۔ اپنی عملی اصلاح کے لئے اپنے آپ پر کچھ پابندیاں لگانی ہوں گی تبھی ہم اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم نے عقائد کی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لئے بیشک قربانیاں دی ہیں۔ جان، مال، وقت کی قربانی دی ہے اور دے رہے ہیں لیکن اعمال کی دیواروں کی طرف ہماری اتنی توجہ نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کو مختصر الفاظ میں بڑے عمدہ طریق سے بیان فرمایا ہے کہ اب تک صرف دو دیواریں عقائد والی ہیں۔ دو دیواریں جو عمل والی ہیں، وہ ابھی ہم نے نہیں بنائیں۔ اس وجہ سے چور آتا ہے اور ہمارا مال اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ لیکن جب ہم قربانی کے نتیجہ میں اپنی چاردیواری کو مکمل کر لیں گے تو پھر چور کے داخل ہونے کے سارے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 391-392خطبہ جمعہ 12جون 1936ء)
پس آج ہمیں عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی بھی کریں گے، اپنے بیوی بچوں کی خواہشات کی قربانی بھی کریں گے اور ہر وہ قربانی کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے جس سے ہماری عملی اصلاح کی دیواریں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔ تب ہم نہ غیروں سے اس تعلق میں پِٹنے والے ہوں گے یا شرمندہ ہونے والے ہوں گے اور نہ ہی ہمارے گھروں میں چور داخل ہو کر ہمیں نقصان پہنچا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نیک عمل کی عادت ڈالنے کے لئے ایسے طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے مجبور ہو کر نیک اعمال بجا لانے کی طرف توجہ پیدا ہو اور اس کے لئے سب کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر گھر کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور ہر گھر کے ہر فرد کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کوشش بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتی۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے خطبہ کے حوالہ سے عملی اصلاح کی راہ میں حائل مختلف اسباب کا تذکرہ اور ان روکوں کو دُور کرنے کے لئے زرّیں نصائح۔
آج ہمیں عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی بھی کریں گے، اپنے بیوی بچوں کی خواہشات کی قربانی بھی کریں گے اور ہر وہ قربانی کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے جس سے ہماری عملی اصلاح کی دیواریں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔
فرمودہ مورخہ 20دسمبر 2013ء بمطابق 20 فتح 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔