جماعت احمدیہ عالمگیر کے افراد کا باہمی اتفاق و اتحاد اور اخوّت

خطبہ جمعہ 27؍ دسمبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج سے قادیان میں وہاں کا جلسہ سالانہ شروع ہے۔ یہ جلسہ سالانہ شاید partition کے بعد سے بعض لوگوں کے خیال میں بھارت کا جلسہ سالانہ سمجھا جاتا ہو۔ لیکن قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہونے کی وجہ سے اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام اس بستی سے نکل کر پہنچنے کی وجہ سے جو حیثیت اور جو مقام حاصل ہے، وہ اس بستی کو جہاں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا مرکز بناتی ہے وہاں اس بستی میں منعقد ہونے والے جلسوں کو بھی بین الاقوامی جلسہ بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج وہاں بتیس تینتیس ملکوں کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ پس قادیان کی بھی ایک اہمیت ہے اور وہاں منعقد ہونے والے جلسوں کی بھی ایک اہمیت ہے۔ اس بستی کے رہنے والے احمدیوں کی بھی ایک اہمیت ہے اور اس جلسہ میں شامل ہونے والے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے احمدیوں کی بھی ایک اہمیت ہے۔ لیکن یہ اہمیت حقیقت میں اجاگر ہو گی، تب بامقصد ہو گی جب اس بستی میں رہنے والے اس اہمیت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے۔ جب اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے اس جلسہ کے مقاصد کے حصول کے لئے یہ دن اور راتیں جو انہوں نے وہاں گزارنی ہیں، وہ ان کو اس مقصد کے حاصل کرنے میں صَرف کریں گے جو مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور زمانے کے امام نے ان جلسوں کا بتایا ہے، اُن لوگوں کا بتایا ہے جنہوں نے آپ سے عہدِ بیعت باندھا ہے۔

عموماً دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے جلسے کا ماحول شامل ہونے والوں پر ایک روحانی اثر ڈالتا ہے۔ اور اس کا اظہار شامل ہونے والے کرتے رہتے ہیں لیکن قادیان کے جلسے کے ماحول میں روحانیت کا ایک اور رنگ محسوس ہوتا ہے۔ جنہوں نے وہاں جلسوں میں شمولیت اختیار کی ہے اُن کو اس بات کا علم ہے اور ہر مخلص کو یہ رنگ محسوس ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس بستی کی فضاؤں میں اور گلی کوچوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کی یادوں کی خوشبو روحانیت کے ایک اور ہی ماحول میں لے جاتی ہے۔ پس اس ماحول میں ملی ہوئی نصیحت بھی ایک خاص رنگ رکھتی ہے، ایک خاص اثر رکھتی ہے اور ہر مخلص کے دل پر ایک خاص اثر کرنے والی ہونی چاہئے۔ اس لئے میں اس جلسے میں شامل ہونے والے تمام شاملین کو آج اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جہاں جلسہ میں شامل ہو کر علمی اور تربیتی تقریروں سے فیضیاب ہوں، وہاں اُن مقاصد کو بھی اپنے سامنے رکھیں اور ہر وقت اس کی جگالی کرتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے انعقاد کے بیان فرمائے ہیں جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی جلسہ کے افتتاح کرنے والے میرے نمائندے نے وہاں جلسہ کے افتتاح کے وقت پیش کئے ہوں گے۔ میرے خیال میں، مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ مجھے اس افتتاحی تقریب کا علم نہیں ہے کہ کیا تقریر ہوئی ہے؟ لیکن عموماً جلسے کے مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی افتتاحی تقریر کا مضمون بیان ہوتاہے۔ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے جلسے میں شامل ہونے والے ہر شخص کو یہ دن گزارنے چاہئیں۔ اس جلسہ میں جیسا کہ مَیں نے کہا کئی ممالک کی نمائندگی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مقصد یہ بھی بتایا تھا کہ افرادِ جماعت کا ایک دوسرے سے جلسہ کے دنوں میں تعارف بڑھے اور اخوت اور پیار اور محبت کے تعلقات قائم ہوں۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ281اشتہار نمبر91مطبوعہ ربوہ)

پس آج تعارف اور اخوت کے معیاروں میں ایسی وسعت پیدا ہو گئی ہے جو بے مثال ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان کا رہنے والا ایک عام کارکن امریکہ کے رہنے والوں اور روس کے رہنے والوں سے ملتا ہے۔ یا عرب کا رہنے والا یورپ کے رہنے والوں سے ملتا ہے یا سب جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ روح نظر آتی ہے جو مومنین کے اخوت کے وصف کو نمایاں کرتی ہے اور یہ روح اس وصف کو نمایاں کرنے والی ہونی چاہئے۔ اگر کسی کے دل میں نخوت ہے تو وہ اپنے بھائیوں سے اس اخوّت کے جذبے کے تحت نہیں ملتا۔ یا ایک شہر کا رہنے والا امیر اپنے غریب بھائی کو چاہے وہ اُسے جانتا ہے یا نہیں یا اُس کے تعلقات اچھے ہیں یا کمزور یا رنجشیں ہیں یا شکایتیں، جب تک سب کدورتیں مٹا کر، سب بڑائی اور امیری اور غریبی کے فرق مٹا کر اخوت اور بھائی چارے کے نمونے نہیں دکھاتے تو پھر جلسے کی تقریریں ایسے شامل ہونے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دیں گی، نہ ہی وہاں کا ماحول اُن کو کوئی فائدہ دے سکے گا۔ جلسے پر آنا بھی بے فائدہ ہو گا۔ قادیان کا روحانی ماحول بھی ایسے شخص کے دل کی سختی کی وجہ سے اُس کے لئے روحانیت سے خالی ہو گا۔

پس اگر جلسہ کے مقصد سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے سب شامل ہونے والے جلسہ میں شامل ہوں جو جلسہ کے مقاصد میں سے ایسا اہم مقصد ہے جس کا آپ نے خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ امیری، غریبی اور بڑے ہونے اور چھوٹے ہونے کے فرق کو مٹا دیں۔ ذاتی رنجشیں بھی ہیں تو یہاں اس ماحول میں وہ ایک دوسرے کے لئے اس طرح دُور کر دیں جیسے کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔ قادیان کے احمدیوں کی مستقل آبادی کو بھی اپنے سینوں کو ٹٹولنا ہو گا۔ اپنے دلوں کے جائزے لینے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایسا موقع عطا فرمایا کہ مسیح موعود کی بستی میں رہتے ہیں جس کا ماحول ویسا ہونا چاہئے جیسا کہ زمانے کے امام نے خواہش کی تھی اور اس کے لئے جماعت کی تربیت کی کوشش کی اور پھر اس بات کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں یعنی وہاں رہنے والوں کو اپنی زندگی میں ایک اور موقع دیا کہ جلسہ میں شامل ہوں اور اپنی تربیت کے اس اعلیٰ موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔ پس جہاں ہر آنے والا اس محبت و اخوت کے تعلق اور رشتے کو قائم کرے، وہاں اس بستی میں رہنے والا ہر احمدی بھی اس طریق پر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہی جائزے پھر دنیاوی خواہشات سے بھی دلوں کو پاک کریں گے اور آخرت کی طرف بکلّی جھکنے کا خیال اور احساس پیدا ہو گا۔ خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو گا۔ اس دنیا کی خواہشات کی فکر نہیں ہو گی بلکہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ(الحشر: 19) کا مضمون جو ہے، یہ سامنے ہو گا۔ یہ کوشش ہو گی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اور اُخروی زندگی کی بھلائیاں چاہنے کے لئے اس دنیا سے کیا آگے بھیجنا ہے۔ زہد اور تقویٰ پر نظر رکھنی ہے یا دنیاداری کا نمونہ دکھانا ہے اور خدا تعالیٰ کے خوف کو دل سے نکال کر یہ زندگی گزارنی ہے۔ عہدِ بیعت کی پابندی کرنی ہے یا عہدِ بیعت کا خوبصورت بَیج صرف سینے پر لگا کر اپنے آپ کو عہدِ بیعت کو پورا کرنے والا سمجھنا ہے۔ خدا ترسی، پرہیزگاری اور نرم دلی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہیں یا ظلم و جور اور بداخلاقی اور بدکلامی جیسی برائیوں کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے اپنے عمل سے اُس کے اظہار کرنے ہیں۔ عاجزی اور انکساری کے نمونے قائم کرنے ہیں یا تکبر و غرور سے اپنے سروں اور گردنوں کو اکڑا کر چلنا ہے۔ سچائی کے خوبصورت موتی بکھیرنے ہیں یا جھوٹ کے اندھیروں کی نذر ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینی ہے۔ دینی مہمات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہوئے مسیح محمدی کے مشن کی تکمیل کرنی ہے یا دنیا داری کی چمک دمک میں ڈوب کر اپنے مقصد کو بھولنا ہے۔ پس یہ جائزے اور اپنے عمل کا تنقیدی جائزہ ہمیں بتائے گا کہ ’’مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ‘‘ کو کس حد تک ہم نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ پس جلسہ کے یہ تین دن ان باتوں کا جائزہ لینے کے لئے اور اپنے عمل خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے لئے بہترین دن ہیں جبکہ ایک دوسرے کا روحانی اثر قبول کرنے کا بھی رجحان ہوتا ہے۔ تہجد کی اجتماعی اور انفرادی ادائیگی ایک خاص ماحول پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سجدہ گاہوں اور دعاؤں کی جگہیں بھی بہت سے دلوں کو بے قرار دعاؤں کی توفیق دے رہی ہوتی ہیں۔ لا محسوس طریقے پر انتشارِ روحانیت کا ماحول ہوتا ہے۔

پس اس تین دن کے کیمپ سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس مقصد کو حاصل کئے بغیر وہاں سے واپس لوٹے۔ اور قادیان میں رہنے والا کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو ان تین دنوں کو اپنی اصلاح کا بہترین ذریعہ نہ بنا لے۔ لیکن یہ بھی مدّنظر رہے، اس بات کی پابندی کی بھی بھرپور کوشش رہے کہ جو تبدیلی پیدا کرنی ہے یا پیدا کی ہے، اُس میں مداومت اختیار کرنی ہے۔ اُسے اپنی زندگی کا مستقل حصہ بھی بنانا ہے۔ اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص اس بات کا پختہ ارادہ کرے کہ ہم نے جو پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اُس پر تازندگی پھر قائم رہنا ہے۔ یہ ارادہ کرنا ہے کہ جلسہ سالانہ پر کی جانے والی تقریریں اور علمی باتیں جب ہم سنیں تو وہ صرف دینی علم کے بڑھنے کا ذریعہ نہ ہوں یا عارضی طور پر دینی علم بڑھانے کا ذریعہ نہ ہوں بلکہ اب مستقل طور پر دینی علم بڑھانے کی تازندگی مسلسل کوشش بھی کرنی ہے اور پھر اس بات کا بھی مصمم ارادہ کرنا ہے کہ ہم نے اُن لوگوں میں سے نہیں بننا جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ جو کچھ علم حاصل کیا ہے اس کو ہم نے اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ہمیشہ سامنے رکھنا ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 03)۔ اے مومنو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ پس جب ان باتوں کی طرف توجہ رہے گی تبھی جلسہ میں شامل ہونے کے مقاصد بھی پورے ہوں گے، تبھی وہ دیرپا مقاصد حاصل ہوں گے جن کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے عہدِ بیعت لیا ہے۔ تبھی ہم جلسہ کی برکات سے مستقل فیض پانے والے بن سکیں گے۔ تبھی اپنی اصلاح کی طرف ہماری توجہ رہے گی اور ہم اپنے جائزے لیتے رہیں گے۔ تبھی اپنے بچوں کے سامنے ہم نیک نمونے قائم کرنے والے بن سکیں گے۔ تبھی ہم اپنے بچوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکیں گے۔ تبھی اپنے ماتحتوں اور زیرِ اثر افراد کی رہنمائی کا حق ادا کرنے کی طرف ہماری توجہ بھی رہے گی۔ تبھی ہم تبلیغ کا حق بھی ادا کرنے والا بن سکیں گے۔ پس یہ بہت بڑا کام ہے جو ہم میں سے ہر ایک نے انجام دینا ہے۔ لیکن اس کے معیار تبھی قائم ہو سکتے ہیں جب ہم حقیقت پسند بن کر اپنی خوبیاں دیکھنے کی بجائے اپنی خامیوں پر نظر رکھنے والے ہوں گے اور اُن کی تلاش میں ہوں گے، جب ہم خدا تعالیٰ کی مغفرت کے حصول کے لئے بے چین ہوں گے، جب ہم خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے آگے اپنی گردنیں ڈال دیں گے، جب ہم اطاعت کے وہ نمونے دکھائیں گے جس میں بہانے اور عذر نہ ہوں بلکہ جن میں فرار کے راستوں کے آگے دیواریں کھڑی ہوں، عذروں کے راستے کے آگے دیواریں کھڑی ہوں اور یہ معیار اُس وقت حاصل ہو گا جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم اور اپنی جماعت سے آپ کی توقعات اور خواہشات کو اپنی تمام تر خواہشات پر ترجیح دیں گے۔ جب ہم آپ کی خواہشات کے مطابق صدق و وفا کے نمونے دکھائیں گے۔

آپ علیہ السلام ہم سے کیا توقعات اور امید رکھتے ہیں۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست اور مطابق رکھو۔ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں کر کے دکھایا، ایسا ہی تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ248۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں عجیب نمونے نظر آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نمونے کی بات کی۔ آپ کی زندگی میں ہم صدق و وفا کے جو نمونے دیکھتے ہیں اُن میں ایک عجیب شان نظر آتی ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ میں نبی ہوں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی سوال کے کہا کہ میں آپ کو خدا تعالیٰ کا نبی مانتا ہوں۔ (دلائل النبوۃ جلد 1صفحہ24باب دلائل النبوۃ فی اسلام ابوبکرمطبوعہ دارالکتب بیروت 2002ء)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دینی ضروریات کے لئے چندے کی ضرورت ہے، مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مال میں سے دینی ضروریات کے لئے مال دیں تو حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے گھر کا سارا مال لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ (شرح العلامۃ الزرقانی جلد 4صفحہ69باب ثم غزوۃ تبوک مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفار کے ظلموں کی وجہ سے اب مجھے لڑائی کا حکم ہوا ہے، اُن کا سختی سے جواب دینے کا حکم ہوا ہے، اُن کے خلاف تلوار اُٹھانے کا حکم ہوا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر آ گئے کہ میں حاضر ہوں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری طور پر صلح حدیبیہ کے موقع پر فیصلہ بدل کر اپنی اس منشاء کا اظہار کیا کہ لڑائی نہ کی جائے بلکہ صلح کی جائے تو سب بڑے بڑے صحابہ اُس وقت بے چین ہوئے، بعض کے ماتھے پر شکنیں آنے لگیں کہ یہ کیا ہونے لگا ہے مگر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا بالکل ٹھیک ہے، صلح ہی ہونی چاہئے۔ (ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب الجزیۃ والمواعدۃ باب منہ حدیث3182)

پس یہ وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت سے توقع کی ہے۔ یہ معیار سامنے رہیں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات کو پورا کرنے کی روح قائم رہے گی۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات اور توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو کس قدر تکلیف ہوئی اور کس قدر ناراضگی کا اظہار کیا تھا (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ360اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ)

تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے۔ پس آج اس زمانے میں ہم نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کا حصہ بننا ہے تو ہمیں آپ کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اُس طاقت اور جوش کی ضرورت ہے جس کا نمونہ صحابہ نے جنگِ حُنین میں دکھایا تھا۔ کیونکہ اس جذبے کے بغیر نہ ہم لغویات سے بچ سکتے ہیں، نہ ہم دنیا کی لالچوں سے بچ سکتے ہیں نہ ہم اپنے نفس کی اصلاح کر سکتے ہیں، نہ ہم جلسوں میں شامل ہونے کی روح کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھ سکتے ہیں، نہ ہمارے اندر اسلام کی خدمت کے جذبے کی حقیقی روح پیدا ہو سکتی ہے۔

جنگِ حُنین میں کیا ہوا تھا؟ جنگِ حُنین میں اُس وقت تک کی جو اسلام کی تاریخ تھی اُس وقت مسلمانوں کا پہلا لشکر تھاجو دشمن کے مقابلے میں تیار ہو اتھا اور جس کی تعداد دشمن کے لشکر کی تعداد سے زیادہ تھی لیکن وہ لوگ جو لشکر میں شامل ہوئے تھے، اُن کی اکثریت مومن کی قربانی کی روح کو سمجھنے والی نہیں تھی۔ اُس روح سے نا آشنا تھی۔ جب دشمن کے چار ہزار تیر اندازوں نے حکمت سے اچانک تیروں کی بوچھاڑ کی تو کچھ کمزور ایمان کی وجہ سے اور کچھ لوگ سواریوں کے بِدکنے کی وجہ سے ادھر اُدھر ہونے لگے اور اسلامی لشکر تتّر بتّر ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صرف بارہ صحابہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے لیکن آپ نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ باوجود اس مشورے کے کہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ واپس مڑ کر لشکر کو جمع کیا جائے، آپ نے فرمایا۔ خدا کا نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑتا۔ بہر حال آپ نے اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جن کی آواز اونچی تھی، اُنہیں فرمایا کہ انصار کو آواز دے کر کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس بات کی بھی بڑی اعلیٰ وضاحت فرمائی ہے کہ صرف انصار کو کیوں مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن ایک وجہ یہ تھی کہ شکست کے ذمہ دار مکّہ کے بعض لوگ تھے جو مہاجرین کے قریبی تھے، اس لئے مہاجرین کو اس حوالے سے ایک ہلکی سی سرزنش بھی کی گئی کہ تم جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہو گئے ہیں، آج ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا تو تم اپنے جن رشتے داروں اور عزیزوں پر، یا اپنے ہم قوموں پہانحصار کر رہے تھے، اُن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ بہر حال صرف انصار کو بلایا گیا۔ انصار کہتے ہیں کہ جب ہمارے کانوں میں حضرت عباس کی آواز پڑی کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اس سے پہلے بھی ہم اپنی سواریوں کو میدانِ جنگ کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس آواز نے ایسا جادو کیا کہ ایک نیا جذبہ اور بجلی کی طاقت ہمارے جسموں میں پیدا ہو گئی اور جو سواریاں مڑ سکیں اُن کے سوار سواریوں سمیت میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اور جو سواریاں باوجود کوشش کے مڑنے کے لئے تیار نہیں تھیں تو اُن سواروں نے اُن سواریوں کی گردنیں اپنی تلواروں سے کاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اَور لبّیک یا رسول اللہ! لبّیک کہتے ہوئے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ (تاریخ الخمیس جلد 2صفحہ102-103باب ذکر غزوہ حوازن بحنین مطبوعہ بیروت)

پس یہ لبّیک کہنے کی وہ روح ہے جسے آج ہمیں بھی کام میں لانا چاہئے، اسے سمجھنا چاہئے۔ آج بھی خدا تعالیٰ کا فرستادہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق ہے، ہمیں بلا رہا ہے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرو، جلسے میں آکر جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اپنے دن تقویٰ اور عشقِ الٰہی میں گزارو اور ذکرِ الٰہی میں گزارو۔ اپنے تین دنوں کو قربِ الٰہی حاصل کرنے کا مستقل ذریعہ بنا لو۔ اپنے نفس کے سرکش گھوڑوں کی گردنیں کاٹو۔ آج زمانے کا امام، مصلح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آنے والا نبی جو ہمیں ہماری عملی حالتوں کی درستگی کی طرف بلا رہا ہے تو ہمیں بھی لبّیک کہتے ہوئے اس کے گرد جمع ہونے کی ضرورت ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کے گرد جمع ہو جائیں۔ آج تلواروں کے جہاد کے لئے نہیں بلا یا جا رہا بلکہ نفس کے جہاد کے لئے بلایا جا رہا ہے جس میں کامیابی تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کا باعث بنے گی۔

پس جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، محبت و اخوّت کے نئے معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ زہدو تقویٰ کی سیڑھیوں پر چڑھنے کی ضرورت ہے۔ تواضع اور انکساری کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے۔ اپنے ہر عمل سے سچائی کا بول بالا کرنے کی ضرورت ہے۔ تبلیغِ اسلام کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے عملی اظہار کی ضرورت ہے۔ ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عبادتوں کے اعلیٰ معیار کے ذریعہ قربِ الٰہی کے حصول کی کوشش کی ضرورت ہے۔ پس ان تین دنوں میں قادیان کے جلسے کے شاملین بھی بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور جہاں جہاں بھی اور ان دنوں میں جلسے ہو رہے ہیں، ان میں سے ایک تو امریکہ کا ویسٹ کوسٹ کا جلسہ ہو رہا ہے، پھر مالیؔ میں جلسہ ہو رہا ہے، نائیجر میں جلسہ ہو رہا ہے، نائجیریا میں جلسہ ہو رہا ہے، سینیگال میں جلسہ ہو رہا ہے، آئیوری کوسٹ میں جلسہ ہو رہا ہے اور ہر جگہ کے شاملینِ جلسہ ان دنوں سے فیض اُٹھانے کی خاص کوشش کریں۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جو اُن بعض باتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں جو خدا کا رسول ہم سے چاہتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر مَیں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وُجودِ و احد رکھو ؛ورنہ ہَوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دُوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحادنہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہوتو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔

میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوتی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ(آل عمران: 104) یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو ! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اُس کا انجام اچھا نہیں …‘‘۔

فرمایا: ’’…یاد رکھو بغض کا جُدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی؟ وہ ضرور ہو گی۔ تم کیوں صبر نہیں کرتے۔ جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں۔ …ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں۔ جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ مَیں کسی کے سبب سے اپنے اُوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے۔ اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رَہ کر پانی تو چُوستی ہے، مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا، بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو۔ میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ336۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (آل عمران 56: )یہ تسلّی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابنِ مریم سے ہوا تھا، مگر مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارتِ عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟نہیں، ہر گز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصّہ کہانی نہیں جانتے تو یاد رکھو اور دل سے سُن لو۔ مَیں ایک بار پھر اُن لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں، بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر(نہ صرف میری ذات تک) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس بر گزیدہ انسانِ کاملؐ کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتاتو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی، مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفّرین پر غالب رہو گے) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے، تو پھر اتنا ہی مَیں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنّہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔

اس سے زیادہ اور مَیں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اُس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ۔ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر اَبدی عذاب خرید لیتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ65-64۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

’’ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ وہ اس امر کو مدّنظر رکھیں جومَیں بیان کرتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے۔ لیکن جناب الٰہی کو ان امور کی پرواہ نہیں۔ اُس نے تو صاف طور پر فرمادیا کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ  (الحجرات: 14)یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعتِ اَتقیاء ہے‘‘ (متقیوں کی جماعت ہے) ’’خدا اُس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ177۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو، ہم میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنے کی توفیق دے اور یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ میں نے جو باتیں کی ہیں یہ باتیں صرف جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے نہیں یاو ہی صرف مخاطب نہیں ہیں بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر احمدی اس کا مخاطب ہے۔

یہاں مَیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں رہنے والا ہر احمدی ان دنوں میں جبکہ مسیح محمدی کی بستی میں جلسے کی برکات کا فیض جاری ہے، خاص طور پر اپنے آپ کو بھی ذکرِ الٰہی اور خاص دعاؤں کی طرف متوجہ رکھے۔ خاص طور پر یہاں قادیان والے، جلسہ میں شامل ہونے والے اور دوسرے ممالک میں جو جلسے ہو رہے ہیں وہ یہ دعائیں کریں۔ دنیا میں ہر احمدی یہ دعا کرے کہ جہاں احمدی مشکلات میں گرفتار ہیں اور اس لئے گرفتار ہیں کہ انہوں نے مسیح محمدی کی بیعت کی ہے، اس زمانے کے امام کو مانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن تمام جگہوں پر ان کی پریشانیاں دور فرمائے۔ خاص طور پر پاکستان ہے، انڈونیشیا ہے، شام ہے اور بعض دوسرے ممالک ہیں، ان جگہوں پر اللہ تعالیٰ احمدیوں کے لئے آسانی کے سامان مہیا فرمائے، اُن کی آزادی کے سامان پیدا فرمائے۔ اور یہ بہت اہم دعا ہے جو اخوّت اور بھائی چارے کے اظہار کے لئے ضروری ہے۔ اور اخوت اور بھائی چارے کے اظہار کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ضرور یہ دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ دسمبر 2013ء شہ سرخیاں

    قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہونے کی وجہ سے اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام اس بستی سے نکل کر پہنچنے کی وجہ سے جو حیثیت اور جو مقام حاصل ہے، وہ اس بستی کو جہاں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا مرکز بناتی ہے وہاں اس بستی میں منعقد ہونے والے جلسوں کو بھی بین الاقوامی جلسہ بناتی ہے۔

    قادیان کے جلسے کے ماحول میں روحانیت کا ایک اور رنگ محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ اس بستی کی فضاؤں میں اور گلی کوچوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کی یادوں کی خوشبو روحانیت کے ایک اور ہی ماحول میں لے جاتی ہے۔ پس اس ماحول میں ملی ہوئی نصیحت بھی ایک خاص رنگ رکھتی ہے، ایک خاص اثر رکھتی ہے اور ہر مخلص کے دل پر ایک خاص اثر کرنے والی ہونی چاہئے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مقصد یہ بھی بتایا تھا کہ افرادِ جماعت کا ایک دوسرے سے جلسہ کے دنوں میں تعارف بڑھے اور اخوّت اور پیار اور محبت کے تعلقات قائم ہوں۔ جہاں ہر آنے والا اس محبت و اخوّت کے تعلق اور رشتے کو قائم کرے، وہاں اس بستی میں رہنے والا ہر احمدی بھی اس طریق پر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس مقصد کو حاصل کئے بغیر وہاں سے واپس لوٹے۔ اور قادیان میں رہنے والا کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو ان تین دنوں کو اپنی اصلاح کا بہترین ذریعہ نہ بنا لے۔ اس بات کی پابندی کی بھی بھرپور کوشش رہے کہ جو تبدیلی پیدا کرنی ہے یا پیدا کی ہے، اُس میں مداومت اختیار کرنی ہے، اُسے اپنی زندگی کا مستقل حصہ بھی بنانا ہے۔

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جماعت احمدیہ عالمگیر کے افراد کے باہمی اتفاق و اتحاد اور اخوّت کے اظہار سے متعلق نہایت اہم نصائح۔

    آج زمانے کا امام، مصلح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آنے والا نبی جو ہمیں ہماری عملی حالتوں کی درستگی کی طرف بلا رہا ہے تو ہمیں بھی لبّیک کہتے ہوئے اس کے گرد جمع ہونے کی ضرورت ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کے گرد جمع ہو جائیں۔ آج تلواروں کے جہاد کے لئے نہیں بلا یا جا رہا بلکہ نفس کے جہاد کے لئے بلایا جا رہا ہے جس میں کامیابی تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کا باعث بنے گی۔

    دنیا میں ہر احمدی یہ دعا کرے کہ جہاں احمدی مشکلات میں گرفتار ہیں اللہ تعالیٰ اُن تمام جگہوں پران کی پریشانیاں دور فرمائے۔ ان جگہوں پر اللہ تعالیٰ احمدیوں کے لئے آسانی کے سامان مہیا فرمائے، اُن کی آزادی کے سامان پیدا فرمائے۔ اور یہ بہت اہم دعا ہے۔ اور اخوّت اور بھائی چارے کے اظہار کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ضرور یہ دعا کریں۔

    فرمودہ مورخہ 27دسمبر 2013ء بمطابق 27 فتح 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور