عملی اصلاح کے لئے علم اور قوتِ ارادی
خطبہ جمعہ 10؍ جنوری 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ دو جمعوں سے پہلے مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے خطبات کی روشنی میں چند خطبے عملی اصلاح کے بارے میں دئیے تھے اور بعض اسباب بیان کئے تھے جو عملی اصلاح میں روک کا باعث بنتے ہیں اور یہ بھی ذکر ہو گیا تھا کہ اگر ہم نے من حیث الجماعت اپنی عملی اصلاح کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں تو ان روکوں کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بات بھی واضح کر دی گئی تھی کہ عمل کے متعلق ہماری روکیں عقائد کی روکوں سے زیادہ سخت ہیں۔ اس حوالے سے آج مَیں مزید کچھ کہوں گا۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح کرنا نہیں تھا۔ آپ نے واضح فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اس چیز کے لئے آپ تشریف لائے ہیں۔ بندے کا ایک دوسرے کے حق ادا کرنا بھی ایک مقصد ہے اور یہ سب باتیں اعمال پر منحصر ہیں۔ نیک اعمال بجا لا کر خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا ہوتا ہے اور بندوں کا بھی حق ادا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا تھا، پہلے بھی میں کئی دفعہ یہ چیزیں بیان کر چکا ہوں۔ فرمایا کہ ’’یاد ر کھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 48۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک موقع پر فرمایا: ’’اپنے ایمانوں کو وزن کرو۔ عمل ایمان کا زیور ہے۔ اگر انسان کی عملی حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 249۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن میں کارآمد ہونا ہے۔ آپ کے مقصد کو پورا کرنے والا بننا ہے تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی روکوں کو دُور کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ کیونکہ یہ عملی اصلاح ہی دوسروں کی توجہ ہماری طرف پھیرے گی اور نتیجۃً ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی تکمیل میں ممدّ و معاون بن سکیں گے۔ پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس کے حصول کے لئے ہم نے کیا کرنا ہے؟ کیونکہ ہمارے غالب آنے کا ایک بہت بڑا ہتھیار عملی اصلاح بھی ہے۔ ہماری اپنی اصلاح سے ہی ہمارے اندر وہ قوت پیدا ہو گی جس سے دوسروں کی اصلاح ہم کر سکیں گے۔ ہمارے غالب آنے کا مقصد کسی کو ماتحت کرنا اور دنیاوی مقاصد حاصل کرنا تو نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے دل اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے۔ لیکن اگر ہمارے اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے تو دنیا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ پس ہمیں اپنی عملی قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ خود دوسروں سے مرعوب ہونے کی بجائے دنیا کو مرعوب کرنے کی ضرورت ہے آجکل جبکہ دنیا میں لوگ دنیاداری اور مادیت سے مرعوب ہو رہے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ نظریں رکھتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا کے رعب سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ اور دنیا کو بھی ان شیطانی حالتوں سے نکالنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہم بن سکیں اور دنیا کی اکثر آبادی بن سکے۔ لیکن اس کے راستے میں بہت سی روکیں ہیں۔ اس کے لئے ہم نے اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرنی ہے کہ ان روکوں کو دُور کر سکیں۔ ہمیں دنیا کے مقابلے کے لئے بعض قواعد تجویز کرنے ہوں گے جو ہم میں سے ہر ایک اپنے اوپر لاگو کرے اور پھر اُس کی پابندی کرے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے نفسوں کی قربانی دینی ہو گی اور ایک ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ جب تک ہمیں یہ حاصل نہیں ہوتا، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔
جیسا کہ مَیں گزشتہ ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں۔ آجکل دنیا سمٹ کر قریب تر ہو گئی ہے۔ گویا ایک شہر بن گئی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے ایک محلہ بن گئی ہے۔ ہزاروں میل دُور کی برائی بھی ہر گھر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ پہنچ گئی ہے اور ہر ملک کی جو خواہ ہزاروں میل دور ہے، اچھائی بھی ہر گھر تک پہنچ گئی ہے۔ مجموعی لحاظ سے ہم دیکھیں تو برائی کے پھیلنے کی شرح اچھائی کے پھیلنے کی نسبت بہت زیادہ تیز ہے۔ پھر جیسا کہ میں پہلے بھی کئی موقعوں پر ذکر کر چکا ہوں اچھائی اور برائی کا معیار بدل گیا ہے۔ ایک چیز جو اسلامی معاشرے میں برائی ہے، دنیا دار معاشرے میں جو اب تقریباً لا مذہب معاشرہ ہے، اس میں وہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو ہم برائی سمجھتے ہیں۔ یہ ان کے نزدیک بہت معمولی سی چیز ہے بلکہ اچھائی سمجھی جانے لگی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ مغربی معاشرے میں ناچ کا رواج ہے۔ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو اتنا عام نہیں تھا یا کم از کم اس کے لئے خاص جگہوں پر جانا پڑتا تھا۔ آجکل تو ٹی وی اور انٹرنیٹ نے ہر جگہ یہ پہنچا دیا ہے اور بعض گھروں میں ہی تفریح کے نام پر ناچ کے اڈے بن گئے ہیں۔ اور بعض گھریلو فنکشنز پر بھی یہ ناچ وغیرہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر شادیوں کے موقع پر تفریح اور خوشی کے نام پر بیہودہ ناچ کئے جاتے ہیں۔ ایک احمدی گھر کو اس سے بالکل پاک ہونا چاہئے۔ اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال میں حضرت مصلح موعود کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ اب مغربی ملکوں میں ناچ کا رواج ہے مگر پہلے اسے لوگ برا سمجھتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ اسے لوگوں نے اختیار کرنا شروع کر دیا۔ پہلے عورت مرد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ناچتے تھے۔ پھر ایک دوسرے کے قریب منہ کر کے ناچنے لگے اور پھر یہ فاصلے کم ہونے لگے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 432خطبہ فرمودہ 3؍جولائی 1936مطبوعہ ربوہ)
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اب تو ناچ کے نام پر بیہودگی کی کوئی حدنہیں رہی۔ ننگے لباسوں میں ٹی وی پر ناچ کئے جاتے ہیں۔ یہ کیوں پھیلا؟ صرف اس لئے کہ برائی پھیلانے والے باوجود دنیا کے شور مچانے کے کہ یہ برائی ہے، برائی پھیلانے پر استقلال سے قائم رہے اور دنیا کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ آخر ایک وقت میں یہ کامیاب ہو گئے۔ اب تو پاکستان جو مسلمان ملک ہے اُس کے ٹی وی پر بھی تفریح کے نام پر، آزادی کے نام پر بیہودگیاں نظر آتی ہیں، ننگ نظر آتا ہے۔ گویا برائی اپنے استقلال کی وجہ سے دنیا کے ذہنوں پر حاوی ہو گئی ہے۔ پس اس کے مقابلے پر آنے کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی اور قربانی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہ ہوئی تو پھر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس بہت سوچنے اور غور کرنے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن چیزوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جن کو اپنا کر ہم یہ روکیں دُور کر سکتے ہیں۔ جن کو استعمال میں لا کر ہمارے اندر یہ روکیں دور کرنے کی طاقت پیدا ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے ہم برائیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے حصول کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے عمدہ رنگ میں وضاحت فرمائی ہے کہ اگر عملی اصلاح کے لئے یہ باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں تو تبھی کامیابی مل سکتی ہے اور یہ تین چیزیں ہیں۔ نمبر ایک قوتِ ارادی۔ نمبر دو صحیح اور پورا علم۔ اور نمبر تین قوتِ عملی۔ لیکن اصل بنیادی قوتیں دو ہیں۔ قوتِ ارادی اور قوتِ عملی۔ جو چیز ان دونوں کے درمیان میں رکھی گئی ہے یعنی صحیح اور پورا علم ہونا، یہ دونوں بنیادی قوتوں پر اثر ڈالتی ہے۔ علم کا صحیح ہونا قوتِ عملی پر بھی اثر ڈالتا ہے اور قوتِ ارادی پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 440 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936مطبوعہ ربوہ)
بہرحال پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قوتِ ارادی اور قوتِ عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے لئے ہمیں قوتِ ارادی کو زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اور قوتِ عملی کے نقص کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ارادہ اگر کسی برائی کو روکنے کا مضبوط ہو تو تبھی وہ برائیاں رک سکتی ہیں اور ارادے کی مضبوطی اُس وقت کام آئے گی جب عمل کرنے کی جو قوت ہے، ہمارے اندر جو طاقت ہے، اُس کی جو کمزوری ہے اُس کو دُور کریں، اُس کے نقص کو دُور کریں۔ اس کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی۔
اس پہلو سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہماری قوتِ ارادی کیسی ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں تک ارادے کا تعلق ہے اس میں بہت کم نقص ہے کیونکہ ارادے کے طور پر جماعت کے تمام یا اکثر افراد ہی تقریباً یہ چاہتے ہیں کہ ان میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو۔ وہ اسلامی احکام کی اشاعت کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا قرب حاصل کر سکیں۔ حضرت مصلح موعودنے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہماری قوتِ ارادی تو مضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج صحیح نہیں نکلتے تو پھر یقینا دو باتوں میں سے ایک بات ہے۔ یا تو یہ کہ عمل کے لئے حقیقی قوتِ ارادی جو چاہئے، اتنی ہمارے اندر نہیں ہے لیکن عقیدے کی اصلاح کے لئے جتنی قوتِ ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی۔ اس لئے عقیدے کی تو اصلاح ہو گئی لیکن عملی اصلاح کے لئے چونکہ قوتِ ارادی کی ضرورت تھی، وہ ہم میں موجودنہیں تھی، اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں بھی کچھ نقص ہے۔ خدا تعالیٰ کی یہ بندگی جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں اُس میں بھی کچھ نقص ہے اور اس وجہ سے قوتِ عملی مفلوج ہو گئی ہے اور قوتِ ارادی کے اثر کو قبول نہیں کر رہی۔ یعنی ہماری عمل کی قوت مفلوج ہو گئی ہے اور قوتِ ارادی کا اثر قبول نہیں کر رہی۔ یا ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے جن معاونوں کی یا جن مددگاروں کی ضرورت ہے اُن میں کمزوری ہے۔ اس صورت میں ہم جب تک قوتِ متاثرہ یا عملی قوت کا یا اثر لے کر کسی کام کو کرنے والی قوت کا علاج نہ کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک طالبعلم ہے، وہ اپنا سبق یاد کرتا ہے مگر یادنہیں رکھ سکتا۔ اُس کا جب تک ذہن درست نہیں کر لیا جاتا اُس وقت تک اُسے خواہ کتنا سبق دیا جائے، کتنی ہی بار اُسے یاد کروایا جائے یا یاد کرانے کی کوشش کی جائے، وہ اُسے یادنہیں رکھ سکے گا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 435,436 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936مطبوعہ ربوہ)
پس ذہن کو درست کرنے کے لئے وجوہات معلوم کرنی ہوں گی تا کہ صحیح رہنمائی ہو سکے، یا پھر سبق یاد کروانے کا طریق بدلنا ہو گا۔
پاکستان میں یہ رواج ہے کہ رٹّا لگا کر ہر چیز یاد کر لی، چاہے سمجھ آئے، نہ آئے اور اس طرح وہاں پڑھنے والے بہت سے طالبعلم تیاری کرتے ہیں، اس میں اُن کو بڑی مہارت ہوتی ہے، ایک ایک لفظ کتاب کا بعضوں کو یاد ہو جاتا ہے۔ لیکن جب یہاں مغربی ممالک کی پڑھائی کے نظام میں آتے ہیں تو یہاں کیونکہ طریقہ کار مختلف ہے، ہر چیز کو سمجھ کر پڑھنا پڑتا ہے، اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کم نمبر لینے والے یہاں بہتر نمبر لے لیتے ہیں، جلد ہی اپنے آپ کو اس نظام میں ڈھال لیتے ہیں۔ اور وہاں زیادہ نمبر لینے والے یہاں آکر کم نمبر لیتے ہیں۔ ربوہ میں ہمارے جماعتی سکولوں کو جب بعض مجبوریوں کی وجہ سے حکومت کے بورڈوں سے علیحدہ کر کے آغا خان بورڈ کے ساتھ منسلک کیا گیا، رجسٹر کروایا گیا تو وہاں کیونکہ امتحان کا طریق مختلف تھا، اس لئے بہت سے طلباء نے لکھا کہ ہم جتنے نمبر عام پاکستانی نظامِ تعلیم جو ہے اُس کے امتحانات میں لیتے تھے ایسا نہیں ہے، اب نہیں لے سک رہے اور ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی کہ کیا ہو گیا ہے؟ تو بعض دفعہ صرف ذہن کی بات نہیں ہوتی۔ ذہن اگر صحیح بھی ہو تو اچھی طرح یادنہیں ہوتا۔ یہ صرف ذہن کی کمزوری نہیں ہوتی بلکہ اور بھی وجوہات ہو جاتی ہیں اور اگر ذہن بھی کمزور ہو تو پھر بالکل ہی مشکل پڑ جاتی ہے، یاد کروانے کے طریقے بدلنے پڑتے ہیں۔ یہاں ایسے کمزور ذہن بچوں کے لئے بھی خاص سکول ہوتے ہیں، اُن کو توجہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ وہی کمزورذہن بچے پڑھائی میں بڑے اچھے بچے نکل آتے ہیں۔ بہرحال عملی طریق بھی جو ہے وہ پریشان کر دیتا ہے اور اگر اُس صحیح طریق کو اپنایا نہ جائے تو کامیابی نہیں ملتی۔ پس جو عملی طریق کسی کام کرنے کے لئے تجویز ہوا ہے، دماغ کو بھی اُس کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کی حالتوں کے لئے بھی اس طرف دیکھنا ہو گا۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہماری نیکی کے ارادے دماغ کے اس حصے پر کیوں اثر نہیں کرتے جس پر اثر ہونے کے نتیجہ میں عملی اصلاح شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں ان روکوں کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس رستے میں حائل ہوتی ہیں۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عبودیت کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری عملی کوشش میں نیک نیتی اور اخلاص و وفا کتنا ہے۔
پس دو قسم کی روکیں ہیں جو عملی اصلاح کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ ایک قوتِ ارادی میں کمزوری اور دوسری قوتِ عملی میں کمزوری۔ لیکن جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ان کے درمیان میں ایک اور صورت بھی عملی اصلاح میں کمی کی ہے اور وہ ہے علمی طور پر کمزوری۔ یہ دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے۔
ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ارادہ بھی علم کے مطابق چلتا ہے اور عمل بھی علم کے مطابق چلتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک ہزار کا لشکر اُس کے مکان پر حملہ آور ہونے والا ہے بلکہ صرف اس قدر جانتا ہو کہ کسی نے حملہ کرنا ہے اور ہو سکتا ہے ایک دو آدمی ہوں تو اُس کے لئے وہ تیاری کرتا ہے۔ لیکن اگر اُسے یہ علم ہو کہ حملہ آور ایک ہزار ہیں تو پھر اُس کی تیاری اُس سے مختلف ہوتی ہے۔ پس علم کی کمی کی وجہ سے نقص پیدا ہو جاتا ہے اور علم کی صحت قوتِ ارادی کو بڑھا دیتی ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ انسان کسی چیز کو اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور اُسے ہلکی سمجھتا ہے لیکن وہ بھاری ہوتی ہے، اُٹھا نہیں سکتا۔ لیکن جب ایک دفعہ اندازہ ہو جائے کہ یہ بھاری ہے تو پھر زیادہ قوت صَرف کرتا ہے، زیادہ طاقت لگاتا ہے، اُٹھانے کا طریق بدل لیتا ہے تو پھر اُس کو اُٹھا بھی لیتا ہے۔ پس کوئی زائد طاقت اُس میں دوسری دفعہ نہیں آئی بلکہ صحیح علم ہونے کی وجہ سے اور صحیح طریق پر طاقت کا استعمال اُس نے کیا تو اس میں کامیاب ہو گیا۔
پس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت تو موجود ہے۔ جب اُس صلاحیت اور طاقت کا استعمال صحیح ہو تو آسانی سے کام ہو جاتا ہے یا بہتر رنگ میں کام ہو جاتا ہے اور یہ علم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر صلاحیت کا صحیح استعمال نہ ہو تو عام معاملات میں بھی نقصان پہنچ جاتا ہے۔ پس یہاں اسی اصول کو عملی صلاحیت کے استعمال اور عملی کمزوری کو دور کرنے کے لئے لگانے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے اپنے علم کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اُس کے مطابق صحیح طاقت کا استعمال کر کے اپنی کمزوریوں پر غالب آیا جا سکے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بات یہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں ایک قوتِ موازنہ رکھی ہے جس سے وہ دو چیزوں کے درمیان موازنہ کر سکتا ہے۔ جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کرنے کے لئے اتنی طاقت درکار ہے۔ اور کیونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے۔ اس لئے پہلی دفعہ جب ایک کام نہ ہو، جیسے وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی ہے، وزن نہ اُٹھایا جا سکے تو پھر انسان دماغ کو مزید طاقت بھیجنے کے لئے کہتا ہے اور اس طاقت کے آنے پر چیز اُٹھانے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ قوتِ موازنہ بھی علم کے ذریعہ آتی ہے۔ خواہ اندرونی علم ہو یا بیرونی علم ہو۔ اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد باہر کی آوازیں ہیں جو کان میں پڑتی ہیں۔ جیسے باہر کے کسی حملے کی مثال دی گئی تھی۔ باہر کے حملے سے ہوشیار کرنے کے لئے باہر کی آوازیں انسان کو ہوشیار کرتی ہیں۔ لیکن یہ جو وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی تھی، اس کے لئے قوتِ موازنہ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے یہ وزن نہیں اُٹھایا گیا تو اس لئے کہ تم اسے کم وزن سمجھتے تھے، اگر مثلاً دس کلو تھا تو پانچ کلو سمجھتے تھے اور تھوڑی طاقت لگائی تھی۔ اب اسے اُٹھانے کے لئے دس کلو کی طاقت لگاؤ تو اُٹھا لو گے۔ اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو جب انسان اس لائحہ عمل کے لئے کھڑا ہو تا ہے تو قوتِ موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جدو جہد کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے۔
بعض دفعہ صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ اور قوتِ موازنہ عدمِ علم کی وجہ سے اُسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس کی عملی اصلاح کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 437,438 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936مطبوعہ ربوہ)
پس قوتِ موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور یہی ہے جو عدمِ علم کی وجہ سے اُسے غافل بھی کرتی ہے۔
قوتِ موازنہ بھی تبھی ہو گی جب کسی چیز کا علم ہو جائے۔ اگر علم ہو گا تو ہوشیار کرے گی کہ اس کو اس طرح استعمال کرو۔ علم نہیں ہو گا تو انسان وہ کام نہیں کر سکتا۔ اور پھر اسی عدمِ علم کی وجہ سے یا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک بچہ جب ایسے لوگوں میں پرورش پاتا ہے جو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں یا مستقل ہی مرتکب رہتے ہیں، ہر وقت اُن کی مجلسوں میں یہ ذکر رہتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر تو دنیا میں گزارہ نہیں ہو سکتا تو بچے کے ذہن میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ اس زمانے میں جھوٹ کے بغیر کامیابی حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔
یہاں مَیں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جو اسائلم لینے والے آتے ہیں، وہ پتا نہیں کیوں، اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ لمبی کہانی بنائے بغیر اور جھوٹی کہانی بنائے بغیر ہمارے کیس پاس نہیں ہوں گے۔ حالانکہ کئی مرتبہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ اگر مختصر اور صحیح بات کی جائے تو کیس جلدی پاس ہو جاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں۔ کئی لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے سچی اور مختصر سی بات کی ہے اور چند دنوں میں کیس پاس ہو گیا۔ اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ دماغی ٹارچر اب اُن سے برداشت نہیں ہوتا۔ جہاں ہر وقت اپنا بھی دھڑکا ہے اور اپنے بچوں کا بھی دھڑکا ہے۔ بہت ساری پریشانیاں ہیں۔ سکول نہیں جا سکتے، سکولوں میں تنگ کئے جاتے ہیں تو اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں۔ اسی بات پر اکثریت جو کیس ہیں وہ پاس ہو جاتے ہیں۔ پس سچائی پر قائم رہنا چاہئے اور پھر خدا تعالیٰ پر توکّل بھی کرنا چاہئے۔ یہ جھوٹی کہانیاں جب بچوں کے سامنے ذکر ہوں کہ ہم نے جج کو یہ کہانی سنائی اور وہ سنائی تو پھر بچے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر جھوٹ نہ بولتے تو شاید ہمارا کیس پاس نہ ہوتا یا ہمیں فائدہ نہ پہنچ سکتا۔ یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہی ہے جو تمام ترقیات کی چابی ہے۔ یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ آجکل بھلا کون ہے جو سچ بولتا ہے۔ تو یہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں میں اپنے بڑوں کی باتیں سن کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر اُن کا علم یہیں محدود ہو جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایسی بُری بات نہیں ہے۔ اور نتیجہ کیا ہو گا پھر؟ نتیجہ ظاہر ہے کہ بڑے ہو کر جہاں جہاں بھی ایسے بچے کو جھوٹ بولنے کا موقع ملے گا وہ اپنی قوتِ موازنہ سے فیصلہ چاہے گا تو قوتِ موازنہ اُسے فوراً یہ فیصلہ دے دے گی کہ خطرہ زیادہ ہے، جھوٹ بول لو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح غیبت ہے۔ اگر بچہ اپنے ارد گرد غیبت کرتے دیکھتا ہے کہ تمام لوگ ہی غیبت کر رہے ہیں تو بڑا ہو کر اُس کے سامنے جب غیبت کا موقع آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے غیبت کی تو مجھے فائدہ پہنچے گا تو قوتِ موازنہ اُسے کہتی ہے، تمہارے ارد گرد تمام غیبت کرتے ہیں اگر تم غیبت کر لو تو کیا حرج ہے۔ گویا گناہ تو ہے لیکن اتنا بڑا گناہ نہیں۔ اس بارے میں گزشتہ ایک خطبہ میں بات ہو چکی ہے کہ اصلاحِ اعمال میں ایک بہت بڑی روک یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے گناہ ہیں اور ان کو کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور پھر ان گناہوں کو جب ایک دفعہ انسان کر لے تو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہاں انسان میں قوتِ موازنہ تو موجود ہوتی ہے مگر اس غلط علم کی وجہ سے جو اُسے ماحول نے دیا ہے، وہ انسان کو اتنی طاقت نہیں دیتی جس طاقت کے ذریعہ سے وہ گناہوں پر غالب آسکے۔ جیسے کہ وزن اُٹھانے کی مثال بیان کی گئی تھی۔ کمزور طاقت ایک وزن کو اُٹھا نہ سکی لیکن جب دماغ نے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت بھیجی تو وہی ہاتھ اُس زیادہ وزن کو اُٹھانے کے قابل ہو گیا۔ لیکن اگر انسان کی قوتِ موازنہ یہ حکم دماغ کو نہ بھیجتی تو وہ وزن نہ اُٹھا سکتا۔ اسی طرح گناہوں کو مٹانے میں بھی یہی اصول ہے۔ گناہوں کو مٹانے کی طاقت انسان میں ہوتی ہے لیکن جب گناہ سامنے آتا ہے اور قوتِ موازنہ یہ کہہ دیتی ہے کہ اس گناہ میں حرج کیا ہے کہ چھوٹا سا، معمولی سا تو گناہ ہے جب کہ اس کے کرنے سے فائدہ زیادہ حاصل ہو گا تو دماغ پھر گناہ کو مٹانے کی طاقت نہیں بھیجتا۔ وہ حس مر جاتی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوتِ ارادی ختم ہو جاتی ہے اور گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ گویا اصلاحِ اعمال کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہے۔
ایک قوتِ ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوتِ عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا، یہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ علم کی زیادتی درحقیقت قوتِ ارادی کا حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوتِ ارادی بڑھتی ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ عمل کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنے گا کہ عملی اصلاح کے لئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے، پہلے قوتِ ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑے کام کرنے کی اہل ہو۔ علم کی زیادتی کہ ہماری قوتِ ارادی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور صحیح کی تائید کرنی ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لئے پورا زور لگانا ہے۔ غفلت میں رہ کر انسان مواقع نہ گنوا دے۔ تیسرے قوتِ عملیہ کی طاقت کہ ہمارے اعضاء ہمارے ارادے کے تابع چلیں۔ بد ارادوں کے نہیں، نیک ارادوں کے اور اُس کا حکم ماننے سے انکار نہ کریں۔ یہ باتیں گناہوں سے نکالنے اور اعمال کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اپنی قوتِ ارادی کو ہمیں اُس زبردست افسر کی طرح بنانا ہو گا جو اپنے حکم کو اپنی طاقت اور قوت اور اصولوں کے مطابق منواتا ہے اور کسی مصلحت کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتا۔ ہمیں چھوٹے بڑے گناہوں کی اپنی من مانی تعریفیں بنا کر اپنے اوپر غالب آنے سے روکنا ہو گا۔ صحیح علم ہمیں اُن ناکامیوں سے محفوظ رکھے گا جو قوتِ موازنہ کی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جس کی مثال میں دے چکا ہوں کہ حس مر جاتی ہے۔ چھوٹے اور بڑے گناہوں کے چکر میں انسان رہتا ہے اور پھر اصلاح کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ عدمِ علم کی وجہ سے قوتِ ارادی فیصلہ ہی نہیں کر سکتی کہ اُسے کیا کرنا ہے یا کیا کرنا چاہئے۔ اسی طرح جب قوتِ عملیہ مضبوط ہو گی تو وہ قوتِ ارادی کے ادنیٰ سے ادنیٰ اشارے کو بھی قبول کر لے گی۔
حضرت مصلح موعودنے ایک نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قوتِ عملیہ کی کمزوری دو طرح کی ہوتی ہے۔ حقیقی اور غیر حقیقی۔ غیر حقیقی تو یہ ہے کہ قوت تو موجود ہو لیکن عادت وغیرہ کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہو اور حقیقی یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے کے عدمِ استعمال کی وجہ سے وہ مردہ کی طرح ہو گئی ہو اور اُسے بیرونی مدد اور سہارے کی ضرورت پیدا ہو گئی ہو۔ غیر حقیقی مثال ایسے شخص کی ہے جسے طاقت تو یہ ہو کہ مَن بوجھ اُٹھا سکے، چالیس کلو وزن اُٹھا سکے لیکن کام کرنے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے جب اُسے بوجھ اُٹھانے کا کہو تو اُسے گھبراہٹ چھڑ جاتی ہے، پریشانی شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا شخص اگر اپنی طبیعت پر دباؤ ڈالے گا تو پھر بوجھ اُٹھانے کے قابل ہو جائے گا اور اُس میں کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ اور حقیقی کی مثال یہ ہے کہ دیر تک کام نہ کرنے کی وجہ سے انسان میں کام کرنے کی طاقت ہی باقی نہیں رہتی اور اُس میں دس بیس سیر سے یاکلو سے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت نہیں رہتی۔ تو ایسے شخص کو زائد وزن اُٹھوانے کے لئے مددگار دینا ہو گا۔ اُس کی اصلاح کے لئے اُس کی قوتِ ارادی کو بڑھانے کے لئے اور اُس کی قوتِ عملی کو بڑھانے کے لئے پھر کچھ اور طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ غرض جب طاقت کا خزانہ موجودنہ ہو تو اُس وقت بیرونی ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں تا کہ کام کو پورا کیا جا سکے۔ یہی حال اعمال کی اصلاح کا ہے اور مختلف لوگوں کے لئے مختلف علاجوں کی ضرورت ہے۔ ایک ہی علاج ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ بعض کے لئے قوتِ ارادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض کے لئے قوتِ عملی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے اس صورت میں جبکہ بوجھ زیادہ ہو، اُن کی طاقت اور برداشت سے باہر ہو، بیرونی مدد کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 441 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ)
اُس وقت معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، جماعت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، ذیلی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان باتوں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، قوتِ عملی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں اور ہماری جو صلاحیتیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو طاقتیں ہمیں دی ہیں وہ زنگ لگ کے ختم نہ ہو جائیں۔ اس کی مزید وضاحت انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ مَیں کروں گا۔ آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پیش کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 92۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا، اپنی قوتِ ارادی کو دعا کے ذریعہ سے مضبوط کرنا ہے اور قوت کا خرچ کرنا، قوتِ ارادی اور قوتِ عملی کا اظہار ہے۔ جب یہ اظہار اعلیٰ درجہ کا ہو جائے تو یہی ایمان ہے اور پھر بندہ ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہے اُس کی رضا کے حصول کی طرف توجہ رہتی ہے۔
پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا: ’’تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 116۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو، کوئی اس کو قبول نہیں کرتا۔ جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہو گی، کوئی خریدار نہیں ہو سکتا۔ جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکو گے۔
پس عملی حالتوں کی درستی کے لئے بہت محنت اور مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر احمدی اپنے احمدی ہونے کے مقصدکو پورا کر سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ہم اپنے آپ کو حقیقی مسلمان بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب ایم اے کلکتہ انڈیا کا ہے۔ 3؍جنوری 2014ء کو تقریباً 80 سال کی عمر میں قادیان میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ گزشتہ ایک سال سے بیمار تھے۔ جاپان بھی آپ کے بیٹے علاج کی غرض سے لے گئے۔ وہاں سے کچھ بہتر ہوئے تھے۔ آجکل اپنی بیٹی کے پاس قادیان تھے۔ آپ کو 1965ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سعادت ملی۔ اس کے بعد یہ زندگی کے آخری لمحے تک دیوانہ وار دعوتِ الی اللہ میں مصروف رہے ہیں۔ ان کا 48 سالہ دینی خدمات کا دور ہے اور آپ کو سیکرٹری تبلیغ، قائد خدام الاحمدیہ، ناظم انصار اللہ بنگال، نائب امیر اور امیر کلکتہ، پھر لمبا عرصہ صوبائی امیر بنگال اور آسام کی حیثیت سے خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اسی طرح نیپال کے تبلیغی امور کے نگران اور انجمن وقفِ جدید قادیان کے ممبر رہے۔ بنگالی زبان میں رسالہ ’’البشریٰ‘‘ بڑی محنت سے شائع کرتے اور لوگوں کو پوسٹ بھی خود ہی کرتے تھے۔ مکرم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان انعام غوری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ بنگال و آسام کے متعدد سفر کئے۔ پُرخطر ماحول میں بھی جلسے اور تقاریر کرنے سے باز نہیں رہتے تھے۔ کہتے ہیں تین مرتبہ تو خاکسار کے ساتھ نہایت مخدوش حالات میں سے بحفاظت نکلنے کا اللہ تعالیٰ نے سامان فرمایا۔ گاڑی اور سامان وغیرہ کو تو نقصان پہنچا لیکن ممبران محفوظ رہے۔ بے دھڑک ہو کے ہر خطرے کی جگہ پر لے جایا کرتے تھے۔ موصوف کے ساتھ دورہ کرتے ہوئے ہر علاقے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے تائید و نصرت کے نشانات کا تذکرۃ جاری رہتا۔ بنگال و آسام میں متعدد جماعتیں مرحوم کے دور میں قائم ہوئیں۔ نہایت دلیر اور متوکل اور درویش صفت انسان تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین ہوئی ہے۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے تو عصمت اللہ صاحب ہیں جو جلسہ سالانہ میں نظمیں وغیرہ پڑھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا ہر فرد تقریباً جانتا ہی ہوگا۔ ایم ٹی اے پر بھی ان کی نظمیں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر قدم مارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح کرنا نہیں تھا۔ آپ نے واضح فرمایا ہے کہ بندے کا خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے۔ بندے کا ایک دوسرے کے حق ادا کرنا بھی ایک مقصد ہے اور یہ سب باتیں اعمال پر منحصر ہیں۔ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن میں کارآمد ہونا ہے۔ آپ کے مقصد کو پورا کرنے والا بننا ہے تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی روکوں کو دُور کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ پس ہمیں اپنی عملی قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
دو قسم کی روکیں ہیں جو عملی اصلاح کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ ایک قوتِ ارادی میں کمزوری اور دوسری قوتِ عملی میں کمزوری۔ ان کے درمیان میں ایک اور صورت بھی عملی اصلاح میں کمی کی ہے اور وہ ہے علمی طور پر کمزوری۔ یہ دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے۔
مختلف لوگوں کے لئے مختلف علاجوں کی ضرورت ہے۔ ایک ہی علاج ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ بعض کے لئے قوتِ ارادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض کے لئے قوتِ عملی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے اس صورت میں جبکہ بوجھ زیادہ ہو، اُن کی طاقت اور برداشت سے باہر ہو تو بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس وقت معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، جماعت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، ذیلی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب آف کلکتہ (انڈیا) کی وفات۔ مرحوم کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 10جنوری 2014ء بمطابق 10 صلح 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔