عملی اصلاح کیلئے قوّتِ ارادی، صحیح اور پورا علم اور قوتِ عمل
خطبہ جمعہ 17؍ جنوری 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ عملی اصلاح کے لئے جو روکیں راہ میں حائل ہیں، جو اسباب ہمیں بار بار پیچھے کھینچتے ہیں اُن کو دُور کرنے کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے اور اس بارے میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اگر انسان میں قوّتِ ارادی، صحیح اور پورا علم اور قوتِ عمل پیدا ہو جائے تو پھر عملی اصلاح کی برائیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اعمال کی کمزوری ہوتی ہی اُس وقت ہے جب قوتِ ارادی نہ ہو، یا یہ علم نہ ہو کہ اچھے اعمال کیا ہیں اور برے اعمال کیا ہیں؟ اور اچھے اعمال کو حاصل کس طرح کرنا ہے، کس طرح بجا لانا ہے اور برے اعمال کو دور کرنے کی کس طرح کوشش کرنی ہے؟ اور پھر قوتِ عمل ہے جو اتنی کمزور ہو کہ برائی کا مقابلہ نہ کر سکے۔ پس قوتِ ارادی کو مضبوط کرنا، علمی کمزوری کو دور کرنا اور عملی طاقت پیدا کرنا، یہ بڑا ضروری ہے۔ عملی طاقت اپنی کوشش سے بھی پیدا ہوتی ہے اور اگر انسان بہت ہی کمزور ہو تو پھر بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہر حال ان باتوں کا گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے۔ اس بارے میں بعض مثالوں سے مزید تفصیل اس کی بیان کروں گا۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ اس بارے میں مزید وضاحت کرنی ہے اور اس کی ضرورت ہے۔
یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ عملی اصلاح میں جن تین باتوں کی ضرورت ہے اُن میں سب سے پہلی قوتِ ارادی ہے۔ یہ قوتِ ارادی کیا چیز ہے؟ ہم میں سے بعض کے نزدیک یہ عجیب بات ہو گی کہ قوتِ ارادی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اکثر یہ کہیں گے کہ قوّتِ ارادی کے جو اپنے الفاظ ہیں، اُن سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کسی کام کو کرنے کے مضبوط ارادے اور اُسے بجا لانے کی اور انجام دینے کی قوت ہے۔ یہاں یہ سوال اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ قوّتِ ارادی کیا چیز ہے؟ تو اس بارے میں واضح ہونا چاہئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے احسن رنگ میں اس کو بیان فرمایا ہے کہ قوتِ ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتا ہے۔ پس یہ بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے اور جب یہ بات اپنے سامنے رکھیں گے تو پھر ہی اس نہج پر سوچ سکتے ہیں کہ دین کے معاملے میں قوّتِ ارادی کیا چیز ہے؟
پس واضح ہو کہ دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے۔ اور جب ہم اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ عملی قوت ایمان کے بڑھنے سے بڑھتی ہے۔ اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان کے کام خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔ عملی مشکلات اس ایمان کی وجہ سے ہوا میں اُڑ جاتی ہیں اور آسانی سے انسان اُن پر قابو پا لیتا ہے۔ اور یہ صرف ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ عملاً اس کے نمونے ہم دیکھتے ہیں۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایمان سے پہلے کی عملی حالتوں اور ایمان کے بعد کی عملی حالتوں کے ایسے حیرت انگیز نمونے نظر آتے ہیں کہحیرت ہوتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ ایمان لائے وہ کون لوگ تھے؟ اُن کی عملی حالت کیا تھی؟ تاریخ ہمیں اس بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اُن ایمان لانے والوں میں چور بھی تھے۔ اُن میں ڈاکو بھی تھے۔ اُن میں فاسق و فاجر بھی تھے۔ اُن میں ایسے بھی تھے جو ماؤں سے نکاح بھی کر لیتے تھے، ماؤں کو ورثے میں بانٹنے والے بھی تھے۔ اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے والے بھی تھے۔ اُن میں جواری بھی تھے جو ہر وقت جؤا کھیلتے رہتے تھے۔ اُن میں شراب خور بھی تھے اور شراب کے ایسے رسیا کہ اس بارے میں اُن کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ شراب پینے کو ہی عزت سمجھتے تھے۔ ایک دوسرے پر شراب پینے پر فخر کرتے تھے کہ میں نے زیادہ پی ہے یا مَیں زیادہ پی سکتا ہوں۔ ایک شاعر اپنی بڑائی اور فخر اس بات پر ظاہر کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھی شراب پیتا ہوں۔ پانی کو تو ہاتھ ہی نہیں لگاتا۔ جواری اپنے جُوئے پر فخر کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ میں وہ ہوں جو اپنا تمام مال جُوئے میں لٹا دیتا ہوں اور پھر مال آتا ہے تو پھر اُسے جُوئے میں لٹا دیتا ہوں۔ شاید آج بڑے سے بڑا جواری بھی کھل کر یہ اعلان نہ کرتا ہو۔ بہر حال یہ حالت اُن کی اُس وقت تھی۔
پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اُن کی حالت کس طرح پلٹی، کیسا انقلاب اُن میں پیدا ہوا، کیسی قوتِ ارادی اس ایمان نے اُن میں پیدا کی؟ اس کے واقعات بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی جلدی اتنا عظیم انقلاب اُن میں پیدا ہو گیا؟ ایمان لاتے ہی اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب دین کی تعلیم پر عمل کے لئے ہم نے اپنے دل کو قوی اور مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کے خلاف اب ہم نے کوئی قدم نہیں اُٹھانا۔ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم ہمارے لئے حرفِ آخر ہے۔ اُن کا یہ فیصلہ اتنا مضبوط، اتنا پختہ اور اتنے زور کے ساتھ تھا کہ اُن کے اعمال کی کمزوریاں اُس فیصلے کے آگے ایک لمحے کے لئے بھی نہ ٹھہر سکیں۔ اُن کے حالات ایسے بدلے کہ وہ خطرناک سے خطرناک مصیبت اپنے پر وارد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور نہ صرف تیار ہوئے بلکہ اس قوتِ ارادی نے جو انہوں نے اپنے اندر پیدا کی، اُن کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دیا اور اُن سے دور کر دیا جس طرح ایک تیز سیلاب کا ریلا، تیز پانی کا ریلا جو ہے ایک تنکے کو بہا کر لے جاتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ443-444 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
ابھی شراب کی مثال دی گئی ہے کس طرح وہ شراب پیتے تھے اور کس قدر اُن کو اس بات پر فخر تھا۔ جب اس کا نشہ چڑھتا ہے تو کیا حالت انسان کی بنا دیتا ہے۔ ان ملکوں میں رہنے والے یہاں کے شرابیوں کے نمونے اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔ ہماری مسجد فضل کی سڑکوں پر بھی ایک شرابی پھرتا ہے اور اُس کے پاس سوائے شراب کے ٹِن کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ گندے کپڑے لیکن شراب خرید لیتا ہے۔ مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ وہ پڑھا لکھا بھی ہے اور شاید کسی زمانے میں انجینئر بھی تھا۔ بہرحال اب تو کچھ کام نہیں کرتا، ویسے بھی اُس کی عمر ایسی ہے۔ کونسل سے جو کچھ ملتا ہے اُس کو، حکومت سے شاید جو بھی خرچہ ملتا ہو، وہ سب شراب پر خرچ کر دیتا ہے۔ سڑکوں پر زندگی گزارتا ہے۔ نشے نے اُس کی دماغی حالت بھی خراب کر دی، بیچارہ بالکل مفلوج ہو گیا۔ نشے کی حالت میں جب وہ ہو تو اُسے دیکھ کے ڈر لگتاہے۔ کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ وہ عورتوں کو راہ چلتے روک لیتا ہے، باوجودیکہ وہ اس ماحول میں رہنے والی انگریز عورتیں ہیں لیکن اُن کے چہروں سے خوف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ تو بہر حال شراب کے نشے نے اُس کی یہ حالت بنائی ہے۔ ایسے شرابی بھی عام ملتے ہیں جو نشے میں اتنے غصیلے ہو جاتے ہیں کہ ماں باپ کو بھی گالیاں دیتے ہیں۔ عجیب عجیب حرکتیں اُن سے سرزد ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں گھانا میں تھا تو ٹمالے (Tamale) وہاں ایک شہر ہے۔ اُس زمانے میں وہاں جماعت کا زرعی پراجیکٹ تھا۔ تو جس گھر میں مَیں رہتا تھا اُس کی باہر کی طرف، نہ صرف باہر کی طرف بلکہ اندر کی طرف بھی چار دیواری نہیں تھی۔ تمام گھر جو تھے وہ بغیر چار دیواری کے ہی تھے۔ یہاں بھی عموماً ایسے بنے ہوتے ہیں۔ بعضوں نے اپنے اندر کے صحنوں میں چار دیواری بنائی ہوئی تھی جس طرح یہاں کے backyard ہوتے ہیں۔ بہرحال ہمارا گھر ایسا تھا کہ نہ اُس کے اندر صحن تھا نہ باہر، ہر طرف سے کھلا تھا۔ چھوٹی سی جگہ تھی جہاں گاڑی کھڑی کی جاتی تھی۔ کوئی دیوار اور گیٹ نہیں جیسا کہ میں نے بتایا۔ اُن دنوں میں وہاں کے معاشی حالات خراب تھے۔ اگر کوئی چیز باہر کھلے میں پڑی ہو تو چوریاں بھی ہوتی تھیں۔ اب تو یہاں بھی چوریاں شروع ہو گئی ہیں بلکہ یہاں تو دروازے توڑ کے چوریاں ہونے لگ گئی ہیں، ڈاکے پڑنے لگ گئے ہیں۔ بہرحال امن کی حالت اُس وقت خراب تھی اس وجہ سے کہ معاشی حالات خراب تھے۔ وہاں ہم نے ایک watch man رکھا ہوا تھا، اُس کو میں نے رکھا تو رات کے لئے آتا تھا اور اُس کو میں نے خاص طور پر کہا کہ ہماری گاڑی جو پِک اپ تھی باہر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کا ٹائر باہر ہی پڑا ہوتا ہے کیونکہ اس کی ایسی حالت تھی کہ اُس کے اندر تبدیلی کر دی گئی تھی جہاں ٹائر رکھنے کی جگہ ہوتی ہے وہ وہاں رکھا نہیں جا سکتا تھا۔ بہرحال اُس کو خاص طور پر میں نے یہ کہا کہ ٹائر بہت چوری ہوتے ہیں اس کا خیال رکھنا۔ تو اکثر یہی ہوتا تھا کہ وہ شراب کے نشے میں آتا تھا اور ٹائر کو باہر نکالتے وقت ٹائر سے پہلے خود زمین پر گرا ہوتا تھا۔ تو بہر حال ایک دن مَیں نے اُسے دیکھا کہ اوندھے منہ پڑا ہوا ہے۔ اُس دن توبہت ہی نشے میں تھا۔ اُس وقت چوکیدارا اُس نے کیا کرنا تھا۔ وہ اول فول بک رہا تھا۔ اُس وقت تو مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ کچھ نہ کہا جائے کیونکہ اُس نے پھر مجھے بھی برا بھلا کہنا شروع کر دینا تھا۔ اگلے دن جب اُس کا نشہ تھوڑا کم ہوا یا اترا تو میں نے اُسے کہا کہ تم جاؤاب، تمہیں نہیں رکھنا۔ بڑی منتیں سماجتیں کرنے لگا۔ خیر پینا تو بہر حال وہ نہیں چھوڑ سکتا تھا لیکن اُس نے یہ عقل مندی کی کہ یا تو وقت سے پہلے اتنا وقت دے دیتا تھا کہ جب یہاں ڈیوٹی پر آنا ہے تو نشہ کم ہو جائے یا پھر اُس وقت حساب سے پیتا ہو گا، نشہ زیادہ ظاہر نہ ہو۔ لیکن بہر حال نشئی جو ہیں وہ قابو تو رکھ نہیں سکتے۔ کچھ عرصے بعد پھر وہی حالت ہونی شروع ہو گئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نشے میں انسان کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا بول رہا ہے۔ اگلے دن جب اُسے پوچھو کہ تم یہ یہ کہتے رہے تو صاف انکاری ہوتا تھا کہ میں تو بڑے آرام سے رہا ہوں۔ مَیں نے تو ایسی بات ہی کوئی نہیں کی۔ تو ایسے اچھے بھلے انسان ہوتے ہیں کہ نشہ جب اترتا ہے تو مانتے بھی نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جس سے آپ کو ایک ٹرین کے سفر کے دوران واسطہ پڑا۔ وہ ایک معزز خاندان کا شخص تھا۔ شاید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانتا بھی تھا اور پونچھ کے کسی وزیر کا بیٹا بھی تھا۔ وہ ٹرین کے اس سفر میں نشے میں ایسی باتیں کہہ رہا تھا جو عقل و ہوش قائم ہونے کی صورت میں کبھی انسان کہہ نہیں سکتا۔ تو حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ یہ شراب کا جو نشہ ہے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور نشے میں اُسے بالکل پاگل بنا دیتا ہے۔
مگر دوسری طرف ہم قوتِ ارادی کا ایسا انقلاب دیکھتے ہیں کہ بعض غیر مسلم اس پر مشکل سے یقین کرتے ہیں۔ یہ قوتِ ارادی ایمان کی قوتِ ارادی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی۔ اس کا نظارہ ہمیں اس روایت سے ملتا ہے کہ چند صحابہ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دروازے بند تھے اور یہ سب شراب پی رہے تھے اور اُس وقت ابھی شراب نہ پینے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور شراب پینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں تھی۔ جس کا جتنا دل چاہے، پیتا تھا، نشے میں بھی آ جاتے تھے۔ شراب کا ایک مٹکا اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے خالی کر دیا اور جو مٹکا ہے وہ بھی کئی گیلن کا ہوتا ہے۔ اور دوسرا شروع کرنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی سے آواز آئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ آج سے مسلمانوں پر شراب حرام کی جاتی ہے۔ اس آواز کا ان لوگوں تک پہنچنا تھا کہ اُن میں سے ایک جو شراب کے نشے میں مزا لے رہا تھا، اُس میں مدہوش تھا، دوسرے کو کہنے لگا کہ اُٹھو اور دروازہ کھول کر اس اعلان کی حقیقت معلوم کرو۔ ان شراب پینے والوں میں سے ایک شخص اُٹھ کر اعلان کی حقیقت معلوم کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک دوسرا شخص جو شراب کے نشے میں مخمور تھا اُس نے سوٹا پکڑا اور شراب کے مٹکے پر مار کر اُسے توڑ دیا۔ دوسروں نے جب اُسے یہ کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ پہلے پوچھ تو لینے دیتے کہ حکم کا کیا مفہوم ہے اور کن لوگوں کے لئے ہے؟ تو اُس نے کہا پہلے مٹکے توڑو، پھر پوچھو کہ اس حکم کی کیا حقیقت ہے؟ کہنے لگا کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی آواز سن لی تو پہلے تو حکم کی تعمیل ہو گی۔ پھر میں دیکھوں گاکہ اس حکم کی قیود کیا ہیں؟ اُس کی limitations کیا ہیں؟ اور کن حالات میں منع ہے۔ پس یہ وہ عظیم الشان فرق ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور دوسروں میں نظر آتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد17صفحہ 445-446 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ شرابیوں کی کیا حالت ہوتی ہے؟ کسی شرابی سے شراب پیتے ہوئے گلاس بھی لے لیں یا اُس کے سامنے سے اُٹھا لیں تو مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ کلبوں اور بَاروں (Bars) میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ چند دن ہوئے یہاں پر بھی ایک خبر تھی کہ ایک کلب میں یا بار (Bar) میں ایک نشئی شخص نے دوسرے کو مار دیا۔ بلکہ یہ نشئی لوگ خلافِ مرضی باتیں سن کر ہی قتل و غارت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ پس ان شرابیوں کی جو نشے میں دھت ہوتے ہیں، نہ عقلیں سلامت ہوتی ہیں، نہ سمجھ سلامت ہوتی ہے، نہ زبان پر قابو رہتا ہے اور نہ ماں باپ کی پرواہ ہوتی ہے۔ اُن کے ہاتھ پاؤں بھی غیر ارادی طور پر حرکت کرتے ہیں۔ نشے میں نہ اُنہیں قانون کی پرواہ ہوتی ہے، نہ سزا کا ڈر ہوتا ہے۔ لیکن صحابہ کی قوتِ ارادی نشے پر غالب آ گئی۔ باوجود اس کے کہ وہ نشے میں مخمور تھے۔ ایک مٹکا اُس وقت پی بھی چکے تھے۔ دوسرا مٹکا وہ پینے والے تھے۔ ایسے وقت میں اُن کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ شراب مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ہے تو اُن کا نشہ فوراً ختم ہو جاتا ہے۔ وہ پہلے شراب کا مٹکا توڑتے ہیں اور پھر اعلان کرنے والے سے وضاحت پوچھتے ہیں کہ اس اعلان کا کیا مطلب ہے؟ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ 446-447 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
اور یہ ایک گھر کا معاملہ نہیں ہے، چند لوگوں کا معاملہ نہیں۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں روایت میں آتا ہے کہ ایسے کئی گھر مدینے میں تھے جن میں شراب کی محفلیں جمی ہوئی تھیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس تیزی سے شراب کے مٹکے ٹوٹے کہ مدینے کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ 448 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
کیسی حیران کُن قوتِ ارادی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ قوتِ ارادی ایسی ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد کوئی روک درمیان میں حائل نہیں رہ سکتی بلکہ ہر چیز پر قوتِ ارادی قبضہ کرتی چلی جاتی ہے۔ گویا قوتِ ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں، اس کے پہلوان ہوتے ہیں۔ جس طرف اُٹھتے ہیں اور جدھر جاتے ہیں اور جدھر جانے کا قصد کرتے ہیں، شیطان اُن کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا جاتا ہے اور مشکلات کے پہاڑ بھی اگر اُن کے سامنے آئیں تو وہ اُسی طرح کٹ جاتے ہیں جس طرح پنیر کی ٹکیہ کٹ جاتی ہے۔
پس اگر اس قسم کی قوتِ ارادی پیدا ہو جائے اور اس حد تک ایمان پیدا ہو جائے تو پھر لوگوں کے اصلاحِ اعمال کے لئے اور طریق اختیار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ 447 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
چودہ سو سال پہلے اصلاح کا جو عمل قوتِ ایمان کی وجہ سے انقلاب لایا، اُس کی مثال اس وسیع پیمانے پر دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ کس طرح حیرت انگیز طور پر دنیا میں یہ انقلاب برپا ہوا۔
لیکن اس سے ملتی جلتی کئی مثالیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ماننے والوں میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ تمباکو نوشی گو حرام تو نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہرحال اس کو برا فرمایا بلکہ ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ شاید یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو منع فرما دیتے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ175-176مطبوعہ ربوہ) لیکن ایک برائی بہرحال ہے اور اس میں نشہ بھی ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک سفر کے دوران جب حقے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آپ کے صحابہ نے جو حقہ پینے کے عادی تھے، اپنے حقے کو توڑ دیا اور پھر تمباکو نوشی کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ کہتے کہ اس طرف تو کبھی ہماری توجہ ہی نہیں گئی۔ (ماخوذ از سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جلد 1 حصہ سوم صفحہ 666 روایت نمبر 726 مطبوعہ ربوہ)
اسی طرح ایسے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثالیں بھی ملتی ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد تمام برائیوں کو چھوڑا۔ حتی کہ ایسی مثال بھی ہے جو شراب جیسی برائی میں گرفتار تھے لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ چھوڑ دی۔
پس یہ نمونے ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی قانون سے ڈر کر یا اپنے معاشرے سے ڈر کر ہی برائیاں نہیں چھوڑنی۔ یا اُن سے اس لئے نہیں بچنا کہ اُن میں ماں باپ کا خوف ہے یا معاشرے کا خوف ہے۔ یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے بلکہ سوچ یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے برائی اس لئے چھوڑنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا۔ یا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے تو ہم نے اس سے رکنا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اگر شراب کھلے عام نہیں ملتی، پاکستان وغیرہ میں تو مجھے پتا ہے کہ قانون اب اس کی اجازت نہیں دیتا تو چھپ کر ایسی قسم کی شراب بنائی جاتی ہے جو دیسی قسم کی شراب ہے اور پھر پیتے بھی ہیں اور اس کا نشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ امیر طبقہ اور اور بہانوں سے اعلیٰ قسم کی شراب کا بھی انتظام کر لیتا ہے۔ پھر یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کو مَیں نے دیکھا ہے کہ ایسے سیرپ یا دوائیاں، خاص طور پر کھانسی کے سیرپ جن میں الکوحل ملی ہوتی ہے، اُس کو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں دوسری دوائیاں بھی ملی ہوتی ہیں۔ پس ایسے معاشرے میں بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اپنی قوتِ ارادی سے ان برائیوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔
آجکل یہاں یورپین ملکوں میں بھی علاوہ ایسے نشوں کے جو زیادہ خطر ناک ہیں، شیشے کے نام سے بھی ریسٹورانوں میں، خاص طور پر مسلمان ریسٹورانوں میں نشہ ملتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں حقّے کے نام سے نشہ کیا جاتاہے۔ وہ خاص قسم کا حقّہ ہے۔ اور مجھے پتا لگا ہے کہ یہاں ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ شیشہ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں نشہ نہیں ہے یا کبھی کبھی استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی حرج نہیں ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ کبھی کبھی کا جو استعمال ہے ایک وقت آئے گا جب آپ بڑے نشوں میں ملوث ہو جائیں گے اور پھر اس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
پس ابھی سے اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا ہو گا اور اس برائی سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ اور اس کے لئے اپنے ایمان کو دیکھیں۔ ایمان کی گرمی ہی قوتِ ارادی پیدا کر سکتی ہے جو فوری طور پر بڑے فیصلے کرواتی ہے جیسا کہ صحابہ کے نمونے میں ہم نے دیکھا، ورنہ قانون تو ان میں روکیں نہیں ڈال سکتے۔ جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں قانون بھی ہے، ملتی بھی نہیں لیکن پھر بھی لوگ پیتے ہیں اور انتظام بھی کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کئی طرح کے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ایک زمانے میں کھلے عام شراب کی ممانعت کی کوشش ہوئی تو اس کے لئے لوگوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور سپرٹ (spirit) پینا شروع کر دیا۔ اور سپرٹ (spririt) پینے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں تو اس کی وجہ سے لوگ مرنے بھی لگے۔ حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے کیونکہ ایمان نہیں تھا اس لئے دنیاوی قانون کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ نشے کے ہاتھوں ایسے مجبور ہوئے کہ سپرٹ پی کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے تھے۔ حکومت نے پھر قانون بنایا کہ اگر ڈاکٹر اجازت دیں، بعض اسباب ایسے ہوں جو اس کو (justify) کرتے ہوں تو پھر شراب ملے گی اور ڈاکٹروں کا اجازت نامہ بھی بعض وجوہات کی وجہ سے تھا۔ تو اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ہزاروں ڈاکٹروں نے اپنی آمدنیاں بڑھانے کے لئے غلط سرٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کر دئیے۔ تو ایسے ڈاکٹر جن کی پریکٹس نہیں چلتی تھی اُن کی اس طرح آمدنی شروع ہو گئی کہ شراب پینے کے سرٹیفکیٹ دے دئیے۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ قانون کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور آہستہ آہستہ اب ہر جگہ عمر کی پابندی کے ساتھ شراب ملتی ہے۔ کہیں یہ عمر اکیس سال ہے، کہیں اٹھارہ سال ہے اور کہیں کہتے ہیں کہ اگر بڑا ساتھ ہو تو پندرہ سولہ سال، سترہ سال کے بچے بھی بعض خاص قسم کی شرابیں پی سکتے ہیں۔ پس اپنے قانون کی بے بسی پر پردہ ڈالنے کے یہ بہانے ہیں۔ جوں جوں ترقی یافتہ ہو رہے ہیں برائیوں کی اجازت کے قانون پاس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ برائیوں کو روک نہیں سکتے تو قانون میں نرمی کر دیتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے احکامات میں جو برائی ہے وہ ہمیشہ کے لئے برائی ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری مرضی کا پابندنہیں بلکہ ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہونا ہو گا اور یہ پابندی اُس وقت پیدا ہو گی جب ہماری ایمانی حالت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو گی۔ آجکل کی جو ترقی یافتہ دنیا ہے وہ جس قوم کو اجڈ اور جاہل کہتی ہے، جسے اَن پڑھ سمجھتی ہے وہ لوگ جو تھے انہوں نے اپنے ایمان کی حرارت کو اپنے نشے پر غالب کر لیا۔ اپنے اعمال کی اصلاح کی اور پھر ایک دنیا میں اپنے اعمال کی برتری کا جھنڈا گاڑ کر دنیا کو اپنے پیچھے چلایا۔ پس یہ واضح ہونا چاہئے کہ دین کے معاملے میں قوتِ ارادی اپنے ایمان کی مضبوطی ہے جو نیک اعمال بجا لانے پر قائم رہ سکتی ہے اور برائیوں سے چھڑواتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ قوتِ علمی ہے، اگر قوتِ علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ دور ہو جاتی ہے۔ جس کے لئے عام دنیاوی مثال یہ ہے کہ بچپن کی بعض عادتیں بچوں میں ہوتی ہیں۔ کسی کو مٹی کھانے کی عادت ہے تو جب اس کے نقصان کا علم ہوتا ہے تو پھر وہ کوشش کر کے اس سے اپنے آپ کو روکتا ہے۔ اَور بہت سی عادتیں ہیں۔ مثلاً ایک بچی کا مجھے پتا ہے کہ اُسے یہ عادت تھی کہ رات کو سوتے ہوئے اپنے بال نوچتی تھی اور زخمی کر لیتی تھی۔ لیکن اب بڑی ہو رہی ہے تو آہستہ آہستہ اُس کو احساس بھی ہو رہا ہے اور کوشش کر کے اس عادت سے چھٹکارا پا رہی ہے۔ تو یہ عادت بہر حال علم ہونے سے ختم ہو جاتی ہے۔
پس اسی طرح جس کو کچھ خدا کا خوف ہے، اگر اُسے عمل کے گناہ کا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا صحیح احساس دلا دیا جائے اور اسے اس بات پر مضبوط کر دیا جائے کہ گناہ سے اللہ تعالیٰ کس طرح ناراض ہو تا ہے تو پھر وہ گناہ سے بچ جاتا ہے۔
پھر تیسری چیز جس سے عملی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ عملی قوت کا فقدان ہے۔ بعض لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ باتیں دوہرائی جا رہی ہیں۔ بیشک بعض باتیں ایک لحاظ سے دوہرائی جا رہی ہیں لیکن مختلف زاویوں سے اس کا ذکر ہو رہا ہے تا کہ سمجھ آ سکے۔
بہر حال واضح ہو کہ قوتِ عملیہ کی کمی یا قوتِ عملیہ نہ ہونے کے بھی بعض اسباب ہیں۔ مثلاً ایک سبب عادت ہے۔ ایک شخص میں قوتِ ارادی بھی ہوتی ہے، علم بھی ہوتا ہے لیکن عادت کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ عمل میں کمزوری دکھا رہا ہوتا ہے۔ یا ایک شخص جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے لیکن مادّی اشیاء کے لئے جذباتِ محبت یا مادی نقصان کے خوف سے جذباتِ خوف غالب آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے اندرونی کے بجائے بیرونی علاج کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو بیرونی علاج کیا جائے اسی سے قوتِ عمل میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے صحیح سہارے کی ضرورت ہے۔ اگر صحیح سہارا مل جائے تو بہتری آ سکتی ہے۔ پس اصلاح کے لئے اس صحیح سہارے کی تلاش کی ضرورت ہے۔ ایک شخص کو اگر پہلے سے کسی بات کا علم ہو تو یہ اصلاح کے لئے تو نہیں ہو سکتا۔ اس کو یہ علم ہے کہ انسان جب گناہ جب کرے تو خدا تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کے غضب سے خوف دلانا یا خدا تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کی اُسے تلقین کی جائے جبکہ اُسے پہلے ہی اس کا علم ہے تو یہ اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ان باتوں کا تو اُسے علم ہے۔ قوتِ ارادی بھی اُس میں ہے لیکن کامل نہیں۔ علم جیسا کہ ذکر ہوا اُسے ہم نے بھی دیا اور اُسے پہلے بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے غضب کا خوف دل کے زنگ کی وجہ سے دل پر اثر نہیں کر سکتے۔ اب اُس کے لئے کسی اَور چیز کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ اُس کی نظروں سے اوجھل ہے۔ وہ یہی کہتا ہے ناں کہ خدا تعالیٰ تو مجھے نظر نہیں آ رہا۔ سامنے کی چیزیں تو نظر آ رہی ہیں۔ جس کا ایمان اتنا کامل نہیں تو خدا تعالیٰ بھی اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ ایسے لوگوں کے لئے بعض دوسرے بندے ہوتے ہیں جن سے وہ ڈر جاتا ہے۔ پس ایسے شخص کے دل میں اگر بندے کا رعب ڈال دیں یا مادی طاقت سے کام لے کر اُس کی اصلاح کریں تو اس کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ طاقت دنیاوی قانون کی طرح سیاسی مصلحت کی وجہ سے ڈر کر اصلاح سے پیچھے ہٹنے والی نہ ہو۔ جیسے آجکل کے دنیاوی قانون ہیں۔ بہر حال یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ بیماریاں بھی موجود ہیں۔ بعض ایسے لوگ ہیں جن کے عمل کی کمزوری کی وجہ ایمان میں کامل نہ ہونا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہے کہ اُن کا علم کامل نہیں ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے اُن پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ دونوں علاج اُن کے لئے کافی نہیں ہوتے اور بیرونی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کسی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو بعض دفعہ ہڈی جوڑنے کے لئے پلستر لگا کر باہر سہارا دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ آپریشن کر کے پلیٹیں ڈالی جاتی ہیں تا کہ ہڈی مضبوط ہو جائے اور پھر آہستہ آہستہ ہڈی جڑ جاتی ہے اور وہ سہارے دُور کر دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض انسانوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ سہارا اُس میں اتنی طاقت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود فعال ہو جاتا ہے اور عملی کمزوریاں دُور ہو جاتی ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 447 تا 450 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
پس جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ہمارا نظامِ جماعت، ہمارے عہدیدار، ہماری ذیلی تنظیمیں ان عملی کمزوریوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بنیں۔ لیکن اگر خود ہی یہ لوگ جن کی قوتِ ارادی میں کمی ہے، ان عہدیداروں کے بھی اور باقی لوگوں کے بھی علم میں کمی ہے، عملی کمزوری ہے تو وہ کسی کا سہارا کس طرح بن سکیں گے۔ پس جماعتی ترقی کے لئے نظام کے ہر حصے کو، بلکہ ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوستوں اور قریبیوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے جو کمزوریوں میں مبتلا ہیں تا کہ جماعت کا ہر فرد عملی اصلاح کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے والا بن جائے اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک افسوسناک خبر ہے کہ عزیزم ارسلان سرور ابن مکرم محمد سرور صاحب راولپنڈی کی 14؍جنوری کو شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
پہلے ان کے خاندان کا تھوڑا سا تعارف کرا دوں۔ ارسلان سرور صاحب کے دادا محمد یوسف صاحب کا تعلق چک نمبر 55 گب تحصیل جڑانوالہ، فیصل آباد سے تھا۔ شہید مرحوم کے والد اور دادا نے خلافت ثالثہ میں 1973ء میں بیعت کی تھی جبکہ والدہ پیدائشی احمدی تھیں۔ 1984ء میں یہ فیملی راولپنڈی شفٹ ہو گئی۔ مرحوم کے والد وہاں فلور مل میں سپروائزر تھے۔ ارسلان شہید کی پیدائش پنڈی کی ہے۔ اسلام آباد میں ایف ایس سی پری انجینئرنگ کے طالب علم تھے۔ وفات کے وقت ان کی عمر سترہ سال کی تھی۔ عزیزم ارسلان کا شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ 13، 14 جنوری کی درمیانی شب، رات ایک بجے اپنے محلے کے غیر احمدی دوستوں کے ہمراہ گلی میں 12؍ ربیع الاول کے حوالے سے لائٹنگ اور دیگر تیاریاں وغیرہ کر رہے تھے کہ ایک گاڑی گلی کے آخر پر آ کے رُکی اور اُس کے کچھ دیر بعد ایک موٹر سائیکل سواربھی قریب آ کے رُکا۔ ان کے کھڑے ہونے سے قبل ان میں سے دو افراد قریب واقع گندگی کے ڈھیر سے ایک سفید رنگ کے شاپر میں کچھ لے کر بھی آئے جو کہ پہلے ہی وہاں پر رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران گلی میں موجود دو غیر احمدی لڑکوں اور ارسلان سرور صاحب نے ان کو دیکھا اور مشکوک خیال کیا اور آپس میں مشورہ کیا کہ بڑوں کو بھی جگاتے ہیں جس کی وجہ سے ارسلان سرور نے شور مچایا جس پر گاڑی میں سے ایک آدمی نکلا اور اُس نے پہلے دو تین ہوائی فائر کئے جس پر لڑکے شور مچاتے ہوئے گلی کی دوسری طرف بھاگے جس پر وہ شخص پیچھے آیا اور ان پر تین چار فائر کئے۔ ارسلان سرور بھاگتے ہوئے دونوں لڑکوں کے درمیان میں تھا۔ گلی میں موجود فائرنگ کے نشانات سے پتا چلتا ہے کہ دونوں غیر احمدی لڑکوں پر بھی فائرنگ ہوئی ہے جو دائیں اور بائیں تھے۔ جبکہ ارسلان سرور نے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑکر دیکھا تو عین اُسی وقت اس کے سر پر گولی لگی جس کی وجہ سے وہ وہیں گر گیا اور دونوں لڑکے بھی گلی میں موجود گاڑیوں کے پیچھے لیٹ گئے۔ حملہ آور کچھ دیر تک آگے آئے پھر واپس مڑ گئے اور بھاگ گئے۔ عزیزم کو ہسپتال لے جایا گیا۔ ’’ہولی فیملی‘‘ ہسپتال وہاں قریب ہی ہے۔ ڈاکٹروں نے کوشش تو کی لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ بچنا مشکل ہے کیونکہ دماغ میں گولی لگی ہے۔ خون وغیرہ بھی دیا گیا۔ تقریباً تین گھنٹے کے بعد عزیزم کی شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کافی ہر دلعزیز تھا۔ وہاں کے غیر از جماعت بھی تعزیت کے لئے ان کے گھر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھا اور چودہ سال کی عمر میں وصیت کی تھی۔ خدام الاحمدیہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں سائق کے طور پر کام کر رہا تھا۔ پہلے بھی اطفال الاحمدیہ میں خدمات بجا لاتا رہا۔ اس کے بھائی بھی مختلف جماعتی خدمات پر مامور ہیں۔ قائد صاحب ضلع راولپنڈی کہتے ہیں کہ ارسلان سرور مرحوم اور اُن کے تمام بھائی خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رُکن ہیں اور وہ حفاظتی ڈیوٹیاں اور دیگر تنظیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں۔ مربی صاحب راولپنڈی نے بتایا کہ اکثر ان کے دفتر میں آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شہید مرحوم کا معمول تھا۔ نمازوں میں باقاعدہ تھا اور نمازوں میں سوز و گداز تھا۔ جمعہ باقاعدگی سے ایوانِ توحید میں پڑھتے تھے۔ اگرچہ پولیس کا پہرہ بھی ہوتا تھا، بعض پابندیاں بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندوں میں بڑے باقاعدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے پسماندگان جو ہیں ان کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
مرحوم کے پسماندگان میں والد مکرم محمد سرور صاحب سیکرٹری دعوتِ الی اللہ حلقہ، والدہ عشرت پروین صاحبہ اور اس کے علاوہ تین بھائی یاسر احمد (یہ جرمنی میں ہیں)، ناصر احمد (امریکہ میں ہیں) اور محمد احمد راولپنڈی میں ہیں سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر عطا فرمائے۔
اگر انسان میں قوّتِ ارادی، صحیح اور پورا علم اور قوتِ عمل پیدا ہو جائے تو پھر عملی اصلاح کی برائیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے۔ عملی قوت ایمان کے بڑھنے سے بڑھتی ہے۔ اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان کے کام خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے۔
صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کی قوت ارادی یعنی پختہ ایمان کے نتیجہ میں اصلاح اعمال کی درخشندہ مثالوں کا تذکرہ۔
بعض ایسے لوگ ہیں جن کے عمل کی کمزوری کی وجہ ایمان میں کامل نہ ہونا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہے کہ اُن کا علم کامل نہیں ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے اُن پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ دونوں علاج اُن کے لئے کافی نہیں ہوتے اور بیرونی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
جماعتی ترقی کے لئے نظام کے ہر حصے کو، بلکہ ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوستوں اور قریبیوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے جو کمزوریوں میں مبتلا ہیں تا کہ جماعت کا ہر فرد عملی اصلاح کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے والا بن جائے اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو۔
عزیزم ارسلان سرور ابن مکرم محمد سرور صاحب آف راولپنڈی کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 17جنوری 2014ء بمطابق 17صلح 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔