اصلاحِ عمل کی اجتماعی کوشش

خطبہ جمعہ 24؍ جنوری 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج بھی گزشتہ خطبہ کا مضمون ہی جاری رہے گا۔ پہلے جو باتیں ہوئیں اُن کی مزید وضاحت یا اُن کے بہترین نتائج کے حصول کے لئے کوشش کے مزید راستے کیا ہیں، طریق کیا ہیں، جن سے ہم جماعت کے ایک بڑے حصہ میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں آج کچھ بیان ہو گا۔

گزشتہ دو خطبات میں اس بات کا تفصیل سے ذکر ہوا اور یہ ذکر ہونے کی وجہ سے ہم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ عملی اصلاح کے لئے تین باتیں انسان میں پیدا ہوجائیں تو عملی اصلاح جلد اور بہتر طور پر ہو سکتی ہے۔ یعنی قوتِ ارادی کا پیدا ہونا جو دین کے حوالے سے اگر دیکھی جائے تو ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ہے۔ دوسرے علمی کمی کو دور کرنا۔ اور تیسرے قوتِ عملی کی کمزوری کو دور کرنا۔ جیسا کہ میں نے کہا آج میں بعض اَورپہلو بیان کروں گاجن کو حضرت مصلح موعودنے تفصیل سے بیان کیا ہے، اس میں سے کچھ کچھ پوائنٹ مَیں لیتا ہوں۔ لیکن اس بارے میں آج جو باتیں ہوں گی اس کے لئے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مربیان، ہمارے علماء اور ہمارے وہ عہدیداران اور امراء جن کو نصائح کا موقع ملتا ہے یا جن کے فرائض میں یہ داخل ہے اور ان عہدیداروں میں ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی شامل ہیں، خاص طور پر ان باتوں کو سامنے رکھیں تا کہ جماعت کے افراد کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کر سکیں۔ اس بارے میں بہت سی باتیں مَیں جماعت کے سامنے وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہتا ہوں اور ایم ٹی اے کی نعمت کی وجہ سے جماعت کے افراد جہاں کہیں بھی ہیں اگر وہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہیں تو میری باتیں سن لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن پر اثر بھی ہوتا ہے یا کم از کم اچھی تعداد میں لوگوں پر اثر ہوتا ہے۔ لیکن مربیان، امراء اور عہدیداران کا کام ہے کہ اپنے پروگرام اس نہج سے رکھیں کہ یہ پیغام اور اس بنا پر بنائے ہوئے پروگرام بار بار جماعت کے سامنے آئیں تا کہ ہر احمدی کے ذہن میں اُس کا دائرہ عمل اچھی طرح واضح اور راسخ ہو جائے۔ پس یہ بہت اہم چیز ہے جسے اُن سب کو جن کے سپرد ذمہ داریاں ہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

اصلاح کے ذرائع کا جو سب سے پہلا حصہ ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے وہ قوتِ ارادی کی مضبوطی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں ایمان ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے انبیاء دنیا میں آتے ہیں اور وہ انبیاء تازہ اور زندہ معجزات دکھاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات کا اتنا وافر حصہ ہے کہ اتنا سامان کیا، اس سامان کے قریب قریب بھی کسی اور کے پاس موجودنہیں۔ اور اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جس کے پاس خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام، اُس کے زندہ معجزات اور اُس کی ہستی کا مشاہدہ کرانے والے نشانات موجود ہوں، جو انسانی قلوب کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرتے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے لبریز کر دیتے ہیں۔ لیکن باوجود اس ایمان کے اور باوجود ان تازہ اور زندہ معجزات کے پھر کیوں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزوری ہے؟

اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خیال کا یہ اظہار فرمایا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ سلسلہ کے علماء، مربیان اور واعظین نے اس کو پھیلانے کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی یہ بات جس طرح آج سے پچہتّر، چھہتر سال پہلے صحیح تھی، آج بھی صحیح ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جوں جوں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے دُور جا رہے ہیں، ہمیں اس طرف مکمل planning کر کے توجہ کی ضرورت ہے۔ پس آپ کا یہ فرمانا آج بھی قابلِ توجہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وفاتِ مسیح پر جس شدّ و مد سے تقریریں کرتے ہیں یا معترضین کے اعتراضات پر حوالوں کے حوالے نکال کر اُن کے یعنی اُن معترضین کے بزرگوں کے جواقوال ہیں، معترضین کے سامنے ہم پیش کرتے ہیں اور اُن کا منہ بند کر دیتے ہیں۔ اتنی کوشش جماعت کے افراد کے سامنے جماعت کی صحیح تعلیم پیش کرنے کی نہیں ہوئی یا کم از کم علماء کی طرف سے نہیں ہوتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو وفاتِ مسیح کے دلائل جانتے ہوں یا مولوی کے اعتراضات کے منہ توڑ جواب دے سکتے ہوں۔ یہاں بھی آپ دیکھیں کہ بعض چینلز پر یا انٹرنیٹ پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیں اُن کے جواب اور بعض دفعہ بڑے عمدہ اور احسن رنگ میں جواب ایک عام احمدی بھی دے دیتا ہے۔ مجھے بھی بعض لوگ ٹی وی کے حوالے سے اپنی گفتگو کے بارے میں رپورٹ بھجواتے ہیں اور اپنے جوابات بھی لکھتے ہیں اور اُن کے جواب بھی اکثر اچھے اور علمی ہوتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے تو ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جنہیں یہ علم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں پیش کیا؟ آپ نے معرفت اور محبتِ الٰہی کے حصول کے کیا طریق بتائے؟ اُس کا قرب حاصل کرنے کی آپ نے کن الفاظ میں تاکید کی؟ خدا تعالیٰ کے تازہ کلام اور اُس کے معجزات و نشانات آپ پر کس شان سے ظاہر ہوئے؟ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ 450-451 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)

اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک شخص وفاتِ مسیح کا تو قائل ہوتا ہے، اُس کی دلیل بھی جانتا ہے۔ ماں باپ کی وراثت میں اُسے احمدیت بھی مل گئی ہے لیکن ان باتوں کا علم ہونے کے باوجود، کہ یہ سب کچھ جانتا ہے، دوسری طرف ان باتوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ایمانی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے جو ابھی میں نے کیں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت یاخدا تعالیٰ کے تازہ کلام کے معجزات و نشانات یا قرب حاصل کرنے کے طریق، اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ ایمان بھی ڈانوا ڈول ہونے لگتا ہے اور عملی کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پس بیشک وفاتِ مسیح کے مسئلے میں تو ایک شخص بڑا پکا ہوتا ہے لیکن اس مسئلے کے جاننے سے اُس کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اس پہلو سے جماعت میں بعض جگہ کمزوری نظر آتی ہے۔ پس جب تک ہماری جماعت کے علماء، مربیان اور وہ تمام امراء اور عہدیداران جن کے ذمہ جماعت کے سامنے اپنے نمونے پیش کرنے اور اصلاح کے کام بھی ہیں، اس بات کی طرف ویسی توجہ نہیں کرتے جیسی کرنی چاہئے اور جماعت کے ہر فرد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو کوشش کرنے کا حق ہے، اُس وقت تک جماعت کا وہ طبقہ جو قوتِ ارادی کی کمزوری کی وجہ سے عملی اصلاح نہیں کر سکتا، جماعت میں کثرت سے موجود رہے گا۔

ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ رمضان میں ایک مہینہ نہیں یا ایک مرتبہ اعتکاف بیٹھ کر پھر سارا سال یا کئی سال اس کا اظہار کر کے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اس شوق اور لگن کو اپنے اوپر لاگو کر کے، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو، ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کے قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔

پس اسلام کے احیائے نو کایہی تو وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا کرنے کے لئے آئے تھے۔ اگر واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام ہر ایک کو معلوم ہو اور آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی ہر ایک میں تڑپ ہو، اگر ہمیں پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر کتنے عظیم نشانات دکھائے اور آپ کے ماننے والوں میں سے بھی بے شمار کو نشانات سے نوازا تو ہم میں سے ہر ایک اُس مقام کے حصول کی خواہش کرتا اور اس کے لئے کوشش کرتا جہاں اُس سے بھی براہِ راست یہ نشان ظاہر ہوتے اور اُسے نظر آتے۔ قوتِ ایمان میں وہ جِلاء پیدا ہوجاتی جس کے ذریعہ سے پھر ایسی قوتِ ارادی پیدا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ایک خاص جوش پیدا کر دیتی ہے۔

پس اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات جن کا اظہار اللہ تعالیٰ آج تک فرماتا چلا آ رہا ہے ہمارے دلوں میں ایک جَوت جگانے والا ہونا چاہئے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے آپ علیہ السلام اور اپنے اور آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے طفیل آپ کے ہر اُسوہ کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس مقام پر پہنچ جائیں جہاں اللہ تعالیٰ ہم سے ایک خاص پیار کا سلوک کر رہا ہو۔

ہم دنیاوی چیزوں میں تو دوسروں کی نقل کرتے ہیں۔ کسی کی اچھی چیز دیکھ کر اُس کو حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے کئی طریقے بھی استعمال کرتے ہیں، اور اس معاملے میں ہر ایک اپنی سوچ اور اپنی پہنچ کے مطابق عمل کرنے کی یا نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی کسی کا مثلاً اچھا، خوبصورت جوڑا ہی پہنا ہوا دیکھ لے، سوٹ پہنا ہوا دیکھ لے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس کو بھی مل جائے اور اُس کے پاس بھی ایسا ہی ہو۔ کوئی کوئی اَور چیز دیکھتا ہے تو اُس کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اب تو ٹی وی نے دنیا کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ متوسط طبقہ تو الگ رہا، غریب افراد بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ میرے پاس زندگی کی فلاں سہولت بھی موجود ہونی چاہئے اور فلاں سہولت بھی موجود ہونی چاہئے۔ ٹی وی بھی ہو میرے پاس اور فریج بھی ہو میرے پاس کیونکہ فلاں کے پاس بھی ہے۔ وہ بھی تو میرے جیسا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر فلاں کو یا زید کو یہ چیزیں اُس کے کسی عزیز نے تحفۃً لے کر دی ہیں تو مجھے اس بات پر لالچ نہیں کرنا چاہئے۔ فوراً یہ خیال ہوتا ہے کہ زید کے پاس یہ چیز ہے تو میرے پاس بھی ہو اور پھر قرض کی کوشش ہوجاتی ہے۔ یا بعض لوگوں کو اس کام کے لئے بعض جگہوں پرامداد کی درخواست دینے کی بھی عادت ہو گئی ہے۔ بیشک جماعت کا فرض ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ضرورتمند کی ضرورت پوری کرے لیکن درخواست دینے والوں کو، خاص طور پر پاکستان، ہندوستان یا بعض اور غریب ممالک بھی ہیں، اُن کو جائز ضرورت کے لئے درخواست دینی چاہئے اور اپنی عزتِ نفس کا بھی بھرم رکھنا چاہئے۔ اسی طرح ذرا بہتر معاشی حالت کے لوگ ہیں تو دیکھا دیکھی وہ بھی بعض چیزوں کی خواہش کرتے ہیں، نقل کرتے ہیں۔ کسی نئے قسم کا صوفہ دیکھا تو اُس کو لینے کی خواہش ہوئی۔ نئے ماڈل کے ٹی وی دیکھے تو اُس کو لینے کی خواہش ہوئی یا اسی طرح بجلی کی دوسری چیزیں یااور gadget جو ہیں وہ دیکھے تو اُن کو لینے کی خواہش ہوئی۔ یا کاریں قرض لے کر بھی لے لیتے ہیں۔ ضمناً یہ بھی یہاں بتا دوں کہ آجکل دنیا کے جو معاشی بدحالی کے حالات ہیں اُن کی ایک بڑی وجہ بنکوں کے ذریعہ سے ان سہولتوں کے لئے سُود پر لئے ہو ئے قرض بھی ہیں۔ سُود ایک بڑی لعنت ہے۔ جب چیزیں لینی ہوں تو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ اُن کو کہاں لے جائے گا۔ بہر حال یہ چیزیں خریدنا یا سود پر قرض دینا ہی ہے جس نے آخر کار بہتوں کو دیوالیہ کر دیا۔

بہر حال نقل کی یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگ دنیاوی باتوں میں نقل کرتے ہیں اور اُس کے حصول کے لئے یا تو عزتِ نفس کو داؤ پر لگا دیتے ہیں یا دیوالیہ ہو کر اپنی جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یعنی دنیاوی باتوں کی نقل میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں۔ لیکن دین کے معاملے میں نقل اور ویسا بننے کی کوشش کرنا جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس زمانے میں ہمارے سامنے نمونہ پیش فرمایا ہے، بلکہ ہم میں سے تو بہت سوں نے اُن صحابہ کو بھی دیکھا ہوا ہے جنہوں نے قربِ الٰہی کے نمونے قائم کئے۔ لیکن اُن کی نقل کی ہم کوشش نہیں کرتے جبکہ نقصان کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے اور فائدہ بھی ایسا ہے جس کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا۔ پس کیا وجہ ہے کہ ہم اس نقل کی کوشش نہیں کرتے جو نیکیوں میں بڑھانے والی چیز کی نقل ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یا تو ہمیں ان چیزوں کا بالکل ہی علم نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے احساس پیدا نہیں ہوتا یا اتنا تھوڑا علم اور اتنے عرصے بعد دیا جاتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے تازہ بتازہ نشانات آج بھی دکھا رہا ہے۔ نتیجۃً ہماری اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جبکہ دنیاوی چیزوں کے لئے ہم آتے جاتے ٹی وی پر، اخبارات پر دس مرتبہ اشتہارات دیکھتے ہیں اور دماغ میں بات بیٹھ جاتی ہے کہ میں نے کسی نہ کسی ذریعہ سے یہ چیز لینی ہے، حاصل کرنی ہے۔ اور اگر کسی کو سمجھایا جائے یا کوئی ویسے ہی کہہ دے کہ جب وسائل نہیں ہیں تواس چیز کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ تو فوراً جواب ملتا ہے کہ کیا غریب کے جذبات نہیں ہوتے، کیا ہمارے جذبات نہیں ہیں، کیا ہمارے بچوں کے جذبات نہیں ہیں کہ ہمارے پاس یہ چیز ہو۔ لیکن یہ جذبات کبھی اس بات کے لئے نہیں ابھرتے کہ الہامات کا تذکرہ سن کر یہ خواہش پیدا ہو کہ ہمارے سے بھی کبھی خدا تعالیٰ کلام کرے۔ ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ نشانات دکھائے اور اپنی محبت سے ہمیں نوازے۔ اس سوچ کے نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے علماء، ہمارے مربیان، ہمارے عہدیداران اپنے اپنے دائرے میں افرادِ جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی کوشش کے لئے بار بار ذکر نہیں کرتے، یا اُس طرح ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے، یا اُن کے اپنے نمونے ایسے نہیں ہوتے جن کو دیکھ کر اُن کی طرف توجہ پیدا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کا بار بار ذکر کر کے اس بارے میں اُن بزرگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نشانات کے واقعات بھی شدت سے نہیں دہرائے جاتے اور یہ یقین پیدا نہیں کرواتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو کسی خاص وقت اور اشخاص کے لئے مخصوص نہیں کر دیا بلکہ آج بھی اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر بار بار ذکر ہو اور یہ تعلق پیدا کرنے کے طریقے بتائے جائیں، اگر اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا ذکر کیا جائے تو بچوں، نوجوانوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعا کیوں قبول نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر دعا کی قبولیت کے فلسفے کی بھی سمجھ آ جاتی ہے اور نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ پس یہ بات عام طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق سے جڑ کر اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ نشانات صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات یا زمانے تک محدودنہیں تھے یا مخصوص نہیں تھے بلکہ اب بھی خدا تعالیٰ اپنی تمام تر قدرتوں کے ساتھ جلوہ دکھاتا ہے۔ پس نیکیوں کو حاصل کرنے کی تڑپ، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی تڑپ ہماری جماعت میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پیدا ہو سکتا ہے جو گناہ کو بہت حد تک مٹا دے گا۔ گناہ کو مکمل طور پر مٹانا تو مشکل کام ہے، اس کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جا سکتا ہے۔ یا اکثر حصہ جماعت کا ایسے لوگوں پر مشتمل ہو گا اور ہو سکتا ہے جو گناہوں پر غالب آ جائے۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 17صفحہ452-453 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)

پس اس کے لئے ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بتا کر اصلاح کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کی کامل پیروی کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے اور ایسے لوگوں کی اکثر دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں اور مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بعض واقعات کا مختلف وقتوں میں ذکر بھی ہوتا رہتا ہے اور میں بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔ پس ایسے واقعات ہیں جو نقل کی تحریک پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں۔ نقل اگر کرنی ہے تو ایسے واقعات کو سن کر اپنے اوپر بھی یہ حالت طاری کرنے کے لئے نقل کرنی چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ سے قرب کا رشتہ قائم ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا میں جس قدر قومیں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو۔ … کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کاجواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے جس نے کہا۔ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ (یہ چیز اہم ہے جو فرمایا ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ) اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 148۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ باتیں بار بار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقینا اس میں طاقت پیدا ہو سکتی ہے۔ یا جماعت کے ایک بھاری حصے میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے اور اُس کی قوتِ ارادی ایسی مضبوط ہو سکتی ہے کہ وہ ہزاروں گناہوں پر غالب آ جائے اور اُن سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے جو کبھی ڈانوا ڈول ہونے والا نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ انسانیت کو گناہوں سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو جائے۔ عبادت سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے یا فرض سمجھ کر جلدی جلدی ادا کرنے کی بجائے، جس طرح کہ سر سے، گلے سے ایک بوجھ ہے جو اتارنا ہوتا ہے، اُس طرح اتارنے کی بجائے ایک شوق پیدا ہو۔

مَیں اس وقت آپ کے سامنے چند مثالیں بھی پیش کر دیتا ہوں کہ احمدیت نے کیا عملی تبدیلی لوگوں میں پیدا کی؟

ہمارے مبلغ قرغزستان نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ احمدی مکرم عمر صاحب، انہوں نے 10؍جون 2002ء کو بیعت کی تھی۔ اٹھاون برس اُن کی عمر ہے۔ پیدائشی مسلمان تھے لیکن کمیونسٹ نظریات کے حامی تھے۔ انہوں نے بیعت کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ کہتے ہیں کہ جس دن خاکسار نے بیعت کے لئے خط لکھا وہ دن درحقیقت میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا اور مَیں اُس دن کو اپنی ایک نئی پیدائش سے تعبیر کرتا ہوں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل مَیں ہر طرح کی دینی جماعتوں کے پاس گیا، مگر میری زندگی میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہ ہو سکی، جبکہ بیعت کے بعد میری زندگی میں حقیقی روحانی انقلاب برپا ہو گیا تھا۔ بیعت سے پہلے نماز میرے لئے ایک بالکل اجنبی چیز تھی۔ مگر آج یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجوقتہ نماز میری زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔ اور تہجد میں ناغہ کرنا میرے لئے ایک امرِ محال ہے اور آج میرا دل اس یقین سے پُر ہے کہ جب انسان سچائی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے تو اُس کی منزل اُسے ضرور مل جاتی ہے اور اُسی منزل پر پہنچ کر ہی اُس کی حقیقی روحانی تربیت ہوتی ہے اور اُسے ترقی نصیب ہوتی ہے اور یہی وقت دراصل اُس کی قلبی تسکین کا وقت ہوتا ہے۔

تو یہ انقلابات ہیں جو لوگوں میں، نئے آنے والوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر ہمارے مشنری کوتونو، افریقہ سے لکھتے ہیں کہ ادریسو صاحب آرمی میں لیفٹیننٹ کی پوسٹ پر تعینات ہیں۔ 2013ء میں انہوں نے بیعت کی۔ وہ اپنی قبولیتِ احمدیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش مسلمانوں کی عید کے دن ہوئی تھی۔ تو میرے مشرک باپ نے دائی سے کہا کہ اس کا مسلمانوں کا نام رکھو۔ وہاں افریقہ میں یہ رواج ہے کہ جس دن پیدا ہو اُس دن کا نام رکھ دیتے ہیں یا اُن خصوصیات کی وجہ سے بعض نام رکھے جاتے ہیں۔ تو کہتے ہیں بہر حال عید والے دن میں پیدا ہوا، باپ تو میرا مشرک تھا لیکن مسلمانوں کی عید ہو رہی تھی۔ میرے باپ نے کہا کہ اس کو مسلمان بنانا ہے اس کا مسلمان نام رکھو کیونکہ یہ عید کے دن پیدا ہواہے۔ چنانچہ کہتے ہیں بچپن میں مَیں نے کچھ عرصہ مسجدوں کا رُخ کیا مگر ایک دن جمعہ کی نماز کے بعد واپس آ رہا تھا تو چوٹ لگ گئی۔ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے آ رہا ہوں تو ٹھوکر لگنے کا تو سوال ہی نہیں کہ میں گروں اور چوٹ لگ جائے یا کسی بھی ذریعہ سے چوٹ لگے، تو اس خیال سے کہ خدا کی عبادت کے بعد بھی ٹھوکر لگی تو پھر عبادت کا فائدہ کیا؟ کہتے ہیں مَیں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہو گیا اور کبھی ایک چرچ میں جاتا، کبھی دوسرے چرچ میں، اور عیسائیت میں بھی فرقے بدلتا رہتا۔ کہتے ہیں میرے مسائل اور بڑھ گئے یہاں تک کہ بیوی سے بھی جھگڑا ہو گیا، سکون برباد ہو گیا۔ ہر وقت پریشانیوں میں گھرا رہتا تھا۔ کہتے ہیں میرے والدین اور بزرگ تھے۔ انہوں نے ہمارے گھریلو مسائل سلجھانے کی کوشش کی، بہت میٹنگیں ہوئیں، پنچائتیں ہوئیں، صلح کروانے کی ہر کوشش ہوئی لیکن بیکار، بے فائدہ۔ ان حالات میں جماعت کے داعی الی اللہ، محمد صاحب اُن کو ملے۔ کہتے ہیں اُن کو میرے حالات کا علم ہوا تو کہنے لگے تم نے تمام نسخے آزما لئے۔ مسلمان ہوئے، عیسائی ہوئے، مسائل بڑھتے رہے، مسائل حل نہیں ہوئے۔ گھریلو طور پر بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ پنچائتی طور پر بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں۔ اب تمہیں مَیں ایک نسخہ بتاتا ہوں۔ یہ نسخہ آزماؤ اور دیکھو پھر کیا نتیجہ اُس کا نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دعا کرو۔ کیونکہ ہمارے مذہب کی سچائی کا نشان یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ تم بھی اپنے لئے دعا کرو اور میں بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان صلح اور حسنِ سلوک قائم کر دے اور جب یہ قائم ہو جائے گاتو کیونکہ میں نے تمہیں دعا کے لئے کہا ہے، کیونکہ خالص ہو کر تم نے دعا مانگنی ہے اور میں خود بھی تمہارے لئے دعا کروں گا۔ کیونکہ میں یہ کہہ رہا ہوں اس لئے جب یہ بات صحیح ہو جائے گی، جب تمہارے مسائل حل ہو جائیں گے تو پھر یاد رکھو کہ یہ ہمارے امام کی صداقت کا نشان ہو گا۔ چنانچہ کئی دن اس نے دعا کی۔ موصوف کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں ایک ایک کر کے میرے سارے مسائل حل ہونے لگے اور بیوی سے بھی صلح ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ یہی راہ اصل اسلام کی راہ ہے جس میں خدا ملتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اب میری کایا پلٹ گئی ہے اور کہا کہ یہ سب مسیح موعود، امام الزمان علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے اور آپ کے ماننے میں نجات ہے۔ اور اب وہ احمدی ہیں۔ یہ اُن احمدیوں کے لئے بھی سبق ہے جو اپنے آپ کو پرانے احمدی خاندانوں سے منسوب کرتے ہیں لیکن اُن کے گھروں میں بے چینیاں ہیں۔ اور بعض گھربے چینیوں سے بھرے پڑے ہیں، مسائل میرے سامنے آتے ہیں کہ خاوند بیوی کے حقوق نہیں ادا کرتا، بیوی خاوند کے حقوق نہیں ادا کرتی۔ ایمان میں پختگی پیدا کر کے عملی اصلاح کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تو پھر یہ مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی طریقہ ہر ایک کو آزمانا چاہئے۔ اپنی اَناؤں کو چھوڑ کر اپنے دلوں میں جو پہلے ایک سوچ بنا لی ہوتی ہے کہ اس نے یہ کہا اور میں نے یہ کہنا ہے۔ اُس نے یہ کہنا ہے اور میں نے یہ کہنا ہے۔ اس بات کو ختم کر کے خالصۃً اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے تبھی اللہ تعالیٰ پھر صحیح راستے دکھاتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ ہمیں اس زمانے میں بھی دکھاتا ہے اُن کے بارے میں بھی بتا دوں۔ ٹیچی مان (Techiman) گھانا کے ہمارے سرکٹ مشنری ہیں۔ کورا بورا ان کا گاؤں ہے۔ کہتے ہیں کہ وہاں ایک نو احمدی جبریلا صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کاشت کا موسم ہے۔ میرے غیر مسلم بُت پرست والدنے مجھے بتوں کے حضور حاضر ہونے اور نذرانہ پیش کرنے کا کہا ہے تا کہ ان کی برکت سے میری یام (Yam) کی فصل اچھی ہو جائے اور خوب پھل آئے(یام وہاں کی ایک خاص فصل ہے۔ لوگ کھاتے ہیں، ویسے تو یہاں بھی ملتا ہے)۔ تو معلم لکھتے ہیں کہ جب میں نے اُسے کہا کہ ان بتوں سے باز ہی رہو اور والد کو بھی باز رکھو۔ نیز اُسے دعائے استخارہ سکھائی تو خدا کے فضل سے جب کٹائی کا وقت آیا تو اس نوجوان کی یامؔ کی فصل بہت اچھی ہوئی اور اُس کے والد کی نسبت اُس کی فصل کو اور زیادہ اچھا پھل لگا۔ والد مشرک تھا اُس کی نسبت اس کی فصل بہت بہتر تھی۔ اس کے والدنے یہ نشان دیکھ کر اُسے کہا کہ میرے بیٹے کا جوخدا ہے وہ سچا خدا ہے۔ پھر جو بُت اُس کے پاس موجود تھے وہ سارے جلا دئیے۔ تو یہ وہ ایمان کی مضبوطی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے سے نو احمدیوں میں پیدا ہو رہی ہے۔

پھر ہمارے ایلڈوریٹ (Eldoret) کینیاکے مبلغ ہیں۔ مسجد کے احاطے میں اُن کا جو دفتر تھا وہاں کسی طرح مخالفِ احمدیت نے داخل ہو کر جو اصل میں تو پہلے ملازم تھا اور وہاں اُس کا آنا جانا تھا۔ بہر حال کچھ ناراضگیاں ہو گئیں اور اُس کو فارغ کیا گیا تو اُس نے داخل ہو کر چھت کی جو سیلنگ (ceiling) ہوتی ہے اُس میں وہ دوائی، وہ نشہ آور ڈرگز رکھ دیں جو ممنوعہ ہیں۔ اور پولیس کو رپورٹ کر دی کہ یہاں احمدی مبلغ رہتا ہے اور اسلام کی تبلیغ کا تو یہ بس ایک بہانہ ہے۔ اصل میں تو یہ ڈرگ کا کاروبار کرتا ہے۔ اس پر پولیس نے اپنی کارروائی کرتے ہوئے دفتر پر چھاپا مارا اور جب اُس کی بتائی ہوئی جگہ چھت میں سے کھولی تو وہاں سے دوائی حاصل ہو گئی۔ بہر حال پولیس کو سب کچھ بتایا گیاکہ یہ کسی مخالف نے شرارت کی ہے لیکن پولیس نے کچھ نہیں سنا اور انہوں نے کہا ہم تو اپنی کارروائی کریں گے۔ ہمارے مشنری کوپولیس سٹیشن لے گئے اور حوالات میں بند کر دیا۔ اگلے دن کیس عدالت میں پیش ہوا تو جج نے کیس سننے کے بجائے تاریخ دے دی۔ خیر انہوں نے مجھے بھی یہاں اطلاع کی تو اُن کو میں نے دعائیہ جواب بھی دیا۔ پھر دوبارہ پیشی ہوئی تو کہتے ہیں جب میں جاتا اور کٹہرے میں جج کے سامنے پیش ہوتا تھا تو جج بڑے غور سے مجھے دیکھتا تھا اور اُس کے بعد gentleman sit down کہہ کے وہ مجھے بٹھا دیتا تھا اور وکیلوں کو اگلی تاریخ دے دیتا تھا۔ کہتے ہیں عدالت میں حاضر ہونے کی تاریخ سے دو دن قبل صبح کی نماز کے بعد جب بہت فکر پیدا ہوئی تو میں نے دعا کی۔ قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگا تو دل میں خیال آیا کہ قرآن سے نیک فال نکالی جائے تو سوچا کہ قرآن کو کھولتے ہیں جس لفظ پر نظر پڑے گی اُس میں کوئی پیغام ہو گا۔ جب دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ  (الانبیاء: 70) اس سے دل کو تسلی ہوئی کہ پیغام تو اچھا ہے۔ خیر کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میں ڈاکخانہ سے ڈاک لینے گیا تو وہاں میرا خط بھی اُس میں اُن کو آیا ہوا تھا جس میں مَیں نے یہ لکھا ہوا تھا کہ ’اللہ تعالیٰ آپ کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور حفاظت میں رکھے اور منافقین کو اپنے منصوبوں میں ناکام کرے اور جماعت کو ہر ابتلاء سے بچائے اور مزید ترقیات دے‘۔ کہتے ہیں یہ خط پڑھنے کے بعد اور یہ (آیت) دیکھنے کے بعد میرے دل میں میخ کی طرح یہ گڑھ گیا کہ اب ضرور اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور چند احباب کو بھی میں نے یہ خوشخبری سنا دی کہ اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں جب میں عدالت میں حاضر ہوا تو حسبِ سابق جج نے مجھے بٹھا دیا اور وکیلوں سے بات کرنے کے بعد مجھے کہا کہ تم آزاد ہو۔ جاؤ اور اپنا کام کرو۔ تمہارے خلاف کوئی کیس نہیں۔ پس اگر ایمان مضبوط ہو تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین ہوتا ہے۔ اور انسان صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر نشان دکھاتا ہے۔ یہی باتیں ہیں، یہ جہاں اپنا ایمان مضبوط کرتی ہیں، اپنی عملی حالت کو درست رکھتی ہیں وہاں دوسروں کے لئے بھی مضبوطی ایمان کا باعث بنتی ہیں۔ پس یہ چیز ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

عملی اصلاح کے لئے دوسری چیز جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ علمی قوت ہے یا علم کا ہونا ہے۔ اس بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے، دوبارہ بتا دوں کہ غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ گناہ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ گناہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن گناہوں کو انسان چھوٹا سمجھ رہا ہوتا ہے وہ گناہ اُس کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔ اگر زیادہ ہیں تو جو زیادہ گناہ ہیں وہ دل و دماغ میں بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ تو کوئی گناہ ہے ہی نہیں۔ چھوٹی سی بات ہے یا ایسا معمولی گناہ ہے جس کے بارے میں کوئی زیادہ بازپرس نہیں ہو گی۔ خود ہی انسان تصور پیدا کر لیتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 453 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)

ابھی گزشتہ خطبوں میں شاید دو ہفتے پہلے ہی مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ اسائلم سیکرز جو ہیں، وہ بھی یہاں آ کر جب غلط بیانی کرتے ہیں اور اپنا کیس منظور کروانے کے لئے جھوٹ کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو حقیقت میں وہ اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ اور نہ صرف اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جماعت کی ساکھ پر بھی حرف آ رہا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے کسی نے بتایا کہ خطبہ کے بعد یہاں سے ایک اسائلم سیکر وکیل کے پاس گیا اور وکیل صاحب بھی احمدی ہیں۔ وہ بھی شاید خطبہ سن رہے تھے۔ اور وکیل شاید کوئی جماعتی خدمت بھی کرتے ہیں۔ اُس وکیل نے اس اسائلم لینے والے کو کیس تیار کرتے ہوئے غلط بیانی سے بعض باتیں لکھ دیں کہ یہ غلط باتیں بیچ میں ڈالنی پڑیں گی۔ حالانکہ ان کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اور مؤکل کو کہہ دیا کہ اس کے بغیر کیس بنتا ہی نہیں۔ پھر تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اس لئے ایسی غلط بیانی کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ میں نے واضح طور پر بتایا تھا کہ کسی غلط بیانی اور جھوٹ سے کام نہیں لینا اور احمدیوں پر ظلموں کے واقعات تو ویسے ہی اتنے واضح اور صاف ہیں اور اب دنیا کو بھی پتا ہے کہ اس کے لئے کسی وکیل کی ہشیاری اور چالاکی اور جھوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

پس مربیان کو بھی اور عہدیداران کو بھی بار بار جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرنی ہو گی۔ بار بار یہ ذکر کرتے چلے جانا ہو گا کہ کوئی گناہ بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے۔ گناہ گناہ ہے اور اس سے ہم نے بچنا ہے۔ ہر جھوٹ جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کے شرک سے ہم نے بچنا ہے۔ اگر اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط ہے تو پھر فکر کی ضرورت نہیں۔ نشان ظاہر ہوں گے اور انسان پھردیکھتا ہے۔ لیکن تلقین کرنے والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کی اپنی حالت بھی ایسے معیار کی ہو جہاں وہ اپنی قوتِ ارادی کے اعلیٰ معیاروں کی تلاش میں ہوں۔ اور عملی طور پر بھی اُن کے عمل اور علم میں مطابقت پائی جاتی ہو۔ اس زمرہ میں شمار نہ ہوں جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ بہرحال جماعتوں کو بار بار درسوں وغیرہ میں ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے اور عملی حالت بہتر کرنے کے لئے علمی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔

پس اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں کام شروع کر دے تو ایک واضح تبدیلی نظر آ سکتی ہے۔ اس زمانے میں جبکہ علم کے نام پر سکولوں میں مختلف برائیوں کو بھی بچوں کو بتایا جاتا ہے ہمارے نظام کو بہت بڑھ کر بچوں اور نوجوانوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماں باپ کو اپنی حالتوں کی طرف نظر کرتے ہوئے اُس علم کے نقصانات سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو علم کی آگاہی کے نام پر بچپن میں سکول میں دیا جاتا ہے۔ ماں باپ کو بھی پتا ہونا چاہئے تا کہ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔ یہاں بہت چھوٹی عمر میں بعض غیر ضروری باتیں بچوں کو سکھا دی جاتی ہیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ہو جائے۔ جبکہ حقیقت میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی اکثریت کے ذہن بچپن سے ہی غلط سوچ رکھنے والے بن جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے سامنے اُن کے ماں باپ کے نمونے یا اُس کے ماحول کے نمونے برائی والے زیادہ ہوتے ہیں، اچھائی والے کم ہوتے ہیں۔ پس مربیان، عہدیداران، ذیلی تنظیموں کے عہدیداران، والدین، ان سب کو مل کر مشترکہ کوشش کرنی پڑے گی کہ غلط علم کی جگہ صحیح علم سے آگاہی کا انتظام کریں۔ سکولوں کے طریق کو ہم روک نہیں سکتے۔ وہاں تو ہم کچھ دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ لیکن گندگی اور بے حیائی کا فرق بتا کر، بچوں کو اعتماد میں لے کر اپنے عملی نمونے دکھا کر ماحول کے اثر سے بچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نمازوں کے بعد مَیں دو غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ ہے مکرمہ نواب بی بی صاحبہ جو مانگٹ اونچا ضلع حافظ آباد کی رہنے والی تھیں اور ہمارے مبلغ سلسلہ گیانا (Guyana) احسان اللہ مانگٹ صاحب کی والدہ تھیں۔ 19؍ جنوری 2014ء کو بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے ددھیال کا تعلق اجنیا والا ضلع شیخو پورہ سے ہے۔ ننھیال کا تعلق مانگٹ اونچا ضلع حافظ آباد سے ہے۔ آپ حضرت ناصر دین صاحب مانگٹ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پڑنواسی تھیں۔ بہت مہمان نواز، نرم مزاج، غریب پرور، مخلص اور نیک خاتون تھیں۔ گاؤں کے احمدی اور غیر احمدی سب آپ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ مربیانِ سلسلہ کے ساتھ بہت شفقت اور پیار کے ساتھ پیش آتی تھیں۔ خلافت کے ساتھ بہت عقیدت تھی۔ اکثر پنجابی نظمیں بھی خلافت کے بارے میں انہوں نے بنائی ہوئی تھیں اور سنایا کرتی تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا احسان اللہ مانگٹ صاحب مربی سلسلہ ہیں، آجکل گیانا جنوبی امریکہ کے مبلغ انچارج ہیں اور ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے وہ اپنی والدہ کے جنازہ میں شامل بھی نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرم شیخ عبدالرشید شرما صاحب شکار پور سندھ کا ہے جو 16؍جنوری 2014ء کو نوّے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت شیخ عبدالرحیم شرما صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ مولوی عبدالکریم شرما صاحب جو بڑا لمبا عرصہ یہاں رہے ہیں اُن کے بھائی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصف صدی سے زائد عرصہ شکار پور سندھ میں جماعت کی بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔ پارٹیشن سے قبل قادیان میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارخانے میں انہیں بہت محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان کے قیام کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بعض ہدایات تھیں اُن پر عمل کرنے کی توفیق پائی۔ اور پھر پارٹیشن کے بعدآپ کااس وقت یہاں کوئی ایسا کاروبار نہیں تھا تو میرے والد صاحب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے مشورے کے بعد شکار پور میں گئے۔ وہاں اُن کو ایک کارخانہ الاٹ ہو گیا تو پھر انہوں نے وہاں جا کر احمدیوں کو تلاش کر کے جماعت قائم کی۔ اس کے پہلے صدر بھی آپ مقرر ہوئے اور اپنے کارخانے کے باغ میں ان کو ایک خوبصورت مسجد بھی بنانے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو چار اضلاع سکھر، شکار پور، جیکب آباد اور گوٹکی کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ 1982ء میں ان کی اہلیہ فوت ہوئیں اور اکتیس سال کا عرصہ انتہائی صبر اور حوصلے سے انہوں نے گزارا۔ اس دوران 1995ء میں آپ کے بیٹے شیخ مبارک احمد شرما کو مخالفانہ فسادات کے دوران شکار پور میں شہید کیا گیا۔ پھر 1997ء میں آپ کے دوسرے بیٹے مظفر احمد شرما کو بھی شہید کر دیا گیا لیکن آپ کے پایہ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار اور احسان مند ہی رہے۔ بہت بہادر اور نڈر انسان تھے۔ مخالفینِ احمدیت کا ایک جلوس اُن کے گھر واقع شکار پور اور فیکٹری پر حملہ آور ہوا تو آپ بہت بہادری سے اکیلے ہی اس کے مقابلے کے لئے باہر نکل کھڑے ہوئے جبکہ پولیس کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر جلوس کی قیادت کرنے والے مولوی کو پکڑ لیا۔ یہ منظر دیکھ کر سارا جلوس بھاگ گیا۔ پولیس والے بھی حیران تھے۔ بار بار پوچھتے تھے کہ آپ نے جلوس کو کیسے بھگا دیا۔ اس کے بعد یہ اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ خلافت سے بڑا مضبوط تعلق تھا۔ مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ بزرگوں کی طرف سے بھی باقاعدگی سے چندہ دیتے تھے۔ پاکستان کی بہت سی مساجد کی تعمیر میں بڑی مالی قربانی دی۔ موصی تھے اور پورے سال کا حصہ آمد سال کے شروع میں ادا کر دیا کرتے تھے۔ آپ کے پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں۔ ایک بیٹی لئیقہ فوزیہ صاحبہ نائیجیریا میں ہے۔ وہ بھی ڈاکٹر ہیں اور (ان کے میاں) واقفِ زندگی ڈاکٹر ملک مدثر احمد صاحب ہیں۔ دونوں ہی ڈاکٹر لئیقہ فوزیہ بھی اور اُن کے میاں ڈاکٹر مدثر بھی وقفِ زندگی ہیں۔ نائیجیریا میں خدمات بجا لا رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے پوتے مکرم سہیل مبارک شرما صاحب مربی سلسلہ، آج کل صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو اور نسل کو احسن رنگ میں اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور وفا سے اس تعلق کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 24؍ جنوری 2014ء شہ سرخیاں

    ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو۔ ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کے قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔

    لوگ دنیاوی باتوں میں نقل کرتے ہیں اور اُس کے حصول کے لئے یا تو عزتِ نفس کو داؤ پر لگا دیتے ہیں یا دیوالیہ ہو کر اپنی جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اس نقل کی کوشش نہیں کرتے جو نیکیوں میں بڑھانے والی چیز کی نقل ہے۔

    یہ بات عام طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق سے جُڑ کر اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے۔

    نیکیوں کو حاصل کرنے کی تڑپ، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی تڑپ ہماری جماعت میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پیدا ہو سکتا ہے جو گناہ کو بہت حد تک مٹا دے گا۔ جماعت کا یا اکثرحصہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہو گا اور ہو سکتا ہے جو گناہوں پر غالب آجائے۔

    بعض نو احمدیوں کے اپنی زندگیوں میں پاکیزہ انقلاب اور تعلق باللہ اور الٰہی نصرت و تائید کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔

    مربیان کو بھی اور عہدیداران کو بھی بار بار جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرنی ہو گی۔ بار بار یہ ذکر کرتے چلے جانا ہو گا کہ کوئی گناہ بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے۔ گناہ گناہ ہے اور اس سے ہم نے بچنا ہے۔ لیکن تلقین کرنے والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کی اپنی حالت بھی ایسے معیار کی ہو جہاں وہ اپنی قوتِ ارادی کے اعلیٰ معیاروں کی تلاش میں ہوں۔ اور عملی طور پر بھی اُن کے عمل اور علم میں مطابقت پائی جاتی ہو۔

    مکرمہ نواب بی بی صاحبہ آف مانگٹ اونچا اور مکرم شیخ عبدالرشید شرما صاحب آف شکار پور سندھ کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 24جنوری 2014ء بمطابق 24صلح 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور