نیک اعمال بجا لانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع

خطبہ جمعہ 31؍ جنوری 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں اصلاحِ اعمال یا تربیت کے حوالے سے مربیان، اس میں تمام واقفینِ زندگی شامل ہیں، امراء اور عہدیداران کی ذمہ داریوں کی بات ہو رہی تھی کہ کس طرح انہیں اپنا کردار عملی اصلاح کی روک کے اسباب پر قابو پانے کے لئے ادا کرنا چاہئے اور اس کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے جن کو مربیان اور عہدیداران کو اپنے اوپر لاگو کر کے پھر جماعت کو بتانے اور دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ وہ علماء اور واعظین جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تھے اُن میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شامل تھے اور صحابہ سے تربیت پانے والے بھی شامل تھے، اُن کا تعلق باللہ اور ایمان اور یقین کا معیار بھی یقینا بہت اعلیٰ تھا۔ اُن کی کمی اِن باتوں میں نہیں تھی۔ کمی اس بات کی تھی جس کی طرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توجہ دلائی کہ ترجیحات کو بدلنے کی ضرورت ہے یا اعتقادی مسائل پر جس طرح زور دیا جا رہا ہے اسی طرح عملی اصلاح کی اہمیت پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات اور اپنے ذاتی تعلق باللہ اور اطاعتِ خلافت اور احترامِ نظام کے حوالے سے بھی افرادِ جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے۔ لیکن آجکل ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارا ان باتوں میں وہ معیار نہیں ہے۔ اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ مربیان اور عہدیداران اپنے اوپر لاگو کر کے پھر افرادِ جماعت کو بتائیں تو اس کی خاص اہمیت ہے۔ یعنی اپنے پر لاگو کرنے کے لفظ پر غور کرنے اور عمل کرنے اور اپنا نمونہ قائم کرنے کی بہت ضرورت ہے تبھی اصلاحی باتوں کا اثر بھی حقیقی رنگ میں ہو گا۔

گزشتہ خطبہ میں قوتِ ارادی کے پیدا کرنے اور علمی کمزوری دُور کرنے کا ذکر ہو گیا تھالیکن تیسری بات اس ضمن میں بیان نہیں ہوئی تھی۔ یعنی عملی کمزوری کو دور کرنے کا طریق یا عملی قوت کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں آج کچھ کہوں گا۔ اس کے لئے جیسا کہ پہلے خطبات میں ذکر ہو چکا ہے، بیرونی علاج یا مدد کی ضرورت ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اور عملی اصلاح کے لئے یہ سہارا دو قسم کا ہوتا ہے یا دو قسم کے سہاروں، ایک نگرانی کی اور دوسرا جبر کی ضرورت ہے۔

نگرانی یہ ہے کہ مستقل نظر میں رکھا جائے، زیرِ نگرانی رکھا جائے کہ کہیں کوئی بد عمل نہ کر لے۔ اس قسم کی نگرانی دنیاوی معاملات میں بھی ہوتی ہے۔ گھروں میں ماں باپ بچوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ سکولوں میں استاد علاوہ پڑھانے کے نگرانی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ حکومت کے کارندے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم نگرانی کریں گے۔ سڑکوں پر ٹریفک کے لئے مستقل کیمرے لگائے ہوتے ہیں اور بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ کیمرہ لگا ہوا ہے۔ یہ نگرانی کا ایک عمل ہے۔ جو بچے ماں باپ کی زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں اُن کے والدین کو warning دی جاتی ہے کہ ہم نگرانی کریں گے۔ اگر بچوں کوزیادہ تنگ کیا گیا تو پھر بچوں کی بہبود کا جوادارہ ہے وہ کہتا ہے کہ ہم بچے لے جائیں گے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ بہت عام ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو بچوں کے معاملے میں ناجائز حد تک یہ نگرانی ہوتی ہے۔ اور ماں باپ بچوں سے ڈر کر یا اس ادارے سے ڈر کر جائز روک ٹوک بھی بچوں پر نہیں کرتے اور نتیجۃً بسا اوقات بچے بھی بگڑ جاتے ہیں۔ دنیا کے معاملات میں تو یہ نگرانی بعض دفعہ نقصان کا باعث بھی بن رہی ہوتی ہے۔ پھر خاوند بیوی کے تعلقات میں خرابی کی وجہ سے بھی اُن کی نگرانی ہوتی ہے۔ پھر ملزمان کی نگرانی ہوتی ہے۔

بہر حال اس ساری نگرانی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُس کو اُن کاموں سے روکا جائے جن کی وجہ سے فساد پیدا ہو سکتا ہے یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ہو۔ بہر حال نگرانی ہر معاشرے کے قانون میں اصلاح کاایک ذریعہ ہے اور عملی اصلاح کرنے کے لئے دین بھی اس کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے۔ اور بہت سے غلط کاموں سے انسان اس وجہ سے بچ رہا ہوتا ہے کہ معاشرہ اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ ماں باپ اپنے دائرے میں نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ مربیان کا اپنے دائرے میں یہ نگرانی کرنا کام ہے۔ اور باقی نظام کو بھی اپنے اپنے دائرے میں نگران بننا ضروری ہے۔ اور جب اسلام کی یہ تعلیم بھی سامنے ہو کہ ہر نگران نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب الجمعۃ فی القریٰ و المدن حدیث نمبر893)

تو نہ صرف اُن کی اصلاح ہو گی جن کی نگرانی کی جا رہی ہے بلکہ نگرانوں کی بھی اصلاح ہو رہی ہو گی۔ بہرحال عملی اصلاح کے لئے نگرانی بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

دوسری بات جو اصلاح کے لئے ضروری ہے جبر ہے۔ یہاں کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ’’دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے‘‘دوسری طرف عملی اصلاح کے لئے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے، وہ جبر ہے۔ پس واضح ہو کہ یہ جبر دین قبول کرنے یا دین چھوڑنے کے معاملے میں نہیں ہے۔ ہر ایک آزاد ہے، جس دین کو چاہے اختیار کرے اور جس دین کو چاہے چھوڑ دے۔ اسلام تو بڑا واضح طور پر یہ اختیار دیتا ہے۔ یہاں جبر یہ ہے کہ دین کی طرف منسوب ہو کر پھر اُس کے قواعد پر عمل نہ کرنا اور اُسے توڑنا، ایک طرف تو اپنے آپ کو نظامِ جماعت کا حصہ کہنا اور پھر نظام کے قواعد کو توڑنا۔ یہ بات اگر ہو رہی ہے تو پھر بہر حال سختی ہو گی اور یہاں جبر سے یہی مراد ہے۔ نظام کا حصہ بن کر رہنا ہے تو پھر تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ سزا مل سکتی ہے، جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، بعض قسم کی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہے۔ اور ان سب باتوں کا مقصد اصلاح کرنا ہے تا کہ قوتِ عملی کی کمزوری کو دور کیا جا سکے۔ جماعت میں بھی جب نظامِ جماعت سزا دیتا ہے تو اصل مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ کسی کی سبکی یا کسی کو بلا وجہ تکلیف میں ڈالنا نہیں ہوتا۔ یہ جبر حکومتی قوانین میں بھی لاگو ہے۔ سزائیں بھی ملتی ہیں، جیلوں میں بھی ڈالا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں، بعض دفعہ مارا بھی جاتا ہے۔ اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن رہے اور جودوسرے کو نقصان پہنچانے والے ہیں وہ نقصان پہنچانے کا کام نہ کر سکیں بلکہ بعض دفعہ تو اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے کام پر بھی سزا مل جاتی ہے۔ لیکن اس سزا کے دوران اصلاح کرنے کے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو پھانسی بھی دی جاتی ہے تو یہ جبر اس لئے ہے کہ قاتل نے ایک جان لی اور قاتلوں کو اگر کھلی چھٹی مل جائے تو پھر معاشرے کا امن برباد ہو جائے اور کئی اور قاتل پیدا ہو جائیں۔ پس قتل کی سزا قتل دینے سے کئی ایسے لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے یا وہ اس کام سے رُک جاتے ہیں جو قتل کا رجحان رکھتے ہیں، جو زیادہ جوشیلے ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ جبر اصلاح کا ایک پہلو ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے۔

دنیا دار کے جبر سے یا دنیاوی سزاؤں کے جبر سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ایک دین کی طرف منسوب ہونے والے پر جب جبر کیا جاتا ہے اور دینی نظام کے تحت اُس کو سزا دی جاتی ہے یا کسی بھی قسم کی سزا یا جرمانہ ہو، کوئی اور سزا ہو یا بعض پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ جماعت میں بعض دفعہ بعض چندے لینے پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں تو بیشک جبراً ان کاموں سے روکا جا رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ باتیں یا اعمال جو صالح اعمال ہیں، اُن کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہو اور کوئی شخص اس لئے کر رہا ہو کہ سزا سے بچ جاؤں یا خلیفہ وقت کی ناراضگی سے بچ جاؤں یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جاؤں تو آہستہ آہستہ دل میں ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ برائیوں کو چھوڑ کر خوشی سے نیک اعمال بجا لانے والے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک اعمال بجا لانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ بغیر ان ذرائع کو اختیار کئے اصلاحِ اعمال میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس ان ذرائع کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔ یعنی ایمان کا پیدا کرنا، علمِ صحیح کا پیدا کرنا، ان باتوں کا تو گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو گیا تھا۔ اور قوتِ عملی پیدا کرنے کے ضمن میں نگرانی کرنا اور جبر کرنا، جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے۔

یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیر اصلاح مشکل ہے۔ جب ہم گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ایک طبقہ ایساہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ یعنی وہ معیار نہیں رکھتا جو اصلاحِ عمل کے لئے ایک انسان میں ہونا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر قوتِ ایمانیہ بھر دی جائے تو ان کے اعمال درست ہو جاتے ہیں۔ اور ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدمِ علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ایک طبقہ جو نیک اعمال بجا لانے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ اور اس کی احتیاج جو ہے وہ دو طرح سے پوری کی جاتی ہے۔ یا اُس کی بیرونی مدد دو طرح سے ہو گی۔ ایک تو نگرانی کر کے، جس کی میں نے ابھی تفصیل بیان کی ہے کہ نگرانی کی جائے تو بدیاں چھوٹ جاتی ہیں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیداہو جاتی ہے لیکن وہ طبقہ جو بالکل ہی گرا ہوا ہو، جو نگرانی سے بھی باز آنے والا نہ ہو، اُسے جب تک سزا نہ دی جائے اُس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔

پس ان چاروں ذرائع کو جماعت کی اصلاح کے لئے بھی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اور ہر ایک کی بیماری کا علاج اُس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے کرنا ضروری ہے۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جس زمانے میں مذہب کے پاس نہ حکومت ہو، نہ تلوار اُس زمانے میں یہ چاروں علاج ضروری ہوتے ہیں۔ پس جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے کہ پہلے علاج کے طور پر تربیت کر کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات، آپ کی وحی، آپ کے تعلق باللہ اور آپ کے ذریعہ سے آپ کے ماننے والوں میں روحانی انقلاب کا ذکر کیا جائے۔ اُنہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے کیا فوائد ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ اس دور میں جب شیطان بھر پور حملے کر رہا ہے تو ان باتوں کے بارے میں بتانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ذکر متواتر اور بار بار ہونا چاہئے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اور اُس کا پیار جب کسی انسان کے شاملِ حال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے کس طرح امتیازی سلوک کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس بارے میں کس طرح بتایا ہے۔ مختلف قوموں سے جو نئے احمدی ہو رہے ہیں، افریقہ میں سے بھی اور زیادہ تر عربوں میں سے بھی، وہ اپنے واقعات لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھ کر اُن میں تبدیلیاں ہوئیں، اُن کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ بیشک کتب پڑھ کر اُن کی اعتقادی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں اور اعتقادی لحاظ سے اُن کے علم میں اضافہ ہو کر اُن کو ایمان کی نئی راہیں نظر آئیں۔ لیکن ایمان کی مضبوطی اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات کو دیکھنے، آپ کی وحی کی حقیقت کو سمجھنے اور آپ کے تعلق باللہ سے پیدا ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اُنہیں بعض نشانات دکھا کر اپنے قرب کا نظارہ دکھا دیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات، وحی، الہامات اور تعلق باللہ جو ہمارے دلوں میں بھی ایمان کی کرنوں کو روشن تر کرے، کی اہمیت اپنے انداز میں بیان فرماتے ہوئے یوں فرمایاکہ: حضرت عیسیٰ بیشک زندہ آسمان پر بیٹھے رہیں۔ اُن کا آسمان پر زندہ بیٹھے رہنا اتنا نقصان دہ نہیں ہے جتنا خدا تعالیٰ کا ہمارے دلوں میں مردہ ہو جانا نقصان دہ ہے۔ پس کیا فائدہ اس بات کا کہ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر زور دیتے رہو جبکہ خدا تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں میں تم مار رہے ہو اور اُسے زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ تو حیّ و قیوم ہے اور کبھی نہیں مرتا مگر بعض انسانوں کے لحاظ سے وہ مر بھی جاتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے ایک استاد جو بھوپال کے رہنے والے تھے، کہتے ہیں کہ: انہوں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ بھوپال کے باہر (بھوپال ہندوستان کا ایک شہر ہے) ایک پُل ہے، وہاں ایک کوڑھی پڑا ہوا ہے جو کوڑھی ہونے کے علاوہ آنکھوں سے اندھا ہے، ناک اُس کا کٹا ہوا ہے، انگلیاں اُس کی جھڑ چکی ہیں اور تمام جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے۔ مکھیاں اُس پر بھنبھنا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُسے دیکھ کر مجھے سخت کراہت آئی۔ اور میں نے پوچھا کہ بابا تو کون ہے؟ وہ کہنے لگا کہ میں خدا ہوں۔ یہ جواب سن کر مجھ پر سخت دہشت طاری ہو گئی۔ اور میں نے کہا کہ تم خدا ہو؟ آج تک تو تمام انبیاء دنیا میں یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین نہیں۔ ہم جو اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کرتے ہیں تو کیا اسی شکل پر؟ اُس نے کہا انبیاء جو کہتے آئے وہ ٹھیک اور درست کہتے ہیں۔ میں اصل خدا نہیں ہوں۔ میں بھوپال کے لوگوں کا خدا ہوں۔ یعنی بھوپال کے لوگوں کی نظروں میں مَیں ایسا ہی سمجھا جاتا ہوں۔ یعنی ان لوگوں کی نظر میں خدا تعالیٰ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 455-456 خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس خدا تعالیٰ تو نہیں مرتا مگر جب کوئی انسان اُسے بھلا دیتا ہے تو اُس کے لحاظ سے وہ مر جاتا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو یہ بھی سمجھا دوں کہ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بس لوگ ایسے ہو گئے تو خدا نے یہ شکل اختیار کر لی اور معاملہ ختم۔ اصل میں تو یہ شکل اُن لوگوں کی اپنی ہے جنہوں نے خدا کو چھوڑا۔ جس طرح آئینہ میں اپنی تصویر نظر آتی ہے۔ اصل چیز یہی ہے اپنی شکل نظر آ رہی ہوتی ہے۔ یہ شکل جو اُس نے خواب میں دیکھی، وہ اُن لوگوں کا آئینہ تھا۔ وہ روحانی لحاظ سے کوڑھی ہو گئے اور ایسے لوگ پھر اپنے انجام کو بھی پہنچتے ہیں۔ نعوذ باللہ خدا نے مر کر اُن سے کنارہ کشی نہیں کر لی۔ اللہ تعالیٰ کو ایسا سمجھنے والوں کو خدا تعالیٰ بعض دفعہ اس دنیا میں بھی سزا دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ ایک طرف ہو کے بیٹھ نہیں جاتا بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے لوگوں کوسزا دیتا ہے۔ بلکہ متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا انجام یہی بتایا ہے کہ وہ جہنم میں جانے والے ہیں جو خدا کو بھول جائیں۔ پس اس مثال سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ خدا کو چھوڑ دیا یا بے طاقت تصور کر لیا توبات ختم ہو گئی، کچھ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ بدلہ لینے والا بھی ہے، سزا دینے والا بھی ہے اور اُس کا غضب جب بھڑکتا ہے تو پھر کوئی بھی اُس کے غضب کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ پس اس لحاظ سے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ خدا کو بھول گئے اور قصہ ختم ہو گیا۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ: عجیب بات ہے کہ ہمارے علماء حضرت عیسیٰ کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ روح پیدا نہیں کرتے جس سے اللہ تعالیٰ کا فہم اور ادراک پیدا ہو۔ ہماری اصل کوشش خدا تعالیٰ کو زندہ کرنے کی اور اُس سے زیادہ تعلق پیدا کرنے کی ہونی چاہئے۔ اگر خدا سے ہمارا زندہ تعلق ہے تو چاہے عیسیٰ کو زندہ سمجھنے والے جتنا بھی شور مچاتے رہیں، ہمارے ایمانوں میں کبھی بگاڑ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ خدا ہر قدم پر ہمیں سنبھالنے والا ہو گا۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 456 خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس بیشک وفاتِ مسیح، ختمِ نبوت یا جودوسرے مسائل ہیں جن کا اعتقاد سے تعلق ہے اُن کا علم ہونا تو بہت ضروری ہے اور ان پر دلیل کے ساتھ قائم رہنا بھی ضروری ہے، بغیر دلیل کے نہیں، لیکن عملی اصلاح کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہو گا اور اس کے لئے وہ ذرائع اپنانے ہوں گے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے۔ ہمیں اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہو گا۔ جو ہم دوسروں کو کہیں اُس کے بارے میں اپنے بھی جائزے لیں کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں جماعت احمدیہ کے جوجامعات ہیں جہاں مبلغین اور مربیان تیار ہوتے ہیں، ان میں نوجوان مربی اور مبلغ بننے کے لئے بہت سارے بچے داخل ہو رہے ہیں اور خاص طور پر پاکستان میں بڑی تعداد میں بچے جامعہ میں آتے ہیں۔ ان میں بہت کثرت سے واقفینِ نو بھی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعداد کی کثرت معیار میں کمی کر دیتی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ مثالیں بھی سامنے آتی ہیں کہ روحانی معیار کے حصول میں کوشش نہ کرنے، بلکہ بعض غلط عادتوں کی وجہ سے اور صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ مربی اور مبلغ کا کیا تقدس ہونا چاہئے جب ایسے لڑکے بعض حرکتیں کرتے ہیں تو پھر اُن کو جامعات سے فارغ بھی کیا جاتا ہے۔

پس وہ زمانہ جو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ احمدیت کی ترقی کا آنے والا ہے، اس کی تیاری کے لئے مربیان بننے والے، مبلغین بننے والے اپنے آپ کو بہت زیادہ تیار کریں۔ کوئی معمولی کام نہیں جو اُن کے سپرد ہونے والا ہے۔ ابھی سے خدا تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کریں اور اس کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو نشانات ہمیں دکھائے، اسلام کی جو حقیقی تعلیم دوبارہ کھول کر واضح فرمائی، اُسے سامنے رکھیں۔ صرف مسائل کو یاد کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدودنہ رکھیں۔ مجھے قادیان سے کسی عالم نے لکھا کہ آجکل کھلے جلسے جو مخالفین کے جواب دینے کے لئے پہلے ہندوستان میں منعقد ہوتے تھے، اب نہیں ہوتے، ہم اُن جلسوں میں ایسے تابڑ توڑ حملے مخالف علماء پر کرتے تھے کہ ایک کے بعد دوسرے حملے نے اُنہیں زِچ کر دیا تھا۔ ٹھیک ہے یہ اچھی بات ہے کہ کرتے تھے۔ مخالفین کے جواب دینے چاہئیں، بلکہ دلائل کے ساتھ اُن کی باتوں کے ردّ اُن پر ہی پھینکنے چاہئیں لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور ضروری ہے کہ ہمارے معلمین اور مبلغین اور مربیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی حالت میں بھی وہ ترقی کرتے کہ ہر ایک کا وجود خود ایک نشان بن جاتا۔ اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے بلکہ وہ ترقی کریں کہ خود ایک نشان بن جائے۔ اور اسی نمونے کو دیکھ کر لوگ جماعت میں داخل ہوں۔ بعض دفعہ نمونے دیکھ کر داخل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ معیار پیدا نہیں ہوا۔ اسی لئے ہندوستان میں بہت سے معلمین کو فارغ کرنا پڑا۔ لگتا تھا کہ بعض پر دنیا داری غالب آ گئی ہے۔ پس یہ خط لکھنے والے بھی اور ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے کہ اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معلمین، مبلغین یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے۔ خشک دلائل سے لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے اور غیر احمدی مولویوں کو دوڑانے پر ہی ہمیں اکتفا نہیں کر لینا چاہئے اور اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمارے پاس جو خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات اور معجزات ہیں، اُس سے خدا تعالیٰ کی ہستی دنیا کو دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے، اُس سے لوگوں کے دلوں کو قائل کریں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مثال دی ہے کہ اگر سورج چڑھا ہو اور کوئی کہے کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو دوسرا اُسے سورج چڑھنے کی دلیلیں دینی شروع کر دے کہ اتنے بجے سورج نکلنے کا وقت ہوتا ہے، اتنے بجے غروب ہوتا ہے اور سائنس یہ کہتی ہے اور فلاں کہتی ہے۔ پس یہ جو دلیلیں ہیں توکہتے ہیں کہ دلیل دینے والا بھی احمق ہی ہو گا جو دلیلیں دینے بیٹھ گیا، اُس کا سادہ علاج تو یہ تھا کہ سورج کی دلیل پوچھنے والے کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ اونچا کرتا اور کہتا کہ وہ سورج ہے، دیکھ لو۔ اُن کو دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تمہاری بیوقوفانہ باتوں کا جواب اس وقت سورج کا وجود ہے۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ بھی ہمارے سامنے جلوہ گر ہے۔ وہ بھی عریاں ہو کر اپنی تمام صفات کے ساتھ دنیا کے سامنے رونما ہو گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ وہ اپنے سارے حسن کے ساتھ جلوہ نما ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17 صفحہ 457 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء)

پس واعظین کا یہ کام ہے کہ سورج کے وجود کی دلیلیں دینے والے احمق بننے کے بجائے تازہ نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو ہر دم ہمارے ساتھ ہے، اُس سے یہ سچائی ثابت کریں۔ لیکن بات وہی ہے کہ اپنی حالتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنائیں۔ جماعت کی عملی قوت کو مضبوط کریں۔ جماعت کے بچوں، عورتوں اور مردوں کے سامنے یہ باتیں پیش کریں اور بار بار پیش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا، اُنہیں بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کس طرح خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا، اُنہیں سمجھائیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ پھر دیکھیں کہ جو نوجوان دنیا داری کے معاملات میں نقل کی طرف رجحان رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے بنیں گے۔ پھر صرف چند مربیان یا علماء غیر از جماعت مولویوں کے چھکے چڑانے والے نہیں ہوں گے بلکہ یہ نمونے جو ہمارے نوجوان مرد، عورتیں، بچے قائم کر رہے ہوں گے یہ دنیا کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے۔ پس اپنی عملی حالتوں کی درستی کی طرف توجہ کی سب سے پہلے ضرورت ہے۔

اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی۔ خلافت کی پہچان اور اُس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہو جانا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو، کسی بات کو سن کر انقباض نہ ہو۔

خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے۔ اور پھر عہدیداران کا کام ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں۔ بعض ایسی مثالیں بھی سامنے آ جاتی ہیں کہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے یہ غلط کام کیا اور یہ غلط فیصلہ کیا یا فلاں فیصلے کو اس طرح ہونا چاہئے تھا۔ بعض قضا کے فیصلوں پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں۔ یا فلاں شخص کو فلاں کام پر کیوں لگایا گیا؟ اس کی جگہ تو فلاں شخص ہونا چاہئے تھا۔ خلیفہ وقت کی فلاں فلاں کے بارے میں تو بڑی معلومات ہیں، علم ہے، اور فلاں شخص کے بارے میں اُس نے باوجود علم ہونے کے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس قسم کی باتیں کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ اگر مربیان اور ہر سطح کے عہدیداران، پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، ہر تنظیم کے اور جماعتی عہدیداران اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں تو بعض دلوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، کبھی پیدا نہ ہوں۔ خاص طور پر مربیان کا یہ کام ہے کہ اُنہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ تمام برکتیں نظام میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو جب کسی قوم پر لعنت ڈالنا چاہتا ہے تو نظام کو اُٹھا لیتا ہے۔ پس جب یہ باتیں ہر ایک کے علم میں آ جائیں گی تو بعض لوگ جن کو ٹھوکر لگتی ہے وہ ٹھوکر کھانے سے بچ جائیں گے۔ ایسا طبقہ چاہے وہ چند ایک ہی ہوں ہمیشہ رہتا ہے جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتا ہے اور ادھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کرتا رہتا ہے کہ خلیفہ خدا تو نہیں ہوتا، وہ بھی غلطی کر سکتا ہے، جیسا کہ عام آدمی غلطی کر سکتا ہے، ٹھیک ہے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا ہے۔ اور یہ جواب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دیا، ہر وقت اور ہر دَور کے لئے ہے۔ اگر خلافت برحق ہے، اگر خلافت پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام دیا گیا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ خداتعا لیٰ فرماتا ہے کہ خلفاء جن امور کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ہم ان امور کو دنیا میں قائم کر کے رہتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ (النور: 56) یعنی وہ دین اور وہ اصول جو خلفاء دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اُسے دنیا میں قائم کر کے رہیں گے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 458 خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس یہ باتیں جماعت کے ہر فرد کے دل میں راسخ ہونی چاہئیں اور یہ مربیان اور اہلِ علم کا کام ہے کہ اسے ہر ایک کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ پس اس ذمہ داری کو سمجھیں، اس بات کے پیچھے پڑ جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکات اور آپ کے فیوض لوگوں پر ظاہر کرنے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات کا بار بار تذکرۃ کرنا ہے، لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟ اور خلیفہ وقت کی ہر صورت میں اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی ایک اہمیت ہے اور ہر ایک پر یہ اہمیت واضح ہونی چاہئے۔

پس جب یہ ہو گا تو دلوں کے وساوس بھی دُور ہوں گے۔ اور اس طریق سے وساوس دور کرنے والوں کی تعداد، یا جن کے دلوں کے وساوس دور ہو جائیں اُن کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ہر فتنہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ جماعت میں ہر لحاظ سے عملی اصلاح کا ہر پہلو نظر آ رہا ہو گا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا بڑا مقصد ہے۔

یاد رہنا چاہئے کہ ہمیں ختمِ نبوت اور وفاتِ مسیح کے متعلق مسائل جاننے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت مخالفین کے جواب دینے کے لئے ہے لیکن عمل اور عرفان کو بھی اپنی جماعت میں رائج کرنے کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے۔ پس جتنی توجہ ہم نے باہر کے محاذ پر دینی ہے، اتنی بلکہ اُس سے بڑھ کر اندرونی محاذ پر بھی ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ ہماری روحانی پاکیزگی اور ہماری عملی اصلاح انشاء اللہ تعالیٰ زیادہ بڑا انقلاب لانے کا باعث بنے گی، بہ نسبت اس تبلیغ کے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد یقینا بڑا اہم ہے کہ ’’اگر وہ‘‘ یعنی علماء اور مربیان ’’قلوب کی اصلاح کریں اور لوگوں کے دلوں میں عرفان اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں تو کروڑوں کروڑ لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ  (النصر: 2۔ 4) کہ اگر تبلیغ کے ذریعہ تم اپنے مذہب کی اشاعت کرو گے تو ایک ایک دودو کر کے لوگ تمہاری طرف آئیں گے، لیکن اگر تم استغفار اور تسبیح کرو اور اپنی جماعت سے گناہ دور کر دو تو پھر فوج در فوج لوگ آئیں گے اور تمہارے اندر شامل ہو جائیں گے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 17 صفحہ 460 خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس وہ ہمارے عالم جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہم غیروں کے چھکے چھڑا دیا کرتے تھے۔ اس چھکے چھڑانے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو گا جو اپنی عملی اصلاح سے ہو گا۔ اس لئے عملی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور خلافت کے نائبین بننے کی کوشش کریں۔ خلیفہ وقت کے مددگاروں میں سے بننے کی کوشش کریں۔ سالوں ہم صرف علمی بحثوں میں نہیں الجھ سکتے بلکہ اگر ہم نے جماعت کو ترقی کی طرف لے جانا ہے اور انشاء اللہ لے جانا ہے تو ہمیں کچھ اور طریق اختیار کرنے ہوں گے اور وہ جیسا کہ میں نے کہا، یہ عملی اصلاح کا (طریق) ہے۔

پس ہمیں اپنے اعمال اچھے کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے دیانت اور امانت کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی آمد کے حلال ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ چند پیسوں کے لئے کونسل کو دھوکہ دے کر اپنی سچائی کے معیار کو داؤ پر لگا دیں اور benefit حاصل کر لیں یا روپے حاصل کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے کر دیں۔ ہمیں اپنے کام جو بھی ہمارے سپرد کئے جائیں، پوری تندہی اور محنت اور پوری خوش اسلوبی اور پوری دیانتداری سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہو گا تو دین کے ساتھ دنیا کے میدان بھی ہم پر کھل جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ غیروں پر عمومی طور پر جماعت کا اچھا اثر ہے لیکن اگر ہم بعض معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے اپنی دیانت اور امانت کے معیاروں کو ضائع کرنے والے بنیں تو ہر ایک شخص جو یہ حرکت کرتا ہے، جماعت کو بدنام کرنے والا بھی بنے گا۔

پس جہاں مربیان کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہاں ہر فردِ جماعت کو اپنے جائزے لے کر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہے جس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے صحیح استعمال اور اس سے صحیح فائدہ اُٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایمان میں ترقی کرو اور میں نے جو نیک اعمال بجا لانے کے لئے لائحہ عمل دیا ہے اُس پر عمل کرو۔ پس یہ عمل اور دعا اور دعا اور عمل ساتھ ساتھ چلیں گے تو حقیقی اصلاح ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، جس نے آجکل ہر حقیقی مومن کو بے چین کر دیا ہوا ہے اور وہ مسلمان ممالک کی قابلِ رحم حالت ہے۔ آج مسلم اُمّہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ماننے والوں کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔ پس یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کے لئے بہت دعا کریں۔ سیریا کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ حکومت نے بھی ظلموں کی انتہا کی ہوئی ہے اور حکومت مخالف گروپ جو ہیں انہوں نے بھی ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے۔ دونوں طرف سے ظلم ہو رہے ہیں۔ کسی کا قصور ہے یا نہیں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں کو بھی ظلموں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب جس کو چاہیں پکڑ کے لے جاتے ہیں، اور پھر بھوکا رکھا جاتا ہے، اذیت دی جاتی ہے۔ بعض کی تصویریں دکھائی گئی ہیں اُن کو دیکھ کر تو آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ مسلمان مسلمان پر اس قدر ظلم کر رہا ہے اور غیر مسلموں کو موقع دے رہا ہے کہ اسلام پر اعتراض کریں۔ گزشتہ دنوں بعض چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کے انٹرویو دکھائے جا رہے تھے، جو اپنے ماں باپ کو کھو بیٹھے ہیں یا کسی وجہ سے اُن سے علیحدہ ہو گئے، کھانے پینے کے لئے اُن کو کچھ نہیں ملتا۔ ادھر اُدھر ہاتھ مار کر گزارہ کرتے ہیں۔ جب پوچھنے والے نے بارہ تیرہ سال کے لڑکے سے پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بننا چاہو گے۔ تو اُس نے بڑے ہنس کر جواب دیا کہ ظاہر ہے کہ criminal بنوں گا۔ ہم چور، ڈاکو، بدمعاش اور دہشتگرد بنیں گے، اس کے علاوہ ہم کیا بن سکتے ہیں تا کہ اپنے بدلے لیں۔ اپنی کرسی بچانے کے لئے حکومت اور کرسی حاصل کرنے کے لئے اپوزیشن اپنی نسلوں کو برباد کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ اور ظالموں کے تسلط سے عوام کو بچائے اور اُنہیں انصاف پسند حکام عطا فرمائے۔

پاکستان میں بھی خاص طور پر احمدیوں پر ظلموں کی انتہا ہو رہی ہے۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ عام پاکستانی بھی ظلم کی چکّی میں پِس رہا ہے۔ اور لگتا ہے کہ ان حالات کی جو شدت ہے وہ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ دہشتگرد گروپ جو ہیں یہ بھی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں اور اس لئے ان پر قابو پانا بھی ان کے لئے مشکل ہے۔ پس دعا ہی ہے جو ان ظالموں کو عبرت کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے بھی اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو ختم کرے۔ اسی طرح دوسرے مسلمان ممالک ہیں، مصر ہے، لیبیا وغیرہ ہے اور دوسرے بھی۔ قریباً ہر جگہ حالات خراب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور اسلام کو بدنام کرنے کی جو ان کی مذموم کوششیں ہیں اُن سے محفوظ رکھے۔ جو بھی ظلم کرنے والے ہیں اُنہیں اللہ تعالیٰ عبرت کا نشان بنائے اور اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں رہنے والے ہر احمدی کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 31؍ جنوری 2014ء شہ سرخیاں

    عملی اصلاح کے لئے بیرونی علاج یا مدد کے طور پر دو قسم کے سہاروں کی ضرورت ہے۔ ایک نگرانی اور دوسرا جبر۔

    ہر معاشرے کے قانون میں نگرانی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے اور عملی اصلاح کرنے کے لئے دین بھی ہمیں اس کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

    ماں باپ، مربیان، عہدیداران، نظام ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں نگران بننا چاہئے۔

    دین کی طرف منسوب ہو کر پھر اُس کے قواعد پر عمل نہ کرنا اور اُسے توڑنا، ایک طرف تو اپنے آپ کو نظامِ جماعت کا حصہ کہنا اور پھر نظام کے قواعد کو توڑنا۔ یہ بات اگر ہو رہی ہے تو پھر بہرحال سختی ہو گی اور یہاں جبر سے یہی مراد ہے۔ نظام کا حصہ بن کر رہنا ہے تو پھر تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا۔

    ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک اعمال بجا لانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ان ذرائع کو اختیار کئے بغیراصلاحِ اعمال میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس ان ذرائع کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔ یعنی ایمان کا پیدا کرنا، علمِ صحیح کا پیدا کرنا، اور نگرانی کرنا اور جبر کرنا، یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیر اصلاح مشکل ہے۔ ان چاروں ذرائع کو جماعت کی اصلاح کے لئے بھی اختیار کرنا ضروری ہے۔

    معلمین، مبلغین یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے۔ خشک دلائل سے لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے اور غیر احمدی مولویوں کو دوڑانے پر ہی ہمیں اکتفا نہیں کر لینا چاہئے اور اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمارے پاس جو خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات اور معجزات ہیں، اُس سے خدا تعالیٰ کی ہستی دنیا کو دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے، اُس سے لوگوں کے دلوں کو قائل کریں۔ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی۔ خلافت کی پہچان اور اُس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہو جانا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو، کسی بات کو سن کر انقباض نہ ہو۔

    خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے۔

    اور پھر عہدیداران کا کام ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں۔ ہماری روحانی پاکیزگی اور ہماری عملی اصلاح انشاء اللہ تعالیٰ زیادہ بڑا انقلاب لانے کا باعث بنے گی، بہ نسبت اس تبلیغ کے۔

    مسلمان ممالک اور مسلم اُمّہ کی قابل رحم حالت کا تذکرہ اور دعاؤں کی تحریک۔

    آج مسلم اُمّہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ماننے والوں کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔ پس یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کے لئے بہت دعا کریں۔ قریباً ہر جگہ حالات خراب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور اسلام کو بدنام کرنے کی جو ان کی مذموم کوششیں ہیں اُن سے محفوظ رکھے۔ جو بھی ظلم کرنے والے ہیں اُنہیں اللہ تعالیٰ عبرت کا نشان بنائے اور اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں رہنے والے ہر احمدی کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

    فرمودہ مورخہ 31جنوری 2014ء بمطابق 31صلح 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور