پیشگوئی مصلح موعود، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے عظیم الشان کارناموں کا مختصر تذکرہ
خطبہ جمعہ 21؍ فروری 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
کل یعنی گزشتہ کل 20؍فروری کا دن گزرا ہے۔ یہ دن جماعت میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر دی تھی جو نیک، صالح اور بہت سی صفات کا حامل ہونا تھا۔ گزشتہ جمعہ کو بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات کے حوالے سے ذکر کیا تھا، آج بھی میں نے یہی مناسب سمجھا کہ 20؍فروری کے قریب کا جمعہ ہے اس وجہ سے اس پیشگوئی کا ذکر کروں جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک عظیم الشان نشان قرار دیا ہے۔ معترضین کے جواب میں آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ تم اعتراض تو کرتے ہو لیکن یہ بشری طاقتوں سے بالا تر ہے کہ ایسی پیشگوئی کی جائے۔ اور صرف بیٹا ہونے کی پیشگوئی نہیں کی جا رہی بلکہ ایسی صفات کا حامل بیٹا ہونے کی(پیشگوئی کی جا رہی ہے) جو لمبی عمر پانے والا بھی ہو گا اور جو آپ کی زندگی میں پیدا ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اس اعلان کو گہری اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کے نشانِ الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ آپ نے معترضین کو فرمایا کہ اگر شک ہو تو اس قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو، پیش کرو۔
فرمایا: اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے۔ اور جیسا کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی اسلام کی حقانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سب پر ثابت کرنا تھا۔ یہاں بھی آپ اس پیشگوئی اور نشان کو پیش فرما کر یہ نہیں فرما رہے کہ یہ میری صداقت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ فرمایا کہ اس نشانِ آسمانی کو خدائے کریم جل شانہٗ نے ہمارے نبی کریم، رؤوف الرحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے۔ اور فرمایا اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے۔ آپ نے وضاحت فرمائی کہ مردہ زندہ کرنا تو صرف اتنا ہی ہے کہ ایک روح تھوڑے عرصے کے لئے واپس منگوا لی، جیسا کہ بائبل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا بعض انبیاء کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ گو اس پر بھی اعتراض کرنے والوں کے اعتراض موجود ہیں۔ اور کسی مردہ کا زندہ ہونا اگر مان بھی لیا جائے تو اس سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ مگر یہاں بفضلہ تعالیٰ واحسانہٖ ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم خدا وند کریم نے اس عاجز کی دعا قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ99اشتہار نمبر34مطبوعہ ربوہ)
آپ فرماتے ہیں کہ ’’اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت؟ جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ درحقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے، حملہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر اُس کو یاد رکھناچاہئے، وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا بلکہ وہی خاک اُس کے سر پر، اُس کی آنکھوں پر، اُس کے منہ پر گر کر اُس کو ذلیل اور رسوا کرے گی۔ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و شوکت اُس کی عداوت اور اُس کے بُغض سے کم نہیں ہو گی بلکہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ ظاہر کرے گا۔ کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو۔ ایسے ہی تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آفتابِ صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ خدا تعالیٰ تمہارے کینوں اور بخلوں کو دور کرے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ100اشتہار نمبر34مطبوعہ ربوہ)
ان اعتراض کرنے والوں میں غیر مسلموں کے ساتھ بعض مسلمان بھی شامل تھے جن کو آپ نے یہ چیلنج دیا اور تنبیہ بھی فرمائی۔
بہر حال اس پیشگوئی کے تحت جیسا کہ ہم جانتے ہیں 1889ء میں جنوری میں وہ موعود بیٹا پیدا ہوا جس نے اسلام کی برتری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و شوکت کو قائم کرنے کے لئے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کا غیروں نے بھی اعتراف کیا۔
اس سے پہلے کہ مَیں حضرت مصلح موعودؓ کے بعض کارناموں کا ذکر کروں، پیشگوئی کے اصل الفاظ بھی آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ ان کے بار بار ہمارے سامنے آنے سے ہمیں اس کی عظمت و شوکت کا بھی پتا لگے اور اس کی حقیقت کا بھی پتا لگے۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے 20؍فروری 1886ء کو ایک اشتہار ’’رسالہ سراجِ منیر مشتمل بر نشانہائے رب قدیر‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا جو اخبار ریاض ہند امرتسرمیں یکم مارچ 1886ء کی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع ہوا۔ اس میں آپ نے لکھا کہ ’’ان ہر سہ قسموں کی پیشگوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالہ میں بہ بسط تمام درج ہوں گی‘‘ (یعنی تفصیلات کے ساتھ درج ہوں گی) ’’پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے۔ آج 20 ؍فروری86(عیسوی) میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے برعایت ایجاز و اختصار‘‘ (یعنی مختصر مضمون بیان کرتے ہوئے) ’’کلمات الٰہیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ۔
’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزوجل خدائے رحیم و بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جلّشانہٗ و عزّاسمہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں، باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے یہاں ہر قسم کا ابہام ختم کر دیا کہ بعد کی نسل میں یا ذرّیت میں نہیں پیدا ہو گا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا بیٹا ہو گا) فرمایا ’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل‘‘ (انجامِ آتھم میں جو پوری پیشگوئی ہے، عربی میں لکھی ہوئی ہے، وہاں عمانوایل لکھا گیا ہے تو اصل عمانوایل ہی ہے، بہر حال) پھر فرمایا ’’اور بشیر بھی ہے‘‘۔ اُس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے یا عمانوایل اور بشیر بھی ہے۔ ’’اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (…) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعُلَاء۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیًّا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ95-96 اشتہار نمبر33مطبوعہ ربوہ)
پس جیسا کہ میں نے کہا، یہ وہ خصوصیات ہیں جن کا حامل وہ بیٹا ہونا تھا اور ایک دنیا نے دیکھا کہ وہ بیٹا پیدا ہوا اور 52 سال تک خلافت پر متمکن رہنے کے بعد اپنی خصوصیات کا لوہا دنیا سے منوا کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اگر ان خصوصیات کی گہرائی میں جا کر دیکھیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے لئے کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی خطبہ میں یا کسی تقریر میں حضرت مصلح موعود کی زندگی اور آپ کے کارناموں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت میں اس حوالے سے ہر سال 20؍فروری کو جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور مقررین اور علماء اپنے اپنے ذوق اور علم کے مطابق اس مضمون کو بیان کرتے ہیں۔ مَیں بھی کئی مرتبہ اس مضمون کو بیان کر چکا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بھی بیان کر چکے ہیں۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مصلح موعود کی زندگی اور اس پیشگوئی کا مکمل احاطہ ہو گیا یا ہر ایک کو سمجھ آ گئی۔ بہر حال آج بھی مَیں اس پیشگوئی کے حوالے سے اس کے ایک آدھ پہلو کو لے کر حضرت مصلح موعود کی زندگی کی بعض باتیں پیش کروں گا۔ اور یہ بھی کہ اپنوں کو اور غیروں کو آپ کے علم و عرفان نے کس طرح متاثر کیا۔
اس سے پہلے میں حضرت مصلح موعود کی کتب اور لیکچرز اور تقاریر کا ایک جائزہ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اُس وقت ریکارڈنگ کا تو باقاعدہ انتظام نہیں تھا۔ اُن کے بعض لیکچر، تقاریر مکمل موجود ہیں، بعض نہیں۔ زُود نویس ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے اور بعض دفعہ پوری طرح لکھا بھی نہیں جاتا تھا۔
بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب، لیکچرز اور تقاریر کا مجموعہ ’’انوار العلوم‘‘ کے نام سے فضل عمر فاؤنڈیشن شائع کر رہی ہے۔ اس وقت تک انوار العلوم کی 24 جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ اور ان جلدوں میں آپ کے کُل 633 لیکچر اور تقاریر اور کتب آ چکی ہیں۔ اور فضلِ عمر فاؤنڈیشن کی سکیم ہے، اُن کا اندازہ ہے کہ 32جلدیں شائع ہوں گی۔ اور اس طرح کُل تقاریر، لیکچر اور کتب وغیرہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو کے قریب بن جائیں گے۔ 24 جلدوں میں مَیں نے کہا آ گئیں۔ 25 سے 29 جلدیں جو ہیں وہ تیار ہو گئی ہیں، ابھی چھپی نہیں ہیں۔ اُن میں 163 کتب، لیکچرز اور تقاریر شامل ہیں۔ پھر اُس کے بعد تین اور رہ جائیں گی۔ تو یہ تقریباً آٹھ سو سے اوپر چلی جائیں گی۔ اسی طرح خطباتِ جمعہ اور عیدین اور نکاح ہیں۔ ابھی تک جو لسٹ ملی ہے اس کے مطابق ان کی تعداد 2076 بنتی ہے۔ اور خطباتِ محمود کی اس وقت کُل 28 جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 1602 خطبات شامل ہیں۔ اور 1948ء سے 1959ء تک کے خطبات 29 سے 39 جلد میں شائع ہوں گے۔ ان میں بھی تقریباً 500 خطبات اور شامل ہو جائیں گے۔
تو یہ آپ کے علمی کاموں کا ایک ہلکا سا عمومی خاکہ ہے، اور اگر ہر خطبے اور ہر تقریر کو سنیں، ہر لیکچر کو دیکھیں تو علم و عرفان کے ایسے موتی پروئے ہوئے نظر آتے ہیں اور علم کی ایسی نہریں بہہ رہی ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بھی ایک دفعہ یہ تجزیہ پیش کیا تھا اور انہوں نے ایک پہلو ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کو لے کے فرمایا تھا کہ اس میں ہی اتنی وسعت ہے کہ اس کو بیان کرتے چلے جائیں تو ختم نہیں ہو سکتا۔
بہر حال اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ ’’ اس سلسلہ میں حضور کی ایک کتاب تو تفسیرِ کبیر ہے جو خود اتنی عجیب تفسیر ہے کہ جس شخص نے بھی غور سے اُس کے کسی ایک حصہ کو پڑھا ہو گا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ اگر دنیا میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوتا اور وہ صرف یہ حصہ قرآنِ کریم کا تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع کر دیتا تو یہ اُس کو دنیا کی نگاہ میں بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لئے کافی تھا۔ لیکن اس پر ہی بس نہیں، قرآنِ کریم پر اور بہت سی کتب لکھیں۔ اور ‘‘ خلیفہ ثالث فرماتے ہیں کہ ’’ میرا خیال ہے کہ حضور نے صرف قرآنِ کریم کی تفسیر پر ہی آٹھ، دس ہزار صفحات لکھے ہیں۔ اس وقت جو چھپی ہوئی صورت میں تفسیر کبیر کی دس جلدیں ہیں وہ تقریباً چھ ہزار صفحات بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ سورتوں کے نوٹس ہیں اور مختلف تقریروں میں بہت ساری جگہوں پر تفاسیر بیان کی گئی ہیں جو اس میں شامل نہیں۔ پھر کلام کے اوپر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دس کتب اور رسائل لکھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا جو اُس وقت جائزہ تھایہ اُس کے مطابق ہیں۔ تفسیرِ کبیر جو ہے دس جلدیں، اُس میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرۃ، پہلی دو سورتیں، پھر سورۃ یونس سے سورۃ عنکبوت تک، دسویں سورۃ سے لے کر انتیسویں سورۃ تک ہے۔ اُس کے بعد پھر بیچ میں لکھی نہیں گئیں، چھپی نہیں۔ پھر سورۃ النّبأ سے کر النَّاس تک ہے۔ گویا کہ تقریباً 59 سورتیں بنتی ہیں جن کی تفسیر لکھی۔ اور یہ جو تفسیر ہے تقریباً چھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو بہت باریک لکھا ہوا ہے۔ اگر آج کل کے حساب سے لکھا جائے تو شاید دس بارہ ہزار صفحات بن جائیں۔ بہر حال یہ دوبارہ پرنٹ ہو رہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ منظرِ عام پہ آجائے گی۔ قرآنِ کریم کی کُل 114 سورتیں ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ 55 سورتیں ابھی اس میں شامل نہیں۔ پھر کلام پر آپ کی دس کتب اور رسائل ہیں۔ آپ نے روحانیات، اسلامی اخلاق اور اسلامی عقائد پر 31 کتب اور رسائل تحریر فرمائے۔ سیرت و سوانح پر 13 کتب و رسائل لکھے۔ تاریخ پر چار کتب اور رسائل لکھے۔ فقہ پر تین کتب اور رسائل لکھے۔ سیاسیات قبل از تقسیمِ ہند25 کتب اور رسائل۔ سیاسیات بعد از تقسیمِ ہنداور قیامِ پاکستان 9 کتب اور رسائل، سیاستِ کشمیر 15 کتب اور رسائل۔ پھر تحریکِ احمدیت کے مخصوص مسائل اور تحریکات پر تقریباً 100 کتب اور رسائل۔ اس کے علاوہ بے شمار اور مضامین ہیں۔ جیسا کہ میں نے تفصیل بیان کی کہ یہ تعداد سینکڑوں میں چلی جاتی ہے۔ تقریباً 800 سے اوپر چلی جائے گی۔
تو خلیفہ ثالث فرماتے ہیں کہ ’’جیسا کہ فرمایا تھا کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ان پر ایک نظر ڈال لیں تو ان میں علومِ ظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علومِ باطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا، ہر شخص نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا۔ سیاست میں جب بھی آپ نے قیادت سنبھالی یا جب بھی آپ نے سیاست کے بارے میں قائدانہ مشورے دئیے، بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بے مثال قابلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ (ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ حضرت مصلح موعود ؓ نمبرمئی، جون، جولائی2009ء صفحہ64-65)
غرض حضور کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے متعلق ایک بڑی تفصیل ہے جس کے ہزارویں حصہ تک بھی ہم نہیں پہنچ سکتے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا تھاکہ صرف تفسیر ہی حضرت مصلح موعود کے مقام کو منوانے کے لئے بہت کافی ہے۔ یقینا ان تفاسیر نے قرآنِ کریم کو سمجھنے کا جو نیا انداز اور علوم و معارف کے گہرے راز کھولے ہیں، وہ ہمیشہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حصہ رہیں گے۔
اس وقت مَیں آپ کی تفسیر پر بعض غیروں کے تبصرے پیش کرتا ہوں۔ علامہ نیاز فتح پوری صاحب حضرت مصلح موعود کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ : ’’تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے‘‘۔ (یہ احمدی نہیں تھے) ’’اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحّر علمی، آپ کی وسعتِ نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسن و استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے۔ اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔ کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ آپ نے ’’ھٰؤلَآء بَنَاتِیْ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد8صفحہ157مطبوعہ ربوہ) یہ اُس وقت انہوں نے دعا دی۔
پھر علامہ نیاز فتح پوری صاحب ہی ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں :
’’تفسیر کبیر برابر پیشِ نظر رہی اور رات کو تو بالالتزام اُسے دیکھتا ہوں۔ میں نے اُسے کیسا پایا، یہ بڑی تفصیل طلب بات ہے۔ لیکن مختصر یوں سمجھ لیجئے کہ میرے نزدیک یہ اردو میں بالکل پہلی تفسیر ہے جو بڑی حد تک ذہنِ انسانی کو مطمئن کر سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کے ادارے نے اس تفسیر کے ذریعہ سے جو خدمت اسلام کی انجام دی ہے وہ اتنی بلند ہے کہ آپ کے مخالف بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد7تعارفی نوٹ، مطبوعہ ربوہ)
جناب اختراورینوی صاحب (ایم۔ اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی)تفسیر کے بارے میں، پروفیسر عبدالمنان بیدل صاحب(سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج) کااپنا ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ:’’میں نے یکے بعد دیگرے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تفسیرِ کبیر کی چند جلدیں پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج، پٹنہ و حال پرنسپل شبینہ کالج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدیٰ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا کر انہوں نے اِن کے خیالات دریافت کئے۔ ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔ پروفیسر عبدالمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے؟ شیوخ خاموش رہے۔ کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں۔ مصر و شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا مرزا محمود کی تفسیر کے پائے کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی و فارسی کے علماء مبہوت رہ گئے۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد8صفحہ157-158مطبوعہ ربوہ)
پھر سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ نے ایک مختصر مکتوب کے بعد ایک مفصل مضمون بھی اخبار صدقِ جدید کو بھجوایا جس میں وہ صدقِ جدید کے ایڈیٹر کو لکھتے ہیں کہ ’’حصول دارالسلام کی جدو جہد میں مجھے جب جیل پہنچایا گیا تو تیسرے دن مجھے وجوہات نظر بندی تحریری شکل میں مہیا کئے گئے۔ جن میں میری گزشتہ تین چار برسوں کی تقریروں کے اقتباسات تھے۔ اور الزام یہ تھا کہ میں ہندوستان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں حیران تھا کہ مجھ جیسا چھوٹا آدمی اور یہ پہاڑ جیسا الزام۔ لیکن مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ میری تقریروں سے کچھ ایسا ہی مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں بھٹکا ہوا مسافر تھا جس کی منزل تو متعین تھی لیکن راستے کا پتا نہ تھا۔ مسلمانوں کی انجمنِ اتحاد المسلمین ہو یا کوئی اور جماعت، ان سب کی حالت یہی ہے۔ (کہتے ہیں کہ) دوسرے دن میں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا(جو اُن کے ایک دوست نے اسی جیل میں ہی دی تھی۔ ) جو میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ تو مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا۔ (یہ احمدی نہیں تھے) اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھ کو تلاش تھی۔ تفسیرِ کبیر پڑھ کر میں قرآنِ کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا (اُن کو لکھ رہے ہیں ) اپنا مسلک چھوڑ کر احمدیہ جیسی جماعت میں داخل ہونا، جس کو تمام علمائے اسلام نے ایک ہوّا بنا رکھا، کچھ معمولی بات نہیں۔ لیکن حق کے کھل جانے کے بعد یہاں خطرات کی پرواہ بھی کسی کو نہ تھی۔ تاہم سجدے میں گر کر شب و روز میں نے دعائیں شروع کیں کہ یا اللہ! مجھے صراط المستقیم دکھا۔ کئی ماہ اسی حالت میں گزر گئے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری سجدے کی زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میری دعائیں قبول ہوئیں کیونکہ احمدیت کو سچا سمجھنے کے عقیدے میں مستحکم ہو گیا اور قادیان سے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ سے میں نے درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ (پھر کہتے ہیں کہ) میری قید کا بڑا حصہ سکندرآباد جیل میں گزرا۔ وہاں کے جیلر ایک مسلمان اور علم دوست بھی تھے۔ قیدیوں کی پوری خط و کتابت اُن لوگوں کے علم میں رہتی ہے۔ کیونکہ اُن کے دستخط کے بعد ہی قیدیوں کے خطوط روانہ… ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات کچھ اچھی نہ تھی لیکن جرأت کی کمی کے باعث میری یہ کوشش رہتی تھی کہ قادیان کو لکھے ہوئے میرے خطوط حکامِ جیل کے علم میں نہ آنے پائیں۔ مجلس اتحاد المسلمین حیدرآباد ایک بڑی ہی ہر دلعزیز جماعت ہے۔ (یہ انڈیا کا حیدرآباد ہے) جیل کا عملہ جمعیت حتی کہ جیل کے سارے ہی قیدی مجھ سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آتے تھے۔ (یہ جو تنظیم تھی اس کی وجہ سے، تو کہتے ہیں) اگرچہ پہریداروں کے سوا مجھ سے کوئی نہ مل سکتا تھا، ان وجوہ سے حکام کے علم میں آئے بغیر میرے خطوط قادیان کو پوسٹ ہو جاتے تھے۔ لیکن جو خط قادیان سے آتا تھا وہ بہر صورت جیلر کے علم میں آنا ضروری تھا۔ جب قادیان سے بیعت کا فارم آیا تو جیل میں بڑی گڑ بڑ ہوئی۔ راز باقی نہ رہ سکا…۔ (کہتے ہیں ) آخر جیلر میرے پاس آئے اور میرا خط مع بیعت فارم کے اُن کے پاس تھا۔ مجھ سے بڑی ہی ہمدردانہ گفتگو کی کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ قرآن کی اس تفسیر کو چھوڑئیے۔ میں آپ کو مولانا ابوالکلام آزاداور مولانا مودودی کی تفسیرِ قرآن دیتا ہوں۔ آپ کے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے وہ دونوں تفسیریں لا دیں جو اصل میں ترجمہ تھے اور کہیں کہیں تفسیر تھی۔ بیعت کا فارم تکمیل کر کے بھیجنے سے قبل مَیں نے ان دونوں تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ تفسیرِ کبیر کے طالب علم میں اتنی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تمام تفاسیر پر تنقید کر سکے۔ چنانچہ میں نے جیلر صاحب کو بتلایا کہ ان دونوں تفاسیر میں کون کون سے مقامات مبہم ہیں۔ کہاں کہاں ترجمے کی غلطی ہے اور کہاں کہاں معنی محدود ہیں۔ مجھے ایسا کرنے میں آسانی اس لئے ہوئی کہ تفسیرِ کبیر میں لغتِ قرآن بھی موجود ہے۔ لَا یَمُسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ۔ صرف مطہر لوگ ہی قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں گے‘‘۔
تو کہتے ہیں ’’یہ تفصیل(میں نے) اس لئے لکھی ہے کہ مجھ پر سے یہ الزام دور ہو جائے کہ میں نے بیعت میں عجلت کی‘‘۔ میں نے غیروں کی تفسیریں بھی پڑھیں۔ پھر تفسیرِ کبیر پڑھی، موازنہ کیا اور مجھے سمجھ آ گئی۔ اور پھر کہتے ہیں اس کے بعد ’’بیعت کا فارم بھیج کر مَیں دعاؤں میں لگ گیا‘‘(کہ کہیں میری بیعت قبول بھی ہوتی ہے کہ نہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ) ’’اندیشہ غلط نہ نکلا۔ میری بیعت قبول کرنے سے پہلے حضور خلیفہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومتِ وقت کا بھی وفا دار رہے اور قانون کے اندر رہ کر کام کرے۔ میں نے جواب دیا کہ حضور کی تفسیر نے یہ ساری باتیں میرے دل پر نقش کر دی ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد جب قادیان سے مجھے معلوم ہوا کہ میری بیعت قبول کر لی گئی تو میں سجدے میں گر گیا۔ (پھر کہتے ہیں کہ) تفسیرِ کبیر میں ایک مقام پر میں نے پڑھا تھا کہ خلیفہ جو مصلح موعود ہو گاوہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہو گا۔ میں نے حضور سے درخواست کی۔ (یہ ابھی تک جیل میں تھے) کہ وہ میری رہائی کے لئے دعا فرمائیں۔ حضور خلیفہ صاحب نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رہائی کے سامان کرے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد میں رہا ہو گیا۔ خلیفہ موعود کی نسبت یہ پیشینگوئی کہ ’’وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہو گا‘‘ میں اس کا زندہ ثبوت ہوں۔ ‘‘ (ماخوذازتاریخ احمدیت جلد8صفحہ159تا162مطبوعہ ربوہ)
پھر مغربی مفکرین ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے مختلف مفکرین ہیں۔ اس وقت مَیں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اے۔ جے آربری(A.J.Arberry) جو برطانوی مستشرق ہیں۔ عربی، فارسی، اسلامیات کے سکالر ہیں۔ کہتے ہیں ’’قرآنِ شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ (یہ five volume کی بات کر رہے ہیں )۔ موجودہ جلد اس کارنامے کی گویا پہلی منزل ہے۔ کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا جماعت احمدیہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حوصلہ افزاء قیادت میں ہوتا رہا۔ کام بہت بلند قسم کا تھا۔ یعنی یہ کہ قرآنِ شریف کے متن کی ایک ایسی ایڈیشن شائع کی جائے جس کے ساتھ ساتھ اُس کا نہایت صحیح صحیح انگریزی ترجمہ ہو اور ترجمہ کے ساتھ آیت آیت کی تفسیر ہو۔ پہلی جلد جو اس وقت سامنے ہے، قرآنِ شریف کی پہلی نو سورتوں پر مشتمل ہے۔ شروع میں ایک طویل دیباچہ ہے جو خود حضرت مرزا بشیر الدین نے رقم فرمایا ہے۔ اس دیباچے میں حضرت نے لکھا ہے کہ جو کچھ اس تفسیر میں بیان ہوا ہے وہ اُن معارف کی ترجمانی ہے جو بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں اور مواعظ میں بیان فرمائے یا پھر آپ کے خلیفہ اول یا خود حضرت ممدوح نے جو بانیٔ سلسلہ کے خلیفہ ثانی ہیں بیان فرمائے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ترجمہ اور یہ تفسیر جماعت احمدیہ کے فہمِ قرآن کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہے‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد9صفحہ862-863مطبوعہ ربوہ)
پھر صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی، عربوں میں سے بھی ہیں۔ شام کے ایک ڈاکٹر انس صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں :حق اور نور کی تلاش میں مختلف علماء کی کتب اور تفاسیر پڑھیں جن میں سلطان العارفین، محی الدین ابنِ عربی اور محمد بن علی الحاتمی الطائی وغیرہ کی تفاسیر شامل تھیں لیکن کسی تفسیر میں وہ خوبی اور چاشنی اور لذت نہ پائی جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی تفسیر میں ملی۔ مَیں اپنی روح اور جسم کے ساتھ پیش آنے والے کشوف وغیرہ کی تفسیر کا متلاشی تھا۔ پھر جب جماعت کی ویب سائٹ پر موجود تفسیرِ کبیر کا مطالعہ کیا تو اس میں احمدی نور اور سچائی اور صداقت نظر آئی جس نے میرے دل کو موہ لیا۔
پھر مراکش کے جمال صاحب ہیں۔ ان کی طویل خط و کتابت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے چلتی رہی تھی۔ کہتے ہیں اس عرصے میں جو خط و کتابت کا عرصہ تھا مجھے مرکز سے تفسیرِ کبیر جلد اول کے ترجمہ کا تحفہ ارسال کیا گیا۔ میں نے جب اس تفسیر کو پڑھا اور اس کا دیگر تفاسیر سے موازنہ کیا تو زمین و آسمان کا فرق نکلا۔ یہاں الٰہی علوم اور حکمتوں کی کنہ کا بیان تھا اور شریعت کے مغز کا خلاصہ تھا جبکہ دیگر تفاسیر میں محض چھلکے پر اکتفا کیا گیا تھا۔ اس تفسیر کے مطالعہ نے میرے دل میں اسلام کی ایسی حسین تصویر پیش کی کہ جو روح تک اترتی چلی گئی۔
پھر حضرت مصلح موعود کے لیکچروں کا غیروں پر اثر آپ کے گہرے علم کا اعتراف ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے پنجاب لٹریری کی تحریک پر جس کے لیڈر جوتھے پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تھے، لاہور میں دو لیکچر دینے منظور فرمائے۔ اس کے مطابق حضور کا پہلا لیکچر ’’عربی زبان کامقام السنۂ عالم میں ‘‘کہ عربی زبان کا مقام دنیا کی زبانوں میں کیا تھا، کے موضوع پر 31؍ مئی 1934ء کو وائی ایم سی اے ہال میں جو مال روڈ پر لاہور میں تھا، شروع ہوا۔ اور اس کی صدارت جناب ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم۔ اے، پی ایچ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج نے کی۔ حضور کا لیکچر ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ اختتام پر جنابِ صدر نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقع ملا۔ سامعین میں علمی طبقہ کے ہر خیال کے اصحاب شامل تھے۔
لالہ کنور سین صاحب سابق چیف جسٹس کشمیر جو جناب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند تھے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تقریر اور صدر صاحب کی تقریر کے بعد اپنے شکرگزاری کے جذبات کا اظہار کیا، انگلش میں ایک تقریر کی۔ کہتے ہیں کہ آج قابل لیکچرر نے زبانِ عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکۃ الآراء تقریر کی ہے اُسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا اُس وقت میں نے خیال کیا تھا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کرتے ہیں۔ وہ کس طرح بیان کرتے ہیں ؟ کہتے ہیں کہ مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبانِ عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اُس نے کہا کہ اُسے یعنی عربی زبان کو تین وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ پہلی وجہ: اس لئے کہ مَیں عرب کا رہنے والا ہوں۔ دوسرے اس لئے کہ یہ قرآنِ مجید کی زبان ہے۔ تیسرے اس لئے کہ جنت میں عربی بولی جائے گی۔ کہتے ہیں مَیں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبانِ عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی۔ مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ مَیں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ مَیں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اُٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدّتوں میرے دل پر قائم رہے گا۔ (ماخوذاز تاریخ احمدیت جلد6صفحہ180-181مطبوعہ ربوہ)
پھر سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کے تاثرات ہیں۔ یہ صدر شعبہ تاریخ تھے۔ اسلامیہ کالج نے اسلام اور اشتراکیت (Islam and Communism) کے عنوان پر اخبار ’’سن رائز لاہور‘‘ (24مارچ1945ء) میں ایک نوٹ دیا جس کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ اور کمیونزم کے موضوع پر مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کا لیکچر سننے کا مجھے بھی فخر حاصل ہوا۔ یہ لیکچر بھی آپ کے دوسرے لیکچروں کی طرح جو مجھے سننے کا اتفاق ہوا ہے، عالمانہ، خیالات میں جلاء پیدا کر دینے والا اور پُر از معلومات تھا۔ مرزا صاحب خدا داد قابلیت کے مالک ہیں اور اس موضوع کے ہر پہلو پر آپ کو پورا پورا عبور حاصل ہے۔ اس وجہ سے آپ کے خیالات اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان پر توجہ کریں ‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد9صفحہ626مطبوعہ ربوہ)
بیرونی دنیا میں بھی اس کتاب کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ عموماً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام کا نظریہ شاید مودودی صاحب نے پیش کیا تھا۔ حالانکہ اس سے بہت پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بڑی عالمانہ قسم کی تقریر فرمائی تھی جو کتابی صورت میں شائع ہوئی ہوئی ہے اور اب اس کا انگلش میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔ جو انگریزی دان احمدی ہیں اُن کو بھی پڑھنا چاہئے اور جو لوگ معاشیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اُن کو دینی بھی چاہئے۔
پھر لالہ رام چند مچندہ صاحب کی ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ پر صدارتی تقریر ہے کہتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریکِ احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے اس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضور نے بیان فرمائی ہیں۔ مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’یہ میری غلطی تھی کہ اسلام صرف اپنے قوانین میں مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے۔ غیر مسلم کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہے۔ مَیں غیر مسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟‘‘ پھر کہتے ہیں ’’حضرت امام جماعت احمدیہ کا بار بار اور لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی نہایت قیمتی معلومات سے پُر تقریر سے ہمیں مستفید فرمایا‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد9صفحہ622-623مطبوعہ ربوہ)
پس یہ صرف ایک پہلو کی جھلک ہے جو پیشگوئی میں علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے بارے میں درج ہے۔ حضرت مصلح موعود نے علم و عرفان کا جو خزانہ ہمیں دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو پڑھنے کی ہمیں توفیق بھی عطا فرمائے اور جیسا کہ آپ کے مضامین کے عنوانات کی عمومی فہرست میں مَیں نے بتایا ہے مختلف نوع کے جو مضامین ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اُن سے بھی استفادہ کرنے کی توفیق دے اور ہم اپنا علم و عرفان بڑھانے والے ہوں۔ اس وقت مَیں نمازوں کے بعد ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے کا ہے۔ یہ حضرت سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے جو بِہار کی رہنے والی تھیں۔ ان کا نام مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ہے جو 17؍فروری کو بوقت ساڑھے نو بجے طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ ربوہ میں 82 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ میرے ماموں بھی تھے۔
24؍مارچ 1932ء کو پیدا ہوئے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام بیٹوں کی طرح آپ کو بھی بچپن میں وقف کیا ہوا تھا اور اس لحاظ سے آپ کی تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کرائے گئے تھے۔ آپ نے مدرسہ احمدیہ اور جامعۃ المبشرین قادیان میں دینی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک پرائیویٹ پاس کیا۔ 1958ء میں بی۔ اے پاس کیا۔ لاہور لاء کالج سے 1962ء میں اس شرط پر ایل ایل بی کیا کہ اس کی پریکٹس نہیں کرنی۔ 1962ء میں آپ خدماتِ سلسلہ کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے گئے۔ 1962ء سے 1969ء تک بطور پرنسپل سیکنڈری سکول سیرالیون میں خدمت کی توفیق پائی۔ علمی شخصیت کے مالک تھے۔ بیس سال کی محنت و تحقیق کے بعد قرآنِ کریم کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر و تفسیر کے بحر بے کراں کا احاطہ کرتے ہوئے قیمتی ارشادات اور اردو، فارسی اور عربی اشعار کا چناؤ اور الہام اکٹھے کر کے ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم فہم قرآن ‘‘ کے نام سے ایک بڑی اچھی اور ضخیم کتاب مرتب کی جو 2004ء میں شائع ہوئی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی، فارسی اور اردو ادب پر مشتمل اشعار کی دوسری کتاب بھی ’ادب المسیح‘ کے نام سے شائع کی۔ یہ بھی ایک بڑا اچھا شاہکار ہے۔ ان کی شادی 1959ء میں مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ماموں تھے، اُن کی بیٹی طاہرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ اور ان کے چار بچے تھے۔ ایک عزیزم مرزا سلیمان احمد، یہ امریکہ میں ہیں۔ اور تین بیٹیاں ہیں۔ امۃ المومن حنا جو ڈاکٹر خالد تسلیم احمد صاحب ربوہ میں ہیں، اُن کی اہلیہ اور ایک مینا مبارکہ، مرزا احسن احمد کی اہلیہ اور عبدالسمیع فرخ احمد خان کی اہلیہ ہیں۔ سیرالیون میں ایک عرصہ رہے ہیں۔ آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بو (Bo) شہر میں پہلی مرتبہ جماعت کے کسی سکول میں سائنس بلاک کا قیام عمل میں آیا۔ تو آپ کی اہلیہ کہتی ہیں بہت محنت اور توجہ سے سارا سارا دن کھڑے ہو کر اس بلاک کی تعمیر کروایا کرتے تھے۔ قمر سلیمان صاحب سیرالیون دورے پر گئے تھے تو کہتے ہیں سیرالیون کے لوگ ابھی تک صاحبزادہ صاحب کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔ یتیموں کی پرورش کا بھی خیال کرتے تھے۔ خاموشی سے اُن کی مدد کرتے رہتے تھے۔ اپنے دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دوستی خوب نبھاتے تھے۔ اپنے ایک بہت قریبی اور ہر دلعزیز دوست کی وفات کے بعد جس کی اولاد جو ابھی چھوٹی تھی، اُن کا بڑا خیال رکھا، اُن کی شادیاں کروائیں اور دوستی کے رشتے کو انہوں نے بڑا نبھایا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سب سے زیادہ فارسی زبان پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ فارسی بڑی اچھی ان کو آتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ اور اسی کی وجہ ہے کہ آپ نے جو تعلیم فہم القرآن کتاب لکھی ہے، یہ لکھی ہی نہیں جا سکتی جب تک اُس میں اچھی طرح مطالعہ نہ ہو۔ بہر حال آپ کی اہلیہ نے بتایا کہ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب یا شاید ساری کتب بیس پچیس مرتبہ انہوں نے پڑھیں۔ قادیان سے بھی بڑی غیر معمولی محبت تھی۔ دو چار سال سے اُن کی صحت کافی خراب تھی، پھر بھی پچھلے دو سال باقاعدگی سے قادیان جلسے پر جاتے رہے۔ دعا پر بھی آپ کو بڑا یقین تھا۔ آپ کی بیٹی نے بتایا کہ انہوں نے کسی صحابی کا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے درجات بلند ہوتے جا رہے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ میرے تو ایسے اعمال نہ تھے۔ اس پر اُنہیں بتایا گیا کہ تم نے جو اپنی نیک اولاد چھوڑی ہے وہ ہر وقت تیرے لئے دعا کرتی ہے اور اس سے ہر روز تیرے درجے میں اضافہ ہوتا ہے۔ کہتی ہیں، اپنے بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ میرے لئے دعا کرتے رہنا۔ اللہ کرے کہ ان کی اولاد نیکیوں پر قائم ہو۔ جس طرح کہ وہ دیکھنا چاہتے تھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اولاد اور اپنی جماعت کے لئے جو دعائیں کی ہیں اس دعا کے مصداق اور ان کے بچے بھی اور باقی افرادِ خاندان بھی اور جماعت بھی بنے۔ حضرت مصلح موعود نے بچوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کی اولادیں اور اُن کی اولادیں ابد تک تیری امانت ہوں جس میں شیطان خیانت نہ کر سکے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہوں۔ (میری سارہ۔ انوارالعلوم جلد13صفحہ189مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
اللہ تعالیٰ محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب سے مغفرت کا سلوک فرمائے، رحم کا سلوک فرمائے، آپ کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی حقیقت میں اُس خون کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں۔ مجھ سے بھی ان کا بہت گہرا تعلق تھا۔ خلافت سے پہلے بھی تھااور خلافت کے بعد تو پیار کا یہ تعلق بہت بڑھ گیا تھا۔ لیکن اس میں عاجزی اور اخلاص اور وفا کا بے انتہا اظہار تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے اور ان کی اولاد کو بھی خلافت سے خاص تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یوم مصلح موعود کے تعلق میں پیشگوئی مصلح موعود اور ’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘ کے حوالہ سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان کارناموں کا مختصر تذکرہ۔ حضرت مصلح موعودؓ کے علم و فضل سے متعلق غیروں کے اعتراف
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرزند مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کی وفات۔ مرحوم کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014 ء بمطابق21 تبلیغ1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔