مذاہب کانفرنس لندن میں حضرت مصلح موعودؓ کی شرکت
خطبہ جمعہ 28؍ فروری 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ جمعہ میں مَیں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشگوئی کے حوالے سے بات کی تھی اور اس ضمن میں آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کئے جانے کا ذکر ہوا تھا اور یہ بھی کہ آپ کے علم و معرفت اور قرآنِ کریم کے تفسیری نکات کا غیروں پر بھی اثر تھا اور اس بات کا انہوں نے برملا اظہار کیا۔ یہ اظہار، یہ کارنامے تو اتنے وسیع ہیں کہ مہینوں شاید سالوں بھی یہ ذکر چل سکتا ہے جو ظاہر ہے بیان کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ایک بات کا میں گزشتہ خطبہ میں ذکر کرنا چاہتا تھا جو وقت کی کمی کی وجہ سے مَیں نہیں کر سکا۔ آج اسی کا ذکر کروں گا۔
یہ بات آج سے 90 سال پہلے کی ہے اور اس شہر لندن سے اس کا تعلق ہے۔ آپ میں سے بہت سے جانتے ہوں گے کہ ستمبر 1924ء میں ایک مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی خود بنفسِ نفیس شامل ہوئے تھے۔ آجکل تو ہمارے تعارف بھی ہیں، تعلقات بھی ہیں اور احمدیوں پر دنیامیں مختلف جگہوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اُس کی وجہ سے بہت سی حقوقِ انسانی کی جو تنظیمیں ہیں، اُن کی بھی نظر ہے۔ پھر ان تعلقات کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ممبران اور پڑھے لکھے طبقے سے ہمارا یہاں بھی اور دنیا میں بھی تعارف ہے۔ لیکن اُس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو خاص حالات پیدا فرمائے اور خود کانفرنس کرنے والی انتظامیہ نے مشورے کے بعد آپ سے لندن آ کر کانفرنس میں دینِ اسلام کے بارے میں کہنے کے لئے درخواست کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت لئے ہوئے تھی۔ اور پھر جب ہم اُن حالات کو دیکھتے ہیں جو مالی لحاظ سے جماعت کے حالات تھے۔ اور اُس وقت آپ اپنے ساتھ گیارہ افراد کا وفد لے کے آئے تھے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ خود تو حضرت مصلح موعودنے اپنا خرچ ذاتی طور پر کیا، باقیوں کے لئے قرض لینا پڑا تھا۔ بہر حال پہلے تو یہاں نہ آنے کا فیصلہ ہوا، پھر دعا اور استخارے اور جماعت سے مشورے کے بعد یہ سفر ہوا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آئے۔ یہ خلیفۃ المسیح کا پہلا دورۂ یورپ تھا اور اس کے ساتھ عرب ممالک بھی شامل تھے۔ شام، مصر، فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں تو سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے کسی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد توحالات بگڑتے چلے گئے اور پابندیاں لگتی چلی گئیں۔ اس وقت مَیں اس کانفرنس کے مختصر حالات اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے بارے میں انگریزوں کے تاثرات بھی پیش کروں گا۔ یہ تاثرات جہاں آپ کی ذات کے علمی ہونے اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ساتھ ہونے کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس میں بعض تاریخی پہلو بھی ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو پتہ ہونے چاہئیں۔ اُس زمانے میں سفر تو بحری جہاز کے ذریعہ ہوتے تھے اور سفر میں کئی دن لگتے تھے۔ ایک روز حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے درمیان ڈیک پر نماز باجماعت پڑھا رہے تھے۔ نماز کے بعد فارغ ہو کر بیٹھے تھے۔ ساتھ ساتھی بھی بیٹھے تھے تو جہاز کے ڈاکٹر کا وہاں سے گزر ہوا جو Italian تھا۔ اس نے آپ کو بیٹھے دیکھا تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا کہ Jesus Christ and twelve disciples یعنی یسوع مسیح اور اُس کے بارہ حواری۔ یہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی روایت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ سنا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کہ ڈاکٹر جو تھا Italian تھا اور اس لحاظ سے پوپ کی بستی کا رہنے والا تھا اُس نے کیسی صحیح اور عارفانہ بات کی ہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 437مطبوعہ ربوہ)
حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو گیارہ ساتھی تھے ان میں بارہویں چوہدری محمد شریف صاحب وکیل تھے جو اپنے طور پر سفر میں شامل ہوئے تھے۔
اب اس کانفرنس جو ویمبلے کانفرنس کہلاتی ہے، اس کا تاریخی پسِ منظر اور اغراض و مقاصد بھی پیش کرتا ہوں۔ شروع 1924ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈرولیم لافٹس ہیئر (William Loftus Hare) نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ایک مذہبی کانفرنس بھی منعقد کی جائے۔ جس میں برطانوی مملکت کے، (اُس زمانے میں برطانیہ کی حکومت کی کالونیز تھیں، بہت جگہ پھیلی ہوئی تھی۔ )مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بھی دعوت دی جائے تا کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں اور اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں۔ نمائش کے منتظمین نے جن میں مستشرقین بھی شامل تھے اس خیال سے اتفاق کیا اور لندن یونیورسٹی کا علومِ شرقیہ کا سکول یعنی School of oriental studies جو ہے اُس کے زیرِ انتظام کانفرنس کے وسیع پیمانے پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی اور کانفرنس کا مقام اِمپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن مقرر کیا گیا اور 22؍ستمبر 1924ء سے 3؍اکتوبر1924ء تک کی تاریخیں رکھی گئیں اور کمیٹی نے ان مذاہب کے مقررین کو منتخب کیا اور اُن کو دعوت دی۔ ہندو مت، اسلام، بدھ ازم، پارسی مذہب، جینی مذہب، سکھ ازم، تصوف، برہمو سماج، آریہ سماج، کنفیوشس ازم وغیرہ۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 422مطبوعہ ربوہ)
اُس زمانے میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو 1923ء کے آغاز میں ہی لنڈن میں آئے تھے۔ وہ لندن میں تھے لیکن آپ کو اس کانفرنس کا علم نہیں ہو سکا تھا۔ جب کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ مقررین بھی تجویز ہو چکے۔ (یہ سارا کام ہو چکا تھا اُس وقت) اور 1924ء کا کچھ حصہ بھی گزر گیا تو کسی نے ایک جگہ بیٹھ کر یونہی بر سبیلِ تذکرہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ کے سامنے ذکر کیا جس پر آپ گئے اور کمیٹی کے جوائنٹ سیکرٹری ایم ایم شارپلز سے ملے۔ انہوں نے جب آپ کی باتیں سنیں تو محسوس کیا کہ اسلام کے متعلق احمدی جماعت کا نقطۂ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہئے۔ تو کمیٹی میں اس کا ذکر ہوا۔ کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر سر تھامس ڈبلیوآرنلڈ (Dr. Sir Thomas Walker Arnold) اُن کی شخصیت سے اور اُن کے علم سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ مقررین کے بارے میں بھی نیرّ صاحب سے ضرور مشورہ کر لیا جائے۔ آجکل بعض دفعہ ہم لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں کہ جی اب وقت گزر گیا، کچھ نہیں ہو سکتا۔ اُس وقت انہوں نے سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہمت کی، گئے اور ساری انتظامیہ کو قائل کر لیا۔ چنانچہ نیرّ صاحب کے ساتھ پھر اس پروگرام پر نظرِ ثانی ہوئی، اور ہندومت اور بدھ کے نمائندوں کے نام بھی اور اس کے علاوہ تصوف کی نمائندگی کے لئے بھی نیرّ صاحب سے مشورہ ہوا اور تصوّف کے لئے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لکھا گیا۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ حافظ روشن علی صاحب نہیں آ سکتے جب تک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جو امام جماعت احمدیہ ہیں، کی اجازت حاصل نہ کی جائے۔ تو کمیٹی میں جونہی یہ نام پیش ہوئے تو ڈاکٹر آرنلڈ اور پروفیسر مارگولیتھ (David Samuel Margoliouth) نے اور کمیٹی کے دوسرے ممبران نے نہایت خلوص اور محبت سے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے۔ اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں انگلستان کے جو بڑے بڑے مستشرقین تھے، اُن کا دعوت نامہ پہنچا۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 423-422)
بہر حال جیسا کہ میں نے کہا، بڑے سوچ و بچار کے بعد یہ دعوت قبول کی گئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کانفرنس کے لئے مضمون لکھنا شروع کیا اور اس کا ترجمہ اور اصلاح وغیرہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کی۔ لیکن جو مضمون لکھا گیا تھا تو وہ بہت لمبا بن گیا۔ اس کا کوئی حصّہ پڑھ کر سنانا مناسب نہیں تھا۔ اتنا وقت ہی نہیں تھا۔ کیونکہ سارا پڑھا نہیں جا سکتا تھا اور خلاصہ بیان کرنا مناسب نہیں تھا۔ اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ نیا مضمون لکھا جائے۔ چنانچہ پھر نیا مضمون لکھا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے لکھا اور اُس کا پھر ترجمہ ہوا۔ (ماخوذ از از انوار العلوم جلد8 صفحہ 423-422)
بہر حال آپ سفر پر روانہ ہوئے۔ جیسا کہ میں نے کہا 23؍ ستمبر 1924ء کو یہ کانفرنس شروع ہوئی۔ یہ دن سفرِ یورپ کی تاریخ جو ہے، اُس میں بھی سنہری دن تھا۔ اس دن ویمبلے کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا جو بے نظیر مضمون تھا، یہ پڑھا جانا تھا اور اس کے پڑھے جانے سے اسلام اور احمدیت کی شہرت کو چار چاند لگے۔ یورپ میں اسلام کا پیغام صحیح رنگ میں پہنچایا گیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کا جو ایک رؤیا تھا، اُس کا ذکر حضرت مصلح موعودنے تقریر میں بھی کیا ہے، وہ پوری آب و تاب سے پورا ہو گیا۔ یہ کہتے ہیں کہ مضمون کا وقت پانچ بجے شام مقرر تھا، جبکہ اس سے پہلے لوگ اڑھائی گھنٹے سے مسلسل بیٹھے اسلام سے متعلق باتیں سن رہے تھے، یا مذہب سے متعلق باتیں سن رہے تھے۔ مگر جونہی آپ کی تقریر کا وقت آیاتو نہ صرف لوگ پورے ذوق و شوق سے اپنی جگہ پر بیٹھے رہے بلکہ دیکھتے دیکھتے اور لوگ بھی ہال میں آنے شروع ہو گئے اور ہال بالکل بھر گیا۔ اس سے پہلے کسی لیکچر کے وقت حاضری اتنی زیادہ نہیں تھی۔ اجلاس کے صدر سر تھیوڈر ماریسن (Sir Theodore Morrison) تھے۔ انہوں نے حضور کا تعارف کروایا اور پھر نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ اپنے کلمات سے محظوظ فرمائیں۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جو اپنے رفقاء کے ساتھ، ساتھیوں کے ساتھ سٹیج پر تشریف رکھتے تھے، کھڑے ہوئے اور انگلش میں آپ نے مختصر سا خطاب کیا کہ ’’مسٹر پریذیڈنٹ، بہنو اور بھائیو! سب سے پہلے مَیں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طرح پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن کر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے؟‘‘ پھر آپ نے کہا کہ ’’اس کے بعد مَیں اپنے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنائیں‘‘۔ آپ نے کہا کہ ’’مَیں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی لکھے ہوئے پرچے پڑھنے کا عادی نہیں ہوں کیونکہ مَیں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور کئی کئی گھنٹے تک، چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں۔ فرمایا کہ مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک جاتا ہے۔ اور انسان کی دائمی راحت مذاہب سے وابستہ ہے۔ اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے‘‘۔
بہر حال چوہدری صاحب نے اُس مضمون کو پڑھنے پر تقریبًا ایک گھنٹہ لگایا اور بڑے پُرشوکت لہجے میں مضمون پڑھا گیا۔ اس کے باوجود کہ چوہدری صاحب کے گلے میں خراش تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص تائید فرمائی اور بڑے اعلیٰ رنگ میں انہوں نے مضمون پڑھا۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ چوہدری صاحب نے یہ مضمون جو پڑھا تھا، یہ اصل میں میری زبان تھی۔ یعنی چوہدری صاحب پڑھ رہے تھے لیکن چوہدری صاحب کی زبان نہیں تھی، میری زبان تھی۔) بہرحال اس مضمون پر حاضرین میں ایک وجد کی کیفیت طاری تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہیں۔ تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے۔ جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو اُن کے لئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اچھل پڑتے۔ غلامی، سود اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا۔ اس حصہ مضمون کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا۔ ایک گھنٹے کے بعد لیکچر ختم ہوا تو لوگوں نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ اور بڑی دیر تک تالیاں بجائیں۔ جبکہ اجلاس کے جو پریذیڈنٹ تھے اُن کو کئی منٹ تک انتظار کرنا پڑا۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 452-451 مطبوعہ ربوہ)
یہ مضمون انوار العلوم کی آٹھویں جلد میں موجود ہے۔
بہر حال خلاصۃً یہ کہ اس مضمون میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے جماعت احمدیہ کی بنیاد اور قیام کا ذکر کیا، جو 1889ء میں پڑی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ مہدی ہونے کا تھا جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور اسی طرح مسیح ہونے کا دعویٰ تھا جس کی پیشگوئی انجیل اور اسلامی کتب میں بھی موجود ہے۔ اور آپ کے اس دعویٰ کی وجہ سے آپ کو ہر جگہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمان علماء نے بھی بڑھ بڑھ کر آپ کی مخالفت کی۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ کے گرد لوگ جمع ہونے شروع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک جماعت بن گئی اور پھر جماعت دنیا کے مختلف ممالک میں بھی آہستہ آہستہ بننی شروع ہوئی۔ مَیں مضمون کا خلاصہ بیان کر رہا ہوں اور خلاصہ کیا؟ اس کو انتہائی خلاصہ کہہ سکتے ہیں، پوائنٹس جو تھے، ویسے تو جو مختصر مضمون لکھا گیا ہے اس میں بھی مَیں نے جیسا کہ بتایا ایک گھنٹہ لگا تھا اور جو پہلا لکھا گیا تھا، ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ وہ تو کافی لمبی کتاب بن جاتی ہے۔ بہر حال پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد خلافت کا نظام جاری ہوا اور اس خلافت کے نظام کے تحت یہی مشن چلتے رہے اور دنیا کے درجنوں ممالک جو ہیں، وہاں جماعت کا قیام ہوا۔ ہر مذہب کے لوگ اسلام میں، جماعت میں شامل ہونا شروع ہوئے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ واضح فرمایا کہ پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کی ضرورت اس زمانے میں ہونی تھی۔ کیونکہ یہی زمانہ تھا جس کی حالت یہ ہے کہ جو نشانیاں بتائی گئی تھیں ان کے مطابق جس میں کوئی نہ کوئی مصلح اور مسیح موعود آتا ہے جن کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ پھر آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا تھاکہ خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے کلام کرتا ہے۔ اُن کی دعائیں سنتا ہے۔ خدا رحیم و مشفق ہے۔ اُس نے مسیح موعود کو بھیج کر اس زمانے میں بھی دنیا کی اصلاح کے سامان کئے ہیں۔ حضرت مسیح موعودنے خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین پیدا کروا کر اور اُس کی توحید ثابت کر کے اُس سے تعلق پیدا کروا کر آج بھی اللہ تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور یہ بھی واضح طور پر بتایا کہ اگر کوئی مذہب خدا کے وجود کی کامل شناخت نہیں کروا سکتا تو وہ مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ پھر حضرت مصلح موعودنے اپنے مضمون میں انبیاء کی حیثیت اور ہر فردِ بشر کے خدا سے تعلق، تا کہ روحانی ترقی ہو، اس کی بھی وضاحت فرمائی۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت مسیح موعودنے اس بات کو بڑی حکمت اور دوراندیشی سے بیان فرمایا کہ قرآنِ کریم گو آخری اور کامل شریعت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان عقلی ترقی کے آخری دور تک پہنچ چکا ہے۔ بلکہ قرآن کی آخری کتاب ہونے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے اندر علموں کا گہرا خزانہ چھپا ہوا ہے جو اُس کو ملتا ہے جو اس کی تلاش میں سنجیدہ ہو۔ اور سنجیدگی کے ساتھ جب اس کی تلاش کی جائے، جہاں روحانی ترقی ہوتی ہے، وہاں دوسرے چھپے ہوئے دنیاوی اور علمی مضامین بھی ہر ایک کو اُس کے ذوق کے مطابق قرآنِ کریم سے ملتے ہیں۔ پھر حضرت مصلح موعودنے یہ بھی فرمایا کہ قرآنِ کریم اس اعتراض کو ردّ کرتا ہے جو مسلمانوں پر کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا اور اس کی دلیل یہ پیش کی جو قرآنِ کریم کی آیت ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ جنگ کی صرف اس وقت اجازت ہے جب اسلام کو برباد کر دینے کی کوشش کی جائے، نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ پھر مختلف موضوعات ہیں جو اس تقریر میں آپ نے بیان فرمائے۔ مثلاً غلامی، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ حرمتِ سود، تعددِ ازدواج، طلاق، اخلاقی تعلیم، حیات بعد الموت۔ یہ ساری باتیں جو تھیں، اس پر اسلامی نظریہ کیا ہے اس پر روشنی ڈالی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت دئیے۔ آپ علیہ السلام کی تائید میں الٰہی نشانات کا ذکر فرمایا۔ پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رؤیا کا بھی ذکر فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے یہ دیکھا تھا کہ آپ لندن میں ایک سٹیج پر کھڑے ہیں اور اسلام پر ایک تقریر فرما رہے ہیں۔ اور بعد ازاں آپ نے چند پرندے پکڑے۔ آپ نے اس کی تعبیر یہ کی کہ آپ کی تعلیم کی لندن میں تبلیغ کی جائے گی اور آپ کی معرفت لوگ اسلام میں داخل ہوں گے۔ اور پھر اس کی جو پہلی تعبیر ہے وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو یہ تقریر تھی اس صورت میں پوری ہوئی۔
پھر حضرت مصلح موعودنے حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی تعصب سے پاک ہو کر چالیس دن تک صداقت جاننے کے لئے دعا کرے تو اُس پر صداقت کھل جائے گی۔ وہ پیرا پڑھا گیا۔ وہ اقتباس پڑھا گیا۔ (ماخوذ از دورہ یورپ/مجمع البحرین، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 388 تا 414)
آخر میں حضرت مصلح موعودنے اس مضمون کو اس طرح بند کیا کہ:
بہنو اور بھائیو! خدا کی روشنی تمہارے لئے چمک اٹھی ہے اور وہ جس کو دنیا بوجہ مرورِ زمانہ ایک عجیب فسانہ خیال کرنے لگی تھی تمہاری عین آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے۔ خدا کا جلال ایک نبی کے ذریعے تم پر ظاہر کیا گیا ہے۔ ہاں ایسا نبی جس کی بعثت کی خبر نوح سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء نے پہلے سے دی تھی۔ خدا نے آج تمہارے لئے پھر یہ امر ثابت کر دیا کہ میں صرف ان کا خدا نہیں جو مر چکے ہیں بلکہ ان کا بھی خدا ہوں جو زندہ ہیں۔ اور نہ صرف ان کا خدا ہوں جو پہلے گزر چکے ہیں بلکہ ان کا بھی خدا ہوں جو آئندہ آئیں گے۔ پس تم اس روشنی کو قبول کرو اور اپنے دلوں کو اس سے منور کر لو۔ بہنو اور بھائیو! یہ زندگی عارضی ہے لیکن یہ خیال کرنا غلطی ہے کہ اس کے بعد فنا ہے۔ فنا تو کوئی چیز ہی نہیں۔ روح کو فنا کے لئے نہیں بلکہ ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اپنی پیدائش کے لمحے سے لے کر انسان ایک نہ ختم ہونے والے رستے پر چلنا شروع کر دیتا ہے اور سوائے اس کے کہ موت اس کی رفتار کی تیزی کا ذریعہ ہو اور کچھ نہیں۔ یہ کیا بات ہے کہ تم جو چھوٹے چھوٹے مقابلوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی لگاتار کوشش میں لگے رہتے ہو اس بڑے مقابلہ کو نظر انداز کر رہے ہو جس میں ماضی، حال اور مستقبل کی تمام پشتوں کو لازماً حصہ لینا پڑے گا۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ مشرق میں ایک فرستادہ مبعوث کیا گیا اور خدا نے اس کے ذریعہ سچائی کو تمہارے دروازوں تک پہنچا دیا ہے۔ تم سچے دل سے اس فضل کا شکریہ ادا کرو جو تم پر کیا گیا تا تم پر زیادہ فضل نازل کئے جائیں اور تم اس کی رحمت کو لینے کے لئے آگے دوڑو تا تمہارے لئے اس کی محبت ایک جوش مارے۔ یہ کیا بات ہے کہ تم جو تمام ان نیند آور چیزوں کو جو دماغ میں سستی پیدا کریں نفرت سے دیکھتے ہو کس طرح ایسی چیز سے مطمئن ہو جو نفع رساں نہیں اور روح کی خواہشات کو دبانے والی ہے۔ تم بتوں کے سامنے جھکنے سے تو انکار کرتے ہو پھر کس طرح تم ایسے بت کے آگے جھکتے ہو جس میں زندگی کی کوئی علامت نہیں۔ آؤ اور اس ربّانی شرابِ زندگی کو پیو جو خدا نے تمہارے لئے مہیا کی۔ یہ ایسی شراب ہے جو عقل کو ہلاک کرنے والی نہیں بلکہ اس کو مضبوط کرنے والی ہے۔
خوش ہو جاؤ اے دلہن کی سہیلیو! (یہ بائبل کے حوالے سے آگے اُس رنگ میں بیان فرمایا) کہ خوش ہو جاؤ اے دلہن کی سہیلیو! اور خوشی کے گیت گاؤ کیونکہ دولہا آ پہنچا ہے۔ وہ جس کی تلاش تھی مل گیا ہے۔ وہ جس کا انتظار کیا جا رہا تھا یہاں تک کہ انتظار کرنے والوں کی آنکھیں مدھم پڑ گئی تھیں اب تمہاری آنکھوں کو منور کر رہا ہے۔ مبارک ہے وہ جو خدا کے نام پر آیا۔ ہاں مبارک ہے جو خدا کے نام پر آیا۔ وہ جو اس کو پا لیتے ہیں سب کچھ پا لیتے ہیں اور وہ جو اس کو نہیں دیکھ سکتے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔‘‘ (انوار العلوم جلد 8 صفحہ-415 416۔ دورہ ٔیورپ)
آپ نے یہ مضمون یہاں ختم فرمایا۔ پس بڑی حکمت سے، بڑی جرأت سے آپ نے اسلام کی خوبیاں بھی بیان کیں اور دعوتِ اسلام بھی دی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، یہ ایک گھنٹے سے زائد کی تقریر تھی۔ اس کا انتہائی مختصر خلاصہ چندنکات کے حوالے سے مَیں نے پیش کیا ہے۔ بہر حال اس تقریر کا حاضرین پر جو اثر ہوا اُس کے بارے میں مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کانفرنس کے صدر اجلاس نے کہا، جو الفضل کی رپورٹ میں درج ہے کہ:
’’مرزا بشیر الدین امام جماعت احمدیہ کے مضمون پڑھے جانے پر سر تھیوڈور ماریسن نے اپنے پریذیڈنشل ریمارکس میں کہا کہ اس (یعنی احمدیہ) سلسلہ اور ایسے ہی زمانِ حال کے دوسرے سلسلوں کا پیدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے جس کی تجدید کے متعلق لوگ اعلیٰ مطالعہ جاری رکھتے ہیں۔ مرزا بشیر الدین نے جن کے ہمراہ بہت سے سبز عماموں والے متبعین تھے فرمایا کہ سلسلہ احمدیہ سلسلہ موسویہ میں سلسلہ عیسویہ کی طرح اسلام میں ایک ضروری اور قدرتی تجدید ہے جس کی غرض کسی نئے (شرعی) قانون کا اجراء نہیں بلکہ اصلی اور حقیقی اسلامی تعلیم کی اشاعت کرنا ہے۔‘‘ (الفضل 30ستمبر 1924ء نمبر 35جلد 12صفحہ 2)
پھر پریذیڈنٹ نے کہا ’’مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے۔ میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبیٔ ترتیب، خوبیٔ خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریقِ استدلال کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حاضرین کے چہرے زبانِ حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں۔ اور مَیں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ مَیں اُن کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور اُن کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ پھر حضور کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ مَیں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارک باد عرض کرتا ہوں۔ آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے۔‘‘ اور اس کے بعد بھی سر تھیوڈر ماریسن جو تھے، وہ سٹیج پر بڑی دیر تک کھڑے رہے اور بعد میں اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 453-452)
مضمون کے یہ پوائنٹ میں نے اس لئے بتائے ہیں کہ اس مضمون میں اسلام کی تبلیغ کی گئی تھی۔ آخر میں جو پورا پیراپڑھا گیا ہے۔ اُس میں تو صاف بتایا گیا کہ جو مسیح آنے والا تھا وہ آ گیا۔
پھر (فری چرچ کے ہیڈ) ڈاکٹر والٹر والش (Dr Walter Walsh) نے جو خود فصیح البیان لیکچرر تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ’’مَیں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سننے کا موقع ملا۔‘‘
پھر قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب مَیں مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے۔ پھر کہا، اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
پھر ایک پادری منش نے کہا کہ تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا۔ (میں نے پہلے بارہ حواریوں کا ذکر کیا تھا۔ یہ تیرھویں جو وہاں فنگشن کے وقت موجود تھے وہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تھے۔ اس طرح تیرہ پورے ہو گئے۔)
مس شارپلز جو کانفرنس کی سیکرٹری ہیں، انہوں نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب نے His holinessکے متعلق کہا کہ ’’یہ اس زمانے کا Luther معلوم ہوتا ہے۔‘‘ بعض نے کہا کہ ’’ان کے سینے میں ایک آگ ہے‘‘۔ ایک نے کہا ’’یہ تمام پرچوں سے بہتر پرچہ تھا۔‘‘
ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا ’’میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے کہ یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے۔‘‘
مسٹر لین جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدے دار تھے، انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’خلیفۃ المسیح کا پرچہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 453مطبوعہ ربوہ)
پھر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں۔ ایک صاحب حضور کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے ہندوستان میں تیس سال کام کیا ہے اور مسلمانوں کے حالات اور دلائل کا مطالعہ کیا ہے۔ کیونکہ میں ایک مشنری کی حیثیت سے ہندوستان میں رہا ہوں مگر جس خوبی، صفائی اور لطافت سے آپ نے آج کے مضمون کو پیش کیا ہے، مَیں نے اس سے پہلے کبھی کسی جگہ بھی نہیں سنا۔ مجھے اس مضمون کو سن کر کیا بلحاظ خیالات اور کیا بلحاظ ترتیب اور کیا بلحاظ دلائل بہت گہرا اثر ہوا ہے۔
پھر ایک صاحب نے کہا جو یہ مضمون سننے کے لئے فرانس سے آئے ہوئے تھے کہ ’’مَیں عیسائیت پر اسلام کو ترجیح دیا کرتا تھا (عیسائیت کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔ اسلام کو ترجیح دیتے تھے۔) اور اسلام پر بدھ ازم کو ترجیح دیا کرتا تھا۔ اب جبکہ میں نے آپ کا مضمون بھی سن لیا ہے اور بدھ ازم کو بھی سنا ہے، میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی اسلام ہی سب سے بالا تر مذہب ہے۔ جس خوبی سے اور جس خوش اسلوبی سے آپ نے اسلام کو پیش کیا اس کا کوئی دوسرا مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میرے دل پر اب اس کا گہرا اثر ہے۔ (الفضل 23 اکتوبر 1924ء جلد 12 نمبر 45 صفحہ 4 کالم 3)
پھر بہت ساری عورتیں بھی آئیں اور انہوں نے اس مضمون کی بہت تعریف کی۔ ایک عورت کہتی ہے کہ بعض نے مجھے کہا کہ There is a fire in him.۔ اس میں ایک آگ ہے۔
پھر مسز شارپلز نے کہا وہ بھی سیکرٹری تھیں، سیکرٹری کی بیوی بھی تھیں اور انتظامیہ میں بھی شامل تھیں۔ کہتی ہیں کہ ایک انگریز میرے پاس آیا اُس نے مجھے کہا کہ چائے پر تو مجھے نہیں بلایا، وہاں چائے کا انتظام بھی تھا، مگر مجھے اجازت دو کہ میں اندر آ جاؤں۔ میری غرض دراصل اس شخص کو دیکھنا ہے جو ہندوستان سے اسلام کو پیش کرنے کے لئے آیا ہے اور احمدیوں کا سردار ہے۔ وہ شخص حضرت صاحب سے ملا، باتیں کیں اور پھر مولوی مبارک علی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ مَیں نے بدھ مذہب کے پرچے بھی سنے اور دوسرے پرچے بھی لیکن یہ تمام پرچوں سے بہتر تھا۔ ایک جرمن شخص جو یہاں اُس زمانے میں پروفیسر تھے، انہوں نے جلسے سے واپسی کے وقت سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر (یہ وہی لگتے ہیں جن کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے لیکن یہاں ذرا تفصیل ہے) حضرت کے حضور مبارکباد عرض کی اور کہا، میرے پاس بڑے بڑے انگریز بیٹھے تھے، میں نے دیکھا کہ بعض زانو پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے۔ Rare ideas. One can not hear such ideas everyday.یعنی یہ نہایت نادر خیالات ہیں۔ ایسے خیالات ہر روز سننے میں نہیں آتے۔ وہی جرمن پروفیسر روایت کرتے ہیں کہ بعض جگہ لوگ بے اختیار بول پڑتے تھے کہ What a beautiful and true principles.کیسے خوبصورت اور سچے اصول ہیں۔ اور ان جرمن پروفیسر نے خود اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی کہ یہ موقع احمدیوں کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ اور یہ ایسی کامیابی ہے کہ اگر آپ لوگ ہزاروں پاؤنڈ بھی خرچ کر دیتے تو ایسی شہرت اور کامیابی کبھی نہ ہوتی۔
مسٹر لین کا ذکر ہوا ہے۔ انڈیا آفس کے ایک بڑے عہدیدار تھے۔ وہ لیکچر سن رہے تھے لیکن اُن کی بیوی اُس دن نہیں آئی تھیں۔ انہوں نے جا کر اپنے گھر میں بیوی سے ذکر کیا تو وہ اگلے دن آئیں اور قافلے کے جو لوگ تھے اُن کو ملیں کہ میں کل آ نہیں سکی تھی اور میرے خاوندنے مجھے گھر جاکر بتایا ہے کہ لیکچر کتنا کامیاب اور مقبول ہوا۔
مس گارنر ایک دہریہ اور خدا کی منکر عورت ہے۔ اُس نے کہا کہ It was charmfull۔ یہ ایک دلکش اور اچھا مضمون تھا۔‘‘ ’’نہایت اعلیٰ خیالات تھے۔‘‘ ’’نئی صداقت‘‘ وغیرہ وغیرہ الفاظ تو اکثر نے استعمال کئے۔
بہائی مذہب کی ایک عورت نے لیکچر سنا اور ہمارے ساتھ ساتھ مکان کے قریب تک چلی۔ وہ کہتی تھی کہ میں بہائی خیالات رکھتی تھی مگر اب آج کا لیکچر سن کر میرے خیالات بدل گئے ہیں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ آپ کے زیادہ لیکچر سنوں۔ مجھے اگر مہربانی سے بتائیں کہ کب اور کہاں کہاں لیکچر ہوں گے تو میں ضرور آؤں گی۔
ایک عیسائی عورت مع اپنی لڑکی کے وہاں آئی۔ بڑے خلوص سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے پیچھے پیچھے چلی آئی اور درخواست کی کہ میرے مکان پر جمعرات کو چائے کے لئے آئیں۔ حضرت نے مصروفیت کا عذر کیا۔ مگر اس نے بڑے اصرار اور محبت سے درخواست کو منظور کرا لیا اور کہا کہ خواہ کسی وقت آئیں مگر ضرور آئیں۔ ایک شخص نے کہا کہ ایسا پیارا مضمون تھا کہ حب الوطنی سے بھی زیادہ پیارا تھا۔ (الفضل 23اکتوبر1924نمبر 45جلد12صفحہ 5-4)
اخباروں میں جو ذکر ہوا، ان میں سے ایک اخبار کا ذکر سن لیں۔ ’مانچسٹر گارڈین‘ نے اپنی 24؍ستمبر1924ء کی اشاعت میں لکھا کہ اس کانفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ، جو اُس وقت ظاہر ہوا، وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقے کا ذکر تھا۔ نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے۔ ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے۔ یہ بھی اُس نے وضاحت کر دی۔ اس فرقے کی بناء ان کے قول کے بموجب آج سے 34 سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل اور دوسری کتابوں میں ہے۔ اس سلسلے کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلے کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوعِ انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچائے۔ ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کُن ہے۔ اور وہ سیاہ داڑھی رکھتا ہے اور جس کا لقب His holliness خلیفۃ المسیح الحاج مرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصار کے ساتھ خلیفۃ المسیح ہے۔ مندرجہ بالا تحدّی اپنے مضمون میں پیش کی۔ جس کا عنوان ہے ’’اسلام میں احمدیہ تحریک‘‘۔ آپ کے ایک شاگردنے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا۔ آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی، ایک پُر جوش اپیل کے ساتھ ختم کیا جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح اور نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا۔ اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچے کے بعد جس قدر تحسین اور خوشنودی کا چیئرز کے ذریعہ اظہار کیا گیا، اُس سے پہلے کسی پرچے پر ایسا نہیں کیا گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ454-453)
بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کہتے ہیں کہ مضمون کے خاتمہ پر ریزولیوشن پیش کیا گیا اور اتفاقِ رائے سے پاس کیا گیا کہ ایسے مفید معلومات، علمی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے مشورہ کے لئے His Holliness کا شکریہ ادا کیا جائے۔ ایک پروفیسر اور پادری جو اس لیکچر کی خبر پا کر پہلے مکان پر آئے اور پھر ہمارے ساتھ لیکچر کی جگہ تک گئے تھے، بہت متاثر تھے۔ انہوں نے سلسلے کی بعض کتابیں بھی خریدیں۔ وہ لیکچر کی خوبی سے متاثر ہو کر اپنی کرسی سے بار بار اچھلتے نظر آتے تھے۔ بہت کچھ سنا اور پھر آنے کا وعدہ کیا۔ اور اقرار کیا کہ آئندہ میں اسلام کے ان خیالات کو preach کروں گا۔ اُن کی تبلیغ کیا کروں گا۔ اور ٹیچنگز آف اسلام میں جو خیالات بیان کئے گئے ہیں اُن کو لے کر وعظ و تبلیغ کروں گا۔ (ماخوذ از حضرت خلیفۃ السمیح الثانی …کا سفر یورپ 1924ء ڈائری از قلم حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانیؓ صفحہ 314تا316مطبوعہ ربوہ)
پس یہ مضمون جو پڑھا گیا، یہ بھی اور جو پہلے تیار کیا گیا تھا جیسا کہ میں نے بتایا، وہ لمبا ہونے کی وجہ سے پڑھا نہیں جا سکتا تھا، یہ دونوں مضامین انگلش میں translate ہوئے ہوئے ہیں۔ گو بعض اعدادو شمار جو ہیں، یا مشن ہاؤسز یا جماعت کے کاموں کی جو تفصیل دی گئی ہے، وہ اُس زمانے کی ہے۔ اب تو جماعت اس سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ لیکن اس مضمون کی خوبصورتی جو ہے، جو علم ہے اور جو باقی بیان ہے، وہ ابھی بھی قائم ہے۔ اس لئے ہماراجو انگریزی دان طبقہ ہے اُسے اور نو جوانوں کو بھی یہ ضرور پڑھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ پر بیشمار رحمتیں فرمائے جنہوں نے ہمارے لئے تقریباً ہر مضمون میں بے شمار خزانہ چھوڑا ہے جس کا میں نے پہلے خطبہ میں ذکر کیا تھا۔ انہوں نے ہر ٹاپک (topic) کو ٹچ (touch) کیا ہے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کو بھی اب اس علمی خزانے کے مختلف زبانوں میں ترجمے جلدی کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کچھ تو کوشش کر رہے ہیں لیکن مزید تیزی کی ضرورت ہے۔
آج بھی مَیں جمعہ(و عصر) کی نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم کمال احمد کرو صاحب کا ہے۔ ڈنمارک کے رہنے والے تھے۔ 1942ء میں ڈنمارک کے شہر ہوئے بیو (Hojby) میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد ٹیچرز یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد 2003ء تک آپ تاریخ، مذہب، جغرافیہ اور ڈینش زبان کے مضامین پڑھاتے رہے۔ ابھی آپ یونیورسٹی کے طالب علم تھے کہ آپ کو اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ عبدالسلام میڈیسن صاحب کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ کے ذریعہ 1960ء کی دہائی کے شروع میں اُس وقت ان کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جب مکرم میر مسعود صاحب مرحوم وہاں مبلغ تھے اور پھر وفات تک آپ نے جماعت سے نہایت اخلاص اور محبت اور وفا کا تعلق قائم رکھا۔ خلافت اور خلیفہ وقت سے آپ کو نہایت درجہ عقیدت اور محبت تھی، بلکہ عشق تھا۔ مجھے بھی ملے ہیں تواخلاص و وفا تھی۔ جب مَیں ڈنمارک گیا ہوں توحالانکہ بیمار بھی تھے پھر بھی جتنے دن ہم وہاں رہے باقاعدہ آیا کرتے تھے۔ مختلف جماعتی عہدوں پر انہوں نے کام کیا۔ نیشنل قائد مجلس خدام الاحمدیہ اور نیشنل سیکرٹری تبلیغ کی ذمہ داریاں سالہا سال تک نہایت محنت اور صدق و وفا سے نبھاتے رہے۔ تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ہر موقع پر آپ نے ڈنمارک کے لوگوں کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ جماعتی کاموں سے فارغ ہو کر جب رات کو دیر سے گھر آتے تھے تو پھر اگلی میٹنگ کی منصوبہ بندی کے لئے بیٹھ جاتے اور نصف رات تک کام کر کے امیر صاحب کو رپورٹ دیتے اور اُس کے بعد آپ سوتے۔ آپ کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا اور ڈینش اکابرین کے ساتھ آپ کے اچھے تعلق تھے۔ امیر صاحب ڈنمارک لکھتے ہیں کہ 1988-89ء میں جب وہ یہاں مبلغ انچارج تھے تو انہوں نے نہایت اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ جماعتی کاموں میں خاص طور پر شعبہ تبلیغ میں دن رات میری معاونت کی اور اُس وقت جب ڈنمارک کے پرائم منسٹر کو ایک ملاقات میں ڈینش زبان میں قرآنِ کریم کا تحفہ دیا گیا تو کمال کرو صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے بلکہ اس ملاقات کا انتظام بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ مسجدنصرت میں ہر جمعہ کی شام کو ایک پروگرام کرتے تھے۔ اس میں بچوں اور بچیوں کے سوالات کے جوابات اور اُن کے مسائل کے حل پر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور جماعتی کتب کے تراجم بھی آپ نے کئے۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے ڈینش ترجمہ کی نظر ثانی کا کام آپ نے کیا۔ جماعت احمدیہ ڈنمارک کا سہ ماہی رسالہ ایکٹو اسلام (Active Islam) کی ادارت کی ذمہ داری کئی سال تک خوش اسلوبی سے سرانجام دی اور اسی طرح ستر اور اسی کی دہائی میں مسلمان ممالک سے آنے والے ریفیوجیز (refugees) کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔ 2004ء میں آپ کو فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث آپ معذوری کی زندگی گزارتے رہے لیکن معذوری اور بیماری کے باوجود جمعہ اور جماعتی پروگراموں میں کافی دور سے سفر کر کے شامل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب بھی امیر صاحب ان کو ملنے کے لئے جاتے تو ہر ملاقات میں جماعت کی ترقی کے بارے میں دریافت کرتے اور مشن ہاؤس کی جو آجکل وہاں نئی تعمیر ہونی ہے اُس کے لئے خاص طور پر پوچھتے۔ امیر صاحب سے ہر ملاقات میں میرے بارے میں بھی بار بار پوچھا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کا کیا حال ہے اور کافی جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔ 18؍فروری 2014 ء کو آپ کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی اور آپ ہسپتال میں داخل کر دئیے گئے۔ 19؍فروری کو صبح ساڑھے پانچ بجے اکہتّر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ نے اپنے پیچھے بیوہ اور ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور پانچ پوتے پوتیاں چھوڑے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی نہایت درجہ اخلاص کے ساتھ جماعتی پروگرام میں شامل ہوتی ہیں اور ترجمہ کا کام کر رہی ہیں اور بڑی مددگار ہیں۔ یہ غیروں میں بھی کافی معروف تھے۔ جو ڈینش الیکٹرانک میڈیا ہے وہاں جو ان کے بارے میں بعض کی رائے ہے وہ اس طرح ہے۔ ہنریک جینسن (Mr. Henrik Jensen) صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کرو صاحب، ایک بہت عظیم شخصیت جو آج ہم میں نہیں رہی۔ کمال صاحب کو ہمیشہ ہی بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ ہم جیسے کئی شاگردوں کے دلوں میں اُن کی بہت عزت ہے۔ وہ بہت معزز اور عظیم شخصیت تھے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو کلاس میں ہر دلعزیز تھی۔ کہتے ہیں کہ مَیں خود بھی آج کمال کی طرح تعلیمی شعبہ سے منسلک ہوں۔ میرے تمام تعلیمی عرصہ میں کمال میرے لئے ایک نمونہ تھے۔ انہیں علمی لحاظ سے اپنے مضامین میں بہت عبور حاصل تھا۔ آپ نے ہم میں سے بہتوں کو زندگی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ سب انسان ہی اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ نے حاصل کرنے کا علم پا لیا ہے۔ جبکہ بہت کم تعداد میں وہ لوگ ہیں جو اس نقطہ کو پا گئے کہ انسان زندگی سے زندہ رہنے کا گُر پا سکتا ہے۔
پھر ایک خاتون ہیں وہ بیان کرتی ہیں۔ کمال کرو صاحب ایک ایسے استاد تھے جسے انسان کبھی بھلا نہیں سکتا۔ مسٹر کینیتھ (Mr. Kenneth) صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسے ٹیچر جس سے میں بہت متاثر ہوں۔ ایک اچھا اور متقی انسان۔ ایک خاتون مس اِنگرتھ (Ms. Ingerrethe) (صحیح تلفظ جو بھی ہے) کہتی ہیں کہ کالج میں میرے بہت سے اور شاگرد تھے جو اپنے سکول کے زمانے میں کمال کرو کے شاگرد رہ چکے تھے۔ وہ ہمیشہ کمال کرو کا ذکر بڑی عزت اور تکریم سے کرتے۔ مذہب کے مضمون میں یہ شاگرد جو کمال کرو کے زیرِ تعلیم رہ چکے تھے، دیگر ساتھیوں سے بہت آگے ہوتے تھے۔ بہر حال اسی طرح کے اور بہت سارے تبصرے ہیں۔ ایک مسٹر مائیکل (Mr Mikael) ہیں وہ کہتے ہیں کہ امید کرتا ہوں کہ ڈنمارک کی سرزمین میں کوئی ایسا ہو گا جو اُن کے کام کو جاری رکھ سکے جو انہوں نے ڈینش عوام اور غیر ممالک سے آنے والے مسلمانوں کے درمیان پُل بنانے اور ان کے درمیان ڈائیلاگ کی فضا پیدا کرنے کے لئے شروع کیا تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب ہماری سوسائٹی میں بعض لوگ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی بجائے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہمیشہ جماعت سے وابستہ رکھے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا نمازوں کے بعد ان کا جنازہ غائب انشاء اللہ ادا ہو گا۔
آج سے 90سال قبل لندن میں ویمبلے ہال میں منعقدہ ’مذاہب کانفرنس‘ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی شرکت، آپ کے معرکہ آراء خطاب اور اس کے غیروں پر نہایت خوشکن گہرے اثرات کی مختلف تفصیلات کا ایمان افروز تذکرہ۔
اس مضمون سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رؤیا بھی پوری ہوئی۔ یورپ میں اسلام کا پیغام صحیح رنگ میں پہنچایا گیا اور اسلام احمدیت کی شہرت کو چار چاند لگے۔
یہ مضمون ’انوار العلوم‘ کی آٹھویں جلد میں موجود ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی طبع شدہ ہے۔ انگریزی دان طبقہ اور نوجوانوں کو یہ ضرور پڑھنا چاہئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے تقریباً ہر مضمون میں ہمارے لئے بے شمار خزانہ چھوڑا ہے۔ آپ نے ہر topic کو touch کیا ہے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کو اس علمی خزانے کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کروانے کی کوششوں کو مزید بہتر کرنے کی تاکید۔
ڈینش احمدی مکرم کمال احمد کرو صاحب کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 28فروری 2014ء بمطابق 28تبلیغ 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔