مذاہب عالم کانفرنس ۲۰۱۴ء
خطبہ جمعہ 7؍ مارچ 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
تقریباً تین ہفتے پہلے جماعت احمدیہ یوکے نے برطانیہ میں جماعت کے سو سال مکمل ہونے پر ایک تقریب منعقد کی تھی جس میں مختلف مذاہب کے علماء یا نمائندوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنی اپنی مقدس کتب پر بنیاد رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اور مذہب کے تصور کی تعلیم کو پیش کریں، اور یہ کہ اکیسویں صدی میں خدا تعالیٰ کا کردار اور خدا تعالیٰ کی کیا ضرورت ہے۔ بہر حال اس میں ظاہر ہے اسلام کی نمائندگی تو ہونی تھی اور جماعت نے کرنی تھی اور مَیں نے کی۔ اس کے علاوہ یہودی، عیسائی، بدھ مت، دروزی، ہندومت وغیرہ کی بھی نمائندگی تھی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور زرتشتی اور سکھوں کی نمائندگی بھی تھی۔ مختلف مذاہب کے لوگ وہاں موجود تھے۔ اسی طرح بہائی وغیرہ بھی موجود تھے۔
اس کے علاوہ بعض سیاستدانوں اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس (Activists) جو ہیں اُن کو بھی اپنے خیالات (کے اظہار) کا موقع دیا گیا۔ اور یہ تقریب یہاں کے سب سے بڑے پرانے اور روایتی ہال جس کا نام Guildhall ہے، وہاں منعقد ہوئی۔ یہ عمارت 1429ء یا بعض روایات ہیں کہ اس سے بھی پہلے کی تعمیر ہوئی ہوئی عمارت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لندن کی پرانی ترین دو عمارتوں میں سے ایک ہے۔ بہر حال اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ ایم ٹی اے پر یہ پروگرام دکھایا بھی جا چکا ہے اور آپ نے بھی یہ دیکھا ہو گا۔ لیکن جہاں تک اس کی تاریخی حیثیت کا سوال ہے امید ہے جب الفضل میں رپورٹ شائع ہو گی تو اس میں اس کا ذکر بھی ہو جائے گا۔ میرا مقصد اس وقت اس کی تاریخ بیان کرنا نہیں۔ یہ مختصر تعارف تھا۔ اصل مقصد یہ ہے کہ جو تقریب منعقد ہوئی اُس کے بارے میں کچھ بتاؤں۔ جیسا کہ میں نے کہاکہ ایم ٹی اے پر دکھائی جا چکی ہے۔ اور اردو میں بھی مقررین اور میرے خطاب کا ترجمہ امید ہے آ گیا ہو گا، مَیں نے دیکھا تو نہیں۔ لیکن پاکستان سے مجھے یہ مطالبہ آیا کہ بہتر ہو گا کہ اس بڑے فنکشن کی تفصیل یا اس کے بارے میں کچھ حد تک ذکر مَیں اپنے خطبے میں کروں، جس طرح اپنے دوروں کے بارے میں بھی بیان کرتا ہوں تا کہ سننے والے بہتر سمجھ سکیں اور زیادہ اُن کو اس کی اہمیت کا زیادہ اندازہ بھی ہو اور فائدہ بھی اٹھا سکیں۔ ایم ٹی اے پر بعض پروگرام بعض لوگ دیکھتے بھی نہیں۔ یہاں بھی کل ہی مَیں دیکھ رہا تھا ایک خط میں ذکر تھا کہ مَیں نے فلاں اخبار میں اس تقریب کی کارروائی پڑھی حالانکہ ایم ٹی اے پر آ چکی تھی۔
خطبے بہر حال لوگ زیادہ بہتر سنتے ہیں، اس لئے مَیں اس کا مختصراً ذکر کروں گا لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو جب بھی ایم ٹی اے پر آئے، احمدیوں کو دیکھنا چاہئے۔ ایک اچھی بھرپور قسم کی تقریب تھی۔
اس وقت مَیں مختصراً مقررین کے چند فقرات پیش کروں گا۔ اور جو مَیں نے کہا، اُس کا خلاصہ آپ کو بتاؤں گا۔ اور اس کے علاوہ مہمانوں کے، لوگوں کے، غیروں کے جو تاثرات تھے، وہ بھی بتاؤں گا تا کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جس سے اظہار ہوتا ہے، وہ سامنے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری، اسلام کی برتری جو آپ کے عاشقِ صادق کے ذریعہ دنیا پہ ظاہر ہو رہی ہے اُس کا دنیا کو پتا لگے، ہمیں پتا لگے۔
اس فنکشن کے ضمن میں مَیں پہلی بات یہ بھی کہوں گا اس سے پہلے کہ باقی تفصیلات بیان کروں کہ یو کے جماعت کی انتظامیہ جنہوں نے اتنا بڑا اور اہم فنکشن کیا، اُن کو جس طرح اس فنکشن سے پہلے فنکشن کی تشہیر کرنی چاہئے تھی اُس طرح نہیں کی اور اس بات پر خوش ہو گئے کہ ہم فنکشن کر رہے ہیں اور اتنے لوگ آئیں گے۔ حالانکہ یہ موقع تھا کہ جماعت کے وسیع پیمانے پر تعارف اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے پرچار کا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بتایا جاتا۔ اگر پریس سے صحیح رابطہ ہوتا تو جو کوشش اب امیر صاحب اور اُن کی ٹیم کر رہی ہے، خبریں لگوا رہے ہیں، یہ خود بخود لگتیں اور اس سے بہتر طریق پر لگتیں۔ آجکل تو پریس پیغام پہنچانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس بارے میں دنیا کے اکثر ممالک کی جماعتوں میں جس طرح کام ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہو رہا اور کمزوری دکھائی جاتی ہے۔ اب امریکہ میں کچھ عرصے سے کچھ بہتری پیدا ہوئی ہے، اللہ کے فضل سے اچھا کام کر رہے ہیں۔ افریقہ میں گھانا اور سیرالیون میں اس بارے میں اچھا کام ہو رہا ہے۔ اور بعض افریقن فرانکوفون ممالک جو ہیں اُن میں بھی اس طرف توجہ ہوئی ہے۔
بہر حال ہر سطح پر میڈیا تک ہماری رسائی ہونی چاہئے تا کہ اس تعارف کے ساتھ جو جماعت احمدیہ کا تعارف ہے، اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو پتا لگے اور تبلیغ میں تیزی آئے۔ یہ بھی تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس طرف جماعتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب مَیں اس کی کارروائی کے بارے میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔ بعض مقررین نے بڑی اچھی باتیں بھی کیں۔ اللہ کرے جو کچھ انہوں نے کہا وہ اُن کے دل کی آواز ہو اور اس پر عمل بھی کریں۔ پہلے ایک ہندو کونسل جو یہاں ہے اُس کے چیئرمین ہمیش چندر شرما صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کا عنوان بہت دلچسپ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کائنات میں خدا کا وجود ہے۔ دوسری بات جو بڑی واضح ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈر اور دیگر نظام دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہر طرف جھگڑے اور فساد برپا ہیں اور عوام کا سیاستدانوں سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ اسی لئے میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ ہم انسانیت کی بہتری کے لئے دوبارہ مذہب کی طرف رُخ کریں، ہمیں اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو صرف نصیحتیں ہی نہ کرتے چلے جائیں بلکہ اپنے نمونے بھی پیش کرنے والے ہوں۔ اور یہی حقیقت ہے۔ اللہ کرے کہ یہ مقرر بھی جو کچھ انہوں نے کہا اُس پر عمل کرنے والے ہوں۔ پھر دلائی لامہ کا پیغام، بدھ مت کے رہنما جو یہاں لندن میں ہیں، انہوں نے اُن کی نمائندگی میں پڑھا۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام مذاہب اپنے پیروکاروں کو باہم محبت، رواداری اور صبر و سکون کا درس دیتے ہیں۔ اس لئے خواہ اُن کے عقائد ہمارے عقائد سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں ہمیں اُن کی عزت کرنی چاہئے۔ ہر سچے مذہب نے اپنے اپنے وقت میں انسانیت کو اعلیٰ اقدار سے نوازا ہے۔ آئندہ زمانے میں بھی یہی مذہبی قدریں ہمیں دنیا میں امن، ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ زندگی گزارنے کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ ہم سب پر واجب ہے کہ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی میں اُن اعلیٰ اخلاق پر کاربند ہو جائیں جن کی تعلیم ہمارا مذہب ہمیں دیتا ہے۔ بہر حال یہ باتیں اُن کی بڑی صحیح ہیں۔ کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر فساد تب برپا ہوتا ہے جب لوگ مذہب کی اصل غرض و غایت کو سمجھ نہیں پاتے۔ کہتے ہیں، کچھ وقت سے مجھے خیال آ رہا تھا کہ ہمیں مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے ساتھ عالمی مذہبی برادری کو اکٹھا کیا جا سکے تا کہ آپس میں مفاہمت ہو اور یگانگت کی فضا پیدا ہو اور دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکے۔ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے برطانیہ میں 11 ؍فروری 2014ء کو منعقد ہونے والی مذہبی عالمی کانفرنس کو منعقد کرنے کے جرأت مندانہ اقدام کو سراہتا ہوں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کے جلسے بہت دُوررَس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ بہر حال اکثر مقررین نے ایسی باتیں کی ہیں جن کی اس وقت زمانے کو ضرورت ہے۔
پھر دروزی کمیونٹی کے روحانی پیشوا شیخ موفّق صاحب کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کے ارضِ مقدس میں بسنے والے تمام مذاہب کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ (یہ کمیونٹی زیادہ تر فلسطین اور اسرائیل وغیرہ کے علاقے میں ہے، ویسے شام میں بھی ہے) کہتے ہیں کہ ارضِ مقدس وہ سرزمین ہے جہاں بہت سے مذاہب نے جنم لیا اور وہیں سے بہت سے انبیاء کا روحانی سفر شروع ہوا۔ پھر کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم نے تمہیں نَر اور مادہ سے پیدا کیا اور پھر قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بہتر اور معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے۔ یہ سورۃ الحجرات آیت 14 ہے جوانہوں نے پڑھی۔
اور کہتے ہیں کہ مَیں امام جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اور اُن کی جماعت نے مجھے اس کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دی اور مَیں جماعت احمدیہ کے برطانیہ میں سو سال پورے ہونے کی خوشی میں منعقد کی جانے والی اس شاندار کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہماری دروز کمیونٹی کے ارضِ مقدس میں جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت دوستانہ مراسم ہیں۔ ہمیں آپ کی طرف سے دعوت ملنے پر خوشی ہے۔ آئیں ہم سب مل کر ظلم اور تشدد کی مذمت کریں اور محبت کے وہ بیج بوئیں جن سے صرف مشرق میں ہی نہیں بلکہ تمام عالَم میں محبت کے چشمے پھوٹ پڑیں۔ پھر کیتھولک چرچ کے بشپ کیمن مکڈونلڈ نے کہا کہ مجھے مذاہبِ عالم کی اس کانفرنس میں شمولیت کر کے اور کیتھولک چرچ کی نمائندگی میں اپنی تقریر پیش کر کے انتہائی خوشی ہو رہی ہے۔ اس وقت دنیا کو اس قسم کے جلسوں کی شدید ضرورت ہے۔
پھر اس کے بعد انہوں نے جناب کارڈینل پیٹر ٹکسن جوپوپ کی کیبنٹ کے پریذیڈنٹ ہیں اور کونسل فار جسٹس پِیس بھی ہیں، اُن کا پیغام پڑھ کر سنایا کہ مَیں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی برطانیہ میں صد سالہ قیام کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی اس تقریب میں آپ سے مخاطب ہوں۔ اس محفل کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے نمائندگان اکٹھے ہو کر دنیا میں امن کے قیام کے لئے بات کر رہے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل کے ایک ربائی (Rabbai) ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں ظاہری ترقی کو ایک بہت بلند کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ اور امیروں اور غریبوں کے درمیان معاشی فرق خوفناک حد تک بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ترقی اور آسائش کے نام پر ہم دنیا کی نعمتوں کو اسراف کی حد تک خرچ کرتے جا رہے ہیں۔ تازہ پانیوں کو گندہ کر رہے ہیں۔ جنگلات کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں یہاں ہر طرف مذہبی اور سیاسی کشمکش جاری ہے اور فساد برپا ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام اور اس کی دی ہوئی ہدایت کو پامال کیا جا رہا ہے اور اس سب کارروائی کو سمجھداری اور مصلحت اور سیاسی مجبوریوں کانام دے دیا جاتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس کے خلاف کام کریں۔ اللہ کرے کہ یہ جو ان کی باتیں ہیں وہ ان کے جو سربراہانِ حکومت ہیں اُن کو بھی سمجھ آنے والی ہوں اور یہ لوگ اُن کو بتانے والے بھی ہوں۔ بعض سیاسی لوگوں کے بھی پیغامات تھے اور خطاب تھے۔
گھانا کے صدرِ مملکت کا پیغام اُن کے ایک ہائی کمشنر نے پڑھ کر سنایا، ویسے اُن کے ایک نمائندے بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ ہمیں اس موقع پر ایک مرتبہ پھر یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر دنیا میں بھیجے جنہوں نے دنیا میں موجود تمام رنگ و نسل کے لوگوں کو بلا تفریق یہ پیغام دیا کہ انسان کو پُر عزم، منظم اور باہمی رواداری کے طریقوں سے زندگی گزارنی چاہئے۔ اور پھر اپنا لکھا ہے کہ گھانا میں نیشنل پِیس کونسل کا قیام ہوا ہے اور مذہبی رواداری ہے اور ہر ایک کو نمائندگی حاصل ہے۔
پھر یہاں کی بیرونس سعیدہ وارثی صاحبہ ہیں۔ یہ بھی آئی ہوئی تھیں۔ یہ کہتی ہیں آج اس عظیم الشان ہال میں جلسہ مذاہبِ عالم کے لئے جمع ہونے والے معزز مہمانوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ یہ کانفرنس جماعت احمدیہ کی وسعتِ حوصلہ، کشادہ دلی، کشادہ نظری اور اعلیٰ ظرفی کی آئینہ دار ہے کہ آپ لوگوں نے عالمی نوعیت کی ایک ایسی تقریب کا انعقاد کیا ہے جس میں صرف اپنی جماعت کے عقائد پیش کرنے کی بجائے تمام مذاہب کے نمائندگان کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہمیں برطانیہ کے طول و عرض میں محض انسانیت کی بنیاد پر جماعت احمدیہ کی طرف سے کئے گئے فلاحی کاموں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ پھر کہتی ہیں اس جلسے کے کامیاب انعقاد سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ دنیا بھر کے مذاہب مل بیٹھ کر متحد ہو کر بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے تیار ہیں۔ اس کانفرنس میں شمولیت میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے۔
امریکہ کی کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم (USCIRF) کی وائس چیئرمین، ڈاکٹر کیٹرینا ہیں۔ ان کا جماعت سے بڑا پرانا تعلق ہے۔ یہ کہتی ہیں کہ آج آپ کے ساتھ شامل ہونے کا جو موقع مجھے مل رہا ہے، اس پر میں بہت خوشی اور اعزاز محسوس کر رہی ہوں۔ اور آپ کی جماعت کے برطانیہ میں قیام پر سو سال پورے ہونے کے موقع پر آج کی تقریب میں حاضر ہوں۔ (یہ امریکہ سے خاص طور پر اس مقصد کے لئے آئی تھیں) کہتی ہیں آج کی تقریب باہمی رواداری اور مذہبی آزادی کی اعلیٰ قدروں کی پہچان کے لئے منعقد کی گئی ہے۔ اور یہ اوصاف ہی دراصل آپ کی جماعت کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگ یعنی جماعت احمدیہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ مذہب کا امن، باہمی افہام و تفہیم اور آزادی سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گزشتہ صدی کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک بہت خوبصورت نظارہ نظر آتاہے جس میں کچھ ایسی ہستیاں دکھائی دیتی ہیں جو نیکی اور پاکیزگی کی شمعیں روشن کر کے اندھیروں کو دُور کرنے کی جدوجہد میں لگے رہے۔ پھر انہوں نے دوسروں کی کچھ مثالیں دی ہیں۔ لیکن بہر حال پھر آخر میں وہ کہتی ہیں کہ بیسویں صدی میں ہم آپ کی جماعت کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح آپ تمام دنیا میں لوگوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ یہاں یہ غلطی پر ہیں۔ اصل میں تو یہ انیسویں صدی سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے وقت تھی۔ اُس وقت سے ہی جماعت احمدیہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھا رہی ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ ان کو یہاں بیسویں صدی نہیں بلکہ انیسویں صدی، کہنا چاہئے تھا۔
بہر حال کہتی ہیں کہ بیسویں صدی میں ہم آپ کی جماعت کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح آپ تمام دنیا میں لوگوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں۔ ہم آپ کی طرح رواداری اور انصاف کے علمبردار ہیں۔ اور آپ کی طرح ہم بھی اس معاشرے کا قیام چاہتے ہیں جہاں مختلف عقائد رکھنے والے تمام لوگ مل جل کر رہیں۔ ایک دوسرے کی باتیں سنیں اور ہم ایک دوسرے کی بات اس وقت تک نہیں سن سکتے جب تک ہم ایک دوسرے کے لئے عزت و احترام کے جذبات نہ رکھتے ہوں۔ مَیں اس بات کی قدر کرتی ہوں کہ جماعت احمدیہ باہمی رواداری کا سبق دیتی ہے۔ ہم سب کو اپنے عقائد پر عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ نیز یہ کہ جب ہم آپس میں تبادلہ خیال کریں تو وہ برابری، انصاف اور انسانیت کی اقدار کو مدّنظر رکھ کر کیا جائے۔ میری یہ خواہش ہے کہ ہم سب اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے پورے دل اور اپنی پوری جان سے کوشش کرنے والے بن جائیں۔ اللہ کرے یہ بڑی طاقتیں بھی اس چیز کو سمجھنے والی ہوں۔ وزیر اعظم برطانیہ کا پیغام یہاں کے اٹارنی جنرل رائٹ آنریبل ڈومینک گریو (Rt. Hon. Dominic Grieve) نے پڑھا تھا لیکن اس سے پہلے انہوں نے اپنی باتیں کی۔ کہتے ہیں کہ پیغام پڑھنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کانفرنس کے اعتبار سے جگہ کا انتخاب بھی موزوں ترین ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے انگریزوں میں بحیثیت ایک قوم کے وسعتِ نظری نے جنم لیا اور انہوں نے دنیا کی طرف نظریں اُٹھا کر دیکھنا شروع کیا۔ آج ہم سب کا اس اجلاس کے لئے یہاں اکٹھا ہونا بھی اسی کا مرہونِ منت ہے۔ آج کا جلسہ ایک منفردنوعیت کا جلسہ ہے۔ ایک عیسائی ہونے کے ناطے میرا یہ تجربہ ہے کہ ایسا شخص جو کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، ایک لا مذہب آدمی کی نسبت دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے احساسات و جذبات کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ ان کی یہ بات صحیح ہو۔ سمجھنے والے ہوں۔ پھر وزیرِ اعظم کا پیغام انہوں نے پڑھا کہ مَیں احمدیہ مسلم جماعت کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندگان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مَیں جماعت احمدیہ کی انگلستان میں بے مثال خدمتِ خلق کو سراہتا ہوں۔ آپ لوگ ایک طرف ملک کے طول و عرض میں بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں تو دوسری طرف حالیہ سیلاب کے حالات میں مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کر رہے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ نے اس میں بڑا کام کیا ہے) پھر کہتے ہیں کہ جہاں تک مذاہب کے درمیان خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کا سوال ہے تو آج کے دن منعقد ہونے والی یہ تقریب اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ آپ لوگ اپنے مشن میں کس قدر سنجیدہ ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ مل بیٹھیں اور پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ مجھے اس بات کی بے حد مسرت ہے کہ اس اجلاس میں حکومتِ برطانیہ کی نمائندگی بھی ہو رہی ہے۔ ہم لوگ امام جماعت احمدیہ اور دیگر مذاہب کے نمائندگان اور دیگر مہمانان کے ساتھ مل کر اس بات پر غور کریں گے کہ مختلف ادیان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے کس طرح دنیا میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پھر ملکہ جو چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ ہیں، اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری نے لکھا کہ ملکہ عالیہ انگلستان کے لئے جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اپنے صد سالہ جشن کے موقع پر Guildhall میں اس عظیم الشان جلسہ ہائے مذاہب عالم کا انعقاد باعث مسرت ہے۔ ملکہ عالیہ کو اس جلسہ کے مقاصد جان کر بہت خوشی ہوئی اور وہ آپ کے پیغام بھجوانے کی درخواست پر بہت ممنون ہیں۔ ملکہ عالیہ کی آپ سب کے لئے دلی تمنا ہے کہ جلسہ ایک کامیاب اور یادگار جلسہ ہو جائے۔
یہ تو غیروں کے کچھ تاثرات تھے۔
جومَیں نے وہاں کہا اُس کا خلاصہ بھی بیان کر دوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے لگتا ہے سنا بھی نہیں اور اخبارمیں اس طرح کھل کے آیا نہیں۔ جو مَیں نے کہا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کی اصلاح ہو اور انسان خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور اُس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ اور اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے۔ جو انبیاء کی بات سنتے ہیں وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ جنہوں نے انکار کیا وہ بد انجام کو پہنچے۔ ہر وہ قوم جس نے انبیاء اور مذہب کی مخالفت کی، خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کا انکار کیا، خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کیا اور یہ کہا کہ یونہی باتیں ہیں۔ نہ کوئی خدا ہے اور نہ کسی قسم کا کوئی عذاب ہے، نہ سزا ہے۔ ایسی تمام قومیں پھر ختم ہو گئیں۔ قرآنِ کریم ایسی قوموں کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے۔ مختلف جگہوں پر اس کابیان ہے۔ اسی طرح دوسرے مذاہب کی کتب بھی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کے منکر تباہ ہو گئے۔ پس یہ باتیں ہمیں سوچنے پر مجبور کرنے والی ہونی چاہئیں کہ یہ قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ہر مذہب کی تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے کہ یہ سچ تھا۔
پھر مَیں نے بتایا کہ میں جس آسمانی کتاب کو مانتا ہوں وہ قرآنِ کریم ہے۔ اور وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ انبیاء کو بھیج کر اس بات کو رائج کرنا چاہتا ہے کہ انسان روحانیت کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور اُس کا حق ادا کرے۔ اسی طرح اعلیٰ اخلاق کے معیار قائم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرے۔ مَیں نے پھر بتایا کہ جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تو آپ نے اس کے حصول کے لئے تبلیغ کو انتہا تک پہنچایا۔ اور صرف تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ راتوں کو اس شدت سے اس کے نتائج حاصل کرنے اور لوگوں کے دلوں اور سینوں کو کھولنے کے لئے دعائیں کیں کہ آپ کی سجدہ گاہیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھیں۔ آپ کے دل میں انسانیت کی اصلاح اور اُسے تباہی سے بچانے کے لئے جو درد تھا وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی اس تڑپ اور دعاؤں کی حالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ تیری بات نہ مانیں تو کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر لے گا؟ مَیں نے پھر کہا کہ لیکن خدا تعالیٰ نے یہ کہہ کر بس نہیں کر دیا۔ دعاؤں کی قبولیت کو ردّ نہیں کر دیا بلکہ ان دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشا۔ اس درد کی تسکین کے سامان کئے اور وہ لوگ جو ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے، اُن سے برائیوں کو چھڑا کر بااخلاق اور خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والا بنا دیا۔ یہ تبدیلی کوئی دنیاوی طاقت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ خالص اُس خدا کا فعل تھا جو دعاؤں کو سننے والااور دلوں پر قبضہ رکھتا ہے۔
پھر مَیں نے بتایا کہ دشمنوں سے حسنِ سلوک کی بھی ایسی مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائیں کہ جس کی دنیاوی معاملات میں کہیں مثال نہیں مل سکتی۔ دشمنوں کو، اُن دشمنوں کو جنہوں نے مکہ میں دشمنی کی انتہا کی ہوئی تھی، فتح مکہ کے موقع پر اس طرح معاف فرمایا کہ جس طرح انہوں نے کبھی کوئی غلطی یا شرارت کی ہی نہ ہو۔ ہر ایک کافر کو بھی امن سے قانون کے دائرے کے اندر رہنے کی شرط پر معاف فرما دیا اور اس حسنِ سلوک کو دیکھ کر بڑے دشمن جو تھے، بہت بڑے بڑے اور کفر میں بڑھے ہوئے جو تھے، بے اختیار ہو کر بول اُٹھے کہ ایسا جذبہ صرف خدا تعالیٰ کے نبی کا ہی ہو سکتا ہے۔ اور یقینا اسلام برحق ہے۔ اور پھر وہ بھی ایمان لے آئے۔ (ماخوذ از دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ جلد 5 صفحہ 58 باب ما قالت الانصار حین امن…دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
پھر مَیں نے بتایا کہ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین فرمایا ہے اور یقینا آپ رحمت کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو یقینا خدا تعالیٰ کے کلام کی سچائی کا ثبوت ہیں جو آپ کی رحمت کی دلیل کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ پھر مَیں نے بتایا کہ اس کے باوجود کہ آپ رحمت للعالمین تھے، اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی اور جنگوں کا جو الزام لگایا جا سکتا ہے اور آجکل بھی اس دنیا میں لگایا جاتا ہے، یہ تاریخی حقائق سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جنگوں میں پہل نہیں کی۔ مکہ میں ظلم سہے۔ جب یہ ظلم ناقابلِ برداشت ہوئے تو مدینہ ہجرت کی۔ کبھی بدلے نہیں لئے۔ لیکن جب مکّہ والوں نے مدینہ پر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے حملہ کیا تو پھر خدا تعالیٰ کے اذن سے جواب دیا جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے۔ وہاں مَیں نے قرآنِ کریم کی سورۃ حج کی یہ دو آیات سنائیں کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ- الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ۔ وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج: 41-40) یعنی اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے، قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ اُن پر ظلم کئے گئے۔ اور یقینا اللہ اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہیں اُن کے گھروں سے ناحق نکالا گیا۔ محض اس بناء پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی، جس میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقینا اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔
مَیں نے بتایا کہ اس آیت کی روشنی میں مظلوموں کو دفاع کی اجازت دی گئی۔ دوسرے اس اجازت میں تمام مذاہب کو محفوظ کیا گیا ہے اور پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ طاقتوں کا مالک ہے، وہ کفار کے خلاف کمزور مسلمانوں کی مدد کی طاقت رکھتا ہے۔ کفار باوجود اپنی تمام تر طاقت کے اور ہتھیاروں کے شکست کھائیں گے اور خدا تعالیٰ نے اپنے وجود کا ثبوت دیتے ہوئے پھر کمزور مسلمانوں کو کفار پر فتح بھی عطا فرمائی۔ اور اپنے سے بہت بڑے لشکر اور بہت اسلحہ سے لیس لشکر کو شکست دی۔ پس جو جنگیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفائے راشدین نے لڑیں، وہ دفاع کے لئے اور امن قائم کرنے کے لئے لڑیں، نہ کہ حکومتیں حاصل کرنے کے لئے۔ اور اس وجہ سے پھر اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی رہی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔
پھر مَیں نے یہ بتایا کہ مسلمانوں کی کمزور اور مذہب سے دور جانے کی حالت کی پیشگوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ اور آج اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ظلم ہو رہا ہے یا اُن کی بگڑی ہوئی حالت ہم دیکھتے ہیں تو یہ عین پیشگوئی کے مطابق ہے۔ اور پھر یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کی آخری حالت یہ نہیں ہے کہ تم سمجھ لو کہ یہ انتہا ہو گئی اور مسلمان ختم ہو گئے۔ میرا یہ بھی ایمان ہے اور اس پر مَیں مضبوط ہوں کہ جس طرح مسلمانوں کے بگڑنے کی پیشگوئی پوری ہوئی، اُن کی روحانی حالت کی بہتری کی پیشگوئی بھی پوری ہو گی جو مسیح موعود کی آمد کے ساتھ ہونی تھی۔ پھر مَیں نے بتایا کہ مَیں اور جماعت احمدیہ یہ ایمان رکھتی ہے کہ مسیح موعود بانیٔ جماعت احمدیہ کی صورت میں آ گئے اور اپنے ماننے والوں میں حقیقی اسلام کی تعلیم کو رائج فرما دیا۔ ایک جماعت قائم کر دی جو حقیقی اسلام پر عمل کر رہی ہے اور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ مسیح موعود علیہ السلام جو اسلام کے احیائے نو کے لئے آئے، اُن کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں۔ مثال کے طور پر مَیں نے تین باتیں پیش کیں کہ یہ تین پیشگوئیاں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں جو آپ کی سچائی کے بارے میں ہیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اس زمانے میں زلزلوں اور طوفانوں کی بہت زیادہ تعداد ہو گی۔ (ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 267تا269)
جو سچ ثابت ہوئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ صدیوں کی نسبت سب سے زیادہ اس صدی میں آئے۔ پھر آپ نے ایک پیشگوئی روسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بارے میں فرمائی تھی کہ زارؔ کا تختہ الٹا جائے گا۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 152)
وہ پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ پھر ایک تیسری پیشگوئی جنگوں کی بتائی۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 151-152)
اور بتایا کہ اب تک ہم دو عالمی جنگیں دیکھ چکے ہیں۔ دنیا پھر اس لپیٹ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دنیا کے فوجی بجٹ باقی تمام ضروریات کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں اور صرف فوج بڑھانے اور اسلحہ رکھنے اور فوجی طاقت بننے کی طرف دنیاکی زیادہ توجہ ہو رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بدامنی دنیا میں مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور سیاست اس کی وجوہات ہیں۔ پھر میں نے یہ بھی بتایا کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو ہندوستان کے ایک دور دراز قصبہ میں رہنے والا اللہ تعالیٰ کے پیغام کو تمام دنیا میں نہ پھیلا سکتا۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوا، جس کے تحت یہ مشن آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ جہاں اس زمانے میں خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت ہے، وہاں جماعت احمدیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کا بھی ثبوت ہے۔ یہ میں نے بتایا کہ بانیٔ جماعت احمدیہ نے ہم میں یہ ادراک پیدا فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتیں کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ آج بھی زندہ ہے اور اپنے نیک بندوں سے بولتا اور نشان دکھاتا ہے۔ پس دنیا اس طرف توجہ دے اور اپنی غلطیوں کا الزام خدا اور مذہب کو نہ دے بلکہ اپنے گریبان میں جھانکے۔ خدا تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ اس پر عمل کرے۔
یہ اس کا خلاصہ ہے جو مَیں نے اُن کو کہا۔ تقریباً تیس پینتیس منٹ کی میری تقریر تھی۔
اس وقت میں بعض تاثرات پیش کرتا ہوں۔ لوگوں کے چہروں سے بہر حال لگ رہا تھا، بعض نے اظہار بھی کیا ہے کہ اسلام کی تعلیم جو مختصراً پیش کی گئی تھی، اُس کا اُن پر اثر ہے۔
Stein Villumstad یورپین کونسل فار ریلیجس لیڈرز کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’اس طرح مل جل کر بیٹھنا اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ایک دوسرے کی بات کو حوصلے سے سننا اور پھر سب کا یہ تسلیم کرنا کہ ہم سب امن کے خواہاں ہیں ایک بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔
پھر انگلستان میں گریناڈا (Grenada) کے ہائی کمشنر He Joselyn Whiteman یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ بہت زبردست تقریب تھی۔ یہ خیال کہ اتنے سارے مذاہب ایک ہی چھت کے نیچے اس طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث ہے۔ اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل دنیا کے مسائل کے حل کے لئے لوگوں کو اکٹھا کس طرح کیا جا سکتا ہے‘‘۔
پھر Mak Chishty، جو لنڈن میں میٹروپولیٹن پولیس میں کمانڈر ہیں، کہتے ہیں کہ ’’مجھے آج کی تقریب میں یہ بات اچھی لگی کہ ہر کسی نے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیں۔ دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی نہیں کی۔ اور اسی چیز سے ہم میں باہم اتحاد اور یگانگت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔‘‘
یہی بات ہے جس کو کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملکہ کو لکھا بھی تھا کہ (ایسا) ہونا چاہئے۔ (ماخوذ از تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 261)
پھر یورپین پارلیمنٹ میں لندن کے جو نمائندے ہیں Dr. Charles Tannock MEP، وہ کہتے ہیں کہ ’’مستقبل میں اس رستہ کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہم سب خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم یہ نہیں مان سکتے کہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے اس طرح لڑتے چلے جائیں۔ اس لیے مَیں امن کے اس پیغام کی پر زور تائید کرتا ہوں۔ احمدیوں کے بارے میں جس بات کو میں قابلِ قدر جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کے مذہب کی تعلیمات کا مرکز ’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘ ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک عالمی نوعیت کا پیغام ہے۔ جس قدر مختلف مذاہب مل بیٹھ سکیں اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘
Baroness Berridge جو انگلستان کی پارلیمنٹ کی ’آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ‘ (APPG)آن انٹرنیشنل فریڈم آف ریلیجن کی چیئر پرسن ہیں۔ کہتی ہیں: ’’مجھے آل پارٹی گروپ برائے مذہبی آزادی کی چیئر مین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مَیں جانتی ہوں کہ احمدیہ کمیونٹی کس طرح دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات کرتی چلی جا رہی ہے اور یہ بات امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں بھی کی۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہم احمدیہ کمیونٹی کے ساتھ ان کے کاموں میں تعاون کرتے ہیں۔ اور ہمیں اس بات پر بھی خوشی ہے کہ احمدیوں کو اس ملک میں مکمل آزادی حاصل ہے۔‘‘
پھر Kay Carter جو انگلستان کی پارلیمنٹ کے آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ (APPG)آن انٹرنیشنل فریڈم آف ریلیجن کے ممبر ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’امام جماعت احمدیہ نے جو کہا کہ تمام مذاہب میں بنیادی بات ایک ہی نظر آتی ہے یعنی محبت، رواداری اور امن۔ درحقیقت میڈیامیں مذہب کو ایک ایسی چیز بنا کر پیش کیا گیا ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کا جواز پیدا کر رہا ہے، لیکن جیسا کہ آج کی اس محفل میں ہم نے دیکھا کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔‘‘
پھر یہی چیف ربائی جو تھے اُن کا دوبارہ ایک پیغام(آیا) تھا کہ ’’امام جماعت احمدیہ کا پیغام امن اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے متعلق ہے۔‘‘ نیزیہ کہ ’’دنیا کے تمام مذاہب کو ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرنا چاہیے کیونکہ ہم سب آدم کی نسل ہیں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے اور امن کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے، نہ یہ کہ ہم ایک دوسرے سے لڑنے لگ جائیں بلکہ جس قدر ممکن ہو سکے ہمیں امن کے لیے کوشش کرنی ہے۔‘‘
جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا، یہ ربائی ہیں۔ ان کو یہ چاہئے کہ یہ اسرائیل کی حکومت کو بھی اس بارے میں بتائیں۔ پھر ایک کونسلر سنتوخ سنگھ صاحب کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہ بات ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ تمام مذاہب میں بہت ساری تعلیمات مشترک ہیں۔ تمام مذاہبِ عالم ہمیں انسانیت کا سبق سکھاتے ہیں۔ ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا بھلا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
پھر ناروے سے ان کی ایک سیاسی پارٹی Christian Republicکے Billy Tranger ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بہت ہی اہم پیغام دیا ہے کہ ہم سب کو مل کر امن کے قیام کے لئے کام کرنا چاہیے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہی وہ امر ہے جس کی اس دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس پیغام کی ہمیں ناروے میں بھی بہت ضرورت ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم کے پروفیسرProf. Dr. T. Sunier نے کہاکہ ’’امام جماعت احمدیہ نے بڑے واشگاف الفاظ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام اور قرآن کی تعلیمات تشدد کی بجائے امن کے قیام پر زور دیتی ہیں۔‘‘
پھر Greek Orthodox Patriarch of Antioch سے تعلق رکھنے والے Father Ethelwine نے کہا کہ ’’مَیں نے احمدیہ مسلم جماعت کے مختلف فنکشنز میں شمولیت کی ہے۔ امام جماعت کی شخصیت اور ان کے پیغام کو دل سے سراہتا ہوں۔ ہمیشہ کی طرح اس کانفرنس کی بہترین تقریر جماعت کے خلیفہ کی تھی۔ یقینا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اکٹھا کر دینا اور ان سے ان کے مذہب کی بات سننا ایک بہت ہی جرأت مندانہ اور قابلِ قدر اقدام ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
آئر لینڈ سے ایک صاحب آئے ہوئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ’’میں اس کانفرنس میں شامل ہوا اور یہاں پر جو پیغام مجھے ملا ہے اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں احمدیوں سے یہ کہوں گا کہ آج کل دنیا میں پبلسٹی کے بغیر اپنے پیغام کو پھیلانا بہت مشکل ہے۔ جماعت احمدیہ اس قدر کام کر رہی ہے لیکن مجھے خوشی ہو گی اگر آپ لوگ اپنے کاموں کی تشہیر بہتر طور پرکر سکیں کیونکہ آپ لوگوں کے بارے میں دنیا میں مٹھی بھر لوگ ہی معلومات رکھتے ہیں۔‘‘
جہانگیر سارو صاحب جو یوروپین کونسل آف ریلیجیس لیڈرز سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ میں مذہباً زرتشتی ہوں۔ میں اس تقریب سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ سب مقررین نے بہت اچھی تقاریر کیں لیکن آخر میں امام جماعت کا خطاب تو بہت ہی بھرپور تھا۔‘‘
پھر رابن ہسّی جو مذہبی تعلیمات کے استاد ہیں کہتے ہیں کہ ’’اس قدر روحانیت سے پُر یہ تقریب ہو گی مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں نے بہت سارے مذاہب کے پیغامات سنے اور میں یقینا گھر جا کر ان باتوں پر غور کروں گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ امام جماعت احمدیہ کے لیکچر کا متن جلد شائع کیا جائے گا۔‘‘
پھر Canon Dr. Cane، ان کا بھی کسی کیتھیڈرل سے تعلق ہے، کہتے ہیں: ’’کچھ عرصہ پہلے لوگ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ ہمیں مذہب کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ یہ بات سراسر بے بنیاد ہے۔‘‘
پھر بیلجیم کی یونیورسٹی آف Antwerpen سے Dr Lydia جو اپنے ایک colleague کے ساتھ آئی تھیں۔ یہاں سے دو پروفیسر ڈاکٹر شامل ہوئے تھے، ان دونوں نے کہا کہ ’’اسلام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیمات کے حوالہ سے امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے وہ بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ خطاب سننے کے بعد ہم نے فیصلہ کیاہے کہ ہم یونیورسٹی میں اپنے طلباء کو قرآن کریم کا فلیمش ترجمہ دیں گے تا کہ وہ قرآن کریم کو پڑھ کر اسلام کی حقیقی تعلیمات جان سکیں۔‘‘
واپس جا کر ان کو وہاں ترجمہ دے دیا گیا ہے جو اپنی یونیورسٹی میں تقسیم بھی کر رہے ہیں۔ تو اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے مزید راستے بھی کھلے ہیں۔ Santiago Catala Rubio (سنتی آگو کتالہ روبیو) صاحب سپین سے آئے تھے تھے اور میڈرڈ یونیورسٹی میں ریلجنز کے پروفیسر ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جماعت کے ساتھ ان کا قریبی تعلق ہے۔ یورپین پارلیمنٹ برسلز میں 2012ء میں جو تقریب ہوئی تھی وہاں بھی آئے تھے، مجھے ملے تھے۔ کہتے ہیں: ’’اگر عالمی مذاہب کی اس کانفرنس کے متعلق اپنے خیالات اور جذبات کا اظہارکرنے لگوں تو اس کانفرنس کی اہمیت اور مسلم جماعت احمدیہ کے پیغام کی اہمیت کو بیان کرنے میں کئی صفحات بھر جائیں۔ دنیا کی تاریخ میں مختلف مذاہب تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آج کے دورمیں بھی مختلف ثقافتوں مشرق و مغرب، اسلام اور عیسائیت، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین اختلاف موجود ہے۔ یہ اختلاف نفرت اور ظلم میں زیادتی کو ہوا دینے کے لئے بطور بہانہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن احمدیہ مسلم جماعت کا نعرہ ’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘ تمام مذاہب کا خلاصہ ہے۔ یہ نعرہ دنیا کے تمام مذاہب اور تمام لوگوں کوان کے عقائد، حالات اور افکارسے بالاہوکر یکجا کر دیتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ لڑائی، نفرت، ظلم، دوسروں کی اور اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور اپنے ہی لوگوں پر حملہ کرنے کی حمایت کررہاہے جماعت احمدیہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے اس قسم کی تقریبات کو عالمی سطح پر مذہبی اور نظریاتی کمیونٹیز میں بھرپور پذیرائی ملنی چاہئے۔‘‘
میگِل گارسیا (Miguel Garcia) یہ پیدرو آبادکے ہیں۔ کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ یہ مئیر بھی رہ چکے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے دور میں اس وقت چرچ کی مخالفت کے باوجود 1980ء میں ’مسجد بشارت‘ بنانے کی اجازت دی تھی۔ مسجد بشارت کے افتتاح کے موقع پرحضرت خلیفتہ المسیح الربع کو بھی ملے تھے۔ انہوں نے ان کو ایک فریم تحفہ دیا جس پہ کلمہ لکھا ہوا تھا وہ انہوں نے اپنے دفتر میں بھی لگایا ہوا ہے۔ جماعت سے کافی متاثر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’مسلم جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے وفود، ممبرزآف پارلیمنٹ، سیاسی شخصیات، تعلیم دان اور مختلف انسانی ہمدری سے تعلق رکھنے والے اداروں کے نمائندگان کو لندن میں جمع کیا گیا تا کہ وہ اتحاد اور امن کے قیام کیلئے ڈائیلاگ کی ضرورت پر غورکریں۔ یہ انتہائی مثبت قدم تھا۔ مَیں جماعت احمدیہ کو اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اور میری خواہش ہے کہ یہ جماعت اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ کے ساتھ پیدروآباد میں مسجد بشارت کے سنگِ بنیاد کے موقع پر1981ء میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد چوتھے خلیفہ کے ساتھ اسی مسجد کے افتتاح کے موقع پر 1982ء میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اب اس کانفرنس کے ذریعہ مجھے جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ کے ساتھ ملنے کی بھی سعادت مل گئی۔ مَیں حضرت مرزامسرور احمدصاحب کے الفاظ سے بہت محظوظ ہواہوں۔ انہوں نے جنگ و جدل سے آزاد ایک پُرامن معاشرے کے قیام کے حوالہ سے بات کی ہے اور اُن حکومتوں کی مذمت کی ہے جو دفاع کے نام پر اسلحہ کو انسانیت پر ترجیح دیتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ مرزامسرور احمدنے ایک ایسے معاشرہ کے قیام کے لئے جس کی بنیاد انصاف اور باہمی عزت و احترام پر ہو، مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو تضادات سے بھری پڑی ہے۔ بعض ممالک ترقی کی انتہا کو چھو گئے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھوک اور افلاس کی وجہ سے مررہی ہے۔ ایک طرف ہم لاکھوں ٹن خوراک سمندر میں پھینک دیتے ہیں اور دوسری طرف کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کو کھانے کے لئے انتہائی مشکل کے ساتھ کچھ ملتاہے۔ ایک طرف کروڑپتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف معاشرے کے بعض طبقے انتہائی غریب ہوگئے ہیں۔ ایک ایسی دنیا کے قیام کی ضرورت ہوگی جو جنگ کو ترک کردے اور امن کی خواہاں ہو، جو سب کو ساتھ لے کر مشترکہ طور پر ترقی کرے، جو ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوجائے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دے۔‘‘
بہر حال یہ چند تبصرے تھے جو مَیں نے پیش کئے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرے۔ اُسے پہچانے اور خدا کو پہچاننے سے ہی اس تباہی سے بچ سکتے ہیں جو ہمارے سامنے کھڑی ہے جس کی وارننگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے کلام میں، اپنی تحریرات میں بارہا دی ہے۔
اس کے علاوہ مَیں آج پھر پاکستان کے حالات کے بارے میں بھی دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ شر پسند لوگوں سے اس ملک کو بچائے اور احمدیوں کو بھی محفوظ رکھے اور اُن سب لوگوں کو محفوظ رکھے جو امن کے خواہاں ہیں اور اس فتنہ و فساد سے بچنا چاہتے ہیں اور اس کا حصہ نہیں۔ اسی طرح سیریا کے حالات کے بارے میں بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی احمدیوں کو محفوظ رکھے۔ گزشتہ دنوں پھر ایک احمدی کو بلا وجہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کی حفاظت فرمائے۔ اور عمومی طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کریں۔ جو حالات اب پیدا ہو رہے ہیں لگتا ہے کہ یہ جنگ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بعض بڑی حکومتیں اس بات کو سمجھ نہیں رہیں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو کیا خوفناک صورت حال پیدا ہونے والی ہے۔ دنیا بالکل تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کے لئے بہت زیادہ دعائیں کریں۔
برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال مکمل ہونے پر جماعت احمدیہ یو کے کے زیر اہتمام لندن کے تاریخی گلڈ ہال میں منعقدہ مذاہب عالم کانفرنس میں مختلف مذاہب کے نمائندگان کی شرکت اور ’’اکیسویں صدی میں خدا تعالیٰ کا کردار‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال۔ ملکۂ برطانیہ، وزیر اعظم برطانیہ اور دیگر سیاسی و مذہبی نمائندوں کے خصوصی پیغامات کا مختصر تذکرہ۔
٭… مَیں جس آسمانی کتاب کو مانتا ہوں وہ قرآنِ کریم ہے۔ اور وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ انبیاء کو بھیج کر اس بات کو رائج کرنا چاہتا ہے کہ انسان روحانیت کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور اُس کا حق ادا کرے۔ اسی طرح اعلیٰ اخلاق کے معیار قائم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرے۔
٭… مَیں اور جماعت احمدیہ یہ ایمان رکھتی ہے کہ مسیح موعود بانیٔ جماعت احمدیہ کی صورت میں آ گئے اور اپنے ماننے والوں میں حقیقی اسلام کی تعلیم کو رائج فرما دیا۔ ایک جماعت قائم کر دی جو حقیقی اسلام پر عمل کر رہی ہے اور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مسیح موعود علیہ السلام جو اسلام کے احیائے نو کے لئے آئے، اُن کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں۔ ٭… بانیٔ جماعت احمدیہ نے ہم میں یہ ادراک پیدا فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتیں کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ آج بھی زندہ ہے اور اپنے نیک بندوں سے بولتا اور نشان دکھاتا ہے۔ پس دنیا اس طرف توجہ دے اور اپنی غلطیوں کا الزام خدا اور مذہب کو نہ دے بلکہ اپنے گریبان میں جھانکے۔
اسلام کی نمائندگی میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز نہایت جامع اور پُر اثر خطاب۔
…’یہ خیال کہ اتنے سارے مذاہب ایک ہی چھت کے نیچے اس طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث ہے‘۔ ز… ’امام جماعت احمدیہ کا پیغام امن اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے متعلق ہے۔ نیزیہ کہ دنیا کے تمام مذاہب کو ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرنا چاہیے‘۔ ز… ’امام جماعت احمدیہ نے بڑے واشگاف الفاظ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام اور قرآن کی تعلیمات تشدد کی بجائے امن کے قیام پر زور دیتی ہیں‘۔ ز…’ہمیشہ کی طرح اس کانفرنس کی بہترین تقریر جماعت کے خلیفہ کی تھی۔ یقینا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اکٹھا کر دینا اور ان سے ان کے مذہب کی بات سننا ایک بہت ہی جرأت مندانہ اور قابلِ قدر اقدام ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے‘۔ ز…’اس قسم کی تقریبات کو عالمی سطح پر مذہبی اور نظریاتی کمیونٹیز میں بھرپور پذیرائی ملنی چاہئے‘۔ (تقریب میں شامل مہمانوں کے تاثرات)
پاکستان اور سیریا کے احمدیوں اور ان سب لوگوں کے لئے جو امن کے خواہاں ہیں دعا کی خاص تحریک۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کی حفاظت فرمائے۔ عمومی طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کی تحریک۔ جو حالات اب پیدا ہو رہے ہیں لگتا ہے کہ یہ جنگ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کے لئے بہت زیادہ دعائیں کریں۔
فرمودہ مورخہ 07مارچ 2014ء بمطابق 07امان 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔