معرفت الٰہیہ کی اہمیت، اس کے حصول اور ثمرات
خطبہ جمعہ 14؍ مارچ 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
چند جمعے پہلے تک عملی اصلاح کے طریقوں کے بارے میں مَیں نے چند خطبات دئیے تھے جن میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس طرح پیش فرمایا اور معرفت اور محبت الٰہی کے کیا طریق بتائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے آپ نے کس طرح رہنمائی فرمائی ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں جو معجزات و نشانات دکھائے ہیں وہ کس شان سے پورے ہوئے؟ یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا علم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی روشنی میں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ یہ باتیں ہمارے ایمان اور ہمارے عمل میں ترقی کا باعث بنیں۔ سو آج اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اور ارشادات کے کچھ نمونے مَیں پیش کروں گا جن میں معرفت الٰہی کے بارے میں آپ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ صرف اس ضمن میں ہی آپ کی تحریرات پیش کی جائیں تو بیسیوں بلکہ اگر گہرائی میں جایا جائے تو سینکڑوں صفحات بھی اس بارے میں مل جاتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ مَیں نے کہا آج بطور نمونہ چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا جو اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ معرفت الٰہی کیا ہے؟ اس میں انبیاء اور اولیاء کا تو ایک مقام ہے ہی، ایک عام مسلمان کا بھی اس میں کیا معیار ہونا چاہئے؟
عموماً مَیں نے ایسے حوالے لینے کی کوشش کی ہے جو آسان ہوں لیکن ان کی زبان یا بعض حوالے سمجھنے مشکل بھی ہو سکتے ہیں۔ بہر حال خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے طریق کی رہنمائی کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ اول بدی سے پرہیز کرنا۔ دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا۔ اور محض بدی کو چھوڑنا کوئی ہنر نہیں ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قوتیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ ایک طرف تو جذباتِ نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دوسری طرف محبت الٰہی کی آگ جو اس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے۔ مگر اس روحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے‘‘ (یعنی اس کا بھڑکایا جانا جو گناہوں کو جلاتی ہے) ’’معرفت الٰہی پر موقوف ہے‘‘۔ (معرفت الٰہی ہو گی تو تب ہی یہ جل سکتی ہے اسی پر اس کا انحصار ہے) ’’کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اس کی معرفت سے وابستہ ہے۔ جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہو سکتے۔ پس خدائے عزّوجل کی خوبی اور حسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں۔ مگر سنّت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی معرفت ملتی ہے اور ان کی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو دیا گیا وہ ان کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ62)
پھر آپ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ مَیں نے تمام مذاہب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے (جائزہ لیا ہے) اور اس کے بعد مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت اسلام ہی ہے جو خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت ہر زمانے میں پیدا کر سکتا ہے کیونکہ یہی ایک ایسا مذہب ہے جس کا نبی بھی زندہ ہے۔ جس کی تعلیم زندہ ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا کلام بھی اتر سکتا ہے اور انوار الٰہی کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں اور ان سے تم فیض پا سکتے ہو۔ (ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 63تا65)
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اسلام کی حقیقت اور معرفت الٰہی کا ایک تعلق ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگرچہ حصول حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم و صلوٰۃ ہے اور دعا اور تمام احکام الٰہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون و صفات جلالی و جمالی حضرت باری عزّ اسمہ وسیلۃ الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا علم، اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی معرفت حاصل کرنا، اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کرنا ان سب کا انحصار اس بات پر ہے اور یہی ایک ذریعہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح جانا جائے جس طرح اس کے پہچانے جانے کا حق ہے۔) فرمایا کہ: ’’کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الٰہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب توفیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجا لاوے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو۔ ان سب اعمال صالح کا محرّک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اس کے بنین و بنات ہیں‘‘۔ (یعنی کہ اس کے بچّے ہیں) ’’اور ابتدا اس معرفت کی پرتو اسم رحمانیت سے ہے۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کی جو ابتدا ہے وہ اس کے اسم یا اس کی رحمانیت کی جو صفت ہے اس سے ہے)۔ ’’نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ بلاعلّتِ فیضان سے صرف ایک موہبت ہے‘‘۔ (یعنی بغیر کسی علّت فیضان کے، بغیر کسی فیض پانے کے سبب کے، صرف اللہ تعالیٰ کی عطا سے یہ ملتی ہے اور یہ رحمانیت ہے۔ فرمایا: ’’یَھْدِیْ مَن یَّشَآءُ وَیُضِلُّ مَن یَّشَآءُ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مگر پھر یہ معرفت اعمال صالحہ اور حسن ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے‘‘۔ (پہلی بات تو یہ کہ یہ معرفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمانیت سے ملتی ہے لیکن جب یہ معرفت مل جائے تو اس کے بعد کیا ہو اور اس میں آدمی کو پھر کیا کرنا چاہئے۔ اعمال صالحہ بجا لانے کی ضرورت ہے اور ایمان میں اَور خوبصورتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ایمان کی خوبصورتی ہو گی اور اعمال صالحہ ہوں گے تو پھر اس معرفت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ) ’’یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الہی کے رنگ میں نزول پکڑ کر تمام صحن سینہ کو اس نور سے منور کردیتی ہے جس کا نام اسلام ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ187تا189)
پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت، گناہوں سے نجات، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پا سکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اسی کے فضل اور کرم سے اس کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے۔ اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے یا ان سے ڈرتا ہے اور دور بھاگتا ہے۔ یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالی کا فضل نہ ہو۔ اور نہ مفید ہو سکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے۔ تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے‘‘۔ (یعنی سچائی پھر نظر بھی آتی ہے اور اس معرفت کے آنے سے سچائی کی تلاش کی طرف اَور دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ) ’’اور پھر بار بار دورفضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل پھر دوبارہ دوبارہ آتا چلا جاتا ہے اور اسی فضل کے آنے کی وجہ سے پھر یہ معرفت کا دروازہ کھلا رہتا ہے) ’’اور بندنہیں ہوتا۔ غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفّیٰ اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اٹھا دیتا ہے اور نفس امّارہ کے لئے گردوغبار کو دور کر دیتا ہے اور روح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفسِ امّارہ کو امّارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بدخواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے۔ تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے روح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے‘‘۔ (ایک تیز سیلاب ہے۔ کشتی بن جاتی ہے۔ ) ’’ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد20صفحہ221-222)
یہ معرفت کا مقام ہے۔
پھر فرمایا کہ انسان گناہ کی طرف کیوں زیادہ گرتا ہے۔ نفس امّارہ کیوں دلوں پر قبضہ کرتا ہے؟ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ:
’’گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجودنہ ہونا ہے۔ لیکن یہ خوف کیونکر پید اہو۔ اس کے لیے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔ جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا۔ ہر کہ عارف تر است ترساں تر۔‘‘ یعنی جو زیادہ عرفان رکھتا ہے وہ اتنا ہی خوف رکھتا ہے۔ لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ فرمایا: ’’اس امر میں اصل معرفت ہے۔‘‘ (یہ جو بات ہے اس میں اصل بنیادی چیز جو ہے وہ معرفت ہے۔ ) ’’اور اس کا نتیجہ خوف ہے‘‘۔ (اگر معرفت پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی پہچان ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقت کا علم ہو گا تو پھر ہی خوف بھی پیدا ہو گا۔ ) ’’معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے‘‘۔ (یعنی جن کیڑوں کے بارے میں انسان کو علم ہوتا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے، ان سے بھی ڈرتا ہے۔ ) فرمایا: ’’جیسے پسّو اور مچھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس کیاوجہ ہے کہ خد اجو قادر مطلق اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔ اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلو م ہوگاکہ معرفت نہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا صحیح علم ہی نہیں۔ اس لئے گناہوں کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ) ’’بہت ہیں کہ زبان سے تو خد اتعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اس کے یقینِ کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اﷲ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔ گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو …‘‘
اب آج کل اس دنیا میں ہماری کون سی مجلسیں ہیں جو گناہ کی طرف لے جاتی ہیں۔ کہیں ٹی وی ہے، کہیں انٹرنیٹ ہے، کہیں فیس بکیں (facebook) ہیں۔ یہ اب ایسی چیزیں ہیں جن کو دنیا والے بھی محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں پہلے یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ میں ہی اس بات پر کہ فیس بُک نے لوگوں میں بے چینیاں پیدا کر دی ہیں انہوں نے چھ لاکھ سے زیادہ اکاؤنٹ وہاں بند کر دئیے۔
بہر حال فرمایا کہ: ’’… جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو۔ اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ نمبر95-96۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر اس بات کو مزید کھولتے ہوئے کہ گناہوں سے بچنا بغیر معرفت الٰہی کے ممکن نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا یاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے۔ یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے۔ دیکھو ایک سانپ جو خوشنما معلوم ہوتا ہے بچہ تو اس کو ہاتھ میں پکڑنے کی خواہش کرسکتا ہے اور ہاتھ بھی ڈال سکتا ہے لیکن ایک عقلمند جو جانتا ہے کہ سانپ کاٹ کھائے گا اور ہلاک کر دے گا وہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اس کی طرف لپکے بلکہ اگر معلوم ہو جاوے کہ کسی مکان میں سانپ ہے تو اس میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہی زہر کو جو ہلاک کرنے والی چیز سمجھتا ہے تو اس کے کھانے پر وہ دلیر نہیں ہوگا۔ پس اسی طرح پر جب تک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہ یقین معرفت کے بدُوں پیدا نہیں ہو سکتا۔ …‘‘ (جب تک معرفت نہ ہو اس وقت تک یہ یقین پیدا نہیں ہو سکتا۔ یعنی انسان کو یہ پتا ہے، معرفت ہے، اس کا علم ہے کہ زہر بھی خطرناک ہے، سانپ بھی خطرناک ہے تبھی ان سے بچتا ہے۔ ) فرمایا کہ: ’’… پھر وہ کیا بات ہے کہ انسان گناہوں پر اس قدر دلیر ہو جاتا ہے باوجودیکہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور گناہ کو گناہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ معرفت اور بصیرت نہیں رکھتا جو گناہ سوز فطرت پیدا کرتی ہے۔ اگر یہ بات پیدا نہیں ہوتی تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ معاذ اللہ اسلام اپنے اصلی مقصد سے خالی ہے لیکن مَیں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں۔ یہ مقصد اسلام ہی کامل طور پر پورا کرتا ہے اور اس کا ایک ہی ذریعہ ہے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ۔ کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ گناہ سے بیزار ہے اور وہ سزا دیتا ہے۔ گناہ ایک زہر ہے جو اول صغیرہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر کبیرہ ہو جاتا ہے اور انجام کار کفر تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد20صفحہ287)
پھر گناہوں سے رکنے کے لئے معرفت کی اہمیت کو ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
’’معر فت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سمّ الفار، سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تووہ ان کے نزدیک نہیں جاتا‘‘۔ (یعنی ان چیزوں کے بارے میں علم ہے کہ یہ انسان کو مار سکتے ہیں، ہلاک کر سکتے ہیں اس لئے وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا۔) ’’ایسے جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکوگے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھا ؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے۔ نماز کو جس قدر سنوار کرادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤگے۔ معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے‘‘۔
اس بارے میں براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’مصنوعات سے تو انسان کوایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت ہو تی ہے کہ ایک فاعل ہو ناچاہئے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ’’ہے‘‘ بھی۔ ’’ہو نا چاہئے‘‘ اَور شئے ہے اور ’’ہے‘‘ اور شئے ہے۔ اس ’’ہے‘‘ کا علم سوائے دعا کے نہیں حاصل ہوتا۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا علم دعا سے حاصل ہوتا ہے۔ ) ’’عقل سے کام لینے والے ’’ہے‘‘کے علم کو نہیں پاسکتے۔‘‘ (اگر صرف عقل سے کام لینا ہے تو وہ ’’ہونا چاہئے‘‘ اور ’’ہے‘‘ کے فرق کو محسوس نہیں کر سکتے۔ ’’ہے‘‘ کے علم کو پا نہیں سکتے۔ ) ’’اسی لیے ہے‘‘ (یعنی یہ جو ایک محاورہ ہے) ’’کہ خدا را بخدا تواں شناخت‘‘۔ (کہ خدا کو خدا تعالیٰ کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے۔) ’’لَاتُدْرِکُہُ الْاَ بْصَارُ کے بھی یہی معنی ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جوذریعے اس نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لیے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ 590۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر حقیقی توبہ کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جو خدا کی تلاش میں استقلال سے لگتا ہے وہ اُس کو پا لیتا ہے۔ نہ صرف پا لیتا ہے بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ وہ اس کو دیکھ لیتا ہے۔ ارضی علوم کی تحصیل میں کس قدر وقت اور روپیہ صرف کرنا پڑتا ہے۔ یہ علوم روحانی علوم کی تحصیل کے قواعد کو صاف طور پر بتارہے ہیں‘‘۔ (یعنی عام جو دنیاداری کی تعلیم ہے اس پر محنت لگاتے ہیں روپیہ بھی لگاتے ہیں تو یہی اصول روحانی علوم کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔) فرمایا کہ ’’ہمارا مذہب جوروحانی علوم کے مبتدی کے لئے ہونا چاہئے یہ ہے کہ وہ پہلے خدا کی ہستی پھر اس کی صفات کی واقفیت پیدا کرے ایسی واقفیت جو یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے۔ تب اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کاملہ پر اس کو اطلاع مل جاوے گی اور اس کی رُوح اندر سے بول اُٹھے گی کہ پورے اطمینان کے ساتھ اس نے خدا کو پالیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایسا ایمان پیدا ہوجاوے کہ وہ یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے اور انسان محسوس کرلے کہ اس نے گویا خدا کو دیکھ لیا ہے اور اس کی صفات سے واقفیت حاصل ہوجاوے تو گناہ سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور طبیعت جو پہلے گناہ کی طرف جھکتی تھی اب ادھرسے ہٹتی اور نفرت کرتی ہے اور یہی توبہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 465۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر معرفت الٰہی کے حصول کے لئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’سور فاتحہ میں جو پنج وقت فریضہ نماز میں پڑھی جاتی ہے یہی دعا سکھلائی گئی ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم۔ تو کسی امّتی کو اس نعمت کے حاصل ہونے سے کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ کیا سورہ فاتحہ میں وہ نعمت جو خدا تعالیٰ سے مانگی گئی ہے جو نبیوں کو دی گئی تھی وہ درہم و دینار ہیں۔ ظاہر ہے کہ انبیا علیہم السلام کو مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کی نعمت ملی تھی جس کے ذریعہ سے ان کی معرفت حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گئی تھی اور گفتار کی تجلی دیدار کے قائم مقام ہو گئی تھی‘‘۔ (یعنی جو تجلّی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکالمہ کی تجلّی تھی، اللہ تعالیٰ سے اتنی زیادہ شدت سے اتنی زیادہ قربت پیدا ہوگئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قائم مقام ہوگئی تھی۔ ) فرمایا: ’’پس یہ جو دعا کی جاتی ہے کہ اے خداوند وہ راہ ہمیں دکھا جس سے ہم بھی اس نعمت کے وارث ہو جائیں اس کے بجز اس کے اور کیا معنے ہیں کہ ہمیں بھی شرف مکالمہ اور مخاطبہ بخش۔ بعض جاہل اس جگہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے صرف یہ معنے ہیں کہ ہمارے ایمان قوی کر اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرما اور وہ کام ہم سے کرا جس سے تو راضی ہو جائے۔ مگر یہ نادان نہیں جانتے کہ ایمان کا قوی ہونا یا اعمال صالحہ کا بجا لانا اور خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق قدم اٹھانا یہ تمام باتیں معرفت کاملہ کا نتیجہ ہیں۔ جس دل کو خدا تعالیٰ کی معرفت میں سے کچھ حصہ نہیں ملا وہ دل ایمان قوی اور اعمال صالحہ سے بھی بے نصیب ہے۔‘‘ (اس کو وہ بھی نہیں مل سکتا۔ )’’معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کی محبت دل میں جوش مارتی ہے۔ جیسا کہ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک چیز کا خوف یا محبت معرفت سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اگر اندھیرے میں ایک شیر ببر تمہارے پاس کھڑا ہو اور تم کو اس کاعلم نہ ہو کہ یہ شیر ہے بلکہ یہ خیال ہو کہ یہ ایک بکراہے تو تمہیں کچھ بھی اس کا خوف نہیں ہو گا اور جبھی کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ تو شیر ہے تو تم بے حواس ہو کر اس جگہ سے بھاگ جاؤ گے۔ ایسا ہی اگر تم ایک ہیرے کو جو ایک جنگل میں پڑا ہوا ہے جو کئی لاکھ روپیہ قیمت رکھتا ہے محض ایک پتھر کا ٹکڑا سمجھو گے تو اس کی تم کچھ بھی پروا نہیں کرو گے۔ لیکن اگر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ اس شان اور عظمت کا ہیرا ہے تب تو تم اس کی محبت میں دیوانہ ہو جاؤ گے اور جہاں تک تم سے ممکن ہو گا اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو گے۔ پس معلوم ہوا کہ تمام محبت اور خوف معرفت پر موقوف ہے۔ انسان اس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا جس کی نسبت اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے اندر ایک زہریلا سانپ ہے اور نہ اس مکان کو چھوڑ سکتا ہے جس کی نسبت اس کو یقین ہو جائے کہ اس کے نیچے ایک بڑا بھاری خزانہ مدفون ہے۔ اب چونکہ تمام مدار خوف اور محبت کا معرفت پر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف بھی پورے طور پر اس وقت انسان جھک سکتا ہے جب کہ اس کی معرفت ہو‘‘۔ (جب اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت ہو گی تب ہی اس کی محبت بھی دل میں پیدا ہو گی، تب ہی اس کا خوف بھی دل میں پیدا ہو گا۔ ) فرمایا: ’’اوّل اس کے وجود کا پتہ لگے اور پھر اس کی خوبیاں اور اس کی کامل قدرتیں ظاہر ہوں اور اس قسم کی معر فت کب میسر آسکتی ہے بجز اس کے کہ کسی کو خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور پھر اعلام الٰہی سے اس بات پر یقین آ جائے کہ وہ عالم الغیب ہے اور ایسا قادر ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ سو اصلی نعمت (جس پر قوتِ ایمان اور اعمال صالحہ موقوف ہیں۔ )‘‘ {ایمان اور اعمال صالحہ کا جس پر انحصار ہے} ’’خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کے ذریعہ سے اول اس کا پتہ لگتا ہے اور پھر اس کی قدرتوں سے اطلاع ملتی ہے اور پھر اس اطلاع کے موافق انسان ان قدرتوں کو بچشم خود دیکھ لیتا ہے۔ یہی وہ نعمت ہے جو انبیاء علیہم السلام کو دی گئی تھی اور پھر اس امّت کو حکم ہوا کہ اس نعمت کو تم مجھ سے مانگو کہ مَیں تمہیں بھی دوں گا۔ پس جس کے دل میں یہ پیاس لگا دی گئی ہے کہ اس نعمت کو پاوے بیشک اس کو وہ نعمت ملے گی‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ307 تا 309)
پھر نیکیوں کے بجا لانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے معرفت الٰہی کے حصول پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’تمام سعادت مندیوں کا مدار خدا شناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کاملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے۔ وہ بڑا قادر ہے۔ وہ ذوالعذاب الشدید ہے۔ یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمردانہ زندگی پر‘‘ (سرکش زندگی پر) ’’ایک بھسم کرنے والی بجلی گراتا ہے‘‘۔ (ایسی بجلی گراتا ہے جو اس کو جلا کر خاک کر دیتی ہے۔ ) ’’پس جب تک انسان اٰمَنْتُ بِاللّٰہ کی حدود سے نکل کر عَرَفْتُ اللّٰہ کی منزل پر قدم نہیں رکھتا‘‘ (اللہ پر ایمان لانے کی حد سے نکل کر اس کی پہچان اور معرفت حاصل کرنے کی منزل پر قدم نہیں رکھتا) ’’اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے‘‘۔ (بہت مشکل ہے کہ گناہوں سے بچا جائے۔ ) ’’اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پریقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارا روزانہ تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس سے انسان سے ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا۔ مثلاً جب کہ یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا ہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانشمند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو درکنار کبھی ایسے سوٹے کے نزدیک جانا بھی پسندکرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو‘‘۔ (یعنی سوٹے میں بھی زہر کا اثر نہ لگا ہو۔ )’’اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم ازکم تنہا جا سکے۔ بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں۔ پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر ہونے کا یقین پیدا نہ ہو کوئی اور طریق خواہ کسی کی خودکشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت واردنہیں کر سکتا۔ یقینا یاد رکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبات کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے۔ جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اور ا س بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ و ہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے۔ میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے اور نفس کا مغالطہ ہے۔ سچے ایمان اور سچے یقین اور گناہ میں باہم عداوت ہے۔ جہاں سچی معرفت اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں کہ گناہ رہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 3-4۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا شناسی کی طرف قدم جلداٹھانا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کا مزا اسے آتا ہے جو اسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدق ووفا سے قدم نہیں اُٹھاتا اس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف ذراسی حرکت کروگے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا۔ لیکن اوّل تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خام خیالی ہے کہ بلا حرکت کئے اس سے کسی قسم کی توقع رکھی جاوے۔ یہ سنّت اللہ اسی طریق سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجۃًظاہر ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے مکان کے کُل دروازے بند کردے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا۔ خدا تعالیٰ کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا ہو جاوے گا لیکن انسان کو اس کوچہ میں پڑ کر صبر سے کام لینا چاہئے۔
بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں، نماز بھی پڑھی، روزے بھی رکھے، صدقہ خیرات بھی دیا، مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا۔ تو ایسے لوگ شقی ازلی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لیے کئے ہوتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ شکوک وشہبات میں رہتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی پتہ نہیں لگتا کہ ہے بھی کہ نہیں۔ ایک پارچہ سلا ہوا ہو تو انسان جان لیتا ہے‘‘ (کپڑا سلا ہوا ہوتو انسان جان لیتا ہے) ’’کہ اس کے سینے والا ضرور کوئی ہے۔ ایک گھڑی ہے وقت دیتی ہے۔ اگر جنگل میں بھی انسان کو مل جاوے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کے بنانے والا ضرور ہے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال کو دیکھو کہ اس نے کس کس قسم کی گھڑیاں بنارکھی ہیں اور کیسے کیسے عجائبات قدرت ہیں۔ ایک طرف تو اس کی ہستی کے عقلی دلائل ہیں۔ ایک طرف نشانات ہیں۔ وہ انسان کو منوا دیتے ہیں کہ ایک عظیم الشان قدرتوں والا خدا موجود ہے۔ وہ پہلے اپنے برگزیدہ پر اپنا ارادہ ظاہر فرماتا ہے اور یہی بھاری شئے ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور جس کا نام پیشگوئی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ 494-495۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الٰہی ہے اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو ربّ اور اس کے بندہ میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے۔ کمالیت محبت، کمالیت معرفت سے پیدا ہوتی ہے اور عشق الٰہی بقدر معرفت جوش مارتا ہے اور جب محبت ذاتیہ پیدا ہوجاتی ہے تو وہی دن نئی پیدائش کا پہلا دن ہوتا ہے اور وہی ساعت نئے عالَم کی پہلی ساعت ہوتی ہے‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2صفحہ281)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلّت سے دیکھتا ہے کہ اس کے دیکھنے کے لئے بھی اسے طبیعت پر ایک جبر اور اکراہ کرنا پڑتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاؤ کہ کامیابی اسی میں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 92۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرماتے ہیں: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دُور کردے۔ پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتاہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں یہ سب باتیں با ر بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ 213-214۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ مزید اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا مَیں ان لوگوں کو جواللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلادوں‘‘۔ جو سچائی اور صبر اور وفا داری کے ساتھ اس طرف آئیں وہ آپ کو ماننے کے بعدخدا تعالیٰ کو بھی دیکھ لیں۔ ) پھر فرمایا کہ: ’’اس بنا پر اللہ تعا لیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا: اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ یعنی تُو مجھ سے ہے یا مجھ سے ظاہر کیا گیا ہے اور مَیں تجھ سے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ 5۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی معرفت ہم میں پیدا فرمائیں گویا ہم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اپنے ہر فعل کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے بجا لائیں۔ ایسی معرفت الٰہی ہم میں پیدا ہو جائے جو ہمارے تمام گناہوں کو جلا دے اور ہم آپ کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی اور اس روح کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہاں نمازوں کے بعد ایک جنازہ بھی ہو گا۔ حاضر جنازہ ہے۔ مَیں نیچے جا کر جنازہ ادا کروں گا۔ احباب یہیں مسجد میں رہیں گے۔ یہیں میرے پیچھے ادا کریں۔ مکرم عبدالسبحان منان دین صاحب کا جنازہ ہے جو عبدالمنان دین صاحب کے بیٹے تھے۔ 72 سال کی عمر میں کل وفات پا گئے ہیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انگلستان میں آنے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھے۔ 1945ء میں یہاں آئے تھے۔ جلسہ سالانہ میں تیس سال تک شعبہ امانت میں کافی خدمات دیتے رہے ہیں۔ پرانے لوگوں میں سے تھے۔ نصیردین صاحب کے یہ چچا زاد ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا نماز جنازہ جمعہ کے بعد ادا ہو گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی معرفت ہم میں پیدا فرمائیں گویا ہم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اپنے ہر فعل کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے بجا لائیں۔ ٭…’’جو شخص غافل دل اور معرفت الٰہی سے بکلّی بے نصیب ہے وہ کب توفیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجا لاوے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو۔ ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے‘‘۔
٭…جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکوگے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھا ؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے۔ نماز کو جس قدر سنوار کرادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤگے‘‘۔
٭…’’اصلی نعمت جس پر قوتِ ایمان اور اعمال صالحہ موقوف ہے۔ خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے‘‘۔
٭…’’ایمان کا قوی ہونا یا اعمال صالحہ کا بجا لانا اور خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق قدم اٹھانا یہ تمام باتیں معرفت کاملہ کا نتیجہ ہیں‘‘۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے معرفت الٰہیہ کی اہمیت، اس کے حصول اور اس کے ثمرات کا بصیرت افروز تذکرہ)
مکرم عبدالسبحان منان دین صاحب آف لندن کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ حاضر۔
فرمودہ مورخہ 14مارچ 2014ء بمطابق 14امان 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔