حضرت مسیح موعودؑ کے حق میں الٰہی تائیدات اور نشانات
خطبہ جمعہ 21؍ مارچ 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند تحریرات اور اقتباسات ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے اپنی صداقت اور نشانات و معجزات کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس سے پہلے مَیں گزشتہ خطبہ کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے آپ علیہ السلام کے معرفت الٰہی کی اہمیت اور حصول کے طریق کے بارے میں کچھ اقتباسات پڑھے تھے اور ایک دو مشکل حوالوں کی مختصر وضاحت بھی کی تھی۔ لیکن بعد میں جب مَیں نے اس خطبہ کا ابتدائی انگریزی ترجمہ سنا اور پھر الفضل میں چھپنے کے لئے خطبہ تحریری شکل میں میرے سامنے آیا تو مجھے احساس ہوا کہ ایک اقتباس کی وضاحت صحیح طور پر نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے شاید مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے والوں کو دقّت ہوئی ہو۔ اسی طرح تحریر میں لانے والے کو بھی دقت ہوئی۔ اس لئے آج مَیں پہلے اس اقتباس کی چند سطریں یا اس کا کچھ حصہ پڑھ کر آسان الفاظ میں اس کو مختصرًا بیان کروں گا یا بیان کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو علم کلام ہے اس کو بڑی گہرائی میں جا کر غور کرنا پڑتا ہے، سمجھنا پڑتا ہے۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ احکامِ الٰہی پر عمل بغیر معرفت الٰہی کے نہیں ہو سکتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگرچہ حصولِ حقیقت اسلام کے وسائل اَور بھی ہیں جیسے صوم و صلوٰۃ اور دعا اور تمام احکام الٰہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون و صفات جلالی و جمالی حضرت باری عزّ اِسْمُہٗ وسیلۃ الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الٰہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب توفیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجا لاوے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو۔ ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اسی کے بنین و بنات ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ187-188)
یہ اقتباس بڑا اہم ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ عام آدمی کے سمجھنے کے لئے بھی اس کی کچھ وضاحت کر دوں۔ پہلی بنیادی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ اسلام کی حقیقت اسی کو پتہ چل سکتی ہے جب کوئی گہرائی میں جا کر اس کا علم اور معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے یا اس وقت پتہ لگ سکتی ہے جب یہ کوشش کی جائے کہ علم اور معرفت حاصل ہو۔ فرمایا کہ اسلام کی حقیقت کے حصول کے لئے بہت سے ذریعے ہیں اور اسلام کی حقیقت انہی پر واضح ہو سکتی ہے جو ان ذریعوں کو حاصل کریں۔ بے شمار ذریعے ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش ہو گی تبھی اسلام کی حقیقت واضح ہو گی۔ ان ذرائع میں نماز ہے، روزہ ہے، دعا ہے اور وہ تمام احکام الٰہی ہیں جو قرآن کریم میں درج ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہے۔ لیکن یاد رکھو نہ نماز کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے، نہ روزے کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے۔ یعنی حقیقی طور پر نہ نماز کی ادائیگی کا فرض ادا ہو سکتا ہے، نہ روزے کی ادائیگی کا فرض ادا ہو سکتا ہے، نہ دعا کی حقیقت کا علم ہو سکتا ہے، نہ ہی قرآن کریم کے باقی احکامات کا صحیح فہم و ادراک ہو سکتا ہے۔ ان سب باتوں کی گہرائی، اہمیت اور حقیقت کا علم تبھی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم اور معرفت حاصل ہو۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہو۔ یہ یقین ہو کہ وہی ایک خدا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی جو مختلف صفات ہیں جن میں صفات جلالی بھی ہیں اور صفات جمالی بھی ہیں ان کی نئی سے نئی شان کا فہم و ادراک اور معرفت نہ ہو تو اس وقت تک احکامات پر عمل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہو گا تو تبھی اس کے احکامات پر عمل بھی صحیح طرح ہو سکے گا۔ گویا اگر نماز روزہ اور باقی احکام کی روح کو سمجھنا ہے تو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ فرمایا ہے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأن۔ (الرحمن: 30) یعنی ہر گھڑی وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔ اس کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔
پس اسلام کی حقیقت اور عبادات اور احکام الٰہی کو سمجھنے کے لئے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم ہونا ہے کہ وہ کتنی عظیم ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ذات کا علم ہونا، اللہ تعالیٰ کی صفات جلالی اور جمالی کے مختلف پہلوؤں اور شانوں کا علم ہونا ضروری ہے کہ ان صفات کی بھی مختلف شانیں ہیں۔ یا اس کا علم اور معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اگر پوری طرح ادراک نہیں بھی ہوتا تو انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی عبادات کو بجا لانے کے لئے اور احکامات پر عمل کرنے کے لئے یہ کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی معرفت حاصل کرے کیونکہ تمام احکام الٰہی پر عمل کا انحصار اسی معرفت الٰہی پر ہے۔
آپ نے فرمایا کہ جو غافل دل ہے اس کو علم ہی نہیں کہ معرفت الٰہی کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ذات و صفات کی شان اور عظمت کیا ہے؟ وہ کب نماز میں یا روزے کی ادائیگی میں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق پاسکتا ہے یا دعا اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دے سکتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ سب اعمال صالحہ کا محرک جس کی وجہ سے یہ تحریک پیدا ہو، جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو کہ اعمال صالحہ بجا لانے ہیں، وہ معرفت ہی ہے۔ جتنی زیادہ خدا تعالیٰ کی معرفت ہو گی اتنا زیادہ عبادات اور اعمال صالحہ کی روح کو سمجھتے ہوئے ان کو بجا لانے کی طرف توجہ ہو گی۔ پس اگر ہم معرفت الٰہی کے حصول کی طرف توجہ کریں گے تو احکام الٰہی پر عمل کی طرف بھی توجہ رہے گی۔ بیشک شروع میں یہ معرفت اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کی وجہ سے نیک فطرت لوگوں کو عطا ہوتی ہے مگر پھر یہ معرفت ایمان کی خوبصورتی اور اعمال صالحہ کے بجا لانے سے بڑھتی جاتی ہے اور انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے حقیقی اسلام کا پتہ چلتا ہے۔ صرف نام کا اسلام نہیں رہتا۔ اور اس کا سینہ و دل اللہ تعالیٰ کی معرفت سے روشن ہو جاتا ہے۔ پس یہ چیز ہے جسے ہمیں ایک حقیقی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اس وضاحت کے بعد اب مَیں اس مضمون کو بیان کرتا ہوں جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں جو مختلف الٰہی تائیدات اور نشانات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر ہے۔ دو دن تک انشاء اللہ تعالیٰ 23؍ مارچ ہے اور یوم مسیح موعود بھی جماعتوں میں منایا جائے گا جس میں اس دن کے حوالے سے علماء اور مقررین تقریریں بھی کرتے ہیں اور اس حوالے سے باتیں بھی کرتے ہیں جس میں نشانات کا بھی ذکر ہوتا ہے، تائیدات کا بھی ذکر ہوتا ہے یا جو بھی متعلقہ مضامین ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے متعلق وہ بیان ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ حسن اتفاق ہے کہ آج کا مضمون اس دن کے حوالے سے مَیں بیان کر رہا ہوں جو گو دو دن پہلے بیان ہو رہا ہے۔ اس بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ اس سال قادیان سے تین دن کا ایک پروگرام نشر ہو گا جو عربی میں یوم مسیح موعود کے حوالے سے ہو رہا ہے اور یہ پروگرام ایم ٹی اے پر لائیو (Live) آئے گا۔ وہاں ہمارے عرب دوست گئے ہوئے ہیں جو وہاں سے اس دن کی اہمیت سے یا اس مضمون کی اہمیت کے بارے میں بیان کریں گے۔ قادیان کی بستی سے ہی انشاء اللہ تعالیٰ یہ لائیو پروگرام ہو رہا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ اتوار کو مَیں بھی اس میں اپنا پیغام دوں گا۔ احباب اس سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ اپنی آمد اور صداقت کے بارے میں چاند اور سورج گرہن کا نشان پیش فرماتے ہوئے، ان کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ۔ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلۃٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِیْ النِّصْفِ مِنْہ۔ ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں۔ اور سورج کا گرہن اس کے دِنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔ یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو۔ اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا۔ صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے۔ اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گزر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے۔ اور جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اول اس ملک میں دوسرے امریکہ میں۔ اور دونوں مرتبہ اُنہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے۔ اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دے کر صدہا اشتہار اور رسالے اردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے، اس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ با رہ برس پہلے اس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی‘‘۔ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 202)
گو اب بعض لوگ چاند گرہن کی دلیلیں پیش کرتے ہیں لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے پہلے فرمادیا تھا کہ یہ نشان ظاہر ہو گا۔
پھر اس بارے میں مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدی موعود ظاہر ہوگا اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئے گا۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْْبِہٖ أَحَدًا۔ إِلَّا مَنِ ارْتَضیٰ مِن رَّسُولٍ (الجن: 27-28)۔ یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔ پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رُو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچّے بہانے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو۔ یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو‘‘۔ (اب یہ صداقت کا جو نشان ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورے ہونے کا نشان ہے۔) فرمایا کہ ’’دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول ان کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدّثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔ خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اَور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدّثین اس کے وقوع کے امید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے۔ چنانچہ سب سے آخر مولوی لکھوکےؔ والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب ’احوال الآخرت‘ میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے (پنجابی کا شعر ہے کہ):
تیرھویں چند ستیہویں ۱؎ سورج گرہن ہو سی اس سالے
اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے
۱؎ اس جگہ حاشیہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’شعر میں ستائیسویں کا لفظ سہوِ کاتب ہے یا خود مولوی صاحب سے بباعث بشریّت سہو ہوگیا ورنہ جس حدیث کا یہ شعر ترجمہ ہے اُس میں بجائے ستائیس کے اٹھائیسویں تاریخ ہے۔ منہ‘‘
اور پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے یہ لکھتے ہیں:
در سنِ 1311 غاشی ہجری دو قِراں خواہد بود
از پئے مہدی و دجّال نشاں خواہد بود
یعنی (1311ھ) چو دھویں صدی میں جب چاند اور سورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اور دجال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف خسوف درج ہوا ہے‘‘۔ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 204-205)
پھر اللہ تعالیٰ کا آپ کے دعویٰ سے بھی پہلے آپ سے جو سلوک رہا اس بارے میں ایک واقعہ اور اللہ تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ تسلی کا ذکر فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔ یہ بھی ایک نشان ہے کہ
’’جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہیں کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے جو ان کی حیات سے مشروط تھی۔ اس لئے یہ خیال گذرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گذر گیا تب اسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس الہام الٰہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے۔ درحقیقت یہ امر بار ہا آزمایا گیا ہے کہ وحی الٰہی میں دلی تسلّی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الٰہی پر ہو جاتا ہے۔ افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعویٰ الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے الہام ظنّی امور ہیں نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی ایسے الہاموں کا ضرر ان کے نفع سے زیادہ ہے۔ مگر مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں ان الہامات پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر۔ اور جس طرح مَیں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ الٰہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اس کے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں۔ غرض جب مجھ کو یہ الہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ تو مَیں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ تب مَیں نے ایک ہندو کھتری ملاوا مل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اس کو سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مُہر بنوا کر لے آوے اور مَیں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تامولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اب تک میرے پاس موجود ہے… یہ اُس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور مَیں ایک گمنام انسان تھاجو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی امیدنہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے اس نے ایسی میری دستگیری کی کہ مَیں یقیناکہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے اور شائد اس سے زیادہ ہو اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہئے کہ سالہا سال سے صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے یعنی اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کس صفائی اور قوّت اور شان سے پوری ہوئی۔ کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلّت اور اِدبار اور اِقبال ہے۔ اگر میرے اس بیان کا اعتبار نہ ہو تو بیس برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھو تا معلوم ہو کہ کس قدر آمدنی کا دروازہ اس تمام مدت میں کھولا گیا‘‘۔ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 219 تا 221)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جو لنگر ہے اب ساری دنیا میں جاری ہے اور یہاں بھی یہ جاری ہے۔ خلافت کی وجہ سے یہاں مستقل بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں کی ایک اہم شاخ ہے۔ اس لئے یہاں لنگر کے جو ذمہ دار ہیں، ضیافت کے جو ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے کہ ہر آنے والے کی ضیافت کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیا کریں۔ بیشک اسراف جائز نہیں۔ منصوبہ بندی صحیح ہونی چاہئے۔ لیکن کہیں کنجوسی کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ لنگر آپ کا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لنگر ہے جو جاری ہے۔ اس لئے بعض دفعہ ضیافت کی جو ٹیم ہے ان کے بارے میں یا جو عہدیدار ہیں ان کے بارے میں شکایات آ جاتی ہیں، تو ان کو دنیا میں ہر جگہ اور خاص طور پر یہاں اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اسی طرح ربوہ میں بھی اور قادیان میں بھی۔
پھر جماعت کی ترقی کے متعلق اپنے ایک الہام کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاَسْتَوٰی عَلٰی سُوْقہٖ۔ یعنی پہلے ایک بیج ہوگا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا۔ پھر موٹاہوگا۔ پھر اپنی ساقوں پر قائم ہوگا۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی جو اس جماعت کے پیدا ہونے سے پہلے اور اس کے نشو و نما کے بارہ میں آج سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی۔ ایسے وقت میں کہ نہ اُس وقت جماعت تھی اور نہ کسی کو مجھ سے تعلق بیعت تھا بلکہ کوئی اُن میں سے میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے یہ جماعت پیدا کر دی جو اب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہے‘‘۔ (جس زمانے میں یہ ذکر ہے اس وقت کی (تعداد) بیان فرما رہے ہیں کہ) ’’مَیں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح تھا جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے بویا گیا۔ پھر مَیں ایک مدت تک مخفی رہا۔ پھر میرا ظہور ہوا اور بہت سی ــ شاخوں نے میرے ساتھ تعلق پکڑا۔ سو یہ پیشگوئی محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پوری ہوئی۔‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 241)
اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت دنیا کے 204 ممالک میں قائم ہے اور کروڑوں کی تعداد میں اللہ کے فضل سے ہے۔ اور دنیا کے ہر کونے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام بھی پہنچ رہا ہے۔
پھر آپ ایک جگہ ایک نشان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’براہین احمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ یعنی خدا تجھے تمام آفات سے بچائے گا اگرچہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ تُو آفات سے بچ جائے۔ یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ مَیں ایک زاویۂ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور کوئی مجھ سے نہ تعلق بیعت رکھتا تھا نہ عداوت‘‘۔ (بچائے جانے کا سوال تب ہو سکتا ہے جب کوئی دشمنی ہو۔ کسی کو جانتا ہی کوئی نہیں تھا تو دشمنی کیسی۔) فرمایا کہ ’’بعد اس کے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مَیں نے کیا تو سب مولوی اور ان کے ہم جنس آگ کی طرح ہو گئے۔ ان دنوں میں میرے پر ایک پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نام نے خون کا مقدمہ کیا۔ اس مقدمہ میں مجھے یہ تجربہ ہو گیا کہ پنجاب کے ـ مولوی میرے خون کے پیاسے ہیں اور مجھے ایک عیسائی سے بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اور گالیاں نکالتا ہے بد تر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ بعض مولویوں نے اس مقدمہ میں میرے مخالف عدالت میں حاضر ہو کر اس پادری کے گواہ بن کر گواہیاں دیں اور بعض اس دعا میں لگے رہے کہ پادری لوگ فتح پاویں۔ میں نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ وہ مسجدوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! اس پادری کی مدد کر، اس کو فتح دے۔ مگر خدائے علیم نے ان کی ایک نہ سنی۔ نہ گواہی دینے والے اپنی گواہی میں کامیاب ہوئے اور نہ دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ یہ علماء ہیں دین کے حامی اور یہ قوم ہے جس کے لئے لوگ قوم قوم پکارتے ہیں۔ ان لوگوں نے میرے پھانسی دلانے کے لئے اپنے تمام منصوبوں سے زور لگایا اور ایک دشمنِ خدا اور رسول کی مدد کی۔ اور اس جگہ طبعاً دلوں میں گذرتا ہے کہ جب یہ قوم کے تمام مولوی اور ان کے پیرو میرے جانی دشمن ہو گئے تھے تو پھر کس نے مجھے اس بھڑکتی ہوئی آگ سے بچایا۔ حالانکہ آٹھ نو گواہ میرے مجرم بنانے کے لئے گذر چکے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اُسی نے بچایا جس نے پچیس برس پہلے یہ وعدہ دیا تھا کہ تیری قوم تو تجھے نہیں بچائے گی اور کوشش کرے گی کہ تُو ہلاک ہو جائے مگر میں تجھے بچاؤں گا۔ جیسا کہ اس نے پہلے سے فرمایا تھا جو براہین احمدیہ میں آج سے پچیس برس پہلے درج ہے اور وہ یہ ہے فَبَرَّأہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا۔ یعنی خدا نے اُس الزام سے اُس کو بری کیا جو اس پر لگایا گیا تھا اور وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 242-243)
دیکھیں یہ الہام آج بھی کس شان سے پورا ہوا ہے کہ جب ڈاکٹر مارٹن کلارک کا پڑپوتا ہمارے سامنے کھل کر یہ اظہار کرتا ہے کہ میرا پڑدادا غلط تھا اور مرزا غلام احمد قادیانی سچے تھے۔ اور یہ ریکارڈ ہوا ہوا ہے۔ جلسہ میں کھل کے کہا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پھر ایک اور نشان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے رسالہ فتح رحمانی میں جو 1315ھ کو میری مخالفت میں مطبع احمدی لدھیانہ میں چھاپ کر شائع کیا گیا مباہلہ کے رنگ میں میرے پر ایک بد دعا کی تھی جیسا کہ کتاب مذکور کے صفحہ 27,26 میں ان کی یہ بد دعا تھی:۔ ’’اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ یَا مَالِکَ الْمُلْکِ جیسا کہ تُو نے ایک عالم ربّانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحار الانوار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کاذب اور جعلی مسیح کا بیڑا غارت کیا (جو ان کے زمانہ میں پید ہواتھا) ویسا ہی دعا اور التجاء اس فقیر قصوری کان اللہ لہٗ سے ہے جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے‘‘ (یہ کوشش کرتا ہے) ’’کہ تُو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما۔ اور اگر یہ مقدر نہیں تو اُن کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا۔ فَقُطِعَ دَابِرُالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ وَبِالْاِجَابَۃِ جَدِیْرٌ۔ آمین۔ یعنی جو لوگ ظالم ہیں وہ جڑھ سے کاٹے جائیں گے اور خدا کے لئے حمد ہے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے اور دعا قبول کرنے والا ہے۔ آمین۔ اور پھر صفحہ 26 کتاب مذکور کے حاشیہ میں مولوی مذکور نے میری نسبت لکھا ہے تَبًّا لَہٗ وَلِاَتْبَاعِہٖ۔ یعنی وہ اور اس کے پیرو ہلاک ہو جائیں۔ پس خداتعالیٰ کے فضل سے مَیں اب تک زندہ ہوں اور میرے پیرو اُس زمانہ سے قریبًا پچاس حصہ زیادہ ہیں‘‘ (اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں ہزاروں حصے زیادہ ہو چکے ہیں۔) ’’اور ظاہر ہے کہ مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت فَقُطِعَ دَابِرُالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا (الانعام: 46) پر چھوڑا تھاجس کے اس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہو گا اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اور یہ امر کسی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظالم ہے۔ پس ضرور تھا کہ ظالم اس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا۔ لہٰذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اس لئے اس قدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جو اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا۔ اس سے پہلے ہی مر گیا۔ اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اس دعا سے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا۔
بعض نادان مولوی لکھتے ہیں کہ غلام دستگیر نے مباہلہ نہیں کیا صرف ظالم پر بد دعا کی تھی۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ جبکہ اس نے میرے مرنے کے ساتھ خدا سے فیصلہ چاہا تھا اور مجھے ظالم قرار دیا تھا تو پھر وہ بددعا اُس پر کیوں پڑگئی اور خدا نے ایسے نازک وقت میں جبکہ لوگ خدائی فیصلہ کے منتظر تھے غلام دستگیر کو ہی کیوں ہلاک کر دیا۔ اور جبکہ وہ اپنی دعا میں میرا ہلاک ہونا چاہتا تھا تا دنیا پر یہ بات ثابت کر دے کہ جیسا کہ محمد طاہر کی بد دعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا میری بددعا سے یہ شخص ہلاک ہو گیا تو اس دعا کا الٹا اثر کیوں ہوا۔ یہ تو سچ ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا اور اسی محمد طاہر کی رِیس سے‘‘ (اس کی رِیس میں جو اس نے کہا تھا) ’’غلام دستگیر نے میرے پر بد دعا کی تھی تو اب یہ سوچنا چاہئے کہ محمد طاہر کی بد دعا کا کیا اثر ہوا اور غلام دستگیر کی دعا کا کیا اثر ہوا۔ اور اگر کہو کہ غلام دستگیر اتفاقًا مر گیا تو پھر یہ بھی کہو کہ وہ جھوٹا مہدی بھی اتفاقًا مر گیا تھا محمد طاہر کی کوئی کرامت نہ تھی۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔
اِس وقت قریباً گیارہ سال غلام دستگیر کے مرنے پر گذر گئے ہیں۔ جو ظالم تھا خدا نے اس کو ہلاک کیا اور اس کا گھر ویران کر دیا۔ اب انصافاً کہو کہ کس کی جڑھ کاٹی گئی اور کس پر یہ دعا پڑی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَائِرَ عَلَیْْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْءِ (التوبۃ: 98)۔ یعنی اے نبی! تیرے پر یہ بدنہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ انہیں پر گردشیں پڑیں گی۔ پس اس آیت کریمہ کی رُو سے یہ سنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بددعا کرتا ہے وہی بددعا اس پر پڑتی ہے۔ یہ سنت اللہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ظاہر ہے۔ پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیر اس بد دعا کے بعد مر گیا ہے یا نہیں۔ لہٰذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بد دعا کرنے والا خود مر گیا۔ خدا نے میری عمر تو بڑھا دی کہ گیارہ سال سے میں اب تک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دی‘‘۔ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 343-345)
پھر فصاحت و بلاغت کے نشان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235)
’’اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ۔ اور جو مَیں نے اب تک عربی میں کتابیں بنائی ہیں جن میں سے بعض نثر میں ہیں اور بعض نظم میں۔ جس کی نظیر علماء مخالف پیش نہیں کر سکے ان کی تفصیل یہ ہے:۔ رسالہ ملحقہ انجام آتھم صفحہ 73 سے صفحہ 282 تک (عربی میں ہے)۔ التبلیغ ملحقہ آئینہ کمالات اسلام۔ کرامات الصادقین۔ حمامۃ البشریٰ۔ سیرت الابدال۔ نور الحق حصہ اول۔ نورالحق حصہ دوم۔ تحفہ بغداد۔ اعجاز المسیح۔ اتمام الحجۃ۔ حجۃ اللہ۔ سر الخلافۃ۔ مواھب الرحمن۔ اعجاز احمدی۔ خطبہ الہامیہ۔ الہدیٰ۔ علامات المقربین ملحقہ تذکرۃ الشہادتین۔ اور وہ کتابیں جو عربی میں تالیف ہو چکی ہیں مگر ابھی شائع نہیں ہوئیں یہ ہیں۔ ترغیب المؤمنین۔ لجۃ النور۔ نجم الہدیٰ۔‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235۔ حاشیہ)۔ یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے اور پھر اس کے بعد یہ کتابیں بھی لکھیں۔ اور ان کتابوں کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف تو آج بھی، اس زمانے میں بھی عرب بھی کرتے ہیں جیسا کہ مَیں گزشتہ چند خطبہ پہلے بعض حوالوں سے اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ ایک ہندو صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا نام یادنہیں رہا۔ اور کہا کہ مَیں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتا ہوں آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے۔ مَیں نے عذرکیا پر اس نے بہت اصرار سے کہا کہ آپ ضرور لکھیں۔ چونکہ مَیں جانتاہوں کہ مَیں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں۔ مَیں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لئے مَیں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القا کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے۔ مَیں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوّت میرے اندر پھونک دی گئی ہے۔ مَیں نے اس آسمانی قوّت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ مَیں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا۔ جو کچھ ــ لکھا صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے مَیں لکھتا جاتا تھا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی اس کی نقل لکھے۔ جب مَیں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لئے ایک عالم وجد تھا۔ اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی۔ یہاں تک کہ ایک ہندو صاحب جو صدر نشین اس مجمع کے تھے ان کے مُنہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا۔ اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جو لاہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اس نے بھی شہادت کے طور پر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا۔ اور شائد بیس کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہی شہادت دی اور اس مجمع میں بجز بعض متعصب لوگوں کے تمام زبانوں پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتحیاب ہوا اور آج تک صدہا آدمی ایسے موجود ہیں جو یہی گواہی دے رہے ہیں۔ غرض ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے میری پیشگوئی پوری ہو گئی کہ مضمون بالا رہا۔ یہ مقابلہ اس مقابلہ کی مانند تھا جو موسیٰ نبی کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ اس مجمع میں مختلف خیالات کے آدمیوں نے اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں سنائی تھیں جن میں سے بعض عیسائی تھے اور بعض سناتن دھرم کے ہندو اور بعض آریہ سماج کے ہندو اور بعض برہمو اور بعض سکھ اور بعض ہمارے مخالف مسلمان تھے اور سب نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جبکہ خدا نے میرے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پُرمعارف تقریر کے پیرایہ میں ان کے مقابل پر چھوڑا تو وہ اژدہا بن کر سب کو نگل گیا اور آج تک قوم میں میری اس تقریر کا تعریف کے ساتھ چرچا ہے جو میرے منہ سے نکلی تھی۔ فالحمد للہ علی ذالک۔‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 291-292)
اور صرف اس زمانے میں نہیں بلکہ آج بھی پڑھنے والے یہ اعتراف کرتے ہیں۔ اس لئے مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس کتاب کی بھی تشہیر ہونی چاہئے اور لٹریچر میں دینی چاہئے۔ کئی غیر مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ کتاب پڑھنے سے اسلام کی خوبصورتی کا ہمیں پتہ لگا۔ کئی نئے بیعت کرنے والوں سے جب میں پوچھتا ہوں، کس چیز نے متاثر کیا تو کئی لوگوں کے یہ جواب ہوتے ہیں کہ اسلامی اصول کی فلاسفی جو ہے اس کتاب نے ہمیں متاثر کیا اور ہمیں اسلام کی طرف رغبت اور توجہ پیدا ہوئی اور جماعت کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’ان پیشگوئیوں کو کہ مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلوں، اس زمانہ میں ظاہر کر دیا۔ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دعاؤں کے اُس نے مجھے نہیں چھوڑا۔ اور ہر میدان میں وہ میرا حامی رہا۔ ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اُس نے اپنے ہاتھوں پر لیا۔ ہر ایک تیر جو مجھے مارا گیا اُس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا۔ مَیں بے کس تھا اس نے مجھے پناہ دی۔ مَیں اکیلا تھا اُس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا۔ مَیں کچھ بھی چیز نہ تھا مجھے اس نے عزت کے ساتھ شہرت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا ارادت مند کر دیا۔ پھر وہ اُس مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نصرتیں ظہور میں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہو گئیں جن کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے۔ چنانچہ آج وہ سب باتیں پوری ہو گئیں۔ اس بات کے بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ خدا نے اپنے عہد کو یاد کر کے لاکھوں انسانوں کو میری طرف رجوع دے دیا اور وہ مالی نصرتیں کیں جو کسی کے خواب و خیال میں نہ تھیں۔ پس اے مخالفو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے۔ ذرا سوچو کہ کیا یہ انسانی مکر ہو سکتے ہیں۔ یہ وعدے تو براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانے میں کئے گئے تھے جبکہ قوم کے سامنے ان کا ذکر کرنا بھی ہنسی کے لائق تھا اور میری حیثیت کا اس قدر بھی وزن نہ تھا جیسا کہ رائی کے دانے کا وزن ہوتا ہے۔ تم میں سے کون ہے کہ جو مجھے اس بیان میں ملزم کر سکتا ہے۔ تم میں سے کون ہے کہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اس وقت بھی اِن ہزارہا لوگوں میں سے کوئی میری طرف رجوع رکھتا تھا۔ مَیں تو براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت ایسا گمنام شخص تھا کہ امرتسر میں ایک پادری کے مطبع میں جس کا نام رجب علی تھا میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور مَیں اُس کے پروف دیکھنے کے لئے اور کتاب کے چھپوانے کیلئے اکیلا امرتسر جاتا اور اکیلا واپس آتا تھا اور کوئی مجھے آتے جاتے نہ پوچھتا کہ تُو کون ہے اور نہ مجھ سے کسی کو تعارف تھا اور نہ میں کوئی حیثیت قابلِ تعظیم رکھتا تھا۔ میری اس حالت کے قادیان کے آریہ بھی گواہ ہیں جن میں سے ایک شخص شرمپتؔ نام اب تک قادیان میں موجود ہے جو بعض دفعہ میرے ساتھ امرتسر میں پادری رجب علی کے پاس مطبع میں گیا تھاجس کے مطبع میں میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور تمام یہ پیشگوئیاں اس کا کاتب لکھتا تھا۔ اور وہ پادری خود حیرانی سے پیشگوئیوں کو پڑھ کر باتیں کرتا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے معمولی انسان کی طرف ایک دنیا کا رجوع ہو جائیگا پر چونکہ وہ باتیں خدا کی طرف سے تھیں میری نہیں تھیں اس لئے وہ اپنے وقت میں پوری ہو گئیں اور پوری ہو رہی رہیں۔ ایک وقت میں انسانی آنکھ نے اُن سے تعجب کیا۔ اور دوسرے وقت میں دیکھ بھی لیا‘‘۔ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 79-80)
اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو بڑی شان سے پوری ہو رہی ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں ہر جگہ یہ پیغام پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح پہلے تو امرتسر پریس میں جاتے تھے۔ آج قادیان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام تر جدید سہولیات کے ساتھ پریس جاری ہے اور وہاں کتابیں چھپ رہی ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خدا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 168)
بہر حال یہ چندنشانات مَیں نے ان میں سے پیش کئے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے یہ لاکھوں میں ہیں۔ یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے نشان ہیں اور صرف یہ نشان اس وقت میں بندنہیں ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور ہزاروں لوگ یہ نشانات دیکھ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ بیعتیں کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی بیعت میں آتے ہیں۔ ہاں بعض جگہوں پر احمدیوں کو تکالیف کا ضرور سامنا ہے، مشکلات کا سامنا ہے۔ وقت آئے گا کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دُور ہو جائیں گی اور ہمارے ایمان و ایقان اور معرفت میں یقینا ان کو دیکھتے ہوئے اضافہ ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’برائے خدا ناظرین اِس مقام میں کچھ غور کریں تا خدا ان کو جزائے خیر دے ورنہ خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا۔ اور اُسی کی ذات کی مجھے قَسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے۔ پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو۔ اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتااور اس تمام کاروبار کا نام و نشان نہ رہتا۔ مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں۔ دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے۔ اے بندگان خدا! کچھ تو سوچو، کیا خد اتعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟‘‘ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 554)
جیسا کہ میں نے بتایا کہ آج 125 سال ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ پس کیا یہ لوگ عقل استعمال نہیں کریں گے؟ مخالفین اپنی مخالفتوں سے باز نہیں آئیں گے؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ زمانے کے امام اور مسیح موعود کو پہچاننے والے ہوں۔ ورنہ جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو پھر یہ تمام مخالفین جو ہیں، چاہے جتنی طاقت رکھنے والے ہوں، خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ ایک سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح بھسم ہو جاتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ان کو عقل آئے اور یہ پہچاننے والے بنیں۔ اس کے علاوہ مَیں پھر آج دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں۔ شام کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کی خاص ضرورت ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی خاص ضرورت ہے۔ اسی طرح بعض تکلیفیں اور مشکلات مصر کے احمدیوں کو بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مشکلات دور فرمائے اور اس بارے میں بھی ہم خاص نشان دیکھنے والے ہوں تا کہ یہ آزادی سے اپنے مذہب کا اظہار بھی کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے بھی ہوں۔ جہاں ہم پر یہ پابندیاں ہیں کہ ہم عبادتیں نہیں کرسکتے، نمازیں ادا نہیں کر سکتے، وہاں ہر جگہ یہ پابندیاں بھی اللہ تعالیٰ دُور فرمائے۔
آج مَیں نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ محترمہ لطیفہ الیاس صاحبہ۔ بالٹی مور۔ یو ایس اے (USA) کا ہے جو 9؍مارچ کو بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
محترمہ لطیفہ الیاس صاحبہ افریقن امریکن خاتون تھیں جنہیں اسلام احمدیت قبول کئے تقریباً پچاس سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 76 سال تھی۔ نہایت سادہ مخلص اور متقی احمدی تھیں۔ خلافت سے بھی انہیں بے پناہ عشق تھا۔ مسجد کی جیسے وہ جان تھیں۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا جمال الیاس ہے جو مخلص احمدی ہے۔ ان کے صدر جماعت لکھتے ہیں کہ محدود وسائل ہونے کے باوجود سسٹر لطیفہ اپنے گھر سے صفائی کا سامان لاتیں اور گھنٹوں مسجد کی صفائی میں مصروف رہتیں اور اکثر ایسے اوقات میں صفائی کرتیں جب انہیں خیال ہوتا کہ مسجد میں ان کو کوئی دیکھ نہ لے تاکہ کسی قسم کی ریاکاری نہ ہو۔ مسجد صاف کرتے وقت بھی، ویسے بھی ہر وقت تسبیح و تحمید کرتی رہتی تھیں۔ رمضان المبارک میں بھی افطار سے دو گھنٹے پہلے مسجد آجاتیں۔ کچن کی صفائی کرتیں اور کبھی انہوں نے شکایت نہیں کی کہ لوگ کیوں گند ڈال جاتے ہیں۔ ہمیشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ خدمت دین کو اک فضل الٰہی جانو۔ عملاً اس کی تصویر تھیں۔ ستّر سال کی عمر میں بھی عموماً پیدل چل کر مسجد آتی رہیں۔ اگر کوئی احمدی سڑک سے گزرتے ہوئے احترام کی وجہ سے گاڑی میں چھوڑنے کی پیشکش کرتا تو کہتیں کہ نہیں، مسجد کی طرف اٹھنے والا ہر قدم حدیث کے مطابق ثواب کا باعث ہے اس لئے مجھے پیدل جانے دو۔ ڈیوٹیاں دیا کرتی تھیں۔ سکیورٹی کی ڈیوٹیاں بھی دیا کرتی تھیں۔ بہت سالوں تک مقامی لجنہ میں سیکرٹری مال اور سیکرٹری خدمت خلق کے فرائض احسن رنگ میں انجام دیتی رہیں۔ کبھی کسی سے ذاتی عنادنہیں رکھا۔ بچوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتیں۔ خطبہ سننے کی طرف ان کا خاص رجحان تھا۔ ایم ٹی اے پر خطبہ سنتیں اور اس کی تحریک کیا کرتی تھیں اور جمعہ پر جانا تو خیر ان کو فرض تھا ہی۔ بیٹا جمال الیاس جمعہ کی نماز پر کچھ ہفتے نہ آ سکا تو اس سے پوچھا کہ کیوں نہیں گئے۔ اس نے بتایا کہ نئی جاب کی وجہ سے فی الحال چھٹی نہیں مل رہی تو اس کو خاص طور پر تنبیہ کی کہ جمعہ چھوڑنا نہیں چاہئے۔ لیکن بہر حال اس کا بیٹے پر بھی یہ اثر تھا کہ وہ کہتا ہے کہ یہاں سے ایم ٹی اے پر جو میرا خطبہ آتا تھا وہ باقاعدہ ڈرائیونگ کے دوران بھی سن لیتا تھا۔ تو ان کے بیٹے کی بھی ایسی تربیت تھی۔
ایک لکھنے والے لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا بھی خوبصورت نشان تھیں اور خلافت پر فدا ہونے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان لوگوں کو بھی توجہ کرنی چاہئے جو لوگ ایم ٹی اے پر خطبے کو اہمیت نہیں دیتے اور سنتے نہیں۔ اگر یہ سب ایم ٹی اے سے منسلک ہو جائیں اور جماعت کا ہر فرد اس پر توجہ دینی شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا تربیتی معیار بہت بلند ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بھی سب کو توفیق دے۔ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بیٹے کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
احکامِ الٰہی پر عمل بغیر معرفت الٰہی کے نہیں ہو سکتا۔ جتنی زیادہ خدا تعالیٰ کی معرفت ہو گی اتنا زیادہ عبادات اور اعمال صالحہ کی روح کو سمجھتے ہوئے ان کو بجا لانے کی طرف توجہ ہوگی۔
بیشک شروع میں یہ معرفت اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کی وجہ سے نیک فطرت لوگوں کو عطا ہوتی ہے مگر پھر یہ معرفت ایمان کی خوبصورتی اور اعمال صالحہ کے بجالانے سے بڑھتی جاتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں الٰہی تائیدات اور نشانات میں سے بعض کا حضور علیہ السلام کے الفاظ میں ہی ایمان افروز تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ہزاروں لوگ یہ نشانات دیکھ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہورہے ہیں۔
شام، پاکستان اور مصر کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک۔
محترمہ لطیفہ الیاس صاحبہ آف امریکہ کی وفات۔ مرحومہ کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 21مارچ 2014ء بمطابق 21امان 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔