حضرت مسیح موعودؑ کے حق میں الٰہی تائیدات اور نشانات
خطبہ جمعہ 28؍ مارچ 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات کے بارے میں اقتباسات اور کچھ واقعات جو آپ نے خود بیان فرمائے ہیں یا بعض ایسے بھی جو لوگوں نے بیان کئے وہ اس وقت پیش کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو 16؍جولائی 1906ء ہے اگر میں ان کو فردًا فردًا شمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شرّ سے محفوظ رکھا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہرمحل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں اس نے بموجب اپنے وعدہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل اور رسوا کیا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جومجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی…‘‘
یہ جو اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ، ہے آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف جگہوں سے افریقہ سے بھی اور دوسری جگہوں سے بھی رپورٹیں آتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ذلیل کرتا ہے اور اگر کہیں جھوٹ ہے، اور وہ لوگ اگر پکڑ میں نہیں آرہے تو ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ (الاعراف: 184) ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ پکڑ انشاء اللہ ان کی بھی ہو گی پر وہ باز نہیں آتے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’…اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری مدّت بعث سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ مدت دراز کسی کاذب کو نصیب نہیں ہوئی اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت تسلیم کرتا ہے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دعائیں منظور ہوئیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میری بد دعا کا اثر ہوا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری دعا سے بعض خطرناک بیماروں نے شفاپائی اور انکی شفا سے پہلے مجھے خبر دی گئی اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میرے لئے اور میری تصدیق کیلئے … بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوابیں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جیسے سجادہ نشین صاحبُ العَلَم سندھ جن کے مریدایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں انکو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کاآخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لیکر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمالپور ضلع لدھیانہ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ70-71)
پھر ایک جگہ آپ بیان فرماتے ہیں، لیکن اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ یہ واقعہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی جو احمدی تھے کے بڑے بھائی جو سجادہ نشین تھے، پیر تھے انہوں نے اپنے بھائی پیر (سراج الحق) صاحب کو خط لکھا کہ میں تو کشفِ قبور کروا سکتا ہوں کیا مرزا صاحب بھی کروا سکتے ہیں؟ کشفِ قبور یہ ہے کہ ُمردے کے حالات معلوم کر کے دے سکتا ہوں یا اس سے ملاقات کروا سکتا ہوں، تو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’…کشفِ قبور کا معاملہ تو بالکل بیہودہ امر ہے۔ جو شخص زندہ خد اسے کلام کرتا ہے اور اس کی تازہ بتازہ وحی اس پر آتی ہے اور اس کے ہزاروں نہیں لاکھوں ثبوت بھی موجود ہیں اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مُردوں سے کلام کرے اور مُردوں کی تلاش کرے۔ اور اس امر کا ثبوت ہی کیا ہے کہ فلاں مُردے سے کلام کیا ہے؟ یہاں تو لاکھوں ثبوت موجود ہیں۔ ایک ایک کارڈ اور ایک ایک آدمی اور ایک ایک روپیہ جو اَب آتا ہے وہ خدا کا ایک زبردست نشان ہے کیونکہ ایک عرصہ دراز پیشتر خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یَأْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور ایسے وقت فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی مجھے نہ جانتا تھا۔ اب یہ پیشگوئی کیسے زوروشور سے پوری ہو رہی ہے۔ کیا اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ غرض ہمیں ضرورت کیا پڑی ہے کہ ہم زندہ خدا کو چھوڑ کر مُردوں کو تلاش کریں۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ248مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں ’’…دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ تم خداتعالیٰ کی آیات کی بے ادبی مت کرو اور انہیں حقیر نہ سمجھو کہ یہ محرومی کے نشان ہیں اور خدا تعالیٰ اس کو پسندنہیں کرتا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ لیکھر ام خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان کے موافق مارا گیا۔ کروڑوں آدمی اس پیشگوئی کے گواہ ہیں۔ خود لیکھر ام نے اسے شہرت دی۔ وہ جہاں جاتا اسے بیان کرتا۔ یہ نشان اسلام کی سچائی کے لئے اس نے خود مانگا تھا اور اس کو سچے اور جھوٹے مذہب کے لیے بطور معیار قائم کیا تھا۔ آخر وہ خود اسلام کی سچائی اور میری سچائی پر اپنے خون سے شہادت دینے والا ٹھہرا۔ اس نشان کو جھٹلانا اور اس کی پروا نہ کرنا یہ کس قدر بے انصافی اور ظلم ہے پھر ایسے کھلے کھلے نشان کا انکار کر نا تو خود لیکھرام بننا ہے اور کیا؟
مجھے بہت ہی افسوس ہو تا ہے کہ جس حال میں خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا ہے کہ اس نے ہر قوم کے متعلق نشانات دکھائے۔ جلالی اور جمالی ہر قسم کے نشان دئیے گئے پھر ان کو ردّی کی طرح پھینک دینا یہ تو بہت بڑی ہی بد بختی اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورَد بننا ہے۔ جو آیات اللہ کی پروا نہیں کرتا وہ یاد رکھے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر ہو تے ہیں وہ ایسے ہو تے ہیں کہ ایک عقلمند خدا ترس ان کو شناخت کر لیتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن جو فراست نہیں رکھتا اور خدا کے خوف کو مدنظر رکھ کر اس پر غور نہیں کرتا وہ محروم رہ جا تا ہے کیو نکہ وہ یہ چا ہتا ہے کہ دنیا دنیا ہی نہ رہے اور ایمان کی وہ کیفیت جو ایمان کے اندر موجود ہے نہ رہے۔ ایسا خدا تعالیٰ کبھی نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہودیوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ حضرت مسیح کا انکار کرتے۔ موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیوں ہوتا اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر تکالیف کیوں برداشت کر نی پڑتیں۔ خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہی نہیں کہ وہ ایسے نشان ظاہر کرے جو ایمان بالغیب ہی اٹھ جاوے۔ ایک جاہل وحشی سنت اللہ سے ناواقف تو اس چیز کو معجزہ اور نشان کہتا ہے جو ایمان بالغیب کی مدّسے نکل جاوے مگر خدا تعالیٰ ایسا کبھی نہیں کرتا۔ ہماری جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمی نہیں کی۔ کو ئی شخص کسی کے سامنے کبھی شرمند ہ نہیں ہو سکتا۔ جس قدر لوگ اس سلسلہ میں داخل ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کو ئی نشان نہیں دیکھا۔‘‘ (یعنی اُس زمانے میں بھی اور اب بھی جو بھی بیعت کر کے شامل ہوتے ہیں نشان دیکھ کے ہوتے ہیں اور جو پیدائشی احمدی ہیں ان کو بھی ان اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ کو پڑھتے رہنا چاہئے، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو پڑھتے رہنا چاہئے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی طرف متوجہ رکھنا چاہئے۔)
فرمایا کہ: ’’براہین احمدیہ کو پڑھو اور اس پر غور کرو اس زما نہ کی ساری خبریں اس میں موجود ہیں۔ دوستوں کے متعلق بھی ہیں اور دشمنوں کے متعلق بھی۔ اب کیا یہ انسانی طاقت کے اند ر ہے کہ تیس برس پہلے جب ایک سلسلہ کا نام ونشان بھی نہیں اور خوداپنی زندگی کا بھی پتہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس قدر عرصہ تک رہو ں گا یا نہیں، ایسی عظیم الشان خبریں دے اور پھر وہ پوری ہو جائیں نہ ایک نہ دو بلکہ ساری کی ساری براہین احمد یہ احمدی لوگوں کے گھروں میں بھی ہے عیسائیوں اور آریوں اور گورنمنٹ تک کے پاس موجود ہے اور اگر خدا کا خوف اور سچ کی تلاش ہے تو میں کہتا ہوں کہ براہین کے نشانات پر ہی فیصلہ کرلو۔ دیکھو اس وقت جب کوئی مجھے نہیں جا نتا تھا اور کو ئی یہاں آتا بھی نہیں تھا، ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا اس جماعت کی جو یہاں موجود ہے خبر دی۔ اگر یہ پیشگوئی خیالی اور فرضی تھی تو پھر آج یہاں اتنی بڑی جماعت کیوں ہے؟ اور جس شخص کو قادیان سے باہر ایک بھی نہیں جانتا تھا اور جس کے متعلق براہین میں کہا گیا تھا فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ (یعنی سو وقت آگیا ہے جو تیری مدد کی جائے اور تجھے لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے) فرمایا ’’…آج کیا وجہ ہے کہ وہ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عرب، شام، مصر سے نکل کر یورپ اور امر یکہ تک دنیا اس کو شناخت کرتی ہے (بلکہ افریقہ میں بھی) …‘‘ (اور یہ جو پچھلے دنوں میں قادیان سے عرب دنیا کے لئے تین دن پروگرام ہوتا رہا ہے اس نے تو دنیا میں، عرب دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ) فرمایا: ’’… اگر یہ خدا کا کلام نہیں تھا اور خدا کے منشاء کے خلاف ایک مفتری کا منصوبہ تھا تو خدا نے اس کی مدد کیوں کی؟کیوں اس کے لیے ایسے سامان اور اسباب پیدا کر دئیے؟کیا یہ سب میں نے خود بنالیے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اسی طرح پر کسی مفتری کی تائید کیا کرتا ہے تو پھر راستبازوں کی سچائی کا معیار کیا ہے۔ تم خود ہی اس کا جواب دو۔ سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگنا کیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا کہ میں اپنے وقت میں کر لیتا اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچے مہدی کا نشان قرار دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس نشان کو میرے دعویٰ کے وقت پورا کر دیا۔ اگر میں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے خود دنیا کو گمراہ کیا؟اس کا سوچ کر جواب دینا چاہئے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پھر خدا تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں تک ہے۔ تم کس کس کا انکار کرتے جاؤگے؟
اسی براہین میں یہ بھی لکھا ہے۔ یَأْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ اب تم خود آئے ہو تم نے ایک نشان پورا کیا ہے۔ اس کا بھی انکار کرو۔ اگر اس نشان کو جو تم نے اپنے آنے سے پورا کیا ہے مٹا سکتے ہو تو مٹاؤ۔ میں پھر کہتا ہوں کہ دیکھو آیات اللہ کی تکذیب اچھی نہیں ہو تی۔ اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کتا ہے۔ میرے دل میں جو کچھ تھا میں نے کہہ دیا ہے۔ اب ماننا نہ ماننا تمہارا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں صادق ہوں اور اسی کی طرف سے آیا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ650تا652مطبوعہ ربوہ)
یہ جو آخری پیرا ہے کہ تم خود آئے ہو اور تم نے نشان پورا کیا ہے، یہ جس کو آپ فرما رہے ہیں ایک نو مسلم تھا جو مسلمان تو ہو گیا تھا لیکن آپ سے آکے نشان دکھانے کی درخواست کی تھی۔ اس پر آپ نے یہ تفصیل سے اس کو سمجھایا تھا کہ نشان کا کیا کہتے ہو؟ یہ یہ نشان پورے ہوئے اور تمہارا آنا بھی ایک نشان ہے اور آج تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں یہ نشانات ظاہر ہو رہے ہیں۔ پھر بیماری سے شفا کے نشانات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’سردار نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبد الرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا (بڑا تیز بخار تھا) اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گویا مُردہ کے حکم میں تھا۔ اسوقت میں نے اسکے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ یا الٰہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں۔ اسکے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے۔ تب میں خاموش ہو گیا۔ بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَازُ۔ یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی۔ تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیاتھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے۔‘‘ (حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ229-230)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ
’’بشیر احمد میرا لڑکا (یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی بات ہے)آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوا فائدہ نہیں کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا۔ جب شدت مرض انتہاء تک پہنچ گئی تب مَیں نے دعا کی تو الہام ہوا۔ بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْر۔ یعنی میرا لڑکا بشیر دیکھنے لگا۔ تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفایاب ہو گیا۔ یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہو گا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ240)
پھر مخالفین کے ہلاک ہونے کے نشانات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اکہترواں نشان جو کتاب سرّالخلافہ کے صفحہ 62میں مَیں نے لکھا ہے یہ ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے مَیں نے دعا کی تھی یعنی ایسے مخالف جن کی قسمت میں ہدایت نہیں۔ سو اس دعا سے کئی سال بعد اس ملک میں طاعون کا غلبہ ہوا اور بعض سخت مخالف اس دنیا سے گذر گئے اور وہ دعا یہ تھی
وَخُذْرَبِّ مَنْ عَادَی الصلاحَ و مفسدًا ونَزِّلْ علیہ الرِّجْزَ حقًّا و دَمِّرِ
کہ اے میرے خدا جو شخص نیک راہ اور نیک کام کا دشمن ہے اور فساد کرتا ہے اس کو پکڑ اور اس پر طاعون کا عذاب نازل کر اور اس کو ہلاک کر دے۔
و فَرِّجْ کُروبی یا کریمی و نَجِّنی ومَزِّقْ خَصِیْمِیْ یَا الٰھی و عَفِّرِ
اور میری بیقراریاں دور کر اور مجھے غموں سے نجات دے اے میرے کریم۔ اور میرے دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور خاک میں ملا دے۔
اور پھر کتاب اعجاز احمدی میں یہ پیشگوئی تھی۔
اذا ما غضبنا غاضب اللّٰہ صائِلاً علٰی معتدٍ یؤذی و بالسّٓوء یجھر
جب ہم غضبناک ہوں تو خدا اس شخص پر غضب کرتا ہے جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور کھلی کھلی بدی پر آمادہ ہوتا ہے
ویأتی زمان کاسرٌ کُلّ ظالم وھل یھلکنّ الیوم الا المدَمّرٗ
اور وہ زمانہ آرہا ہے کہ ہر ایک ظالم کو توڑے گااور وہی ہلاک ہونگے جو اپنے گناہوں کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں
وانّی لشرّ النّاس ان لم یکن لھم جزاء اھانتھم صغارٌ یصغّر
اور میں سب لوگوں سے بدتر ہوں گااگر ان کے لئے اہانت کی جزا اہانت نہ ہو
قضی اللّٰہ انّ الطعن بالطعن بیننا فذالک طاعون اتاھم لیبصروا
خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طعن کا بدلہ طعن ہے پس وہی طاعون ہے جو ان کو پکڑے گی
ولمّا طغی الفسق المبید بسیلہ تمنّیت لو کان الوباء المتبّر
اور جب فسق ہلاک کرنے والا حد سے بڑھ گیا تو میں نے آرزو کی کہ اب ہلاک کرنیوالی طاعون چاہئے
اور اس کے بعد یہ الہام ہوا۔ ع اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویران کر دی۔ (فارسی میں یعنی تو نے کئی دشمنوں کے گھر ویران کئے) اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالا دعائیں جو دشمنوں کی سخت ایذاء کے بعد کی گئیں جناب الٰہی میں قبول ہو کر پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب ان پر آگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہو گیا۔ لیکن اس جگہ ہم نمونہ کے طور پر چند سخت مخالفوں کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے مولوی رسل بابا باشندۂ امرتسر ذکر کے لائق ہے جس نے میرے ردّ میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی اور چند روزہ زندگی سے پیار کرکے جھوٹ بولا۔ آخر خدا کے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اسکے ایک شخص محمد بخش نام جو ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذا پر کمر بستہ ہوا وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص چراغ دین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا تھا جس نے میرا نام دجّال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ نے مجھے خواب میں عصادیا ہے تا میں عیسیٰ کے عصا سے اس دجال کو ہلاک کروں۔ سو وہ بھی میری اس پیشگوئی کے مطابق جو خاص اسکے حق میں رسالہ ’’دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء‘‘ میں اسکی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی 4؍اپریل 1906ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ کہاں گیا عیسیٰ کا عصا جس کے ساتھ مجھے قتل کرتا تھا؟ اور کہاں گیا اس کا الہام اِنِّیْ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ؟ افسوس اکثرلوگ قبل تزکیہ نفس کے حدیث النفس کو ہی الہام قرار دیتے ہیں …‘‘ (یعنی نفس کو پاکیزہ کرنے سے پہلے ہی، اپنے نفس کا تزکیہ کرنے سے پہلے ہی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم بہت پاک ہو گئے ہیں اور جو اُن کی نفس کی خواہشات ہیں انہی کو الہام سمجھنے لگ جاتے ہیں۔) فرمایا ’’… اس لئے آخر کار ذلّت اور رسوائی سے انکی موت ہوتی ہے اور انکے سوا اور بھی کئی لوگ ہیں جو ایذا اور اہانت میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے نہیں ڈرتے تھے اور دن رات ہنسی اور ٹھٹھا اور گالیاں دینا ان کا کام تھا آخر کار طاعون کا شکار ہو گئے جیسا کہ منشی محبوب عالم صاحب احمدی لاہور سے لکھتے ہیں کہ ایک میرا چچا تھا جس کا نام نور احمد تھا وہ موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا اس نے ایک دن مجھے کہا کہ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے دعوے پر کیوں کوئی نشان نہیں دکھلاتے…‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی طرف سے بیان دے رہے ہیں کہ محبوب عالم صاحب کہتے ہیں ’’…میں نے کہا کہ ان کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے جو پیشگوئی کے بعد آئی جو دنیا کو کھاتی جاتی ہے۔ تو اس بات پر وہ بول اٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے۔ اور اس کا اثر ہم پر ہرگز نہیں ہوگا، مرزا صاحب پر ہی ہوگا۔ اسی قدر گفتگو پر بات ختم ہو گئی‘‘۔ تو منشی محبوب عالم صاحب کہتے ہیں کہ ’’جب میں لاہور پہنچا تو ایک ہفتہ کے بعد مجھے خبر ملی کہ چچا نور احمد طاعون سے مر گئے اور اس گاؤں کے بہت سے لوگ اس گفتگو کے گواہ ہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ چُھپ نہیں سکتا۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اور میاں معراج الدین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جو مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے کے رشتہ داروں میں سے تھا اور دینی تعلیم سے فارغ التحصیل تھااور انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا۔ اُس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمد علی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دو کان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد بمرض طاعون مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اسکی بیوی بھی طاعون سے مر گئی اور اس کا داماد بھی جو محکمہ اکونٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا۔ اسی طرح اس کے گھر کے سترہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک ہو گئے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ عجیب بات ہے، کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجّال تو میں ٹھہرا مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں۔ کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الٰہی نازل ہے۔ جو موت بھی ہوتی ہے اور پھر ذلّت اور رسوائی بھی‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’اور میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کرتا ہی رہتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر جوانی کی عمر میں ہی شکارِ موت ہوا۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ سلطان سیالکوٹی حضور کا سخت مخالف تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں آپ کی سواری گذرنے پر آپ پر راکھ ڈالے۔ آخر وہ سخت طاعون سے اسی 1906ء میں ہلاک ہوا اور اس کے گھر کے نو یا دس آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ ایسا ہی شہر سیالکوٹ میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکیم محمد شفیع جو بیعت کرکے مرتد ہو گیا تھا جس نے مدرسۃ القرآن کی بنیاد ڈالی تھی آپ کا سخت مخالف تھا یہ بد قسمت اپنی اغراضِ نفسانی کی وجہ سے بیعت پر قائم نہ رہ سکا اور سیالکوٹ کے محلہ لوہاراں کے لوگ جو سخت مخالف تھے عداوت اور مخالفت میں ان کا شریک ہو گیا۔ آخر وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اور اس کی بیوی اور اس کی والدہ اور اس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرے اور اس کے مدرسہ کو جو لوگ امداد دیتے تھے وہ بھی ہلاک ہو گئے۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’ایسا ہی مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ زبانی اور شوخی میں بہت بڑھ گیا تھا اور ہر وقت استہزا اور ٹھٹھہ اس کا کام تھا اور ہر ایک بات طنز اور شوخی سے کرتا تھا وہ بھی سخت طاعون میں گرفتار ہو کرہلاک ہوا اور ایک دن اس نے شوخی سے جماعت احمدیہ کے ایک فرد کو کہا کہ کیوں طاعون طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو۔ پس اس سے دو دن بعد طاعون سے مر گیا۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ235-238)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کا م ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے۔ حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ9مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ
’’خدا نے مجھے اصلاح کرنے کے لئے مامور کر کے بھیجا اور میرے ہاتھ پر وہ نشان دکھلائے کہ اگر ان پر ایسے لوگوں کو اطلاع ہو جن کی طبیعتیں تعصّب سے پاک اور دلوں میں خدا کا خوف ہے اور عقل سلیم سے کام لینے والے ہیں تو وہ ان نشانوں سے اسلام کی حقیقت بخوبی شناخت کرلیں۔ وہ نشان ایک دو نہیں بلکہ ہزارہا نشان ہیں جن میں سے بعض ہم اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں لکھ چکے ہیں۔ جب سن ہجری کی تیرھویں صدی ختم ہوچکی تو خدا نے چودھویں صدی کے سر پر مجھے اپنی طرف سے مامور کرکے بھیجا اور آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر نبی گذر چکے ہیں سب کے نام میرے نام رکھ دئیے اور سب سے آخری نام میرا عیسیٰ موعود اور احمد اور محمد معہود رکھا۔ اور دونوں ناموں کے ساتھ ساتھ بار بار مجھے مخاطب کیا۔ ان دونوں ناموں کو دوسرے لفظوں میں مسیح اور مہدی کرکے بیان کیا گیا۔
اور جو معجزات مجھے دئیے گئے بعض ان میں سے وہ پیشگوئیاں ہیں جو بڑے بڑے غیب کے امور پر مشتمل ہیں کہ بجز خدا کے کسی کے اختیار اور قدرت میں نہیں کہ ان کو بیان کرسکے اور بعض دعائیں ہیں جو قبول ہوکر ان سے اطلاع دی گئی اور بعض بددعائیں ہیں جن کے ساتھ شریر دشمن ہلاک کئے گئے اور بعض دعائیں از قسم شفاعت ہیں جن کامرتبہ دعا سے بڑھ کر ہے اور بعض مباہلات ہیں جن کا انجام یہ ہوا کہ خدا نے دشمنوں کو ہلاک اور ذلیل کیا اور بعض صلحائے زمانہ کی وہ شہادتیں ہیں جنہوں نے خدا سے الہام پاکر میری سچائی کی گواہی دی۔ اور بعض ایسے صلحائے اسلام کی شہادتیں ہیں جو میرے ظہور سے پہلے فوت ہوچکے تھے جنہوں نے میرا نام لے کر اور میرے گاؤں کانام لے کر گواہی دی تھی کہ وہی مسیح موعود ہے جو جلد آنے والا ہے اور بعض نے ایسے وقت میں میرے ظہور کی خبردی تھی جب کہ میں ابھی پیدا بھی نہیں ہواتھا اور بعض نے میرے ظہور کے بارے میں ایسے وقت میں خبردی تھی جب کہ میری عمر شاید دس یا بارہ برس کی ہوگی اور اپنے بعض مریدوں کو بتلادیا تھاکہ تم اس قدر عمر پاؤ گے…‘‘ (ان بزرگوں نے بعض مریدوں کو بتلا دیا تھا) ’’…کہ تم اس قدر عمر پاؤ گے کہ ان کو دیکھ لوگے اور جو نشانیاں زمانہ مہدی معہود کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی تھیں جیسا کہ اس کے زمانہ میں کسوف خسوف رمضان میں ہونا اور طاعون کاملک میں پھیلنایہ تمام شہادتیں میرے لئے ظہور میں آگئیں اور اس وقت تک چودھویں صدی کا بھی میں نے چہارم حصہ پالیا۔ یہ اس قدر دلائل اور شواہد ہیں کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جائیں تو ہزار جزو میں بھی سما نہیں سکتے۔‘‘ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ328-329)
یہ اقتباس چشمہ معرفت کاہے، اس سے پہلے جو تھا وہ حقیقۃ الوحی کا تھا۔ ان اقتباسات میں مخالفین کے انجام کے بارے میں بھی ذکر ہوا جو نشان پورا ہونے کا ذریعہ بن کر اپنے بد انجام کو پہنچے، اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ بعض دوسرے قبولیت دعا اور نشانات کا بھی ذکر ہوا۔ اب میں قبول احمدیت کے چند واقعات پیش کرتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔
حضرت شیخ محمد افضل صاحب فرماتے ہیں کہ’’جس وقت خاکسار کی عمر بارہ سال کی تھی اور گو ہمارے خاندان میں میرے تایا حکیم شیخ عباد اللہ صاحب اور میرے تایازاد بھائی شیخ کرم الٰہی صاحب حضرت صاحب سے بیعت تھے مگر خادم نے نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تھا اور نہ ہی حضور کا فوٹو دیکھا تھا۔ خواب دیکھا کہ میرے جسم کی تمام جان نکل گئی ہے مگر دماغ میں سمجھنے کی اور آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت باقی ہے۔ میرے سامنے ایک بزرگ بیٹھے ہیں اور ان کے پیچھے گھٹنوں تک قدم مبارک دکھائی دیتے ہیں۔ (یعنی ایک بزرگ پیچھے بیٹھے ہیں اور پیچھے قدم نظر آ رہے ہیں گھٹنوں تک) میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بزرگ جو بیٹھے تیری طرف دیکھ رہے ہیں مرزا صاحب ہیں اور پچھلی طرف جو قدم مبارک نظر آتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ میری آنکھ کھل گئی۔ صبح میں نے مرتضیٰ خان ولد مولوی عبداللہ خان صاحب جو ان دنوں لاہوری جماعت میں شامل ہیں، سے تعبیر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ تم کو مرزا صاحب کی بدولت رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی حاصل ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں خدا کی قسم کھا کر تحریر کرتا ہوں کہ جب 1905ء میں مَیں بیعت ہوا تو حضور وہی تھے جو خواب میں میری طرف دیکھ رہے تھے۔ اس طرح سے خدا جس کو چاہتا ہے سچا راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ رجسٹر نمبر7صفحہ نمبر 218-219 روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحبؓ)
پھر حضرت نظام الدین صاحب فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوا۔ نماز عصر مسجد مبارک سے پڑھ کر… پرانی سیڑھیوں سے جب نیچے اترا تو ابھی سقفی ڈیوڑھی میں تھا (یعنی جو چھتا ہوا باہر کمرہ ہے، اسی میں تھا) کہ دو آدمی بڑے معزز سفید پوش جوان قد والے ملے جو مجھے سوال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کا پتہ مہربانی کر کے بتلائیں کہ کہاں ہیں؟ ہم بہت دور دراز سے سفر طے کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ تو میں نے کہا آؤ میں بتلا دوں۔ انہوں نے کہا نہیں آپ ہمارے پیچھے ہو جائیں اوپر ہیں (اگر آپ اوپر ہیں ) تو ہم پہچانیں گے۔ تب میں ان کے پیچھے ہو لیا۔ وہ میرے آگے آگے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چلے گئے۔ آگے اجلاس لگا ہوا تھا اور حضور دستار مبارک سر سے اتارے ہوئے بے تکلف حالت میں بیٹھے ہوئے تھے…‘‘ (آگے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے اور آپ بھی بیٹھے تھے، پگڑی اتاری ہوئی تھی۔ کہتے ہیں) ’’جاتے ہوئے ان میں سے ایک شخص نے حضور کو جاتے ہی پوچھا کہ آپ کا نام غلام احمد ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر اس نے کہا۔ آپ کا دعویٰ مسیح موعود کا ہے؟ حضور نے فرمایا ہاں۔ تو پھر اس نے کہا کہ پہلے آپ کو السلام علیکم، جناب حضرت رسول مقبول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور پھر میری طرف سے۔ اور میں فلاں دن حضوری میں تھا تب رسول خدا کا ہاتھ مبارک حضور کے دائیں کندھے پر تھا اور فرمایا ھٰذا مسیح۔ ان کی بیعت کرو اور میرا سلام کہو۔‘‘ یعنی یہ خواب میں انہوں نے دیکھا تھا جو بیان کر رہے ہیں کہ اس طرح میں نے دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کندھے پر تھا، آپؐ نے فرمایا کہھذا مسیح۔ سلام کرو اس لئے میں آیا ہوں اور سلام پہنچا رہا ہوں۔ اور پھر انہوں نے بیعت کی۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر7صفحہ نمبر189-190روایت حضرت نظام الدین صاحبؓ)
حضرت حکیم عطاء محمد صاحب فرماتے ہیں کہ’’…بعد بیعت چند دن قادیان رہا اور پھر حضور سے اجازت حاصل کر کے واپس لاہور آ گیا اور صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف نے احمدیہ جماعت کے احباب سے ملاقات کرائی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک صاحب نے محبت سے فرمایا کہ پھر محمد صاحب قادیان آ گئے ہیں۔ اس بات کو سن کر مجھے حیرانی ہوئی اور دعا کی کہ یا الٰہی اس جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آ گئے ہیں اور مرزا صاحب محمد کیسے ہو سکتے ہیں؟ میں نے خواب میں دیکھا کہ اقدس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہیں اور آسمان سے ایک فرشتے نے اتر کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا یہ مرزا صاحب ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اترا اور وہ نور حضرت مسیح موعود کے دماغ میں داخل ہوا۔ پھر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور حضور کا چہرہ اس نور سے پرنور ہو گیا۔ پھر اس فرشتے نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے تو مرزا صاحب تھے اب واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے ہیں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر7صفحہ نمبر176روایت حضرت حکیم عطاء محمد صاحبؓ)
یہ تو لوگوں کے چند پرانے واقعات تھے کہ کس طرح انہوں نے خوابیں دیکھیں اور بیعت ہوئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور نشانات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ یہ سلسلہ کمال تک نہ پہنچ جائے۔ (ماخوذ از چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ332) پس آپ کی یہ پیشگوئی آج بھی کس شان سے پوری ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کس طرح یہ نشان دکھا رہا ہے۔ ہزاروں میل دور رہنے والے بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ ان کے چند واقعات بھی پیش کرتا ہوں۔ مالی کے علاقے Bala میں تیجانیہ فرقے کے بڑے امام صاحب ہیں۔ ان کے والد کے ذریعہ سے اس علاقے کے 93 گاؤں مسلمان ہوئے تھے۔ اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد یہ جانشین بنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ قبل انہیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ آدم صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے گھر ان کے کمرے میں تشریف لائے ہیں۔ وہ حضور کے ساتھ کمرے میں ہیں جبکہ باہر بہت سے علماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ باہر علماء آپ کا انتظار کررہے ہیں حضور باہر تشریف لاتے ہیں اور تمام غیر احمدی علماء کے سروں سے ٹوپیاں اتار دیتے ہیں اور صرف میرے سر پر ٹوپی رہنے دیتے ہیں۔ اس جگہ ان کے مریدوں کے کئی گاؤں ہیں۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد یہ ہمارے معلمین کے ساتھ اپنے مریدوں کے وہاں جتنے بھی گاؤں تھے۔ ان میں گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اب تک چالیس سے زائد گاؤں احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ پھر برکینا فاسو کے ایک جیارا بخاری صاحب (Jiara Boukhari) نے ریڈیو میں فون کیا۔ وہاں ہمارے مختلف ریڈیو سٹیشن کام کرتے ہیں۔ کہ میں نے آپ کی تبلیغ سنی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ نے یہ دیکھنا ہو کہ امام مہدی جو آنے والا ہے وہ یہی ہے یا نہیں تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے لئے یہ طریق فیصلہ بتایا ہے کہ اس کے لئے استخارہ کریں۔ چنانچہ اس دن سے میں نے بھی استخارہ شروع کردیا اور استخارہ کرتے ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ خواب میں ایک ٹینٹ کے نیچے دو نورانی آدمیوں کو دیکھا۔ خواب میں ہی ان کے دوست نے کہا کہ جو دائیں طرف والے ہیں وہ امام مہدی ہیں اور دوسرے آدمی کا ان کو پتا نہیں چلا۔ تو کہتے ہیں کہ اس کے بعد ان پر واضح ہو گیا کہ آنے والا امام مہدی سچا ہے۔ اگر وہ نعوذ باللہ جھوٹا ہوتا تو میرے استخارے کے جواب میں میری خواب میں کیسے آ جاتا۔ اس لئے میں نے بیعت کر لی۔
پھر مصر سے ایک خاتون نے مجھے لکھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بعض خوبیوں سے نوازا ہے۔ چنانچہ میں نے خواب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اور آپ کو دیکھا ہے اور خدا کی قسم ہے کہ مجھے اس وقت یہ بھی علم نہ تھا کہ اس وقت دنیا میں کوئی خلیفہ بھی موجود ہے۔ میں صرف استخارہ کر رہی تھی تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ دونوں شخصیات دکھائیں لیکن شیطان نے مجھے بہکا دیا اور اب خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس بہکاوے سے میں باہر نکل آئی۔ میری استقامت اور مغفرت کے لئے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو استقامت بخشے۔
پھر مراکش کی ایک خاتون فاہمی صاحبہ ہیں، وہ کہتی ہیں لقاء مع العرب کے ذریعہ سے تعارف ہوا۔ پھر لکھتی ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بات گو کہ مدلل اور مطمئن کرنے والی ہوتی تھی اس کے باوجود تقریباً ہر پروگرام میں ہی وہ استخارہ کرنے اور خدا تعالیٰ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے بارے میں دعا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے۔ چنانچہ میں نے استخارہ شروع کیا اور خواب میں دیکھا کہ ایک وسیع علاقے میں لمبا اور بہت بڑا خیمہ لگا ہوا ہے اس خیمہ میں ایک شخص بہت غمزدہ اور حزین بیٹھا ہوا ہے۔ اتنے میں ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم اتنے دکھی کیوں ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں میں لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہوں لیکن لوگ میری تصدیق نہیں کرتے۔ اس پر سوال کرنے والا شخص اسے کہتا ہے کہ میں تیری تصدیق کرتا ہوں۔ میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں۔ اس رؤیا کے بعد میں نے کہا۔ اب جو ہونا ہے ہو جائے۔ اب مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ چنانچہ میں نے فوراً بیعت کر لی اور بیعت کے ساتھ ہی پردہ کرنا بھی شروع کر دیا۔ پھر یہ یہاں بھی آئی تھیں۔ جلسہ کا جو نظارہ انہوں نے دیکھا اور خیمہ دیکھا۔ تو کہتی ہیں یہ ہو بہو وہی خیمہ تھا جہاں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اکیلے بیٹھے دیکھا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر آپ کو فرمایا تھا کہ میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔ پھر مالی سے عبداللہ صاحب معلم تحریر کرتے ہیں باماکو (Bamako) کے استاد (Dambele) دامبلے صاحب ہیں۔ وہ احمدیت کے سخت مخالف تھے۔ جب بھی وہ احمدیہ ریڈیو ٹیلیفون کرتے تو جماعت کو گالیاں نکالنے لگ جاتے اور اگر انہیں ٹیلیفون کیا جاتا تو پھر بھی جماعت کو سخت گالیاں دیتے۔ اسی طرح کرتے ہوئے انہیں کافی عرصہ گزر گیا۔ ایک دن انہوں نے روتے ہوئے احمدیہ ریڈیو ٹیلیفون کیا جس کا نام ’ربوہ FM‘ ہے، اور بتایا کہ انہوں نے ایک رات پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھاتھا اور جو نوراس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دیکھا ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ لہٰذا اب وہ جماعت سے صدقِ دل سے معافی مانگتے ہیں اور وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر احمدیوں نے اسے معاف نہ کیا تو خدا بھی معاف نہیں کریگا۔ اس پر معلم صاحب نے انہیں احمدیت میں شامل ہونے کی دعوت دی کہ حق واضح ہو گیا ہے تو اب بیعت کریں۔ چنانچہ انہوں نے احمدیت قبول کی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہوئے۔
پھر مالی ریجن کولی کورو (Koulikoro) سے یوسف صاحب، یہ معلم ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ریجن کولیکورو (Koulikoro) کے گاؤں جالا کروجی (Jala Koroji) کے ایک بزرگ پیدائشی مسلمان تھے۔ مگر مسلمان فرقوں کی طرف دیکھ کر انھیں سمجھ نہیں آتی تھی کون سا فرقہ خدا کی طرف سے ہے۔ بہت عرصہ حق کی تلاش کرتے رہے مگر آپ کوکہیں بھی حق نہ ملا۔ ایک دن جب آپ نے احمدیہ ریڈیو’ربوہ‘ لگایا تو اس پر معلم صاحب نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر کوئی سچے مذہب کو جاننا چاہتا ہے توخدا سے دعا کرے وہ خود اسکی راہنمائی کردے گا۔ یہ طریق آپ کو بہت پسند آیا اور آپ نے اس پر عمل کرنے کے لئے چلہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے بعد آپ نے نیت کی کہ جب تک خدا آپ کی راہنمائی نہ کرے اس وقت تک آپ کسی سے بات نہ کریں گے اور خدا سے دعائیں کرتے رہیں گے۔ چنانچہ یہ چلہ ابھی کچھ دن ہی کیا تھا کہ ایک دن خدا نے آپ کو دکھایا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آپکے گھر نازل ہوئے ہیں اور پیار سے آپ کے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھا۔ یہ خواب دیکھتے ہی آپ کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد آپ کو یقین ہو گیا کہ تمام دنیا میں احمدی ہی حق پر ہیں۔ کیونکہ صرف یہی لوگ حضرت امام مہدی کی آمد کی خبر دیتے ہیں۔ اس خواب کے فورًا بعد آپ نے مالی کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور وہاں حضرت امام مہدی کی تصویرکو دیکھ کر کہا کہ یہی حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں جو کہ آپ کے گھر تشریف لائے تھے اور پھر بیعت بھی کر لی۔
مالی سے ہمارے مربی سلسلہ بلال صاحب لکھتے ہیں کہ
احمدیہ ریڈیو سٹیشن سکاسو (Sikaso) میں ہمارے ایک احمدی بھائی تشریف لائے اور بتایا کہ ان کا ایک ہمسایہ آج ان کے گھر آیا اور رو رو کر معافی مانگنے لگا۔ جب اس نے ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ مجھے احمدیت سے شدیدنفرت تھی اور جب بھی میں آپ لوگوں کا ریڈیو سنتا تھا تو سوائے گالیوں کے کچھ میرے منہ سے نہ نکلتا تھا۔ کل رات آپ کے مبلغ لائیوپروگرام کر رہے تھے اور اس کوسنتے سنتے اور دل ہی میں برا بھلا کہتے ہوئے سو گیا۔ مگر رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور مجھے خوب ڈانٹا۔ میں نے خواب میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی کہ رسول اللہ مجھے معاف کردیں۔ میں اب کبھی بھی احمدیوں کو برا بھلا نہیں کہوں گا اور آج سے میں بھی احمدی ہوں۔ اب اللہ کے فضل سے یہ بھائی پرجو ش مبلغ بھی ہیں۔ مالی سے معلم عبداللہ صاحب لکھتے ہیں کہ باماکو (Bamako) میں ایک طالبعلم بکری تراؤرے (Bakary Tarore) صاحب نے انٹرنیٹ پر احمدیت کے بارے میں مطالعہ شروع کیا اور مطالعہ کرنے کے ساتھ انہوں نے انٹرنیٹ پر فرانس جماعت سے رابطہ کیا۔ جماعت احمدیہ فرانس نے انہیں باماکو مشن کا رابطہ دیا۔ چنانچہ اس طالبعلم نے معلم صاحب سے رابطہ کیا اور چند سوالات پوچھے۔ سوالات کے جواب ملنے پر اس طالبعلم کو جماعت کی سمجھ آگئی مگر اس نے بیعت نہ کی۔ ایک دن وہ طالبعلم معلم صاحب کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا تھا جو اس کے گھرآئے تھے اور آپ علیہ السلام کے چہرہ پر نور ہی نور تھا اور وہ ایسا نو ر تھا کہ جیسا اس نے پہلے کہیں نہیں دیکھا۔ اس نے کہا کہ وہ اب نہ صرف بیعت کرتا ہے بلکہ جماعت کے ساتھ مل کر تبلیغ بھی کرے گا۔
پھر مالی ریجن کولیکورو سے وہاں کے مبلغ فاتح صاحب لکھتے ہیں کہ
میرے ریجن کولیکورو (Koulikoro) سے ایک بزرگ سعید کولیبالی صاحب (Saeed Coulibaly) ہمارے ریڈیو ’ا لنور‘ آئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کے آباء واجداد بت پرست تھے۔ اور ان سے بھی بتوں کی پوجا کروانا چاہتے تھے۔ مگر بچپن سے ہی آپ کی طبیعت بتوں کی پوجاکو پسندنہ کرتی تھی۔ چنانچہ جب آپ تھوڑے بڑے ہوئے تو انہوں نے بتوں کی پرستش سے صاف انکار کر دیا۔ جس پر آپ کے والدین اور تمام دیگررشتہ دار ناراض ہوگئے۔ انہوں نے اس مخالفت کی کچھ پرواہ نہیں کی اور اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا انتظار تھا۔ کہتے ہیں اس انتظار کے لمبا عرصہ بعدایک دن خواب میں دیکھا کہ سفید رنگ کے ایک بزرگ مالی سے شمال کی جانب نازل ہوئے ہیں اور ان بزرگ کو دیکھنے کے لئے بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں۔ حضور علیہ السلام کا اتنا پر نورچہرہ کیونکہ آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھاتھا۔ اس لئے آپ نے بے اختیار ہو کراپنے آپ سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو آپکے پیچھے کھڑے ایک شخص نے بتایا کہ یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں جو کہ نازل ہو چکے ہیں۔ یہ نظارہ دیکھتے ہی آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد سے آپ کو یقین ہو گیا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں۔ مگر جب آپ نے مسلمان فرقوں کی طرف دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی خبر نہ دیتا تھا۔ اتفاقاً ایک دن آپ نے احمدیہ ریڈیو ’النور‘ لگایا تو اس پر حضرت امام مہدی کی آمد کی خبر بیان ہوئی۔ یہ خبر سنتے ہی ان کو یقین ہو گیا کہ یہی لوگ حق پر ہیں۔ اس خواب کے کچھ عرصہ بعدآپ نے احمدیہ مشن ہاؤس آکر اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ بیعت کر لی اور جب یہاں آپ کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو تصویر دیکھتے ساتھ ہی کہنے لگے کہ یہی وہ حضرت امام مہدی ہیں جوکہ انہوں نے خواب میں دیکھے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دس ہزار فرانک سیفا کی بڑی رقم بطور چندہ بھی ادا کی اور بتایاکہ اب وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں حق پہچاننے کی توفیق دی۔
یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں اور نشانات ہیں۔ اگر ان کو نشانات اور تائیدات نہ مانیں تو پھر کیا چیز ہے جو لوگوں کے دلوں میں ایک ہلچل مچا رہی ہے۔ کاش کہ دوسرے مسلمان بھی اس بات کو سمجھیں اور اس حقیقت کو جاننے کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہیں اور مخالفت کے بجائے سیدھے راستے کی تلاش کی طرف جستجو زیادہ ہو تا کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھی رہنمائی فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کامع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزارہا نشان ایک جگہ جمع کر دئیے لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے او ر محض افترا کے طور پر ناحق کے اعتراض پیش کر دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح خد اکا قائم کردہ سلسلہ نابود ہو جائے مگر خدا چاہتا ہے کہ اپنے سلسلہ کو اپنے ہاتھ سے مضبوط کرے جب تک کہ وہ کمال تک پہنچ جاوے۔‘‘ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ332)
آخر میں پھر مسلمان امت مسلمہ اور مسلمان ممالک کے لئے دعا کی درخواست کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ان میں، ان ملکوں میں امن اور سلامتی قائم فرمائے اور اس بات کو یہ تسلیم کر لیں کہ یہ امن و سلامتی اگر حقیقت میں قائم کرنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی حل ہے، اللہ تعالیٰ نے جس کو امام مہدی بنا کر بھیجا ہے، جس کو امن قائم کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اس کو یہ قبول کر لیں۔ اس مسیح محمدی کی پیروی کریں جس کی پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی تھیں۔ تو یہی ایک حل ہے جو ان کی نجات کا ذریعہ ہے اور اس سے وہ فتنے اور فساد اور دکھوں سے رہائی پا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے۔
’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کا م ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
’’خدا نے مجھے اصلاح کرنے کے لئے مامور کر کے بھیجا اور میرے ہاتھ پر وہ نشان دکھلائے کہ اگر ان پر ایسے لوگوں کو اطلاع ہو جن کی طبیعتیں تعصّب سے پاک اور دلوں میں خدا کا خوف ہے اور عقل سلیم سے کام لینے والے ہیں تو وہ ان نشانوں سے اسلام کی حقیقت بخوبی شناخت کرلیں۔‘‘
’’جو آیات اللہ کی پروا نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر ہو تے ہیں وہ ایسے ہو تے ہیں کہ ایک عقلمند خدا ترس اس کو شناخت کر لیتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن جو فراست نہیں رکھتا اور خدا کے خوف کو مدنظر رکھ کر اس پر غور نہیں کرتا وہ محروم رہ جا تا ہے۔‘‘
’’خدا چاہتا ہے کہ اپنے سلسلہ کو اپنے ہاتھ سے مضبوط کرے جب تک کہ وہ کمال تک پہنچ جاوے۔‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں الٰہی تائیدات اور نشانات میں سے بعض کا حضور علیہ السلام کے الفاظ میں ہی ایمان افروز تذکرہ۔
امن و سلامتی اگر حقیقت میں قائم کرنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی حل ہے، اللہ تعالیٰ نے جس کو امام مہدی بنا کر بھیجا ہے، جس کو امن قائم کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اس کو یہ قبول کر لیں۔ اس مسیح محمدی کی پیروی کریں جس کی پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی تھیں۔ امت مسلمہ اور مسلمان ممالک میں حقیقی امن کے قیام کے لئے دعا کی تحریک۔
فرمودہ مورخہ 28مارچ 2014ء بمطابق 28امان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔