محبتِ الٰہی کی حقیقت، حصول کا راز اور طریق، اس کی گہرائی اور فلاسفی
خطبہ جمعہ 4؍ اپریل 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت الٰہی سے متعلق کچھ تحریرات پیش کروں گا، ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے محبت الٰہی کی حقیقت اور تعریف بھی بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا راز اور طریق اور اس کی گہرائی اور فلاسفی بھی بیان فرمائی ہے اور ہمارے سے، جو آپ کے ماننے والے ہیں جو آپ کی جماعت میں شامل ہیں محبت الٰہی کے بارے میں کیا توقعات رکھی ہیں۔ یہ سب بھی بیان فرمایا کہ ہماری کیا کوشش ہونی چاہئے اور اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں۔ پس اس لحاظ سے ہر حوالہ ہی قابل غور ہے اور ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس لئے توجہ سے سننے کی ضرورت ہے تا کہ ہم محبت الٰہی کے مضمون کی روح کو سمجھتے ہوئے اس میں بڑھنے والے ہوں اور اضافہ کرنے والے ہوں اور اپنی اصلاح کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قویٰ میں سے یہ بھی ایک قوت ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا اور جیسا کہ ہریک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں (بہت کھلے اور واضح محسوس ہوتے ہیں) یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جوہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے۔‘‘ (کمال اور اِتمام ایسی ہو جو اپنے انتہا کو پہنچ جائے) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُشْرِبُوْا فِی قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ (البقرۃ: 94)۔ یعنی انہوں نے گو سالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گو سالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا۔ درحقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلّی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے۔‘‘ یعنی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنانا یہی محبت کا راز ہے۔ معرفت کے ضمن میں بتایا گیا تھا کہ جب تک تمام صفات کا علم نہ ہو معرفت نہیں ہو سکتی اور معرفت کے بعد جب انسان مزید آگے بڑھتا ہے تو وہ محبت ہے اور محبت اسی وقت کامل ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنایا بھی جائے۔ صرف علم حاصل کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اسے اپنایا بھی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نور حاصل ہوتا ہے۔) (نورالقرآن نمبر 2۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 430)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ
’’…محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے۔ سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہوکر اور اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے۔‘‘ (نورالقرآن نمبر 2۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 431)
پھر محبت الٰہی کے معیار کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔ یہ ایک اقتباس ہے۔ اصل میں یہ پادری فتح مسیح کے خط کے جواب میں آپ فرما رہے ہیں جس نے کچھ اعتراضات کئے تھے اور آپ نے ان کے جواب دئیے۔ آپ نے فرمایا
’’… آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے۔‘‘ (تو اس کا جواب یہ ہے۔ فرمایا) ’’پس واضح ہو کہ یہ اعتراض درحقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن پر کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہرگز موجودنہیں کہ خدا سے محبت ذاتی رکھنی چاہئے اور محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے۔ قرآن نے صاف فرما دیا ہے۔ فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ کُمْ اَوْاَشَدَّ ذِکْرًا…‘‘ (البقرۃ: 201) اور پھر فرمایا ’’…وَالَّذِیْنَ اٰٰمَنُوْا اَشَدُّحُبًّا لِلّٰہِ (البقرہ: 166) یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ۔ اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اور نہ اپنے دوسرے پیاروں سے اور نہ اپنی جان سے اور پھر فرمایا۔ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات: 8)۔ یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنا دیا۔ اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور پھر فرمایا۔ اِنَّ اللّٰہ یَاْمُرُ بِالْعَدْلَ وَاْلاِحْسَانِ وَأِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91) یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے۔ …‘‘ فرمایا کہ ’’…حق العباد کا پہلو تو ہم ذکرکرچکے ہیں …‘‘۔
اصل میں یہ جس کتاب کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ نورالقرآن نمبر 2 ہے۔ اس میں آپ نے تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ بہر حال اس میں پہلے حق العباد کا جو آپ نے ذکر فرمایااس میں آپ نے وضاحت فرمائی ہے کہ وہ یہ ہیں کہ مؤمن کافر پر بھی شفقت کرے یہ حق العباد ہے اور گہرائی میں جاکر اگر اس کی ہمدردی کی ضرورت ہو تو ضرور کرے۔ اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہو۔ یعنی چاہے وہ کافر ہی ہے اگر اس کو کسی قسم کی بیماری ہے۔ چاہے وہ روحانی بیماری ہے تو اس کے لئے غمگسار ہو۔ اور یہ ہیں حقوق العباد۔ یہاں اس بات کا بھی جواب آگیا کہ کافر سے محبت کس طرح ہو؟ بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں Love for all۔ یہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ تو فرمایا کہ اس کی ہمدردی اس کی اصلاح کرنا، اس کی ضرورت کو پورا کرنا اس سے محبت ہے نہ کہ محبت میں آ کر کافر کی کافرانہ باتوں اور اس کے دین کو اختیار کر لینا۔ ایک مؤمن سے جو محبت ہے اگر وہ حقیقی مؤمن ہے تو اس سے محبت یہ ہے کہ اس کی جو اچھی عادات ہیں، اس میں جو نیکیاں ہیں ان کو اختیار کرنا اور اگر اس میں کوئی برائیاں ہیں تو اس کو دین کے حوالے سے ان کو سمجھانا۔ لیکن جو عام انسانی ہمدردی ہے وہ ہر ایک کے لئے اس سے محبت ہے۔ محبت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک کی جو ذاتی برائیاں، عادات ہیں ان کو اپنا لیا جائے کہ ہمیں اس سے بڑی محبت ہے۔ پھر حقوق العباد میں بھی آپ نے فرمایا کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا، غلاموں کو آزاد کرنا، قرضداروں کے قرض ادا کرنا، جو زیر بار ہیں ان کا بار اٹھانا۔ پھر یہ کہ عدل کا بھی اس میں، حقوق العباد میں ذکر آگیا، کہ عدل سے بڑھ کر پھر احسان کرو۔ اور احسان یہ ہے کہ بلا تخصیص مذہب و ملت ہر ایک سے کرو اور یہی حقوق العباد ہیں اور یہ ان لوگوں کے حق ہیں جو ایک انسان کے لئے اس کی محبت میں ایک مؤمن ادا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے۔ اول محبت بہر حال خدا تعالیٰ کی ہے۔ پھر فرمایا کہ حق العباد کا ذکر تو ہم نے کردیا۔
’’…اور حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے (یعنی اِنَّ اللّٰہ یَاْمُرُ بِالْعَدْلَ وَاْلاِحْسَانِ وَأِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91)) کے یہ معنی ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہوتو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور …‘‘ (یعنی محسن کی شکل جب سامنے آتی ہے تو تبھی اس کے احسان بھی یاد آتے ہیں یا جب احسان یاد کرے تو محسن کی شکل سامنے آ جائے تو انسان مزید زیر احسان ہوتا ہے۔ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا احسان یہ ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرو کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور درحقیقت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہو۔ فرمایا کہ) ’’…خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے درحقیقت تین قسم پر منقسم ہیں۔ اوّل وہ لوگ جو بباعث محجوبیت اور رویت اسباب کے احسان الٰہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ تو پردے میں ہے ظاہر میں نہیں کہ انسانی شکل میں نظر آجائے اور دنیاوی اسباب جو ہیں وہ نظر آ رہے ہوتے ہیں ان کا علم بھی ہوتا ہے اور انہیں محسوس بھی انسان کرتا ہے۔ پھر جب دنیاوی چیزیں سامنے نظر آ رہی ہوں تو یہ احساس نہیں رہتا کہ ان اسباب کو پیدا کرنے والی بھی کوئی ہستی ہے اور وہ خدا ہے۔ اس لئے ان دنیاوی چیزوں سے ایک انسان زیادہ محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تین قسم پر یہ چیزیں ہیں پہلے وہ لوگ ہیں جو ملاحظہ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے احسانات کو اچھی طرح نہیں دیکھتے اور وجہ کیا ہے کہ وہ پردے میں ہے اور دوسرے اسباب جو ہیں وہ سامنے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ) اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کرلیتے ہیں …‘‘ (اللہ کا احسان نہیں مانتے لیکن بہرحال مجموعی طور پر کیونکہ ایک ایمان ہوتا ہے، یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا جو حق ہے یا اس کے مخلوق ہونے کا جو حق ہے وہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا) فرمایا کہ ’’…اور احسان الٰہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے‘‘ (عمومی طور پر تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے محبت ہے لیکن ہر فائدہ جو وہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں اس فائدہ کے اُٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احسان کو سامنے نہیں رکھتے بلکہ دنیاوی فائدوں کو، دنیاوی اسباب کو سامنے رکھ رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا وجہ کیا ہے اس کی؟ ’’…کیونکہ اسباب پرستی کا گردوغبار مُسبّبِ حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے‘‘ (کیونکہ ظاہری طور پر جو اسباب ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے، انہوں نے اس طرح ڈھانک لیا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جو اِن سب اسباب کو پیدا کرنے والا ہے اس کا چہرہ نظر نہیں آتا۔ پھر کیونکہ اسباب پرستی ہے اس لئے مسبب حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے یہ چیز روک دیتی ہے) ’’اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کرسکتے۔‘‘ وہ جو ہر چیز عطا کرنے والا ہے اصل میں تو حقیقی طور پر وہی ہے جو ہر چیز دینے والا ہے اس کی جو خوبصورتی ہے اس کا جو حسن ہے وہ ہمارے سامنے نہیں آتا۔ تو فرمایا کہ ’’سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے۔ و جہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حق خالقیت اور رزاقیت ہمارے سر پر واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسعت فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیت اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ (النحل: 91)۔ میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے۔‘‘ (چونکہ ان کو پوری طرح علم نہیں، صرف اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کے رازق ہونے کا چاہے وہ زبانی ہو اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بھی ان کی اسی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے جتنا جتنا بھی شکر وہ ادا کر رہے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے عدل کا بھی تقاضا ہے کہ وہ اس کو اتنا ہی ان کے لئے کافی سمجھے اور وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کافی کچھ کر لیا) فرمایا کہ ’’… مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا یہ تمام باتیں ہیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔ تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گردوغبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے اور یہ رویت اس قسم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقیناً اس کو حاضر خیال کرکے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں اِحْسَان ہے۔ اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔ اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام اِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبیٰ ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احسانات الٰہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا رہے اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیّل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الٰہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی۔ کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے‘‘ (یعنی اس شخص کے دل میں جس پر احسان کیا جائے یہ اثر پیدا کرتا ہے)’’کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہوگئے۔ پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے۔ پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذت بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی معدوم ہوکر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہوجاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ ایتایٔ ذی القربی سے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ کُمْ اَوْاَشَدَّ ذِکْرًا (البقرۃ: 201) غرض آیت اِنَّ اللّٰہ یَاْمُرُ بِالْعَدْلَ وَاْلاِحْسَانِ وَأِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91) کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہٗ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌ بِالْعِبَادِ (البقرۃ: 208)۔ یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے۔ اور پھر فرمایا بَلیٰ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وََلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: 113)۔ یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں۔ سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدّعا خدا اور خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا۔ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّ لَا شَکُوْرًا (الدھر: 9-10) ’’یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گذاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے۔ اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الٰہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الٰہی اور رضاء الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے۔ … خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تاانسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے (خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں، ضرورتیں پوری کرنے کے لئے عبادت نہیں کرنی بلکہ طبعی جوش سے کرے) کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے۔ دنیا میں بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں۔ بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خداتعالیٰ کی عبادت کریں۔‘‘ (نورالقرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 436 تا 441)
اصل عبادت وہی ہے جو محبت ذاتی سے ہو نہ کہ کسی فائدے کے لئے۔ پھر ایک جگہ سچی محبت کی علامت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’…محبت عجیب چیز ہے۔ اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور معصیت کے شعلے کو بھسم کر دیتی ہے۔ سچی اور ذاتی اور کامل محبت کے ساتھ عذاب جمع ہو ہی نہیں سکتا اور سچی محبت کے علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات منقوش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کے قطع تعلق کا اُس کو نہایت خوف ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قصور کے ساتھ اپنے تئیں ہلاک شدہ سمجھتا ہے اور اپنے محبوب کی مخالفت کو اپنے لئے ایک زہر خیال کرتا ہے اور نیز اپنے محبوب کے وصال کے پانے کے لئے نہایت بے تاب رہتا ہے اور بُعد اور دُوری کے صدمہ سے ایسا گداز ہوتا ہے کہ بس مر ہی جاتا ہے۔ اس لئے وہ صرف ان باتوں کو گناہ نہیں سمجھتا کہ جوعوام سمجھتے ہیں کہ قتل نہ کر۔ خون نہ کر۔ زنانہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔ بلکہ وہ ایک ادنیٰ غفلت کو اور ادنیٰ التفات کو جو خدا کو چھوڑ کر غیر کی طرف کی جائے ایک کبیرہ گناہ خیال کرتا ہے۔ اس لئے اپنے محبوب ازلی کی جناب میں دوام استغفار اس کا ورد ہوتا ہے۔‘‘ (باقاعدگی سے استغفار کرتا رہتا ہے) ’’اور چونکہ اس بات پر اس کی فطرت راضی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وقت بھی خدا تعالیٰ سے الگ رہے اس لئے بشریت کے تقاضا سے ایک ذرّہ غفلت بھی اگر صادر ہو تو اس کو ایک پہاڑ کی طرح گناہ سمجھتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ یہ محبت کا تقاضا ہے کہ ایک محب صادق کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اس کا محبوب اس پر ناراض نہ ہو جائے اور چونکہ اس کے دل میں ایک پیاس لگا دی جاتی ہے کہ خدا کامل طور پر اس سے راضی ہو اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بھی کہے کہ میں تجھ سے راضی ہوں تب بھی وہ اس قدر پر صبر نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا کہ شراب کے دَور کے وقت ایک شراب پینے والا ہر دم ایک مرتبہ پی کر پھر دوسری مرتبہ مانگتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعاً یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ …‘‘ (اگر اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا میں راضی ہوں تو بیٹھ نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی اطلاع ہونا اس شخص کو مزید استغفار میں اور عبادتوں میں مائل کرتی ہے اور بجا لانے کی طرف توجہ دلاتی ہے) فرمایا ’’…پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہردم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ورد رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے۔ اور استغفار کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعف بشریت انسان سے صادر ہوسکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے۔ اور مستور و مخفی رہے۔‘‘ (چھپی رہے کمزوری۔ ظاہر نہ ہو) ’’پھر بعد اس کے استغفار کے معنی عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تاثیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے۔ پس نجات حقیقی کا سرچشمہ محبت ذاتی خدائے عزّوجل کی ہے جو عجزو نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اور جب انسان کمال درجہ تک اپنی محبت کو پہنچاتا ہے اور محبت کی آگ سے اپنے جذبات نفسانیت کو جلا دیتا ہے تب یکدفعہ ایک شعلہ کی طرح خدا تعالیٰ کی محبت جو خدا تعالیٰ اس سے کرتا ہے اس کے دل پر گرتی ہے اور اس کو سفلی زندگی کے گندوں سے باہر لے آتی ہے اور خدائے حّی و قیّوم کی پاکیزگی کا رنگ اس کے نفس پر چڑھ جاتا ہے بلکہ تمام صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پر اس کو حصّہ ملتا ہے۔ تب وہ تجلیات الٰہیہ کا مظہر ہوجاتا ہے اور جو کچھ ربوبیت کے ازلی خزانہ میں مکتوم و مستور ہے‘‘ (چھپا ہوا ہے) ’’اس کے ذریعہ سے وہ اسرار دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ خدا جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے بخیل نہیں ہے بلکہ اس کے فیوض دائمی ہیں اور اس کے اسماء اور صفات کبھی معطّل نہیں ہوسکتے۔ …‘‘ (چشمۂ مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 378-380)
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ گناہوں کو دور کرنا اور اعمال صالحہ بجا لانا بغیر خدا تعالیٰ کی محبت کے ممکن نہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’…گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پرجوش محبت اور محبانہ یاد الٰہی سے محروم اور بے نصیب ہو۔ اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھڑ جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے اور اس کی تمام سرسبزی برباد ہو جاتی ہے۔ یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل خدا کی محبت سے اکھڑا ہوا ہوتا ہے۔ پس خشکی کی طرح گناہ اس پر غلبہ کرتا ہے سو اس خشکی کا علاج خدا کے قانون قدرت میں تین طور سے ہے۔ (۱) ایک محبت (۲) استغفار جس کے معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش۔ کیونکہ جب تک مٹی میں درخت کی جڑ جمی رہے تب تک وہ سرسبزی کا امیدوار ہوتا ہے۔ (۳) تیسرا علاج توبہ ہے۔ یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذلل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اس سے اپنے تئیں نزدیک کرنا اور معصیت کے حجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا۔‘‘
یعنی گناہوں کا جو پردہ پڑا ہوا ہے اس کو دور کرنے کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اعمال صالحہ بجا لانے کے لئے جو اس پردے کو دور کر دیں جیسا کہ میں خطبات میں چند ماہ پہلے یا چند ہفتوں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ان کے لئے پھر قوت ارادی اور علم کا پیدا ہونا اور قوت عملی کی ضرورت ہے، تبھی یہ حجاب دور ہوتے ہیں اور اعمال صالحہ کرنے کی توفیق ملتی ہے اور پھر ان برائیوں سے انسان باہر آتا ہے۔
فرمایا: ’’…اور توبہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ توبہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔‘‘ (کہ زبان سے توبہ کہنا کوئی ضروری نہیں بلکہ توبہ اسی وقت ہے، یہ توبہ اسی وقت مکمل ہو گی، اسی وقت توبہ سمجھی جائے گی جب اعمال صالحہ بھی ساتھ ساتھ بجا لائے جا رہے ہوں) ’’تمام نیکیاں توبہ کی تکمیل کے لئے ہیں کیونکہ سب سے مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے نزدیک ہو جائیں۔ دعا بھی توبہ ہے کیونکہ اس سے بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ اسی لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح رکھا۔ کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اسکی محبت اور اسکی اطاعت میں ہے۔ اور اس کا نام نفس رکھا کیونکہ وہ خدا سے اتّحاد پیدا کرنیوالا ہے…‘‘ (روح اس لئے رکھا کہ اس کو خدا کی محبت میں راحت ملتی ہے اس کو اور نفس اس لئے کہ نفس میں خدا تعالیٰ سے جڑنے کی صلاحیت ہے۔ یہ نکتہ آپؑ نے بیان فرمایا کہ خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام اس لئے روح رکھا کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے۔ روح کی راحت اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں انسان فنا ہو جائے اس کے احکامات کی پابندی کرے، اطاعت کرے۔ نفس اس لئے رکھا کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کرنے والا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ جڑنے کی اس میں صلاحیت موجود ہے) فرمایا کہ ’’…خدا سے دل لگانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے۔ یہی انسان کا جنت ہے۔ اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہریلے بخارات باہر نکالتا ہے اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے اور بڑی آسانی سے اُن مواد کو دفع کرتا ہے۔ اور خدا میں ہوکر پاک نشوونما پاتا جاتا ہے۔ اور بہت پھیلتا اور خوشنما سرسبزی دکھلاتا اور اچھے پھل لاتا ہے۔ مگر جو خدا میں پیوستہ نہیں وہ نشوونما دینے والے پانی کو چوس نہیں سکتا اس لئے دم بدم خشک ہوتا چلا جاتا ہے۔ آخر پتے بھی گر جاتے ہیں اور خشک اور بدشکل ٹہنیاں رہ جاتی ہیں۔ پس چونکہ گناہ کی خشکی بے تعلقی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس خشکی کے دور کرنے کے لئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے۔‘‘ (اپنا مضبوط تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کرو تبھی یہ خشکی دور ہوگی۔ نہیں تو سوکھے ہوئے درخت کی طرح انسان روحانی لحاظ سے بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ) ’’جس پر قانون قدرت گواہی دیتا ہے۔ اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ کر کے فرماتا ہے۔ یٰاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (الفجر28-31) یعنی اے وہ نفس جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی۔ پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت کے اندر آ…‘‘ فرمایا کہ ’’… غرض گناہ کے دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے۔ لہٰذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں کیونکہ انسان خدا کیلئے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے۔ خدا کو اس طرح پر مان لینا کہ اس کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھنا یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی۔ یہ وہ پہلا مرتبۂ محبت ہے جو درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زمین میں لگایا جاتا ہے۔ اور پھر دوسرا مرتبہ استغفار جس سے یہ مطلب ہے کہ خدا سے الگ ہو کر انسانی وجود کا پردہ نہ کھل جائے۔ اور یہ مرتبہ درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زور کر کے پورے طور پر اپنی جڑ زمین میں قائم کر لیتا ہے اور پھر تیسرا مرتبہ توبہ جو اس حالت کے مشابہ ہے کہ جب درخت اپنی جڑیں پانی سے قریب کر کے بچہ کی طرح اس کو چوستا ہے۔ غرض گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جداہوکر پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا دور کرنا خدا کے تعلق سے وابستہ ہے۔ پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خودکشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن۔ جلد 12صفحہ 328 تا 330)
پھر اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعہ کا ذکر فرماتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’قرآن شریف اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدارِ الٰہی میسر آ سکتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا (الکہف111) یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اِسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے۔ پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور ناتمام ہوں اور نہ ان میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔ نہ سورج نہ چاندنہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا ان پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اور نہ اپنے علم پرکوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز۔ بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں۔ پس اس نے افتاں و خیزاں بہرحال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا۔‘‘ (لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ154)
پھر محبت الٰہی کے معیار کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشق صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں، اس کے فراق میں بھو کا مر تا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کی ہوش نہ پانی کی پرواہ۔ نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہوجاؤ کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہوجاوے پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے۔ نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پرواہ‘‘ (یہ لوگ کہتے ہیں ناں کہ کشف ہوا یا الہام ہوا ہے۔ ذاتی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو تو وہ اصل چیز ہے۔ یہ نہیں کہ کتنے الہام ہوئے اور کتنے کشف آئے اور کتنی سچی خوابیں آئیں ) ’’دیکھو ایک شرابی شراب کے جام کے جام پیتا ہے اور لذّت اٹھاتاہے۔ اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر کے پیو۔ جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہو نے والے بنو۔ جب تک انسان اس امر کو محسوس نہ کر لے کہ میں محبت کے ایسے درجہ کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں تب تک پیچھے ہر گز نہ ہٹے۔ قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے اور اس جام کو منہ سے نہ ہٹائے۔ اپنے آپ کو اس کے لیے بیقرار و شیدا و مضطرب بنالو۔ اگر اس درجہ تک نہیں پہنچے تو کوڑی کے کام کے نہیں۔ ایسی محبت ہوکہ خدا کی محبت کے مقابل پر کسی چیز کی پرواہ نہ ہو۔ نہ کسی قسم کی طمع کے مطیع بنو اور نہ کسی قسم کے خوف کا تمہیں خوف ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ134مطبوعہ ربوہ)
پھر فرماتے ہیں
’’جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اس وقت محبت ذاتی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب تک خدا سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرے کی حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے۔ اس ذاتی محبت کو دعا سے حاصل کر نا چاہئے۔ جب تک یہ محبت پیدا نہ ہو انسان نفس امارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتا ر رہتا ہے اور ایسے لوگ جو نفس امارہ کے نیچے ہیں ان کا قول ہے (پنجابی میں فرمایا کہ) ’’ایہہ جہان مٹھا اگلا کن ڈٹھا‘‘ (یعنی یہ جہان تو میٹھا میٹھا ہے اگلا جہاں پتا نہیں آنا ہے کہ نہیں آنا، کون سا ہم نے دیکھا ہے) ’’یہ لوگ بڑی خطر ناک حالت میں ہو تے ہیں اور لوّامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں۔‘‘ (دوسری حالت لوامہ کی ہے۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ایک وقت میں تو ولی ہو جاتے ہیں اور دوسرے وقت میں شیطان بھی ہو جاتے ہیں۔ اوپر نیچے حالت ہوتی ہے۔ ) ’’ان کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ ان کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہو تی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہو تے ہیں تا ہم یہ لوگ محل مدح میں ہو تے ہیں کیونکہ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہو تی ہیں اور خوفِ خدا بھی ان کے دل میں ہو تا ہے لیکن نفس مطمئنہ والے بالکل فتح مند ہو تے ہیں اور وہ سارے خطروں اور خوفوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں۔ وہ اس دارالامان میں ہو تے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ508مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک مؤمن کے عشق الٰہی کے معیار کے بارے میں فرمایا کہ
’’مؤمن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہے اور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے اور تضرع اور ابتہال اور ثابت قدمی سے اس کے حضور میں قائم ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی لذت اس کے لیے لذت نہیں ہوتی۔ اس کی روح اسی عشق میں پرورش پاتی ہے۔ معشوق کی طرف سے استغنا دیکھ کر وہ گھبراتا نہیں۔ اس طرف سے خاموشی اور بے التفاتی بھی معلوم کر کے وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ ہمیشہ قدم آگے ہی رکھتا ہے اور درد دل زیادہ سے زیادہ پیدا کرتا جاتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے کہ مومن عاشق‘‘ (جو مؤمن عاشق ہے) ’’کی طرف سے محبت الٰہی میں پورا استغراق ہو۔‘‘ (مؤمن عاشق بن کے محبت الٰہی میں پوری طرح غرق ہو جائے اور ) ’’عشق کمال ہو، محبت میں سچا جوش اور عہد عشق میں ثابت قدمی ایسی کوٹ کوٹ کے بھری ہو کہ جس کو کوئی صدمہ جنبش میں نہ لا سکے‘‘ (جس کو کوئی صدمہ ہلا نہ سکے) ’’اور معشوق کی طرف سے کبھی کبھی بے پروا ہی اور خاموشی ہو۔ درد دو قسم کا موجود ہو۔ ایک تو وہ جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کا درد ہو۔ دوسرا وہ جو کسی کی مصیبت پر دل میں درد اٹھے اور خیر خواہی کے لیے اضطراب پیدا ہو۔ اور اس کی اعانت کے لیے بے چینی پیدا ہو۔ خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لاڈالتا ہے۔ جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اﷲ سے محویت حاصل ہو جائے اس وقت انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے۔ ان خطرات کا استیصال بغیر اس امر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اﷲ سے بکلی منقطع ہو کر اسی کا ہو جائے اور اس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لیے ایسا درد ہونا چاہئے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کے لیے دل میں سچا جوش محبت رکھتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ32مطبوعہ ربوہ)
یعنی کہ اللہ تعالیٰ کے غیر سے بالکل تعلق قطع کر لینا اور دوسرے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد بھی دل میں رکھنا چاہئے۔ یہ اصل ہے جو ایک صحیح مؤمن کے دل میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا عاشق ہو۔ پھر فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قوی اور محبت صافی تب ہو سکتی ہے جب اس کی ہستی کا پتہ لگے۔ دنیا اس قسم کے شبہات کے ساتھ خراب ہوئی ہے۔ بہت سے تو کھلے طو رپر دہریہ ہو گئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دہریہ تو نہیں ہوئے مگر ان کے رنگ میں رنگین ہیں اور اسی وجہ سے دین میں سست ہو رہے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تا ان کی معرفت زیادہ ہو اور صادقوں کی صحبت میں رہیں جس سے وہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف کے تازہ بتازہ نشان دیکھتے رہیں۔ پھروہ جس طرح پر چاہے گا اور جس راہ سے چاہے گا معرفت بڑھادے گا اور بصیرت عطا کرے گا اور ثلج قلب ہو جائے گا‘‘۔ (یعنی دل تسلی پائے گا) یہ بالکل سچ ہے کہ جس قدر اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت پر ایمان ہوگا اسی قدر اﷲ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہوگا ورنہ غفلت کے ایام میں جرائم پر دلیر ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت اور جبروت کا رعب اور خوف ہی دوایسی چیزیں ہیں جن سے گناہ جل جاتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جن اشیاء سے ڈرتا ہے، پرہیز کرتا ہے۔ مثلاً جانتا ہے کہ آگ جلادیتی ہے اس لیے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یا مثلاً اگر یہ علم ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو اس راستہ سے نہیں گذرے گا۔ اسی طرح اگر اس کو یہ یقین ہو جاوے کہ گناہ کا زہر اس کو ہلاک کر دیتاہے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت سے ڈرے اور اس کو یقین ہو کہ وہ گناہ کو ناپسند کرتا ہے اور گناہ پر سخت سزا دیتا ہے تو اس کو گناہ پر دلیری اور جرأت نہ ہو۔ زمین پر پھر اس طرح سے چلتا ہے جیسے مردہ چلتا ہے۔ اسکی روح ہر وقت خدا تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ404مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ
’’انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے۔ پس یہ آگ جو محبت الٰہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے۔ یہی نجات کی جڑ ھ ہے۔‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ448)
خاص طور پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’خدا نہ معمولی طور پر بلکہ نشان کے طور پر کامل متقی کو بلا سے بچاتا ہے ہر یک مکار یا نادان متقی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر متقی وہ ہے جو خدا کے نشان سے متقی ثابت ہو۔ ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں خدا سے پیار کرتا ہوں۔ مگر خدا سے پیار وہ کرتا ہے جس کا پیار آسمانی گواہی سے ثابت ہو۔ اور ہر ایک کہتا ہے کہ میرا مذہب سچا ہے مگر سچا مذہب اس شخص کا ہے جس کو اس دنیا میں نور ملتا ہے۔ اور ہر ایک کہتا ہے کہ مجھے نجات ملے گی مگر اس قول میں سچا وہ شخص ہے جو اسی دنیا میں نجات کے انوار دیکھتا ہے۔ سو تم کوشش کرو کہ خدا کے پیارے ہو جاؤ تا تم ہر ایک آفت سے بچائے جاؤ۔‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ82)
پھر خدا کی محبت ہمیں اپنے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے کس طرز سے آپ نے نصیحت فرمائی ہے، اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ فرمایاکہ
’’کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں۔ کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے۔ اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَفْ سے مَیں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے مَیں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔ اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناًسمجھو کہ خداتمہارا ہی ہے۔ تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔ تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا۔ تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتاکہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہوجاتے۔ ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے۔ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارامددگار ہے۔ تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔ غیر قوموں کی تقلیدنہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گرگئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی۔ اور جیسے گدھ اور کتے مردار کھاتے ہیں انہوں نے مردار پر دانت مارے۔ وہ خدا سے بہت دور جاپڑے۔ انسانوں کی پرستش کی اور خنزیرکھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے سے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح ان میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے ان کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نے ان کے تمام اندرونی اعضا کاٹ دئیے ہیں۔ پس تم اس جذام سے ڈرو۔‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ21-22)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔ ’’تم اس خدا کے پہچاننے کے لئے بہت کوشش کرو جس کا پانا عین نجات اور جس کا ملنا عین رستگاری ہے۔ وہ خدا اسی پر ظاہر ہوتا ہے جو دل کی سچائی اور محبت سے اس کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ اسی پر تجلی فرماتا ہے جو اسی کا ہو جاتا ہے۔ وہ دل جو پاک ہیں وہ اس کا تخت گاہ ہیں اور وہ زبانیں جو جھوٹ اور گالی اور یاوہ گوئی سے منزّہ ہیں‘‘ (پاک ہیں ) ’’وہ اس کی وحی کی جگہ ہیں اور ہر ایک جو اس کی رضا میں فنا ہوتا ہے اس کی اعجازی قدرت کا مظہرہو جاتا ہے۔‘‘ (کشف الغطاء روحانی خزائن جلد14صفحہ188)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان معیاروں کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے اور اس سے محبت کرنے والے ہوں اور اس کی محبت حاصل کر کے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں اور اس کی رضا کی جنتوں میں جانے والے ہوں۔
ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے۔ نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پرواہ۔
جب تک تمام صفات کا علم نہ ہو معرفت نہیں ہو سکتی اور معرفت کے بعد جب انسان مزید آگے بڑھتا ہے تو وہ محبت ہے اور محبت اسی وقت کامل ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنایا بھی جائے… اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نور حاصل ہوتا ہے۔
احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔
خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں۔ گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پرجوش محبت اور محبانہ یاد الٰہی سے محروم اور بے نصیب ہو…گناہ کے دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے…اور توبہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ توبہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں محبتِ الٰہی کی حقیقت، تعریف، اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا راز اور طریق، اس کی گہرائی اور فلاسفی کا بیان۔
اس ضمن میں عدل، احسان اور ایتایِٔ ذی القربیٰ کی نہایت لطیف اور دلفریب تفسیرکا بیان۔
جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلّی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے اور اس سے محبت کرنے والے ہوں اور اس کی محبت حاصل کر کے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں اور اس کی رضا کی جنتوں میں جانے والے ہوں۔
فرمودہ مورخہ 04؍اپریل 2014ء بمطابق 04 شہادت 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔