حضرت مسیح موعودؑ کا عظیم الشان علمی معجزہ ’خطبہ الہامیہ‘

خطبہ جمعہ 11؍ اپریل 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ایسے نشان کا ذکر کروں گا جو آج کے دن یعنی 11؍ اپریل 1900ء میں ظاہر ہوا۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نشان عمل میں آیا۔ یہ نشان آپ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الٰہی سے آپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا جو الہامی تھا اس لئے اس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا۔ اس الہامی خطبہ اور اس الہامی کیفیت کو دو سو کے قریب لوگوں نے اُس وقت سنا اور دیکھا۔ مجھے بھی کسی نے اس طرف توجہ دلائی کہ آج کے دن کی مناسبت سے جبکہ آج جمعہ بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان نشان کو بیان کروں کیونکہ ایسے احمدی بھی ہیں جو شاید خطبہ الہامیہ کانام تو جانتے ہوں جو کتابی صورت میں شائع ہے لیکن اس کی تاریخ اور پس منظر اور مضمون کا علم نہیں رکھتے۔ اور اس بات نے مجھے حیران بھی کیا جب یہ پتا چلا کہ بعض ایسے بھی ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ خطبہ الہامیہ کیا چیز ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نشان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے دکھائے ایسے ہیں جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین احمدیت کا منہ بند کرنے کے لئے ہمیں مواد مہیا کرتے ہیں۔ آپ کی صداقت کی دلیل ہمیں مہیا کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر ایسے نشان جیسے خطبہ الہامیہ ہے یہ تو عظیم الشان نشانوں میں سے ہے۔ جس نے بڑے بڑے علماء کے منہ بند کر دئیے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ مختصرًا اس کا پس منظر اور تاریخ بیان کروں گا اور یہ بھی کہ اس نے اپنوں پر اس وقت کیا اثر کیا، کس کیفیت میں سے وہ گزرے اور غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اسی طرح اس خطبہ کی چند سطریں یا بعض چھوٹے سے اقتباسات پیش کروں گا۔

اس الہامی خطبہ کی حقیقت اور عظمت کا تو اسے پڑھنے سے ہی پتا چلتا ہے لیکن یہ چند فقرے جو میں پیش کروں گا جو میں نے پڑھنے کے لئے چنے ہیں ان میں بھی اس کی عظمت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا پتا چلتا ہے۔ تذکرہ میں یہ خطبہ الہامیہ شاید اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ علیحدہ کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے لیکن بہر حال مجھے اس بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ اس لئے آئندہ جب بھی تذکرہ شائع ہو یا آئندہ کسی زبان میں جو بھی ایڈیشن شائع ہوں تو متعلقہ ادارے اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیں۔ اس خطبہ الہامیہ کا پس منظر یہ ہے جو بدر نے لکھا ہے، اخبار الحکم نے بھی لکھا تھا یا جماعتی روایات میں آ رہا ہے کہ

’’یوم العرفات کو (یعنی بڑی عید، عیدالاضحی سے ایک دن پہلے) علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو اطلاع دی۔ کہ

’’میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں۔ اس لئے وہ دوست جو یہاں موجود ہیں اپنا نام معہ جائے سکونت (یعنی پتہ وغیرہ کہاں رہتے ہیں) لکھ کر میرے پاس بھیج دیں تاکہ دعا کرتے وقت مجھ یاد رہے۔‘‘

اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضور کی خدمت میں بھیج دی گئی۔ اس کے بعد اور احباب بھی باہر سے آ گئے جنہوں نے زیارت و دعا کے لئے بیقراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دئیے۔ حضور نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ

’’میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے۔ اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے۔‘‘

مغرب و عشاء میں حضور تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھی گئیں۔ بعد فراغت فرمایا:

’’چونکہ میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں۔ اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو۔‘‘(وعدہ خلافی نہ ہو)

یہ فرما کر حضور تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے۔ دوسری صبح عید کے دن مولوی عبدالکریم صاحب نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ ’’خدا نے ہی حکم دیا ہے‘‘ اور پھر فرمایا کہ

’’رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو۔ میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا۔ شاید یہی مجمع ہو۔ (یعنی عید کا)‘‘

پھر یہ بھی رپورٹس میں ہے کہ’’جب حضرت اقدس عربی خطبہ پڑھنے کے لئے تیار ہوئے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو حکم دیا کہ وہ قریب تر ہو کر اس خطبہ کو لکھیں۔ جب حضرات مولوی صاحبان تیار ہو گئے تو حضور نے یَاعِبَادَ اللّٰہِکے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا۔ اثناء خطبہ میں حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا کہ

’’اب لکھ لو پھر یہ لفظ جاتے ہیں‘‘ (یعنی ساتھ ساتھ لکھتے جاؤ۔ اگر کوئی لفظ سمجھ نہیں آیا تو ابھی پوچھ لینا)

جب حضرت اقدس خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے تو اکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب اس کا ترجمہ سنانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سنائیں، حضرت اقدس نے فرمایا کہ

’’اس خطبہ کو کل عرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو مَیں نے دعائیں کی ہیں ان کی قبولیت کے لیے نشان رکھا گیا تھا کہ اگر مَیں یہ خطبہ عربی زبان میں ارتجالاً پڑھ گیا، تو وہ ساری دعائیں قبول سمجھی جائیں گی۔ الحمد للہ کہ وہ ساری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق قبول ہو گئیں …‘‘ آپ نے یہ فرمایا اور پھر اس کا اردو میں ترجمہ شروع ہوا۔ ’’…ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سناہی رہے تھے کہ حضرت اقدس علیہ السلام فرطِ جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں جا پڑے۔ حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ شکر ادا کیا۔ سجدہ سے سر اٹھا کر حضرتِ اقدسؑ نے فرمایا۔

’’ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ324-325 مطبوعہ ربوہ)

یہ رپورٹ الحکم میں شائع ہوئی تھی جو ملفوظات میں بھی درج ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہو اکہ کچھ عربی میں بولو۔ چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُرمعانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے۔ یہ تقریر وہ ہے جس کے اِس وقت قریبا ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔‘‘ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ588)

پھر حقیقۃ الوحی میں آپ ذرا تفصیل سے فرماتے ہیں کہ

’’11؍اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کَلَامٌ أُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔ چنانچہ اس الہام کو اسی وقت اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور اخویم حکیم مولوی نور دین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی اے اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی۔ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کرسکے۔ جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الھامیہ رکھا گیا لوگو ں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہو گی۔ سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ مَیں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا۔ چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہہ بیان کرسکے۔ یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 375-376)

پس یہ چیلنج آج تک قائم ہے۔ یہ خطبہ دے دیا تو (اس بارہ میں ) بعض مزید باتیں تاریخ احمدیت میں لکھی ہیں کہ

’’خطبہ چونکہ ایک زبردست علمی نشان تھا…‘‘ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا’’… اس لئے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدام میں تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں صوفی غلام محمد صاحب، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب، مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے علاوہ بعض اور اصحاب نے اسے زبانی یاد کیا۔ بلکہ مؤخر الذکر دو اصحاب نے مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی اسے زبانی سنایا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو انتہا درجہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہ تو اس خطبہ کے اتنے عاشق تھے کہ اکثر اسے سناتے رہتے تھے اور اس کی بعض عبارتوں پر تو وہ ہمیشہ وجد میں آ جاتے۔ مولوی صاحب ایسے بلند پایہ عالم کو خطبہ الہامیہ کے اعجازی کلام پر وجد آنا ایک طبعی بات قرار دی جا سکتی ہے مگر خدا کی طرف سے ایک تعجب انگیز امر یہ پیدا ہوا کہ تقریر سننے والے بچے بھی اس کی جذب و کشش سے خالی نہیں تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ وہ دن جس میں یہ تقریر کی گئی ابھی ڈوبا نہیں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر 12 سال سے بھی کم تھی اس کے فقرے قادیان کے گلی کوچوں میں دہراتے پھرتے تھے (یعنی خطبہ کے فقرے) جو ایک غیر معمولی بات تھی۔

یہ خطبہ اگست 1901ء میں شائع ہوا۔ حضور نے نہایت اہتمام سے اسے کاتب سے لکھوایا۔ فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی خود کیا اور اعراب بھی خود لگائے۔ اصل خطبہ کتاب کے (جو خطبہ الہامیہ کتاب ہے اس کے) اڑتیسویں صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے جو کتاب کے باب اول کے تحت درج ہے۔ اگلا حصہ آخر تک عام تصنیف ہے جس کا اضافہ حضور نے بعد میں فرمایا۔ اور پوری کتاب کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا‘‘ (یعنی پہلا حصہ جو ہے وہ اصل خطبہ الہامیہ ہے۔ الہامی ہے۔ ’’یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے۔ حق تو یہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعدنہیں ملتی۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ85-86)

اسی خطبہ الہامیہ کے متعلق دو خوابیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قلم مبارک سے لکھی ہوئی ملی ہیں جو تذکرے میں بھی درج ہیں۔ ’’19؍اپریل 1900ء کی تاریخ دے کر حضورؑ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی مندرجہ ذیل خواب لکھی ہے کہ

میاں عبداللہ سنوری کہتے ہیں کہ منشی غلام قادر مرحوم سنور والے یہاں آئے ہیں۔ ان سے انہوں نے پوچھا ہے کہ اس جلسہ کی بابت اُس طرف کی خبر دو۔ کیا کہتے ہیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ اوپر بڑی دھوم مچ رہی ہے۔ (یہ خواب بیان کر رہے ہیں کہ اوپر کیا حالات ہیں؟)۔ یہ خواب بعینہٖ سید امیر علی شاہ صاحب کے خواب سے مشابہ ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتا تھا اس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں۔ یہ خواب عین خطبہ پڑھنے کے وقت ہی بطور کشف اس جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہوگیا تھا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ290 حاشیہ ایڈیشن چہارم)

بعض صحابہ کے بھی تاثرات ہیں۔ حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ

’’میں بوقت خطبہ الہامیہ موجود تھا۔ حضور کی آواز اس وقت بدلی ہوئی تھی۔ ضلع سیالکوٹ کا ایک سید ملہم (سید صاحب تھے ان کو الہام ہوا کرتا تھا لیکن بہر حال وہ احمدی تھے) میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ فرشتے بھی سننے کے لئے موجود ہیں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر3صفحہ 146روایت حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ)

حضرت مرزا فضل بیگ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ

’’عید الاضحی کا خطبہ الہامیہ میرے سامنے حضرت اقدس نے مسجد اقصیٰ میں جو پرانی مسجد مسیح موعود کے وقت کی ہے محراب اندرون دروازے کے سامنے باہر کے دروازے میں کھڑے ہو کر خطبہ بزبان عربی میں پڑھا۔ (یعنی جو برآمدے کی ڈاٹ تھی یا در تھا اس کے اوپر کھڑے ہو کر) حضور ہر لفظ کو تین بار دہراتے تھے اور مولوی حاجی خلیفۃ المسیح اوّل اور مولوی عبدالکریم صاحب یہ ہر دو صاحب کتابت کرتے تھے اور حضور سے دریافت کرتے تھے کہ لفظ ’س‘ سے ہے یا ’ث‘ سے۔ عین سے یا الف سے ہے۔ (یعنی لفظ پوچھا بھی جایا کرتے تھے۔) غرضیکہ مولوی صاحبان خود اپنے اصلاح کے دریافت کرتے تھے۔ حضرت اس کی تصحیح فرماتے تھے۔ پھر ختم ہونے پر حضور نے مولوی عبدالکریم صاحب کو فرمایا کہ آپ ترجمہ کر کے پبلک کو سنا دیں چنانچہ مولوی صاحب نے ترجمہ سنایا اور پھر سجدہ شکر مسجد میں ادا کیا گیا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر8صفحہ 212روایات حضرت مرزا افضل بیگ صاحبؓ)

حضرت مولانا شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس عید کا خطبہ الہامیہ حضرت صاحب نے پڑھایا۔ یوم الحج کی صبح کو حضرت مسیح موعودنے حضرت مولوی صاحب کو پیغام بھیجا یا خط لکھا کہ جتنے لوگ یہاں موجود ہیں ان کے نام لکھ کرمیرے پاس بھیج دیں تا میں ان کے لئے دعا کروں۔ حضرت مولوی صاحب نے موجود احباب کو تعلیم الاسلام سکول میں جمع کیا۔ (تعلیم الاسلام ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی جگہ میں تھا) اور لوگوں کے ناموں کی فہرست تیار کروائی اور حضرت صاحب کی خدمت میں بھیجی۔ حضرت صاحب نے اپنے دالان کے دروازے بند کر کے دعائیں فرمائیں۔ بعض لوگ جو پیچھے آتے تھے بند دروازے میں سے اپنے رقعے اندر پہنچاتے تھے۔ اس دن صبح کو حضرت مسیح موعودؑ عید کے لئے نکلے مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے تو آپ نے فرمایا کہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے کہ کچھ کلمات عربی میں کہو۔ اس لئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نور الدین صاحب دونوں کو پیغام بھیجا کہ وہ کاغذ اور قلم دوات لے کر آویں۔ کیونکہ عربی میں کچھ کلمات پڑھنے کا الہام ہوا ہے۔ نماز مولوی عبدالکریم نے پڑھائی اور مسیح موعودنے پھر اردو میں خطبہ فرمایا غالباً کرسی پر بیٹھ کر۔ اردو خطبے کے بعد آپ نے عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا کرسی پر بیٹھ کر۔ اس وقت آپ پر ایک خاص حالت طاری تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ہر جملے میں پہلی آواز اونچی تھی، پھر دھیمی ہو جاتی تھی۔ سامنے بائیں طرف حضرت مولوی صاحبان لکھ رہے تھے۔ ایک لفظ دونوں میں سے ایک نے نہ سنا اس لئے پوچھا تو حضرت نے وہ لفظ بتایا اور پھر فرمایا کہ جو لفظ سنائی نہ دے وہ ابھی پوچھ لینا چاہئے کیونکہ ممکن ہے مجھے بھی یادنہ رہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک اوپر سے سلسلہ جاری رہا میں بولتا رہا اور جب ختم ہو گیا بس کر دیا۔ پھر حضرت صاحب نے اس کے لکھوانے کا خاص اہتمام کیا اور خود ہی اس کا دو زبانوں فارسی اور اردو میں ترجمہ کیا اور یہ تحریک بھی فرمائی کہ اس کو لوگ یاد کر لیں جس طرح قرآن مجید یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس کو یاد کر کے مسجد مبارک میں باقاعدہ حضرت صاحب کو سنایا۔ اس کے بعد میرے بھائی حافظ عبدالعلی صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے اس کے متعلق پوچھا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ حضرت صاحب کی طاقت سے بالا ہے۔ ان کے اس جواب سے یہ مطلب تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کا نہیں‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر10صفحہ302تا304روایت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ)

حضرت میاں امیر الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ

’’حضرت صاحب جو خطبہ الہامیہ سنا کر نکلے تو راستے میں فرمایا کہ ’جب میں ایک فقرہ کہہ رہا ہوتا تھا تو مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا فقرہ کیا ہوگا۔ لکھا ہوا سامنے آ جاتا تھا اور میں پڑھ دیتا تھا۔‘ حضور بہت ٹھہر ٹھہر کر اور آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر10صفحہ 62روایت حضرت میاں امیرالدین صاحبؓ)

حضرت مولوی عبداللہ صاحب بوتالویؓ تحریر فرماتے ہیں کہ

’’سید عبدالحئی صاحب عرب جو عرب سے آکر بہت دنوں تک قادیان میں بغرض تحقیق ٹھہرے رہے اور بعد میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ انہوں نے خاکسار سے اپنی بیعت کرنے کا حال اس طرح بیان کیا تھا‘‘ فرمایا کہ ’’میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فصیح و بلیغ تصانیف کو پڑھ کر اس بات کا دل ہی میں قائل ہو گیا تھا کہ ایسا کلام سوائے تائید الٰہی کے اور کوئی لکھ نہیں سکتا۔ لیکن یہ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کلام خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔ اگرچہ مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دیگر علماء اس بات کا یقین دلاتے اور شہادت دیتے تھے لیکن میرے شُبہ کو ان کا بیان دور نہ کر سکا اور میں نے مختلف طریقوں سے اس بات کا ثبوت مہیا کرنا شروع کر دیا کہ آیا واقعی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا ہی کلام ہے؟ اور کسی دوسرے کی امداد اس میں شامل نہیں۔ چنانچہ میں عربی میں بعض خطوط حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ کر ان کے جواب عربی میں ہی حاصل کرتا اور پھر اس عبارت کو غور سے پڑھتا اور اس کا مقابلہ حضور کی تصانیف سے کر کے معلوم کرتا تھا کہ یہ دونوں کلام ایک جیسے ہیں۔ لیکن پھر بھی مجھے کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہی نظر آتا جس کا جواب مجھے یہ دیا جاتا کہ حضرت اقدس کا عام کلام جو خطوں وغیرہ کے جواب میں تحریر ہوتا ہے اس میں معجزانہ رنگ اور خاص تائید الٰہی نہیں ہو سکتی چونکہ عربی تصانیف کو حضرت صاحب نے متحدّیانہ طور پر خدا تعالیٰ کے منشا اور حکم کے ماتحت اس کی خاص تائید سے لکھا ہے اس لئے ان کارنگ جدا ہوتا ہے اور جدا ہوناچاہئے ورنہ عام لیاقت اور خاص تائید الٰہی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ بہر حال میں قادیان میں اس بات کی تحقیقات کے واسطے ٹھہرا رہا تا کہ میں بھی کوئی اس قسم کی خاص تائید الٰہی کا وقت بچشم خود ملاحظہ کروں۔ چنانچہ خطبہ الہامیہ کے نزول کا وقت آ گیا اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس الہامی اور معجزانہ کلام کے نزول کو دیکھا اور خود کانوں سے سنا کہ بلا امداد غیرے کس طرح وہ انسان روز روشن میں تمام لوگوں کے سامنے ایسا فصیح و بلیغ کلام سنا رہا ہے۔ لہٰذا میں نے اس خطبہ کو سننے کے بعد شرح صدر سے بیعت کرلی۔‘‘ (اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 188 روایت حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالویؓ مطبوعہ ربوہ)

’’ایک دوست مکرم حاجی عبدالکریم صاحب فوجی ملازمت کے سلسلے میں مصر گئے۔ (شاید 1940ء سے کچھ پہلے کا کوئی وقت ہے۔ ) وہاں انہوں نے تبلیغ کا کام جاری رکھا اور ایک دوست علی حسن صاحب احمدی ہو گئے۔ ان کو لے کر حاجی صاحب مختلف مصری عرب احباب کے پاس جاتے اور تبلیغ کرتے تھے۔ ان میں سے ایک دوست محکمہ تار میں کلرک تھے۔ کئی روز ان سے خیالات کا تبادلہ ہوتا رہا۔ وہ تمام مسائل میں ان کے ساتھ متفق ہو گئے مگر امتی نبی ماننے پر تیار نہ تھے (یہ بات ماننے پر تیار نہ تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں) انہوں نے اس کلرک کو ’’الخطبۃ الالہامیۃ‘‘ دیا اور پھر کئی دن اس کے پاس نہ گئے۔ ایک دن اس دوست کا خط آیا جس میں اس نے حاجی صاحب کو کھانے پر بلایا تھا۔ وہاں پہنچنے پر اس نے کہا۔ آپ میری بیعت کا خط لکھ دیں۔ حاجی صاحب نے پوچھا کہ کیا ختم نبوت کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اس پر اس دوست نے کہا کہ میں نے ’’الازھر‘‘ یونیورسٹی کے ایک بڑے عالم کو رات کے کھانے پر بلایا تھا اور اسے بتایا کہ اس طرح مجھے بعض ہندوستانیوں نے تبلیغ کی ہے اور کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور آنے والا عیسیٰ امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے جو مسیح و مہدی ہو کر آئے گا اور اس کے دعوے دار حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ مجھے ان لوگوں کے تمام دلائل سے اتفاق ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب امتی نبی ہیں اور یہ وہ بات ہے جس کو میں ماننے کے لئے تیار نہیں۔ چونکہ آپ عالم دین ہیں آپ مجھے بتائیں کہ کیا میرا مؤقف درست ہے یا نہیں؟ اس ازھری عالم نے‘‘ ازھر یونیورسٹی کے عالم نے ’’جواب دیا کہ میں نے مرزا صاحب کا لٹریچر پڑھا ہے اور بعض احمدیوں سے بھی ملا ہوں اور تبادلہ خیالات کیا ہے۔ جس قسم کی نبوت کا مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہے اگر اس قسم کے ہزار بھی نبی آجائیں تو ختم نبوت نہیں ٹوٹتی‘‘ (یہ تسلیم کیا انہوں نے، کہتے ہیں) ’’اس پر میں نے انہیں کہا کہ دیکھو اب میں احمدیہ جماعت میں داخل ہو جاؤں گا اور قیامت والے دن تم اس کے ذمہ دار ہو گے۔ ازھری عالم کہنے لگے کہ میرا یہ جواب صرف یہاں کے لئے ہی ہے۔ اگر پبلک میں سوال کرو گے تو میں یہی کہوں گا کہ امتی نبی بھی نہیں آسکتا‘‘ (لوگوں کے سامنے میں نہیں کہوں گا۔) ’’ہاں اگر آپ جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہئیں تو بیشک میری ذمہ داری پر داخل ہو جائیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لئے بعض روکیں ہیں جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ اگر میں احمدی ہو جاؤں تو مجھے ملازمت سے نکال دیا جائے گا‘‘ (دنیا داری غالب آ گئی) ’’یہ مصری دوست کہتے ہیں کہ جب میں نے ازھری عالم سے یہ بات سنی تو فوراً جماعت میں داخل ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا اور خطبہ الہامیہ پڑھنا شروع کر دیا اور ختم کر کے سویا۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت سیدنا احمد المسیح علیہ السلام ایک کثیر جماعت کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ حضور یہ کون لوگ ہیں؟ اور انہیں آپ کہاں لے کے جا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ اولیاء اللہ ہیں جو امت محمدیہ میں مجھ سے پہلے ہوئے ہیں اور میں ان کو دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زیارت کے لئے لے کے جا رہا ہوں۔ میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہی جو میری جماعت میں سے ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جو امتی نبی ہو جیسے میں ہوں۔ جب میں بیدار ہوا تو میرے لئے مسئلہ ختم نبوت حل ہو چکا تھا اور میں بہت خوش تھا۔‘‘

حاجی عبدالکریم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت ان کا یہ واقعہ اور بیعت فارم پر کر کے قادیان روانہ کر دیا۔‘‘

ایک صاحب شیخ عبدالقادر المغربی بڑے چوٹی کے عالم تھے۔ ’’حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ان علامہ المغربی سے علمی، ادبی اور دینی مزاج کی وجہ سے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ آپ سے ان کی پہلی ملاقات 1916ء میں ہوئی تھی۔ ایک دفعہ علامہ المغربی نے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کو کہا کہ آئیے ہم دونوں تصویر بنائیں اور دوستی کا اقرار قرآن مجید پر ہاتھ رکھتے ہوئے کیا۔ اسی دوستی کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دمشق گئے ہیں تو مولوی عبدالقادر صاحب بھی آپ سے ملنے آ گئے اور بہت سے سوالات آپ سے کئے اور جب حضرت مصلح موعودؓ نے جواب دئیے تو انہوں نے پھر یہ کہہ دیا (کیونکہ علامہ تھے، ضد بھی تھی) کہ ہم لوگ عرب ہیں، اہل زبان ہیں۔ قرآن مجید کو خوب سمجھتے ہیں ہم سے بڑھ کر کون قرآن کو سمجھے گا۔ اس پر خیر باتیں ہوتی رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ فرمایا کہ تم لوگ بھی اسی طرح سے لغت کے محتاج ہو جس طرح سے ہم ہیں۔ قرآن خدا نے ہمیں سکھایا ہے اور سمجھایا ہے اور ہماری زبان باوجود یہ کہ ہم لوگ اردو میں گفتگو کرنے کا محاورہ رکھتے ہیں اور عربی میں بولنے کا ہمیں موقع نہیں ملتا تم سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے وغیرہ وغیرہ

حضور نے بڑے جوش سے عربی میں ایسی فصیح گفتگو فرمائی کہ پاس بیٹھے ایک سید صاحب بھی مولوی عبدالقادر کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ واقعہ میں ان کی زبان ہم لوگوں سے زیادہ فصیح ہے۔ اس پر مولوی عبدالقادر نے کچھ نرمی اختیار کی اور پھر ادب سے گفتگو کرنے لگے۔

بہر حال دوران گفتگو انہوں نے (علامہ مغربی صاحب نے) یہ بھی کہا کہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں زبان کی غلطیاں ہیں۔ اس کا بھی جواب حضرت خلیفہ ثانی نے دیا۔ فرمایا کہ تم میں اگر طاقت ہے تو اب ہی اغلاط کا اعلان کر دو یا ان کتب کا جواب لکھ کر شائع کر دو۔ پر یاد رکھو کہ تم ہرگز نہ کر سکو گے۔ اگر قلم اٹھاؤ گے تو تمہاری طاقت تحریر سلب کر لی جاوے گی۔ تجربہ کر کے دیکھ لو۔ ان باتوں پر اب اس نے منت سماجت شروع کی کہ آپ ان دعووں کو عرب مصر اور شام میں نہ پھیلائیں اس سے اختلاف بڑھتا ہے اور اختلاف اس وقت ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ وہابیوں نے پہلے ہی سخت صدمہ پہنچایا ہوا ہے۔ آپ بلاد یورپ، امریکہ اور افریقہ کے کفار اور نصاریٰ میں تبلیغ کریں۔ مبشر بھیجیں لیکن یہاں ہرگز ایسے عقائد کا نام نہ لیں خدا کے واسطے۔ اَنَا اَرْجُوْکُمْ یَا سَیِّدِی کبھی بوسہ دے کر کبھی ہاتھوں کو لپیٹ کر غرض ہر رنگ میں بار بار منت کرتا تھا کہ خدا کے واسطے ان علاقہ جات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا اعلان نہ کریں اور نہ مبلغ بھیجیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر کہنے لگے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اچھے آدمی تھے۔ اسلام کے لئے غیرت رکھتے تھے مگر ان کی نبوت اور رسالت کو ہم تسلیم نہیں کرسکتے۔ صرف لا الہ الا اللہ پر لوگوں کو جمع کریں۔ خیر ان باتوں کا جواب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بڑے پر شوکت الفاظ میں، لہجے میں دیا کہ اگر یہ منصوبہ ہمارا ہوتا تو ہم چھوڑ دیتے۔ مگر یہ خدا کا حکم ہے اس میں ہمارا اور سیدنا احمد کا کوئی دخل نہیں۔ خدا کا یہ حکم ہے ہم پہنچائیں گے اور ضرور پہنچائیں گے…‘‘

انہیں مغربی صاحب کا یہ واقعہ آگے چل رہا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو شام بھیجا۔ اس زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ’’… ایک دن میں اور حضرت مولانا شمس صاحب بعض دوستوں سے احمدیت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ شیخ عبدالقادر المغربی مرحوم تشریف لائے اور بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں۔ اثنائے گفتگو استخفاف سے اپنی سابقہ ملاقات کا ذکر کیا‘‘ (یعنی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے ہوئی تھی بڑے تحقیر کے الفاظ میں) ’’… اور جو مشورہ حضور کو دیا تھا اسے دہرایا۔ (یعنی تبلیغ یہاں نہ کریں) اور مذاقاً کہا کہ الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں‘۔ (یعنی حضرت مسیح موعود کے الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں ہے تو کہتے ہیں ) ’’میں نے خطبہ الہامیہ ان کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ پڑھیں کہاں عربی غلط ہے۔ انہوں نے اونچی آواز سے پڑھنا شروع کیا اور ایک دو لفظوں سے متعلق کہا کہ یہ عربی لفظ ہی نہیں۔ تو مولانا شمس صاحب نے (وہاں بیٹھے ہوئے تھے) تاج العروس (عربی کی ایک لغت ہے) الماری سے نکالی اور وہ لفظ نکال کر دکھائے۔ سامعین کو حیرت ہوئی اور شاہ صاحب کہتے ہیں مَیں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا کہ کہلاتے تو آپ بڑے ادیب ہیں، بڑے عالم ہیں لیکن آپ کو اتنی عربی بھی نہیں آتی جتنی میرے شاگرد کو آتی ہے۔‘‘ (کہتے ہیں شمس صاحب ان دنوں مجھ سے انگریزی پڑھا کرتے تھے تو اس لئے میں نے ان کو شاگرد کہا۔) اس پر انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ کہتے ہوئے اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا اور کل بتاؤں گا تمہیں کیا ہوتا ہے…‘‘ خیر شاہ صاحب کہتے ہیں ’’… میں نے دیکھا کہ جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ میری باتوں سے کچھ متاثر ہیں تو ان کو بھی میں نے کہا کہ ہم دونوں اکٹھے رہے ہیں۔ میں بھی وہاں پڑھایا کرتا تھا اور ان کو علامہ صاحب کو خطبہ الہامیہ پڑھ کر ایسی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بجائے اس کے حق بات ان کو مان لینی چاہئے تھی۔ خیر یہ دوستوں میں باتیں ہوتی رہیں۔ دوسرے دن کہتے ہیں صبح سویرے شمس صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے آپ کو کہا تھا کہ عبدالقادر المغربی سے بگاڑ نہیں پیدا کرنا، تعلقات رکھیں تو آپ نے تو انہیں ناراض کر دیا ہے۔ تو میں نے کہا فکر نہ کرو ٹھیک کر لیں گے۔ دوسرے دن ہم دونوں صبح سویرے علامہ صاحب کے مکان پر گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو مغربی صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی مجھ سے بغلگیر ہو گئے اور مجھے بوسہ دیا اور کہا کہ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ میں آپ کی طرف آنا ہی چاہتا تھا۔ اندر تشریف لے آئیں۔ قہوہ پئیں اور میں آپ کو دکھاؤں کہ میری رات کیسے گزری۔ ہم اندر گئے تو انہوں نے رسالہ ’الحقائق عن الاحمدیہ‘‘ (یہ حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کی تألیف تھی) کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔ یہ رسالہ میرے ہاتھ میں تھا اور پختہ ارادہ کیا کہ اس رسالے کا ردّ شائع کروں۔ میں نے حدیث اور تفاسیر کی کتب جو میرے پاس تھیں وہ میز پر رکھ لیں اور عشاء کی نماز پڑھ کر ردّ لکھنا شروع کر دیا۔ ادھر سے رسالہ پڑھتا اور ردّ لکھنے کے لئے کتابیں دیکھتا۔ ایک ردّ لکھتا اس میں تکلف معلوم ہوتا اسے پھاڑ دیتا۔ ایک اَور رد لکھتا اسے بھی پھاڑ دیتا۔ اسی طرح رات گزر گئی۔ بیوی نے بھی کہا کیا ہو گیا ہے تمہیں واپس آ جاؤ۔ سو جاؤ (کہتے ہیں کہ) آخر صبح فجر کی اذان ہو گئی اور میں کچھ نہیں لکھ سکا۔ ہر بات جو میں لکھتا تھا مجھے لگتی تھی یہ تو غلط ہو گئی اور وہ سارا جماعت کا ہی لٹریچر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پر ہی بنیاد رکھتا ہے۔ تو اس کے بعد وہ ان کو (شاہ صاحب کو) کہنے لگے کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب ایک کلمہ مخالفت کا مجھ سے آپ نہیں سنیں گے۔ آپ کے خیالات سراسر اسلامی ہیں اور آپ آزادی سے تبلیغ کریں اور پوچھنے والوں سے میں آپ کے حق میں اچھی بات ہی کہوں گا لیکن میں آپ کے فرقے میں داخل نہیں ہوں گا۔ آخری دم تک وہ جماعت کی تعریف کرتے رہے۔‘‘ (ماخوذ از سیرت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ۔ صفحہ27-29)

اب میں خطبہ الہامیہ کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں جس سے اس کی جیسا کہ میں نے کہا عظمت کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ اصل تو پورا پڑھیں گے تو پتا لگے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی میں فرماتے ہیں کہ

’’أَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمُحَمَّدِیُّ۔ وَاِنِّیْ اَنَا أَحْمَدُ الْمَھْدِیُّ وَاِنَّ رَبِّیْ مَعِیَ اِلٰی یَوْمِ لَحْدِیْ مِنْ یَّوْمِ مَھْدِیْ۔ وَاِنِّیْ أُعْطِیْتُ ضِرَامًا اَکَّالًا۔ وَمَاءً زُلَالًا وَاَنَا کَوْکَبٌ یَمَانِیٌّ۔ وَوَابِلٌ رُوْحَانِیٌّ۔ اِیْذَائِیْ سِنَانٌ مُذَرَّبٌ۔ وَدُعَائِیْ دَوَاءٌ مُجَرَّبٌ۔ أُرِیْ قَوْمًا جَلَالًا۔ وَقَوْمًا اٰخَرِیْنَ جَمَالًا۔ وَبِیَدِیْ حَرْبَۃٌ اُبِیْدُبِھَا عَادَاتِ الظُّلْمِ وَالذُّنُوْبِ۔ وَفِی الْاُخْریٰ شُرْبَۃٌ أُعِیْدُبِھَا حَیَاۃَ الْقُلُوْبِ۔ (یعنی)اے لوگو! مَیں وہ مسیح ہوں کہ جو محمدی سلسلہ میں سے ہے اور میں احمد مہدی ہوں اور سچ مچ میرا ربّ میرے ساتھ ہے۔ میرے بچپن سے لے کر میری لحد تک۔ اور مجھ کو وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہے اور وہ پانی جو میٹھا ہے اور میں یمانی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں۔ میرا رنج دینا تیز نیزہ ہے اور میری دعا مجرب دوا ہے۔ ایک قوم کو میں اپنا جلال دکھاتا ہوں اور دوسری قوم کو جمال دکھاتا ہوں۔ اور میرے ہاتھ میں ہتھیار ہے اس کے ساتھ میں ظلم اور گناہ کی عادتوں کو ہلاک کرتا ہوں اور دوسرے ہاتھ میں شربت ہے جس سے میں دلوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16صفحہ61-62)

پھر آپ فرماتے ہیں۔ ’’اَیُّھَا النَّاسُ قُوْمُوْا لِلّٰہِ زُرَا زَرَافَاتٍ وَفُرَادیٰ فُرَادیٰ۔ ثُمَّ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَفَکِّرُوْا کَالَّذِیْ مَابَخِلَ وَمَاعَادیٰ۔ أَلَیْسَ ھٰذَا الْوَقْتُ وَقْتَ رُحْمِ اللّٰہَ عَلَی الْعِبَادِ وَوَقْتَ دَفْعِ الشَّرِّ وَتَدَارُکِ عَطَشِ الْاَکْبَادِ بِالْعِھَادِ۔ أَلَیْسَ سَیْلُ الشَّرِّ قَدْبَلَغَ اِنْتِھَاءَ ہٗ۔ وَذَیْلُ الْجَھْلِ طَوَّلَ أَرْجَاءَ ہٗ۔ وَفَسَدَ الْمُلْکُ کُلُّہٗ وَشَکَرَ اِبْلِیْسُ جُھَلَاءَ ہٗ۔ فَاشْکُرُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَذَکَّرَکُمْ وَتَذَکَّرَ دِیْنَکُمْ وَمَا أَضَاعَہٗ۔ وَعَصَمَ حَرْثَکُمْ وَزَرْعَکُمْ وَلُعَاعَہٗ۔ وَأَنْزَلَ الْمَطَرَ وَأَکْمَلَ أَبْضَاعَہٗ۔ وَبَعَثَ مَسِیْحَہٗ لَدَفْعِ الضَّیْرِ۔ وَمَھْدِیَّہٗ لِاِفَاضَۃِ الْخَیْرِ۔ وَأَدْخَلَکُمْ فِیْ زَمَانِ اِمَامِکُمْ بَعْدَ زَمَانِ الْغَیْرِ۔ (کہ) اے لوگو! خدا کے لئے تم سب کے سب یا اکیلے اکیلے خدا کا خوف کر کے اس آدمی کی طرح سوچو جو نہ بخل کرتا ہے اور نہ دشمنی۔ کیا یہ وہ زمانہ نہیں کہ خدا بندوں پر رحم کرے؟ اور کیا یہ وہ زمانہ نہیں کہ بدی کو دفع کیا جائے اور جگروں کی پیاس کا مینہ برسانے سے تدارک کیا جائے؟ کیا بدی کا سیلاب اپنی انتہا کو نہیں پہنچا؟ اور جہالت کے دامن نے اپنے کناروں کو نہیں پھیلایا؟ اور ملک فاسد ہو گیا اور شیطان نے جاہلوں کا شکریہ ادا کیا۔ پس اس خدا کا شکر کرو جس نے تم کو یاد کیا اور تمہارے دین کو یاد کیا اور ضائع ہونے سے محفوظ رکھا اور تمہارے بوئے ہوئے کو اور تمہاری زراعت کو آفتوں سے بچایا اور مینہ نازل فرمایا اور اس کے سرمایہ کو کامل کیا اور اپنے مسیح کو ضرر کے دور کرنے کے لئے اور اپنے مہدی کو خیر اور نفع پہنچانے کے لئے بھیجا اور تمہیں تمہارے امام کے زمانے میں غیر کے زمانہ کے بعد داخل کیا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16صفحہ66-67)

پھر آپ فرماتے ہیں

’’وَاِنِّیْ عَلیٰ مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ الْوِلَایَۃِ۔ کَمَا کَانَ سَیِّدِی الْمُصْطَفیٰ عَلیٰ مَقَامِ الْخَتْمِ مِنَ النُّبُوَّۃِ۔ وَاِنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ۔ وَاَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ لَاوَلِیَّ بَعْدِیْ۔ اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ وَعَلیٰ عَھْدِیْ۔ وَاِنِّیْ أُرْسِلْتُ مِنْ رَّبِّیْ بِکُلِّ قُوَّۃٍ وَبَرَکَۃٍ وَعِزَّۃٍ۔ وَاِنَّ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلیٰ مَنَارَۃٍ خُتِمَ عَلَیْھَا کُلُّ رِفْعَۃٍ۔ فَاتَّقُوْا اللّٰہَ أَیُّھَا الْفِتْیَانُ۔ وَاعْرِفُوْنِیْ وَأَطِیْعُوْنِیْ وَلَا تَمُوْتُوْا بِالْعِصْیَانِ۔ وَقَدْ قَرُبَ الزَّمَانُ۔ وَحَانَ أَنْ تُسْئَلَ کُلُّ نَفْسٍ وَتُدَانُ۔

اورمیں ولایت کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے تھے اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہو گا اور میرے عہد پر قائم ہو گا اور میں اپنے خدا کی طرف سے تمام تر قوت اور برکت اور عزت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور یہ میرا قدم ایک ایسے منارہ پر ہے جو اس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے۔ پس خدا سے ڈرو اے جوانمردو اور مجھے پہچانو اور نافرمانی مت کرو اور نافرمانی پر مت مرو اور زمانہ نزدیک آ گیا ہے اور وہ وقت نزدیک ہے کہ ہر ایک جان اپنے کاموں سے پوچھی جائے اور بدلہ دی جائے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16صفحہ69-71)

پس یہ وہ عظیم الشان نشان ہے، یہ عظیم الشان الفاظ ہیں، یہ دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے دی۔ اللہ تعالیٰ کے الہام سے آپ نے دنیا کو دی اور یہ نشان جیسا کہ میں نے کہا 11؍اپریل 1900ء کو ظہور میں آیا، آج تک اپنی چمک دکھلا رہا ہے اور آج تک کوئی ماہر سے ماہر زبان دان اور بڑے سے بڑا عالم اور ادیب بھی چاہے وہ عرب کا رہنے والا ہے اس کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اور کس طرح یہ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام تھا جو آپ علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اور خاص طور پر عرب مسلمانوں کو عقل اور جرأت دے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرستادے کے پیغام کو سمجھیں اور امت مسلمہ کو آج پھر امت واحدہ بنانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کے مددگار بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

نمازجمعہ کے بعد مَیں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ان میں سے ایک جنازہ مکرمہ حنیفاں بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب بھٹی بھوڑو چک ضلع شیخوپورہ کا ہے جو 3؍اپریل 2014ء کو 84 سال کی عمر میں وفات پا گئیں تھیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ نے 1953ء میں ایک خواب کی بناء پر بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کی سعادت پائی تھی۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں آپ نے خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو بتایا کہ خواب میں بیعت کے لئے کہنے والے بزرگ حضور ہی تھے۔ آپ بہن بھائیوں میں اکیلی احمدی تھیں اور پنجوقتہ نمازی، تہجد گزار، بڑی دعا گو تھیں۔ غریب پرور نیک دل مخلص خاتون تھیں۔ جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ عہدے داران کی بڑی عزت کرتی تھیں۔ ان کے پسماندگان میں میاں کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں۔ اپنے ایک بیٹے مکرم محمد افضل بھٹی صاحب کو انہوں نے جامعہ بھیجا۔ وہ تنزانیہ میں مبلغ سلسلہ ہیں اور وہاں خدمت بجا لا رہے ہیں اور میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے پر بھی شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور ان کے اس بیٹے کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے جو میدان عمل میں دین کی خدمت بجا لا رہا ہے۔

دوسرا جنازہ مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب آف کراچی کا ہے۔ جو 29؍مارچ 2014ء کو 76 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ اپنے گھر میں تھے کہ وضو کر کے عصر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے کمرے میں گئے ہیں۔ کافی انتظار کے بعد جب ان کی اہلیہ نے جا کے دیکھا تو جائے نماز ابھی کھولی نہیں تھی، فولڈ کی ہوئی جائے نماز پڑی تھی، یا نماز پڑھ لی تھی یا پڑھنے سے پہلے بہر حال جائے نماز پر یہ گرے ہوئے تھے تو بستر پر ڈالا، ایمبولینس آئی، انہوں نے چیک کر کے بتایا کہ ان کی وفات ہو چکی ہے۔ آپ حضرت سیدناظر حسین شاہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے اور مکرم عبداللہ شاہ صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خالہ زاد بھائی تھے ان کے داماد تھے۔ نہایت شفیق، حلیم، نیک، دعاگو، نظام جماعت اور خلافت سے بے انتہا محبت کا تعلق رکھنے والے تھے۔ جماعتی کاموں میں مختلف ذمہ داریوں پر طویل عرصے تک ان کو خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ تہجد گزار، نمازوں کے پابند، باقاعدگی سے وقف عارضی بھی کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ کا ہر سال بے چینی سے انتظار کرتے۔ یہاں آتے تھے اور جلسہ میں شمولیت اور خلیفہ وقت سے ملاقات کا بھی ان کو بڑا شوق ہوتا تھا۔ لمبے عرصہ تک کراچی میں اپنے حلقے کے سیکرٹری وصایا کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ موصی تھے۔ اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور چار بیٹے یادگار چھوڑے ہیں جو سارے پاکستان سے باہر ہی آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور سویڈن وغیرہ میں رہتے ہیں۔ ان کے دو بھائی یہاں ہیں۔ ایک سیدنصیر شاہ صاحب ہیں جو آجکل یو۔ کے میں شعبہ رشتہ ناطہ کے انچارج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ رحم کا سلوک فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ اپریل 2014ء شہ سرخیاں

    ’’جب تک اوپر سے سلسلہ جاری رہا میں بولتا رہا اور جب ختم ہو گیا بس کر دیا۔‘‘

    ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نشان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے دکھائے ایسے ہیں جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین احمدیت کا منہ بند کرنے کے لئے ہمیں مواد مہیا کرتے ہیں۔ آپ کی صداقت کی دلیل ہمیں مہیا کرتے ہیں۔ پس خدا سے ڈرو اے جوانمردو اور مجھے پہچانو اور نافرمانی مت کرو اور نافرمانی پر مت مرو اور زمانہ نزدیک آ گیا ہے اور وہ وقت نزدیک ہے کہ ہر ایک جان اپنے کاموں سے پوچھی جائے اور بدلہ دی جائے۔

    11؍اپریل 1900ء کو رونما ہونے والے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عظیم الشان علمی معجزہ ’خطبہ الہامیہ‘ کا دلنشیں بابرکت ذکر۔

    ’’میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے … یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا‘‘۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

    حق تو یہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعدنہیں ملتی۔

    میں نے اپنی آنکھوں سے اس الہامی اور معجزانہ کلام کے نزول کو دیکھا اور خود کانوں سے سنا کہ بلا امداد غیرے کس طرح وہ انسان روزِ روشن میں تمام لوگوں کے سامنے ایسا فصیح و بلیغ کلام سنا رہا ہے۔

    جس قسم کی نبوت کا مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہے اگر اس قسم کے ہزار بھی نبی آ جائیں تو ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔

    محترمہ حنیفاں بی بی صاحبہ آف شیخوپورہ اور محترم سید محمود شاہ صاحب آف کراچی کی وفات پر مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 11؍اپریل 2014ء بمطابق 11شہادت 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور