محترم محمود احمد صاحب شاہد امیر جماعت احمدیہ آسٹریلیا
خطبہ جمعہ 25؍ اپریل 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک انتہائی پیاری شخصیت کا جو اپنے انتہائی باوفا ہونے میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ فدائی خادمِ سلسلہ تھے۔ دو دن پہلے ان کا انتقال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ہر انسان نے ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے لیکن کتنے خوش قسمت ہیں وہ انسان جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب عہد کرتے ہیں تو عہدوں کو نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ خدمت دین کے ساتھ خدمت انسانیت کی بھی ہمہ وقت کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں شامل ہوتے ہیں جن کی ایک دنیا تعریف کرتی ہے اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق جنت ایسے لوگوں پر واجب ہو جاتی ہے۔ یہ خادم سلسلہ خلفائے وقت کے سلطانِ نصیر اور خلافت کے لئے انتہائی غیرت رکھنے والے ہمارے پیارے بھائی مکرم محمود احمد شاہد صاحب تھے جن کو محمود بنگالی کے نام سے پاکستان میں بھی اکثر لوگ جانتے ہیں۔ اس وقت یہ آسٹریلیا جماعت کے امیر تھے اور وہیں بدھ کے روز 23؍اپریل کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مجھے ان کی وفات کے بعد ایک عزیز کا جو پہلا خط یا پیغام آیا انہوں نے یہ لکھا کہ خلافت کے فدائی ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بنائے۔ ان کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ وہ نبض کی طرح چلتے تھے۔ کبھی ان کے دل میں یہ انقباض پیدا نہیں ہوا کہ یہ حکم کیوں آیا اور اس طرح کیوں آیا۔ اپنی مرضی کے خلاف بھی اگر کوئی بات ان کو کہی جاتی تو فوراً اس کی تعمیل ہوتی تھی۔ ان کی بیماری اور وفات کی کچھ تفصیلات کا ذکر کرتا ہوں۔ 22؍اپریل کو مشن ہاؤس سڈنی میں نماز عصر کے لئے مسجد کی طرف نکلے لیکن تھوڑا سا چل کے واپس گھر لوٹ آئے کہ طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ اور گھر پہنچتے ہی شدید برین ہیمبرج کا حملہ ہوا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض تو پہلے ہی تھے۔ ہسپتال لے گئے۔ وہاں وینٹی لیٹر پر ان کو رکھا گیا۔ ڈاکٹروں کا تو یہی خیال تھا کہ دماغ کے جس حصہ میں برین ہیمبرج ہے وہاں سے زندگی کی واپسی ممکن نہیں ہے لیکن بہر حال میں نے ان کو کہا کہ 24؍ گھنٹے کوشش کر لیں اس سے زیادہ نہیں۔ 24؍ گھنٹے کے بعد جب وہ مشین اتاری گئی تو دو منٹ بعد ہی آپ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔
ان کا تعارف کچھ اس طرح ہے۔ محمود صاحب18؍نومبر 1948ء کو بنگلہ دیش کے ایک گاؤں چار دکھیہ ضلع چاند پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد مولانا ابو الخیر محمد محب اللہ اور والدہ کا نام زیب النساء تھا۔ ان کے والد ابوالخیر محمد محب اللہ صاحب نے 1943ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ ابتدائی نام ابو الخیر محمد تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ’محب اللہ‘ کے نام کا اضافہ فرمایا تھا۔ ان کے والد اپنے علاقے کے سب سے پہلے احمدی تھے اور بڑے پائے کے عالم تھے۔ تبلیغ کا بھی ان کو بڑا شوق تھا۔ اور انہوں نے تبلیغ کے ذریعہ سے اپنے والد خواجہ عبدالمنان صاحب یعنی محمود صاحب کے دادا کو احمدیت کے نور سے فیضیاب کیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کی بات ہے کہ اس زمانے میں یہ سہارن پور یو۔ پی میں پڑھنے کے لئے گئے ہوئے تھے تو وہاں ان کو احمدیت کے بارے میں علم ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دہلی تشریف لے گئے تو ان کے دادا کو بھی حضور علیہ السلام سے ملنے کا شوق پیدا ہوا لیکن جہاں وہ زیر تعلیم تھے ان لوگوں نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں جب یہ احمدی ہوئے تو کہا کرتے تھے کہ لوگوں نے تو ہمیں اس نعمت سے محروم رکھنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت ہمیں عطا فرما دی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر مکرم محمود احمد شاہد صاحب کے والدنے آپ کو وقف اولاد کے تحت 1954ء میں وقف کیا۔ محمود شاہد صاحب مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی حاصل کی اور پھر 1962ء میں، ابھی بچے ہی تھے کہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے اور 1974ء میں انہوں نے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی شادی 1977ء میں مولوی محمد صاحب مرحوم امیر جماعت بنگلہ دیش کی بیٹی ہاجرہ صاحبہ سے ہوئی۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب شادی شدہ ہیں اور جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں۔ محمود صاحب نے اپنی ابتدائی زندگی کی بعض باتیں اپنے داماد کو نوٹ کروائی تھیں کہ کیا واقعات تھے۔ کہتے ہیں کہ تعلیم کے دوران ایک مرتبہ جامعہ میں ہی فٹ بال کھیلتے ہوئے ان کے گھٹنے میں سخت چوٹیں آئیں۔ سخت بیمار ہو گئے اور مشرقی بنگال واپس چلے گئے۔ ربوہ کا موسم بھی اس زمانے میں سخت تھا۔ وہاں سہولیات بھی نہیں تھیں۔ پانی نمکین تھا۔ میٹھے پانی کی دستیابی نہیں تھی۔ اکثر ان کے پیٹ میں تکلیف رہتی تھی۔ والدین بھی دور تھے۔ چھوٹے تھے۔ چوٹیں بھی لگی ہوئی تھیں۔ آخر والدین کی یاد بھی آئی تو بنگلہ دیش واپس چلے گئے۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان ہوتا تھا۔ ربوہ واپس آنے کی ان کی کوئی کو کشش نہیں تھی۔ کوئی خواہش نہیں تھی کہ دوبارہ جائیں لیکن کہتے ہیں کہ سید میر داؤد احمد صاحب جو اس زمانے میں پرنسپل تھے انہوں نے بار بار خط لکھے اور کوشش کی کہ دوبارہ جامعہ میں آ جائیں تو اس وجہ سے پھر ان کی واپسی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی دعاؤں کا بھی میری زندگی پر بڑا گہرا اثر تھا۔ ربوہ میں جب تھے تو انہوں نے والد صاحب کو لکھا کہ ربوہ کا موسم سخت ہے۔ پانی نہیں ہے۔ گرمی ہے۔ کھانے پینے کی بڑی تکلیف ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں ان کے والد مکرم محب اللہ صاحب نے لکھا کہ مکہ میں بھی بڑے تکلیف دہ حالات تھے اور سورۃ ابراہیم کی آیت رَبَّنَا اِنِّیٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِذِیْ زَرْعٍ…(ابراہیم: 38) کے حوالے سے پھر انہوں نے نصیحت کی اور لکھا کہ اللہ کے خلیفہ نے جو شہر آباد کیا ہے اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو والد کے ساتھ تعلق بے معنی ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد پھر میری زندگی میں بڑی گہری تبدیلی آئی۔
راولپنڈی سے مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ خاموش اور سلیقہ مند کام کرنے والے خادم سلسلہ تھے۔ ساری عمر نہایت اخلاص اور وفا کے ساتھ اپنے فرائض بجا لاتے رہے۔ عین خدمت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے صدر خدام الاحمدیہ بنایا تھا اور اس کے بعد سے پھر ان کی انتظامی خوبیاں بھی سامنے آنے لگیں۔ مجیب الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ ان کے والد محترم مولانا محب اللہ صاحب کی تعیناتی بنگال میں بطور مبلغ ہوئی۔ انہوں نے اپنی پہلی اولاد کو وقف کر دیا اور محمود احمد ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں ربوہ میں بھجواد یا۔ اجنبی ماحول میں شروع شروع میں کافی اداس ہو جاتے تھے۔ مجیب الرحمن صاحب محمود صاحب کے ماموں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کو اتنی تڑپ تھی کہ مجھے اکثر لکھتے تھے کہ محمود کو اداس نہ ہونے دینا تا کہ یہ پڑھ لکھ جائے۔ جامعہ سے فارغ ہو۔ یہ ابتدائی دنوں کی بات تھی مگر بہت جلد محمود صاحب پھر پورے دل و جان سے اپنی تعلیم میں مشغول ہو گئے اور ربوہ کے ماحول میں ربوہ کے پرانے رہنے والے جانتے ہیں کہ بڑے گھل مل گئے۔ میر داؤد احمد صاحب گرمیوں کی تعطیلات میں ان کو مجیب الرحمن صاحب کے پاس راولپنڈی بھیج دیا کرتے تھے۔
مجیب صاحب لکھتے ہیں اور بڑا صحیح لکھتے ہیں کہ عزیزم مرحوم کی طبیعت میں سادگی اور خلوص اس قدر تھا اور اتنے خوش اخلاق اور ملنسار تھے کہ غیرازجماعت ہمسائے کے بچے اور خواتین بھی ان سے مانوس ہو جایا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کو یاد کرتے تھے۔ محمود احمد صاحب کا اپنے بھائیوں سے بہت شفقت کا تعلق تھا۔ اپنے غریب رشتہ داروں کی خاموشی سے مدد کرتے رہتے تھے۔ بنگلہ دیش کی جماعت میں کچھ رقم ان کی امانت میں رکھی رہتی تھی جس سے وہ اپنی والدہ کی مستقل خدمت کرتے رہتے تھے۔ سب ان کے عزیز رشتہ دار بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بڑا پیار کا تعلق تھا۔
جب یہ صدر بنے، (یہ بھی انہوں نے اپنے داماد کو خودنوٹ کروایا، ) تو کہتے ہیں 1979ء میں خدام الاحمدیہ کی شوریٰ میں صدر کا انتخاب ہوا۔ ووٹ کے لحاظ سے وہ پانچویں پوزیشن میں تھے۔ انتخاب کے بعدنماز فجر کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلاکے فرمایا کہ کثرت سے استغفار کرو اور درود پڑھو۔ اور اگلے روز یا اس دن شام کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ان کی بطور صدر منظوری عطا فرمائی۔ پانچویں نمبر پر تھے ووٹوں کے لحاظ سے۔ ان کے جامعہ کے ساتھی انعام الحق کوثر صاحب جو آجکل امریکہ میں مبلغ سلسلہ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جامعہ کے ناصر ہوسٹل میں آپ سے دوستی ہوئی۔ آپ ہوسٹل کے زعیم تھے اور انعام صاحب معتمد تھے۔ کہتے ہیں کہ میس (کمیٹی) کے ممبر اور پھر صدر بنے۔ جامعہ میں نائب الرئیس الجامعہ منتخب ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے انہیں صدر منتخب کیا اور اس کا اعلان ہوا تو انعام صاحب کہتے ہیں کہ میں محمود صاحب کے پاس ہی کھڑا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کو گلے ملنا چاہا۔ کہنے لگے پرے ہٹو۔ اور اپنی مخصوص زبان جس میں بنگالی اردو بھی ملی ہوئی تھی، پوچھنے لگے کیا میرا نام کا اعلان ہوا ہے تو میں نے کہا ہاں۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ خوشی کی بجائے صدمے کی حالت تھی۔ مگر پھر جلد سنبھل گئے اور کہتے ہیں پھر میں نے ان کو گلے لگایا۔
خالد سیف اللہ صاحب جو ان کے بعد اب اس وقت قائمقام امیر جماعت آسٹریلیا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پر محمود بنگالی صاحب نے یہی صدر بننے کا قصہ خود انہیں بتایا کہ 1979ء میں جب انٹرنیشنل صدر خدام الاحمدیہ کا انتخاب ہوا تو آپ ووٹوں کی گنتی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ حضور نے آپ کو بلا کر فرمایا کہ آج شام تک کثرت سے استغفار کرو۔ کہتے ہیں کہ میں بہت ڈرا کہ پتا نہیں مجھ سے کیا غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ جب حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود صدر مقرر فرما دیا تو مجھے سمجھ آئی کہ حضور اس طریق سے مجھے عاجزی کی طرف متوجہ فرما رہے تھے۔ یہ ان سب عہدے داروں کے لئے بھی سبق ہے جو جب منتخب ہوتے ہیں تو (انہیں ) استغفار اور درود بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ عاجزی ہمیشہ قائم رہے اور خدمت کی توفیق اللہ تعالیٰ صحیح رنگ میں عطا فرماتا رہے۔
محمود مجیب صاحب انجینئر جو ہیں وہ بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ محمود بنگالی صاحب بڑے ہی فدائی اور خلافت کے شیدائی احمدی تھے۔ خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے غالباً (ان کو سن تو یادنہیں۔ غالباً لکھا ہوا ہے اور شاید ٹھیک ہی لکھا ہوا ہے کہ) 80ء یا 81ء میں سارے صدران شمار کروائے جو 1960ء سے اس وقت تک پہلے گزر چکے تھے اور اس کے بعد پھر محمود بنگالی صاحب کی تعریف فرمائی کہ اطاعت میں اور دعائیں لینے میں یہ سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ اور پھر وہاں خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں نے ان کو پانچویں نمبر سے اٹھا کے جو صدر بنایا تھا تو جماعت کو ایک سبق دینا چاہتا تھا کہ خلافت کا جو انتخاب ہے وہی بہتر ہوتا ہے۔ خدام الاحمدیہ کے دَور میں انہوں نے ان سے کافی کتابیں لکھوائیں۔ 1981ء کا یہ واقعہ ہے۔ خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے جو اپنے الفاظ ہیں جس میں آپ نے ان کو، ان کی خدمات کو سراہا۔ فرمایا کہ ’’برکت اسی کو ملے جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے کیونکہ ساری برکتیں اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ اس کے سوا کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی‘‘۔
پھر فرمایا کہ ’’پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے صدر کا جو انتخاب ہوا اس میں ووٹوں کے لحاظ سے محمود احمد صاحب پانچویں نمبر پر تھے اور میں یہ سبق جماعت کو دینا چاہتا تھا کہ جن چار کو ووٹ زیادہ ملے ان کے کام میں برکت ان کے ووٹوں کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے گا وہی برکت حاصل کرے گا۔ چنانچہ پانچویں نمبر پر جو محمود احمد بنگالی صاحب تھے ان کو میں نے صدر منتخب کر دیا۔ بڑے مخلص آدمی ہیں۔ اللہ ان کے اخلاص میں ترقی دے۔ بڑا کام کیا۔ دعائیں لیں۔‘‘ اور پھر حضور نے 1960ء سے لے کر اس وقت تک کے جو مختلف صدران مجالس خدام الاحمدیہ تھے۔ ان کے زمانوں میں اجتماعات میں مجالس کی نمائندگی کے گراف کا ذکر کرنے اور اس میں ایک مرحلے پر درمیان میں تنزل کے علاوہ تدریجی ترقی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایاکہ ’’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کامیابی ووٹ لینے والوں کو نہیں خلیفہ وقت کی دعائیں حاصل کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ پچھلی دفعہ پانچویں نمبر پر ووٹ لینے والے صاحب کو صدر بنایا گیا تھا۔ ان کے پہلے سال 771 مجالس حاضر تھیں اور دوسرے سال یعنی اس سال 818 مجالس (اس وقت کی جو رپورٹ ہے) اس میں حاضر ہیں۔‘‘ (مشعل راہ جلد دوم صفحہ 571 تا 573)
محمود بنگالی صاحب جو تھے وہ اپنے دور صدارت میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر تھے۔ اس زمانے میں تمام دنیا میں مرکز کے تحت ایک صدر ہوتا تھا۔ باقی دنیا کے صدران نہیں تھے بلکہ قائدین کہلاتے تھے اور ان کے دور میں یہ اختتام ہوا۔ یہ آخری صدر تھے جو خدام الاحمدیہ کے بین الاقوامی صدر تھے۔ تو بہرحال جب یہ دور ختم ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں انہوں نے ایک بڑا عاجزانہ خط بھیجا۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جواب دیا کہ آپ نے خط میں خوامخواہ شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ شرمندگی کی کیا بات ہے۔ آپ نے تو ماشاء اللہ بہت اچھا دور نبھایا ہے۔ بڑے مشکل حالات میں بڑی عمدگی، حکمت اور بہادری کے ساتھ کام کیا ہے۔ اللہ مبارک کرے۔ اسی لئے تو آپ کو انصار اللہ میں جانے کے باوجود خدمت کا موقع ملا۔ (ان کو ایک سال کی extention دی گئی تھی۔) اگر آپ نا اہل ہوتے تو ہرگز ایسا نہ کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی آپ کو ہمیشہ سلسلے کا بے لوث خادم بنائے رکھے اور بہترین خدمات کی توفیق پاتے رہیں (مکتوب 15 نومبر 1989ء)۔ آپ نے اسیران کی بھلائی اور بہبود کے حوالے سے بہت کام کیا اور اس حوالے سے رپورٹس باقاعدہ جاتی رہیں۔ ان رپورٹس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا یہ ارشاد بھی تھا کہ ’’آپ کی رپورٹ بابت بہبودی اسیران موصول ہوئی۔ آپ ماشاء اللہ بڑی حکمت اور محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے‘‘ اور واقعی انہوں نے اس زمانے میں اسیران کی بڑی خدمت کی۔ اور پھر ایک جگہ ایک رپورٹ پر لکھا: ’’خدمت اسیران میں آپ کی مساعی سے بڑی خوشی ہوئی ہے‘‘۔ 84ء کا جو قانون تھا یہ اس کا ابتدائی دور تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں اسیران کلمہ کی وجہ سے جیل میں جا رہے تھے۔ اس زمانے میں خدام الاحمدیہ اور صدر خدام الاحمدیہ نے کافی کام کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’خدمت اسیران میں آپ کی مساعی سے بڑی خوشی ہوئی ہے۔ بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے جس طرح کہ میرا منشا تھا‘‘۔ (مکتوب 12 مئی 1988ء)
خدام الاحمدیہ میں آپ کی نمایاں خدمات یہ ہیں کہ آپ کے دور میں خدام الاحمدیہ نے کئی شعبوں میں نمایاں طور پر آگے قدم بڑھایا۔ آپ نے اسیروں کی بھلائی اور بہبودی کے لئے اسیران ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت ان کی ضروریات پوری کرنے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے ایک ایمبولینس مخلوق خدا کی خدمت کے لئے چلائی گئی۔ بیوت الحمد سوسائٹی کے آغاز پر مجلس خدام الاحمدیہ نے بھاری عطیہ پیش کیا جس کے روحِ رواں مکرم محمود احمد صاحب ہی تھے۔ پھر خدام احمدیہ کے کارکنان کے لئے کوارٹرز تعمیر کرنے کی خاطر زمین خریدی جس میں آپ نے ذاتی دلچسپی کا اظہار کیا۔ پھر تراجم قرآن فنڈ میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے گراں قدر عطیہ پیش کرنے کی سعادت پائی۔ آپ نے پاکستان سے باہر خدام الاحمدیہ کی تنظیمی ترقی کے لئے کئی ممالک کا دورہ فرمایا اور ان میں سب سے تفصیلی دورہ 11جون سے 11؍اکتوبر 1987ء کا سہ براعظمی دورہ تھا جس میں آپ نے یورپ امریکہ اور مغربی افریقہ کے گیارہ ممالک ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی، برطانیہ، امریکہ، گیمبیا، سینیگال، سیرالیون، لائبیریا، آئیوری کوسٹ اور گھانا وغیرہ مختلف جگہوں پر سفر کیا۔ کسی صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا ان ممالک کا یہ پہلا دورہ تھا۔ 1989ء میں آپ نے انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور کا دورہ کیا۔ آپ ہی کے دور میں خدام الاحمدیہ کے گیسٹ ہاؤس کی بالائی منزل تعمیر ہوئی۔ پھر خدام الاحمدیہ کا محمود ہال جو ایوان محمود کہلاتا ہے اس کو ایک دفعہ آگ لگ گئی تھی تو بغیر کسی مالی تحریک کے پھر اس کی مرمت اور ساری رینوویشن وغیرہ کروائی۔ آپ کے دور میں خدام الاحمدیہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے انتخاب کے موقع پر، خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع پر خدمات کی توفیق ملی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی پاکستان سے ہجرت کے وقت کے نازک حالات میں بھی خدام الاحمدیہ نے خدمت کی توفیق پائی۔ ڈیوٹیاں دیں، ساتھ بھی گئے۔ آپ کے دور کو خدا تعالیٰ نے کئی تاریخی اعزازات بھی عطا فرمائے۔ ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے چودھویں اور پندرھویں دونوں صدیوں میں اور اسی طرح جماعت کی پہلی اور دوسری دونوں صدیوں میں خدمت کی توفیق پائی۔ ان کے عہد میں ہی خدام الاحمدیہ اپنے پچاس سال پورے کر کے اکاونویں (51) سال میں داخل ہوئی۔ سلطان مبشر صاحب جو تاریخ خدام الاحمدیہ لکھ رہے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ
محمود صاحب کہا کرتے تھے کہ جب مجھے صدر خدام الاحمدیہ بنے دو تین روز ہوئے تو مَیں بہت گھبرایا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے قدموں میں بیٹھ کر بہت رؤیا اور اپنے مخصوص لہجے میں مَیں نے کہا۔ مذکر مؤنث کا تو ان کو خیال نہیں رہتا تھا کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ اس پر حضور نے شفقت سے فرمایا کہ خلیفہ وقت جب فیصلہ کر لیتا ہے اور دعا کر کے فیصلہ کیا ہے تو بدلتا نہیں۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ جب مشکل ہو میرے پاس آ جانا۔ اور کہتے تھے کہ پھر میں نے خلفاء کی دعاؤں کو ہمیشہ اپنے سر پر ہی دیکھا۔ خدام سے براہِ راست تعلق تھا۔ کہتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ دفتر میں کم سے کم بیٹھنا اور خدام سے براہِ راست تعلق رکھنا۔ محمود صاحب عموماً دفتر میں بیٹھنے کے بجائے شام کو باہر کرسی پر بیٹھ جایا کرتے تھے، خدام الاحمدیہ کا کیونکہ باقاعدہ دفتر ہے اور سارا احاطہ ہی خدام الاحمدیہ کا ہے اس لئے وہاں خدام کا ہی آنا جانا ہوتا تھا تو وہاں بیٹھ جاتے تھے اور ایوان محمود میں آنے جانے والوں سے براہ راست رابطہ رکھتے، حال احوال پوچھتے، خدام سے بے تکلف ہوتے، نتیجۃً خدام سے یگانگت کا ماحول پیدا ہو جاتا۔ ہر ایک کے غم میں برابر کے شریک ہوتے۔
ڈاکٹر مبشر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن ہم دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ بہت دیر ہو گئی تو محمود صاحب کہنے لگے کہ کچھ کھانے کو ہو تو لاؤ۔ کہتے ہیں میں گیسٹ ہاؤس گیا۔ جو کھانا دارالضیافت سے معاونین کے لئے آیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ چند بچے کھچے ٹکڑے تھے۔ میں خالی ہاتھ واپس آیا اور بتایا کہ کچھ نہیں ہے۔ صرف چند ٹکڑے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ بھی تبرک ہیں وہی لے آؤ۔ چنانچہ وہی ٹکڑے انہوں نے کھائے۔ کسی منتظم کو یا گیسٹ ہاؤس کے خادم کو نہ کوئی ہدایت دی نہ ہی کچھ باز پرس کی کہ میرے لئے کوئی کھانا وغیرہ کیوں نہیں رکھا۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ رات کا وقت ہے، ان کو شوگر اس وقت ہوگئی ہوئی تھی، اور شوگر کے مریض کو تو بعض دفعہ بھوک بھی لگ جاتی ہے۔ لیکن کوئی اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح معتمد صاحب کا اور دوسرے کارکنوں کا گھر بھی خدام الاحمدیہ کے احاطے میں تھا مگر انہیں بھی زحمت نہیں دی۔
پھر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ تاریخ خدام الاحمدیہ لکھنے پر انہوں نے ہی مامور کیا اور بہت حوصلہ افزائی کی۔ ان کی زبان میں بنگالی لہجہ تھا جو تحریر میں بھی آ جاتا تھا۔ عموماً اپنے خطوط مجھ سے لکھواتے۔ 2010ء میں جب وہ جلسہ لندن پر تشریف لائے تو کچھ خطوط اور رپورٹس خاکسار سے لکھوائیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔
ان کا جو بنگالی لہجہ تھا اس میں الفاظ کی ادائیگی کی وجہ سے بعض دفعہ سمجھنے میں دشواری ہوتی تو کہتے ہیں کہ مذاق سے کہہ بھی دیا کرتا تھا لیکن کبھی انہوں نے مذاق کو برا نہیں مانا۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر جو بات خاکسار نے یعنی ڈاکٹر صاحب نے ان سے سیکھی، وہ خلیفہ وقت کی اطاعت اور مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کمال تک پہنچا دینا تھا۔ وہ خلفاء کے معتمد تھے۔ اگر کبھی خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملے میں باز پرس ہوتی تو قول سدید سے کام لیتے۔ کبھی اس لئے ہمت نہ چھوڑتے کہ حضور کی طرف سے ناراضگی کیوں ہوئی ہے بلکہ ہمیشہ اصلاح پر مامور رہتے اور آئندہ کے لئے خلفاء سے رہنمائی چاہتے۔ دعا کرتے اور دعاؤں کے لئے کہتے۔
فیروز عالم صاحب بھی یہ لکھتے ہیں کہ مجھے ان سے گہری وابستگی تھی۔ 1982ء میں جب میں جامعہ گیا تو اس وقت میں تجربہ سے عاری ایک نو احمدی تھا اور اپنی اہم مصروفیت کے باوجود کہتے ہیں کہ مجھ پر نظر شفقت رکھتے۔ عید اور دوسرے مواقع پر گھر بلاتے، تحفے دیتے۔ غریب الوطنی میں جو کمیاں ہوتیں انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح عبدالاوّل صاحب نے بھی انہی خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور سب سے بڑی خصوصیت یہی کہ خلافت کے بہت ہی قریبی تھے اور قربان تھے۔ خاموش طبع تھے۔ دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھنے والے باعمل بزرگ تھے۔ بارہا مجھ جیسے بچے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ کہتے ہیں جب میں میٹرک کر کے جامعہ گیا تو اس وقت سولہ سال کا تھا اور وہاں میں نے دیکھا کہ آپ دور بیٹھے بھی اپنے وطن کے حالات کا جائزہ لیتے رہتے اور قیمتی دعاؤں اور مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔
گزشتہ سال مَیں نے ان کو بنگلہ دیش ایک جلسہ پہ نمائندے کے طور پر بھجوایا تھا تو کہتے ہیں وہاں بھی بڑے خوش تھے اور بار بار ہماری حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
خالد سیف اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ امیر صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب ہم پڑھنے کے لئے ربوہ آئے تو میرے ساتھ اور بھی لڑکے تھے۔ ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات کے لئے گئے تو حضور چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہم پاس ہی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور ہمیں وقف کی اہمیت اور قربانی کے بارے میں بتا رہے تھے اور حضور نے اپنا ایک ہاتھ میرے اوپر رکھا ہوا تھا کیونکہ میں سب سے زیادہ حضور کے قریب تھا۔ اللہ کی حکمت کہ باقی اکثر لڑکے جو باہر سے آئے ہوئے تھے آب و ہوا اور غذا وغیرہ کی سختی برداشت نہ کر سکے اور واپس گھروں کو چلے گئے۔ میں نے اپنی تعلیم اور وقف خدا کے فضل سے پورا کیا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لَمس کی برکت تھی۔
پھر خالد سیف اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ امیر صاحب مرحوم ایک ذہین انسان تھے۔ تعلق بنانے اور نبھانے کا فن خوب جانتے تھے اور اسے جماعت کے مفاد میں استعمال کرتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں امیگریشن کا عمل پاکستانی احمدیوں کے لئے آسان ہو گیا اور آسٹریلیا کی جماعت جو آپ کے آسٹریلیا آنے پر صرف چند سو تھی اب ہزاروں میں ہو چکی ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق احمدیوں کو آسٹریلیا کے سبھی بڑے شہروں میں بسایا گیا۔ چنانچہ اب ہر سٹیٹ کے کیپیٹل میں مضبوط جماعت قائم ہے اور وسیع و عریض خوبصورت مساجد اور مشن ہاؤسز قائم ہیں۔ سڈنی میں بھی مسجد بیت الھدٰی کے علاوہ خلافت سینٹینری ہال اور مشن ہاؤس بھی ہے اور ایک گیسٹ ہاؤس ابھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح برسبین (Brisbane) میں مسجد بنی۔ میلبرن(Melbourne) میں مسجد بنی۔ ایڈیلیڈ (Adelaide) میں مسجد محمود ہے۔ کینبرا (Canberra) میں مسجد کے لئے قطعہ زمین کے لئے کوشش ہو رہی تھی جلد مل جائے گا۔ آسٹریلیا کی جماعت میں، ان کی ترقی میں انہوں نے ماشاء اللہ خوب حصہ لیا ہے۔
آسٹریلیا کے نیشنل سیکرٹری تربیت عمران احسن صاحب جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ امیر صاحب 1991ء سے آسٹریلیا میں مشنری انچارج اور امیر جماعت کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ آپ کے دور میں بہت بڑے پراجیکٹس تکمیل کو پہنچے جبکہ جماعت ابھی بھی بہت تھوڑی تعداد میں ہے۔
2006ء کے دورے کے بعد انہوں نے وہاں دو تین نئی مساجد اور سینٹینری ہال تعمیر کروایا۔ مسجد بیت السلام ملبرن جو ہے اس میں بڑا حصہ ہے وہ ہال ہے جس میں دو ہزار سے زائدنمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح باقی مساجد بھی کافی وسیع ہیں۔ پھر آپ کے دور میں وفاقی حکومت آسٹریلیا کی دونوں سیاسی جماعتوں سے امیگریشن کے معاملات میں بہت اچھے روابط قائم ہوئے اور اسی طرح اور سہولتیں انہوں نے حکومت سے حاصل کیں۔ آسٹریلیا میں ذیلی تنظیموں کی تشکیل مرکزی خطوط پر کی۔ مختلف ممالک کے باشندوں کے مابین بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں آپ کی تربیت کا بہت ہاتھ ہے۔ آسٹریلیا میں صرف پاکستانی نہیں ہیں بلکہ وہاں پہ فجئن بھی بہت سارے آئے ہوئے ہیں، آسٹریلین بھی ہیں اور افریقن بھی۔ انہوں نے ان سب میں بھائی چارے کی بہت فضا قائم کی اور ہر ایک کو ڈیوٹیاں سپرد کر کے ذمہ دار بنایا اور ان سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا اور یہی ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کی خوبی ہے جس پر باقیوں کو بھی عمل کرنا چاہئے۔ ابھی پچھلے دنوں میں ان کا جلسہ ہوا ہے انہوں نے اس کی صدارت کی اور خدا تعالیٰ کی ذات کے شکر کے مضمون پر خطاب کیا۔ اس وقت تو بڑے صحت مند تھے۔ کسی کو خیال بھی نہیں تھا۔ بڑے (صحت مند) تو نہیں، مطلب یہ کہ بیماری کے لحاظ سے ان کی صحت دوبارہ بحال ہو رہی تھی اور کافی حد تک بحال ہو چکی تھی کہ پھر اچانک یہ سٹروک (stroke) ہوا۔
پھر وکٹوریہ جماعت کے صدر جاوید صاحب ہیں وہ اپنے ایک تفصیلی خط میں لکھتے ہیں کہ امیر صاحب کی معاملہ فہمی، چھوٹی چھوٹی بات میں رہنمائی، تدبر، بصیرت اور دور اندیشی کے واقعات ہر شخص کی زبان پر عام ہیں۔ امیر صاحب کے پاس پرانی سی گاڑی تھی مجلس عاملہ کے بار بار اصرار اور کہتے ہیں میری ذاتی درخواست پر بھی اچھی گاڑی نہیں لی اور ہمیشہ دوسرے مربیان کو اچھی گاڑیاں لے کر دیں۔ اپنی کوئی فکر نہیں تھی۔ اسی طرح ان کی بیٹی نے لکھا ہے کہ کپڑوں وغیرہ کو لے کر ہم آتے تھے تو ان کو زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ یہی تھا کہ جو آرام دہ کپڑا ہے وہ پہنوں۔ زیادہ fuss کرنے کی ضرورت نہیں۔ جماعتی اخراجات پر بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یادداشت بہت اچھی تھی۔ احباب جماعت کو ان کے ناموں سے یاد کرتے اور ان کی خوبیوں کو استعمال میں لانے کا خدا داد ملکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوا تھا۔
مجلس عاملہ میں اور شوریٰ کے اجلاس میں خلیفہ وقت کے حوالے دے کر بات سمجھایا کرتے تھے۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ ایک صاحب جنہوں نے یہاں جو کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے اس میں آنا تھا لیکن ایک طوفان کی وجہ سے فلائٹ لیٹ ہو گئی یا کینسل ہو گئی اور وہ ٹورنامنٹ میں شامل نہیں ہو سکے تو امیر صاحب نے انہیں سمجھایا کہ پھر بھی ضرور جائیں۔ اگر ٹورنامنٹ میں شامل نہیں ہو سکتے تو کوئی بات نہیں۔ اصل مقصد تو خلیفۃ وقت سے ملاقات ہے اگر وہ ہو جائے تو تم سمجھو کہ تمہارا ٹورنامنٹ کا مقصد پورا ہو گیا۔ اب دورے پر جب میں گیا ہوں تو ان دنوں میں ایک بیماری کی وجہ سے کافی شدید بیمار تھے اور ساتھ میلبرن نہیں جا سکے لیکن فون پر ہر تھوڑے تھوڑے وقفے سے فون کر کے تمام انتظامات کا جائزہ لیتے رہے۔
کہتے ہیں کہ امیر صاحب اپنے خطابات میں خدام، انصار اور لجنات کو حقوق کی ادائیگی کی تلقین کیا کرتے تھے جس کا خوشگوار اثر ان کی زندگیوں میں دیکھنے میں آتا رہا۔ غیر ممالک سے آئے طلباء کا خاص خیال کرتے۔ شہداء کی فیملیز کے متعلق ہر دوسرے کام پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ فیملیز کے معاملات کو ہر دوسرے کام پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ تعزیری کارروائی کی کبھی شکایت کرنی پڑتی اور یہاں سے تعزیر ہوتی تو فرمایا کرتے تھے کہ اس سے میرا دل کٹ جاتا ہے اور معافی کے معاملے میں بہت جلدی کرتے تھے۔ جماعت احمدیہ آسٹریلیا کے لئے امیر صاحب کی شخصیت ایک ایسی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہے جس نے جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی تعمیر و تنظیم میں بنیاد کا کام کیا ہے۔
ڈاکٹر سید حسن احمد کہتے ہیں کہ پیار کا ایک سمندر تھا جو میں نے آپ میں دیکھا اور محسوس کیا۔ ہر احمدی چاہے چھوٹا ہو یا بڑا آپ کے گھر بلا تکلف چلا جاتا اور معمولی نوعیت کی باتیں ان سے بیان کرتا۔ نوجوانوں کو خاص طور پر کام سپرد کرتے۔ گویا ان کو لیڈر بننے کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ ہر وقت جماعت افراد جماعت کے درد میں گھلتے رہتے تھے۔
میلبرن سے ایک اسامہ احمد صاحب کہتے ہیں کہ مولانا محمود احمد صاحب کا وجود ہم آسٹریلیا کے احمدیوں کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح تھا۔ آپ آسٹریلیا کے تمام احمدیوں سے یکساں اور بلا امتیاز پیار اور شفقت اور محبت کا سلوک فرماتے تھے۔ ہر چھوٹے بڑے کو اپنے حسن سلوک، اعلیٰ اخلاق اور نمونے سے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ آپ ہر موقع پر سڈنی آنے والے مہمانوں کا بہت خیال رکھتے۔ ہر جلسے اور اجتماع کے موقع پر اپنے گھر سے باہر تشریف لا کر مہمانوں کا خود استقبال کرتے اور گلے لگاتے۔ ہم ہمیشہ امیر صاحب کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھتے اور اس محبت اور سلوک سے سفر کی تھکان دور ہو جاتی۔
بعض لوگوں نے ان کو بعض تکلیفیں بھی دیں لیکن جب تحقیق کی گئی تو باوجود لوگوں کی بدظنیوں کے کبھی براہ راست ان کا قصور نہیں نکلا۔ ایک دو کیس ایسے تھے جن میں ان پر بدظنیاں کی گئیں اور شکایتیں کرنے والوں کا ہی اصل میں قصور ہوتا تھا۔
ایک خاتون طاہرہ اطہر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ چند دن پہلے جلسہ سالانہ آسٹریلیا ختم ہوا ہے۔ مسجد میں رہائش پذیر مہمانوں کی مہمان نوازی کی خاص تاکید کرتے رہے کہ جلسے پر آنے والوں کا خیال رکھا جائے۔ نمازوں کی ادائیگی کے لئے بڑی تاکید کی۔
ہمارے ہاں پریس کے انچارج عابد وحید ہیں جو میرے ساتھ دورے پر بھی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دورہ آسٹریلیا کے دوران محترم محمود بنگالی صاحب کوقریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ باوجودیکہ کہ تمام دورے کے دوران ان کی طبیعت ناساز تھی۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے اور بھرپور توجہ دیتے۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ رات کے کھانے میں ہمیں دوسرے روز بھی ایک ہی سبزی پیش کی گئی۔ گو کہ ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں تھا لیکن بنگالی صاحب نے اس بات کو نوٹ کیا اور بیماری کے باوجود خود کچن میں جا کر ضیافت والوں سے وجہ معلوم کی کہ یہاں کوئی اور سبزی نہیں ملتی جو ایک ہی چیز کھلائی جا رہے ہو۔ اس طرح مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی طبیعت میں عاجزی بہت تھی۔ یہ عابد کہتے ہیں کہ اپنے علم و تجربے کے باوجود مجھ سے پریس اور میڈیا کے امور کے متعلق مشورہ لینے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ نظام جماعت کی عزت کرتے اور خلافت سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔
زرتشت منیر صاحب امیر ناروے کہتے ہیں کہ جن دنوں آپ صدر خدام الاحمدیہ تھے۔ خاکسار کو کراچی میں بطور قائد ضلع خدمت کی توفیق ملی۔ انتہائی پر آشوب دور میں آپ نہایت کامیاب صدر تھے۔ یہ چوراسی پچاسی چھیاسی کا دور تھا جب حالات بہت خراب ہو گئے تو سندھ اور بلوچستان کو جماعتی اور تنظیمی سطح پر جماعت کراچی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ سندھ میں کسی جگہ بھی شہادت ہوتی تو محمود صاحب یا ان کا نمائندہ کراچی جماعت کے نمائندے سے قبل پہنچ جاتے۔ مشکل حالات میں محمود صاحب بہت دلیری، دانشمندی کے ساتھ بڑے مشکل امور کو بڑی محنت کے ساتھ سرانجام دیتے۔ خلافت کے ساتھ عشق کی حد تک پیار تھا اور اس کی بڑی غیرت رکھتے تھے۔ حفاظت کے سلسلے میں معمولی کوتاہی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ جب ہم ربوہ اجتماعات اور جلسوں پر جاتے تو آپ بہت ہی پیار و محبت کا سلوک فرماتے۔
ملک اکرم صاحب جو یہاں مربی ہیں یہ کہتے ہیں کہ جامعہ میں طالب علمی کے دور میں خاکسار نے ان کے ہمراہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے تحت راولپنڈی کی مجلس کا دورہ کیا۔ انہوں نے ہر مجلس میں مختلف تقریر کی۔ آیات قرآنیہ، احادیث مبارکہ ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے احمدیت کے کلمات پورے حوالوں کے ساتھ زبانی یاد کئے ہوئے تھے اور راولپنڈی کے ایک سینئر عہدے دار نے ایک جلسے کے بعد کہا تھا کہ زندگی میں یہ بچہ اعزاز پائے گا حالانکہ اس وقت محترم محمود صاحب جامعہ کے تیسرے چوتھے سال کے طالبعلم تھے۔ اکرم صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار کو آپ کی صدارت خدام الاحمدیہ کے دور میں ان کی عاملہ میں پانچ سال تک خدمت کی توفیق ملی۔ نہایت باریک بین، زیرک، معاملہ فہم انسان تھے۔ انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نہایت شفیق اور محبت کرنے والی ہستی تھی۔ خود بھی محنتی تھے اور عاملہ سے بھی محنت کی توقع رکھتے تھے۔ نہایت دلیر تھے۔ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک شریر فطرت افسر ربوہ پر مسلط کر دیا گیا تو اس نے بعض نامناسب روکیں پیدا کردیں۔ محمود صاحب بحیثیت صدر مجلس خدام الاحمدیہ اس کے دفتر گئے اور ایسے رعب اور دبدبے سے بات کی کہ خوف سے اس نے ان رکاوٹوں کو دور کر دیا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کام کے دوران کبھی بھی انہیں جماعتی کار اپنے ذاتی کام یا فیملی کے لئے استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ ربوہ میں بالعموم پیدل یا سائیکل پر تقریبات میں شرکت کرتے۔ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ غیر احمدی لوگوں سے احمدی نوجوان بہتر ہیں۔ آپ نے کہا کہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصدنہیں تھا کہ دوسروں کے ساتھ اپنی نسبت تلاش کرتے پھرو یا ان سے مقابلہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ ہر احمدی کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں اور اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے۔
بنگلہ دیش کے ظفر احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بنگلہ دیش میں ان کے قیام کے دوران ان کی خدمت کی توفیق پائی، جب یہ گزشتہ سال گئے ہوئے تھے۔ محمود احمد صاحب بہت ہی سادہ طبیعت کے اور ملنسار انسان تھے۔ نمازوں کے لئے بروقت مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔ بیماری کے باوجود باقاعدگی سے تہجد پڑھتے تھے۔ مہمان خانے میں ان کے قیام کے دوران ان کی ہدایت تھی کہ جو بھی ملنا چاہیں انہیں روکنا نہیں۔ ذاتی خرچ پر ان کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ مریضوں کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس طرح کی خصوصیات تو بہت ساروں نے لکھی ہیں کہ جو پہلے دن سے تھے آخر تک وہ رہے۔
مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد لندن لکھتے ہیں کہ نہایت مخلص، دیندار، خاکسار اور بے ریا انسان تھے۔ کہتے ہیں 2004ء میں مجھے ایک ماہ کے لئے آسٹریلیاجانے کا موقع ملا تو اس دوران ان کی بے شمار خوبیوں سے آگاہی ہوئی۔ سر فہرست ان کی خلافت سے محبت اور اطاعت تھی۔ صبح کی سیر میں اکثر اس موضوع پر بات ہوتی۔ جماعت کی ترقی اور جماعتی کاموں میں شمولیت اور وابستگی پر بات ہوتی۔ اس بات کا بڑے درد سے ذکر کرتے کہ ابھی بہت کمزوریاں ہیں۔ دوروں پر جاتے ہوئے مجھے ہر جماعت کے حوالے سے بتا دیتے کہ انہیں کن کن امور کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
خالد احمد صاحب جو ہمارے رشین ڈیسک کے انچارج ہیں۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ سے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد محمود صاحب کی محبت نہایت درجہ عقیدت میں تبدیل ہو گئی اور ذکر سے ہی چہرے پر انکساری اور عاجزی اور خلوص پھوٹ جاتا تھا۔ پھر یہ کہتے ہیں اور واقعی یہ صحیح کہتے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ فی زمانہ آپ کے مقام و مرتبہ کے مخلص، عاجز، متقی، درویش صفت، ہمدرد، خلافت کے فدائی بہت کم ہوں گے۔
ایک عزیز نے لکھا کہ وہ امیر صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آسٹریلیا کے ہی کسی فرد جماعت کا فون آیا جو اپنی بات منوانا چاہتا تھا اور اس میں کچھ سختی کے الفاظ بھی استعمال کر رہا تھا کہ میں ٹھیک ہوں۔ محمود صاحب نے اسے سمجھایا تو وہ اور زیادہ غصہ میں آگیا کہ میں پھر خلیفہ وقت کو آپ کی رپورٹ کروں گا۔ خیر جب بات ختم ہوئی تو بڑے افسوس سے کہنے لگے کہ یہ لوگ غلطیاں خود کرتے ہیں اور پھر خلیفہ وقت کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ تو جیسا کہ میں نے کہا کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ غلطی کی وجہ سے خلیفہ وقت سے کیا سرزنش ہو گی۔ جو حق تھا تمام معاملہ انصاف کے ساتھ پیش کر دیا کرتے تھے۔ نوجوانوں کو سمجھاتے رہتے تھے کہ ہم تو مہرے ہیں۔ یہ خدا کی جماعت ہے خود معاملات سنبھالتا چلا جارہا ہے۔ اگر تمہیں موقع مل رہا ہے تو موقع سے فائدہ اٹھاؤ۔ ان کی جو جماعتی خدمات ہیں وہ زعامت ناصر ہوسٹل سے انہوں نے شروع کی تھیں۔ پھر 77ء سے 79ء تک مہتمم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ رہے۔ پھر سالانہ اجتماع 79ء کے موقع پر آپ کو صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی اعلیٰ ذمہ داری تفویض ہوئی۔ 1979-80ء سے اٹھاسی انانوے تک تقریباً دس سال صدر خدام الاحمدیہ رہے۔ خدام الاحمدیہ کے آخری صدر تھے جو بین الاقوامی تھے جیسا کہ میں نے بتایا۔ پھر اس کے بعد سے علیحدہ علیحدہ تنظیمیں ہو گئیں۔ شعبہ اصلاح و ارشاد میں خدمت کی توفیق پائی۔ خلافت رابعہ میں جب مرکزی شعبہ سمعی بصری کا قیام عمل میں آیا تو نومبر 1983ء میں اس کی نگرانی آپ ہی کے سپرد ہوئی۔ 84ء میں بطور وکیل سمعی بصری تحریک جدید میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس کے بعد یہ شعبہ بھی تحریک جدید میں ختم ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ شاید ختم نہیں ہو گیا بلکہ ایم ٹی اے کے بعد اس نے کام نہیں کیاکیونکہ اس وقت یہ کیسٹ پہنچانے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ پھر ایم ٹی اے نے یہ کام سنبھال لیا۔ 28؍ جون 1991ء سے لے کر تا دمِ آخر آسٹریلیا کے امیر کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔
اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ یقینا بے نفس اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ جماعت کی خدمت کرنے والے بزرگ تھے۔ نہ اپنی صحت کی پرواہ کی نہ کسی روک کو جماعتی کام میں سامنے آنے دیا۔ میرے گزشتہ دورہ آسٹریلیا کے دوران باوجود اس کے کہ انتہائی تکلیف میں تھے ہر کام کی نگرانی کرتے رہے۔ میں جب جہاز سے باہر آیا ہوں تو یہ سامنے کھڑے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر بڑی فکر پیدا ہوئی۔ کمر کی ان کو شدید تکلیف تھی۔ ان کی ریڑھ کی جو ہڈی تھی وہ کافی خراب ہو چکی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق تو ایسے مریض کو آرام کرنا چاہئے لیکن انہوں نے آرام نہیں کیا کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے تو میں کس طرح آرام سے بیٹھ سکتا ہوں۔ ائیر پورٹ سے باہر آ کے کار میں بیٹھتے ہوئے نائب امیر ناصر صاحب ہماری کار ڈرائیو کر رہے تھے ان کو میں نے کہا کہ محمود صاحب تو مجھے بہت زیادہ کمزور اور بوڑھے لگے ہیں۔ اس وقت مجھے ان کی تکلیف کا اندازہ نہیں تھا۔ یہ تو تفصیل بعد میں مجھے پتہ لگی۔ وہاں کے ڈاکٹر سے بات کی تو پتا چلا کہ کس طرح یہ شخص اتنی شدید تکلیف میں اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر چل پھر رہا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ تمام امور کی جو دورے سے متعلقہ تھے نگرانی بھی کر رہے تھے۔ ایک دن اسی تکلیف کے ساتھ دورے کے دوران ان کا بلڈ پریشر بھی بہت بڑھ گیا۔ خیال یہ ہوا کہ سٹروک نہ ہو یا دل کا حملہ نہ ہو۔ حالت انتہائی خراب تھی۔ ہسپتال لے کر گئے۔ چند گھنٹے ہسپتال میں رہے پھر بہرحال ہسپتال والوں نے گھر آنے کی اجازت دے دی۔ اور اس مرد مجاہدنے گھر آتے ہی پھر دوبارہ کام شروع کر دیا۔ ایک شہر میں میرے ساتھ دورے پر نہیں جاسکے تو اس کا بڑے غم سے ذکر کرتے تھے۔ دوسری جگہ تکلیف کے باوجود بھی گئے۔ باوجود اس کے کہ میں نے کہا نہ جائیں لیکن یہ ساتھ گئے اور تمام پروگرام جو بڑے hectic اور سخت پروگرام تھے اس میں یہ ساتھ ساتھ رہے۔ ہر وقت موجود رہے نگرانی کرتے رہے۔ اپنی فکر بھول کر میری فکر تھی کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور تمام پروگرام باحسن ہو جائیں۔ اور صرف یہی نہیں کہ میری فکر تھی بلکہ جو میرے قافلے کے افراد تھے ان کی بھی فکر تھی۔ ان کا بھی خیال رکھا۔ بار بار اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ تم لوگوں کا صحیح خیال نہیں رکھ سکا۔ اور یہ فکر صرف اس وجہ سے تھی کہ قافلے کے افراد کی وجہ سے خلیفہ وقت کو تکلیف نہ ہو بلکہ مجھے تو دوران دورہ ان کی فکر رہی کہ ان کی طبیعت خراب نہ ہو جائے۔ بہر حال دورے کے دوران ہی ان کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ کافی بہتر ہو گئی۔ گزشتہ دنوں ان کا جلسہ ہوا، شوریٰ ہوئی اس میں انہوں نے بھر پور حصہ لیا۔
میں نے خدام الاحمدیہ میں بھی ان کے ماتحت کام کیا ہے۔ بڑے کھلے ہاتھ سے اپنے ماتحتوں سے کام لیا کرتے تھے۔ کام کرنے کا ان کو موقع دیتے تھے اور پھر قدردانی بھی کیا کرتے تھے۔ اور خلافت کے بھی ایسے سلطان نصیر کہ جس کی مثالیں کم کم ملتی ہیں اس کا تو میں نے شروع میں ہی ذکر کر دیا ہے۔ ان کے جانے سے گو آسٹریلیا جماعت میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے لیکن الٰہی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ خود سنبھالتا ہے اور ان خلاؤں کو خود پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان جیسے سلطان نصیر ہمیشہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہے جو خلافت کے باوفا بھی ہوں، جاں نثار بھی ہوں اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہلیہ اور بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو اور انہیں بھی توفیق دے کہ اپنے باپ کی طرح ایمان و ایقان میں مضبوط ہوں اور خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی توفیق دے کہ اپنے ماں کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ ابھی نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے گا وہی برکت حاصل کرے گا۔
ہر انسان نے ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے لیکن کتنے خوش قسمت ہیں وہ انسان جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب عہد کرتے ہیں تو عہدوں کو نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں جو پہلے دن سے تھے آخر تک وہ رہے۔
انہوں نے ہر ایک کو ڈیوٹیاں سپرد کر کے ذمہ دار بنایا اور ان سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا اور یہی ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کی خوبی ہے جس پر باقیوں کو بھی عمل کرنا چاہئے۔
کامیابی … خلیفہ وقت کی دعائیں حاصل کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔
عہدیداروں کے لئے بھی سبق: (انہیں ) استغفار اور درود بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ عاجزی ہمیشہ قائم رہے اور خدمت کی توفیق اللہ تعالیٰ صحیح رنگ میں عطا فرماتا رہے۔
ان کے جانے سے گو آسٹریلیا جماعت میں ایک خلا پیدا ہوا ہے لیکن الٰہی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ خود سنبھالتا ہے اور ان خلاؤں کو خود پورا کرتا ہے۔ ان جیسے سلطان نصیر ہمیشہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہے جو خلافت کے باوفا بھی ہوں، جاں نثار بھی ہوں اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔
ایک انتہائی پیاری شخصیت، ایک خاص مقام رکھنے والے فدائی خادم سلسلہ، خلفائے وقت کے سلطان نصیر، خلافت کے لیے انتہائی غیرت رکھنے والے، با وفا، جان نثار، اطاعت گزار، خاموش طبع، دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھنے والے، باعمل، بے نفس اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ جماعت کی خدمت کرنے والے بزرگ محترم محمود احمد صاحب شاہد امیر جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی وفات، ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ مورخہ 25؍اپریل 2014ء بمطابق 25شہادت 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔