اللہ تعالیٰ کے قرب کی حقیقت، اہمیت اور حاصل کرنے کے بعض طریق
خطبہ جمعہ 2؍ مئی 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے میں گزشتہ خطبات میں معرفتِ الٰہی کے طریق محبت الٰہی کے طریق اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقت کا بیان کرتا رہا ہوں۔ آج آپ علیہ السلام کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے آپ کے اس علمی خزانے میں سے چند حوالے پیش کروں گا جن میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے قرب کی حقیقت، اس کی اہمیت، اس کو حاصل کرنے کے بعض طریق اور اپنی جماعت سے اس کے حصول کے لئے توقعات کا اظہار فرمایا ہے۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے تو اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے کہ اصل نیکی خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور اس کی طرف سے ہی نیکی آتی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی تعلیم کو اختیار کرنے سے ملتی ہے اور نتیجۃً خدا تعالیٰ کے انعامات اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’حقیقی طور پر بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں۔ تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلم ہیں۔ پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہوکر اس ذات خیر محض کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاقِ الٰہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں …‘‘ (یعنی جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت یعنی چاہت اور پسند سے بالا ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی کوشش کرتا ہے تو پھر اسے اس کا قرب حاصل ہو جاتا ہے اور اخلاق الٰہیہ جو ہیں اس کے نفس پر منعکس ہوتے ہیں۔ جب انسان اپنے نفس سے بالا ہو، انسان اپنی پسندوں کوچھوڑے، اللہ تعالیٰ میں ڈوبنے کی کوشش کرے تو پھر یہ نتیجہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں، اللہ تعالیٰ کے جو رنگ ہیں اس میں انسان رنگین ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو گا اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق ملتی چلتی جائے گی، بڑھتی چلی جائے گی۔)
فرمایا: ’’…پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور سچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہٖ کچھ چیز نہیں ہے۔ سو اخلاق فاضلہ الٰہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں …‘‘ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق فاضلہ ہیں اسی کے دل پر منعکس ہوتے ہیں، انہیں سے ان کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے اسی کی جو قرآن شریف کی مکمل اور کامل پیروی کرتے ہیں اتباع کرتے ہیں۔ فرمایا: ’’…اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگرچہ منہ سے ہر یک شخص دعویٰ کرسکتا ہے اور لاف و گذاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجربہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلّف اور تصنّع سے ظاہر کرتے ہیں …‘‘ (جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہے قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی سے ہی ایسے اخلاق ظاہر ہوں گے۔ دوسری دنیا میں یا اس کے علاوہ اگر کوئی اخلاق فاضلہ ظاہر کرتا ہے یا بظاہر اخلاق ظاہر ہو رہے ہیں تو تکلف ہے، تصنع ہے، بناوٹ ہے۔)
فرمایا: ’’… اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں …‘‘ (ان کے اوپر جو گند ہیں، زنگ لگے ہوئے ہیں ان کو انہوں نے چھپایا ہوتا ہے، اخلاق اصل میں نہیں ہوتے وہ ظاہری لیپا پوتی ہوتی ہے، بناوٹ ہوتی ہے، تصنع ہوتی ہے۔
فرمایا: ’’… اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں …‘‘ (سب کچھ انہوں نے چھپایا ہوتا ہے۔) ’’… اور ادنیٰ ادنیٰ امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے…‘‘ (جب امتحان آتا ہے، آزمایا جاتا ہے تو قلعی کھل جاتی ہے۔ ذاتی مقدمے ہوتے ہیں تو اس وقت پتا لگ جاتا ہے کہ کتنے پانی میں ہیں۔ جھوٹ اور سچ اور اخلاق سب ظاہر ہو جاتے ہیں۔ یہ پتا لگ جاتا ہے کہ جھوٹ کتنا ہے۔ سچ کو کتنا چھپایا جا رہا ہے یہ پتا لگ جاتا ہے۔ اخلاق کس حد تک دکھائے جا رہے ہیں یہ پتا لگ جاتا ہے۔ اور یہ نہ بھی ہو تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ ایک دفعہ بڑے پڑھے لکھوں کی ایک جگہ ایک مجلس میں جو ظاہری طور پر سوسائٹی کے بڑے سرکردہ بنے پھرتے تھے، ان کی مجلس میں فیصلہ ہوا کہ آج بے تکلف مجلس ہونی چاہئے اور آپ کہتے ہیں اس بے تکلفی کا معیار یہ تھا کہ جو کچھ بیہودگیاں ہو سکتی تھیں وہ کی گئیں۔ تو وہاں ان سب کی قلعی کھل جاتی ہے۔
فرمایا: ’’… اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں …‘‘ (یہ تکلف اور تصنع اور اخلاق کیوں دکھائے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ ان کی جو دنیا ہے، جو دنیاوی باتیں ہیں، معاشرہ ہے اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ چیزیں دکھانی ضروری ہیں۔ اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔ اس لئے دکھایا جاتا ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔)
فرمایا: ’’…اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے…‘‘جو ان کے دلوں میں گندگی اور آلائشیں شامل ہوئی ہوئی ہیں اگر اس کی پیروی کریں، اس کے پیچھے چلیں تو جو کچھ ان کے دنیاوی کام ہیں وہ پھر متاثر ہوں گے، ان میں خلل پڑے گا۔ اس لئے یہ اخلاق دکھانے کا مقصد صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے نہ کہ اخلاق کو لاگو کرنا۔ اخلاق پر عمل کرنا اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اخلاق اس لئے دکھانا کہ دوسرے کا فائدہ ہو، (یہ مقصدنہیں ہوتا)۔
فرمایا: ’’…اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزشِ اغراضِ نفسانی کے خالصاً للہ ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصاً للہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہورہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریّت کی لوث سے بکلّی خالی پاکر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے…‘‘ (وہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور جو غیریت کی آلودگی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی آلودگی ہے وہ اس سے بالکل پاک ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اخلاق ان میں بھر دیتا ہے۔) ’’…اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کردیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں۔ پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہوجاتے ہیں جس کی توسّط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پاکر وہ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے…‘‘ (یعنی اخلاق کا، روحانیت کا ایک میٹھا پانی پلاتا ہے۔) (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ542۔ 541حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پھر ایک جگہ قرب الٰہی کے طریق کے بارے میں فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ دھوکا کھانے والا نہیں۔ وہ انہیں کو اپنا خاص مقرب بناتا ہے جو مچھلیوں کی طرح اس کی محبت کے دریا میں ہمیشہ فطرتاً تیرنے والے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی کی اطاعت میں فنا ہو جاتے ہیں۔ پس یہ قول کسی سچے راستباز کا نہیں ہو سکتا…‘‘ (جو بعض مذہبوں کے بعض لوگوں کا اس کے بارہ میں نظریہ ہے۔) ’’کہ خدا تعالیٰ کے سوا درحقیقت سب گندے ہی ہیں اور کوئی نہ کبھی پاک ہوا نہ ہوگا…‘‘۔ فرمایا: ’’…گویا خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عبث پیدا کیا ہے بلکہ سچی معرفت اور گیان کا یہ قول ہے کہ نوع انسان میں ابتدا سے یہ سنت اللہ ہے کہ وہ اپنی محبت رکھنے والوں کو پاک کرتا رہا ہے۔ ہاں حقیقی پاکی اور پاکیزگی کا چشمہ خدا تعالیٰ ہی ہے۔ جو لوگ ذکر اور عبادت اور محبت سے اس کی یاد میں مصروف رہتے ہیں خدا تعالیٰ اپنی صفت ان پر بھی ڈال دیتا ہے تب وہ بھی اس پاکی سے ظلی طور پر حصہ پا لیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات میں حقیقی طور پر موجود ہے‘‘ (ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 210)
پھر آپ نے فرمایا کہ یہ اخلاق فاضلہ اور نیکیاں اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا جو وسیلہ اور نمونہ اور تعلیم خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیراتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اُس امام الرّسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے‘‘ (ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170)
پھر اسلام کی حقیقت کیا ہے اور ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کا قرب کس معیار تک پہنچاتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ
’’اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا۔ اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضاء میں محو ہو جانا۔ اور خدا میں گُم ہو کر ایک موت اپنے پروارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا نہ کسی اور بناء پر۔ اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں۔ اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو۔ اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو۔ یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قویٰ اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں۔ …‘‘ (سلوک کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کر کے ہر قسم کی مشکلات میں سے بھی گزرے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔)
پھر فرمایا: ’’…اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اُس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اس کی کُنہ تک نہیں پہنچتیں وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے۔ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(ق: 17)۔ یعنی ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اُس سے نزدیک ہیں۔ پس ایسا ہی وہ اپنے قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے۔ تب وہ وقت آتا ہے کہ نابینائی دُور ہوکر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے خدا کو اُن نئی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور اُس کی آواز سنتا ہے اور اس کی نُور کی چادر کے اندر اپنے تئیں لپٹا ہوا پاتا ہے۔ تب مذہب کی غرض ختم ہو جاتی ہے اور انسان اپنے خدا کے مشاہدہ سے سفلی زندگی کا گندہ چولہ اپنے وجود پر سے پھینک دیتا ہے۔ …‘‘ (جو گندی زندگی ہے، گندہ چولہ ہے، اس گندگی کا، دنیاوی چیزوں کا جو لباس پہنا ہوا ہے، وہ انسان پھینک دیتا ہے۔ جب اُسے اللہ تعالیٰ کا اتنا قرب حاصل ہو جائے۔ ) ’’…اور ایک نور کا پیراہن پہن لیتا ہے۔ …‘‘ (ایک نیا لباس پہنتا ہے جو نور ہوتا ہے) ’’…اور نہ صرف وعدہ کے طور پر اور نہ فقط آخرت کے انتظار میں خدا کے دیدار اور بہشت کا منتظر رہتا ہے بلکہ اسی جگہ اور اِسی دنیا میں دیدار اور گفتار اور جنت کی نعمتوں کو پا لیتا ہے۔‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 160۔ 161)
پھر استغفار کی دو قسموں کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے…‘‘ ہر وقت استغفار اس لئے چاہنا کہ ایک دل میں خدا ہی ہر وقت یاد رہے اور انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مضبوط ہوتا جائے۔ یہ استغفار تو مقربوں کا ہے۔ ’’…جو ایک طرفۃ العین خدا سے علیحد ہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں …‘‘ یعنی ایک لمحہ کے لئے بھی خدا سے علیحدہ ہونا سمجھتے ہیں کہ ہماری تباہی ہو جائے گی۔ ’’…اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیاہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ346۔ 347)
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی پہچان کے کئی مرتبے ہیں۔ مگر سب سے اعلیٰ مرتبہ قرب الٰہی کا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی صحیح رنگ میں پہچان ہوتی ہے۔ اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ میں نے سچی خوابیں دیکھ لی ہیں یا کوئی کشف مجھے ہو گیا یا الہام ہو گیا۔ الہام تو بلعم کو بھی ہو گیا تھا لیکن اس نے اس کے باوجود ٹھوکر کھائی۔ اس لئے قرب کی تلاش کرو اور قرب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے جڑ کر ہی ملتا ہے جس سے مسلسل اللہ تعالیٰ اس کو اپنے نور سے فیضیاب فرماتا رہتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی رضا بندے کا مقصود ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’خدا نور ہے جیسا کہ اس نے فرمایا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (النور: 36)۔ پس وہ شخص جو صرف اس نور کے لوازم کو دیکھتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو دور سے ایک دھوا ں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اِسلئے وہ روشنی کے فوائد سے محروم ہے…‘‘ (روشنی کے فوائد تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا میں ڈوب جانے سے ملتے ہیں)۔ فرمایا کہ ’’…اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریّت کی آلودگی کو جلاتی ہے۔ …‘‘ فوائد سے بھی محروم ہے اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریت کی آلودگی کو جلاتی ہے۔ انسان کے بشری تقاضے ہونے کے جو بعض گند ہیں جنہوں نے اس کو گھیرا ہوا ہے، اس گرمی سے بھی محروم رہتا ہے، اس آگ سے محروم رہتا ہے جو ان گندوں کو جلاتی ہے۔ فرمایا کہ ’’…پس وہ لوگ جو صرف منقولی یا معقولی دلائل یا ظنّی الہامات سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل پکڑتے ہیں جیسے علماء ظاہری یا جیسے فلسفی لوگ اور یا ایسے لوگ جو صرف اپنے روحانی قویٰ سے جو استعداد کشوف اور رؤیا ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کو مانتے ہیں مگر خدا کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں …‘‘ (اب اس میں یہ فرمایا کہ ان کے پاس منقولی اور عقلی دلائل بھی ہیں۔ الہامات پر یا بعض دفعہ خوابوں پر ظن کرتے ہوئے ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر اور وجود پر یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ علماء ظاہری اسی چیز کی وجہ سے خدا کو مانتے ہیں یا ایسے فلسفی یا وہ لوگ جن کی روحانیت اس حد تک ہے کہ ان میں بعض کشف اور رؤیا صالحہ کی استعدادیں بھی موجود ہوتی ہیں اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر ان سب چیزوں کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں۔ فرمایا کہ) ’’…وہ اس انسان کی مانند ہیں جو دور سے آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی کو نہیں دیکھتا اور صرف دھوئیں پر غور کرنے سے آگ کے وجود پر یقین کر لیتا ہے‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 14)
پھر قرب کے مدارج کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ
’’چونکہ مدارج قرب اور تعلق حضرت احدیت کے مختلف ہیں …‘‘اللہ تعالیٰ سے ملنے کے جو قرب اور تعلق کے درجے ہیں وہ مختلف ہیں۔ ’’…اس لئے ایک شخص باوجود خدا کا مقرب ہونے کے جب ایسے شخص سے مقابلہ کرتا ہے جو قرب اور محبت کے مقام میں اس سے بہت بڑھ کر ہے تو آخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص جو ادنیٰ درجہ کا قرب الٰہی رکھتا ہے نہ صرف ہلاک ہوتا ہے بلکہ بے ایمان ہوکر مرتا ہے جیسا کہ موسیٰ کے مقابل پر بلعم باعور کاحال ہوا۔ …‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 349) اور آپ نے فرمایا کہ اس قرب کے مقام کا جو سب سے اعلیٰ درجہ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام دیا ہے۔ آج اس زمانے میں اب جو آپ علیہ السلام سے علیحدہ ہو کر اس قرب کی تلاش کرے گا اس کا انجام پھر بلعم جیسا ہی ہو گا۔
پھر آپ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب قرآن کریم کی پیروی سے ملتا ہے اور ایسا قرب پانے والے کے لئے خد اتعالیٰ پھر نشانات دکھاتا ہے۔ زبانی جمع خرچ نہیں ہوتا۔
فرمایا کہ ’’ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے جیسا کہ اُس نے لیکھرام پر ظاہر کیا اور اس کی موت ایسی حالت میں ہوئی کہ وہ خوب سمجھتا تھا کہ خدا نے اُس کی موت سے اسلام کی سچائی پر مہر لگا دی۔ غرض اس طرح پر خدا اپنے زندہ تصرفات سے قرآن شریف کی پیروی کرنے والے کو کھینچتا کھینچتا قرب کے بلند مینار تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 309)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’یہ بات بھی خوب یاد رکھنی چاہئے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے۔ دُنیا میں دیکھ لو۔ اعلیٰ درجہ کی نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کے لئے منفعت اور فائدے سے خالی ہو۔ یہ تمام اشیاء خوا وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظلال اور آثار ہیں اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے، تو بتلاؤکہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہو گا۔ اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے ان اشیاء سے کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں تو اپنی غلطی اور نافہمی کی وجہ سے۔ اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مضرّت ہی ہے۔ …‘‘ (یعنی ان چیزوں کے اندر سوائے نقصان کے اور کچھ ہے ہی نہیں۔) ’’… نہیں بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے…‘‘ (انسان نقصان اٹھاتا ہے۔ اگر کسی چیز میں نقصان پہنچے۔) فرمایا: ’’… اسی طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے۔ دُنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی ایک راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی سوئِ فہم اور قصورِ علم کی وجہ سے مبتلائے مصائب ہوتے ہیں۔ …‘‘ (صحیح طرح ہم کسی بات کو سمجھ نہیں سکتے یا ہمیں علم نہیں ہوتا اس وجہ سے مصیبتوں اور مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔) فرمایا: ’’… پس اس صفاتی آنکھ کے روزن سے ہی ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اور حد سے زیادہ قیاس سے باہر نافع ہستی پاتے ہیں اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہو جاتا ہے اور یہ درجہ اُن لوگوں کو ہی ملتا ہے جومتّقی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں۔ جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دور ہوتا جا تا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل ودماغ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (البقرۃ: 19) کا مصداق ہو کر ذلّت اور تباہی کا مَوردْ بن جاتا ہے، مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ورانسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزّت پاتا ہے ؛چنانچہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر: 29-28)…‘‘ (یعنی اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ) ’’…یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خداکے ساتھ پایا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ69۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
آپ نے اس کی یہ وضاحت بھی فرمائی کہ بعض لوگ بظاہر حکومت سے کچھ حاصل کر کے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کے اطمینان کا ذریعہ ان کی اولاد اور رشتے دار اور ارد گرد کے لوگ ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ جو ہے یہ سچا اطمینان مہیا نہیں کر سکتا بلکہ پیاس کے مریض کی طرح جوں جوں ان لوگوں سے یہ بظاہر اطمینان حاصل کر رہے ہوتے ہیں پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے، تسلی نہیں ہوتی۔ آخر انسان کو یہ بیماری ہلاک کر دیتی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس بندے نے خدا تعالیٰ کا قرب پا کر یہ اطمینان حاصل کیا ہے اس کے پاس بے انتہا دولت بھی ہو تو وہ اس کی خدا تعالیٰ کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتا۔ دنیا اس کا مقصودنہیں ہوتی۔ وہ اصل راحت کی تلاش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ تمام راحت انسان کی خدا تعالیٰ کے قرب اور محبت میں ہے اور جب اس سے علاقہ توڑ کر دنیا کی طرف جھکے تو یہ جہنمی زندگی ہے۔ اور اس جہنمی زندگی پر آخر کار ہر یک شخص اطلاع پا لیتا ہے اور اگرچہ اس وقت اطلاع پاوے جبکہ یکدفعہ مال و متاع اور دنیا کے تعلقات کو چھوڑ کر مرنے لگے۔‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 158)
بہر حال کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وقت یہ اطلاع مل جاتی ہے کہ دنیا جہنمی ہے۔ چاہے مرتے وقت ہی انسان کو اس کی اطلاع ہو۔ پھر فرمایا کہ
’’اعلیٰ درجے کی خوشی خدا میں ملتی ہے۔ جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے۔ جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں …‘‘ (یعنی چھپی ہوئی چیز کو جنت کہتے ہیں) ’’…اور جنّت کو جنّت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تردّد منسوب ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ (التوبۃ: 72) ہی رکھا ہے۔ انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردّد میں ہوتا ہے، مگر جس قدر قرب الٰہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے رنگین ہوتا جاتا ہے، اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے جس قدر قرب الٰہی ہو گا لازمی طور پر اسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گا اور رفع کے معنے اسی پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 396۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
خدا کا قرب پانے کی کوشش کرنے والوں کے انجام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سرچشمہ قرب الٰہی سے اپنا اجر پائے گا اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ یعنی جو شخص اپنے تمام قویٰ کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے۔ اور حقیقی نیکی بجالانے میں سرگرم رہے، سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حزن سے نجات بخشے گا۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 344)
پھر دعا جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ
’’دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے…‘‘ دعا کی جو صحیح جگہ ہے وہ نماز ہے۔ یہی حقیقت میں صحیح دعا ہو سکتی ہے۔) فرمایا کہ ’’… جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے۔ …‘‘ (نماز میں راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے) ’’کہ جس کے مقابل ایک عیّاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے ہیچ ہے۔ بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔ دُعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 45۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے نمازوں کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور وہ حق تبھی ادا ہو گا جب اس کی ادائیگی باقاعدہ کی جائے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس طرح کی جائے۔
پھر نمازوں اور دعاؤں کے معیار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید آپ فرماتے ہیں کہ
’’انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔ خدا تعالیٰ مہلت اس لیے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اُسے وہ کیا کرے۔ پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لیے دل کا رجوعِ تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے۔ …‘‘ (دل کا مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا ضروری ہے۔) ’’…اب دیکھو کہ ہزاروں مساجد ہیں۔ مگر سوائے اس کے کہ ان میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟ ایسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے اور دل کا حقیقی میلان جو کہ عبادت کی رُوح ہے ہرگز نہ تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت کی۔ پس اس وقت بھی جو لوگ پاکیز گیٔ قلب کی فکر نہیں کرتے تو اگر رسم و عادت کے طور پر وہ سینکڑوں ٹکریں مارتے ہیں ان کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اعمال کے باغ کی سرسبزی پاکیزگیٔ قلب سے ہوتی ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خاَبَ مَنْ دَسَّھَا (الشمس: 10۔ 11) کہ وہی بامراد ہو گا جو کہ اپنے قلب کو پاکیزہ کرتا ہے اور جو اُسے پاک نہ کرے گا بلکہ خاک میں ملا دیگا یعنی سفلی خواہشات کا اُسے مخزن بنا رکھے گا وہ نامراد رہے گا۔ اس بات سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ خدا کی طرف آنے کے لئے ہزار ہا روکیں ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو آج صفحہ دُنیا پر نہ کوئی ہندو ہوتا نہ عیسائی۔ سب کے سب مسلمان نظر آتے لیکن ان روکوں کو دُور کرنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ وہی توفیق عطا کرے تو انسان نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس لئے آخر کار بات پھر اسی پر آٹھہرتی ہے کہ انسان اسی کی طرف رجوع کرے تا کہ قوّت اور طاقت دیوے۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ 222۔ 223۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے توبہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوتا ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کو مل سکے۔ جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خداتعالیٰ کے قرب میں اسے ملنی تھی اس سے پرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے آفتوں اور بلاؤں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہانتک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پا لیتا ہے اور اُسے ہلاک کر دیتا ہے۔ لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہواہے۔ اگر انسان اس سے فائدہ اٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کوپاسکتاہے۔ وہ سامان کیا ہے؟ رجوع الی اﷲ یا سچی توبہ۔ …‘‘ (یہ سچی توبہ وہ سامان ہے۔) فرمایا کہ ’’… خدا تعالیٰ کا نام توّاب ہے۔ وہ بھی رجوع کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے۔ …‘‘ (گناہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے دور ہو جاتا ہے۔ ) ’’…لیکن جب انسان رجوع کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اور کرم بھی جوش میں آتا ہے اور وہ اپنے بندہ کی طرف توجّہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے۔ اس لئے اس کا نام…‘‘ (اللہ تعالیٰ کا نام بھی) ’’… تواب ہے۔ …‘‘ (وہ بھی بندے کی طرف توبہ قبول کرتے ہوئے آتا ہے اس لئے اس کا نام تواب ہے۔) ’’…پس انسان کو چاہئے کہ اپنے ربّ کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 141۔ 142۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اسلام وہی طریق نجات بتاتا ہے جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ازل سے مقرر ہے اور وہ یہ ہے کہ سچے اعتقاد اور پاک عملوں اور اس کی رضا میں محو ہونے سے اس کے قرب کے مکان کو تلاش کیاجائے اور کوشش کی جائے کہ اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہو کیونکہ تمام عذاب خدا تعالیٰ کی دوری اور غضب میں ہے پس جس وقت انسان سچی توبہ اور سچے طریق کے اختیار کرنے سے اور سچی تابعداری حاصل کرنے سے اور سچی توحید کے قبول کرنے سے خدا تعالیٰ سے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسی کو راضی کر لیتا ہے تو تب وہ عذاب اس سے دور کیا جاتا ہے۔‘‘ (ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 275)
پھر قرب الٰہی کے حصول کے لئے عمومی طور پر اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے۔ خداوند کریم عمل صالح سے راضی ہو جاتا ہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے…‘‘ (اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔) ’’… مگر جس طرح شراب کے آخری گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں۔ جو شخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ ان برکات سے متمتع ہو جاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچاتا، وہ ان برکات سے محروم رہ جاتا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد 1صفحہ 600۔ مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوب نمبر 45)
فرمایا:
’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اس سے تسلّی پاتا ہے۔ اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اسے حاصل ہے؟ مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہو گئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے۔ پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ ان حملوں کو روکا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور روح پیدا کی جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 565۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
آپ نے فرمایا: ’’انسان کی عزت اسی میں ہے اور یہی سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہو۔ جب وہ خدا کا مقرّب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہزاروں برکات اس پر نازل کرتا ہے۔ زمین سے بھی اور آسمان سے بھی اس پر برکات اترتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیخ کنی کے لئے قریش نے کس قدر زور لگایا۔ وہ ایک قوم تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تنِ تنہا۔ مگر دیکھو! کون کامیاب ہوا۔ اور کون نامراد رہے۔
نصرت اور تائید خدا تعالیٰ کے مقرب کا بہت بڑا نشان ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 106۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ہمیں قرب حاصل کرنے کے معیار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے۔ بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ خائن اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مندنہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا ِ گِدّوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتے۔ ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دورہے۔ ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے۔ وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا۔ وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا۔ وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا۔ تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے۔ تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہوجاوے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13)
پھر خدا تعالیٰ اپنے مقربوں کے لئے کس طرح غیرت کا اظہار فرماتا ہے اور مخالفوں کو کس طرح ختم کرتا ہے، اس بارے میں آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ پھر کس طرح غیرت دکھاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’پس جس وقت توہین اور ایذا کا امر کمال کو پہنچ گیا اور جو ابتلا خدا کے ارادہ میں تھا وہ ہو چکا۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ کی غیرت اس کے دوستوں کیلئے جوش مارتی ہے۔ اور خدا ان کی طرف دیکھتا ہے اور ان کومظلوم پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ ظلم کئے گئے اور گالیاں دئیے گئے اور ناحق کافر ٹھہرائے گئے اور ظالموں کے ہاتھوں سے دکھ دئیے گئے۔ پس وہ کھڑا ہوتا ہے تا کہ ان کے لئے اپنی سنت پوری کرے اور اپنی رحمت کو دکھلائے اور اپنے نیک بندوں کی مدد کرے۔ پس ان کے دلوں میں ڈالتا ہے تا کہ پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔ اور صبح شام اس کی جناب میں تضرّع کریں اور اسی طرح اس کی سنت اس کے مقربین کی نسبت جاری ہے۔ پس آخرکار دولت اور مدد ان کے لئے ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ ان کے دشمنوں کو شیروں اور پلنگوں کی غذا کر دیتا ہے…‘‘ (شیروں اور چیتوں کی غذا کردیتا ہے) ’’… اور اسی طرح مخلصوں میں سنت اللہ جاری ہے وہ ضائع نہیں کئے جاتے اور برکت دئیے جاتے ہیں اور حقیر نہیں کئے جاتے اور بزرگ کئے جاتے ہیں۔‘‘ (حجّۃاللّٰہ، روحانی خزائن جلد 12صفحہ198)
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہم نے دیکھا اور دشمنوں کو اس نے ذلیل و خوار کیا۔ ایک بار نہیں دو بار نہیں، بار بار کئی مرتبہ اور مختلف علاقوں میں، مختلف ملکوں میں دشمنان احمدیت کی ذلت اور رسوائی اور تباہی ہم نے دیکھی۔ پس آج بھی یہ نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ میں پھر افراد جماعت کو اور خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ مخالفین احمدیت کے خلاف خدا تعالیٰ کی لاٹھی چلے گی اور ضرورچلے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ چھوٹے پیمانے پر اس کے نظارے ہم دیکھتے بھی ہیں، دیکھتے رہتے ہیں لیکن اگر وسیع پیمانے پر جلد یہ نظارے دیکھنے ہیں تو پاکستان میں رہنے والے ہر احمدی اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہر احمدی کو خدا تعالیٰ سے قرب اور تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پس دنیا کو پیچھے دھکیلیں۔ خدا تعالیٰ سے قرب میں بڑھتے چلے جائیں اور اس کے بڑھتے چلے جانے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا یہ نظارے ہم جلد تر دیکھ سکیں۔ عمومی طور پر دنیا کے احمدیوں کو بھی خاص طور پر اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا میں شیطان کی حکومت کا جلد خاتمہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے مقربین کی حکومت دنیا میں قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کے کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی بھی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں۔
اصل نیکی خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور اس کی طرف سے ہی نیکی آتی ہے تمام اشیاء خواہ وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظلال اور آثار ہیں اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے تو بتلاؤ کہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہو گا۔
قرب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے جڑ کر ہی ملتا ہے جس سے مسلسل اللہ تعالیٰ اپنے نور سے اس کو فیضیاب فرماتا رہتا ہے۔
ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام دیا ہے۔ آج اس زمانے میں اب جو آپ علیہ السلام سے علیحدہ ہو کر اس قرب کی تلاش کرے گا اس کا انجام پھر بلعم جیسا ہی ہو گا۔
استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو، جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں، خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے
بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوتا ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے۔
عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے۔ خداوند کریم عمل صالح سے راضی ہو جاتا ہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کی حقیقت، اس کو حاصل کرنے کے بعض طریق اس کی اہمیت اور اپنی جماعت سے اس کے حصول کے لئے توقعات کا اظہار
اگر احمدیوں نے دشمن کی نامرادی کے نظارے وسیع پیمانے پردیکھنے ہیں تو پاکستان میں رہنے والے ہر احمدی اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہر احمدی کو خدا تعالیٰ سے قرب اور تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پس دنیا کو پیچھے دھکیلیں اور خداتعالیٰ سے قرب میں بڑھتے چلے جائیں۔ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 02؍مئی 2014ء بمطابق 02ہجرت 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔