جماعت احمدیہ کا ماٹو: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہ

خطبہ جمعہ 9؍ مئی 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ یہ نعرہ ہم خاص طور پر غیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ نعرہ اس بات کے جواب میں یا اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے لگاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ یا اس کے افراد دوسروں کے لئے بغض و کینہ رکھتے ہیں یا دوسروں کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھتے۔ یا غیر مسلموں کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہم یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ اسلام محبت پیار حسن سلوک اور دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لئے ان کی یہ بات ہی غلط ہے کہ اسلام ظلم و تعدی اور بربریت کا مذہب ہے یا پھر ہم یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ہم آپس میں نفرتوں کی دیواروں کو گرا کر پیار اور محبت سے رہتے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں۔ پس اگر ہم کسی بھی قسم کی خدمت انسانیت کرتے ہیں، ہم اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں دنیا کے ہر انسان سے محبت ہے اور ہم ہر ایک کے دل سے نفرتوں کے بیج ختم کر کے محبت اور پیار کے پودے لگانا چاہتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہمیں ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سکھایا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو راتوں کو دنیا کی ہمدردی اور محبت میں تڑپتے دیکھا ہے اور اس حد تک تڑپتے اور بے چین ہوتے اور سجدوں میں روتے دیکھا ہے کہ اس تڑپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما کر قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے، ان انسانوں کے لئے جو بغض و کینے سے پاک ہوں بطور ثبوت محفوظ فرما دیا تا کہ آئندہ آنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے سے پہلے اس تڑپ پر غور کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے جو مسلمان کہلاتے ہیں اس اسوہ حسنہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(الکھف: 7) پس کیا تو شدت غم کے باعث ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں۔ یہ جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ کس بات پر ایمان نہیں لاتے؟ اس بات پر کہ شرک نہ کرو، خدا کا بیٹا نہ بناؤ۔ جب ان کو کہا جاتا ہے تو اس پر ایمان نہیں لاتے۔ شرک ایک ایسا گناہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے معاف نہیں کرتا۔ پس یہ ہمدردی اور محبت ہے ہر انسان سے حتیٰ کہ مشرک کے ساتھ بھی کہ اسے سیدھے راستے پر لانے کے لئے جہاں عملی کوشش کی جائے وہاں اس کے لئے دعا بھی کی جائے۔

پس اگر احمدیوں کو ’’محبت سب سے‘‘ کا صحیح ادراک حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے آقا اور محسن انسانیت سے اس کے طریق سیکھنے ہیں اور یہ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب خود اپنی توحید کے معیاروں کو بھی ماپیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں محبت اور ہمدردی کے جذبات کی ایک اور مثال کہ جب قوم کی طرف سے ظلم و تعدی کی انتہا ہوتی ہے تو تباہی کی دعائیں نہیں کیں بلکہ یہ دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے۔ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ان کے فائدے کے لئے ہے۔ جب دوسرے قبیلے تنگ کرتے ہیں اور بددعا کے لئے کہا جاتا ہے تو تب بھی ایک موقع پر آپ نے یہی ہاتھ اٹھائے۔ لوگ سمجھے کہ بددعا ہوئی اور قبیلہ تباہ ہوا۔ آپ نے کہا کہ

اے اللہ دوس قبیلے کو ہدایت دے۔ (صحیح البخاری کتاب الجھاد و السیر باب الدعا للمشرکین بالھدیٰ لیتألفھم حدیث 2937)

پس محبت صرف اپنوں کے لئے اور ہمدردی صرف اپنوں سے ہی نہیں بلکہ دوسروں سے بھی محبت اور ہمدردی کے وہی معیار ہیں۔ صرف اور صرف ایک درد ہے کہ توحید کا قیام ہو جائے تا کہ دنیا تباہی سے بچ جائے۔ آج بھی دنیا میں ہزاروں قسم کا شرک پھیل چکا ہے اور نہ صرف شرک بلکہ خدا کے وجود سے ہی دنیا کا ایک بڑا حصہ انکاری ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کے لئے اور توحید کے قیام کے لئے ہمیں بھی اس چیز کو اپنانے کی ضرورت ہے جس کا سبق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونے سے ہمیں دیا ہے۔ ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ایک نعرہ ہم نے لگا لیا جسے دنیا پسند کرتی ہے اور اس بات پر مختلف جگہوں پر ہماری واہ واہ ہو جاتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نعرہ ایک ذریعہ ہے اس وسیع تر مقصد کے حصول کے لئے جس کی خاطر انسان کی پیدائش ہو ئی ہے۔ پس ہمارے انسانی ہمدردی کے کام، محبت کا پرچار اور اظہار اور عمل اور نفرت سے دوری اور نفرت سے صرف دوری ہی نہیں کرنی بلکہ نفرت سے ہمیں نفرت بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ہے، اس کی توحید کے قیام کے لئے ہے۔ اگر ہمیں نفرت ہے تو کسی شخص سے نفرت نہیں بلکہ شیطانی عمل سے نفرت ہے اور ہونی چاہئے۔ شیطانی عمل کرنے والوں سے بھی ہمیں ہمدردی ہے اور اس ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم انہیں اس گند سے باہر لائیں تا کہ انہیں خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں۔ دنیا داروں سے ہماری محبت اور ہمدردی دنیا داری کی خاطر نہیں ہے۔ ہم اپنے دلوں سے دنیا داروں کی نفرت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے، توحید کے قیام کے لئے، توحید کو اپنے دلوں میں پہلے سے بڑھ کر بسانے اور راسخ کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ دنیا کی نظر میں پسندیدہ بننے کے لئے صرف نعرے نہ لگائیں یا اظہار نہ کریں بلکہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے یہ نعرہ لگائیں۔ اس زمانے میں ہم وہ خوش قسمت جماعت ہیں جنہیں حضرت مسیح وموعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے، ہمدردیٔ خلق اور محبت کے اصول اپنانے کے لئے چنا ہے اور آپ نے ہمیں وہ اصول سکھائے اور تعلیم دی۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’دین کے دو ہی کامل حصے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا‘‘ (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 464)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفتِ مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 281)

ایک مجلس میں آپ نے فرمایا کہ

’’میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ کرو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 440مطبوعہ ربوہ)

یہاں پہلے جو فرمایا کہ ’’دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ کرو‘‘۔ اس سے یہ خیال آ سکتا ہے کہ جب نفرت کسی سے نہیں تو دشمنی کیسی۔ اس کا جواب بھی فرما دیا کہ جو مذہب کی وجہ سے دشمن ہیں، جو خود دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں تم ان کو ذاتی دشمن نہ سمجھو۔ تمہارے دل میں دشمنی ہے یا نہیں۔ جو بھی تمہارے سے دشمنی کرنے والے ہیں ان کی اصلاح کی کوشش تو کرو لیکن ذاتی دشمن بنا کر یا ذاتی دشمنی کا دل میں خیال لا کر پھر کینہ توزی کی عادت نہ ڈالو۔

نفرتوں کو دور کرنے کے بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’نوع انسان پر شفقت اور اس کی ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 438مطبوعہ ربوہ)

فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب و ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو۔ بھوکوں کو کھلاؤ۔ غلاموں کو آزاد کرو۔ قرضہ داروں کے قرض دو۔ زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو۔‘‘ (نور القرآن نمبر2 روحانی خزائن جلد9صفحہ 434)

پھر ایک موقع پر فرمایا کہ

’’میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسندنہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی قوم تک محدود کرنا چاہتے ہیں … میں تمہیں بار بار نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہر گز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدودنہ کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 217مطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا: ’’تم مخلوقِ خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں … جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خودنمائی نہیں کر سکتا‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ 30)۔ (دکھاوے کے لئے نیکی نہیں کر سکتا۔)

پس دوسروں سے ہمدردی اور محبت کے یہ معیار ہیں اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے، اس کے رسول کا حکم ہے۔ قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے۔

پس ہمدردیٔ خلق کے بارے میں اسلام کی یہ کیسی خوبصورت تعلیم ہے۔ کیا اس تعلیم کے دینے والے خدا کو چھوڑ کر اور اس زمانے کے فرستادے کو چھوڑ کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آیا ہم کہیں اور جا کر یہ معیار حاصل کر سکتے ہیں؟ کبھی نہیں کر سکتے۔ پس ہر ایک کے لئے ہماری جو محبت ہے یا نفرت کسی سے نہیں جو ہے یہ ایک آخری مقصدنہیں ہے بلکہ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کو ہمیشہ ہمیں سامنے رکھنا چاہئے اور اسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ کچھ عرصہ ہوا مجھے احساس ہوا کہ خدمت انسانیت کے لئے ہیومینٹی فرسٹ کے نام سے جو ہمارا ادارہ ہے اس کے کام کرنیو الوں اور شاید انتظامیہ کو یہ خیال ہو گیا ہے کہ دین سے بالکل اپنے آپ کو علیحدہ کرنا ہے اور اگر علیحدہ کر کے خدمت کریں تو شاید ہماری دنیا میں زیادہ آؤ بھگت ہو گی۔ تو میں نے یہاں مرکزی انتظامیہ کو کہا کہ آپ کی اہمیت اس لئے ہے کہ دین سے جڑے ہوئے ہیں۔ جماعت کا کہیں نہ کہیں نام آتا ہے۔ اگر کہیں حسب ضرورت جماعت کا نام بھی استعمال کرنا پڑے تو لینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ پیش نظر رہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے خدمت انسانیت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرو اس لئے ہم نے خدمت انسانیت کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اپنی عبادتوں کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے۔ بغیر اس کے خدمت انسانیت کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ انہیں تو یہ بات سمجھ آ گئی لیکن باقی ممالک میں جو ہیومینٹی فرسٹ کی شاخیں ہیں ان کے کارکنوں اور انتظامیہ کو جن میں الا ماشاء اللہ تقریباً سارے احمدی ہی ہیں، یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے کام میں برکت اسی وقت پڑے گی جب خدا تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کریں گے اور اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والا بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنے کاموں کو دعاؤں سے شروع کریں گے۔ اس کے بغیر ہمارے کسی کام میں برکت نہیں پڑ سکتی، چاہے کوئی اپنی عقل سے منصوبہ بندی کرتا رہے۔ بہرحال یہ بات کہنی بھی ضروری تھی اور آج میں نے اسی ضمن میں بات کی ہے کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ کبھی ہیومینٹی فرسٹ کی انتظامیہ کو توجہ دلانے کے لئے کہوں گا، اس کا ذکر کروں گا تو چاہے ضمناً کہہ لیں یا اس تعلق میں میں کہہ لیں۔ بہرحال اس کا ذکر کرنا ضروری ہے اور اسی لئے مَیں نے یہ بات بیان کی ہے۔

اب میں ’’محبت سب کے لئے‘‘ کے نعرے کی بات جو میں کر رہا تھا اس کی طرف آتا ہوں۔ اور یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بے شک خدمت خلق اور ہمدردیٔ خلق اور محبت پھیلانے اور دشمنیاں ختم کرنے کی نیکی ایک بہت بڑی نیکی ہے لیکن صرف یہی نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ نعرہ ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ اگر ہمیں یہ خیال آ جائے کہ اگر ہم نے یہ کر لیا تو سب کچھ پا لیا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی میں بتا آیا ہوں کہ یہ نعرہ اس مقصد کے حصول کا ایک حصہ ہے۔ اس منزل کی طرف بڑھنے کا ایک قدم ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور آپ کی غلامی میں اس زمانے میں اس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجاہے۔ اور وہ مقصد ہے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح ادراک پیدا کرنا، خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے تمام احکامات پر چلنے کی کوشش کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنا مطمح نظر اور مقصد بنانا اور اس کے حصول کے لئے مقدور بھر کوشش کرنا کیونکہ یہی چیز ہے جس سے ہر قسم کے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی علماء کی ایک بحث مضامین کی صورت میں چلی جو الفضل میں شائع ہوتے رہے یا بعض بزرگوں نے اس بارے میں اپنا اپنا نقطہ پیش کیا کہ جماعت کا ماٹو یا مطمح نظر کیا ہونا چاہئے؟ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو جو ماٹو دیا یا جس طرف توجہ دلائی وہ ایسا ہے جس سے دین بھی مضبوط ہوتا ہے، ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے، حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہوتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہوتی ہے۔ دو بزرگوں میں سے ایک نے کہا کہ ہماری جماعت کا مطمح نظر فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (البقرۃ: 149) ہونا چاہئے۔ دوسرے نے کہا کہ ہمارا ماٹو یا مطمح نظر ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ ہونا چاہئے۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ کوئی نہ کوئی مطمح نظر ضرور ہونا چاہئے۔ دنیا میں جتنی تنظیمیں ہیں اور انجمنیں ہیں جب قائم ہوتی ہیں تو اپنا اپنا کوئی نہ کوئی مطمح نظر رکھتی ہیں اور اگر سنجیدہ اور امانت کا حق ادا کرنے والی ہیں تو اس کے حصول کے لئے سنجیدگی سے کوشش بھی کرتی ہیں تا کہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کر سکیں۔ دنیا میں اخلاقی ترقی کو بھی مطمح نظر بنانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ تعلیمی ترقی کو بھی مطمح نظر بنانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ اگر کسی جگہ عوام کے یا کسی کے حقوق غصب ہو رہے ہیں تو سیاسی تنظیمیں آزادی کو اپنا ماٹو بنا لیتی ہیں، اس کے لئے کوشش کرتی ہیں اور نعرے لگاتی ہیں۔ اگر کسی جگہ کوئی اور صورت ہے تو اس کو اپنا مطمح نظر بنایا جاتا ہے۔ بہرحال مطمح نظر کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اس بات کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اپنی جماعت کے سامنے بھی ہر وقت اسے موجود رکھنا ہے، دنیا میں بھی قائم کرنا ہے اور اپنے سامنے بھی موجود رکھنا ہے۔ اس دنیا میں ہزاروں قسم کی نیکیاں ہیں اگر کسی ایک نیکی کو چن لیا جائے تو بظاہر ایک اچھی بات ہے، مطمح نظر ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ باقی قسم کی نیکیوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ بلکہ ضرورت اور سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے ان نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی کو مطمح نظر بنایا جاتا ہے۔

بہر حال کوئی بھی اچھا ماٹو کوئی اپنے لئے مقرر کرے وہ اس کے لئے نیکی ہے۔ آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ بعض ماٹو ایسے ہوتے ہیں جن کا آپس میں اشتراک ہوتا ہے مثلاً یہ کہ ’’خدا کی اطاعت کرو‘‘ اور یہ ماٹو کہ ’’نیکیوں میں ترقی کرو‘‘ یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ خدا کی اطاعت کے بغیر نیکیوں کا حصول ناممکن ہے اور اسی طرح جو نیک نہیں وہ خدا کا مطیع نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح یہ ماٹو کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ اور یہ کہ ’’میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کروں گا‘‘، دونوں آپس میں مشابہ ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر آجاتے ہیں۔ پس ساری نیکیاں ہی اچھی ہیں اور ہمیں انہیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد17صفحہ560تا562خطبہ جمعہ فرمودہ 28اگست1936ء)

لیکن جب ماٹو کے بارے میں سوال اٹھے تو پھر اسی طرف توجہ رکھ کر اسی طرف اپنی توجہ محدود کر کے بعض لوگ اپنی نیکیوں کو بالکل ہی محدود کر دیتے ہیں یا اسی کو سب کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ جیسے ہمارے نوجوانوں میں یا بعض اور لوگوں میں بھی (لوگ) اپنی دینی حالت کو تو بھول گئے ہیں لیکن صرف دنیا دکھاوے کے لئے ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا نعرہ بہت زیادہ لگانے لگ گئے ہیں۔ ٹھیک ہے اگر اسلام کی تعلیم کا پرچار اگر کرنا ہے، نیک نیت ہے تو یہ نعرہ بہت اچھا ہے لیکن ہمارا صرف یہی مقصدنہیں جیسا کہ میں نے کہا بلکہ ہمارے مقصد بہت وسیع ہیں۔ اسی طرح ہمدردیٔ خلق اگر کرنی ہے تو صرف ہمدردیٔ خلق ہی کچھ چیز نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ کی یاد دلوں سے غائب ہو رہی ہے تو پھر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے کہ میں نے جب یہ مضمون پڑھے تو مجھے ایک یہودی کا قصہ یاد آ گیاکہ جب اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باتیں کرتے ہوئے دورانِ گفتگو کہا کہ ہمیں آپ لوگوں سے یعنی مسلمانوں سے بہت زیادہ حسد ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ حسد کی کیا وجہ ہے؟ یہ کس لئے ہوتی ہے؟ تو یہودی کہنے لگا کہ اس بات کا حسد ہے کہ اسلام میں ایک خاص خوبی ہے کہ دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام کے احکامات میں موجودنہ ہو۔ قرآن کریم میں موجودنہ ہو۔ ذاتی نوعیت سے لے کر بین الاقوامی نوعیت تک تمام احکام اور مسائل اور ان کا حل اس میں موجود ہے۔ یہ چیز ایسی ہے جو ہم میں حسد پیدا کرتی ہے۔

پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کو سامنے رکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کسی ایک بات کو بطور ماٹو چننا درست نہیں پس بے شک ’’فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات‘‘ ایک عمدہ ماٹو ہے اسی طرح ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ بھی عمدہ ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ آیت بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی(الأعلی: 17۔ 18)یعنی نادان لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ آخرت یعنی دین کی زندگی کا نتیجہ دنیوی زندگی سے اعلیٰ اور دیرپا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 562 تا 563 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1936ء)

اکثر ہم جمعہ پر سورۃ میں یہی آیت پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بے شمار تعلیم قرآن کریم نے دی ہے۔ پس قرآن کریم کی وہ کون سی تعلیم ہے جو ماٹو نہ بن سکے، جو مطمح نظر نہ بن سکے۔ جس پر نظر ڈالیں اور اس پر غور کریں تو وہ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

اس تمہید کے بعد پھر آپ نے یہ فرمایا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر کا مصداق تھا۔ کوئی خرابی ایسی نہ تھی جو اس زمانہ میں پیدا نہ ہو گئی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل ہیں، اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی اس زمانے کا ظل ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی تمام قسم کی خرابیاں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں۔ اس لئے آج مذہب کی بھی ضرورت ہے۔ اخلاق کی تمام اقسام کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کی ہر خوبی اور ترقی کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں لوگوں کے دلوں سے ایمان اٹھ گیا ہے وہاں اخلاق فاضلہ بھی اٹھ گئے ہیں اور حقیقی دنیوی ترقی بھی مٹ گئی ہے کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ نفسانیت کا ایک مظاہرہ ہے۔ چاہے وہ ذاتی طور پر ہو یا بین الاقوامی طور پر دیکھ لیں کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ صرف اپنی ذات کے لئے مفاد ہے۔ وہ دنیا کی ترقی نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس سے دنیا کا ایک حصہ فائدہ اٹھا رہا ہے اور دوسرے کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ سیاسی غلامی ہو یا معاشی اور اقتصادی غلامی ہو کسی نہ کسی صورت میں ایک حصہ غلام بن رہا ہے اور ان کے لئے بہرحال یہ ترقی نہیں ہے اور جو ترقی کر رہے ہیں ان کے بھی اپنے مفادات ہیں، نفسانیت ہے جس کو وہ ترقی کا نام دیتے ہیں۔ پس ایسے وقت میں یہ کہنا کہ فلاں آیت کو مطمح نظر بناؤ اور فلاں کو چھوڑ دو یہ غلط ہے بلکہ قرآن کریم کی ہر آیت ہی ہمارا مطمح نظر اور نصب العین ہے اور ہونا چاہئے۔ پس ہمارا ماٹو تو تمام قرآن کریم ہی ہے لیکن اگر کسی دوسرے ماٹو کی ضرورت ہے تو حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے مقرر کر دیا اور وہ ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ۔ اور یہ تمام قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد توحید سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح بندوں کے آپس کے تعلقات اور بندے کے خدا تعالیٰ سے تعلقات یہ بھی توحید کے اندر آ جاتے ہیں۔ اور توحید ایسی چیز ہے جو بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے ظاہر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ لگا دیاگیا ہے کہ حقیقی معبود کی تلاش یا خدا تعالیٰ کو اگر دیکھنا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے دیکھو۔ گویا آپ ہی وہ عینک ہیں جس سے معبود حقیقی نظر آ سکتا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد لی جائے تو الحمد سے لے کر الناس تک ہر جگہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا مضمون نظر آئے گا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہی ہے جن کے آنے سے دنیا میں توحید حقیقی قائم ہوئی ورنہ اس سے پہلے بعض لوگوں نے حضرت عزیر کو بعض نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے۔ ایسے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ہر قسم کے فسادوں کو دور فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی توحید کے قیام کے لئے کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی دنیا میں پھر توحید قائم ہوئی اور یہی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ماٹو ہے جو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بھی بلند کرتے ہیں۔ جب کسی شخص کو اسلام میں لایا جاتا ہے تو اسے بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کا نام ہے۔ اگر کسی میں دینی کمزوری پیدا ہوتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ اگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہر وقت سامنے ہو توانسان دینی کمزوریوں سے محفوظ رہے۔ (ماخوذاز خطبات محمود جلد17صفحہ563تا565خطبہ جمعہ فرمودہ 28اگست1936ء)

صرف منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنا مقصدنہیں ہے اکثر جیسے لوگ دہراتے رہتے ہیں۔ جھوٹ بھی بولیں گے تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہہ کر جھوٹ بول دیں گے۔ بلکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اگر کہا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت اور اس کا خوف اور اس کی تمام صفات سامنے آ جاتی ہیں۔ پھر جیسا کہ بیان ہو چکا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی واضح ہوتی ہے۔ پس جب تک انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو نہ ہو جائے توحید کو کامل نہیں سمجھ سکتا یا توحید کامل کو نہیں سمجھ سکتا۔ اور نہ اللہ تعالیٰ اور اس کے تفصیلی جلوہ یعنی قرآن کریم کو سمجھ سکتا ہے۔ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہو کر توحید کو نہیں سمجھتے، باوجود عقل کے شرک میں مبتلا رہتے ہیں۔ غیر مسلموں کو تو ایک طرف رکھیں مسلمانوں میں بھی جو لوگ ہیں ان کی بہت بڑی اکثریت پیروں فقیروں کو اپنا خدا بنا بیٹھے ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد17صفحہ 566 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1936ء)

کہا تو احمدیوں کو جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے اسلام سے خارج ہو گئے ہیں لیکن حقیقت میں یہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہیں پہچانا اور نتیجۃً توحید سے بھی دور ہیں۔ اس زمانے میں اس توحید کا حقیقی ادراک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوا ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہونے کی وجہ سے آپ کو ملا ہے۔ جن کو دنیا کافر کہتی ہے وہی توحید کے حقیقی علمبردار ہیں۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہوئے تو آپ کو نظر آ گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا گئے ہیں اور ان کو زندہ ماننا شرک ہے۔ آپ سے پہلے لاکھوں ایسے عالم اور فقیہ تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے تھے مثلاً یہ کہ وہ اب تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں، وہ مردے زندہ کیا کرتے تھے، ان کو غیب کا علم تھا وغیرہ وغیرہ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے آج ہم بلکہ ہر احمدی بچہ عقلی اور نقلی دلائل سے اس عقیدے پر قائم رہنا گوارا نہیں کرتا۔ اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہوکر، آپ سے نور لے کر ہمیں بتائیں اور شرک کو ہم سے دور کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی اس زمانے کے لوگوں کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا جلوہ دکھایا اور یہی ایک چیز ہے جو اسلام کا لب لباب ہے اور جس کا ہر کامل موحد میں پایا جانا ضروری ہے۔ باقی تو سب تفصیلات ہیں جو مختلف آدمیوں کے لئے مختلف شکلو ں میں بدلتی رہتی ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت بتایا، کسی کو بڑی نیکی جہاد فی سبیل اللہ بتایا، کسی کو بڑی نیکی تہجد کی ادائیگی بتایا۔ پس ہر ایک کو اس کی بنیادی کمزوری دور کرنے کے لئے توجہ دلائی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی نیکیاں بجا لانے کی ضرورت نہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 566 تا 567 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1936ء)

پس یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے تمام احکام اپنی اپنی جگہ پر بہت عمدہ اور مفید ہیں لیکن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ سب پر حاوی ہے۔ پس یہ اصل ماٹو ہے جسے ہمیں ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ توحید کی حقیقت اور اس کے قیام پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ انسان بت پرستی نہ کرے یا کسی انسان کو خدا تعالیٰ کے مقابل پر زندہ نہ مانے یا کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرائے بلکہ دنیا کے ہر کام میں توحید کا تعلق ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سونے کے وقت اور وضو کے وقت بھی توحید کا اقرار فرمایا کرتے تھے۔ جب بھی کسی انسان کو دنیا کے کسی کام پر بھروسہ یا انحصار ہو گیا تو وہ انسان شرک کے مقام پر جا ٹھہرا اور پھر اس کے موحد ہونے کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کیونکہ توحید کی لازمی شرط ہے کہ انسان صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہی تکیہ رکھے اور بھروسہ کرے۔ توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر کام میں خواہ دینی ہے یا دنیاوی انسان کی نظر صرف ایک خدا کی طرف اٹھے۔ پس بے شک اپنی جگہ تمام نیک فقرات عمدہ اور اچھے ماٹو ہیں لیکن کامل موحد بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی نظر سے ہر ایک چیز غائب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے لئے ہر چیز کالعدم ہو جائے۔ پس حقیقی ماٹو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ ہے جس میں تمام نیکیاں جمع ہو جاتی ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 568 تا 569 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1936ء)

اور توحید کو سمجھنے کے لئے جو دقتیں ہیں ان کا حل بھی ہمیں یہی بتاتا ہے۔ دقتیں دور کرنے کے لئے کوئی نمونہ ہونا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ نمونہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک فقرے میں یوں بیان فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 144 مسند عائشۃؓ حدیث25108مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس ایک فقرے میں توحید کا اعلیٰ معیار بھی بیان ہو گیا۔ احکام قرآن کا عملی نمونے کا معیار بھی قائم ہو گیا اور احکامات کی تفصیل بھی سامنے آ گئی۔ پس جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا اس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اس نے سب کچھ ہی سمجھ لیا کیونکہ شرک ہی تمام بدیوں، غفلتوں اور گناہوں کی جڑ ہے اور توحید پر قائم ہونے کے بعد انسان میں اعلیٰ اخلاق، علم، عرفان، تمدن، سیاست، دوسرے فنون میں کمال، سب ہی کچھ آ جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے جس میں تمام امراض کا علاج ہے۔ پس ہمارا ماٹو جو خود بخود خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ باقی تفصیلات ہیں جو نصیحت کے طور پر کام آ سکتی ہیں۔ اس زمانے میں چونکہ دجال اپنی تمام طاقت کے ساتھ دنیا میں رونما ہوا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ میں دنیا کو دین پر مقدم رکھوں گا۔ یہ دجال کا مقصد ہے کہ دنیا کو دین پر مقدم کرنا ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے مقابل پر ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا نعرہ لگائیں۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی شرائط بیعت میں یہ فقرہ شامل فرمایا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اپنے اوپر ہم دین کی تعلیم لاگو رکھیں گے اور ہر مخالف کے اعتراض کے مقابل پر اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھائیں گے اور یہ سب اس لئے کہ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ کو دنیا میں قائم کرنے والے بنیں۔ ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اس مقصد کے حصول کے لئے کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ فرمایا تھا کہ

خُذُوْا التَوْحِیْد التوحید یَااَبْنَاءَ الفارس۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1صفحہ267) یعنی کہ اے ابنائے فارس! توحید کو مضبوطی سے پکڑو۔ ابنائے فارس سے مراد صرف آپ کا خاندان ہی نہیں ہے بلکہ تمام جماعت روحانی لحاظ سے ابنائے فارس کے ماتحت آتی ہے اور یہ حکم تمام جماعت کے لئے ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کسی خاص چیز کو پکڑتا ہے۔ فرمایا کہ تم مصائب کے وقت توحید کو پکڑ لیا کرو کہ اس کے اندر باقی تمام چیزیں ہیں۔ پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ 570 تا 571 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ اگست 1936ء)

آج جبکہ شرک کے ساتھ دہریت بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے بلکہ دہریت بھی شرک کی ایک قسم ہے یا شرک دہریت کی قسم ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایک نعرے پر محدود کر کے اور اس پر اکتفا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے نہیں بن سکتے۔ نہ ہی ہم انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ جو ایسا کرتا ہے یا کہتا ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں اپنے حقیقی مطمح نظر اور مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم تمام دینی و دنیاوی انعامات کے حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا (آ گیا ہے جنازہ؟) جو مکرم صدیق اکبر رحمان صاحب کا ہے۔ فیض الرحمان صاحب کے بیٹے تھے۔ والتھم فاریسٹ (Waltham Forest) میں رہتے تھے۔ 7؍مئی کو کینسر کی بیماری کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ عہدوں کے لحاظ سے تو جماعتی خدمت کی ان کو زیادہ توفیق نہیں ملی لیکن کارکن کے لحاظ سے ہمیشہ بڑے سرگرم کارکن رہے ہیں۔ خلافت سے بھی مضبوط تعلق رکھا۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر اور دعاؤں پر بڑا یقین تھا۔ انہوں نے بڑی لمبی بیماری کاٹی ہے۔ کینسر کی انہیں بیماری تھی اور بڑے صبر سے اور حوصلے سے انہوں نے اپنا یہ بیماری کا عرصہ گزارا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے۔ ان کی والدہ کو بھی صبر کی توفیق دے۔ ان کی اہلیہ اور چھوٹا بچہ شاید سال ڈیڑھ سال کا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 9؍ مئی 2014ء شہ سرخیاں

    جماعت احمدیہ کا ماٹو: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی دنیا میں پھر توحید قائم ہوئی یہی ایک چیز ہے جو اسلام کا لب لباب ہے اور جس کا ہر کامل موحد میں پایا جانا ضروری ہے۔

    جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا اس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اس نے سب کچھ ہی سمجھ لیا۔

    جب تک انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو نہ ہو جائے توحید کامل کو نہیں سمجھ سکتا۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی اس زمانے کے لوگوں کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا جلوہ دکھایا۔

    اس زمانے میں اس توحید کا حقیقی ادراک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوا ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہونے کی وجہ سے آپ کو ملا ہے۔

    ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں۔

    اسلام کی حسین تعلیم کا خلاصہ نیز اس امر کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کیا ہے اور یہ کہ تمام نیکیوں کی بنیاد توحید ہی ہے اور اس کا حصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات میں محو ہوئے بغیر ممکن نہیں۔

    ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘

    اسلام محبت پیار حسن سلوک اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔

    ہمیں دنیا کے ہر انسان سے محبت ہے۔

    دنیا داروں سے ہماری محبت اور ہمدردی دنیا داری کی خاطر نہیں ہے۔

    اگر احمدیوں کو ’’محبت سب سے‘‘ کا صحیح ادراک حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے آقا اور محسن انسانیت سے اس کے طریق سیکھنے ہیں اور یہ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب خود اپنی توحید کے معیاروں کو بھی ماپیں۔ یہ پیش نظر رہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے خدمت انسانیت کرنی ہے۔

    جو ہیومینٹی فرسٹ کی شاخیں ہیں ان کے کارکنوں اور انتظامیہ کویہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے کام میں برکت اسی وقت پڑے گی جب خدا تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کریں گے اور اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والا بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنے کاموں کو دعاؤں سے شروع کریں گے۔

    جن کو دنیا کافر کہتی ہے وہی توحید کے حقیقی علمبردار ہیں۔

    مکرم صدیق اکبر رحمان صاحب کی وفات۔ ان کا ذکر خیر اور نمازِ جنازہ حاضر۔

    فرمودہ مورخہ 09؍مئی 2014ء بمطابق 09ہجرت 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور