مثالی جماعت احمدیہ عالمگیر
خطبہ جمعہ 23؍ مئی 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ۔ وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ۔ وَ مَا کَانَ قَوۡلَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ۔ فَاٰتٰٮہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (آل عمران: 146۔ 149)
وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ۔ فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ (آل عمران: 170۔ 172)
یہ آیات سورۃ آل عمران کی 146 سے 149 اور 170 سے 172 تک ہیں۔ پہلے حصے کا ترجمہ یہ ہے کہ
اور کسی جان کے لئے مرنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اللہ کے اِذن سے ہو۔ یہ ایک طے شدہ نوشتہ ہے۔ اور جو کوئی دنیا کا ثواب چاہے ہم اسے اس میں سے عطا کرتے ہیں۔ اور جو کوئی آخرت کا ثواب چاہے ہم اسے اسی میں سے عطا کرتے ہیں۔ اور ہم شکر کرنے والوں کو یقینا جزا دیں گے۔
اور کتنے ہی نبی تھے کہ جن کے ساتھ مل کر بہت سے ربانی لوگوں نے قتال کیا۔ پھر وہ ہرگز کمزور نہیں پڑے اس مصیبت کی وجہ سے جو اللہ کے رستے میں انہیں پہنچی۔ اور انہوں نے ضعف نہیں دکھایا اور وہ دشمن کے سامنے جھکے نہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اور ان کا قول اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے عرض کیا اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی بھی۔ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔
تو اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا بہت عمدہ ثواب بھی۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
دوسرے حصے کا ترجمہ یہ ہے کہ
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو ہرگز مردے گمان نہ کرو بلکہ وہ توزندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔
بہت خوش ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔
وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے متعلق خوشخبریاں پاتے ہیں اور یہ خوشخبریاں بھی پاتے ہیں کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل و احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے لوگ عطا فرمائے ہیں جو اپنے عہدوں کی روح کو جانتے ہیں اور جو قربانیوں کی روح کو جانتے ہیں اور نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس کے ایسے نمونے قائم کرنے والے ہیں جن کی اس زمانے میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ مال کی قربانی کا سوال اٹھے کہ کہاں ہیں ایسے لوگ جو اپنے مال کو دین کی خاطر قربان کرنے والے ہیں تو جماعت احمدیہ کے افراد کا گروہ سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وقت کی قربانی کا مطالبہ ہو تو آج جماعت احمدیہ میں دین کی خاطر وقت قربان کرنے کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ عزت کی قربانی کے نمونے دیکھنے ہیں تو آج جماعت احمدیہ میں اس کے نمونے نظر آئیں گے۔ تبلیغ اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو مخلصین کا گروہ اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والا ہے۔ جان کی قربانی کا حقیقی نمونہ دیکھنا ہے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ اس حقیقی قربانی کے نمونوں پر مہر لگاتی ہے۔
غرض کہ کوئی بھی ایسی قربانی جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہو، اس کے نمونے قائم کرنے کے لئے آج خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو پیدا کیا ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسی جماعت عطا کی ہے جس کی اکثریت مال جان وقت اور عزت قربان کرنے کی روح کو سمجھنے والی ہے اور ہر وقت تیار ہے۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو علم کی کمی کی وجہ سے ایسا اظہار کر دیتے ہیں جو مومن کی شان نہیں یا حالات کی وجہ سے بشری تقاضے کے تحت ایسے اظہار کر دیتے ہیں جس سے بعض کم تربیت یافتہ یا کچے ذہن ضرورت سے زیادہ اثر لے لیتے ہیں۔ بعض لوگ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ یہ ابتلا اور امتحان کا عرصہ لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر صرف یہاں تک ہی ہو کہ مشکلات اور امتحان کا عرصہ لمبا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد آسانیوں کے سامان پیدا فرمائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ جب ان سختیوں اور ابتلاؤں کی انتہا پہنچتی ہے تو رسول اور مومنین کی جماعت مَتیٰ نَصْرُ اللّٰہ کی آواز بلند کرتے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں لیکن ایسا اظہار جس سے دنیاوی واسطوں اور اسباب کی طرف توجہ کی طرف رغبت کا اظہار ہو تو یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے۔ مثلاً مجھے ایک لکھنے والے نے لکھا کہ پاکستان میں جماعت پر جو کچھ ظلم ہو رہے ہیں، ہمیں دنیا کو بتانا چاہئے اور ایم ٹی اے کو بھی ایک بڑا حصہ اس بات پر لگا دینا چاہئے کہ وہ اس کے ذریعہ ظلموں کا اظہار کرتی رہے، دنیا کو بتائے اور دوسرے ذرائع بھی استعمال کئے جائیں۔ ظلم کے خلاف دنیا میں آواز بلند کی جائے۔ بلکہ خط سے یوں لگا کہ جیسے دنیا والے کرتے ہیں ہم بھی دنیاوی طریقے سے شور شرابہ کرکے دنیا کے سامنے اپنے احتجاج کے نعرے بلند کریں تو پھر شاید ان حکومتوں کو جو ہمارے خلاف ہیں ہمارے حقوق دینے کی طرف توجہ پیدا ہو اور یہ ابتلا اور مشکلات کا دور ختم ہو۔ یہ کہتے ہیں کہ میرے شیعہ دوست کہتے ہیں کہ جو کچھ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہو رہا ہے اگر ہمارے ساتھ ہو تو ہم تو یوں جلوس نکالتے ہیں اور یوں احتجاج کرتے ہیں اور یہ کر دیتے ہیں اور وہ کر دیتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر ہمارے سے تھوڑا سا بھی ہو تو ہم دنیا میں شور مچا دیتے ہیں۔ احمدی صحیح احتجاج نہیں کرتے۔ اس لئے ان کا ابتلا اور ان پر ظلم کا عرصہ لمبا ہو رہا ہے۔
اس بارے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنے والی ہے کہ جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم الٰہی جماعت ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ الٰہی جماعتیں دنیاوی حکومتوں یا دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں، نہ الٰہی جماعتوں کی ترقی میں دنیاوی مدد کا کوئی کردار ہے یا ہاتھ ہے۔ دنیاوی مددیں بغیر شرائط کے نہیں ہوتیں۔ بغیر کسی غرض کے نہیں ہوتیں۔ اپنے آگے کسی نہ کسی رنگ میں جھکائے بغیر نہیں ہوتیں۔ اور یہ باتیں ایک حقیقی مومن کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ مَتیٰ نَصْرُ اللّٰہ کی آواز اگر مومنین کی طرف سے بلند ہوتی ہے تو یہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے دعا کی آواز ہے۔ اور ہر مرتبہ جب ہم ابتلا اور امتحانوں کے دَور سے گزرتے ہوئے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے اس کے فضلوں اور اس کی مدد مانگتے ہیں، اس کی مدد کے طالب ہوتے ہیں تو ترقی کے نئے سے نئے راستے ہمارے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ آج تقریباً تمام دنیا میں پھیلے ہوئے افرادِ جماعت اور دنیا کے 204 ممالک میں بسنے والے احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ ابتلاء جماعتی ترقی کے نئے سے نئے راستے کھول رہا ہے اور نئی سے نئی منزلیں طے ہو رہی ہیں۔ پس صرف اس بات پر پریشان نہیں ہو جانا چاہئے کہ ایک ملک میں ابتلا یا امتحان کا دور لمبا ہو گیا۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وسعتیں کہاں تک پھیل رہی ہیں۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ دنیاوی اسباب کا استعمال بھی ہونا چاہئے تو بالکل ٹھیک ہے۔ یہ ہونا چاہئے۔ رعایت اسباب منع نہیں ہے بلکہ اس کا بھی حکم ہے۔ ظاہری طریقوں کو اپنانا بالکل منع نہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن حدود میں رہتے ہوئے ہم نے یہ ظاہری اسباب استعمال کرنے ہیں اور ہمیں یہ استعمال کرنے چاہئیں ہم کرتے بھی ہیں۔ دنیا کو آگاہ بھی کرتے ہیں کہ کس طرح جماعت پر مظالم ہو رہے ہیں۔ اور ہم ان کو یہ بتاتے ہیں کہ اگر آج دنیا نے مل کر ان ظلموں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ مظالم پھیلتے چلے جائیں گے۔ جماعت کا سوال نہیں ہے بلکہ کوئی بھی انسان محفوظ نہیں رہے گا اور اب یہ پھیل رہے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بتانے کے باوجود ہمارا انحصار نہ کسی حکومت پر ہے نہ کسی انسانی حقوق کی تنظیم پر بلکہ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ اور یہی مضمون میں خاص طور پر گزشتہ دو تین جمعوں میں خطبوں میں بتا رہا ہوں کہ تمام نتائج کے حصول کے لئے ہماری نظر خدا تعالیٰ پر ہونی چاہئے۔ اور یہی ایک مومن کی مثال ہے۔
دنیاوی لوگ اگر شور مچاتے ہیں۔ جلسے جلوس کرتے ہیں۔ توڑپھوڑ کرتے ہیں۔ اپنے خلاف ظلموں کا اسی طرح ظلم کر کے بدلہ لیتے ہیں تو اس لئے کہ ان سے الٰہی وعدے نہیں ہیں کہ آخری فتح تمہاری ہے۔ جبکہ ہمارے ساتھ خداتعالیٰ کے وعدے ہیں کہ ان سب ظلموں کے باوجود جو تم سے روا رکھے جا رہے ہیں، جو تم پر ہو رہے ہیں۔ ان سب زیادتیوں کے باوجود جو حکومتوں کی طرف سے یا حکومتوں کے اشیر باد پر حکومت کے قریبیوں اور کارندوں اور اہلکاروں کی طرف سے ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ تمہیں وہ انعامات ملنے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ملنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے مومنوں کو ملتے ہیں۔ اس دنیا کے انعامات کے بھی تم وارث ہو گے اور اگلے جہان کے انعامات کے بھی تم وارث ہو گے۔ قربانیوں کی جو مثالیں تم قائم کر رہے ہو وہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور آخری فتح تمہاری ہے۔ اس فتح کے حصول کا سب سے زیادہ تیر بہ حدف نسخہ جو ہے وہ دعائیں ہیں۔ جتنا زیادہ دعاؤں میں ڈوبو گے اتنی جلدی یہ مشکلات دور ہوں گی۔ دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لئے جتنے زیادہ یار نہاں میں نہاں ہو گے اتنی زیادہ تیزی سے وہ ظاہر ہو کر خارق عادت نشان دکھائے گا انشاء اللہ۔
پس ہماری سوچ اور دنیا داروں کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ ہم نے زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس سے خدا تعالیٰ کے فتوحات کے وعدے ہیں۔ فتوحات کے نئے سے نئے دروازے کھلنے کے وعدے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا یہ نظارے ہم دیکھ بھی رہے ہیں لیکن دوسروں سے اس قسم کے کوئی وعدے نہیں ہیں۔ جہاں تک شیعوں کی مثال دیتے ہیں یا کسی دوسرے کی مثال دیتے ہیں مجھے تو کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ دنیاوی احتجاج کر کے انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہوں۔ ہاں توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ ہر جگہ ضرور ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے مزید فساد پھیل رہا ہے۔
تو جیسا کہ میں نے کہا کہ ظلم کا بدلہ ظلم کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا اور ہم نے یہ نہیں کرنا۔ یہاں میں دنیا داروں کے رویوں کی ایک مثال بھی دے دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا اگر مدد بھی کرتی ہے تو اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے یا اپنی مصلحتوں کو دیکھتے ہوئے کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں یہاں ایک اخبار نے ایک مضمون دیا کہ مسلمان یہاں حکومت کے وفادار نہیں ہیں اس لئے مغربی ممالک سے ان مسلمانوں کو نکال دینا چاہئے۔ اس پر ہمارے پریس سیکشن نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ اسلام ملکی قانون کی پابندی اور وطن سے محبت کا حکم دیتا ہے۔ اس پر اخبار نے کہا کہ دوسرے مسلمان فرقوں کا تو یہ عمل نہیں ہے۔ تم دوسرے مسلمان فرقوں کو بھی یہ نصیحت کرو۔ تو ہم نے کہا ٹھیک ہے اگر تمہارا اخبار اس نصیحت کو شائع کرنے کے لئے تیار ہے تو ہم بیان دے دیتے ہیں۔ جب ان کی دی ہوئی شرائط کے مطابق کہ یہ لکھ کے، فلاں لکھ کے دو، وہ پورا کر دیا گیا تو پھر ایڈیٹر نے یا ان کے بورڈ نے یہ اعلان دینے سے بھی انکار کر دیا۔ بہانہ یہ تھا کہ کچھ اور مضامین ایسے آ گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم نہیں دے سکتے اور پھر کبھی دینا ہوا تو دیکھیں گے۔ ٹال مٹول۔ تو بہرحال یہ بہانے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان میں یہ جرأت نہیں تھی کہ دوسرے مسلمان فرقے جو احمدیوں کے مخالف ہیں ان کو ناراض کریں۔ انصاف کے تقاضے یہ لوگ پورے نہیں کرنا چاہتے۔ بعض قسم کے خوف اور ڈر ان کے اندر ہیں اور جب وہ بعض مسلمانوں کے سختی کے رویے دیکھتے ہیں تو یہ ڈر مزید اور بڑھ جاتے ہیں۔ میں اکثر جب مختلف لیڈروں اور پریس کو یہ کہتا ہوں کہ امن قائم کرنا ہے تو انصاف قائم کرو اور ڈبل سٹینڈرڈ نہ بناؤ تو اکثر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس بات کی ہمارے اندر کمی ہے اور یہی حقیقت ہے۔ بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ کھلے طور پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہمارے مقاصد ہیں، جن کے حصول کے لئے ہم نے ایجنڈے بنائے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے باتیں تو انصاف کی کرتے ہیں لیکن مقاصد ہمارے اپنے ہیں۔ ان کو ہم نے حاصل کرنا ہے۔ تو یہ تو ان کا حال ہے جن کی طرف ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی نظریں رکھیں یا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نظر کریں۔ دو عملی کرنے والوں پر تو انحصار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان میں کوئی طاقت ہے کہ یہ مشکلات دور کر سکیں۔ ایک اخبار ہے جو ایک ایسا بیان بھی شائع نہیں کرنا چاہتا جس سے ملک کی محبت کا اظہار ہو رہا ہے۔ کوئی نزاعی اور جھگڑے والا معاملہ نہیں ہے جن پر ان کو تحفظات ہوں۔ اس پر ایسے لوگوں کو جو اس قسم کے مشورے دیتے ہیں، سوچنا چاہئے کہ کیسے ہم ان لوگوں کی طرف دیکھیں اور ان پر تکیہ کریں۔ اگر ہر احمدی خدا پر انحصار کی حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو جہاں جہاں بھی احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ دعاؤں سے ہی ہوا میں اڑ جائیں گی۔ مگر شرط ان دعاؤں کا حق ادا کرنا ہے۔
ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت پر پاکستان یا بعض دوسرے ممالک میں غیروں کی طرف سے جو سختیاں ہو رہی ہیں یا حکومتوں کی طرف سے یہ ظلم جو قانون کی آڑ میں یا کسی بھی طرح سے کئے جا رہے ہیں یہ آج کی پیداوار نہیں۔ یہ کوئی گزشتہ دو تین دہائیوں کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تو اس وقت سے ہیں جب سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ایک جماعت قائم کی تھی۔ آپ کو اور جماعت کو ابتدا سے ہی ان ظلموں اور سختیوں سے گزرنا پڑا تھا۔ بلکہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب یہ خیال پیدا ہوا کہ آپ کو اپنی آبائی بستی قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی جس کا مالک مدّتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان تھا۔ آپ وہاں بھی محفوظ نہیں تھے۔ بلکہ ہم اس سے بھی اوپر جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تمام دور ہی دشمنوں کی طرف سے ظلم پر ظلم کے اظہار دیکھتے ہوئے گزرا ہے۔ آپ کی چہیتی بیوی جو لاکھوں روپے کی مالک تھی اور جن کے بیسیوں غلام تھے، جو مکہ کی امیر ترین عورتوں میں شمار ہوتی تھیں، انہیں اسلام قبول کرنے کے بعد کیسی شدتوں سے گزرنا پڑا۔ بڑھاپے میں گھر سے بے گھر ہوئیں اور نہ صرف یہ بلکہ بڑا لمبا عرصہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ایک گھاٹی میں رہنا پڑا جہاں خوراک کی بھی تنگی، پانی کی بھی تنگی، رہائش کی بھی تنگی تھی اور یہی تنگی کے حالات اور سختی کی جو حالت تھی ان کی وفات کی وجہ بنی۔ (انہوں نے) یہ سب کچھ اسلام کی خاطر، ایک نیک مقصد کی خاطر اس امید پر برداشت کیا کہ ان قربانیوں کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد کے وعدے ہیں جو پورے ہونے ہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو کس قدر تکالیف پہنچیں۔ متواتر تیرہ سال تو مکہ میں ہی آپ پر مظالم ہوئے۔ تیروں، سونٹوں، پتھروں غرض کہ کون سی ایسی چیز تھی جس سے آپ پر حملہ نہ کیا گیا ہو اور آپ کو اذیت دینے کی کوشش نہ کی گئی ہو لیکن آپ نے نہ صرف جوانمردی سے اس کا مقابلہ کیا۔ اپنے پیاروں، عزیزوں اور صحابہ کی جان کی قربانیوں کو برداشت کیا بلکہ جب ان ظلموں کی وجہ سے آپ سے بددعا کی درخواست کی جاتی تو آپ نے ہدایت کی دعا ہی مانگی۔ جب خود آپ کی ذات پر پتھروں سے حملہ کر کے آپ کو لہولہان کر دیا گیا، جس کو خود آپ نے اپنی زندگی کا سخت ترین دن فرمایا ہے۔ اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تباہ کرنے کے لئے آپ کی مرضی پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ نہیں پہاڑوں کو ان پر نہیں گرانا شاید ان لوگوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو حق کو قبول کر لیں بلکہ امید ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو حق کو قبول کر کے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے والے بن جائیں۔ پھر ہجرت کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دشمنوں کی طرف سے بار بار حملہ ہوتا تھا۔
پس جہاں ظلموں کی ایک لمبی داستان ہے وہاں صبر برداشت اور رحم کی بھی بے مثل داستانیں ہیں جو آپ نے رقم کی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو برداشت کرنا ہی تھا کہ آپ نے ہر معاملے میں دنیا میں ایک مثال قائم کرنی تھی۔ آپ کے صحابہ نے بھی قربانیوں کے نمونے دکھائے ہیں۔ اس لئے کہ خدائی وعدوں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر ان کی نظر تھی اور کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل پر آنا تھا اور آپ آئے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل ہیں۔ اس لئے آپ نے بھی اپنے ماننے والوں کو یہی فرمایا کہ میرے ساتھ اور میری جماعت کے ساتھ تو یہ ظلم و زیادتی ہونی ہے تکالیف کے دور آنے ہیں۔ آپ نے واضح فرمایا کہ میرا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے کانٹوں پر چلنا ہو گا۔ آپ نے کسی سے کوئی دھوکہ نہیں کیا۔ ہر شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی۔ میں بعض دفعہ نو مبائعین سے یہ دیکھنے کے لئے یہ سوال کر دیتا ہوں کہ ان کو کچھ اندازہ بھی ہے کہ احمدیت کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں یہاں یوکے (UK) کے جو نومبائعین تھے، ان کے ساتھ ایک نشست تھی تو ایک دوست سے میں نے یہی سوال پوچھا۔ کیونکہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے تو ان کا یہی جواب تھا کہ ہم نے سوچ سمجھ کر بیعت کی ہے اور ہر سختی جھیلنے کے لئے تیار ہیں۔ بعض عورتوں نے بھی اپنے گھر بار چھوڑ دئیے لیکن ایمان کو نہیں چھوڑا۔ تو یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ادراک حاصل کیا۔ یہ ادراک حاصل کیا کہ زندگی اور موت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کی خاطر استقامت دکھانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان کی جنتوں کا وارث بناتا ہے اور یہ صرف منہ کی باتیں نہیں ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اب یہ واقعات کسی نہ کسی شکل میں نظر آتے رہتے ہیں۔ جب یہ قربانیوں کے نمونے دکھائے جاتے ہیں۔ اور یہ ایسی ایسی قربانیوں کے نمونے ہیں کہ بعض دفعہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ابتدا سے ہی یہ واضح کر دیا کہ یہ ہو گا۔ اور یہ بھی فرما دیا کہ سب کچھ دیکھنے اور اپنے پر بیتنے کے باوجود تم اپنے ایمان پر حرف نہ آنے دینا اور اسی بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ اس استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دونوں جہان میں انعامات مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اس کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی کئی جگہ فرمایا ہے۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے۔ اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا۔
پس زندگی اور موت تو ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ واضح فرما دیا کہ زندگی اور موت خدا تعالیٰ کے اِذن سے ہے۔ دشمن زیادہ سے زیادہ ہمیں موت کا ہی خوف دلا سکتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں۔ اگر یہ خدا تعالیٰ کے راستے میں آئے تو انعامات کی بشارتیں ہیں۔ ہم اسلام کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولیدؓ جب بستر مرگ پر تھے تو ایک دوست جو اُن کی عیادت کے لئے گئے، ان کو دیکھ کر وہ شدت سے رونے لگے۔ یہ دوست سمجھے کہ شاید موت کا ڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ خالد! آپ تو دشمنوں کے نرغے میں کئی دفعہ آئے اور ایسی شجاعت کے مظاہرے کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اب اس وقت کیوں موت سے ڈر رہے ہیں؟ حضرت خالدنے کہا کہ میرے اوپر سے کپڑا اٹھاؤ۔ دیکھا تو جسم کے اوپر والے حصے میں انچ انچ پر زخم کے نشانات تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اب میری ٹانگوں سے کپڑا اٹھاؤ۔ وہاں بھی انچ انچ پر زخموں کے نشانات تھے۔ پھر حضرت خالد بن ولیدنے کہا کہ میں موت کے ڈر سے نہیں رو رہا۔ اس فکر میں رو رہا ہوں کہ میں نے ہمیشہ شہادت کی تمنا کی ہے اور یہ زخموں کے نشان اس بات کے گواہ ہیں لیکن مجھے وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا اور اب میں بستر پر جان دے رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ شہادت کی موت نہ آنا کہیں میرے شامت اعمال کا نتیجہ تو نہیں ہے۔ اور یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شہادت نہیں دی تو اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی ناراضگی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی روح کو یا قربان ہونے کی روح کو سمجھنے والوں کا یہ مقام تھا۔ یہ تو ان کے دل کی حالت تھی لیکن اللہ تعالیٰ ایسے غازیوں کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کو بھی جنت کی بشارتیں ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شہادت کے لئے یہ جذبے تھے۔
پھر قربانی کی روح کو سمجھنے کی اس زمانے میں یہ مثال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں جب بادشاہ نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید سے بار بار یہ اصرار کے ساتھ کہا کہ اگر حضرت مسیح موعود کا انکار کر دو، جس کو تو نے مانا ہے اس کا انکار کر دو، تو میں اس کے نتیجہ میں تمہاری جان بخشی کر دوں گا۔ یہ لالچ دی تو آپ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ آج اگر مجھے خدا تعالیٰ وہ موت دے رہا ہے جو اس کے انعامات کا وارث بنانے والی ہے تو میں دنیا کی خاطر اس کا انکار کیوں کر دوں۔ عجیب جاہلوں والا سوال تم مجھ سے کر رہے ہو یا سودا مجھ سے کر رہے ہو۔ پس یہی مومن کی شان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ فرمایا ہے کہ فَمَا وَھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ۔ (آل عمران: 147)پس وہ ہرگز کمزور نہیں پڑے اس مصیبت کی وجہ سے جو اللہ کے راستے میں انہیں پہنچی۔ اور انہوں نے ضعف نہیں دکھایا اور دشمن کے سامنے جھکے نہیں اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
آج بھی ہمارے مخالفین کو یہی تکلیف ہے کہ یہ کیوں کمزوری نہیں دکھاتے۔ کیوں ہمارے ظلموں پر ہمارے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے لیکن ان کو نہیں پتا کہ ایک حقیقی احمدی ہر وقت خدا پر نظر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر وقت کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا حاصل کرنے کے لئے یہاں ایک دعا بھی سکھائی ہے کہ اپنے ثبات قدم کے لئے ہمیشہ دعا مانگتے رہو۔ کیونکہ ایمان کی مضبوطی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے۔ یہ دنیا تمہارے ایمانوں کو کمزور کرنے پر اپنا زور لگا رہی ہے۔ اس کے اثر میں نہ آ جانا اور دعا یہ سکھائی جو آیات میں مَیں نے پڑھی ہے کہ رَبَّنَااغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِِرِیْنَ۔ کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی سے ہمیں بچا کے رکھ اور ہمیں ثبات قدم عطا فرما۔ اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا فرما۔
یا یہ کہہ لیں کہ ہمارے اعمال میں جو ہم نے زیادتی کی ہے، بعض غلط باتیں ہو گئیں ہم سے ہمیں بخش دے، ہمارے گناہوں کو معاف کر دے۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کے لئے دعا سکھائی ہے وہاں یہ بھی بتا دیا کہ کامیابیاں دعاؤں سے ملتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو، اس سے مانگو اور جبکہ خالص ہو کر اس سے دعائیں مانگی جا رہی ہوں تو اس کے نتیجہ میں پھر دنیا اور آخرت کے ثواب کا انسان وارث بن جاتا ہے۔
پھر سورۃ آل عمران کا دوسرا حصہ ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا، اس میں ایمانوں کی مزید مضبوطی کے لئے یہ تسلی بخش الفاظ بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ مردے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ امواتاً کا مردہ ہونے کے علاوہ یہ بھی مطلب ہے کہ جس کا بدلہ نہ لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جس کے پیچھے اس کے مقصد کو پورا کرنے والا کوئی نہ ہو۔ تیسرا یہ کہ جو مایوس اور غمزدہ ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے والے ایسے ہوں گے جو مردے نہیں ہیں جو احیاء کے زمرے میں آتے ہیں اور ان شہیدوں کے خون کا بدلہ خدا تعالیٰ لے گا۔ دوسرے یہ کہ ان شہیدوں کی شہادت سے پیچھے رہنے والے کمزور نہیں ہو جائیں گے۔ شہادت سے سرشار لوگوں کا گروہ ہر وقت موجود رہے گا۔ اور تیسرے یہ کہ یہ شہداء خدا تعالیٰ کے حضور ایسا مقام پانے والے ہیں اور انہیں ایسا رزق دیا جائے گا جس پر وہ خوش ہیں۔ ان کی موت افسردہ موت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے خوشی کے سامان پیدا کرنے والی موت ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ جب اگلے جہان جا کر ان کو یہ خوشخبری ملے گی کہ ان کی قربانی نہ صرف قربانیاں کرنے والوں کی، خواہش رکھنے والوں کی ایک تعداد پیدا کرنے والی بنی ہے بلکہ یہ بھی خوشی ہے کہ یہ قربانیاں دشمنوں پر آخری فتح کا باعث بننے والی ہیں۔ پس یہ قربانیاں، یہ امتحان، یہ عارضی ابتلاء ہماری ترقی کی رفتار تیز کرنے والے ہیں نہ کہ مایوسی میں دھکیلنے والے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ اس طرح فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔ تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حٰمٓ سجدہ: 31) یعنی یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور استقامت اختیار کی ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔ اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے۔ کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجودنہ ہو۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے۔ اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفا داری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں۔ صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں۔ ذلت پر خوش ہوجائیں۔ موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دیوے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 419۔ 420)
پس یہ حالت ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جب یہ حالت ہو کہ انسان ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنے بندے کو چھوڑتا نہیں، وہ بڑھ کر تھام لیتا ہے تبھی تو جنتوں کے وعدے بھی دے رہا ہے اور اس لئے اس میں ثبات قدم کی دعا بھی سکھلائی ہے اور دشمنوں پر فتح پانے کی دعا بھی سکھائی ہے۔ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اس طرح فتوحات کے دروازے کھولے گا کہ دشمن کے لئے کوئی جائے فرار نہیں ہو گی اور انشاء اللہ تعالیٰ آخری فتح کے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے کئے ہیں وہ یقینا پورے ہوں گے اور آخری فتح ہماری ہی ہو گی۔
ان قربانیوں کی داستان رقم کرنے والوں میں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی خوشخبری پانے والوں میں آج پھر ہمارے ایک بھائی شامل ہوئے ہیں جو بھوئیوال ضلع شیخوپورہ کے مکرم خلیل احمد صاحب ابن مکرم فتح محمد صاحب ہیں، جن کو 16 مئی 2014ء کو شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ 13 مئی 2014ء کو مخالفین نے گاؤں میں جماعت کے جو مخالفانہ سٹکر لگائے ہوئے تھے ان کو اتارنے کی وجہ سے احمدیوں سے جھگڑا ہو گیا اور جھگڑا تُو نہیں ہوا توتکار ہی تھی۔ اس معاملے کو جواز بنا کر انہوں نے جماعت کے خلاف بھوئیوال ضلع شیخوپورہ میں جلوس نکالا۔ لاؤڈسپیکر پرجماعت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں اور ٹریفک بلاک کر کے پولیس سے مطالبہ کیا کہ مقدمہ درج کریں جس پر پولیس نے چار احمدی احباب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جن میں مبشر احمد صاحب، غلام احمد صاحب، خلیل احمد صاحب اور احسان احمد صاحب تھے اور ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں سے خلیل احمد صاحب اور ملزمان کے بعض دیگر رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا اور حوالات میں بند کر دیا۔ مقدمہ کے اندراج کے بعد ایف آئی آر میں جو باقی نامزد ملزمان تھے، ان کی عبوری ضمانتیں کروا لی گئی تھیں اور خلیل صاحب کی ضمانت کے حوالے سے کارروائی ہو رہی تھی کہ 16؍ مئی 2014ء بروز جمعہ سوا بارہ بجے دوپہر سلیم نامی ایک نوجوان آیا، جو قریبی گاؤں کا رہنے والا تھا کہ میں کھانا دینے آیا ہوں۔ اس بہانے سے اندر داخل ہوا اور حوالات کے قریب آ کر پوچھا کہ خلیل صاحب کون ہیں؟ اور نشاندہی ہونے پر پستول نکال کر خلیل صاحب کے چہرے پر فائر کر دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اور قاتل نے دوسرے احمدی اسیران پر بھی فائر کی کوشش کی لیکن اس وقت پستول چلا نہیں، گولی پھنس گئی۔ پولیس نے مجرم کو گرفتار کر لیا، خلیل صاحب کو حوالات سے باہر نکالا لیکن اس وقت تک جام شہادت نوش فرما چکے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
گو اُسے گرفتار تو کر لیا لیکن حال یہی ہے کہ یہ سب کچھ وہاں کے سرکاری افسروں اور پولیس کی آنکھوں تلے ہو رہا ہے اور یہ نوجوان جس کو مولویوں نے احمدیت کی دشمنی میں بالکل ہی اندھا کیا ہوا تھا اس نے یہ ایک نعرہ لگایا کہ ’’مجھے جنت مل گئی‘‘۔ یہ تو آج کل کے مولویوں کا حال ہے جو یہ تعلیم دے رہے ہیں۔ اللہ اور اس کا رسول یہ کہتے ہیں کہ کلمہ پڑھنے والے کو مارنے والے، قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے اور یہ ان کو جنتوں کی خوشخبریاں دے رہے ہیں۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق بھوئیوال ضلع شیخوپورہ سے تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد فتح محمد صاحب کے ذریعہ سے ہوا۔ دو بھائیوں سردار محمد صاحب اور چوہدری محمد عمر دین صاحب کے ہمراہ 1918ء میں خلافت ثانیہ میں انہوں نے بیعت کی۔ شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔ بوقت شہادت ان کی عمر 61 سال تھی، میٹرک تک تعلیم تھی۔ واپڈا میں ملازم ہو گئے تھے۔ شہادت سے ڈیڑھ ماہ قبل ہی محکمہ سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ مکرم خلیل احمد صاحب شہید مرحوم بفضل خدا تہجد گزار، پنجوقتہ نمازوں کے پابند، تلاوت کے باقاعدہ کرنے والے، خلافت کے ساتھ محبت کا، اخلاص کا گہرا تعلق رکھنے والے، خطبہ جمعہ اور باقی پروگرام بڑی باقاعدگی سے سنتے تھے۔ بچوں کو اس کی تلقین کرتے تھے۔ واقفین زندگی کے ساتھ بڑی محبت کا تعلق تھا۔ عزت و احترام ان کا کرتے تھے۔ مہمان نوازی آپ کا وصف تھا۔ مرکزی نمائندوں کی مہمان نوازی میں فخر محسوس کرتے۔ بڑے امانتدار اور مخلص احمدی تھے۔ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھے۔ کمزور احباب اور غرباء کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتے۔ جماعتی خدمات کے طور پر ان کو سیکرٹری مال، سیکرٹری دعوت الی اللہ اور زعیم انصار اللہ کی خدمت کی توفیق ملی۔
ان کی اہلیہ اور دو بیٹیاں ہیں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک جرمنی میں ہیں لئیق احمد صاحب اور ایک احسان احمد وہیں قائد خدام الاحمدیہ ہیں۔ معلم صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بڑے دعا گو تھے اور بڑی پر درد دعائیں کیا کرتے تھے۔ فرضوں اور سنتوں کی ادائیگی کے بعد تمام دوست مسجد سے چلے جاتے تھے لیکن ان کی سنتیں اور نوافل دیر تک جاری رہتے تھے۔ ابھی نماز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
اس کے علاوہ نماز جنازہ حاضر بھی ہیں۔ ایک جنازہ ہے مولوی احسان الٰہی صاحب ریٹائرڈ معلم وقف جدید کا جو آجکل یہاں لندن میں رہتے تھے۔ 17؍ مئی کو 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی رحمت علی صاحب (پھیرو چچی جو قادیان کے نزدیک ہے ان) کے بیٹے تھے اور یہ جو مولوی رحمت علی صاحب تھے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ قادیان میں مالی مقرر فرمایا تھا۔ احسان الٰہی صاحب نے 1949ء میں زندگی وقف کی اور 1957ء سے وقف جدید میں بطور معلم خدمت کا آغاز کیا جو اکتوبر 1999ء تک جاری رہا۔ اسی سال ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بچوں کے پاس لندن آ گئے۔ سندھ میں ان کی تقرری رہی ہے۔ بے شمار جگہوں پر ان کو نئی جماعتیں قائم کرنے کی توفیق ملی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹے ان کے محمد احمد صاحب شمس مربی سلسلہ بھی ہیں۔ دوسرا جنازہ حاضر جو ہے وہ نسرین بٹ صاحبہ کا ہے جو 18؍ مئی کو 48 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بہت نیک، خداترس، غریب پرور خاتون تھیں۔ جماعت کی فعال ممبر تھیں۔ چندہ جات کی ادائیگی میں باقاعدہ تھیں۔ ساڑھے چار سال قبل اپنے شوہر کی اچانک وفات کے بعد اپنے بچوں کی اچھے رنگ میں پرورش اور تربیت کی توفیق پائی اور انہیں نظام جماعت اور خلافت کے ساتھ وابستہ رکھا۔ خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ انہوں نے چار بیٹے پیچھے یاد گار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ماں باپ کی نیک دعاؤں اور تمناؤں کا وارث بنائے۔ جماعت سے وابستہ رکھے اور یہ تینوں جن کے ہم جنازے پڑھیں گے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
کوئی بھی ایسی قربانی جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہو، اس کے نمونے قائم کرنے کے لئے آج خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو پیدا کیا ہے۔
الٰہی جماعتیں دنیاوی حکومتوں یا دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں۔
صرف اس بات پر پریشان نہیں ہو جانا چاہئے کہ ایک ملک میں ابتلاء یا امتحان کا دور لمبا ہو گیا۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وسعتیں کہاں تک پھیل رہی ہیں۔
ہمارا انحصار نہ کسی حکومت پر ہے نہ کسی انسانی حقوق کی تنظیم پر بلکہ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے۔
اس فتح کے حصول کا سب سے زیادہ تیر بہ حدف نسخہ جو ہے وہ دعائیں ہیں۔
امن قائم کرنا ہے تو انصاف قائم کرو۔
اگر ہر احمدی خدا پر انحصار کی حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو جہاں جہاں بھی احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ دعاؤں سے ہی ہَوا میں اڑ جائیں گی۔ مگر شرط ان دعاؤں کا حق ادا کرنا ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کی خاطر استقامت دکھانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان کی جنتوں کا وارث بناتا ہے۔
ایک حقیقی احمدی ہر وقت خدا پر نظر رکھتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر وقت کوشش کرتا ہے۔
کامیابیاں دعاؤں سے ملتی ہیں۔
یہ قربانیاں، یہ امتحان، یہ عارضی ابتلا ہماری ترقی کی رفتار تیز کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے جو وعدے کئے ہیں وہ یقینا پورے ہوں گے اور آخری فتح ہماری ہی ہو گی۔
فرمودہ مورخہ 23؍مئی 2014ء بمطابق 23ہجرت 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔