خلافت اور کامل اطاعت
خطبہ جمعہ 6؍ جون 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَ فَلَا یَنْظُرُ و نَ اِ لَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیفَ رُفِعَتْ۔ وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ (ا لغا شیہ: 18۔ 21)
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ جہاں بھی اور جس معاملے میں بھی ہمیں رہنمائی کی ضرورت ہو، کسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہو۔ قرآن کریم میں بیان فرمودہ حکمت کے موتیوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو یا ان کی تلاش ہو تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی کتب اور ارشادات مل جاتے ہیں جو ہمارے مسائل حل کرتے ہیں۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں جمعہ پر اکثر ہم دوسری رکعت میں پڑھتے ہیں۔ سورۃ غاشیۃکی یہ آیات پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں پہلی آیت جو میں نے پڑھی ہے یعنی اَ فَلَا یَنْظُرُ و نَ اِ لَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے؟ اس کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے وہ اپنی گہرائی اور خوبصورتی اور علم و عرفان اور پھر عملی حالت پر منطبق کرنے کا ایک عجیب اور جدا نقشہ کھینچتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس آیت سے نبوت اور امامت کی اطاعت کے مسئلہ کو حل فرمایا ہے اور نبوت اور امامت کے ساتھ جڑنے والوں کے لئے جو بنیادی چیز ہے یعنی اطاعت اور کامل اطاعت اس کو آپ نے اِبِل یعنی اونٹ کے لفظ سے یا اونٹوں کے لفظ سے جوڑ کر وضاحت فرمائی ہے۔ بظاہر یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ اونٹوں اور نبوت اور امامت کی اطاعت کا کیا جوڑ ہے لیکن جس طرح کھول کر آپ نے تشریح فرمائی ہے اس سے اس جوڑ کا حیرت انگیز ادراک ہمیں بھی حاصل ہوتا ہے۔ آپ کی تفسیر پہلے پیش کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ
’’قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے اَ فَلَا یَنْظُرُ وْ نَ اِ لَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ (الغاشیہ: 18)۔ یہ آیت نبوّت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے۔ اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے اِبِل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے اس میں کیا سرّ ہے؟ کیوں اِلَی الْجَمَل بھی تو ہو سکتا تھا‘‘؟ جَمَل بھی تو اونٹ کو کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جَمَل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور اِبِل اسم جمع ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدّنی اور اجمالی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جَمَل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا اسی لئے اِبِل کے لفظ کو پسند فرمایا۔ اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوّت ہے۔ دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرَو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو۔ پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے۔ جیسے گھوڑے وغیرہ میں۔ گویا اونٹ کی سرشت میں اِتّباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اَ فَلَا یَنْظُرُ وْ نَ اِ لَی الْاِبِلِ کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں۔ اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدّنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو‘‘۔ یہ پہلی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے۔ اس سے مطابقت کے لئے تمدنی اور اتحادی حالت قائم رکھنے کے لئے ایک امام ہو۔ ’’پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے۔ پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے‘‘۔ دنیا کا بھی جو زندگی کا سفر ہے اس میں ایک امام ہونا ضروری ہے جو صحیح رہنمائی کرتا رہے۔ ’’پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے۔ اس سے صبر و برداشت کا سبق ملتا ہے۔ پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے۔ غافل نہیں ہوتا۔ پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’اُنْظُرکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس سے اتّباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدّنی اور اتّحادی حالت کو دکھایا گیا ہے اور ان میں اتّباع امام کی قوت ہے۔ اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتّباع امام کو اپنا شعار بناوے۔ کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے۔ کَیْفَ خُلِقَتْ میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو اِبِل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 393-394 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کو بھیجا اور ہمیں پھر انہیں ماننے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور پھر آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے بھی نوازا۔ ہمیں اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اور اس روح کو سمجھناچاہئے جو خلافت کے نظام میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جومَیں مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ میرے نام پر افراد جماعت سے بیعت لینے والے افراد آتے رہیں گے۔ (ماخوذ از الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306) یعنی خلافت آپ کی نیابت میں آپ کے نام پر بیعت لے گی۔ جب آپ کے نام پر بیعت لی جا رہی ہے تو پھر خلافت کی بیعت اور اطاعت کی کڑی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جا کے ملتی ہے۔ پس یہ جو اقتباس مَیں نے پڑھا ہے اس میں نبوت اور امامت کا جو تعلق آپ نے اِبِل کی خصوصیات کے ساتھ جوڑا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے جڑے رہنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی روحانی بقا اور ترقی ہے اور یہ ضمانت ہے۔ اس میں جماعت کی ترقی اسی صورت میں ہے جب ہم خلافت کے نظام سے جڑے رہیں گے۔ اسی میں شیطانی حملوں سے بچنے کے سامان بھی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام تمہاری ڈھال ہے۔ (الصحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام ویتقیٰ بہٖ حدیث 2957)
پس اس ڈھال کے پیچھے رہو گے تو بچت کے سامان ہیں اور ڈھال کے پیچھے رہنا یہی ہے کہ کامل اطاعت کرو۔ اپنی لائنوں پر چلو۔ اس قطار میں چلو جو تمہارے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔ اس سے ذرا باہر نکلے تو بھٹکنے کا خطرہ ہے گمنے کا خطرہ ہے۔
پھر اطاعت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِيْ فَقَدْ اَطَاعَنِيْ وَ مَنْ عَصٰی اَمِیْرِيْ فَقَدْ عَصَانِيْ۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی جلد دوم صفحہ 736 حدیث 2554 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت امیر کے بارے میں اور بھی بہت سے ارشادات ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اطاعت اور فرمانبرداری کے حکم دئیے گئے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ایک راز ہے جو جماعتی ترقی کے لئے جاننا ضروری ہے۔ ہر اس شخص کے لئے جاننا ضروری ہے جو جماعت سے منسلک ہے۔ پس اس بات کو سمجھنے کی افراد جماعت کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ خاص طور پر آجکل کے دور میں جبکہ آزادی کے نام پر ان غلط خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کیوں ہم پابندیاں کریں؟ کیوں ہمارے پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں؟ کیوں ہمیں بعض معاملات میں آزادی نہیں؟ ایک احمدی مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے ہر جائز آزادی اپنے ماننے والوں کو دی ہے۔ اور جتنی آزادیاں اسلام میں ہیں شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ہوں بلکہ اس کے مقابلے میں نہیں ہیں۔ لیکن بعض حدود جو قائم کی ہیں وہ انسان کے اپنے اخلاق کی درستی کے لئے، روحانی ترقی کے لئے اور جماعتی یکجہتی کے لئے اور جماعتی ترقی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور ان کے اندر رہنا ضروری ہے۔
یہاں میں عہدیداروں کو بھی کہوں گا کہ اگر جماعتی ترقی میں ممد و معاون بننا ہے اور عہدے صرف بڑائی کی خاطر نہیں لئے گئے۔ اپنے اظہار کی خاطر نہیں لئے گئے۔ اپنی انا کی تسکین کی خاطر نہیں لئے گئے تو اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے۔ اگر عہدیدار اس مضمون کو سمجھ جائیں تو افراد جماعت خود بخود اس کی طرف توجہ کریں گے۔ اور ہر سطح پر اطاعت کے نمونے ہمیں نظر آئیں گے۔ ہمیں اونٹوں کی قطار کی پیروی کرتے ہوئے سب نظر آئیں گے۔ ایک رخ پر چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امام کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پس امیر بھی، صدر بھی اور دوسرے عہدیدار بھی پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں یا اس میں تاویلیں نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اگر تاویلیں نکالتے ہیں تو یہ اطاعت نہیں۔ روایات میں ایک واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا آتا ہے۔ جب گلی میں چلتے ہوئے آپ کے ایک صحابی عبداللہ بن مسعودنے ’بیٹھ جاؤ‘ کی آواز سنی اور بیٹھ گئے۔ آواز سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو اندر مسجد والوں کے لئے ہے بلکہ آواز سنی اور بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مشکل سے قدم قدم مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ یہ آپ کو کیا ہوا ہے جو اس طرح گھسٹ رہے ہیں۔ آپ نے یہی جواب دیا کہ اندر سے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا۔ پوچھنے والے نے کہا کہ یہ حکم تو اندر والوں کے لئے تھا۔ آپ نے جواب دیا مجھے اس سے غرض نہیں کہ یہ اندر والوں کے لئے ہے یا باہر والوں کے لئے یا سب کے لئے۔ میرے کان میں اللہ کے رسول کی آواز پڑی اور میں نے اطاعت کی۔ پس یہی میرا مقصد ہے۔ (ماخوذ از سنن ابی داؤد کتاب الجمعۃ باب الامام یکلم الرجل فی خطبتہ حدیث 1091)
پس یہ معیار ہیں اطاعت کے جو ہمیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض عہدیدار خلیفۂ وقت سے جو کوئی ہدایت آتی ہے تو اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں لیکن بڑے انقباض سے، نہ چاہتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں۔ اور نہ چاہتے ہوئے عمل کرنا کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے۔ اپنی رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن جب کسی معاملے میں خلیفہ وقت کا فیصلہ آ جائے کہ یوں کرنا ہے تو پھر اپنی رائے کو یکسر بھلا دینا ضروری ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مَیں بعض معاملات میں اپنی رائے رکھتا ہوں اور اپنی طرف سے دلیل کے ساتھ خلیفۃ المسیح کو اپنی رائے پیش کرتا ہوں لیکن اگر میری رائے ردّ ہو جائے تو کبھی مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ کیوں یہ ردّ ہوئی ہے یا میری رائے کیا تھی۔ پھر میری رائے وہی بن جاتی ہے جو خلیفہ وقت کی رائے ہے۔ پھر کامل اطاعت کے ساتھ اس حکم کی بجا آوری پر میں لگ جاتا ہوں جو خلیفہ وقت نے حکم دیا تھا۔ (ماخوذ از حیات بشیر مؤلفہ شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمَل صفحہ 322-323 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: غسّال کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دو۔ (ماخوذ ازخطبات نور صفحہ 131) جس طرح مردہ اپنے آپ کو ادھر ادھر نہیں کر سکتا، حرکت نہیں کر سکتا، اس کو نہلانے والا اس کو حرکت دے رہا ہوتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات نور صفحہ 131 مطبوعہ ربوہ)
اسی طرح کامل اطاعت والے کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دیدے اور جب یہ معیار ہو گا تو تبھی عہد بیعت نبھانے والے بن سکیں گے۔ تبھی اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کو جس نے بیعت کا عہد کیا ہے نہ صرف یہ سوچ پیدا کرنی ہو گی بلکہ اپنے عمل سے اس کا ثبوت دینا ہو گا۔ اپنے نمونے نئے آنے والوں کے لئے بھی اور اپنی اولادوں کے لئے بھی قائم کرنے ہوں گے۔ نوجوانوں کو بھی اپنے نمونے بڑوں کو دکھانے کی ضرورت ہے، یعنی بڑے اپنے نمونے قائم کریں جو ان کے بچے اور نوجوان دیکھیں اور سیکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ معیار اوپر سے لے کر نیچے تک ہر عہدیدار کو دکھانا ہو گا، قائم کرنا ہو گا۔ یہاں بعض ذہنوں میں کبھی کبھی یہ سوال اٹھتا ہے۔ اگر وہ باتیں صحیح ہیں۔ میں سوال کی بات کر رہا ہوں جو مجھ تک پہنچے ہیں اگر یہ باتیں صحیح ہیں کہ یہ سوال اٹھانے والے اٹھاتے ہیں کہ کامل اطاعت شایدنقصان دہ ہے۔ اور ایسے لوگوں کی یہ سوچ شاید اس لئے ہے جو کامل اطاعت کو نقصان دہ سمجھتے ہیں کہ یہاں جرمنی میں ہٹلر نے اپنا ہر حکم منوایا اور ڈکٹیٹر بن کر رہا اس لئے دوسری جنگ عظیم میں یہ تصور ہے، یہ تاثر ہے کہ اس وجہ سے ہماری یعنی جرمنی کی شکست بھی ہوئی۔ ان کو نقصان اٹھانا پڑا، سبکی اٹھانی پڑی۔
مَیں یہاں ہر احمدی اور ہر نئے آنے والے اور ہر نوجوان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امامت اور خلافت اور ڈکٹیٹر شپ میں بڑا فرق ہے۔ خلافت زمانے کے امام کو ماننے کے بعد قائم ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے اور ہر ماننے والا یہ عہد کرتا ہے کہ ہم خلافت کے نظام کو جاری رکھیں گے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ جب اپنی خوشی سے دین کو مان لیا تو پھر دین کے قیام کے لئے اس عہد کو نبھانا بھی ضروری ہے جو خلافت کے قیام کے لئے ایک احمدی کرتا ہے اور جو قومی یکجہتی کے لئے وحدت کے لئے ضروری ہے۔ خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سرکردگی میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش کرنی ہے۔ دوسرے مسلمان جو ہیں وہ بغیر امام کے ہیں اور جماعت احمدیہ کی کوششیں جو ہیں وہ خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں۔ یہ سب کوششیں جو خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں ان کی کامیابی کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ (حقیقی تعلیم دوسرے مسلمانوں کے پاس بھی ہے لیکن اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ) ان نتائج کا حصول، کامیابی کا حصول خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کی وجہ سے ہے۔
پھر خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھرپور توجہ دینا ہے۔ ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے۔ ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہر حال دنیا سے مقدم رہنا چاہئے اور اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے۔ یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے۔ توحید کے قیام کے لئے بھرپور کوشش یہ بھی خلافت کا کام ہے۔ جبکہ دنیاوی لیڈروں کے تو دنیاوی مقاصد ہیں۔ ان کا کام تو اپنی دنیاوی حکومتوں کی سرحدوں کو بڑھانا ہے۔ اسی کی ان کو فکر پڑی رہتی ہے۔ ان کا کام تو سب کو اپنے زیر نگیں کرنا ہے۔ دنیا میں آپ دیکھیں اپنے ملکوں کی حدوں سے باہر نکل کر بھی دوسرے ملکوں کی آزادیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں ہوں۔ دنیاوی لوگوں کا تو یہ کام ہے۔ ان کا کام تو جھوٹی اَناؤں اور عزتوں کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑانا ہے جو ہمیں مسلمان دنیا میں بھی اور باقی دنیا میں بھی نظر آتی ہے۔
کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔
کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔
مَیں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپرد خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلافت اور دنیاوی لیڈروں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ویسے ہی غلط ہے۔ بعض دفعہ دنیاوی لیڈروں سے باتوں میں جب مَیں صرف ان کو روزانہ کی ڈاک کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ اتنے خطوط مَیں دیکھتا ہوں لوگوں کے ذاتی بھی اور دفتری بھی توحیران ہوتے ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس کسی موازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بعض لوگوں کی اس غلط فہمی کو بھی دور کر دوں گو کہ پہلے بھی مَیں شرائط بیعت کے خطبات کے ضمن میں اس کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں کہ ہر احمدی خلیفہ وقت سے اس کے معروف فیصلہ پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ معروف کی تعریف انہوں نے خود کر نی ہے۔ ان پر واضح ہو کہ معروف کی تعریف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی ہے۔ یہ پہلے ہی تعریف ہو چکی ہے۔ معروف فیصلہ وہ ہے جو قرآن اور سنت کے مطابق ہو۔ جس خلافت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق عَلَی مِنْہَاج النّبُوۃ قائم ہونا ہے، اس طریق کے مطابق چلنا ہے جو نبوت قائم کر چکی ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق یہ دائمی بھی ہے جو آپ کے کام کو آگے چلانے کے لئے ہے وہ قرآن و سنت کے منافی یا خلاف کوئی کام کر ہی نہیں سکتی اور یہی معروف ہے۔ معروف سے یہاں یہ مراد ہے۔ پس اطاعت کے بغیر دوسروں کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ یا پھر قرآن و سنت سے جو اختلاف کرنے والے ہیں یہ ثابت کریں کہ خلیفۂ وقت کا فلاں فیصلہ یا فلاں کام قرآن و سنت کے منافی ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا ہے کہ خلفاء راشدین کے فیصلے اور عمل اور سنت بھی تمہارے لئے قابل اطاعت ہیں۔ ان پر چلو۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ حدیث 4607)
پس یہ ثابت کرنے کے لئے کہ فیصلے غلط ہیں پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ جماعت میں رہتے ہوئے اگر کوئی بات کرنی ہے تو پھر ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے خلیفہ وقت کو لکھنا ہو گا۔ لکھنے کی اجازت ہے۔ اِدھر اُدھر باتیں کرنے کی اجازت نہیں۔ یہاں سے وہاں بیٹھ کر غلط قسم کی افواہیں پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ تا کہ اگر سمجھنے والے کی سمجھ میں غلطی ہے تو خلیفہ وقت اس کو دور کر سکے اور اگر سمجھے کہ اس غلطی کو جماعت کے سامنے بھی رکھنے کی ضرورت ہے تو تمام جماعت کو بتائے۔ جماعت جب بڑھتی ہے تو منافقین بھی اپنا کام کرنا چاہتے ہیں۔ حاسدین بھی اپنا کام کرتے ہیں۔ خلافت سے سچی وفا یہ ہے کہ ان کے منصوبوں کو ہر سطح پر ناکام بنائیں اور خلافت سے جو بعض بدظنیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک واقعہ ہے جو قرآن کریم کا ترجمہ انگلش میں کرنے کے لئے لندن آ رہے تھے تو بمبئی سے غالباً ان کی روانگی تھی۔ وہاں پہنچے تو جمعہ کا دن آ گیا۔ جماعت نے درخواست کی کہ آج جمعہ ہے آپ جمعہ پڑھائیں۔ قادیان سے آئے ہیں بزرگ ہیں صحابی ہیں ہم بھی آپ سے کوئی فیض پا لیں۔ نہ جماعت والے آپ کو جانتے تھے، نہ کبھی دیکھا تھا، نہ آپ کسی کو جانتے تھے۔ آپ نے خطبہ دیا کہ دیکھو تم مجھے جانتے نہیں ہو۔ بعضوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہوا۔ تم نے مجھے جمعہ کے لئے کھڑا کر دیا۔ آج اپنا امام بنا دیا۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر امام نماز پڑھاتے ہوئے کوئی غلطی کرے تو تم نے سبحان اللہ کہہ دینا ہے۔ اگر امام اس سبحان اللہ پر اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر وہ اصلاح نہیں کرتا، اسی طرح اپنے عمل جاری رکھتا ہے تو تمہارا کام کامل اطاعت کرتے ہوئے اس کے ساتھ اٹھنا اور بیٹھنا ہے۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ تم اپنے طور پر نماز پڑھنی شروع کر دو۔ اسی طرح تم نے بیٹھنا ہے اسی طرح اٹھنا ہے اسی طرح جھکنا ہے۔ پس آگے انہوں نے فرمایا کہ جب عارضی امامت میں اطاعت کا یہ معیار ہے اس کی اتنی پابندی ہے تو خلیفہ وقت کی بیعت میں آ کر جو تم عہد کرتے ہو اور خوشی سے عہد کر کے خود شامل ہوتے ہو، اس میں کس قدر اطاعت ضروری ہے۔ جبکہ تم نے خود سوچ سمجھ کر یہ بیعت کی ہے۔ پس یاد رکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لئے اطاعت انتہائی اہم ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے بدُوں اس کے اطاعت ہو ہی نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے‘‘۔ بڑے بڑے توحید کا دعویٰ کرنے والے جو ہیں وہ بھی اطاعت سے بعض دفعہ باہر نکل جاتے ہیں بت بنا بیٹھتے ہیں۔ فرمایا: ’’کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کریں‘‘۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سرّ ہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں کی جا سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ 246-247 تفسیر سورۃ النساء زیر آیت 59۔ الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری 1901ء صفحہ 1 کالم 2-3)
تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کامل اطاعت کی وجہ سے اپنی گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور چند سالوں میں دنیا میں اسلام کو پھیلا دیا تو یہ اطاعت کی وجہ تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جنگوں سے اسلام پھیلا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تبلیغ بھی انہوں نے کی۔ اگر کہیں جنگوں کا سامنا ہوا تو دشمن کی کثرت اور تعداد اور حملے انہیں اپنے کام سے روک نہیں سکے۔ اطاعت کی روح ان میں تھی تو کثیر دشمن کے سامنے بھی اگر ضرورت پڑی تو کھڑے ہو گئے اور اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے ماننے والوں نے اطاعت کا نمونہ نہ دکھا کر چالیس سال تک اپنے آپ کو انعام سے محروم رکھا۔ پس اگر ترقی کرنی ہے تو اس زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جہاد ہے اور پھر وہ جہاد ہے جو تبلیغ کے ذریعہ ہونا ہے خلیفہ وقت کے پیچھے چل کے ہونا ہے اس کی پابندی کرنی ہو گی۔ اسی طرح عمل کرنا ہو گا جس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اِبِل یعنی اونٹوں کی مثال سے واضح فرمائی ہے۔ اپنی فطرت ثانیہ اطاعت کو بنانا ہو گا بلکہ ہر چیز پر اطاعت امام کو فوقیت دینی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی تفسیر کی روشنی میں بات مزید آگے بڑھاتا ہوں کہ ہلاکت سے بچنے اور بھٹکنے سے بچنے کے لئے اپنی اطاعت کو اطاعت کے اعلیٰ معیاروں پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی صبر کے ساتھ مشکلات میں سے گزرا جا سکتا ہے۔ یہ بھی آپ نے فرمایا جو مشکلات میں سے گزر سکتے ہیں تو صبر کے ساتھ مشکلات میں سے خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی گزرا جا سکتا ہے۔ مخالفین احمدیت جتنا بھی ہمیں دبائیں گے۔ ہمیں اپنے زعم میں جتنا بھی دبانے کی کوشش کریں گے، مشکلات میں ڈالیں گے، اپنے زعم میں ہمیں ختم کرنے کی آخری کوششیں کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے باوجود ہماری منزلوں کی طرف انشاء اللہ تعالیٰ لے جاتا چلا جائے گا۔ لیکن شرط یہی ہے کہ اطاعت اور کامل اطاعت۔
آج ہم دیکھتے ہیں دوسرے مسلمان بیشک قرآن و سنت کو ماننے اور عمل کا دعویٰ کرتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا لیکن ہمیں ان میں صبر اور برداشت نظر نہیں آتی۔ سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کیا کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔ پس یہ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا ہی طُرّہ امتیاز ہے کہ صبر اور برداشت کے ایسے نمونے قائم کر رہے ہیں جو قابل رشک ہیں۔ تکلیفوں کو برداشت کرنے کے ایسے نمونے دکھا رہے ہیں جو کہ دَورِ اوّل کے مسلمانوں میں نظر آتے ہیں۔ اور وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4) کا مضمون اس زمانے کے لئے واضح ہو جاتا ہے۔
پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اونٹ سفر کے لئے پانی جمع رکھتا ہے۔ اس بات سے غافل نہیں ہوتا کہ میں نے ضرورت کے وقت پانی کی کمی کو کس طرح پورا کرنا ہے۔ پانی جمع رکھتا ہے تا کہ ضرورت کے وقت وہ پانی کام آئے۔ آپ نے فرمایا کہ مومن کو بھی ہر وقت سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے۔ اور یہ تیاری اور احتیاط کس طرح ہو گی؟ یہ زادِ راہ کے ساتھ ہے۔ زادِ راہ رکھنے سے ہو گی۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا مومن بھی اس دنیا میں مسافر کی طرح ہے اور بہترین زادِ راہ مومن کے لئے تقویٰ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 394 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اعمال کو اور اپنی عبادتوں کو وہ رنگ ہمیں دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے بہترین زادِ راہ ثابت ہوں۔ اس زمانے کے امام کو مان کر روحانی پانی ہمیں میسر آ گیا۔ اس کو سنبھالنا اور اس سے فائدہ اٹھانا اب ہمارا کام ہے۔ پس اس حقیقت کو بھی ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو کامل اطاعت کے ساتھ امام وقت کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور یہی باتیں ہیں جو پھر خلافت کے انعام سے بھی فیض پانے والا بناتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، توحید کو قائم رکھنے والے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے کہلاتے ہیں۔ پس ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلافت میں کبھی دنیاوی مقاصد ہو سکتے ہیں یا خلافت کا مقصد بھی دنیاوی مقاصد کی طرح ہے یا دنیا داروں کی طرح ہے۔ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے والوں کا روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو تمام دنیاوی سازو سامان کے ساتھ بھی بسا اوقات کامیاب نہیں ہوتے۔ ان کے دنیاوی مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ کامیابی تو وہی ہے ناں جو آخری فتح مل جائے۔ وہ ان کو حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کا مقصد دنیاوی ہار جیت نہیں ہے بلکہ کامل اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور تقویٰ میں بڑھنا ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنا ہے۔ کوئی ذاتی نفع رسانی نہیں ہے۔ توحید کا جھنڈا لہرانا ہے۔ ہم نے دنیا کے دل جیت کر دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ اسی مقصد کے لئے ہمارے تبلیغی پروگرام ہیں اور دوسرے پروگرام ہیں۔ اس کے حصول کے لئے ہماری دعاؤں کی طرف توجہ ہے اور ہونی چاہئے۔
پس خلافت تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے لئے اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلافت ہے کیا؟ اور یہ بات اسی وقت سمجھ آئے گی جب کامل اطاعت پر یقین پیدا ہو گا۔ کوئی جتنا جتنا بھی اپنے آپ کو عالم مدبّر یا مقرر سمجھتا ہے، اگر اطاعت نہیں ہے تو نہ ہی جماعت احمدیہ میں اس کی کوئی جگہ ہے، نہ ہی اس کا یہ علم اور عقل دنیا کو کوئی روحانی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتّباع امام کو اپنا شعار بناوے۔ پس جب مکمل طور پر خلیفہ وقت کی پیروی اور اطاعت اختیار کر لیں گے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور حکموں پر عمل کریں گے اور ان کی توجیہیں اور تاویلات نکالنی بند کر دیں گے تو علم بھی اور عقل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے ثمر آور ہو گی اور پھل پھول لائے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تفسیر پر بنیاد رکھتے ہوئے جب ہم باقی آیات جو مَیں نے تلاوت کی تھیں ان کو بھی دیکھیں تو مزید معانی کھلتے ہیں کہ روحانی آسمان کی بلندیوں کو بھی انسان اُسی وقت چھو سکتا ہے جب اَطِیْعُوا اللّٰہ َ واَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء: 60) کے مضمون کو سمجھیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا عہدیداران اپنے آپ کو اولی الامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے کے اس وقت تک حقدار نہیں کہلا سکتے جب تک خلافت کی کامل اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے اور تاویلیں کرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔ بلکہ خلیفہ وقت کے ہر لفظ کو اپنے لئے قابل اطاعت سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ بعض دفعہ بعض معاملات تحقیق کے لئے جب بھیجے جائیں تو پہلی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہ پتا کرو کہ شکایت کس نے کی ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ بات سچ ہے یا غلط ہے۔ اگر تحقیق میں سچائی ہے تو اس کے لئے اس کا مداوا ہونا چاہئے اس کا حل ہونا چاہئے اور جو بھی کمی ہے اس کو پورا ہونا چاہئے اور غلط ہے تو پھر رپورٹ دے دی جائے کہ غلط ہے کسی نے یونہی بات کر دی۔ تحقیق بعد میں کی جاتی ہے، پہلے اس شخص کا پتا کھوج لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون ہے وہ یا کون نہیں ہے۔ اس سے کسی عہدیدار کو غرض نہیں ہونی چاہئے کہ کس نے شکایت کی ہے کس نے اطلاع دی ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ جو رپورٹ بھیجی جائے، رپورٹ کے لئے کوئی بات بھیجی جائے اس پر تحقیق کریں اور اطلاع دیں۔ جہاں خلیفہ وقت کے کسی حکم کی واضح طور پر سمجھ نہ آئے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے وہاں یہ کہنے کی بجائے کہ اس کا یہ مطلب ہے اور وہ مطلب ہے مجھ سے لکھ کر پوچھیں کہ اس بات کی مزید وضاحت چاہئے ہمیں یہ واضح نہیں ہو ئی۔ اس بات کا کیا مطلب ہے۔ اسی طرح ہر فرد جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کامل اطاعت کرے۔ جب ہر ایک کامل اطاعت کرے گا تو روحانی بلندیوں کی طرف ہمارے قدم انشاء اللہ بڑھیں گے۔ یہی اس آیت کا مطلب ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب روحانی بلندیوں پر جاؤ گے تو ایمان بھی اس طرح مضبوط ہوں گے جس طرح پہاڑ مضبوطی سے زمین میں گڑھے ہوئے ہیں اور اس روحانی عروج اور مضبوطی ایمان کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم زمین پر اسلام کا پیغام لے کر پھیل جاؤ گے۔ تمہاری ترقی انشاء اللہ تعالیٰ مشرق میں بھی ہو گی اور مغرب میں بھی ہو گی۔ یورپ بھی تمہارا ہو گا اور ایشیا بھی۔ امریکہ بھی تمہارا ہو گا اور افریقہ بھی۔ آسٹریلیا میں بھی حقیقی اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور جزائر میں بھی۔
اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے مَیں ایک اَور بات بھی کہنا چاہتا ہوں۔ یہاں مَیں نے یہ سنا ہے کہ ایک اعتراض کرنے والے کی یہ بات سن کر آپ میں سے بعض پریشان ہو جاتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ جرمنی فتح ہو گیا تو یورپ فتح ہو گیا۔ جلسہ پر یہ بینر لگا ہوا تھا تو کسی نے دیکھ کر یہ اعتراض کیا کہ گویا آپ یہاں جرمنی کو فتح کرنے آئے ہیں۔ ظاہراً آپ نرمی اور پیار کا نعرہ لگاتے ہیں اور لبادہ اوڑھا ہوا ہے لیکن آپ کے عزائم خطرناک ہیں۔ یہ بات کہنے والے کی بھی بے سمجھی ہے۔ بے عقلی ہے یا شرارت ہے۔ اگر شرارت ہے تو خطرناک ہے کہ اس طرح مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جماعت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور سمجھانے والے کی بھی کم علمی ہے اور بلا وجہ کی پریشانی ہے کہ اس سوال سے پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔ عمومی طور پر یہاں کے رہنے والے لوگ، مقامی جرمن لوگ عقل رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو جماعت دنیا میں مشنری کام کر رہی ہے اور خدمت خلق کے کام کر رہی ہے، تبلیغ اسلام کر رہی ہے تو اس لئے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتا کر انہیں اسلام سے قریب کرے اور اس میں شامل کرے۔ فتح کے لفظ سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خدا نخواستہ ہم نے تلوار چلانی ہے یا حکومتوں پر قبضہ کرنا ہے۔ ہم تو سب سے پہلے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔ یہ ہر ایک کے دل کا معاملہ ہے۔ پس اس میں پریشان ہونے والی تو کوئی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہم دنیا میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔ جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو فتح کرنا ہے۔ لیکن تلوار سے نہیں بلکہ دل جیت کر۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دلوں کو گھائل کر کے۔ اگر حضرت مصلح موعودنے یہ فقرہ کہا تھا تو یہ تو جرمن قوم کی بڑائی بیان کی تھی۔ ایک جرمن نواحمدی کی دعوت پر یہ فقرات کہے گئے تھے کہ یورپ کے لیڈر جرمن ہیں۔ اس وقت آپ کے زمانے میں جرمن نواحمدی وہاں گئے تھے تو یہ ان کی بڑائی بیان ہو رہی ہے کہ یورپ کے لیڈر جرمن ہیں۔ ان میں لیڈرانہ صلاحیت ہے۔ اگر انہوں نے اسلام کو سمجھ لیا تو سمجھو کہ یہ تمام یورپ کو سمجھا سکیں گے اور پھر یورپ ان کی بات مانے گا۔ (ماخوذ از ہر عبد الشکور کنزے کے اعزاز میں دعوتوں کے مواقع پر تین تقاریر، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 69 مطبوعہ ربوہ)
حضرت مصلح موعود کی یہ بات سچ ہے۔ آج یہ ثابت ہو رہی ہے۔ یورپی یونین بنی ہوئی ہے۔ اس میں دیکھ لیں جرمنی کی لیڈرانہ صلاحیتیں ہی نظر آ رہی ہیں۔ ہر ایک اس کی طرف دیکھتا ہے۔ اب اس بات میں نہ تلوار کا سوال ہے نہ سختی کا سوال ہے بلکہ اسلام کی پیار و محبت کی تعلیم اور خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی تعلیم کی بات ہو رہی ہے۔ اس تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کی بات ہو رہی ہے۔
پرسوں ویزبادن میں مسجد کا سنگ بنیاد تھا۔ چار سو سے اوپر وہاں کے مقامی لوگ آئے ہوئے تھے۔ جرمن مہمان آئے ہوئے تھے۔ میں نے مختصراً اسلامی تعلیم کے حوالے سے وہاں باتیں کیں۔ ہر ایک نے تقریباً یہی کہا کہ یہ پیغام ہم سب کے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج اسلام کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ پس ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اخلاص و وفا کے ساتھ اپنے کام کرتے رہے تو ان میں سے یا ان کی اگلی نسلوں میں سے لوگ اسلام کوسمجھیں گے اور داخل ہوں گے۔ جس کو اللہ چاہے گا اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ پس خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے، نہ جھجھکنے کی ضرورت ہے، نہ ڈیفینسیو (defensive) ہونے کی ضرورت ہے، نہ ایسا جواب دینے کی ضرورت ہے جس سے خوف اور ڈر جھلک رہا ہو۔ نہ دنیاوی حکومتیں ہمارا مقصد ہیں اور نہ ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں بٹھانا اور اس کے آگے جھکانا ہمارا کام ہے اور یہ کام انشاء اللہ ہم کرتے رہیں گے۔ پس اس کام کو کرنے کے لئے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو خلافت سے کامل اطاعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے۔ اگر عہدیدار اس مضمون کو سمجھ جائیں تو افراد جماعت خود بخود اس کی طرف توجہ کریں گے۔ اور ہر سطح پر اطاعت کے نمونے ہمیں نظر آئیں گے۔
پس امیر بھی، صدر بھی اور دوسرے عہدے دار بھی پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں یا اس میں تاویلیں نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اگر تاویلیں نکالتے ہیں تو یہ اطاعت نہیں۔ بعض عہدیدار خلیفۂ وقت سے جو کوئی ہدایت آتی ہے تو اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں لیکن بڑے انقباض سے، نہ چاہتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں۔ اور نہ چاہتے ہوئے عمل کرنا کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے۔
امامت اور خلافت اور ڈکٹیٹر شپ میں بڑا فرق ہے۔ خلافت زمانے کے امام کو ماننے کے بعد قائم ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے اور ہر ماننے والا یہ عہد کرتا ہے کہ ہم خلافت کے نظام کو جاری رکھیں گے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ جب اپنی خوشی سے دین کو مان لیا تو پھر دین کے قیام کے لئے اس عہد کو نبھانا بھی ضروری ہے جو خلافت کے قیام کے لئے ایک احمدی کرتا ہے اور جو قومی یکجہتی کے لئے، وحدت کے لئے ضروری ہے۔
خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سرکردگی میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش کرنی ہے۔
خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھرپور توجہ دینا ہے۔ ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے۔ ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہر حال دنیا سے مقدم رہنا چاہئے اور اسی میں تمہاری بقا ہے۔ اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے۔
خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔
جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔
دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔
جماعت جب بڑھتی ہے تو منافقین بھی اپنا کام کرنا چاہتے ہیں۔ حاسدین بھی اپنا کام کرتے ہیں۔ خلافت سے سچی وفا یہ ہے کہ ان کے منصوبوں کو ہر سطح پر ناکام بنائیں۔
دوسرے مسلمان بیشک قرآن و سنت کو ماننے اور عمل کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہمیں ان میں صبر اور برداشت نظر نہیں آتی۔ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا ہی طُرّہ امتیاز ہے کہ صبر اور برداشت کے ایسے نمونے قائم کر رہے ہیں جو قابل رشک ہیں۔
کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو کامل اطاعت کے ساتھ امام وقت کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور یہی باتیں ہیں جو پھر خلافت کے انعام سے بھی فیض پانے والا بناتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، توحید کو قائم رکھنے والے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے کہلاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کا مقصد دنیاوی ہار جیت نہیں ہے بلکہ کامل اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور تقویٰ میں بڑھنا ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنا ہے۔ کوئی ذاتی نفع رسانی نہیں ہے۔ توحید کا جھنڈا لہرانا ہے۔ ہم نے دنیا کے دل جیت کر دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ اسی مقصد کے لئے ہمارے تبلیغی پروگرام ہیں اور دوسرے پروگرام ہیں۔ اس کے حصول کے لئے ہماری دعاؤں کی طرف توجہ ہے اور ہونی چاہئے۔
اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلافت ہے کیا؟ اور یہ بات اسی وقت سمجھ آئے گی جب کامل اطاعت پر یقین پیدا ہو گا۔ کوئی جتنا جتنا بھی اپنے آپ کو عالم مدبّر یا مقرر سمجھتا ہے، اگر اطاعت نہیں ہے تو نہ ہی جماعت احمدیہ میں اس کی کوئی جگہ ہے، نہ ہی اس کا یہ علم اور عقل دنیا کو کوئی روحانی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتّباع امام کو اپنا شعار بناوے۔ پس جب مکمل طور پر خلیفہ وقت کی پیروی اور اطاعت اختیار کر لیں گے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور حکموں پر عمل کریں گے اور ان کی توجیہیں اور تاویلات نکالنی بند کر دیں گے تو علم بھی اور عقل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے ثمر آور ہو گی اور پھل پھول لائے گی۔
عہدیداران اپنے آپ کو اولی الامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے کے اس وقت تک حقدار نہیں کہلا سکتے جب تک خلافت کی کامل اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے اور تاویلیں کرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔
ہم دنیا میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔ جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو فتح کرنا ہے۔ لیکن تلوار سے نہیں بلکہ دل جیت کر۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دلوں کو گھائل کر کے۔
فرمودہ مورخہ 06؍جون 2014ء بمطابق 06احسان 1393 ہجری شمسی، بمقام فرانکفرٹ۔ جرمنی
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔