جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۴ء
خطبہ جمعہ 13؍ جون 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جرمنی کا جلسہ سالانہ اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسے کی حاضری میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس سال بھی ہو گا اور ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس کی بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ تمام احمدیوں کو اس جلسہ میں شامل ہونا چاہئے۔ پس جس طرح جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے جلسے کی حاضری بھی بڑھنی چاہئے اور اس کی خاطر تکلیف اٹھا کر بھی لوگوں کو آنا چاہئے۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جلسے کے موقع عطا فرمائے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جلسے پر پابندی ہے تو وہاں کے احمدی بے چین ہو جاتے ہیں کہ کاش یہ پابندیاں ختم ہوں تو ہم بھی جلسے منعقد کریں اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو جلسے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں۔ ہم بھی ان دعاؤں کے حاصل کرنے والے بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کیں۔ یہاں بعض مہمان عورتیں بھی اور مرد بھی پاکستان سے آئے ہوئے ہیں جو مجھے ملے ہیں، روتے ہوئے بعض کی ہچکی بندھ جاتی ہے کہ ہم ان نعمتوں سے محروم ہیں۔ یہ دعا کریں کہ ہمیں بھی یہ نعمتیں ملیں۔ بہر حال جیسا کہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے احمدیوں کو اگر جلد ان مشکلات سے نکلنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جلد فضل کے سامان پیدا فرمائے۔ ظالموں کے ظلم اور دشمنوں کی مخالفتوں سے ہمیں نجات دے۔ یہ سب کچھ دعاؤں سے ہونا ہے۔ یہ چیز حاصل کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں۔ بہر حال میں آپ لوگوں سے جو یہاں رہنے والے ہیں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے یہ سامان پیدا فرمائے کہ جلسے منعقد کرتے ہیں۔ ہر طرح کے اجتماعات کرتے ہیں۔ ہر سطح پر اجلاسات منعقد کرتے ہیں۔ پس اس بات پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور شکر گزاری یہ ہے کہ جلسے کے پروگراموں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ جلسہ کے دنوں میں بھی اور پھر بعد میں بھی جو نیک باتیں یہاں دیکھیں اور سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کا مقصد صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرنا اور فقط دین کو چاہنا بتایا ہے۔ (ماخوذ از شہاد ۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ395)
یعنی ہر شخص جو جلسہ میں شامل ہوتا ہے اس نیت سے شامل ہونے کے لئے آئے کہ تھوڑی بہت مشکلات، تکلیفیں اگر برداشت بھی کرنی پڑیں تو کر لیں گے اور کوئی بے صبری کا کلمہ منہ سے نہیں نکالیں گے کہ ہم سے یہ سلوک ہوا اور وہ سلوک ہوا۔ اول تو عموماً یہاں ڈیوٹی دینے والے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جن میں کمی ہے انہیں مَیں دوبارہ یاد دہانی کروا دیتا ہوں کہ صبر سے اور برداشت سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے فرائض ادا کریں اور ساتھ ہی شاملین جلسہ سے بھی میں کہوں گا کہ یہاں جلسہ پر آنا صرف اس مقصد کے لئے ہونا چاہئے کہ اس نے یا آپ نے دین سیکھنا ہے اور اس ماحول میں اپنی روحانی ترقی کے سامان کرنے ہیں۔ اور پھر اس روحانی ترقی میں اپنی نسلوں کو بھی شامل کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’انسان اس وقت سوجاکھا کہلا سکتا ہے جب کہ باطنی رؤیت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے۔‘‘ فرمایا: ’’نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل تھے۔‘‘ فرمایا کہ ’’جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے۔ جیسا کہ قربانیوں کاخون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود قیام نہ ہو۔‘‘فرمایا کہ ’’دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔‘‘
پھر آپ نے یہ بھی دعا دی کہ’’خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے‘‘ (شہاد ۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 397۔ 398)
پس ہماری عملی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دعائیں ہیں۔ یہ دلی جذبات ہیں۔ یہ درد ہے۔ اور ان جلسوں کا مقصد بھی یہی عملی اصلاح ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ ان تین دنوں میں اپنی عملی اصلاح کے جائزے بھی لیتے رہیں اور اس طرف توجہ بھی دیں۔ ہمارے یہ معیار اس وقت قائم ہوں گے جب ہم ایک فکر کے ساتھ اس کی کوشش کریں گے۔ آپ علیہ السلام کا ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ درد انگیز اور ہمیں ہلا دینے والا ہے۔
فرمایا اپنی روحانی آنکھوں کو اس طرح روشن کرو جس طرح تمہاری یہ مادی آنکھیں روشن ہیں۔ ہماری آنکھوں کو ذرا سی تکلیف پہنچے تو ہمیں بے چین کر دیتی ہے۔ فوراً ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ آنکھوں کی ذرا سی دھندلاہٹ ہمیں پریشان کرتی ہے۔ اس کے لئے ہم کتنا تردد کرتے ہیں۔ ہر ایسی چیز سے اپنی آنکھوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہماری نظر پر اثر ڈالنے والی ہو۔ برا اثر ڈالنے والی ہو۔ کیا یہی کوشش ہم اپنی روحانی آنکھ کی روشنی اور اس کو صحت مند رکھنے کے لئے کرتے ہیں؟ ان تین دنوں میں اگر ہم توجہ بھی دے رہے ہوں تو اس کے بعد باہر جا کر ہم پھر ایسے کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں جو ہمارے روحانیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ پس روحانی آنکھ کی روشنی چند دنوں کی بات نہیں بلکہ یہ تین دن تو اس روشنی کے قائم رکھنے کے لئے علاج کے طور پر ہیں۔ اگر اس علاج کے بعد پھر بے احتیاطی ہو گی تو روحانی آنکھ کی روشنی متاثر ہو گی۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ حقیقی سوجاکھا وہی ہے جو نیک و بد میں پہچان کرنے والا ہو اور پھر جب پہچان ہو جاوے تو نیکی کی طرف جھک جاوے۔ پھر وہ نیکیاں سرزد ہوں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور ان نیکیوں میں جہاں خدا تعالیٰ کی عبادت ہے وہاں خدا تعالیٰ کی مخلوق کا حق بھی ہے۔
اب ایک مثال دیتا ہوں ایک حق جس کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے جماعت میں پریشانی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ جس کی عدم ادائیگی نے نہ صرف گھروں میں بے سکونی پیدا کی ہوئی ہے بلکہ کئی لڑکیاں جو پاکستان سے یا کئی دوسری جگہوں سے شادی ہو کر یہاں آتی ہیں ان کو اپنے گھروں سے دوری نے بھی انتہائی تکلیف میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ پھر پاکستان میں جو اُن کے ماں باپ ہیں ان کی پریشانی کی وجہ سے ان کی نیندیں الگ اڑ رہی ہیں۔ گو بعض لڑکوں سے بھی یہ زیادتیاں ہو رہی ہیں اور لڑکی یا لڑکی کے ماں باپ یہ زیادتیاں کر رہے ہیں۔ ماں باپ کا کردار ان زیادتیوں میں زیادہ ہے لیکن مرد پھر بھی مرد ہونے کی وجہ سے اپنے نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کر لیتا ہے۔ گو تکلیف سے ہی سہی لیکن اس کایہ وقت گزر ہی جاتا ہے لیکن عورت کو تو معاشرے کی نظریں بھی تکلیف دے رہی ہوتی ہیں۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا پیچھے بیٹھے ہوئے اس کے والدین الگ پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کو جو جان بوجھ کر بلا وجہ صرف اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے ایسی حرکتیں کر رہے ہوں چاہے کوئی بھی فریق ہو انہیں خدا کا خوف کرنا چاہئے۔ پھر بعض دفعہ عہدے دار بھی خدا کا خوف نہیں کرتے اور غلط طرف داریاں کر کے اس ظلم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پس خدا کا خوف رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے آپ کو روحانی بیماریوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نجات انہی کو ہے جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل ہیں۔ پس ان درد بھرے الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے دل دنیا کے جذبات سے بیزار ہیں یا دنیاوی جذبات ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی برائیوں سے بچے ہوئے ہیں؟ کوئی ہمارے حقیقی عمل کو جانتا ہے یا نہیں جانتا۔ ہم کیا کرتے ہیں یہ کسی کو پتا ہے یا نہیں پتا لیکن کیا خدا کو حاضر ناظر جان کر ہم اپنے آپ کو ہر قسم کی گندگیوں اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچا کر خدا تعالیٰ کی نظر میں بری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے دل خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے میں صاف ہیں؟ یا کم از کم ہم انہیں حتی المقدور صاف رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اور اس کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگ رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہماری حالت قابل فکر ہے۔ کیا ہمارے سجدے فروتنی اور عاجزی کے سجدے ہیں؟ فروتنی کا سجدہ وہ ہے جو اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔ ظاہری سجدوں کا حال تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا کہ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(الماعون: 5)۔ کہ ظاہری سجدے کرنے والے نمازیوں پر ہلاکت ہے۔ خدا نہ کرے خدا نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورَد بن کر ہلاکت میں پڑے لیکن خدا تعالیٰ بے نیاز ہے۔ ہمیشہ اس کے خوف کی ضرورت ہے۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ وہ قیام اور رکوع و سجود ہمیں کرنے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں جن کے نمونے قائم کروانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ آپ نے وضاحت بھی فرما دی کہ قیام رکوع و سجود ہیں کیا؟ کس طرح کئے جا سکتے ہیں؟ فرمایا دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو۔ دل کا قیام اس وقت ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے حکموں پر قائم ہو جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کون سے ہیں وہ حکم ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور قائم ہونا یہ ہے کہ ان کو اس مضبوطی سے پکڑے رکھنا کہ کبھی نہ گریں۔ نہ آپ گریں نہ آپ سے وہ دور ہو جائیں۔ کبھی ان کا سہارا نہ چھوٹے۔ کبھی انہیں تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں۔ دل کا رکوع یہ ہے کہ ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکے۔ کوئی دنیاوی وسیلے کوئی دنیاوی ذریعے یا خیال دل میں پیدا نہ کریں کہ ان سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پھر دل کا سجدہ کیا ہے؟ فرمایا دل کا سجدہ یہ ہے کہ اپنے وجود سے دست بردار ہو جاؤ۔ خدا تعالیٰ کے رضا کی حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دو۔ اپنے جذبات کو قربان کر دو۔ اپنے عزیزوں کی قربانی دو۔ تعلقات کی قربانی دو۔ اپنی اَناؤں کو قربان کر دو۔ اپنی غیرتوں کی، جھوٹی غیرتوں اور جھوٹی اناؤں کی قربانی دو۔ یعنی وہ باتیں جو تم غیرت سمجھتے ہو لیکن یہ غیرت خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہے اس کو قربان کرنا ہو گا۔ غیرت دکھانی ہے تو دین کی غیرت ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف کوئی چلانے کی کوشش کرے تو وہاں غیرت دکھانی چاہئے۔ گویا کہ ہمارے ہر عمل ایسے ہو جائیں یا انہیں ایسا کرنے کی کوشش میں ہم لگ جائیں جو ہمارے دلوں کو پاک کرنے والی ہو۔ آپ فرماتے ہیں
میں تو اپنی جماعت سے یہ چاہتا ہوں اور امید بھی کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے افراد جماعت کی یہ حالت کر دے گا۔ آپ نے فرمایا جو اس حالت کے حصول کے لئے کوشش نہیں کرتے ان کا پھر میرے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی کبھی ان لوگوں میں شامل ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنا تعلق توڑنے والے ہوں بلکہ ہم میں سے ہر ایک اس کوشش میں ہو کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تعلق کو کس طرح مضبوط سے مضبوط تر کر سکتے ہیں۔ پس جلسہ پر آنے والے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ان دنوں میں اپنے جائزے لیں، دیکھیں کہ کس حد تک ہم وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں۔ جلسہ کے دنوں میں یہ ماحول اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے عملی اظہار ہو سکتے ہیں اور پھر ان عملی اظہاروں کو زندگی کا مستقل حصہ بنانے کی کوشش ہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس مہینہ کے آخر میں رمضان کا مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے جو عملی تربیت کا مہینہ ہے۔ اگر ان دنوں کی برکتوں کو رمضان المبارک کی عظیم برکتوں سے جوڑنے کی کوشش کریں تو ایک روحانی انقلاب ہم میں پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس نیت سے جلسے پر نہیں آئے یا یہ دن کوئی تبدیلی پیدا کرنے والے نہ بن سکے یا ان کے لئے کوشش نہ کی تو اس جلسے پر آنا نہ آنا ایک جیسا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ نقصان کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ ایک مجمع ٹھوکر کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ایک شخص کا ایک واقعہ بیان کرتے تھے کہ جس کی بدبختی کی وجہ سے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ الٹا ایمان ضائع کر کے چلا گیا۔ اس لئے کہ اس کی اَنا اور اس کی جھوٹی نیکی کا اظہار اس کے آڑے آگیا۔ واقعہ یوں ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لاتے تھے تو لوگ زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے تھے کہ آپ کے قریب تر ہو جائیں اور آپ کی باتیں سنیں اور ان سے فیض اٹھائیں۔ اپنی روحانیت کی تسکین کریں۔ اس کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ ایسی ہی ایک مجلس میں ایک شخص آیا اور آ کے مسجد میں ایک طرف یا تقریباً بیچ میں ہی سنتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ اور اتنی لمبی سنتیں پڑھنی شروع کر دیں کہ اس کے ارد گرد جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ہونا چاہتے تھے، ان میں بے چینی شروع ہو گئی۔ آخر بعض دوسرے جو دوسری طرف سے آ رہے تھے قریب آنے شروع ہوئے تو انہوں نے بھی جرأت کی اور آگے بڑھنے شروع ہو گئے۔ تو بعض لوگ جب تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے تو کسی کی کہنی اس سنتیں پڑھنے والے شخص کو لگ گئی۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ اچھا نبی اور مسیح موعود ہے کہ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکریں مارتے ہیں۔ سخت ناراض ہوا اور مرتد ہو کے چلا گیا۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 11 صفحہ 544تا 546خطبہ جمعہ فرمودہ)
یہ اس کی بدبختی تھی۔ وہی مجلس جو لوگوں کے ایمانوں میں اضافہ کر رہی تھی، ایمان میں ترقی کا باعث ہو رہی تھی اس کے لئے ٹھوکر کا باعث بن گئی۔ پس اس کا یہ عمل ظاہر کر گیا کہ اس کے رکوع و سجود دکھاوے کے لئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مجلس جس میں تازہ مائدہ اتر رہا ہو اور روحانی خزائن تقسیم ہو رہے ہوں اس کو چھوڑ کر وہاں اپنی نمازوں کے اظہار میں لگ گیا اور اس عمل نے اس کا ایمان بھی ضائع کر دیا۔ پس گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس تو اب نہیں ہیں لیکن آپ کی تعلیم کی روشنی میں یہی باتیں ہوتی ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیریں بیان ہوتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں تربیت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ معین پروگرام ہوتے ہیں۔ نمازیں بھی ہیں اور تہجد بھی ہے۔ سارے پروگرام اپنے وقت پر ادا کئے جاتے ہیں ہر پروگرام میں اس کے وقت پر ہر ایک کو شامل ہونا چاہئے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر نمازیں کسی وجہ سے رہ بھی گئی ہیں تو ایک کونے میں جا کر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ تا کہ نہ آپ کی وقت پر ادا نہ کی گئی نمازیں متاثر ہوں اور نہ لوگوں کو بیٹھنے میں دقت ہو کہ وہ آرام سے جلسے کی کارروائی بھی سن سکیں۔ یاد رکھیں عمل صالح وہ عمل ہے جو موقع اور محل کے حساب سے ہے۔ ورنہ غلط موقع پر کیا گیا عمل غلط نتائج کی وجہ سے ایمان میں ٹھوکر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اگر وہ نماز پڑھنے والا شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو سمجھ کراپنی نماز کو مختصر کر کے آپ کی مجلس میں بیٹھتا تو یہ عمل اس کا زیادہ صالح عمل ہوتا اور وہ ایمان ضائع کرنے سے بچ جاتا۔ اس بات سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ صبر اور برداشت ایمان ضائع ہونے سے بھی بچاتی ہے۔ ان دنوں میں آ کر آپ کو جائز تکلیف بھی کسی سے پہنچے۔ صرف کہنی لگنے کا سوال نہیں۔ بڑی تکلیف بھی ہو تو تب بھی صبر اور برداشت سے کام لیں اور اس نیک مقصد کے حاصل کرنے کی طرف توجہ دیں جس کے لئے آپ یہاں آئے ہیں۔ جلسوں پر بعض دفعہ اس بے صبری کی وجہ سے بعض لوگ ایک دوسرے سے سختی بھی کرتے ہیں اور لڑائی تک نوبت آ جاتی ہے۔ اور نتیجۃً لڑنے والوں کے خلاف پھر جب پتا لگتا ہے تو تعزیری کارروائی بھی ہوتی ہے جو بعض دفعہ ان کو مزید ٹھوکر لگاتی ہے کیونکہ پھر اَنا غالب آ جاتی ہے۔ ایمان بھی ضائع ہوتا ہے۔ تو جیسا کہ میں نے کہا یہ جلسہ فیض کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والا ہو جاتا ہے۔ نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ ایمان کے ضائع ہونے کا باعث بنتا ہے، لیکن اگر صبر، برداشت اور جلسے میں شمولیت کا حقیقی مقصد پیش نظر ہوتو نہ صرف اپنے ایمان میں ترقی ہوتی ہے بلکہ بہتوں کے ایمان میں ترقی اور ہدایت کا موجب بھی انسان بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیائے احمدیت میں اب ہر جگہ جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ بیسیوں ممالک میں جلسے منعقد ہوتے ہیں جو جماعتیں بڑھی ہیں۔ حضرت مسیح موعود کے ماننے والے جو مختلف قوموں اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی وجہ سے جو دنیا میں جو ہدایت پھیل رہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں بھی جھکانے والا بناتی ہے۔ اگر کوئی بدبخت ایمان ضائع کرنے والا ہوتا ہے تو سینکڑوں خوش قسمت ایمان لانے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔ اس وقت میں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ وہ لوگ ہدایت کا باعث بنے جو ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں لیکن ایمان میں ترقی کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے شاید خلیفہ وقت کو بھی نہ دیکھا ہو اور جنہوں نے دیکھا ہے انہیں بھی پچیس تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ لیکن ہدایت کا باعث یہ لوگ کس طرح بن رہے ہیں، ایمان میں کس طرح بڑھ رہے ہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
سیرالیون کا ایک واقعہ ہے۔ وہاں کے کوٹ لوکو ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ کافح (Kaffeh) چیفڈم کے چیف امام اور ڈپٹی چیف امام شیخ آدم جماعت کے بہت مخالف تھے۔ ہمارے لوکل معلم شیخ ابراہیم تورے صاحب ان سے جماعتی مسائل پر بات چیت کرتے رہتے تھے۔ جلسہ سیرالیون قریب آیا تو معلم سے کہا کہ چیف امام اور ڈپٹی چیف امام کو جلسے پر بطور مہمان آنے کی دعوت دیں۔ چیف امام نے تو انکار کر دیا لیکن ڈپٹی چیف شیخ آدم جو تھے انہوں نے دعوت قبول کر لی اور پھر یہ جلسے پر تشریف لائے۔ وہاں بو (Bo) میں جلسہ ہوتا ہے۔ یہ جو ڈپٹی چیف امام شیخ آدم تھے، کہتے ہیں کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ کس بات کے لئے اتنا خرچ کر کے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں لیکن جلسے کے پہلے دن جب لوگ نماز تہجد کے لئے اکٹھے ہوئے جو ایک بہت بڑا مجمع تھا اور جب نماز تہجد میں قرآن کریم سنا اور لوگوں کو خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے روتے دیکھا تو میرا دل پگھل گیا کہ یہ نشانیاں اور لوگوں کا عبادت میں اس طرح مشغول ہونا بتاتا ہے کہ یہ سچے لوگ ہیں اور اور یہ سچے لوگوں کی جماعت ہے۔ دنیاوی اور جھوٹے لوگوں کی جماعت کے لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے۔
پھر مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے پہلے سیشن کے بعدان سے پوچھا کہ آپ کو یہ جلسہ کیسا لگا، کیا محسوس ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ میں احباب جماعت اور جماعتی روایات سے بہت متاثر ہوا ہوں اور احمدی ہو گیا ہوں اور میرے تمام شبہات دور ہو گئے ہیں۔ واپس جا کر اپنے علاقے میں بھی تبلیغ کرنے لگے کہ حقیقی اسلام یہی ہے جس پرجماعت احمدیہ عمل کر رہی ہے اور پھیلا رہی ہے۔ ان کے امام ان سے ناراض ہو گئے اور ان کو نکال بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ حق مجھے مل گیا ہے۔ اب میں جماعت کے لئے سب کچھ چھوڑ دوں گا اور سچائی کا ساتھ دوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں ان کے ذریعہ سے بہت سے لوگ احمدی بھی ہوئے ہیں۔ تو ایک جلسے نے ایک شخص کو احمدی بنایا جس کی وجہ سے پھر سینکڑوں لوگوں کو احمدی ہونے اور زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی۔ اب شیخ آدم صاحب جو ہیں کیونکہ وہ جلسے کی وجہ سے احمدی ہوئے تھے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بھی یہ لگا لیا۔ شیخ آدم جلسہ سالانہ۔ پس جلسے کئی آدم پیدا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی حالتوں میں تبدیلی پیدا کر کے نئی زمینیں اور نئے آسمان بنا رہا ہے۔ پس ہمیں بھی فکر کرنی چاہئے کہ ہم لوگ جن میں سے اکثریت پیدائشی احمدیوں کی ہے اپنی حالتوں کو درست کریں۔ یہاں بہت سے اسائلم سیکربھی اب آ گئے ہیں وہ صرف یہ نہ سمجھیں کہ دنیا کمانے کے لئے دنیاوی غرض سے آئے ہیں۔ اگر جماعت کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان سے آئے ہیں تو یہاں پھر جماعت کے سفیر بن کر اپنا کردار ادا کریں اور اپنے عملوں سے اس بات کا اظہار کریں جو جماعت کی حقیقی تعلیم ہے۔ دنیا کمائیں بے شک لیکن دنیا میں پڑنے کے بجائے، دنیا میں ڈوب جانے کے بجائے اپنی روحانیت کی طرف بھی توجہ دیں۔ بہر حال یہ جلسوں کی برکات ہیں جو دنیا میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ دنیائے احمدیت میں اب نیکیوں میں سبقت لے جانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پس آپ لوگ بھی کوشش کریں کہ اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب شہروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ اب تو ملکوں کے مقابلے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے وہی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے درد کو سمجھتے ہوئے اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہاں میں کچھ باتیں کارکنان اور خاص طور پر ان کارکنان کو جن کے سپرد مہمان نوازی ہے کہنا چاہتا ہوں۔ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب وَسِّعْ مَکَانَکَ کا الہام ہوا تو اس لئے کہ آپ کے مہمان جو پہلے ہی کافی تعداد میں آپ کے پاس آتے تھے، اور جن کی مہمان نوازی آپ ہر ایک کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے تھے اس میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہ الہام آپ کو شروع دعویٰ میں ابتدائی زمانے میں بھی ہوا اور کئی مرتبہ ہوا اور آخر تک مختلف شکلوں میں یہ ہوا ہے۔ (تذکرہ صفحہ41، 246، 395، 541، 624ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وَسِّعْ مَکَانَک کا پیغام جو ہے آپ کے ماننے والوں کے لئے بھی ہے اور یہ اس وقت آپ کے ساتھ کام کرنے والے جو آپ کے کارندے تھے ان کے لئے بھی تھا کہ یہ وسعت جو مکانیت میں ہو گی، مہمان نوازی میں بھی اضافے کا باعث بنے گی۔ اب یہاں بھی جرمنی میں جو وسعت ہو رہی ہے، نئے مشن بن رہے ہیں، یہاں مساجد بن رہی ہیں، اس وجہ سے مہمان نوازی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تم لوگ جو کام کرنے والے ہو، تم جو مسیح موعود کو ماننے والے ہو، تم تھک نہ جانا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو پہلے ہی بہت کھلے دل کے تھے اور مہمانوں کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مہمانوں کے آنے سے نہ تھکنا ہے، نہ پریشان ہونا ہے(الفاظ میرے ہیں مفہوم یہی ہے) آپ کے لئے تو تھا ہی آپ کے ان کارندوں کے لئے بھی ہے جن کے سپرد اللہ تعالیٰ نے مہمان نوازی کی ہے، جو آپ کے زمانے میں بھی تھے اور آپ کے بعد آنے والے بھی ہیں۔ یہ ان کے لئے برکتیں حاصل کرنے کے مواقع ہیں۔ پس ان خدمتوں کے کرنے والوں کو وَسِّعْ مَکَانَک کے اللہ تعالیٰ کے حکم کو آج بھی پورا کرنے کے لئے اپنے دلوں کو بھی مہمانوں کے لئے وسیع کرنا ہو گا۔
لنگر خانہ تو آپ کے اہم کاموں میں سے ایک کام تھا اور آج بھی جو لوگ خاص طور پر جب خلیفہ وقت کی موجودگی ہو آتے ہیں تو اس لئے کہ خلیفہ وقت کے قریب ہوں، کچھ دن گزاریں۔ اس لئے ان دنوں میں مہمانوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ صرف جلسہ پر ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی۔ قرآن کریم نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کی خبر دی ہے اور یہ بتایا کہ مہمان کے لئے یہ نہیں پوچھنا کہ مہمان نوازی کروں یا نہ کروں اور کسی بھی قسم کے خرچ سے ڈرنا نہیں ہے۔ مہمان نوازی کرنی چاہئے، اس کے آرام کا خیال رکھنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خاص طور پر مہمان نوازی کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ کا چہرہ اس وقت خوشی سے دمک جاتا تھا جب آپ کو پتا چلتا تھا کہ آج مدینہ میں رہنے والے آپ کے صحابہ نے باہر سے آنے والے مہمانوں کے آرام کا خیال رکھا ہے اور اپنے سے زیادہ ان کے آرام کا خیال رکھا ہے اور اپنی توفیق سے بڑھ کر ان کا خیال رکھا ہے اور ان کی مہمان نوازی کی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللہ عزوجل ویؤثرون علیٰ انفسہم ولوکان بہم خصاصۃ… حدیث نمبر 3798) (مسند الامام احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 503-502 مسند جریر بن عبداللہ حدیث نمبر 19388 عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں کہ لنگر خانوں کے کارکنوں سے ناراض ہو کر چلے جانے والے مہمانوں کے پیچھے بڑے لمبے فاصلے تک آپ گئے اور انہیں واپس لے کر آئے۔ پھر ان کا سامان خود ٹانگے سے اتارنا شروع کیا تو کارکنوں نے آگے بڑھ کر سامان لے لیا۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد 4صفحہ161-160 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے)
یہ سب کچھ اس لئے کہ آپ مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار جہاں قائم کرتے تھے وہاں اپنے ماننے والوں کو سکھانا بھی چاہتے تھے۔ یہ باتیں صرف ہمارے پڑھنے سننے اور لطف اٹھانے کے لئے ہیں نہیں بلکہ عمل کرنے کے لئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے قیام سے پہلے بھی وَسِّعْ مَکَانَکَ کی خبر دی تھی، لوگوں کے آنے کی خبر دی تھی۔ لیکن پھر دوبارہ بار بار اس کی تجدید فرمائی۔ آخر تک آپ کو الہام ہوتے رہے۔ 1907ء میں بھی ہوا۔ اس لئے کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت اس کی اہمیت کو سمجھے۔
پس یہاں کی انتظامیہ کو بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مہمان نوازی کی اہمیت کو سمجھیں۔ ایک مہمان نوازی تو یہ ہے جو یہاں جلسے کے دنوں میں ہو رہی ہے۔ تیس بتیس ہزار افراد کا کھانا پکانا ہے۔ ان کو کھانا کھلانا ہے اسلئے ایک وقت میں ایک سالن پکتا ہے، ساتھ روٹی ہوتی ہے۔ اس کا خیال تو رکھنا چاہئے کہ جہاں ہر فرد تک یہ کھانا پہنچے، ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق ملے اور عزت کے ساتھ اس کو یہ کھانا کھلایا جائے وہاں یہ بھی احتیاط ہو کہ ضیاع بھی نہ ہو۔ لیکن ضیاع سے بچنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس گرمی میں ایک وقت کے بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ لوگوں کو کھلا دیں اور بیمار کر دیں۔ دوسری مہمان نوازی جیسا کہ میں نے کہاعام دنوں کی ہے اور اس عام دنوں کی مہمان نوازی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہمانوں کی ہر ضرورت اس کے مزاج کے مطابق مہیا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ پس متعلقہ انتظامیہ کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کسی کو کھانا کھلا کے مہمان نوازی کا کوئی حق نہیں ادا ہو گیا بلکہ مہمان کی خدمت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے بہت سے غیر مہمان ہمارے فنکشن میں شامل ہوتے ہیں۔ ان پر ہماری مہمان نوازی کا بھی دنیا میں مختلف جگہوں پر بہت اثر ہوتا ہے جس کا ذکر بھی وہ کرتے ہیں۔ جرمنی کی جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد بنا رہی ہے اور مساجد کے فنکشنز میں مہمانوں کے لئے مہمان نوازی کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ دوسرے مہمان بھی آتے ہیں۔ اکثر جگہ پر چائے وغیرہ کی حد تک تو ٹھیک ہے کافی بہتر انتظام ہوتا ہے لیکن بیٹھنے کا انتظام میرے نزدیک ٹھیک نہیں ہوتا۔ کہتے یہ ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بنچوں پر بیٹھنے کی عادت ہے اس لئے لکڑی کے بنچ رکھے جاتے ہیں اور اچھے اچھے معزز لوگ اس پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ عادت ہو بھی تو ہمارے مہمان نوازی کے معیار بہتر ہونے چاہئیں۔ اگر عادت ہے تو پھر آپ لوگوں کو یہاں بھی اس عادت کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ کرسیاں جہاں رکھی ہوئی ہیں اس کی جگہ بنچ رکھنے چاہئیں۔ اپنے لئے اور معیار ہیں مہمانوں کے لئے اور معیار ہیں۔ اب اس کا یہ مطلب بھی نہ لے لیں کہ آئندہ سال کے لئے کرسیاں اٹھا کر بنچ رکھنے شروع کر دیں۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ وہاں معیار بہتر کریں۔ یہاں کرسیاں ہی رہنے دیں۔ افسر صاحب جلسہ سالانہ فوراً اپنے بجٹ میں کمی کی کوشش کریں گے۔ بہر حال شریفانہ طور پر مہمانوں کو بٹھانے کا انتظام ہونا چاہئے۔ ہمارے مہمان نوازی کے جو اعلیٰ معیار کے طریق ہیں وہ نظر آنے چاہئیں جس کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔ یہ چائے وغیرہ کا میں نے ذکر کیا، ہلکی پھلکی ریفرشمنٹ دی جاتی ہے، وہاں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس میں بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یہاں کے لوگوں کو کیا پسند ہے۔ لیکن اگر کھانے کی دعوت ہو اور غیر مہمان بلائے ہوں تو پھر ان کے مزاج کے مطابق کھانا بھی ہوناچاہئے، ہلکی مرچ کا کھانا بھی ہونا چاہئے اور ایسا ہو جو یہ پسند کرتے ہیں۔ حلال اور طیب کھانے بھی ان کے مزاج کے مطابق بنائے جا سکتے ہیں۔ چند دن پہلے میونخ میں مسجد کا افتتاح تھا۔ وہاں ممبر آف پارلیمنٹ بھی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ڈسٹرکٹ گورنر اور میئر اور مختلف لوگ تھے۔ ان کے لئے تو تھوڑا سا کھانا جو چند ایک کے لئے تھا نسبتاً بہتر تھا لیکن عمومی طور پر ڈھائی تین سو کے قریب جرمن لوگ آئے ہوئے تھے اور اچھی تعداد تھی اور معززین تھے۔ ان کے لئے کھانا جو مجھے نظر آ رہا تھا وہ بالکل ایسا تھا جیسے ٹالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے شاید کھانا کھایا بھی نہیں۔ ایک فنکشن ہوتا ہے جس میں معززین بلائے جاتے ہیں۔ لوگ اس لئے بھی آتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی موجودگی ہے۔ ان کی مہمان نوازی کا تو حق ادا کیا کریں۔ اگر مقامی جماعت خرچ نہیں کر سکتی تو ملکی مرکز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مہمان نوازی کرے۔ بہر حال فنکشن تو بہت اچھا تھا، کافی لوگ تھے۔ جو ہال میں بیٹھنے کی جگہ انہوں نے لی ہوئی تھی وہ بھی اچھی تھی۔ اس کی تفصیل تو بعد میں بیان کروں گا لیکن بہر حال جو کمی تھی اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے کیونکہ نہیں تو پھر ہمیں عادت پڑ جائے گی۔ پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ جو مہمان خاص طور پر ان دنوں میں آتا ہے جب میں یہاں آؤں تو مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ان کی احسن رنگ میں مہمان نوازی آپ کا فرض ہے۔
اور یہ مستقل مہمان نوازی کرنے کی جو ضیافت کی ٹیم ہے ان کا فرض ہے اور جس جس شہر میں جایا جائے وہاں کے مقامی لوگوں کا فرض ہے۔ اور کسی قسم کے ایسے اظہار کے بغیر مہمان نوازی کرنی چاہئے کہ مہمان بوجھ بن رہے ہیں۔ جس سے کسی بھی قسم کی جذباتی تکلیف کسی کو پہنچنے کا احتمال ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو صدقہ دے کر احسان جتانے والے کو بھی بڑا ناپسند فرمایاہے کہ اچھی بات کہنا اس سے بہتر ہے کہ کسی کی مدد کر کے پھر احسان جتاؤ یا ایسے الفاظ کہو جس سے اس کو تکلیف پہنچے اور مہمان نوازی تو مہمانوں کا حق ہے۔ اس کی مہمان نوازی کر کے پھر باتیں بنانا یہ انتہائی گھٹیا فعل ہے۔ بعض ایسے لوگ جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں، یہاں تک کر جاتے ہیں کہ میرے ساتھ جو لوگ آئے ہوئے ہیں ان سے بھی ایسی باتیں کرتی ہیں جو جذباتی ٹھیس پہنچانے والی ہوں۔ فی الحال میں اشارۃً سمجھا رہا ہوں۔ ضرورت پڑی تو یہ بھی کبھی کھول کر بیان کر دوں گا لیکن اللہ کرے ضرورت نہ پڑے اور جو جو ذمہ دار ہیں ان کو پہلے ہی ہوش آ جائے۔ لیکن بہر حال مجھے امید ہے کہ جو لوگ بھی متعلقہ اشخاص ہیں وہ اپنی غلطی کو سمجھتے ہوئے استغفار کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والوں کو عقل اور سمجھ دے اور وہ اپنے فرائض اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ادا کرنے والے ہوں۔ جلسہ کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آپ میں سے ہر ایک کو اپنے ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈیوٹی والے کارکنان ہیں ان سے ہر شامل ہونے والا مکمل تعاون کرے۔ سکیورٹی کے مسائل اب ہر جگہ ہیں اس لئے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسے کو ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے اور تمام شامل ہونے والوں کو ان برکات کو سمیٹنے والا بنائے جو اس جلسہ سے وابستہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہم پورا کرنے والے ہوں اور آپ کو اپنی جماعت سے جو توقعات ہیں ہم اپنی زندگیوں کا حصہ انہیں بنانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔
جلسے کئی آدم پیدا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ لوگوں کی حالتوں میں تبدیلی پیدا کر کے نئی زمینیں اور نئے آسمان بنا رہا ہے۔
غیرت دکھانی ہے تو دین کی غیرت ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف کوئی چلانے کی کوشش کرے تو وہاں غیرت دکھانی چاہئے۔
آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جلسے کے موقع عطا فرمائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے احمدیوں کو اگر جلد ان مشکلات سے نکلنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہ ہے کہ جلسے کے پروگراموں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
ان جلسوں کا مقصد بھی عملی اصلاح ہے۔
دل کا سجدہ یہ ہے کہ اپنے وجود سے دست بردار ہو جاؤ۔
خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دو۔
اگر کوئی بدبخت ایمان ضائع کرنے والا ہوتا ہے تو سینکڑوں خوش قسمت ایمان لانے والے بھی ہوتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ جب شہروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ اب تو ملکوں کے مقابلے ہوتے ہیں۔
مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کو آج بھی اللہ تعالیٰ کے وَسِّعْ مَکَانَک کے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے دلوں کو مہمانوں کے لئے وسیع کرنا ہو گا۔
سکیورٹی کے مسائل اب ہر جگہ ہیں اس لئے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
مہمان نوازی کے پیش نظر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے الہام ’’وَسِّعْ مَکَانَک‘‘ اور اس کے لطیف معانی کا تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 13؍جون 2014ء بمطابق 13احسان 1393 ہجری شمسی، بمقام کالسروئے۔ جرمنی
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔