ایک مخلص اور فدائی خادم سلسلہ مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب (مرحوم)
خطبہ جمعہ 27؍ جون 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعویٰ سے پہلے بھی یہ الہام ہوا، پھر آخر تک کئی مرتبہ ہوا کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآءِ۔ (تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم) یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام میں کریں گے۔ اور 1907ء میں اس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے کہ یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (تذکرہ صفحہ 623 ایڈیشن چہارم) وہ دور دراز جگہوں سے تیرے پاس آئیں گے۔ یہ الہام بڑی شان سے مختلف شکلوں میں مختلف صورتوں میں اب تک پورا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مختلف لوگ مختلف علاقوں سے آپ کے پاس آتے ہیں۔ یعنی آپ کی زندگی میں آپ کے پاس آتے رہے اور پھر آپ کے بعد آپ کے ذریعہ جاری نظام خلافت میں خلفاء وقت کے پاس آتے رہے اور آ رہے ہیں جو مددگار بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے دلوں کو اس طرف مائل کرتا ہے کہ مددگار بنیں بلکہ مدد اور خدمت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو مکمل کرنے کی ایک تڑپ اور لگن ان میں پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ اپنے تن من دھن سے اس کام میں جُت جاتے ہیں اور آپ کے سلطان نصیر بن جاتے ہیں۔ خلفائے وقت کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآنی حکم تَفَقُّہْ فِی الدِّین کے مطابق دین کا علم حاصل کر کے اپنے ہم قوموں کو دین حق کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اس میں اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے دُور دراز علاقوں سے آئے جہاں بیسویں صدی کی چھٹی ساتویں دہائی تک رسل و رسائل اور خط و کتابت کا یہ حال تھا کہ چھ چھ مہینے تک خط نہیں پہنچتے تھے۔ پس ایسے علاقوں کے لوگوں کا دین سیکھنے کے لئے مرکز سلسلہ میں آنا اور کامل شرح صدر کے ساتھ دین سیکھنا اور اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کر دینا اور پھر کامل وفا کے ساتھ اس وقف کو نبھانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں ہر قربانی کے لئے تیار ہو جانا یہ بات جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے وہاں ایسے لوگوں کی قربانی کو آج تک، اب تک جاری رکھنا خلافت احمدیہ کی سچائی کی بھی دلیل ہے۔ اور یہ چیز اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے لوگ سعید فطرت ہوتے ہیں اور ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت کی نظر ان پر پڑتی ہے اور انہیں چن کر پھر آسمان کا چمکتا ہوا ستارہ بنا دیتی ہے۔
اس وقت مَیں ایک ایسے ہی مخلص خادم سلسلہ اور فدائی خادم سلسلہ مکرم عبدالوہاب آدم صاحب کا ذکر کروں گا جو افریقہ کے ایک ملک سے اس وقت مرکز سلسلہ میں حصولِ علمِ دین اور خلافت کا سلطانِ نصیر بننے کے لئے آئے، یہ عزم لے کر آئے کہ مَیں نے اب اس کام کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بروئے کار لانا ہے۔ اس وقت آئے جب ابھی ربوہ آباد ہو رہا تھا اور افریقہ میں رابطے بھی مہینوں بعد ہوتے تھے۔ یہ ہمارے پیارے بزرگ بھائی اور خلافت کے جان نثار سپاہی، خلیفۂ وقت کے اشارے پر چلنے والے، ہر فیصلہ جو خلیفہ وقت کی طرف سے آئے اسے شرح صدر سے قبول کرنے والے، خلیفۂ وقت کے چھوٹے چھوٹے حکم بلکہ خواہش کی تکمیل کے لئے بھی بے چین رہنے والے تھے۔ مَیں نے جب آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گھانا میں ان کے ساتھ کام کیا ہے اس وقت بھی خلافت کے ساتھ تعلق میں ایسا ہی انہیں دیکھا جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں اور خلافت کے بعد میرے ساتھ بھی اطاعت و فرمانبرداری اور وفا کے اس معیار میں انہوں نے سرِمُو فرق نہیں آنے دیا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ دنوں وہاب آدم صاحب کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ گزشتہ تقریباً ایک سال یہاں رہے تھے اور مارچ میں ہی یا فروری کے آخر میں واپس گئے تھے۔ اس خادم سلسلہ کا خدمت سلسلہ کا عرصہ نصف صدی سے زائد پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کی خدمات اور ان کی شخصیت اور ان کے کردار اور ان کی وفاؤں کے قصوں کو مختصر وقت میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بہر حال کچھ باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے ان کی سیرت کے بعض پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد اور والدہ کے ذریعہ آئی تھی۔ ان کے بیٹے حسن وہاب صاحب نے بتایا کہ وہاب آدم صاحب پیدائشی احمدی تھے اور ان کے والد سلیمان۔ کے۔ آدم (K. Adam) صاحب اور والدہ عائشہ اکواوورو (Ayesha Akua Woro) صاحبہ نے احمدیت قبول کی تھی۔ اور جس زمانہ میں بشارت احمد بشیر صاحب گھانا میں امیر جماعت یا مبلغ تھے اس وقت وہاب صاحب کے والد سلیمان کے آدم صاحب وہاں معلم ہوتے تھے۔ اور وہاب آدم صاحب نے اپنی ہوش میں اپنے والد کو نہیں دیکھا۔ چھوٹی عمر میں ہی ان کے والد وفات پا گئے تھے۔ والدہ نے بتایا کہ ان کے والد کی شدید خواہش تھی کہ وہاب صاحب جماعت کے مبلغ بنیں۔ چنانچہ والد صاحب کی خواہش پوری کرنے کے لئے والدہ نے ان کو بشارت بشیر صاحب کے ساتھ ربوہ بھجوا دیا۔ بلکہ انہوں نے اپنے والد کی کبھی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے کسی دوست نے ایک تصویر دکھائی جس میں وہاب صاحب کے والد کی تصویر تھی تو تب ان کو پتا لگا کہ یہ میرے والد ہیں۔ وہاب صاحب بروفئی ایڈور (Brofoyedru) گاؤں میں جو اشانٹی ریجن کے اڈانسی (Adansi) ڈسٹرکٹ میں ہے، دسمبر 1938ء میں پیدا ہوئے تھے اور ابتدائی تعلیم انہوں نے یونائٹڈ مڈل سکول سے حاصل کی اور احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی میں پڑھے۔ وہاں سے تعلیم مکمل کی یا کچھ عرصہ بہرحال پڑھتے رہے۔ پھر زندگی وقف کر دی اور آپ کو 1952ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوا دیا گیا۔ 1960ء میں آپ نے جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ واپس گھانا گئے اور وہاں آپ کا مختلف جگہوں پر بطور ریجنل مشنری تقرر ہوا۔ سب سے پہلے آپ نے 1969ء تک برونگ آہافو (Brong Ahafo) ریجن میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس کے بعد سالٹ پونڈ گھانا میں جامعۃ المبشرین کے پرنسپل بنے۔ اور اس وقت مشنوں کا یہ حال تھا کہ چھوٹے چھوٹے مٹی کے گھر ہوتے تھے جن میں غسل خانے کوئی نہیں تھے۔ چٹائیوں کو کھڑا کر کے اور لکڑی کے ڈنڈوں پر غسل خانے بنائے جاتے تھے۔ اب تو افریقہ میں یہ تصور نہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ غسل خانے کی یہ حالت تھی کہ دو اینٹیں رکھ کے پانی کی بالٹی کہیں سے لا کے تو غسل کر لیا کرتے تھے۔ بالکل ہی ابتدائی حالات تھے۔ بہر حال اس کے بعد 1971ء میں وہاب صاحب کی تقرری یوکے (UK) میں بطور نائب امام مسجد فضل لندن ہوئی۔ 1974ء تک آپ نے یہ ذمہ داری ادا کی۔ 1975ء میں آپ کو امیر و مشنری انچارج گھانا مقرر کر دیا گیا اور تقریباً 39 سال وفات تک یہی خدمت سرانجام دیتے رہے۔
یہ ابتدائی تاریخ لکھنے والے بتاتے ہیں کہ جب گھانا میں جماعت کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی تو اس وقت یہ سوچا گیا کہ بجائے معلمین کے مقامی مبلغین کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اس کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہاں کچھ لڑکے لائے جائیں جن کی تربیت کی جائے۔ تو جیسا کہ میں نے بتایا اس وقت گھانا سے دو چھوٹی عمر کے چودہ پندرہ سال کے بچے، وہاب آدم صاحب اور بشیر بن صالح صاحب پاکستان بھجوائے گئے۔ اور دونوں بڑی محنت اور لگن سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ 1957ء میں عزیزم بشیر بن صالح ربوہ میں گرمی کے باعث بیمار ہو گئے۔ ان کو واپس گھانا بھجوایا گیا لیکن یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور 16؍نومبر 1958ء کو صالح صاحب جو تھے وہ انیس سال کی عمر میں وفات پا گئے اور پھر وہاب صاحب اکیلے جامعہ میں پڑھتے رہے۔ آٹھ سال تک یہیں رہے۔ شاہد کی ڈگری حاصل کی اور مرکزی مبلغ بن کر پھر گھانا گئے۔ ان کے جانے کے بعد پھر جماعت اس وقت تک کچھ بڑھ بھی چکی تھی۔ لوگوں کو جوش اور جذبہ بھی پیدا ہو اور پھر انہوں نے اپنے بچے جامعہ احمدیہ میں بھجوانے شروع کئے۔ اس کے بعد پھر آٹھ دس مبلغین یہاں سے بن کے گئے۔ پھر بعض پابندیاں لگ گئیں۔ اب تو وہیں جامعہ میں خود ہی مبلغین تیار ہو رہے ہیں بلکہ انٹرنیشنل جامعہ بن گیا ہے جہاں افریقہ کے مختلف ممالک سے لڑکے آتے ہیں اور شاہد مبلغ کا کورس پاس کرتے ہیں۔ جب یہ ربوہ میں تھے اس وقت گھانا کے سفیر ایک موقع پر یہاں آئے۔ اِنہوں نے اُن کو بتایا کہ ربوہ کس طرح آباد ہوا، کیسی بنجر زمین تھی۔ کس طرح لوگوں نے قربانیاں کیں۔ یہ ساری تفصیل اس انداز میں بیان کی کہ وہ سفیر صاحب کہنے لگے کہ اگر کوئی شخص خدا پر یقین نہ رکھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی حقانیت پر ایمان نہ ہو تو وہ یہ واقعات سن کے یقینا خدا کی ہستی پر ایمان لائے گا کہ کس طرح ربوہ آباد ہوا۔ کوئی بھی موقع تبلیغ کا جانے نہیں دیتے تھے۔ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ربوہ میں ابتدائی زمانے میں وقت گزارا۔ کہتے ہیں ان دنوں میں بجلی بھی نہیں ہوتی تھی۔ پینے کا پانی کوئی نہیں تھا۔ دُور سے لانا پڑتا تھا۔ کوئی بلڈنگز نہیں تھیں اور ہوسٹل کی چھتیں بھی کچی تھیں۔ فرش بھی کچا تھا۔ بارش ہوتی تو چھت ٹپکتی تھی۔ فرش پر پانی کھڑا ہو جاتا تھا۔ بلکہ مذاق میں بتایا کرتے تھے کہ ہمارے جو صندوق تھے، box تھے وہ بھی پانی میں تیرنے لگ جاتے تھے۔ تو اس وقت یہ حال تھا۔ پھر احمدنگر میں بلڈنگ لی، وہاں جامعہ شروع ہوا۔ غیر ملکیوں کا بھی ایک ہوسٹل تھا تو اس میں انگلستان سے بھی ایک شخص تھا، ایک جرمنی سے عبدالشکور کنزے صاحب وہاں تھے۔ امریکہ سے ایک وائٹ امریکن تھے، ایک افریقن امریکن تھے۔ ٹرینیڈاڈ سے بھی ایک صاحب آئے ہوئے تھے۔ چین سے عثمان چینی صاحب، ابراہیم وان اور ادریس وان صاحب تھے۔ تو مختلف لوگوں کا یہ ہوسٹل تھا جو اس زمانے میں مختلف ملکوں سے آئے اور وہاں رہے جن میں سے یہ ایک دو ہی تھے جو مبلغ بنے باقی چھوڑ کے چلے گئے تھے یا کچھ عرصے بعد تعلیم حاصل کر کے اپنے اپنے کام کرنے لگ گئے۔
وہاب صاحب کا ایک واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں جب زیر تعلیم تھے تو ایک مرحلے پر پہنچ کر بعض مضامین میں مثلاً منطق اور فقہ کو اردو زبان میں سمجھنے میں دقت محسوس کی۔ امتحان سر پر آ گیا۔ بڑے پریشان تھے۔ ان کے دوست امری عبیدی صاحب تنزانیہ کے تھے۔ انہوں نے بھی اس زمانے میں جامعہ پڑھا تھا، جو بعد میں وہاں کے وزیر بھی بنے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کے پاس جا کر دعا کے لئے کہتے ہیں۔ خیر یہ ان کے پاس گئے۔ حضرت مولانا راجیکی صاحب کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ ان کو دیکھ کے انہوں نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ امری عبیدی صاحب نے اور وہاب صاحب دونوں نے کہا کہ ہمارے امتحان ہو رہے ہیں اور ہمیں بڑی مشکل پیش آ رہی ہے، دعا کے لئے کہنے آئے ہیں۔ تو انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ انہوں نے کہا تم بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہو۔ دعا کے بعد حضرت مولانا راجیکی صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے دعا کرتے ہوئے کشفی حالت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک کو آپ دونوں کے سروں پر رکھا ہوا دیکھا ہے جس کی تعبیر مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس علیہ السلام کی برکت سے آپ کو کامیابی بخشے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں ایسا ہی ہوا اور معجزانہ طور پر وہ پڑھائی آسان ہو گئی۔ تیاری آسان ہو گئی۔ جب امتحان دیا تو پرچوں کو بہت آسان پایا اور جب نتیجہ نکلا تو وہاب آدم صاحب اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن پر تھے۔
بعض اور سعادتیں بھی ان کے حصے میں آئیں۔ وہاب صاحب سب سے پہلے افریقن مرکزی مشنری تھے۔ سب سے پہلے گھانین امیر و مشنری انچارج یہ تھے۔ سب سے پہلے افریقن احمدی جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح کی نمائندگی میں بطور امیر مقامی ربوہ بننے کی سعادت حاصل ہوئی وہ یہ تھے۔ سب سے پہلے افریقن مرکزی مشنری جنہیں یورپ میں خدمت کی توفیق ملی وہ یہ تھے۔ پھر سب سے پہلے افریقن جنہیں مجلس افتاء کا اعزازی ممبر بننے کی توفیق ملی وہ وہاب صاحب تھے۔ ان کو مرکز کی نمائندگی میں مختلف ممالک جیسے کینیڈا، جرمنی، بینن، مالی، آئیوری کوسٹ، نائیجیریا، برکینا فاسو، لائبیریا، سیرالیون، جمیکا کے دورہ جات کی توفیق ملی۔ ان کو اسلام اور رنگ و نسل میں امتیاز اور اسلام اور عیسائیت کے بارے میں ریسرچ اور مضامین لکھنے کی توفیق عطا ہوئی۔ والدہ کے نام پر انہوں نے ایک فاؤنڈیشن بھی جاری کی ہے جو ضرورتمندوں کی مدد کرتی ہے۔ جماعت احمدیہ گھانا نے ان کے دَور امارت میں اللہ کے فضل سے بڑی ترقی کی ہے۔ اللہ کے فضل سے کچھ تو سکول پہلے تھے، کچھ اَور کھلے۔ کچھ نئے سرے سے اسٹیبلش (Establish) ہوئے، مزید ان میں بہتری پیدا ہوئی۔ جماعت احمدیہ کے چار سو سے زائد سکول ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچر ٹریننگ کالج، جامعۃ المبشرین، جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل نمایاں ہیں۔ اسی طرح سات بڑے ہسپتال ہیں۔ دو ہومیو پیتھک کلینک ہیں جو گھانا میں خدمت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ رفاہ عامہ کے کام جاری ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں جماعت کو غیر معمولی مقام ملا ہے۔ گھانا کی دو مشہور شاہراہیں جو ہیں ان پہ انہوں نے بڑی کوشش سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں کروائی ہیں اور ہر آنے جانے والا وہ دیکھتا ہے اور نیچے لکھا ہوا ہے ’جس مسیح کے آنے کا انتظار تھا وہ آ گیا اور وہ یہ ہیں‘۔ اس طرح یہ کھل کے وہاں تبلیغ بھی کر رہے ہیں۔ ان کو جو دنیاوی اعزازات ملے وہ یہ ہیں کہ کوریا میں انٹر ریلیجس (Inter Religious) اور انٹرنیشنل فیڈریشن فار ورلڈ پِیس امریکہ کی طرف سے امن کے لئے بے لوث اور شاندار خدمات کی بنا پر Ambassador for Peace کا اعزاز دیا گیا۔ اسی طرح گورنمنٹ آف گھانا کی طرف سے امیر صاحب گھانا کو ان کی شعبہ تعلیم، صحت، زراعت اور ملکی امن و استحکام کے لئے خدمات کے اعتراف میں ایک اہم ملکی اعزاز Companion of the Order of the Volta سے نوازا گیا۔
پھر 10؍نومبر 2007ء کو آپ کی قابلیت کے اعتراف میں ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کیپ کوسٹ (University of Cape Coast) نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے ان کو نوازا۔ یہ نیک نیتی سے کئے گئے وقف کی برکات ہیں کہ دین کی خدمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیاوی اعزازات سے بھی نوازا۔ اگر وقف نہ ہوتے تو پتا نہیں کوئی اور کام کر رہے ہوتے اور کسی کو پتا بھی نہیں ہونا تھا کہ وہاب صاحب کون ہیں۔ پھر انٹرنیشنل سطح پر ان کی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں۔ سینٹر فار ڈیموکریٹک ڈیویلپمنٹ گھانا (Centre for Democratic Development (CDD),Ghana) کے ممبر تھے۔ Ghana Integrity Initiativeکے وائس چیئرمین تھے۔ نیشنل پِیس کونسل (National Peace Council) کے ممبر تھے اور وہاں کی سیاسی حکومتوں کو آپس میں امن سے حکومت جاری رکھنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ کو فاؤنڈر(Co-Founder) اینڈ نیشنل پریذیڈنٹ فار کونسل آف ریلیجنزتھے اس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کی نمائندگی تھی۔ نیشنل reconciliation کمیشن کے ممبر رہ چکے تھے۔
جب یہ 1974ء میں یہاں تھے، اور پاکستان میں جماعت احمدیہ پر حالات بڑے خطرناک ہو گئے تھے، مظالم ہو رہے تھے جو ابتلاء کا دور تھاتو وہاب صاحب نے یہاں امام مسجد فضل کے ساتھ مل کے دن رات کام کیا اور مسلسل کئی کئی راتیں جاگتے گزاریں اور خبروں کو برطانوی پریس اور دوسرے میڈیا تک پہنچایا۔ 1973ء میں وہاب صاحب کو مسلم ہیرلڈ کا نائب ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ اس رسالہ میں انہوں نے دو نئے کالم شروع کئے۔ ایک لندن ڈائری کے نام سے تھا جس میں مہینے کی کارگزاری رپورٹ شائع ہوتی تھی اور دوسرا کالم Your Questions Answered کے نام سے تھا جس میں مختلف لوگوں کے موصول ہونے والے سوالات کے مدلل جوابات ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مرحوم نے لندن مشن کے سٹڈی سرکل میں متعدد مضامین پیش کئے جو بالخصوص نئی نسل کے سوالات کے جواب ہوتے تھے۔
نائبصدر مملکت گھاناکوئیسی بیکوئی امیسا آرتھر (Kwesi Bekoe Amissah-Arthur) کہتے ہیں کہ وہ ہماری قوم کا ایک عظیم الشان رہنما تھا۔ حکومت گھانا اس عظیم الشان رہنما کی وفات پر ان کے اہل خانہ اور احمدیہ مسلم مشن کے ساتھ غم میں برابر کی شریک ہے۔ ہم میں سے بہت سے مولوی وہاب آدم کو ان کی اس ملک میں امن کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں کے لئے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اسی طرح ان کی اور احمدیہ مسلم مشن کی جس کی انہوں نے کئی سال تک قیادت کی ہے، تعلیم کے فروغ کے لئے کی گئی کوششوں کو بھی فراموش نہ کر سکیں گے۔ سکالر اور مذہبی رہنما کو غمگین دل کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے دعا گو ہیں کہ جس امن کے قیام کے لئے انہوں نے کوشش کی تھی وہ ہمارے ملک میں قائم و دائم رہے۔
اسی طرح سابق صدر گھانا جان اجیکم کوفور (John Agyekum Kufuor) صاحب کہتے ہیں کہ ایک بہت بڑے مذہبی اور قومی رہنما تھے۔
پھر ڈاکٹر مصطفی احمد جو ممبر آف پارلیمنٹ اور منسٹر آف سٹیٹ بھی ہیں۔ یہ مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ گھانا نے اپنا ایک قابل فخر بیٹا کھو دیا۔ انہوں نے امن کے قیام کے لئے جو کاوشیں کی ہیں اس سے قوم مسلسل فائدہ اٹھاتی چلی جائے گی اور ہم آپ کو ہمیشہ ہماری ترقی و کامیابی میں بیش بہا خدمات کی وجہ سے یاد رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔
چارلس جی پالمر بکل (Charles G. Palmer Buckle) جو کیتھولک آرچ بشپ آف اکرا (Accra) ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدمت انسانیت کے اَنتھک علمبردار تھے۔ امن کا پیامبر بن کر خدا کی محبت کو بانٹتے رہے۔ مولوی جن اعلیٰ نظریات پر قائم تھے اور جن کے لئے انہوں نے کام کیا ان کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔
پھر ریورنڈپروفیسر ایمانوئل اسانٹے (Most Rev. Prof. Emmanuel Asante) جو کہ میتھوڈسٹ (Methodist) کے صدر بشپ ہیں اور نیشنل پیس کانفرنس کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ایک امن پسند، محب وطن اور اتحاد کی کوشش کرنے والا اچانک خدا کی طرف چلا گیا۔ نیشنل پِیس کانفرنس ہمیشہ آپ کے ان اصولوں کو قائم رکھے گی جو انہوں نے قیام امن کے لئے اپنائے۔
پھر اسی طرح اور لوگوں نے بھی (اپنے تاثرات) دئیے ہیں۔ وزارت خارجہ کا نمائندہ حاجی محمد گاڈو صاحب جو کہ گورننگ کونسل اور گھانا کونسل مذاہب برائے امن کے نائب چیئرمین ہیں، کہتے ہیں ’ہم نے مسلم کمیونٹی گھانا کا ایک بڑا ستون کھو دیا ہے‘۔ دوسری دنیا میں تو احمدی مسلمان نہیں ہیں لیکن یہاں مسلمانوں کی جو تنظیمیں ہیں کہہ رہی ہیں کہ ہم نے مسلم کمیونٹی گھانا کا ایک بڑا ستون کھو دیا ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے درمیان روابط کے پل استوار کئے۔ مولوی وہاب آدم نہایت قابل، عظیم اور اتحاد قائم کرنے والے رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ خدمت انسانیت کے لئے صرف کیااور رابطوں کو استوار کیا۔
پھر ان کے بیٹے حسن وہاب نے ان کے بارے میں کچھ حالات لکھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب خلافت احمدیت کے حقیقی وفا شعار تھے۔ ہر امر میں خلیفہ وقت سے ضروری رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ بسا اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلیفہ وقت کی خدمت میں بغرض رہنمائی لکھتے۔ مثال کے طور پر اپنی وفات سے ایک ہفتہ پہلے جب بیماری کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال جانے کے لئے کہا۔ اس پر انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو جواب دیا کہ پہلے خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھ کر اجازت لے لو پھر جاؤں گا۔
شکر گزاری کے بارے میں ان کے بیٹے لکھتے ہیں۔ زندگی کا وسیع تجربہ رکھتے تھے اور اس حوالے سے جو بھی واقعات سناتے ان کا ہمارے اخلاق پر بہت گہرا اثر ہوتا۔ 1990ء میں جب ان کا ایک بیٹا ملک سے باہر گیا تو اس نے وہاب صاحب کو شکایت کی کہ گھر سے رابطہ کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ بہت دیر سے خط پہنچتا ہے۔ اس دور میں انٹرنیٹ اور ای میل وغیرہ کی اتنی سہولت میسر نہیں تھی۔ اس پر وہاب صاحب نے اسے بتایا کہ دیکھو جب میں ربوہ تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میری ماں تک میرے خطوط پہنچنے میں چھ مہینے کا وقت لگتا تھا۔ آپ لوگوں کو اللہ کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ آج کل سہولتیں میسر ہیں۔ پھر محنت کی عادت کے بارے میں کہتے ہیں کہ بعض اوقات ہم نے دیکھا کہ فجر کی نماز کے بعد کام شروع کرتے اور سوائے نمازوں اور کھانے کے وقفہ کے سارادن اور ساری رات یہاں تک کہ اگلی فجر کا وقت آجاتاکام میں مصروف رہتے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب آپ بیماری کی وجہ سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتے تھے توانہیں لیٹ کر کام کرتے دیکھاہے۔ لیٹے لیٹے لمبے چوڑے خطوط لکھتے اور نوٹس لکھتے تھے۔ آخر تک ان کے خط مجھے آتے رہے ہیں۔ خاص طور پر مجھے جو خط لکھتے تھے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اور ایک خوبی یہ تھی کہ اردو میں لکھتے تھے۔
خوش مزاجی صبر اور حوصلے کے بارے میں ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ بہت خوش مزاج انسان تھے۔ مثال کے طور پر بیماری کے دنوں میں ہمیں پتا تھا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور زندگی کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنی تکلیف کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ جب بھی ہم ان سے پوچھتے تو یہی کہتے کہ اب پہلے کی نسبت بہتر ہیں حالانکہ ہمیں نظر آ رہا تھا کہ وہ دن بدن کمزور ہورہے ہیں۔ اپنی بیماری کے ان سخت ایام میں بھی ہمیں لطائف سناتے رہے۔
ان کو جیسی بیماری تھی اس کابڑے صبر سے انہوں نے مقابلہ کیا ہے اور یہ وہی کر سکتا ہے جس کو اللہ پر کامل ایمان ہو اور یہ صبر جو ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہو۔ اُس وقت بعض لوگ اظہار کرتے رہے کہ شاید ان کو پتا نہیں کہ بیماری کی شدت کیا ہے۔ ان کو کینسر کی بیماری تھی، پینکریاز (Pancreas) کا کینسر تھا۔ لیکن لوگ غلط تھے، ان کو سب کچھ پتا تھا۔ یہ اس بات پر راضی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جیسی زندگی دی الحمد للہ بڑی اچھی دی اور اس بات پر بھی راضی تھے کہ اللہ تعالیٰ بیماری سے شفا دے یا جو بھی اس کی تقدیر ہے وہ آ جائے۔ اس بارے میں زبیر خلیل صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ برس جرمنی میں چیک اَپ کروانے کے لئے خاکسار کو ان کے ساتھ سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس جانے کی توفیق ملی۔ ڈاکٹر نے جب ان کی جان لیوا بیماری کے بارے میں مطلع کیا تو ہنس کے فرمانے لگے۔ میرا ایک خدا ہے اور خلیفۂ وقت کو بھی ہم دعا کے لئے کہتے ہیں جو ہمارے لئے دعائیں کرتا ہے۔ اگر اللہ کی مرضی میری وفات میں ہے تو مَیں اس پر بھی راضی ہوں۔ ڈاکٹر یہ باتیں سن کر بڑا متأثر ہوا۔
یہی لکھنے والے لکھتے ہیں کہ مَیں نے ایک خواب میں دیکھا تھا جس میں آپ ٹی وی پہ یہ کہہ رہے ہیں، اعلان کر رہے ہیں کہ امیر غانا تو ایک نور ہے۔
پھر ان کے بیٹے مہمان نوازی کے متعلق کہتے ہیں کہ جو بھی ان سے ملنے کے لئے جاتا خود جوس پیش کرتے۔ ہمارے بہت سے مسلمان اور غیر مسلم دوستوں نے مجھے اس بات کا ذکرکیاہے کہ وہاب صاحب ہمارے ساتھ اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے۔ جب بھی کوئی ان سے مشورہ مانگتا ہمیشہ ان کی مدد کرتے۔
گھانا میں کوکونٹ (cocconut) خاص طور پر بہت ہوتا ہے اور پیش کیا جاتا ہے اور یہ خاص طور پر مہمانوں کو پیش کرنے کے لئے فریج میں رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے مبارک ظفر صاحب گئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیماری کے باوجود ان کی کوشش یہ تھی کہ خود کھول کے سٹرا (Straw) ڈال کے پیش کریں۔ ہاتھ پوری طرح اٹھا نہیں سکتے تھے تو پھر دوسروں کی مدد سے انہوں نے سٹرا (Straw) ڈالنے کی کوشش کی۔ آخری بیماری تک یہ وصف جو مہمان نوازی کا تھا اس کو انہوں نے پوری طرح نبھانے کی کوشش کی۔
بشارت بشیر صاحب کی اہلیہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ وہاب صاحب نے جب تعلیم مکمل کی خدا کے فضل سے کامیاب مبلغ بنے۔ وہاب صاحب کی طبیعت میں شروع سے ہی بہت انکساری تھی۔ 1954ء میں میری شادی ہوئی تو میں نے دیکھاکہ وہاب صاحب ہمارے گھر آتے اور مجھے کہتے کہ مولانا کے بوٹ دے دیں۔ یعنی بشارت بشیر صاحب کے بوٹ دے دیں، مَیں نے پالش کرنے ہیں۔ مَیں بہت گھبراجاتی کہ مبلغ بننے والے بچے سے میں یہ خدمت لوں؟ لیکن ان کا اصرار ہوتا تھا اس لئے کہ جو احسان انہوں نے ربوہ لا کر مجھ پر کیا اس کو ہر صورت میں اتاریں اور ویسے بھی استاد کی عزت ان کے دل میں تھی۔ اسی طرح انہوں نے بشارت بشیر صاحب کی وفات پر ایک بڑا مضمون لکھا اور جب انہوں نے اس کا ذکر کیا تو اس سے بڑے خوش بھی ہوئے۔
ان کے بیٹے رحمدلی کا واقعہ لکھتے ہیں کہ بہت سے واقعات ہیں جب انہوں نے لوگوں کی مدد کے لئے اپنے تعلقات استعمال کئے اور ایسے لوگوں کی بھی مدد کرتے جنہیں وہ پہلے نہ جانتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بیوہ ان کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ وہ بیوہ ہوگئی ہے اور چاہتی ہے کہ کوئی چھوٹا ساکام شروع کرکے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے جس کے لئے اس کو مالی مدد کی ضرورت ہے۔ والد صاحب اس بیوہ خاتون سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے لیکن اس کی مدد کی تا کہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکے۔
بچوں سے اور دوسروں سے بھی ہمیشہ بڑا حسن سلوک کرتے تھے۔ ہر بچے کو جب بھی ملتے ان کو تحفے غبارے اور چاکلیٹ جو ان کی جیب میں ہوتے تھے، دیا کرتے تھے۔ بلکہ کسی نے مجھے شکایت کی کہ ان کا سلوک ایسا ہے(یعنی اچھا نہیں )۔ اس پر مَیں نے انہیں کہا مجھے یقین تو نہیں لیکن ان کو میں نے بھیج دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا میں تو ہمیشہ اپنے پاس سے اپنے اوپر تنگی کر کے بھی لوگوں کا خیال رکھتا ہوں لیکن بہر حال ایسا طبقہ ہوتا ہے جو شکایتیں کرنے پہ تُلا ہوتا ہے چاہے اس سے اچھا سلوک بھی کیا جائے۔
اسی طرح خلافت کے ساتھ تعلق اور وابستگی کے بارے میں یا کوئی کام پوچھے بغیر نہیں کرنا (اس بارہ میں) ڈاکٹر تاثیر صاحب جو گھانا میں ڈاکٹر ہوتے تھے، لکھتے ہیں کہ وہاب صاحب کا ایک وصف یہ تھا کہ اطاعت ہمیشہ کرنی ہے۔ کہتے ہیں خلافت رابعہ میں ایک بار ایک غیر احمدی ریڈیوگرافر کی طرف سے ایکسرے پلانٹ لگانے کی تجویز ہوئی جس میں بظاہر ہسپتال کو فائدہ اور سہولت دکھائی دے رہی تھی۔ کہتے ہیں جب مَیں نے وہاب صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے کہ کوئی بات طے کرنے سے پہلے جب تک خلیفہ وقت سے اجازت نہیں مل جاتی یہ نہیں کرنی۔ ان سے اجازت لو پھر آگے بات چلانا۔ چنانچہ جب اجازت لی گئی تو اجازت نہیں ملی اور اس طرح بہت سی قباحتوں سے بچ گئے۔
محمودناصر ثاقب صاحب مالی کے امیر جماعت ہیں۔ محمودناصر صاحب پہلے برکینا فاسو میں بھی رہے ہیں۔ کہتے ہیں وہاب صاحب وہ مبلغ تھے جو ہم پیچھے آنے والوں کے لئے ایک نیک نمونہ بنے۔ کہتے ہیں خاکسار کو ان کے ساتھ متعدد دفعہ ملنے کا موقع ملا۔ خاکسار نے سبغ تینگا گاؤں میں وہ جھونپڑی دیکھی ہے جس میں برکینافاسو میں وہاب صاحب کا قیام ہوتا تھا۔ وہاب صاحب کی کوشش سے 1986ء میں جماعت احمدیہ برکینافاسو کی رجسٹریشن ہوئی۔ اور 2005ء میں برکینا فاسو کے جلسہ سالانہ میں جب ان کو میں نے نمائندہ بنا کر بھجوایا تو انہوں نے اپنی بہت سی یادیں وہاں تازہ کیں کہ کن حالات میں وہ برکینافاسو آئے تھے۔ جماعت کی کس طرح رجسٹریشن ہوئی۔ بہت مشکلات تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُور ہوئیں۔ برکینا فاسو کی جماعت انہی کے ذریعہ سے قائم ہوئی ہے۔ ہم بھی دیکھا کرتے تھے کہ یہ جاتے تھے۔ پھر خلافت جوبلی کے جلسے پہ برکینا فاسو سے سائیکلوں کا قافلہ چلا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ میں خود ٹمبالے آ کر ان کا استقبال کروں گا اور باوجود مصروفیت کے یہ دو تین سو میل کا سفر کر کے وہاں گئے اور ان کا بارڈر پر استقبا ل کیا۔
چند سال پہلے ایک دفعہ افریقہ کے لوگوں کو مَیں نے کہا تھا کہ یہ مشہور ہے کہ احمدی حج نہیں کرتے اور غیراحمدیوں نے بڑی افواہیں پھیلائی ہوئی ہیں اس لئے ہمارے مبلغین کو حج کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ایک سکیم شروع کی تھی۔ تو حافظ مشہود صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے وہاب صاحب سے کہا کہ مختلف لوگوں کے لئے آپ نام پیش کرتے ہیں آپ خود کیوں نہیں جاتے۔ تو انہوں نے فوراً اس کا جواب دیا کہ مَیں پہلے ہی حاجی ہوں۔ کہتے ہیں مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تو میری پریشانی دیکھ کے کہنے لگے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثالثؒ کے زمانے میں مَیں نے حج پر جانے کا ارادہ کیالیکن اس وقت غانا کے مذہبی امور کے جو وزیر تھے وہ مسلمان تھے۔ انہوں نے بڑی مخالفت کی اور میرا ویزا نہیں لگنے دیا۔ کچھ عرصے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے ان کی ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ ویزا نہ ملنے کی کیا وجوہات ہیں؟ جب انہوں نے یہ بتایا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کچھ دیر خاموش رہے، ان کو دیکھتے رہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مجھے ابھی کشفاً اللہ تعالیٰ نے دکھایا ہے کہ تم خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہو اور تمہارے ساتھ ساٹھ ستر ہزار لوگ طواف کر رہے ہیں۔ تو کہتے اس لئے مَیں تو پہلے ہی حاجی ہوں۔ already حاجی ہوں اس لئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
صبر ان کی ایک بڑی خاصیت تھی۔ کہتے ہیں صبر کی حالت دماغ پر نقش ہے کہ جس روز ان کے ایک داماد جوامریکہ میں تھے شہید ہو گئے۔ وہاں کسی نے ڈاکہ ڈالا اور ان کو ان کی جگہ پر قتل کر دیا تو کہتے ہیں اس روز جامعہ احمدیہ غاناکی سالانہ تقریب تقسیم انعامات تھی۔ پروگرام پر آنے سے قبل امیر صاحب کو یہ اطلاع مل گئی تھی۔ ظاہر ہے ایک باپ کی حیثیت سے فکر ہونی چاہئے کہ جوان بیٹی بیوہ ہو گئی ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ لیکن تین چار گھنٹے اس فنکشن میں شامل رہے اور چہرے پر بالکل آثار نہیں آنے دئیے کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے اور تمام فنکشن بڑی مسکراہٹ سے گزارا اور شام کے وقت جب سب کچھ ختم ہو گیا پھر ہمیں بتایا کہ یہ حادثہ ہو گیا اور میری بیٹی جو ہے وہ آج بیوہ ہو گئی، جوان داماد جو ہے اس کو اس طرح قتل کر دیا گیا ہے۔
ایک دوست قانات بیگ صاحب جو رشین ہیں وہ کہتے ہیں کہ 2008ء میں جلسہ سالانہ گھانا میں شمولیت کی توفیق ملی۔ مجھے امیر صاحب گھانا کی طرف سے ان کی رہائش پر دعوت دی گئی۔ اپنے روایتی لباس میں مجھے ملے۔ گلے لگایا اور اس انداز میں ملے کہ میری سفر کی پانچ دن کی جو تھکاوٹ تھی بالکل دور ہو گئی۔ اور کہتے ہیں ابھی بھی جب میں تصویر دیکھتا ہوں تو ان کے ہاتھوں کی گرمی محسوس کرتا ہوں۔ مجھے آپ کی یہ ادا بھی بڑی پسند آئی کہ آپ کے ساتھ صدر مملکت کرسی پر بیٹھے تھے تو آپ نے جو عزت صدر مملکت کو دی وہی عزت ڈیوٹی والے کو دی جو کہ دھوپ سے بچنے والی بڑی چھتری لئے کھڑا تھا۔ آپ نے دونوں سے ایک ہی انداز میں باری باری پوچھا کہ آپ تھک تو نہیں گئے آپ کو پیاس تو نہیں لگی۔ یعنی غریب اور امیر دونوں کا خیال رکھا۔
کہتے ہیں جہاں گیسٹ ہاؤس میں ہماری رہائش تھی تو وہاں مسجد میں لائنوں میں صفیں عموماً بچھی ہوئی نہیں ہوتیں۔ وہاب صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ صفیں سیدھی ہیں کہ نہیں۔ تو یہ جو مہمان آئے ہوئے تھے رشین ان کے نیچے جائے نماز نہیں تھی۔ ان کو خیال ہوا کہ شاید یہ فرش پر صحیح طرح نہ پڑھ سکیں تو وہاب صاحب نے اپنی جائے نماز اٹھا کر ان کو دے دی اور خود اسی طرح نماز پڑھی۔ کہتے ہیں اگلے دن سے پھر باقاعدہ دو جائے نمازیں لے کر آیا کرتے تھے۔
ماجد صاحب کہتے ہیں کہ خلافت سے جو اُن کا تعلق تھا اور جس طرح اطاعت کرتے تھے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایک واقعہ کہتے ہیں کہ یہاں گزشتہ سال دوپہر کے وقت دفتر آئے۔ سارے کھانا کھا رہے تھے تو کہتے ہیں کہ گھانا فون کرنا ہے۔ کہتے ہیں اس پر مَیں نے ان کو کہا کہ امیر صاحب پہلے کھانا کھا لیں پھر فون کر لیتے ہیں۔ کہنے لگے نہیں۔ خلیفۂ وقت کا یہ ارشادہے جو ابھی ملا ہے، مَیں نے اسے فوری پہنچانا ہے کہ وہاں اس پر کام شروع ہوجائے۔ کھانا تو بعد میں کھایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فون کیا۔ میرا جو پیغام تھا وہ پہنچایا اور فوری طور پر اس پر کام کر کے رپورٹ دینے کا کہا۔
اسی طرح عاجزی انکساری یہ تھی کہ وہاب صاحب دفتر میں بیٹھے ہوتے تو ماجد صاحب کو دیکھتے ہی بار بار اس لئے کھڑے ہو جاتے تھے کہ آپ ہمارے افسر ہیں، ہمارا فرض ہے کہ احترام کریں۔ ایک دفعہ دفتر میں یہ لوگ کھانا کھا رہے تھے تو شاید اس کھانے میں نمک زیادہ تھا۔ ماجد صاحب بلڈ پریشر کی وجہ سے نمک نہیں کھاتے۔ تو وہاب صاحب خاموشی سے اٹھے، گیسٹ ہاؤس گئے، اپنا کھانا جو تھا وہاں سے لے کے آ گئے اور کہا کہ مَیں نے چیک کیا ہے اس میں نمک کم ہے۔ تو یہ ہیں وہ لوگ جو قرآنی حکم کے مطابق اپنے نفسوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ قریشی داؤد صاحب بھی کچھ عرصہ گھانا میں رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ریجنل مشنری کے علاوہ اردو ڈاک کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میں رخصت پرپاکستان گیا تھا۔ واپس آیا تو کسی دوست کو کہا کہ فلاں وقت رات گیارہ بجے فلائٹ آنی ہے تم مجھے لینے آ جانا۔ کہتے ہیں جب مَیں جہاز سے اتر کر باہر آیا ہوں تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اس وقت بھی رات کو عبدالوہاب آدم صاحب ائیر پورٹ کے اس دروازے پر کھڑے تھے جہاں سے اتر کر ائیر پورٹ میں داخل ہوتے ہیں اور امیگریشن وغیرہ کلیئر کروا کے اور دعا کے ساتھ پھر انہوں نے ان کو آگے رخصت کیا اور کہتے ہیں کہ خلفاء کے خط لکھوانے کا احترام اس طرح سکھایا کہ بعض دفعہ خلیفہ وقت کو اردو خط لکھتے ہوئے رپورٹ میں کوئی غلطی ہو جاتی تھی، تصحیح کے لئے جب اس پہ ٹپکس (Tippex) لگاتے تھے تو کہتے تھے اس طرح نہیں۔ یہ پورا خط دوبارہ لکھو کیونکہ خلیفہ وقت کے پاس اس طرح جانا بے ادبی ہے۔
مرزا نصیر احمد صاحب بھی لکھتے ہیں کہ کام کو دوسرے وقت پر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ بڑے جذبے سے کام کرتے تھے اور کام ختم کر کے ہی اٹھتے تھے۔ اسی طرح دوسروں کو بھی بڑا encourage کرتے تھے جو کام کرنے والے ہیں۔ اور ایک دفعہ وا (Wa) میں جو وہاں سے تین چار سو کلو میٹر دور ہے ایک فنکشن تھا۔ مرزا صاحب کو ساتھ لے گئے۔ وہ کچی اور بڑی ٹوٹی ہوئی سڑک ہے۔ صرف کچی نہیں بلکہ بے انتہا جھٹکے۔ خیر بڑا لمبا سفر کر کے جب وہاں پہنچے تو پتا لگا کہ فنکشن تو ملتوی ہو گیا ہے۔ اور بڑا تکلیف دہ سفر ہوتاہے لیکن کچھ انہوں نے اظہار نہیں کیا اور کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا گو کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے وہاں پہلے اطلاع دے دی تھی لیکن تار کا نظام بھی ایسا ہی تھا کہ اطلاع نہیں پہنچ سکی۔
پھر بہت سارے لوگ ہیں، ایسے واقفین زندگی ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے لئے بعض دفعہ وہاں حالات کی وجہ سے دودھ وغیرہ میسر نہیں ہوتا تھاتو فوراً اس کا انتظام کرتے تھے۔ یہ مجید بشیر صاحب نے اور ان کے علاوہ اَوروں نے بھی لکھا۔ پھر ڈاکٹر عبدالخالق صاحب کہتے ہیں کہ ربوہ میں ایک دفعہ ملے تو تعارف نہیں تھا۔ پھر میں نے بتایا کہ مَیں مولانا غلام باری سیف صاحب کا بیٹا ہوں۔ تو پھر دوبارہ اٹھ کے گلے لگایا کہ آپ تو میرے استاد کے بیٹے ہیں اور بڑے احترام سے پیش آئے۔
رشین ڈیسک والے خالد صاحب کہتے ہیں کہ جب مَیں نے ایک دفعہ ان کو بتایا کہ میں رشیا سے آیا ہوں تو کہنے لگے تم بڑے خوش قسمت ہو۔ You are very lucky person.۔ کہتے ہیں میں نے حیران ہو کر کہا یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ آپ اور آپ کے مبلغین جو وہاں رشیا میں کام کر رہے ہیں بڑے خوش قسمت ہیں۔ تو اس پر کہنے لگے کہ ایک نبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ہے کہ وہاں بڑی تعداد میں جماعت پھیل جائے گی اور خوب ترقی ہو گی تو آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ پس یہ یقین تھا اور اس یقین پر اظہار کہ جن مبلغین نے ابھی وہاں قدم رکھے ہیں انہیں بھی مبارک ہو کہ وہ اس آئندہ تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں۔ اسی طرح ملک مظفر صاحب کہتے ہیں۔ سیاسی اثر و رسوخ کا ایک دفعہ اس طرح اندازہ ہوا کہ خاکسار اکرا (Accra) سے ٹیما (یہ دوشہر ہیں) جا رہا تھا۔ راستے میں بیریئر (Barrier) تھا، وہاں اخبار فروخت ہو رہا تھا۔ اخبار کے سرورق پر وہاب صاحب کی نمایاں فوٹو نظر آئی تو میں نے مقامی مبلغ سے معلوم کرایا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی چند ہفتے پہلے گھانا میں جنرل الیکشن ہوئے تھے اور موجودہ پارٹی اور حزب اختلاف نے صرف معمولی فرق کے ساتھ الیکشن جیتے تھے جو کہ حکومت مان نہیں رہی تھی۔ اس موقع پر بڑے ہنگامے اور بدامنی کا خطرہ تھا۔ وہاب صاحب نے دونوں پارٹیوں کے لوگوں سے مل کر پر امن انتقال اقتدار کے لئے جو بھرپور کوشش کی ہے یہ خبر اسی کے لئے ہے اور قوم اس کو سراہ رہی ہے۔
شمشاد صاحب آجکل امریکہ میں مبلغ ہیں۔ یہ گھانا میں بھی رہے ہیں۔ کہتے ہیں میرا تبادلہ سیرالیون ہوگیا تو مَیں جس شہر میں تھا وہاں کے لوگ ایک وفد بنا کر امیر وہاب صاحب کے پاس گئے کہ ان کو ابھی یہیں رہنا چاہئے تو اس پر وہاب صاحب نے کہا دیکھو ایک جماعت کا صدر اپنی جماعت کی فلاح و بہبود چاہتا ہے کہ وہاں ترقی ہو۔ ریجنل چیئرمین چاہتا ہے کہ وہاں ریجن میں ترقی ہو۔ ملک کا امیر چاہتا ہے کہ اس کے ملک میں ترقی ہو تو سب سے اوپر ہمارے خلیفۃ المسیح ہیں کہ جو سب دنیا میں ترقی دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے کون سا آدمی کہاں موزوں ہے ان کو سب سے زیادہ پتا ہے۔ اگر اس کا تبادلہ گھانا سے سیرالیون میں ہو رہا ہے تو ان کو پتا ہے کہ اس کی خدمات کی وہاں ضرورت ہے۔ اگر خلیفۃ المسیح کو یہ لکھا جائے کہ یہاں رہنے دو تو یہ سوء ادبی ہے۔ اور پھر ان کو بتایا، سمجھایا کہ دیکھو مَیں آپ کے جذبات کا احترام کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود خلیفۃ المسیح کے حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے اور پھرمزید ان کو پھر اہمیت بتائی کہ خلافت کی کیا اہمیت ہے اور کیا برکات ہیں۔ اس طرح ان لوگوں کو بھی مزید یہ ادراک اور فہم حاصل ہوا کہ کس طرح خلافت کا احترام کرنا ہے۔
مبارک صدیقی صاحب ایک واقعہ اور لطیفہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہاب آدم صاحب یہاں آئے تھے تو ایک دن میری ٹیکسی پر بیٹھے اور لندن مسجد چلنے کے لئے کہا۔ مَیں تو انہیں جانتا تھالیکن وہ نہیں جانتے تھے۔ مجھے شرارت سوجھی(وہ حسب عادت کرتے رہتے ہیں) کہتے ہیں کہ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ اس مسجد میں کیوں جا رہے ہیں؟ وہ تو احمدیوں کی مسجد ہے۔ یہ سنتے ہی وہاب صاحب نے تبلیغ شروع کر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کا ظہور ہو چکا ہے اور پوری تحقیق کے بعد ہم نے انہیں مان لیا ہے اور تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو، قبول نہیں کر رہے۔ تو وہاں مسجد فضل پہنچ کر بہت دیر تک بیٹھے رہے، مجھے تبلیغ کرتے رہے۔ کہتے ہیں مَیں نے ان کو مذاقاً اس وقت بڑی سنجیدگی سے کہا کہ سنا ہے آپ کا کلمہ بھی الگ ہے۔ اس پر انہوں نے کہا ہمارا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے۔ پھر مجھے بازو سے پکڑ کے کھینچنے لگے کہ اندر آؤ میں تمہیں مسجد پہ لکھا ہوا دکھاتا ہوں۔ خیر کافی دیر کے بعد میں نے ہاتھ جوڑ کے کہا کہ مَیں تو آپ کو جانتا ہوں بلکہ آپ کا بڑا مدّاح ہوں اور احمدی ہوں اور حلقے کا قائد بھی ہوں، مَیں مذاق کر رہا تھا۔ خیر اس پر بہت ہنسے۔ انہوں نے کہا اگر تم مجھے نہ بتاتے تو مَیں نے تمہیں اٹھا کر لے جانا تھا۔ اور انہوں نے ان کو اٹھا کے لے بھی آنا تھا۔
جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ربوہ میں امیر مقامی رہے۔ تو عطاء المجیب صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے بھی یہ یاد ہے کہ خلیفۃ المسیح الثالث چند روز کے لئے ربوہ سے باہر اسلام آباد گئے۔ وہاب صاحب کو امیر مقامی مقرر کیا اور مولانا ابو العطاء صاحب کو نائب امیر مقرر کیا اور یہ ہمیشہ اس پر آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ بلکہ جب میں گھانا میں تھا تو مجھے بھی انہوں نے کئی دفعہ بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مجھے ایک سبق دینا چاہتے تھے، ایک نصیحت کرنا چاہتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا اپنا انداز تھا اور نصیحت تھی کہ بعض گھانین کی بعض باتیں بعض جگہ سے پہنچ رہی تھیں کہ ہمارا جو گھانین مشنری ہے، قابل ہے، لائق ہے اس کو کیوں ہمارا امیر نہیں بنایا جاتا۔ کیوں ہمارا امیر پاکستانی ہے۔ تو یہ سبق تھا کہ تم اپنے گھانا کی باتیں کر رہے ہو، مَیں تمہیں ربوہ کا امیر مقامی بنا رہا ہوں۔ خود وہاب صاحب اس پر ہمیشہ کہتے تھے کہ مجھے اس سے بڑی نصیحت حاصل ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ پھر انہوں نے وہاں کی جماعت میں خلافت کے لئے ایک بڑا احساس پیدا کیا، ایسا جو اُن کے دلوں میں گڑھ گیا۔
اسی طرح گزشتہ سال جب یہ یہاں تھے تو گھانا کی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سال جلسہ نہ کیا جائے، ہمارے انتظامات ٹھیک نہیں ہوتے۔ اس پر مَیں نے ذرا تھوڑا سا ناراضگی کا اظہار کیا اور وہاب صاحب کو کہا کہ آپ یہاں آ گئے ہیں اور لوگ اس قسم کی سوچیں سوچنے لگ گئے ہیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تو بلال صاحب کہتے ہیں کہ یہ اس بات پر بڑے افسردہ تھے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے لیکن اس دن بڑی گہری سوچ میں رہے اور ان کو فون کیاتو دھیمی آواز میں ہلکی آواز میں کچھ کہتے بھی رہے۔ کہتے ہیں کہ صرف یہ ایک واقعہ ہے جب مَیں نے ان کو سنجیدہ اور فکر مند دیکھا ہے۔
بہر حال ان کی جویہ بے چینی تھی، جو سوز تھا یہ خلافت سے محبت کا اظہار تھا۔ پھر یہاں سے علاج کے بعد جب گئے ہیں تو تمام عاملہ سے پھر انہوں نے مجھے معافی کا خط لکھوایا کہ ہمارے سے غلطی ہو گئی ہے اور جلسہ انشاء اللہ ہو گا۔ اور پھر جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو ااور بڑا کامیاب ہوا اور پھر یہ بھی لکھا کہ اس سال کا جلسہ گزشتہ سالوں کے جلسوں سے زیادہ کامیاب ہوا ہے اور سہولیات بھی بہتر رہی ہیں۔ پس یہ یقینا خلافت کی اطاعت کی وجہ سے تھا اور جس طرح میرے ہر فیصلے پر ان کا یہی کہنا تھا کہ میں نے تو ماننا ہے اور نبض کی طرح ساتھ چلنا ہے۔
فہیم بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ بڑے بے نفس تھے۔ ایک دن میں گیا ہوں تو حالانکہ بیمار تھے پھر بھی سِنک میں برتن دھو رہے تھے۔ میں نے کہا میں دھو دیتا ہوں تو انہوں نے کہا نہیں کوئی ضرورت نہیں۔ خلیفۃ المسیح الثالث کے متعلق ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہاب صاحب چھٹی پر پاکستان گئے تو فرمایا تمہاری کوئی چھٹی نہیں اور دیہاتوں میں جا کر کام کرو۔ وہاب صاحب کہتے ہیں کہ دیہاتوں میں جا کر مجھے جو تجربہ ہوا اس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا اور پھر مجھے خلیفہ وقت کے فیصلوں کی حکمت نظر آئی۔
ساری ساری رات جو لوگ کام کرنے والے تھے ان کو خود چائے وغیرہ پوچھتے، ان کا خیال رکھتے۔ سلیم الحق صاحب کہتے ہیں کہ جب یہ یہاں تھے تو گزشتہ سال ایک دن سپریم کورٹ گھانا کا کوئی فیصلہ آنا تھا۔ تو فجر کے بعد ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے میرا ٹی وی خراب ہو گیا ہے اور چل نہیں رہا۔ ٹھیک کر دیں کیونکہ میں نے خلیفہ وقت کو اس فیصلے کے بارے میں رپورٹ دینی ہے۔ تو کہتے ہیں مجھے تو پتا نہیں لیکن میرے بچے ٹھیک کر دیں گے۔ خیر بچوں نے ٹھیک کر دیا۔ اس پر بڑے خوش ہوئے پھر ان کو چاکلیٹ بھی دئیے۔ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے یہ ننھے مجاہد ہیں اور یہ بچے جو ہیں یہ جماعت کے روشن مستقبل اور ترقیات کا ذریعہ بنیں گے اور انشاء اللہ غالب بھی آئیں گے۔ اس طرح بچوں کو encourage کیا کرتے تھے۔
ابراہیم اخلف صاحب بھی ان کو ملے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی ملاوٹ نہیں تھی۔ خلافت سے محبت اور عقیدت بہت زیادہ تھی۔ اسی طرح جو کوئی بھی مرکزی نمائندہ جاتا تھا اس کی بڑی عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ میں نے اپنا بھی ذکر کیا کہ مَیں وہاں رہا ہوں۔ کچھ دن شروع میں ان کے گھر بھی رہا ہوں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا، پاکستانی کھانوں کا وغیرہ۔ اور صرف میرا نہیں بلکہ ہر پاکستانی جو جاتا تھا اس کا خیال رکھتے تھے۔
ان کی ایک اور خوبی جو نوافل اور تہجد کی تھی میں نے دیکھی ہے۔ ایک دفعہ ہم ایک لمبے سفر کے بعد ٹمالے میں ناردرن ریجن میں تھے وہاں یہ آئے اور بڑی خراب سڑک تھی، بڑا تھکا دینے والا لمبا سفر تھا رات گیارہ بجے پہنچے۔ کھانا وانا کھایا۔ بارہ بجے فارغ ہوئے تو رات کو میری آنکھ کھلی اور باہر دیکھا تو مسجد کے صحن میں صفیں بچھی ہوتی تھیں اور وہاں انتہائی خشوع و خضوع سے نوافل پڑھ رہے تھے شاید رات کا ڈیڑھ بجا تھا۔ پتا نہیں کب سے پڑھ رہے تھے۔ آدھا پونا گھنٹہ شاید سوئے ہوں گے اور پھر نفل شروع کر دئیے۔ تھکاوٹ ہو یا کچھ ہو انہوں نے اپنے نوافل کبھی نہیں چھوڑے۔
ایک دفعہ ٹمالے میں ہی ایک مربی صاحب نے غیر از جماعت لوگوں کے سامنے اور میرے سامنے بڑا غلط رویہ ان کے ساتھ اپنایا۔ یہ تو کچھ نہیں بولے۔ مجھے غصہ آیا مَیں نے بھی ان مربی صاحب کو کچھ برا بھلا کہا۔ انہوں نے اردو میں صرف اتنا کہا کہ ان غیر لوگوں کے سامنے تو جماعتی وقار کا کچھ خیال رکھا کرو۔ لیکن خاموش رہے۔ پھر انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھو یہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی اس بات کا غیر احمدیوں پر کیا اثر پڑے گا۔ بڑا درد تھا اور صرف فکر تھی کہ جماعتی وقار اثر انداز ہو رہا ہے۔ بہر حال ایسے لوگ پھر وقف میں رہتے بھی نہیں۔ وہ مربی صاحب مرکز واپس گئے اور پھر وقف سے فارغ بھی کر دئیے گئے۔ لیکن اس وقت وہاب صاحب کے صبر کو دیکھ کے مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ حالانکہ امیر تھے کوئی بھی ایکشن لے سکتے تھے۔
جب میں گھانا میں ہی تھا تو کئی مرتبہ بڑے درد سے مجھ سے ذکر کیا کہ بعض مربیان جو ہیں وہ محنت کرتے ہیں اور بہت محنت کرتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل کام نہیں کرتے اور جواب دے دیتے ہیں کہ اس سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ تبلیغ کے نئے سے نئے راستے کھولنے چاہئیں اور ہمیں پیغام پہنچانا چاہئے اور ان کی یہ بات سو فیصد صحیح تھی کہ بعض صرف یہی سمجھتے ہیں کہ جو طریق جاری ہو گیا ہے بس اس پر چلتے رہو اور لکیر کے فقیر بنے رہو۔ نئے نئے راستے نہ نکالو۔ بہرحال وہاب صاحب کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہر جگہ احمدیت کا پیغام پہنچے۔ صحیح اسلام کا پیغام پہنچے اور اس کے لئے خود کوشش بھی کرتے تھے۔ دوسروں سے بھی بڑی توقع رکھتے تھے اور اس کے لئے بے چین رہتے تھے۔ دعائیں کرتے تھے۔ پھر لالچ بھی کوئی نہیں تھی۔ شروع میں جماعت کی طرف سے کارکنوں کو پاکستان میں ربوہ میں سستی قیمت پر کچھ پلاٹ ملا کرتے تھے۔ اب گزشتہ سال انہوں نے یہاں علاج پر جماعت کاجو پیسہ خرچ ہو رہا ہے، شاید اُسے compensate کرنے کے لئے مجھے لکھا کہ وہ پلاٹ جو ہے جس کی لاکھوں روپے میں قیمت تھی وہ مَیں جماعت کو دینا چاہتا ہوں اور جماعت کو دے رہا ہوں۔ تو یہ بھی ہے کہ ان کو اس طرح کوئی دنیاوی لالچ بھی نہیں تھا۔ وہ کم از کم بیس پچیس لاکھ کی جائیداد انہوں نے جماعت کو دی۔ ان کی وفات بھی بڑے سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوئی اور صدر مملکت نے وہاں اپنے سٹیٹ ہاؤس میں ان کا جنازہ منگوایا وہیں پڑھوایا حکومتی پروٹو کول پورا دیا۔ جنازہ لے جانے کے لئے حکومت کی جانب سے پولیس اور آرمی اور پیرا ملٹری فورسز کی گاڑیوں نے مکمل اعزاز دیا۔ پھر وہاں پوری کارروائی ہوئی اور سٹیٹ ہاؤس میں مختلف وزراء نے، صدر مملکت کے نمائندے نے جو سپیکر آف پارلیمنٹ تھے اور اسی طرح نائب صدر مملکت نے بھی ان کے بارے میں وہاں خیالات کا اظہار کیا۔ اعزاز کے ساتھ پورا پروٹوکول ان کو دیا گیا۔ اور پھر اسی طرح وہاں کے جو مختلف مذہبی رہنما تھے اور عیسائیوں وغیرہ نے بھی ان کے حق میں بہت کچھ کہا۔ ہمارے مشنری فرید صاحب جو جامعہ احمدیہ گھانا کے پرنسپل ہیں انہوں نے اسلام کا زندگی اور موت کا جو فلسفہ اور نظریہ ہے قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے ساتھ وہ بیان کیا۔ بہرحال ایک پورے اعزاز کے ساتھ ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سے لے جایا گیا اور مقبرہ موصیان گھانا میں ان کی تدفین ہوئی اور میڈیا پر بھی کافی کوریج ہوئی۔ گھانا ٹیلی ویژن نے پوری کوریج دی اور سٹریمنگ (streaming) پر دنیا میں بھی دکھائی گئی۔
ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ مریم وہاب صاحبہ اور چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور خلافت اور جماعت سے ویسا ہی پختہ تعلق رکھیں جیسا ان کا اپنا تھا اور یہ اپنے بچوں اور بیوی کے لئے چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ صبر اور حوصلہ بھی ان کو عطا فرمائے اور وہاب صاحب کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں ان کو جگہ عطا فرمائے۔ نماز کے بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ غائب بھی پڑھوں گا۔
امیر و مشنری انچارج گھانا کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
یہ ہمارے پیارے بزرگ بھائی اور خلافت کے جان نثار سپاہی، خلیفۂ وقت کے اشارے پر چلنے والے، ہر فیصلہ جو خلیفہ وقت کی طرف سے آئے اسے شرح صدر سے قبول کرنے والے، خلیفۂ وقت کے چھوٹے چھوٹے حکم بلکہ خواہش کی تکمیل کے لئے بھی بے چین رہنے والے تھے۔
اس خادمِ سلسلہ کا خدمت سلسلہ کا عرصہ نصف صدی سے زائد پر پھیلا ہوا ہے۔
فرمودہ مورخہ 27؍جون 2014ء بمطابق 27 احسان 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔