رمضان کا مقصد تقویٰ کا حصول
خطبہ جمعہ 4؍ جولائی 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ: 184)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پھر محض اور محض اپنے فضل سے ایک اور رمضان سے گزرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ یہ ایک مہینہ جو اپنی بے شمار برکات لے کر آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مہینے میں تمہارے پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے۔ کس لئے فرض کیا گیا ہے؟ کیا اس لئے کہ تم صبح سے شام تک بھوکے رہو؟ نہیں، بلکہ اس لئے کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ اصل چیز یہی تقویٰ ہے جو بے شمار برکات کا حامل بناتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔‘‘ تبتّل اور انقطاع کا مطلب ہے کہ خدا سے لَو لگانا اور دنیاوی خواہشات کو پیچھے پھینک دینا۔ گویا کہ ان دنوں میں ایسی حالت ہو کہ ان میں دنیا کی خواہشات سے تعلق توڑ کر صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہر عمل اور کوشش ہو۔ آپ نے فرمایا کہ’’پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلّی اور سیری کا باعث ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نِرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد9صفحہ123۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ یوکے)
پس ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ دے، ان دنوں میں پہلے سے بڑھ کر اس کی تسبیح کرے۔ اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا نہ صرف اظہار کرے بلکہ اپنے عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرے تبھی روزوں کا فیض حاصل ہوتا ہے اور تبھی اس مقصد کو انسان حاصل کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تم تقویٰ اختیار کر کے اللہ کا قرب حاصل کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے کا مضبوط قلعہ ہے۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد3صفحہ458 مسندابی ہریرۃ حدیث نمبر 9214عالم الکتب بیروت1998ء)
لیکن یہ آگ سے بچانے کا مضبوط قلعہ تب بنتا ہے جب خدا تعالیٰ کی خاطر انسان اپنے ہر عمل کو کرے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اپنے سامنے رکھے۔ دعاؤں اور ذکر الٰہی میں دن اور رات گزارنے کی کوشش کرے۔ تقویٰ پر چلے۔ تقویٰ کے بارے میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہوں پر توجہ دلائی ہے اور فرمایا جو اس سوچ کے ساتھ روزے رکھے کہ تقویٰ اختیار کرنا ہے، ذکر الٰہی اور دعاؤں کے ساتھ اپنے دن رات گزارنے ہیں، اپنی عبادتوں کے حق کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینی ہے تو اللہ نے فرمایا کہ یہ روزہ پھر میری خاطر ہے اور پھر میں ہی اس کی جزا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ یریدون…حدیث7492)
یعنی ایسے روزے دار پھر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہو جاتے ہیں۔ ان کی نیکیاں عارضی وقتی اور رمضان کے مہینے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ حقیقی تقویٰ کا اِدراک ان کو ہو جاتا ہے۔ یہ نیکیاں پھر رمضان کے بعد بھی جاری رہتی ہیں۔ ایسے لوگ پھر ایک رمضان کو اگلے رمضان سے ملانے والے ہوتے ہیں۔ پس ہمیں اس سوچ کے ساتھ اور اس کوشش سے اس رمضان میں سے گزرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا تقویٰ عارضی نہ ہو۔ ہمارے روزے صرف سطحی نہ ہوں۔ بھوکے پیاسے رہنے کے لئے نہ ہوں۔ رمضان کی روح کو سمجھے بغیر صرف ایک دوسرے کو رمضان مبارک کہہ کر پھر رمضان کی روح کو بھول جانے والا ہمارا رمضان نہ ہو بلکہ تقویٰ کا حصول ہمارے سامنے ہر سحری اور ہر افطاری کے وقت ہو۔ دن بھر کا ذکر الٰہی اور رات کے نوافل ہمیں تقویٰ کی راہیں دکھانے والے ہوں۔ ہم اپنے اوپر زیادتی کرنے والے کا جواب اسی طرح الٹا کر دینے والے نہ ہو جائیں۔ اس کے بجائے ہم اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اپنے اوپر زیادتی کرنے والے کے جواب میں خاموش ہو جائیں۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ جواب دیں کہ مَیں روزہ دار ہوں۔ ہر زیادتی کے جواب میں اِنِّیْ صَائِمٌ کے الفاظ ہمارے منہ سے نکلیں۔ (صحیح البخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم حدیث1894)
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری عزتیں، ہماری بڑائی کسی کو نیچا دکھانے یا اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دینے میں نہیں اور اپنے پر کی گئی زیادتیوں کا بدلہ لینے میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ہے۔ اسی میں ہماری بڑائی ہے۔ اسی بات میں ہماری عزت ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کو عزت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہونے کا یہ معیار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اس بارے میں ایک ارشاد ہے جو ایک اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اَب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متّقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے۔ اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اس کے نزدیک متقی ہے‘‘ فرمایا: ’’پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متّقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ 238-239۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ یوکے)
پس یہ بڑا خوف دلانے والی تنبیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ روزے اور یہ رمضان کا مہینہ اس لئے ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انتہائی رحم کا سلوک ہے۔ پھر فرمایا کہ ان دنوں میں شیطان کو جکڑ کر میں نے تمہارے لئے یہ سامان پیدا کر دئیے ہیں کہ تم آسانی سے تقویٰ اختیار کر سکو۔ ان احکامات پر چل سکو، چلنے کی کوشش کرو۔ میرا قرب پانے والے بن سکو لیکن اب بھی اگر روزے کے ساتھ بظاہر عبادتوں کی طرف توجہ دے رہے ہو لیکن اپنی اَناؤں اور جھوٹی عزتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہو تو روزے کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر اگر ہم ان جالوں اور ان خولوں کو توڑ کر باہر نہیں نکلتے اور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقویٰ کو حاصل کرنے کی طرف ہم توجہ نہیں دیں گے یا نہیں دیتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ دو عملی ہے اور ظاہری تقویٰ کا اعلان اور دل میں ناپاکیاں یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتیں۔ فرمایا کہ خوف کا مقام ہے اور یہ خوف کا مقام اَور بھی بڑھ جاتا ہے کہ کسی کے تقویٰ کا فیصلہ کسی انسان نے نہیں کرنا۔ یہ فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اور جب یہ فیصلہ خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے تو پھر سوائے توبہ، استغفار، تسبیح، تحمید اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا ورد اور ڈرتے ڈرتے دن بسر کرنا اور خدا تعالیٰ کے خوف سے راتیں گزارنا، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ لیکن ہمارا خدا بڑا پیار کرنے والا خدا ہے۔ قربان جائیں ہم اس پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ مَیں رمضان میں اپنے بندے کے بہت قریب آ گیا ہوں اس لئے فیض اٹھا لو جتنا اٹھا سکتے ہو اور تقویٰ کے حصول کے لئے میرے بتائے ہوئے طریق پر چلنے کی کوشش کرو تا کہ تم اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن سکو۔ یہ کیمپ جو ایک مہینہ کا قائم ہوا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھا لو کہ اس میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے کی گئی نیکیاں تمہیں عام دنوں میں کی گئی نیکیوں کی نسبت کئی گنا ثواب کا مستحق بنانے والی ہوں گی۔
پس اٹھو اور میرے حکموں کے مطابق اپنی عبادتوں کو بھی سنوارو اور اس عہد کے ساتھ سنوارو کہ یہ سنوار اَب ہم نے ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ اٹھو اور اپنے اعمال کو بھی خوبصورت بناؤ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بناؤ اور اس ارادے سے بنانے کی کوشش کرو کہ اب ہم نے ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ اٹھو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد کیا ہے اس کا حقیقی اِدراک اس مہینے میں حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سوچ کے ساتھ کرو کہ اب یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھو کہ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ (البقرۃ: 42) کہ میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت مت لو اور مجھ سے ہی ڈرو یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری باتیں جو دین ہیں ان کے بدلے میں دنیا کی خواہش نہ کرو۔ یاد رکھو دین کے مقابلے میں دنیا بالکل حقیر چیز ہے۔ پس یہ سوچ ہے جو ہم میں سے ہر ایک میں پیدا ہونی چاہئے تبھی ہم رمضان کا حقیقی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ یہی نہیں کرتا کہ بندے کو کہہ دیا کہ تقویٰ اختیار کرو یہ میرا حکم ہے اور حکم عدولی کی تمہیں سزا ملے گی بلکہ فرمایا کہ اس تقویٰ کا تمہیں ہی فائدہ ہو گا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان فوائد کا بھی ذکر فرما دیا جو اس دنیا کے بھی فوائد ہیں اور آخرت کے بھی فوائد ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شریعت کے طریق پر چلو گے اور احکامات پر عمل کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہارا ولی اور دوست ہو جائے گا۔ فرمایا یہ دنیا والے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اِنَّھُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا (ہود: 96) وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
اس لئے لوگوں کی پناہیں تلاش کرنے کی بجائے اس کامل پناہ کی تلاش کرو جو وَلِیُّ الْمُتَّقِیْن ہے (الجاثیہ: 20)۔ جو متقیوں کا دوست ہے اور ان کی پناہ گاہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم کوئی بھی کام، کوئی بھی معاملہ میری خاطر کرتے ہو، میری رضا کے حصول کے لئے کرتے ہو، میرا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے کرتے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (التوبہ: 4) یقینا اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت مل جائے اسے اور کیا چاہئے۔ اسے تو دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں۔ اس کی تو دنیا و عاقبت سنور گئی اور اس خوبصورت انجام کا اللہ تعالیٰ نے خود کہہ کر بھی بتا دیا کہ تمہارا یہ انجام ہو گا، تمہاری دنیا و عاقبت سنور جائے گی۔ فرمایا کہ یہ جو انجام ہے متقیوں کے لئے ہے۔ دنیا دار اس انجام کو نہیں پہنچ سکتے۔ جو لوگ دنیا والوں کی زیادتیوں پر صبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتے ہیں، دنیا والوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، دنیا والوں کی ظاہری طاقت دیکھ کر ان کے آگے جھکتے نہیں تو اِس دنیا میں بھی انہیں طاقت ملے گی اور انجامکار وہی فتحیاب ہوں گے انشاء اللہ۔
آج پاکستان میں یا بعض دوسرے ممالک میں احمدیوں پر سختیاں وارد کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے پیچھے چلو۔ ہم تمہاری تمام سختیاں اور مشکلات دور کر دیں گے۔ ہم تمہیں اپنے گلے سے لگا لیں گے۔ ہماری باتیں مان لو۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب لوگ دھوکہ دینے والے ہیں۔ جس کو بظاہر آجکل یہ اپنی کامیابیاں سمجھ رہے ہیں ان کی ناکامیاں بننے والی ہیں۔ جن دنیاوی سہاروں پر بھروسہ کر کے یہ لوگ ظلم کا بازار گرم کر رہے ہیں یہی سہارے دیمک زدہ لکڑیوں کی طرح ٹوٹ کر خاک میں ملنے والے ہیں۔ پس صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہو، اسی سے مدد مانگو تو یقینا تم زمین کے وارث بنائے جانے والے ہو۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور آپ کے طفیل ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے ساتھ دین کا اِحیاء ہونا ہے اور تقویٰ پر قائم رہنے والوں نے ہی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے بہتر انجام کو دیکھنا ہے۔ قربانیاں تو دینی پڑیں گی۔ یہ قربانیاں ہی کامیابی کی راہ دکھانے والی ہیں۔ یہ قربانیاں ہی تقویٰ کا معیار بلند کر کے وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (الاعراف: 129) کا انجام یعنی کہ انجام متقیوں کے ہاتھ میں رہتا ہے اس کی خوشخبری دینے والی ہیں۔ پس ہم خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں بہتر انجام کی خبریں دے رہا ہے۔ آج اگر مُسلم اُمّہ بھی اس راز کو سمجھ کر مسیح موعود کی مخالفت کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مددگاروں میں شامل ہو جائے تو یہ بے چینی جو ہر مسلمان ملک کے افراد اور حکومتوں میں پائی جاتی ہے یہ ختم ہو جائے۔ فتنہ و فساد اور آپس کی لڑائیاں جو جہاد کے نام پر ایک دوسرے پر ظلم کر کے ہو رہی ہیں یہ محبت اور پیار میں بدل جائیں۔ پس نہ لیڈروں میں تقویٰ ہے، نہ علماء میں تقویٰ ہے اور نتیجۃً ان علماء کے تربیت یافتہ عوام الناس بھی حقیقی تقویٰ کا اِدراک نہیں رکھتے اور اپنی طرف سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان نام نہاد علماء اور شدت پسند گروہوں کے جال میں پھنس کر غلط اور تقویٰ سے کوسوں دور ہٹے ہوئے اعمال بجا لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کے جذبات ابھار کر انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا لالچ دے کر ان علماء نے ظلم کی راہ پر لگایا ہوا ہے۔ ان نوجوانوں اور عموماً مُسلم اُمّہ کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ یہ تقویٰ نہیں ہے جس کو تم تقویٰ سمجھ رہے ہو۔ یہ نیکی نہیں ہے جس کو تم نیکی سمجھ رہے ہو۔ یہ جہادنہیں ہے جس کو تم جہاد سمجھ رہے ہو۔ آپس میں کلمہ گوؤں کو قتل کرنا تقویٰ سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔ مومن کی نشانی تو خدا تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30) کہ آپس میں رحم کے جذبات سے پُر ہوتے ہیں۔ یہ دلوں کے پھاڑ کر کے ظلمت پر تلے ہوئے جو لوگ ہیں یہ کہاں سے تقویٰ پر چلنے والے ہو گئے؟ کیا ایسے لوگوں کے انجام اللہ تعالیٰ بہتر کرتا ہے؟ کیا ایسے ظالموں کو خدا تعالیٰ زمین کا وارث بناتا ہے؟ کبھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کو کبھی ظلم پسندنہیں آ سکتا۔ جو خلافت خلافت کا نعرہ لگاتے ہیں کیا ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ زمین میں خلافت دے کر اپنا جانشین بنانے والا ہے؟ وہ خدا جو رحمان خدا ہے کیا وہ ظلموں اور ظالموں کا مددگار ہو گا؟ وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃٌ للعالمین بنا کر بھیجا ہے کیا وہ اپنے پیارے نبی کے نام پر دنیا میں ظلموں کو پنپنے دے گا؟ کبھی نہیں۔ خلافت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کے ذریعہ سے جاری ہونی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہو گئی۔ اس کے علاوہ خلافت کا ہر نعرہ دین کے نام پر دنیاوی فوائد حاصل کرنے اور حکومتوں پر قبضہ کرنے کے طریق ہیں۔ گزشتہ جمعہ یہاں ایک ٹی وی چینل والے آئے ہوئے تھے ان کو مَیں نے انٹرویو دیا۔ ان کو مَیں نے یہی کہا تھا کہ جس خلافت کو تم سمجھ رہے ہو کہ جاری ہونی ہے یہ کوئی خلافت نہیں ہے۔ خلافت جاری ہو چکی ہے اور ظلم سے نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے جاری ہونی تھی اور ہو گئی۔ کاش کہ مُسلم اُمّہ کو بھی یہ سمجھ آ جائے اور ان کے آپس کے جھگڑے اور فساد اور حکومتوں کے لئے کھینچا تانیاں ختم ہو جائیں۔ ان کے لئے بھی ہمیں رمضان میں دعا کرنی چاہئے کیونکہ ان کی وجہ سے غیر مسلموں کو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
یہ جو خلافت کی باتیں ہو رہی ہیں اس بات پرگزشتہ دنوں یہاں کے ایک پروفیسر نے جو مذہبی تعلیم پڑھاتے ہیں، خلفائے راشدین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی بیہودہ بکواس کی، بیہودہ گوئی کی۔ مسلمان علماء اور تنظیموں کے لیڈروں اور حکومتوں کے سربراہوں کو تو اپنی طاقت حاصل کرنے یا محفوظ کرنے کی فکر ہے۔ اسی فکر میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی بیہودہ گوئیوں کا جواب اگر کوئی دینے والا ہے، اگر کوئی ان کا منہ بند کروانے والا ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی کرتی ہے اور ہم نے اس کا جواب دیا۔ یہی لوگ اسلام کے مخالفین ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ اور بغض رکھنے والے ہیں۔ ان لوگوں نے اب ایک نئی فلم بنائی ہے جو سنا ہے آج واشنگٹن میں بھی اور برلن جرمنی میں بھی بیک وقت چلائی جائے گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کے بارے میں ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ استہزاء کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ ان لوگوں کی دنیا بھی برباد ہونے والی ہے اور عاقبت بھی۔ ان کو اپنے انجام نظر نہیں آ رہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اپنے بدانجام کو پہنچیں گے۔
دنیاوی طور پر قانون کے دائرے میں رہ کر جو احتجاج کرنا ہے یا جو کوشش کرنی ہے اس کے بارے میں کل ہی جب مجھے پتا لگا تو جرمنی کی جماعت کو مَیں نے کہہ دیا تھا۔ امریکہ والے بھی اس کے لئے بھرپور کوشش کریں۔ لیکن آج ایک احمدی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق اور آپ کی شان اور عظمت کی بلندی کا اظہار یہ ہے کہ بے انتہا درود پڑھیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّد۔ دنیا کا ہر احمدی آج کی فضا اور اس رمضان کو درود سے بھر دے کہ جہاں دشمنوں کے آپؐ کی شان پر حملے کا جواب یہی ہے اور اس سے بہتر اور کوئی جواب نہیں وہاں یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ پیدا کرنے والی چیز بھی ہے اور یہی تقویٰ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خوشکن انجام کی خبر دے رہا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عاقبت متقیوں کے لئے ہے۔ آخر کار بہتر انجام متقیوں کا ہے۔ جب یہ دشمنان اسلام پارہ پارہ ہو کر ہوا میں اڑ جائیں گے اور کامیابیاں اور بہتر انجام حقیقی مومنین اور متقین کا ہی ہو گا۔ انشاء اللہ۔
مسلم اُمّہ کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شیطانی اور دجّالی طاقتیں بڑے طریقے سے انہیں ایک دوسرے سے لڑا رہی ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں فرقہ بازیاں ہیں۔ یہ فرقہ بازیاں اب کیوں ایک دم پیدا ہو گئیں۔ یہ باہر کی کچھ طاقتیں ہیں جنہوں نے ان میں فرقہ بازیاں پیدا کروائی ہیں تا کہ اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملے اور پھر اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ کرتے چلے جائیں۔ اندرونی حملہ یہ طاقتیں آپس میں لڑا کر اور بیرونی حملہ بیہودہ فلمیں بنا کر اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور زندگی کے بارے میں بیہودہ گوئیاں کر کے کر رہی ہیں۔ اور انہیں یہ پتا ہے کہ اس کے ردّ عمل کے طور پر مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑے گی اور پھر دنیا میں جو فساد ہو گا اس کو لے کر یہ طاقتیں پھر اسلام کو بدنام کریں گی۔ ان شیطانی قوتوں نے ایک ایسا شیطانی چکر پیدا کر دیا ہے جس سے اب مسلمانوں کو باہر نکالنے والا کوئی نہیں۔ جو ایک راستہ ہے اس کا یہ انکار کر رہے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی مسلم اُمّہ کے لئے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ ان کو یہ نظر آ جائے کہ کن لوگوں کے نیک انجام کی اللہ تعالیٰ خوشخبری دے رہا ہے۔ کاش یہ مسیح موعود کو مان کر اسلام کی فتوحات کے نظارے دیکھنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ دوسروں کے متعلق یہ جو مَیں نے انجام کے بارے میں باتیں کی ہیں اس کو سن کر ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑ لینی چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا اور خلافت کا نظام ہم میں موجود ہے اور ہم ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ روزوں کے ساتھ تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کی ذمہ داری لگا دی ہے کہ جماعت کی برکات سے، خلافت کی برکات سے حصہ لینے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونے کا صحیح فیض پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لئے تقویٰ شرط ہے اور یہ رمضان کا مہینہ اس تقویٰ میں ترقی کا ایک ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھا لو جتنا اٹھا سکتے ہو۔ اس لئے ہر فرد جماعت کو اور ہر مومن بننے والے کی خواہش رکھنے والے کو اپنے انفرادی جائزے لیتے ہوئے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ فرمایا: وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(الانعام: 156)۔ اور یہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے اور یہ برکت والی ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
پس اگر رمضان سے فیض پانا ہے، اگر اپنے بہتر انجام کو دیکھنا ہے، اگر فلاح کے دروازے اپنے اوپر کھلوانے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے اور ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا جن کا کوئی رہنما نہیں ہے، جو بکھرے ہوئے ہیں اور ہر اس شخص کے دھوکے میں آ جاتے ہیں جو اسلام کے نام پر اور دین کے نام پر ان کے جذبات بھڑکا دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن پر عمل کرو۔ اس کے احکامات کو دیکھو۔ ان کا حقیقی اِدراک حاصل کرو۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو بھیجا ہے تو ان کی نظر سے قرآن کریم کے احکامات کو غور سے دیکھو کہ وہی اللہ تعالیٰ نے سکھائے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عشق اور پیروی میں سکھائے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے کسی ایک حکم کو بھی چھوڑتا ہے جان بوجھ کر اس کی طرف توجہ نہیں دیتا تو پھر ایسا شخص آپ کی جماعت اور آپ کی بیعت میں آنے کا عبث دعویٰ کرتا ہے۔ (ماخوذاز کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ 26)۔ یہ الفاظ میرے ہیں لیکن مضمون کا مفہوم یہی ہے۔ آپ اسے اپنی جماعت میں شامل نہیں سمجھتے تھے۔
پس جیسا کہ میں پہلے ایک اقتباس میں پڑھ آیا ہوں کہ یہ بڑے خوف کا مقام ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے۔ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے رحم کے دروازے ان پر ہمیشہ کھلے رہیں گے اور کھلتے چلے جائیں گے جو تقویٰ پر چلتے ہوئے میرے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ پس اس کی برکات سے فائدہ اٹھا لو۔ کسی حکم کو بھی معمولی نہ سمجھو۔ کیونکہ یہی راہ ہے جو تقویٰ پر چلانے والی اور متقی بنانے والی ہے۔ انسان بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے بعض احکامات کو اس لئے اہمیت نہیں دیتا کہ دنیا کے فوائد اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ دولت، اولاد، تجارتیں، دنیا کی دوسری ترجیحات اس کو زیادہ پُرکشش لگتی ہیں اور وہ ان کے حصول کے لئے بعض ایسی حرکتیں کر دیتا ہے جن کا تقویٰ تو کیا، عام اخلاق سے بھی دُور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان عارضی دنیاوی فوائد کے لئے تم دین کو بھول رہے ہو اور میرے احکامات پر عمل نہیں کر رہے ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ جھوٹ بول کر کسی دنیا دار کی خوشامد کر کے دوسرے کے مال میں خیانت کر کے تم دنیاوی فوائد حاصل کر لو گے۔ کسی کا حق ظلم سے مار کر تم اپنی دولت میں اضافہ کر لو گے تو سنو کہ ہر قسم کا رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ وہ سب دولتوں کا سرچشمہ ہے۔ اگر خدا نہ چاہے تو تم یہ دولت کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر تم عارضی طور پر یہ حاصل کر بھی لو تو یہ دولت تمہارے لئے خیر نہیں، شرّ بن جائے گی۔ انجامکار تم خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ گے۔ پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حلال رزق کی تلاش کرو اور حلال رزق متقیوں کو ہی ملتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور ایسے راستوں سے آتا ہے جس کا ایک عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق: 3۔ 4) جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا اور اس کو وہاں سے سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہوگا اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کاخود متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَ جًاوَّ یَرْ زُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ۔‘‘ فرمایا کہ ’’جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام نہیں چل سکتا اس لئے دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے جو متقی ہوں موقع ہی نہیں آنے دیتا جو جھوٹ بولنے پر مجبور کرنے والے ہوں ) فرمایا کہ ’’یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔ جب رحمان نے چھوڑ دیا یعنی خدائے رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 34)
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہو سکتا کہ مَیں اپنی جناب سے متقی کو رزق دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں (یہ الفاظ میرے ہیں) کہ جو تقویٰ کا دعویٰ کر کے پھر رزق سے تنگ ہیں۔ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ متقی ہیں، تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور رزق میں بھی تنگی ہے تو پھر یا ان کی دنیاوی خواہشات بہت بڑھی ہوئی ہیں اور پوری نہیں ہو رہیں یا تقویٰ کا دعویٰ غلط ہے۔ ان کا تقویٰ پر عمل کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ تقویٰ پر چلنے کا دعویٰ غلط ہے۔ خدا تعالیٰ کی بات بہر حال غلط نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد5صفحہ 244۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ یوکے)
آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ لوگ بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ کفّار کے پاس، دنیا داروں کے پاس بڑی دولت ہے جودین سے دور ہٹے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ کفار کے پاس بھی بڑا مال اور دولت ہے اور وہ عیش و عشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل دنیا داروں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ421۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ یوکے)
اور تجربات سے ثابت ہے کہ دنیا داری نے ان کو بے چین کیا ہوا ہے۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے سکون کے لئے مختلف طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ نشوں میں گرفتار لوگوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا داری کی خواہشات جو ہیں وہ پوری نہیں ہوتیں اس کی وجہ سے بے چینی ہے، بے سکونی ہے۔ اس کے سکون کے لئے وہ نشے کرتے ہیں۔ پس اگر کوئی شخص حقیقت میں متقی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کر رہا ہے تو تھوڑے سے بھی اس کو سکون مل جاتا ہے۔ غیر ضروری خواہشات کا نہ ہونا بھی تو اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے، فضل ہے۔ پس ایک احمدی کو اس طرف بھی نظر رکھنی چاہئے کہ رمضان میں اپنے تقویٰ کو اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جہاں دنیاوی لذات اور خواہشات اس حد تک ہوں جہاں تک خدا تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور مال و دولت کا حصول ہو تو وہ بھی تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے ہو۔ اور پھر ایسے مال دار متقی اپنی دولت بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ کل یا پرسوں ہی مَیں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ بشیر رفیق صاحب نے چوہدی ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق لکھی ہوئی ہے۔ اس میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر بڑے امیر تھے۔ یہاں آ کر لندن میں ہوٹل میں ٹھہرتے تھے اور ایک پورا وِنگ ہوٹل کا بُک کرا لیا کرتے تھے۔ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ آئے تو فیملی نہیں تھی۔ اکیلوں نے وِنگ بُک کرا لیا اور انہوں نے کہا میرے پاس بڑی دولت ہے اور میں گُھٹ کے کمروں میں نہیں رہ سکتا تو میں نے تو پورے کا پورا وِنگ کرایا ہوا ہے۔ چوہدری صاحب سے انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں یہاں مشن ہاؤس کے فلیٹ میں کمرے میں بشیر رفیق صاحب کے ساتھ رہتا ہوں اور کھانا بھی ان کے ساتھ کھاتا ہوں۔ کہنے لگے کہ اتنا پیسہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو کیوں آپ تنگی کرتے ہیں۔ خرچ کریں۔ جس طرح میرے پاس دولت ہے مَیں خرچ کرتا ہوں۔ آپ کے پاس بھی دولت ہے خرچ کریں۔ تو چوہدری صاحب پہلے تو سنتے رہے۔ پھر کہنے لگے کہ تم تو فضول خرچی کرتے ہو لیکن میں اگر پیسے بچاتا ہوں تو اس سے میں طلباء کی تعلیم کے اوپر خرچ کر رہا ہوں۔ ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کر رہا ہوں اور بے انتہا ایسے لوگوں پر خرچ کر رہا ہوں جو مجبور ہیں۔ پس جو سکون مجھے یہ خرچ کر کے ملتا ہے وہ تمہیں دنیا داروں کو نہیں مل سکتا۔ چوہدری صاحب نے انہیں کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ کاش تمہیں بھی اس سکون کا پتا لگ جائے پھر تم یہ جو اپنی دولت خرچ کر رہے ہو، لُٹا رہے ہو تم اس کو اپنے اوپر لُٹانا حقیر سمجھو گے اور یہی تمہاری خواہش ہو گی کہ غریبوں کی ضروریات پوری کروں۔ (ماخوذ ازچند خوشگوار یادیں از بشیر احمد رفیق صاحب صفحہ 360تا362مطبوعہ قادیان2009ء)
پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کما کر بھی دنیا سے بے رغبتی کی ہے اور ایسے ہی متقی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دونوں جہان میں جنتوں کی بشارتیں دی ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم اس رمضان کے روزوں سے ایسا فیض پانے والے ہوں جو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو مستقل ہماری زندگی کا حصہ بنا دے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے دونوں جہان کی جنتوں سے حصہ پانے والے ہوں۔ ہمارا اس دنیا کا بھی انجام بخیر ہو۔ آخرت کا بھی انجام بخیر ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اسلام کی حقیقی تصویر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اسلام کے خلاف دشمن کے ہر حملے کو اپنے قول، اپنے عمل اور اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچا کر رد کرنے والے ہوں۔ اس کو اس پر الٹانے والے ہوں۔ آج اسلام کے خلاف جو شیطانی قوتیں جمع ہو گئی ہیں ان کا مقابلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے ہی کرنا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اسلام کے خلاف یہ آج ایسے منصوبے بنا رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح انمسلمان ملکوں کو جال میں پھنسا کر ان پر حملہ کرو۔ عامۃ المسلمین کو اس چال کی سمجھ نہیں آ رہی اور عموماً تو شایدنہیں لیکن شاید بعض، ایک آدھ کوئی لیڈر ہو جو نیک نیت بھی ہوں تو ان کو بھی سمجھ نہیں آرہی اور سمجھتے ہیں کہ غیروں کی مدد لے کر وہ کامیاب ہو رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اس جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں جہاں ان کو اپنی بربادی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ہمارے سمجھانے سے تو ان کو سمجھ نہیں آتی۔ کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا۔ جو امّت مسلمہ کے ہمدرد بلکہ بے چین ہو کر درد رکھنے والے ہیں ان کے یہ لوگ خلاف ہیں۔ پس اس کا علاج دعا کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس رمضان میں دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی کریں اور اُمّت مسلمہ کے لئے بھی رحم مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرتے ہوئے ان کو عقل دے۔ جہاں جہاں احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں ان ظلموں سے بچنے کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان ظلموں سے بچائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمیں حقیقی تقویٰ عطا کرے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کی مدد اور فضل سے مخالفین دین اور دشمنان اسلام کو خائب و خاسر ہوتا دیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ رمضان میں ہمارے اندر ایک حقیقی انقلاب پیدا کر دے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ روزے اور یہ رمضان کا مہینہ اس لئے ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اگر روزے کے ساتھ بظاہر عبادتوں کی طرف توجہ دے رہے ہو لیکن اپنی اَناؤں اور جھوٹی عزتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہو تو روزے کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔
آج پاکستان میں یا بعض دوسرے ممالک میں احمدیوں پر سختیاں وارد کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے پیچھے چلو ہم تمہاری تمام سختیاں اور مشکلات دور کر دیں گے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب لوگ دھوکہ دینے والے ہیں۔ جس کو بظاہر آجکل یہ اپنی کامیابیاں سمجھ رہے ہیں ان کی ناکامیاں بننے والی ہیں۔ جن دنیاوی سہاروں پر بھروسہ کر کے یہ لوگ ظلم کا بازار گرم کر رہے ہیں یہی سہارے دیمک زدہ لکڑیوں کی طرح ٹوٹ کر خاک میں ملنے والے ہیں۔ خلافت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کے ذریعہ سے جاری ہونی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہو گئی۔ اس کے علاوہ خلافت کا ہر نعرہ دین کے نام پر دنیاوی فوائد حاصل کرنے اور حکومتوں پر قبضہ کرنے کے طریق ہیں۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف مخالفین اسلام کی بیہودہ گوئیوں کا جواب اگر کوئی دینے والا ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔
آج ایک احمدی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق اور آپ کی شان اور عظمت کی بلندی کا اظہار یہ ہے کہ بے انتہا درود پڑھیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّد۔ دنیا کا ہر احمدی آج کی فضا اور اس رمضان کو درود سے بھر دے کہ جہاں دشمنوں کے آپؐ کی شان پر حملے کا جواب یہی ہے اور اس سے بہتر اور کوئی جواب نہیں وہاں یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ پیدا کرنے والی چیز بھی ہے
ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلّی نہیں پکڑ لینی چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا اور خلافت کا نظام ہم میں موجود ہے اور ہم ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ روزوں کے ساتھ تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کی ذمہ داری لگا دی ہے کہ جماعت کی برکات سے، خلافت کی برکات سے حصہ لینے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونے کا صحیح فیض پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لئے تقویٰ شرط ہے اور یہ رمضان کا مہینہ اس تقویٰ میں ترقی کا ایک ذریعہ ہے۔
ایک احمدی کو اس طرف بھی نظر رکھنی چاہئے کہ رمضان میں اپنے تقویٰ کو اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جہاں دنیاوی لذات اور خواہشات اس حد تک ہوں جہاں تک خدا تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور مال و دولت کا حصول ہو تو وہ بھی تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے ہو۔ اور پھر ایسے مال دار متقی اپنی دولت بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس رمضان میں دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی کریں اور اُمّت مسلمہ کے لئے بھی رحم مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرتے ہوئے ان کو عقل دے۔ جہاں جہاں احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں ان ظلموں سے بچنے کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان ظلموں سے بچائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمیں حقیقی تقویٰ عطا کرے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کی مدد اور فضل سے مخالفین دین اور دشمنان اسلام کو خائب و خاسر ہوتا دیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ رمضان میں ہمارے اندر ایک حقیقی انقلاب پیدا کر دے۔
فرمودہ مورخہ 04؍جولائی 2014ء بمطابق 04 وفا 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔