اللہ تعالیٰ کی وسیع اور بے انتہا مغفرت اور رحمت

خطبہ جمعہ 18؍ جولائی 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۔ وَاَنْیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلَمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۔ (الزمر: 54۔ 55)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقینا اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے یقینا وہی بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور اپنی رب کی طرف جھکو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ پیشتر اس کے کہ تم تک عذاب آ جائے پھر تم کوئی مددنہیں دئیے جاؤ گے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف آیات میں مختلف مضامین کے حوالے سے مختلف بندوں کو یہ امید دلائی ہے کہ وہ بے انتہا بخشنے والا اور اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا ہے۔ یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں اس کی پہلی آیت میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اور اس میں ہر اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے فیض پانے کا ایک خوبصورت پیغام ہے جو گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی سزا سے خوفزدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ مَیں مالک ہوں، مَیں طاقت رکھتا ہوں کہ تمہارے گناہ بخش دوں اور تمہیں اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لوں۔ پس کیا خوبصورت پیغام ہے جو امیدوں کو بڑھاتا ہے اور مایوسیوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہی پیغام ہے جو انسانوں کو کہہ رہا ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔ یہی پیغام ہے جو ہمیں کمزوریوں سے بھی بچانے کی طرف لے جانے والا ہے اور زندگی کی ناکامیوں سے بھی دُور رکھنے والا ہے۔ کیونکہ مایوسیاں ہی بسااوقات گناہوں کے کرنے اور زندگی کی ناکامیوں کی وجہ بنتی ہیں۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نیچے آ جائے، مایوسیاں اور ناکامیاں اس سے دُور بھاگتی ہیں۔ یہی پیغام ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے راستے دکھا رہا ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے چلے جانے والے بن کر اس کی رحمتوں سے فیض پاتے چلے جائیں۔ پس یہ پیغام تمام بھٹکے ہوؤں کے لئے روشن راستہ ہے۔ یہ پیغام تمام روحانی مُردوں کے لئے زندگی کا پیغام ہے یہ پیغام شیطان کے پنجے میں جکڑے ہوؤں کے لئے آزادی کی نوید ہے۔ کیا ہی پیارا ہمارا خدا ہے جو ہم پر اپنے پیار کی اس طرح نظر ڈالتا ہے جو بار بار اپنے ماننے والوں کو کہتا ہے کہ وَلَا تَیْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ (یوسف: 88)۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو کیونکہ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّاالْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ (یوسف: 88)۔ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافروں کے سوا کوئی ناامیدنہیں ہوتا۔

پس اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی ہر وقت امید رکھو۔ تم اپنی بشری کمزور یوں کی وجہ سے بعض برائیوں میں مبتلا ہو گئے ہو لیکن بھٹکے ہوؤں میں تو نہیں ہو، گمراہوں میں تو نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو صرف بھٹکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ پر یقین نہیں ہے، خدا تعالیٰ کی رحمانیت پر یقین نہیں ہے۔ یہ مایوسی بھٹکے ہوؤں کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَ وَمَنْ یََّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہِٓ اِلَّا الَضَّآلُّوْنَ (الحجر: 57) اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے۔ پس یقینا پریشان حالوں اور اپنی حالتوں کی وجہ سے بے چین لوگوں کے لئے اس سے بڑھ کر ہمدردی اور تسکین قلب کا اور کوئی پیغام نہیں ہو سکتا۔

پھر ہمارا خدا ہماری تسکین کے لئے ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ وہ تمہارے برے اعمال کی وجہ سے تمہیں فوری پکڑ کر سزا نہیں دیتا بلکہ وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُوالرَّحْمَۃِ (الکہف: 59) کہ اور تمہارا خدا بہت ہی بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے کیونکہ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ (الانعام: 55)  کہ تمہارے رب نے اپنے آپ پر تمہارے لئے رحمت کو فرض کر لیا ہے۔ پس تمہارے جہالت سے کئے گئے گناہوں کو وہ معاف کرتا ہے۔ پس اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرو۔ اگر اصلاح کرتے ہوئے اس کی رحمت پر نظر ہو گی تو وہ غفورالرحیم ہے۔ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والاہے۔

اور صرف یہی نہیں کہ صرف وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے بلکہ فرماتا ہے وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (الاعراف: 157)  کہ اور میری رحمت ہر چیز کو حاوی ہے۔ یہاں بات تو مومنوں سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ صرف مومنوں کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ رحمت تو کافروں کو بھی پہنچتی ہے اور مومنوں پر تو پھر یہ فرض ہو گئی۔ وہ تمام گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ مالک ہے۔ اس کو معاف کرنے کے لئے کسی پابندی کی یا کسی شرط کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کیا ایسے رحیم اور پیار کرنے والے خدا کے رحم اور پیار کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کے کہنے پر چل کر اس کے حکموں پر عمل کر کے اس سے محبت کو بڑھائیں، اس کے اور قریب ہوں اور اپنے گناہوں اور اپنی کمزوریوں کو ختم کرنے کی حتی القدور کوشش کریں۔ یہ ساری باتیں جو میں نے قرآن کریم کے حوالے سے کی ہیں اور اسی طرح جو احادیث ہم تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہنچتی ہیں یہ سب ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ کوئی بھی شخص ناقابل اصلاح نہیں ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی شخص کی اصلاح نہ ہو سکے۔ ہر ایک کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ہر ایک اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت سے جو ہر ایک کے لئے پھیلی ہوئی ہے اس کی رحمت کو اس سے بڑھ کر زیادہ بھی حاصل کرنے و الا بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے دل میں اور پھر عملی طور پر پاک تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے۔

گزشتہ دنوں ڈنمارک کے ایک مذہبی اخبار میں ایک خاتون نے مضمون لکھا اور قرآن کریم کے بارے میں لکھا کہ اس میں بار بار سزا اور عذاب کا ذکر ہے اور محبت کا لفظ تو کہیں استعمال ہی نہیں ہوا یا ایک دو جگہ استعمال ہوا ہے۔ اور یہ کہنا کہ خدا پر ایمان ایک انسان کو اپنی مرضی اور آزادی اور خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہے یہ کسی طرح بھی کم از کم مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہو سکتا۔ بعض آیات بغیر سیاق و سباق کے لکھ کر یا غلط طور پر بیان کر کے اور اپنی طرف سے استنباط کر کے اسلام کے خدا کو صرف سزا دینے میں جلد باز اور سخت پکڑ والا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال اس کا جواب تو وہاں کی جماعت دے رہی ہے لیکن یہ جو چند حوالے مَیں نے پیش کئے ہیں وہ جہاں مومنین کو امید افزاء پیغام دیتے ہیں وہاں اس جیسے مضمون نگاروں کو اور اسلام دشمنوں کو جو اسلام کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں اور اسلام اور قرآن سے بغض رکھتے ہیں ان کو جواب بھی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو مالک ہے، بخشتا ہے۔ یہ ایسی صفت ہے جو تمام صفات پر حاوی ہے۔ معاف بھی کرتا ہے رحم بھی کرتا ہے۔ یہ بھی اس کا رحم ہے کہ انسانوں کی بے انتہا بداعتدالیوں اور ظلموں کے باوجود انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ہاں یہ بیشک ہے کہ ان ظلموں اور حد سے زیادہ گناہوں میں پڑنے کی وجہ سے اور پھر اس ضد پر قائم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہیں سزا ملے گی۔ مسلسل گناہ اور ظلم کرتے چلے جاؤ اور کسی طرح باز نہ آؤ تو پھر سزا ملے یہ تو قانون قدرت ہے بلکہ دنیا کا بھی قانون ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اتنا رحمان ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دوزخ خالی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی وسیع اور لا انتہا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور بخشش کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم لوگ پھر میری رحمت اور بخشش سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو تمہارے لئے گناہوں اور ظلموں کی پھر سزا بھی ہے لیکن یہ میری رحمت ہے اور میری بخشش ہے جو تمہیں بار بار توجہ دلا رہی ہے کہ ان سے بچو۔ اس سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کر لو کہ کوئی عذاب تمہیں گھیرے۔ حد سے زیادہ ظلموں کی وجہ سے تم میری پکڑ میں نہ آ جانا۔ پس بچنے کی کوشش کرو۔ اب جو اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں اس پر سوائے ان کی عقل کو اندھا اور بغض وعناد میں بھرے ہوئے ہونے کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اپنے ملکوں کے قانون جو بناتے ہیں اس میں تو یہ جرموں کی سزا دینا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑنے والوں اور ظلموں اور زیادتیوں میں بڑھنے والوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کیوں یہ کہتا ہے کہ مَیں سزا دوں گا، مَیں عذاب دوں گا۔

اسلام کا خدا کتنا بخشنہار ہے اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔ اب یہ مثالیں اس لئے دی جا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق بھی بتایا جائے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ فرمایا کہ اس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر وہ توبہ کے متعلق پوچھنے کے لئے نکلا۔ ایک راہب کے پاس آ کر اس نے پوچھا کہ اب توبہ ہو سکتی ہے۔ اس راہب نے کہا: نہیں اب کوئی رستہ نہیں۔ اس نے اس کو بھی قتل کر دیا۔ وہ مسلسل اس کے بارے میں پوچھتا رہا کہ کیا توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں تو اسے ایک شخص نے کہا کہ فلاں بستی میں جاؤ۔ جب وہ جا رہا تھا تو اس کو راستے میں موت آ گئی۔ اس نے اپنے سینے کو اس بستی کی طرف کر دیا۔ جب مر کے گرا تو اس طرف گرا۔ رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے آ گئے۔ اس کے متعلق جھگڑنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس میں وہ جا رہا تھا حکم دیا کہ اس کے قریب ہو جا اور جس بستی سے وہ دُور جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ اس سے دُور ہو جا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ ان دونوں بستیوں کے درمیان فاصلہ کی پیمائش کرو تو وہ اس بستی سے جس کی طرف وہ گناہ بخشوانے کے لئے جا رہا تھا ایک بالشت قریب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اسے بخش دیا۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب 52/54حدیث نمبر: 3470)

پس یہ ہے اسلام کا خدا جو عذاب کے بجائے بخشنے کو پسند کرتا ہے جس کی رحمت وسیع تر ہے۔

پھر ایک اور حدیث ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب عزّ وجل کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو مجھ سے دعا نہیں کرتا اور مجھ سے امید بھی وابستہ کرتا ہے۔ پس میں اس شرط کے ساتھ کہ تُو شرک نہ کرے تجھے تیری خطائیں بخش دوں گا اگرچہ تیری خطائیں زمین کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تجھے اپنی زمین بھر مغفرت کے ساتھ ملوں گا۔ اور اگر تو نے آسمان کی انتہاؤں تک غلطیاں کی ہوں اور پھر تُو مجھ سے میری بخشش طلب کرے تو میں تجھے وہ بھی بخش دوں گا اور میں ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں کروں گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 208 مسند ابو ذر الغفاری حدیث 21837 عالم الکتب بیروت 1998ء)

یہ ہے اللہ تعالیٰ جو اسلام کا خدا ہے، جو بخشنے والا ہے اور ہم مومنوں پر اللہ تعالیٰ کے کتنے بڑے احسان ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر سال رمضان میں اس کی بخشش کے دروازے مزید کھلتے ہیں۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت کے بارے میں ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے۔ نَضَر بن شَیبان کہتے ہیں کہ مَیں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہا: ہاں۔ مجھ سے میرے والدنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنا تم پر فرض کیا ہے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا ہے پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔ نوزایدہ بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ (سنن النسائی کتاب الصّیام باب ذکر اختلاف یحییٰ بن ابی کثیر والنضر بن شیبان فیہ حدیث 2210)

پس ہمیں اس سے غرض نہیں کہ جاہلوں کو اسلام کا خدا کیسا نظر آتا ہے۔ ہمیں تو یہ پتا ہے کہ ہمارا خدا ہمارے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہمیں پیار کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور ہماری طرف دوڑ کر آنے والا خدا ہے تا کہ اپنے بندوں کے گناہ بخشے۔

پھر رمضان کے حوالے سے ایک اور حدیث ہے جس میں رمضان کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں کو قیام کرنے کو نفل ٹھہرایا ہے۔ ھُوَ شَھْر اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَ اَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَ اٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔ کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔ اور جس نے اس میں کسی روزے دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد 5صفحہ 223 کتاب الصیام باب فضائل شہر رمضان حدیث نمبر 3336)۔

یعنی یہ مغفرت ایسی ہے کہ اگر رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے روزے رکھے جائیں اور نوافل ادا کئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے تو پچھلے گناہ بھی بخشے جاتے ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔

پس اللہ تعالیٰ ہمارے لئے قدم قدم پر ایسے سامان پیدا فرما رہا ہے جو جنّت میں لے جانے والے ہیں۔ آجکل ہم رمضان سے گزر رہے ہیں اور دوسرے عشرہ کا بھی اختتام ہو رہا ہے۔ کل پرسوں تیسرا عشرہ شروع ہونے والا ہے۔ اور یہ عشرہ تو جیسا کہ حدیث میں بھی ہے اس لحاظ سے بھی برکتیں لئے ہوئے ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو لیلۃ القدر ہے جو دعاؤں کی قبولیت اور بندے کو خدا کے قریب تر کرنے کے جلوے دکھانے اور دیکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس اس عشرہ میں ہمیں اپنی دعاؤں اور اپنی عبادتوں کے لئے خاص اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ اس میں حاصل کریں پھر اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی بھی خاص ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت سے فیض پاتے چلے جانے کے لئے خاص طور پر ان دنوں میں اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے جو رمضان کا حق ہے اور خاص طور پر اس آخری عشرہ کا حق ہے۔ اپنی برائیوں کو دور کرنے کے لئے، آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے، جہنم سے مستقل نجات پانے کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے۔ ہر کام کے لئے ایک کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی کام بغیر کوشش کے ہو جائے۔ یہ تو عام اصول ہے اور ایک حقیقی مومن سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خوشخبریوں، اللہ تعالیٰ کے پیغاموں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دئیے گئے امید افزاء پیغاموں کو سرسری نظر سے نہ دیکھے بلکہ جب سنے تو ان کا حصہ بننے کی ایک تڑپ دل میں پیدا ہو۔ اور یہ تڑپ تبھی فائدہ مند ہو گی جب اس کے حصول کے لئے عملی قدم بھی اٹھائے۔ اور عملی قدم وہی پھل لانے والے ہوتے ہیں، وہی کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں جو ان اصولوں کے مطابق اور اس طریق پر چلتے ہوئے اٹھائے جائیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بنائے گئے ہوں۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع تر ہے۔ بیشک رمضان میں نیکیوں کے کئی گنا ثواب ہیں۔ بیشک رمضان رحمت اور مغفرت کے حصول اور جہنم سے دُوری کا ذریعہ ہے لیکن ان باتوں سے مستقل فائدہ وہی اٹھانے والے ہوتے ہیں جو ایک لگن کے ساتھ اس کے حصول کی کوشش کریں۔ پس ہم میں سے خوش قسمت ہیں وہ لوگ یا ہم میں سے خوش قسمت وہ لوگ ہوں گے جو اس رمضان کو رحمت اور بخشش کے حاصل کرنے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنا لیں گے۔ اور وہ ان کمزوریوں کو ختم کرنے والے ہوں، اپنے گناہوں سے ہمیشہ کے لئے بچنے والے ہوں۔ یہ رمضان ہمارے لئے وہ سنگ میل بن جائے جو ہمیشہ برائیوں سے دور رکھنے والا اور ہمیشہ نیکیوں کی طرف لے جانے والا بن جائے۔ برائیوں سے نفرت ہمارے دلوں میں ایسی پیدا ہو جائے جو کبھی دوبارہ ہمیں ان برائیوں کی طرف مائل کرنے والی نہ ہو۔ سچی توبہ کی طرف ہماری توجہ ہو اور ایسی توبہ ہو جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بناتی چلی جائے۔

ان باتوں کا حصول کس طرح ہو سکتا ہے یا ایسی سچی توبہ کس طرح ہو سکتی ہے جو ہمیشہ گناہوں سے دور رکھے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’توبہ دراصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤیدّ چیز ہے‘‘ (اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ کردار کا مالک بننا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب ہونا ہے تو توبہ ہی ہے جو اس کے کام آتی ہے۔ اسی کی وجہ سے آدمی ترقی کرتاہے۔ یہی چیز ہے جو مددگار بنتی ہے۔ فرمایا) ’’اور انسان کو کامل بنادیتی ہے۔ یعنی جو شخص اپنے اخلاق سیّۂ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ توبہ کرے۔ یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ توبہ کے تین شرائط ہیں۔‘‘ (صرف توبہ کرنے سے توبہ نہیں ہو جاتی۔) ’’بدُوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی‘‘۔ اور وہ شرائط کیا ہیں۔ فرمایا: ’’ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اِقْلَاع کہتے ہیں۔ یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کردیا جاوے جو ان خصائل ردّیہ کے محرک ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑ ابھاری اثرپڑتا ہے کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہرایک فعل ایک تصوّری صورت رکھتا ہے۔ پس توبہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالات فاسد و تصورات بد کو چھوڑدے۔ مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے توبہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قراردے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہاہے تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہانتک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا۔ غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتاہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ پس جو خیالات بد لذّات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے۔ یہ پہلی شرط ہے۔

دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا۔ ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بدبخت انسان اس کو معطل چھوڑدیتا ہے۔ پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پرپشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چندروزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آ کر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہوجائیں گے آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہوگا۔ پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیاحاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو توبہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اِقْلَاع کاخیال پیداہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کا قلع قمع کرے۔ جب یہ نجاست اور ناپاکی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پرپشیمان ہو۔

تیسری شرط عزم ہے۔ یعنی آئندہ کے لئے مصمّم ارادہ کرلے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا۔ اور جب وہ مداومت کرے گا تو خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطاکرے گا یہانتک کہ وہ سیِّئات اس سے قطعاً زائل ہوکر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر۔ اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے۔ جیسے فرمایا اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعاً (البقرۃ: 166)۔ ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً (النساء: 29) اس کی حقیقت ہے۔ پس خداتعالیٰ سے قوت پانے کے لئے مندرجہ بالا ہر سہ اشیاء کو کامل کرکے انسان کسل اور سستی کو چھوڑدے اور ہمہ تن مستعد ہوکر خداتعالیٰ سے دعا مانگے۔ اللہ تعالیٰ تبدیلی اخلاق کردے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 138تا 140۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے۔ ان لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں برائی سے بچنے کے لئے دعا کی لیکن یہ برائی دور نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں نہیں سنیں۔ بعض ماں باپ پریشان ہوتے ہیں کہ بچوں میں یا بعض نوجوانوں میں غلط عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور کہتے ہیں ہم نے کوشش کی۔ یہ دعا بھی کی، سنی نہیں گئی۔ تو یہ چیز غلط ہے۔ اس کو میں آسان رنگ میں دوبارہ سمجھا دیتا ہوں۔ دعا کی قبولیت کے لئے بھی کچھ لوازمات ہیں ان کو پورا کرنا ضروری ہے۔ چار دن دعا کر کے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے دعا نہیں سنی یہ ویسے ہی اپنی نا اہلی کو خدا تعالیٰ پر ڈالنے والی بات ہے۔

بہر حال اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے اس اقتباس کے حوالے سے جو مَیں نے پڑھا ہے، یہی بتانا چاہتا ہوں کہ برائی سے کس طرح رکنا چاہئے اور توبہ کا حصول کس طرح ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ توبہ کرنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے کچھ ضروری باتیں ہیں کچھ عمل ہیں کچھ محنت ہے کچھ طریقے ہیں جن پر عمل کرنا ہو گا۔ ان کو کریں گے تو تبھی نتیجہ حاصل ہو گا اور برائیوں سے بچنے کے لئے دعا بھی تبھی قبول ہو گی جب کچھ عملی اقدام بھی اٹھائیں گے۔ عملی قدم کچھ نہ اٹھانا اور صرف سرسری دعا کر کے کہہ دینا کہ خدا تعالیٰ نے قبول نہیں کی اس لئے شاید یہی مرضی ہے کہ میں گناہگار ہی رہوں تو یہ غلط ہے۔ برے اعمال اور اخلاق کو اگر بہتر کرنا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین باتیں پہلے خود انسان کرے پھر دعا کرے تو یہ دعا مددگار ہوتی ہے اور برائیاں پھر چھوٹ جاتی ہیں۔ اور سچی توبہ کے لئے جیسا کہ میں نے حوالے میں پڑھا، آپ نے فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ گندے اور برے خیالات سے اپنے دماغ کو پہلے صاف کرو۔ کسی بھی برائی کی لذت کا تصور پہلے دماغ میں پیدا ہوتا ہے تب انسان اس برائی کو کرتا ہے۔ اگر دماغ میں برائی کا یا اس کی اچھائی کا یا لذت کا تصور پیدا نہ ہو اور کراہت ہو تو کبھی وہ برائی کرتا ہی نہیں۔ اور پہلے کسی بھی برائی کی لذّت کا تصور پیدا ہوتا ہے، احساس پیدا ہوتا ہے پھر انسان اس برائی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ پس پہلا عملی قدم جو انسان کو برائیوں سے بچنے کے لئے اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ذہن کو گندے تصورات یا عارضی لذات کے تصور سے پاک کرے۔ اس کی مثال آپ نے یہ دی کہ جس طرح مثلاً کسی عورت سے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں۔ دوستیاں قائم ہو جاتی ہیں تو ایسی عورت کا اچھا تصور دماغ میں قائم کرنے کے بجائے بدصورت تصور قائم کرو۔ بجائے یہ دیکھو کہ اس میں خوبصورتی کیا ہے اور کیا کچھ خوبیاں ہیں اس کا بدصورت ترین تصور جو قائم کر سکتے ہو وہ قائم کرو۔ اس کے جو برے خصائل ہیں جو اس کی برائیاں ہیں ان کو سامنے لاؤ اور ایک ایسی شکل تصور میں قائم کرو جو سخت قسم کی مکروہ اور کریہہ شکل ہو تو تبھی اس برائی سے تم دور ہو سکو گے۔ پھر دوسری شرط یہ بتائی کہ اپنے نیک کانشنس کو بیدار کرو اور سوچو کہ میں کن برائیوں میں مبتلا ہو رہا ہوں۔ اپنے حالات پر پشیمانی اور شرمندگی کا احساس دل میں پیدا کرو۔ اگر یہ حالت ہو گی تو پھر ہی برائی سے بچ سکو گے۔ پھر فرمایا تیسری بات یہ ہے کہ ایک پکا اور مصمم ارادہ ہو کہ میں نے اب اس برائی کے قریب بھی نہیں جانا۔ اور جب اس ارادے پر قائم رہنے کی ہر وقت کوشش کر رہے ہو گے تو پھر خدا تعالیٰ سچی توبہ کی توفیق دیتا ہے اور برائیوں سے بچنے کے لئے کی گئی دعاؤں کو بھی پھر سنتا ہے۔ دعاؤں کے قبول ہونے سے پہلے یہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ صبح سے شام تک اور رات سے صبح تک غلط کاموں اور برائیوں میں ملوث رہے اور ایک وقت یا کسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کر لی کہ مجھے اس برائی سے بچا لے۔ یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ دعا سنجیدگی سے نہیں کی گئی۔ وہ نیک فطرت جو کانشنس ہے جو اندر چھپا ہوا ہے اس نے کسی وقت یہ کچوکا لگا دیا کہ تمہاری یہ کیا حالت ہے کہ برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہو۔ اس عارضی احساس سے دعا کی طرف وقتی توجہ پیدا ہو جائے اور پھر جب برائی کو سامنے دیکھے تو اس کی چاہت اس عارضی احساس کو ختم کر دے، ندامت پر حاوی ہو جائے۔ ایسی حالت تو نہ برائیوں سے مستقل بچاتی ہے نہ دعا کا حق ادا کرنے والی بناتی ہے بلکہ یہ تو دعا کے ساتھ بھی مذاق ہے اور خدا تعالیٰ کو پابند کرنے کی کوشش ہے۔ خدا تعالیٰ کسی بندے کا پابندنہیں ہے۔ پس ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش سے حقیقی فیض اگر اٹھانا ہے، اس کے انعاموں کا وارث بننا ہے، اپنی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا ہے تو پھر اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ ہر وقت اس کی رحمت کی چادر اپنے بندوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار ہے۔ کیا یہ بات ہم سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ ہم خود بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چل کر اس کی بخشش اور رحمت کو حاصل کرنے والے بنیں۔ ہم اس رحمت کو حاصل کرنے والے بنیں جو حقیقی مومنوں کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے پیاروں کو حاصل ہوتی ہے۔ ان باتوں سے بچیں جو باوجود اس کی وسیع رحمت کے سزا کا مورد بنا دیتی ہے۔ ہماری توبہ سچی توبہ ہو اور ہم ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’اپنے اعما ل کو صاف کرواور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکرکرواورغفلت نہ کرو۔ جس طرح بھاگنے والاشکار جب ذرا سست ہو جا وے تو شکاری کے قابومیں آ جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کر نے والاشیطان کا شکا ر ہو جا تا ہے۔ تو بہ کو ہمیشہ زندہ رکھواور کبھی مردہ نہ ہو نے دو۔ کیو نکہ جس عضو سے کا م لیا جا تا ہے وہی کا م دے سکتا ہے اور جس کو بیکا رچھوڑ دیا جا وے پھر وہ ہمیشہ کے واسطے نا کا رہ ہو جا تا ہے۔ اسی طرح تو بہ کو بھی متحرک رکھو تا کہ وہ بیکا رنہ ہو جا وے۔ اگر تم نے سچی تو بہ نہیں کی تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو پتھرپربویا جا تا ہے اور اگر وہ سچی توبہ ہے تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لا تا ہے۔ آج کل اس تو بہ میں بڑی بڑی مشکلات ہیں‘‘۔ کیونکہ دنیا کی لالچیں دنیا کی لذّات سامنے ہوتی ہیں۔ فرمایا: ’’ہما رے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدنظررکھنا اور پا نچوں وقت کی نما ز وں کو ادا کر نا ہیں۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نما ز پڑھوتو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہرایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 303۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

اللہ کرے کہ ہم اس سچی توبہ کرنے والوں میں شامل ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ رمضان سے وابستہ تمام برکات جو ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان کو حاصل کرنے والا بنائے۔

اس وقت میں نماز جمعہ کے بعد تین جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ جوہے وہ نوابشاہ کے رہنے والے ہمارے مکرم محمد امتیاز احمد صاحب ابن مشتاق احمد صاحب طاہر ہیں جن کو 14؍جولائی کو شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی عمر تقریباً 39 سال تھی۔ کہتے ہیں کہ شام کو ساڑھے چار بجے کچھ نامعلوم موٹرسائیکل سوار ان کی دوکان پر آئے اور ان کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تفصیلات کے مطابق محمد امتیاز احمد صاحب نوابشاہ شہر کے ٹرنک بازار میں واقع اپنی دوکان کے باہر کھڑے تھے کہ موٹر سائیکل پر دو نامعلوم سوار آئے اور ان پر فائرنگ کر کے فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں انہیں تین گولیاں لگیں۔ دو گولیاں ان کے سر پر دائیں طرف لگیں اور بائیں طرف کان کے نیچے سے آر پار ہو گئیں جبکہ تیسری گولی ان کے ہاتھ پر لگی۔ بہر حال موقع پر شہادت ہو گئی اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

نوابشاہ میں مذہبی منافرت کی وجہ سے اب تک یہ نویں شہادت ہے اور گزشتہ ایک دو سال میں یہاں زیادہ شہادتیں ہوئی ہیں۔ اس واقعہ سے دو تین دن پہلے شہید مرحوم کو ایک قریبی دکاندار نے بتایا بھی تھا کہ بعض مخالفین آپ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ احتیاط جتنی مرضی کرو باہر تو بہرحال نکلنا ہی ہوتا ہے اور دشمنوں کو موقع مل جاتا ہے۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ 1935ء میں ان کے دادا مکرم سیٹھ محمد دین صاحب آف امرتسر کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے نعمت اللہ خان صاحب وزیر آباد کے ذریعہ سے بیعت کی تھی۔ 1947ء میں یہ امرتسر انڈیا سے نوابشاہ پاکستان میں شفٹ ہو گئے۔ 1975ء میں شہید پیدا ہوئے تھے۔ پھر F.Sc. کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے والد کے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ جماعتی خدمات کافی کرتے تھے۔ شہادت کے وقت یہ بطور صدر جماعت حلقہ محمود ہال تھے۔ شہر کے سیکر ٹری تحریک جدید، سیکرٹری اصلاح و ارشاد شہر اور ذیلی تنظیم میں نوابشاہ شہر کے قائد خدام الاحمدیہ تھے۔ ناظم اصلاح و ارشاد علاقہ اور ضلع تھے۔ ناظم تحریک جدید ضلع تھے۔ ماضی میں یہ سیکرٹری وقف جدید، سیکرٹری ضیافت بھی رہ چکے ہیں، سیکرٹری دعوت الی اللہ بھی رہ چکے ہیں۔ جماعتی خدمات کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جو بھی کام سپرد کیا جاتا بڑی خوش اسلوبی سے اس کو سرانجام دیتے۔ کبھی انکار نہیں کیا۔ بہت مہمان نواز تھے۔ مرکزی مہمانوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ سادہ طبیعت کے مالک۔ خلافت سے انتہائی محبت اور اطاعت کا تعلق تھا۔ اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ پنجوقتہ نمازی اور تہجد گزار تھے۔ بڑا دھیما مزاج تھا۔ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے۔ ان میں ہمیشہ معاف کرنے کی صفت تھی۔ گزشتہ سال قادیان کے جلسہ میں بھی شامل ہوئے تھے۔ شہادت کے روز رمضان المبارک کے سلسلے میں ذاتی طور پر مستحقین کے لئے راشن کے پیکٹ خود تیار کر کے دوپہر تک تقریباً سات گھروں میں تقسیم کر کے آئے تھے اور جب واپس پہنچے ہیں تو وہاں ان نامعلوم حملہ آوروں نے، بدبختوں نے حملہ کیا اور آپ کو شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور سیٹھ محمد یوسف صاحب شہید جو سابق امیر ضلع نوابشاہ تھے ان کے بھتیجے تھے۔ ان کے والد مشتاق احمد صاحب بھی زندہ حیات ہیں۔ لواحقین میں ان کی اہلیہ نبیلہ امتیاز صاحبہ ہیں تین بیٹے جاذب عمردس سال، عبدالباسط عمر نو سال، محمد عبداللہ عمر سات ماہ۔

دوسرا جنازہ مکرم نصیر احمد انجم صاحب واقف زندگی کا ہے جو جامعہ احمدیہ ربوہ میں استاد تھے۔ 1981ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا۔ اس کے بعد زندگی وقف کی اور جامعہ میں پڑھائی کے لئے تشریف لے آئے۔ جامعہ میں آپ نے بی اے کیا۔ جامعہ سے فارغ ہوئے تو پھر ایم اے عربی کیا۔ رشین زبان میں بھی ان کو جماعت کی طرف سے کورس کروایا گیا۔ 1988ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری لینے کے بعد میدان عمل میں آئے اور مختلف جماعتوں میں رہے۔ 1990ء میں موازنہ مذاہب کے تخصص کے لئے ربوہ بلایا گیا اور تخصص کے دوران ہی آپ نے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا اور باقاعدہ طور پر 18؍جولائی 1999ء کو آپ مستقل طور پر استاد موازنہ مذاہب مقرر ہوئے اور تادم آخر اسی ذمہ داری کو بااحسن نبھاتے رہے۔ جامعہ سے پاس ہونے کے بعد خدمت کا عرصہ تقریباً چھبیس سال ہے اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوان مربیان میں تھے، علماء میں تھے، موازنہ مذاہب میں آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اتھارٹی تھے۔ بڑا علم تھا۔ بڑا گہرا علم تھا۔ جامعہ میں تدریس کے علاوہ آپ کو مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق ملی۔ قضا کے ان ابتدائی نمائندگان میں سے تھے جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے مقرر فرمایا تھا اور آخر تک یہ رہے۔ مجلس افتاء اور ریسرچ سیل کے ممبر بھی تھے۔ خدام الاحمدیہ میں مختلف عہدوں پہ آپ نے خدمات انجام دیں۔ پھر ان کی ایک خوبی گھر والے بتاتے ہیں یہ تھی کہ نظام جماعت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر اپنے بچوں میں سے بھی کوئی کسی عہدیدار کے خلاف بات کرتا تو اس کو سمجھاتے اور اگر کوئی شخص کسی جماعتی فیصلے یا شخصیت کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتا تو اس کو بھی بڑی حکمت سے سمجھا دیتے۔ جلسہ سالانہ یوکے میں بھی ان کو شمولیت کی سعادت ملی اور غالباً جلسہ سالانہ 2010ء میں انہوں نے یہاں تقریر بھی کی تھی۔ اور اس دفعہ بھی انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ میں نے اپلائی کیا ہوا ہے۔ اللہ کرے ویزہ مل جائے پھر ریجیکٹ ہو گیا پھر دوبارہ اپلائی کیا۔ خلافت کے ساتھ ان کو غیرمعمولی تعلق اور پیار تھا اور حقیقی سلطان نصیر میں شامل تھے۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ ہر جگہ مجلس میں جاتے تھے اور ان کو تبلیغی میدان میں بھی بڑا عبور تھا۔ لوگوں کو پڑھے لکھوں کو بھی بڑے دلائل سے قائل کر لیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی خدیجہ ماہم نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عشق تھا اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑھنے پر بہت زور دیتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی لغت لکھ رہے تھے اور یہ فکر مند رہتے تھے کہ یہ قیمتی خزانہ لوگوں تک پہنچ جائے۔ مشکل الفاظ کی ڈکشنری لکھ رہے تھے تا کہ لوگ حضور علیہ السلام کی کتب سے مستفیض ہو سکیں۔ اس کام کا آپ نے ابھی آغاز ہی کیا تھا۔ مبشر ایاز صاحب نے بھی لکھا کہ اچھے مقرر تھے۔ راہ ہدیٰ میں بھی اور ایم ٹی اے کے متعدد پروگراموں میں شامل ہوتے اور بڑے مدلّل جواب دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے، ان کے درجات بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسے عالم باعمل جماعت کو اللہ تعالیٰ اور بھی عطا فرمائے۔

تیسرا جنازہ مکرم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب کا ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے اور حضرت امّ ناصر کے بیٹے تھے۔ ان کی وفات گزشتہ سوموار کو ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے 1944ء میں میٹرک پاس کیا۔ پھر حضرت مصلح موعود کی خواہش پر ایگریکلچر کالج میں داخل ہو گئے۔ پھر دارالضیافت کی ابتدائی کچی عمارت جو مسجد مبارک کے سامنے تھی اس کا انتظام حضرت مصلح موعودنے ان کے سپرد کیا۔ موجودہ دارالضیافت کی ابتدائی تعمیر بھی آپ کے دور میں ہوئی۔ 82ء 83ء تک افسر لنگر خانہ کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔ پھر بطور نائب ناظر امور عامہ خدمت کی توفیق ملی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنی زمینوں کی نگرانی بھی ان کے سپرد کی۔ ان کی شادی صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مرزا رشید احمد صاحب ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ساتھ ہوئی۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اپنے پوتوں کی شادی میں حضرت امّاں جان نے جو شرکت فرمائی ان میں سے ان کی شادی آخری تھی جس میں حضرت امّاں جان شامل ہوئیں تھیں۔ ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا۔ بہت شریف مہمان نواز اور پیار کرنے والے وجود تھے۔ مہمان نوازی توآپ کا بڑا اچھا بڑا نمایاں وصف تھا اور ایک یہ بھی نمایاں خوبی تھی کہ حسّ مزاح بہت تھا اور اپنی مجلس میں لوگوں سے مذاق کیا کرتے تھے اور کبھی پریشان مجلس میں بھی اپنے مزاح کی وجہ سے جان پیدا کر دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ غریب اور نادار مریضوں کی امداد کے لئے طاہر ہارٹ میں اکثر آتے تھے اور مجھے رقم دے کے جایا کرتے تھے۔ ہماری والدہ کے بھائی تھے۔ ان کا خاص تعلق تھا۔ ویسے تو ہر بھائی کا ہوتا ہے لیکن ان کا خاص تھا۔ ہمارے گھر میں بہت زیادہ آنا جانا تھا اور اس تعلق کو قائم رکھا اور پھر خلافت کے بعد مجھ سے بھی انہوں نے بڑا تعلق رکھا۔ اکثر یہاں فون کر کے بھی اس تعلق کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی خلافت سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی اہلیہ بھی کافی بیمار ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم اور فضل فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا نماز جمعہ کے بعد یہ جنازے میں ادا کروں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 18؍ جولائی 2014ء شہ سرخیاں

    مایوسیاں ہی گناہوں کے کرنے اور زندگی کی ناکامیوں کی بسا اوقات وجہ بنتی ہیں۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نیچے آ جائے، مایوسیاں اور ناکامیاں اس سے دُور بھاگتی ہیں۔ قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی وسیع اور بے انتہا مغفرت اور رحمت کا تذکرہ۔

    بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع تر ہے۔ بیشک رمضان میں نیکیوں کے کئی گنا ثواب ہیں۔ بیشک رمضان رحمت اور مغفرت کے حصول اور جہنم سے دُوری کا ذریعہ ہے لیکن ان باتوں سے مستقل فائدہ وہی اٹھانے والے ہوتے ہیں جو ایک لگن کے ساتھ اس کے حصول کی کوشش کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے گناہوں سے سچی توبہ کے لئے لازمی شرائط کا تذکرہ۔

    اللہ تعالیٰ کی بخشش سے حقیقی فیض اگر اٹھانا ہے، اُس کے انعاموں کا وارث بننا ہے، اپنی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا ہے تو پھر اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

    مکرم محمد امتیاز احمد صاحب ابن مکرم مشتاق احمد صاحب طاہر آف نوابشاہ کی شہادت۔ مکرم نصیر احمد انجم صاحب استاد جامعہ احمدیہ ربوہ اور مکرم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 18؍جولائی 2014ء بمطابق 18 وفا 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور