لیلۃ القدر اور رمضان کا آخری جمعہ
خطبہ جمعہ 25؍ جولائی 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
رمضان کا آخری عشرہ بھی بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس عشرے میں دو چیزوں کی طرف مسلمان زیادہ توجہ رکھتے ہیں یا انہیں بہت اہمیت دیتے ہیں ان میں سے ایک تو لیلۃ القدر ہے اور دوسری چیز جمعۃ الوداع۔ ان میں سے ایک یعنی لیلۃ القدر تو ایک حقیقی اہمیت رکھنے والی چیز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ احادیث میں اس کا مختلف روایتوں میں ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر موجود ہے لیکن جمعۃ الوداع کو تو خود ہی مسلمانوں نے یا علماء کی اپنی خود ساختہ تشریح نے غلط رنگ دے دیا ہے۔ آج میں ان ہی دو باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا یا ان کی اہمیت اور حقیقت کے بارے میں مختصر ذکر کروں گا۔ آج بھی میں نے کچھ استفادہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے کیا ہے۔
لیلۃ القدر کے بارے میں مختلف راویوں نے مختلف تاریخیں بتائی ہیں۔ کسی نے اکیس رمضان بتائی۔ کسی نے تیئس سے انتیس تک کی تاریخیں بتائیں۔ بعض اسی بات پر پکّے ہیں کہ ستائیس یا انتیس لیلۃ القدر ہے۔ لیکن بہر حال عموماً اس بارے میں یہی روایت ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ آخری دس دنوں میں، دس راتوں میں تلاش کرو۔
بہرحال لیلۃ القدر ایک ایسی رات ہے جس کی ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاص رات کی معین تاریخ کا بھی علم دیا گیا جس میں ایک حقیقی مومن کو قبولیت دعا کا خاص نظارہ دکھایا جاتا ہے اور دعائیں بالعموم سنی جاتی ہیں۔ لیکن روایات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ دو مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ معین تاریخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول گئی۔ اس ساعت کا علم ہونا، اس گھڑی کا علم ہونا کوئی معمولی چیز نہیں اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قدرتی طور پر ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا جو علم خداتعالیٰ نے مجھے دیا ہے تو میں مومنین کی جماعت کو بھی بتاؤں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا گیا تو آپ خوشی خوشی گھر سے باہر آئے تا کہ لوگوں کو بھی اس کی اطلاع دیں اور وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں مگر جب باہر تشریف لائے تو دیکھا دو مسلمان لڑ رہے ہیں۔ آپ ان کی لڑائی اور اختلاف مٹانے میں مصروف ہوئے تو اس کی تاریخ کی طرف سے آپ کی توجہ ہٹ گئی۔ لگتا ہے کافی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں اشخاص کی صلح کرانے میں لگا یا معاملے کو سلجھانے میں لگا۔ بہر حال جب آپ دوبارہ اس طرف متوجہ ہوئے کہ میں تو لیلۃ القدر کی تاریخ بتانے آیا تھا تو آپ اس وقت تک وہ معین تاریخ بھول چکے تھے بلکہ حدیث میں ’بھلا دیا گیا‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولے ہی نہیں تھے بلکہ الٰہی تصرف سے اس گھڑی کی یاد اٹھا لی گئی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جھگڑے کی وجہ سے یا اختلاف کی وجہ سے اس گھڑی کا علم اٹھا لیا گیا ہے اس لئے اب معین تو نہیں لیکن اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
اس سے ایک بڑا اہم نکتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت کی وجہ سے اسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے وہ قومی اتحاد و اتفاق سے تعلق رکھتی ہے۔ پس یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔ ہم حدیث سنتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر وہ دونوں مسلمان نہ لڑتے تو یہ معین تاریخیں ہمیں پتا چل جاتیں۔ لیکن اس اہم بات کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت سے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے وہ قومی اتفاق و اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد و اتفاق مٹ جائے اس سے لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔
آج بڑے افسوس سے ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک کی بدقسمتی ہے کہ ان میں اتفاق و اتحادنہیں رہا۔ رعایا رعایا سے لڑ رہی ہے۔ رعایا حکومت سے بھی لڑ رہی ہے اور حکومت رعایا پر ظلم کر رہی ہے۔ گویا نہ صرف اتفاق و اتحادنہیں رہا بلکہ ظلم بھی ہو رہا ہے۔ اور پھر ظلم پر زور بھی دیا جارہا ہے۔ پس اس اتفاق و اتحاد کی کمی کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو بھی جرأت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو چاہیں کریں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھی ظالمانہ طور پر اس وقت معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد ہوتا اور وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوتے تو مسلمان ممالک کی اتنی بڑی طاقت ہے کہ پھر اس طرح ظلم نہ ہوتے۔ جنگ کے بھی کوئی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابل پر فلسطینیوں کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حماس والے بھی ظلم کر رہے ہیں تو مسلمان ملکوں کو ان کو بھی روکنا چاہئے۔ لیکن ان دونوں کے ظلموں کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ڈنڈے سے ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک فوج توپیں چلا کر ظلم کر رہی ہے۔ مسلمان ممالک سمجھتے ہیں (گزشتہ دنوں ترکی میں سوگ منایا گیا) کہ سوگ مناکر انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں طرفوں کو سختی سے روکا جاتا۔ بہر حال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں اور معصوموں کو ان ظلموں سے بچائے اور امن قائم ہو۔ اسی طرح مسلمان ممالک کے اپنے اندر بھی جو ایک دوسرے کے اوپر ظلم کئے جا رہے ہیں اور فساد بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے۔ اور کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کے خون سے جو ہاتھ رنگ رہے ہیں اس سے یہ لوگ بچیں۔ آپس میں بھی اتفاق و اتحاد قائم ہو۔ اس کے بغیر نہ ان کی عبادتوں کے حق ادا ہو سکتے ہیں نہ یہ حسرت پوری ہو سکتی ہے کہ ہمیں لیلۃ القدر ملے۔ کیونکہ جب قوم میں اتفاق و اتحاد مٹ جائے، ختم ہو جائے تو لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر صرف راتیں اور ظلمتیں ہی، اندھیرے ہی مقدر بنتے ہیں۔ ترقی رک جاتی ہے۔
لیلۃ القدر کے معنی ہیں کہ وہ رات جس میں انسان کی قسمت کا اندازہ کیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال میں اس سے کیا معاملہ ہو گا۔ وہ کہاں تک بڑھے گا اور ترقی کرے گا۔ کیا کیا فوائد حاصل ہوں گے اور کیا نقصان اٹھانے پڑیں گے۔ انسانی ترقی کے تمام فیصلے لَیْل یعنی ظلمت میں ہی ہوتے ہیں۔ اس ترقی کی مثال جسمانی ترقی سے جوڑتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی متواتر ظلمتوں میں ہوتی ہے۔ ماں کا پیٹ بھی کئی ظلمتوں کا مجموعہ ہے اور وہیں انسان کی جسمانی ترقی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر ان دنوں میں پرورش اچھی طرح نہ ہو تو بچہ کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ تو ثابت شدہ ہے کہ ماں کے ظاہری ماحول کا بچے پر اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں کی خوراک وغیرہ کا بچے پر اثر ہوتا ہے۔ بچے کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہوگی اگر ماحول اچھا نہیں۔ یہاں تک کہ خوفزدہ ماؤں کے بچے دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے بلکہ بعض دفعہ بیرونی خوف کی وجہ سے دماغی طور پر بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ دورانِ حمل اچھی خوراک اور اچھے ماحول کا بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دورانِ حمل عورت کا روزہ رکھنا جو ہے وہ ناپسند کیا گیا ہے، اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بچے کی پرورش میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ایسے مواقع پر طلاق کو بھی ناپسند کیا ہے کیونکہ اس سے جو صدمہ ہوتا ہے اس سے بھی بچے کی پرورش میں کمزوری ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں اسلام نے نکاح کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس سے جذبات کے ہیجان کی وجہ سے بچے کی پرورش پر برا اثر پڑتا ہے۔
پھر اسلام نے میاں بیوی کو شیطانی خیالات سے بچنے کی دعا بھی سکھائی ہے تا کہ ایسے خیالات پیدا نہ ہوں جو آئندہ آنے والی اولاد میں بھی پیدا ہو جائیں۔ یہ دعا دونوں کریں کہ ہماری رگوں میں خون کے ساتھ جو شیطان دوڑ رہا ہے۔ (حدیث میں آتا ہے ناں کہ ہر انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ شیطان دوڑ رہا ہے) اسے ہم سے علیحدہ کر دے تاکہ اولاد شیطان سے پاک ہو۔
پس شریعت نے بچے کی پرورش کے لئے ان دنوں میں خصوصاً احتیاط سکھائی ہے جبکہ وہ ظلمات میں ہوتا ہے، اندھیروں میں ہوتا ہے اور یہ احتیاط کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جبتک کہ ظلمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح بچے کے ماں کے دودھ کے پینے کے دن بھی اس سلسلے کی لمبائی ہیں (وہاں تک پھیلا ہوا ہے) کیونکہ ان دنوں میں ابھی بچہ اپنی زندگی کے لئے دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ ماں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ان دنوں میں بھی ماں کو روزے رکھنے کی ممانعت ہے تا کہ بچے کی پرورش اور اس کی صحت پر برا اثر نہ پڑے۔ پس جس طرح جسمانی ترقیات ظلمت میں ہوتی ہیں اسی طرح روحانی ترقیات بھی رات میں ہی ہوتی ہیں۔ ہر قوم کی روحانی ترقی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس قوم کی ابتدائی قربانی ہو اور اس کی ترقیات کی عمر کا معیار اس کی لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کی عمر کا معیار اس کی لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ اس کی ترقیات کا معیار اس کی لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص جتنا خدا کا پیارا ہو اتنے ہی اسے ابتلا پیش آتے ہیں۔ پس ہمیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم بھی بعض جگہ ابتلا میں سے گزر رہے ہیں۔ یہ لیلۃ القدر ہی ہے۔ اس ابتلا کی وجہ سے حقیقی لیلۃ القدر کی تلاش بھی اسی شدت سے ہوتی ہے۔ دعاؤں کی طرف توجہ بھی اسی وقت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور پر انسان اسی وقت جھکتا ہے جب تکلیف میں بھی ہو۔ جو تربیت اور پرورش کے دور کو پھر کامیابی سے گزارتی ہے۔ لیکن اگر اس میں ہم اپنے اتفاق و اتحاد کے معیاروں کو ضائع کرتے گئے تو لیلۃ القدر کا صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اگر اپنی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھتے ہوئے کرتے چلے جائیں گے تو کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے چلے جائیں گے۔ اور کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہوئے ایک نئی زندگی پانے والے ہوں گے ایک نئے رنگ میں ابھریں گے۔ آپس کے اتفاق و اتحاد کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قائم رکھیں گے تو ترقی کی نئی منزلیں انشاء اللہ تعالیٰ دیکھیں گے۔
پس یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جب اس لیلۃ القدر میں سے کامیاب گزریں گے تو ترقی کرنے اور اس میں بڑھتے چلے جانے کے فیصلے بھی غیر معمولی ہوں گے۔ فیصلے تو اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں، دعائیں تو اللہ تعالیٰ نے سننی ہیں، لیلۃ القدر تو اللہ تعالیٰ نے دکھانی ہے۔ پس ان باتوں کی پابندی بھی ضروری ہے جو لیلۃ القدر کے حاصل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ پھر مطلع الفجر بھی غیر معمولی ہوتا ہے اور پھر جو دن طلوع ہو گا یہ غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ نظر آئے گا۔ پس لیلۃ القدر سے فیض یاب ہونے کے لئے ہمیں ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔
لیلۃ القدر اس قربانی کی ساعت کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو اور جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جائے اس سے بڑھ کر اور کوئی نفع کا سودا نہیں ہے۔ پس مقبول قربانیوں کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسلامی جنگوں میں مثلاً جنگ بدر میں کفّار بھی مارے گئے اور مسلمان بھی لیکن کفّار کا مارے جانا لیلۃ القدر نہیں تھا ان کی قربانیاں لیلۃ القدر نہیں تھیں لیکن مسلمانوں کا شہید ہونا لیلۃ القدر تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کو مقبول قرار دیا۔ یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ جس تکلیف کی خدا تعالیٰ کوئی قیمت مقرر نہیں کرتا وہ لیلۃ القدر نہیں ہے وہ سزا ہے عذاب ہے۔ مگر وہ تکلیف جس کے لئے خدا قیمت مقرر کرتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے یعنی ظلمت بلا اور دکھ جس کا بدلہ دینے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے وہ لیلۃ القدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایسی ساعتیں مقرر کی ہیں جن میں وہ جو قربانیاں کرے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہوتی ہیں۔ یقینا جماعت احمدیہ اس کے نظارے دیکھتی ہے اور دیکھ رہی ہے۔ بعض ملکوں میں احمدیوں کے خلاف شدید حالات ہیں۔ یہ شدید حالات جہاں ان کے لئے طلوع فجر کی خوشخبری دے رہے ہیں وہاں اس لیلۃ القدر کے نتیجہ میں دنیا کے ملک ملک اور شہر شہر میں احمدیت کے بچوں کی پیدائش ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نئی نئی جماعتیں قائم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ پس اس سے مزید فیضیاب ہونے کے لئے، لیلۃ القدر کی مزید برکات سمیٹنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہمارا آپس کا اتفاق و اتحاد پہلے سے بڑھ کر ہو گا اور اگر اس میں کہیں رخنے پیدا ہو رہے ہیں، دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں تو ہم فوری طور پر انہیں بھریں گے۔ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی مثال بن کر لیلۃ القدر کا حقیقی فیض پائیں گے۔
پس اس رمضان میں ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپس کی انفرادی رنجشیں بھی ختم کریں تا کہ انفرادی طور پر لیلۃ القدر سے فیض پا سکیں اور لیلۃ القدر کے جو پھل، جو کامیابیاں، جو ترقیاں، جو انعامات جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہیں ان سے بھی ہم حصہ لے سکیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے دشمن بھی ہمارے لئے روکیں اور مشکلات کھڑی کرے گا اور کر رہا ہے۔ ابتلا میں ڈالنے کی کوشش کرے گا اور کر رہا ہے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف چند ملکوں میں یہ محدود ہے۔ حسد کی آگ ترقی کو روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتی ہے اور ہر جگہ یہ کرے گی لیکن لیلۃ القدر کے آنے کی خوشخبری ہمیں ان کے بد اثرات سے بچنے اور جماعتی ترقی کے لئے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کا بھی پتا دے رہی ہے۔
پس جب تک ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے لیلۃ القدر سے بھی فیض پاتے رہیں گے۔ مومنین کا مقصد اور کوشش اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ جماعت کی ترقی کو اس اعلیٰ معراج پر دیکھیں جس کے وعدے خدا تعالیٰ نے کئے ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہو کر ہمیں اس طریق سے ان ترقیات کا حصہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے اور وہ طریق ان دو باتوں میں آ جاتا ہے جو آپ نے اپنی بعثت کے مقصد کے بارے میں ہمیں بتائی ہیں۔ یعنی ایک یہ کہ بندے کو خدا سے ملا دیا جائے اور دوسرے یہ کہ انسان کو دوسرے انسان کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنایا جائے۔ پس یہ دو کام ہیں جو ہمارے ذمہ ہیں کہ اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی اونچا کریں اور اپنے اختلافات اور جھگڑوں کو مٹا کر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کریں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حق ادا ہو رہے ہوں اور پھر رنجشیں بھی قائم ہوں، اختلافات بھی قائم ہوں۔ پس اس اصول پر اگر ہم چلتے رہے تو لیلۃ القدر کی حقیقت کو سمجھنے والے بھی ہوں گے اور اس کو پانے والے بھی ہوں گے۔ لیلۃ القدر کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس طرح بھی تعریف فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقتِ اَصفیٰ ہے‘‘۔ (الحکم جلد 5 نمبر 32۔ مؤرخہ 31؍اگست 1901ء۔ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم (زیر سورۃالقدر) صفحہ 673 مطبوعہ ربوہ)۔ پس اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے ایسی لیلۃ القدر بھی ہمیں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور وہی حقیقی لیلۃ القدر ہو گی جب ہم اپنی زندگیوں کو پاک کرنے والے ہوں گے۔
دوسری بات جیسا کہ میں نے کہا جمعۃ الوداع ہے۔ اس کے بارے میں بھی عجیب عجیب تصورات راہ پا چکے ہیں۔ یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی اور غلط قسم کے خیالات سے ہمیں پاک کیا اور ان خیالات سے ہمیں، ایک احمدی کو پاک ہونا چاہئے ورنہ احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہت سے غیر احمدیوں کا تو یہ خیال ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جائیں تو جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نمازیں یا جو بھی نمازیں ہیں ان کی بھی معافی مل جاتی ہے۔ سب فرض ادا ہو گیا۔ یعنی آج ایک خطبہ سن کر اور دو رکعت نماز پڑھ کے گویا گزشتہ سب برائیوں سے انسان پاک ہو جاتا ہے یا پاک ہو جائیں گے اور اس عرصے میں اللہ تعالیٰ کے ایک انسان پر جتنے فضل اور احسان ہوتے ہیں رمضان کا یہ آخری جمعہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور احسانوں کا بدلہ اتر جائے گا۔ ان لوگوں کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت نعوذ باللہ ان کے ان چار سجدوں پر منحصر ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ پر یہ بڑا احسان کیا کہ چار سجدے کرکے اس کی الوہیت کو نعوذ باللہ قائم کر دیا۔ پس اس نیت سے جمعہ پڑھنے والوں کو نہ جمعۃ الوداع کوئی فائدہ دیتا ہے نہ رمضان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ لیلۃ القدر کا آنا ان کے لئے کوئی فائدہ ہے۔ وہ تو دوسروں کے لئے آئے گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات بطور احسان کے ہوتے ہیں۔ ان پر عمل کر کے ہمارا ہی فائدہ ہے۔ یہ کوئی چٹّی نہیں ہے کہ اس کے نہ کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کئے جائیں۔ حیلے بہانے تو ان چیزوں کے لئے تلاش کئے جاتے ہیں جو بطور سزا یا جرمانے کے ہوں۔ کوئی عقلمند انسان اس چیز پر عمل نہ کرنے کے بہانے تلاش نہیں کرتا جو اس کے فائدے کے لئے ہو۔ کون ہے جو یہ سوچ رکھتا ہے کہ اس کی اولادنہ ہو۔ اس کی بیماریاں اچھی نہ ہوں۔ وہ یا اس کے بچے علم سے محروم رہیں۔ اس کے قریبی عزیز اور دوست سکھ اور آرام نہ پائیں۔ اس کی اولاد عزت پانے والی نہ ہو۔ یہ تو کوئی نہیں چاہتا۔ حیلے تو اس کے الٹ باتوں کے لئے تلاش کئے جاتے ہیں۔ انسان حیلے یا بہانے مشکلات سے بچنے کے لئے کرتا ہے۔
پس خدا تعالیٰ کے احکام سے بچنے کے لئے اگر ہم بہانے تلاش کریں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے احکامات کو ہم قہر، مصیبت اور دکھ سمجھتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی طرف سے آنے والی ہر بات اور اس کی ہدایات ہماری بھلائی اور ہمیں سکھ پہنچانے کے لئے ہیں۔ پس چاہئے کہ اس کے احکامات کی طرف ہم توجہ دیں۔ یہ احکامات چاہے اس کی عبادتوں کے بارے میں ہیں یا دوسرے متفرق احکامات ہیں، سب ہماری بھلائی کے لئے ہیں۔ پس کسی بھی حکم کو چٹی سمجھنا اللہ تعالیٰ کے فیض سے اپنے آپ کو محروم کرنے والی بات ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں زندگی دینے والا اس دنیا میں بھیجنے والا خدا ہے۔ اور جو اس دنیا میں بھیجنے والا ہے اُس نے ہمارے لئے ایک مقصدِ حیات بھی رکھا ہے اور وہ ہے۔ فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات: 51)یعنی مَیں نے جنّ اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ پس جب پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ تو یہ کسی خاص دن اور کسی خاص جمعہ سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہر نماز اور ہر جمعہ فرض ہے۔ علاوہ نوافل کے جو انسان اپنی طاقت اور حالات کے مطابق خدا تعالیٰ کا مزید قرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے۔ پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ بجالانے کی کوشش کرے اور خاص طور پر عبادت جو زندگی کا بنیادی مقصد ہے اُس پر تو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور پھر اس عبادت کافائدہ ہمیں ہی ہے۔ یہ نہیں کہ عبادت بے فائدہ ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہمیں پہنچ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی الوہیت تو ہماری عبادت کے بغیر بھی قائم ہے اور قائم رہے گی۔ لیکن اگر ہم عبادت کرنے والے ہوں گے تو اس کے احسانات کے ساتھ اس کے انعامات کے بھی ہم وارث بنیں گے۔ ان سے فیض پانے والے بھی ہم ہوں گے۔ ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ ہم خالص ایمان والے اس وقت کہلائیں گے جب خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ ایک خالص مومن کے خداتعالیٰ سے تعلقات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک دوست کے۔ اور اس معاملے میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دوستی کا معاملہ دوطرفہ ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی باتیں بھی مانی جاتی ہیں اور خلوص اور وفا سے مانی جاتی ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک دوست صرف اپنی منواتا رہے اور دوسرا مانتا رہے۔ پس اس سے قبولیت دعا کی طرف بھی رہنمائی ملتی ہے۔ اس مسئلے کی طرف جو قبولیت دعا کا مسئلہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات پر ہم عمل کریں گے اور خالص ہو کر عمل کریں گے تو وہ بھی ہماری دعائیں سنے گا۔ دوسرے دوستی جو خالص ہو اس میں کوئی دوست اپنے دوسرے دوست کا برا نہیں چاہتا۔ اور جب دنیا داروں کی جو دوستی ہے اس میں جب دوست دوست کا برا نہیں چاہتا تو خدا تعالیٰ جو سب وفاداروں سے زیادہ وفاؤں کی قدر کرنے والا ہے وہ کس طرح اپنے دوست کا برا چاہے گا۔ پس خالص ایمان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور برکت ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیاوی دوستی میں اگر ہم یہ دیکھتے ہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ میرا دوست میرا وفا دار ہے اور اگر کوئی ایسا معاملہ کر رہاہے جو بظاہر نقصان رساں نظر آ رہا ہے تو انسان یہی سمجھتا ہے کہ کیونکہ میرا وفا دار دوست ہے اس لئے اس میں کوئی مصلحت ہو گی لیکن نتیجہ برا نہیں نکلے گا۔ مجھے نقصان پہنچانے کی میرے دوست کی نیت نہیں ہے بلکہ فائدے کی نیت ہے۔ تو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہتا ہے لیکن جب اس کے احکام پر عمل نہ کیا جائے تو یقینا یہی سمجھا جائے گا کہ ان کو مصیبت یا عذاب سمجھا جا رہا ہے۔ اور اگر یہ صورت ہے تو پھر یا ہماری دوستی سچی نہیں یا پھر اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ اپنے اندر رحمت و شفقت کی صفات نہیں رکھتا اور ظالم اور تند خو اور سخت گیر ہے اور بلا وجہ یونہی گرفت میں لے لیتا ہے۔ دوسری بات تو بہر حال سچی نہیں۔ غلط ہے، جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بہر حال رحیم و شفیق ہستی ہے۔ ہاں ہماری دوستی کی سچائی میں کوئی نقص ہو سکتا ہے۔ کمزوری ہے تو ہمارے اپنے اندر ہے۔ ہم اس کی رحمت و شفقت کا اپنے آپ کو اہل نہیں بنا رہے۔ پس اس کی رحمت و شفقت کا اہل بنانے کے لئے ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو رحمت اور فضل سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو رحمت اور فضل سمجھا جائے تو پھر اس کو وداع نہیں کیا جاتا بلکہ ان پر عمل کر کے ایمانوں کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ اپنے اندر یہ احکامات قائم کئے جاتے ہیں۔ اپنے دلوں میں بٹھائے جاتے ہیں۔ بعض سرکاری حکم تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان بعض دفعہ چٹی سمجھتا ہے یا غریب ملکوں میں، تیسری دنیا کے ملکوں میں سرکاری حکام ایسے ہیں جو قانون سے بڑھ کے بھی اپنے حکم جاری کر دیتے ہیں جو لوگوں کی تکلیف کا موجب بنتے ہیں۔ ان کا کسی جگہ میں آنا ہی لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ افسروں کے دورے جب ہوتے ہیں تو لوگ مشکل میں پڑے ہوتے ہیں۔ اور پھر لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کرے یہ افسر نہ ہی آئے۔ اس سے کسی طرح جان چھوٹے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام ظالم حاکم کی طرح نہیں ہوتے بلکہ رحمت ہوتے ہیں اور ان پر عمل نہ کرنا تباہی کی علامت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تو ہر حکم رحمت لے کر آتا ہے اور بے شمار رحمتیں چھوڑ کر جاتا ہے۔ اب نماز ہے، نماز کا وقت اس لئے نہیں آتا کہ اس چَٹّی سے جلدی چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ بوجھ پڑ گیا ہے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور گھر سے اسے نکال دیا جائے۔ اسی طرح رمضان ہے۔ یہ اس لئے نہیں آتا کہ ہم اسے یونہی گزار دیں۔ روزے فرض ہیں۔ دنیا روزے رکھ رہی ہے تو ہم بھی ساتھ رکھتے چلے جائیں۔ اسی طرح دوسری عبادات ہیں۔ یہ اس لئے نہیں کہ ماحول کیونکہ ہمیں کہہ رہا ہے اس لئے انہیں ادا کرو اور جیسے تیسے ہو ان سے جان چھڑاؤ بلکہ مومن ہمیشہ ان چیزوں کو اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ایک مومن ایک بار بھی سچی نماز خلوص دل سے ادا کر لیتا ہے پھر اس کے دل سے نماز نکل نہیں سکتی۔ اس کا ایک عجیب مزہ ہوتا ہے جو اس کو آئندہ نماز پڑھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ نماز ختم کرتے ہوئے سلام کہتا ہے مگر السلام علیکم اس لئے نہیں کہ ہم جا رہے ہیں، چھُٹّی۔ بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے سلام کہتا ہے۔ اسی طرح مومن سے رمضان بھی نہیں جا سکتا۔ حضرت مصلح موعودنے یہاں ایک بڑا اچھا نکتہ بیان فرمایا کہ ہمارے ملک میں محاورہ ہے، اردو میں محاورہ ہے کہ روزہ رکھا۔ اب یہ بہت عمدہ محاورہ ہے کیونکہ جو روزہ گزرتا ہے اسے بھی رخصت نہیں کرتے بلکہ رکھ لیتے ہیں اور وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے پھر خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے۔
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مومن سے کوئی خطا ہو جائے تو اس کے اعمال صالحہ اس کے لئے ڈھال بن کر اسے تباہی سے بچا لیتے ہیں۔ پس ہر نیکی کے متعلق یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جائے نہیں بلکہ قائم رہے کیونکہ فائدہ اسی سے اٹھایا جا سکتا ہے جو باقی رہے اور دل میں قائم ہو۔ قرآن کریم میں بھی والْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ (الکہف: 47) کہہ کر بتایا گیا کہ نیک کام باقی رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس وہ رمضان جو ہم نے صالح اعمال کرتے ہوئے گزارا ہے وہ باقی ہے۔ یہ دن بیشک گزر جائیں گے لیکن جب تک وہ نیک کام ہیں جو رمضان کے نتیجہ میں ہمارے اندر قائم ہوئے تو وہ رمضان کو نہیں جانے دیں گے۔ مومن کو چاہئے کہ ہر اچھی چیز کو باقیات الصالحات بنائے۔ دن گزر جائیں مگر رمضان نہ گزرے۔ رمضان بھی ایک عبادت ہے اور عبادت گزرا نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ ایک حقیقی مومن کے دل میں رہتی ہے۔ پس ہمیں حقیقی مومن کی طرح رمضان کو اپنے دل میں بسانے کی ضرورت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ایک بندہ کوئی نیک کام کرتا ہے تو ایک سفیدنشان اس کے دل پر لگ جاتا ہے۔ پھر ایک اور نیک کام کرتا ہے تو ایک اور سفیدنشان اس کے دل پر لگ جاتا ہے۔ حتی کہ نیکیاں کرتا رہتا ہے اور سارا دل سفید ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو بُرے کام کرتا ہے اس کے دل پر سیاہ نشان لگتے چلے جاتے ہیں اور اگر وہ بُرے کام کرتا چلا جائے تو آخر تمام دل سیاہ ہو جاتا ہے۔
تو نیک اور بد دونوں قسم کے اعمال سمٹ کر انسان کے دل پر جمع ہو جاتے ہیں۔ اس کو نشان لگا دیتے ہیں۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ نیک اعمال کو اپنے دل میں سمیٹیں۔ اس رمضان میں جو نیکیاں کی ہیں وہ ہمارے اندر ہمیشہ قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے ذریعہ سے جو چیزیں ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے وہ دلوں کو نیکیوں سے بھرنا ہی ہے۔
رمضان ہمارے لئے صرف انتیس یا تیس دن رات نہیں لایا نہ لاتا ہے۔ یہ دن رات تو دوسرے مہینوں میں بھی آتے ہیں بلکہ یہ مہینہ ہمارے لئے عبادات اور دوسرے نیک اعمال لایا ہے جن کے بجا لانے کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ انہیں اپنے دلوں میں سمیٹ لیں اور دل میں جو چیز محفوظ ہو جائے اسے کوئی دوسرا چھین نہیں سکتا جب تک کہ انسان خود اسے نکال کر ضائع نہ کر دے۔ پس ایک مومن کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کرے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جمعہ اس لئے نہیں آیا کہ ہم اس کو پڑھ کر رمضان کو وداع کر دیں یا رخصت کر دیں بلکہ اس لئے آیا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے اپنے دل میں قائم کر لیں۔ جمعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے عیدوں میں سے ایک عید قرار دیا ہے۔ اور اس دن میں احادیث کے مطابق ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں دعائیں خصوصیت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ ان سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آج کے دن ہم اس لئے مسجد میں نہیں آئے، نہ آنا چاہئے اور یہ ایک احمدی کی سوچ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کہیں کہ تونے جو مصیبت رمضان کی صورت میں ہم پر ڈالی تھی شکر ہے وہ آج ٹل رہی ہے یا رخصت ہو رہی ہے۔ بلکہ اس لئے آئے ہیں کہ ان مبارک گھڑیوں میں یہ دعا کریں کہ رمضان کے دن تو تین چار دن میں گزر جائیں گے لیکن اے خدا تُو رمضان کی حقیقت اور اس میں کی گئی عبادتیں اور دوسرے نیک اعمال ہمارے دل کے اندر محفوظ کر دے اور وہ ہم سے کبھی جدا نہ ہوں۔ اس لحاظ سے اگر آج ہم جمعہ کی تعریف کریں یا فیض اٹھائیں تو ہم نے آج کے جمعہ کا بڑا بابرکت استعمال کیا ہے لیکن اس جمعہ کے ساتھ یا آئندہ تین چار دن کے بعد رمضان ہم سے چلا جائے اور اس میں کی گئی نیکیاں بھی ہم بھول جائیں تو یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ دنیا میں بیٹا باپ سے، ماں بیٹے سے، بھائی بھائی سے جدا ہونے پہ خوش نہیں ہوتے بلکہ دوست حقیقی دوست عزیز ہوں، قریبی ہوں وہ بھی خوش نہیں ہوتے۔ خوشی ہمیں ہمیشہ دشمن کے جدا ہونے سے ہوتی ہے۔ اسی طرح رمضان کے جدا ہونے پر ایک حقیقی مومن خوش نہیں ہو سکتا۔ برکت کے جدا ہونے پر کوئی خوش نہیں ہو سکتا۔ کون ہے ایسا شخص جو برکت کے جدا ہونے پر خوش ہو؟ جو برکت کے جدا ہونے پر خوش ہو وہ بدقسمت ہی کہلا سکتا ہے اَور اس کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ پس آج ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ وہ اس دن کو ہمیشہ کے لئے ہم سے وابستہ کر دے اور ہماری کوئی گھڑی رمضان سے جدا نہ ہو۔
ہمیں ہمیشہ اس بات پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ رمضان کیا ہے اور اس کی حقیقت کے بارے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں جو بتایا ہے وہ یہ ہے جیسا کہ مَیں نے شروع کے پہلے خطبے میں رمضان کا ذکر کیا تھا کہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ: 186) وہ مبارک دن جن میں قرآن کا نزول ہوا رمضان کہلاتے ہیں اور جب قرآن کا نزول بند ہو جائے تو پھر وہ دن مبارک نہیں رہتے۔ وہ تو پھر منحوس دن ہو جاتے ہیں۔ پس مومنین کا فرض ہے کہ ان دنوں میں جو قرآن کریم کو پڑھنے اور سیکھنے کی طرف توجہ رہی ہے اسے سارا سال اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے رہیں۔ سارا سال قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔ سارا سال اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم کے نزول کا حقیقی مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔ اپنے دلوں پر نازل کر کے پھر اسے اپنے دلوں میں محفوظ کر لیں گے تا کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہم اس سے فیض پاتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ جن دو باتوں کا آج میں نے ذکر کیا ہے ان کی طرف ہمیشہ ہماری توجہ قائم رہے۔ اس کی حقیقت کو ہم جاننے والے ہوں۔ ہماری لیلۃ القدر ہمیں کامیابیوں کی معراج پر لے جاتی رہے۔ اس کا حقیقی ادراک ہمیں حاصل ہو اور یہ جمعہ جس کو جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے یہ جو رمضان کا آخری جمعہ ہے اسے جمعۃ الوداع تو نہیں کہنا چاہئے، رمضان کے مہینے کا یہ آخری جمعہ ہے۔ یہ ہمیں رمضان کی برکات کو رخصت کرنے والا نہ بنائے بلکہ اس کا فیض ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے اور ہم قرآن کریم کے نزول کے مقصد کو ہمیشہ پورا کرتے چلے جانے والے ہوں۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی فلسطین کے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں ذکر کر چکا ہوں۔ دعاؤں میں خاص طور پر ان لوگوں کو بھی یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ ان کو اس مشکل سے نکالے۔
نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم نعیم اللہ خان صاحب آف قرغزستان کا ہے جو 21؍جولائی 2014ء کو ہارٹ اٹیک سے 61 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو وسطی ایشیا جماعتوں میں بالخصوص قرغزستان میں جماعت کے قیام میں غیر معمولی خدمات بجا لانے اور نائب نیشنل صدر جماعت قرغزستان کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب لوگوں کو وہاں جانے کی تحریک کی تھی تو یہ اس وقت وہاں کاروبار کی نیت سے گئے تھے۔ لیکن انہوں نے دین کا کام بھی کیا۔ جماعتی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ جماعتی امور کو ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے تھے۔ وہاں کے نامساعد حالات کے باوجود آخر وقت تک اخلاص سے خدمت بجا لاتے رہے۔ نمازوں کے پابند، تہجد گزار، دعاگو، بکثرت صدقہ و خیرات کرنے والے، لازمی چندہ جات اور دوسری مالی تحریکات میں پیش پیش، غریب پرور، مخلص انسان تھے۔ خلافت سے محبت اور فدائیت کا تعلق تھا۔ مبلغین سلسلہ جو وہاں جاتے رہے ان کو بعض مشکلات تھیں ان کا بھی انہوں نے بہت خیال رکھا۔ مرکزی مہمانوں کا بہت خیال رکھا۔
تمام مبلغین جن کو ان علاقوں میں خدمت کی توفیق ملی یا مل رہی ہے وہ سب اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ جماعت کے لئے غیر معمولی غیرت اور جرأت رکھنے والے تھے۔ جماعت احمدیہ قرغزستان کے مشن ہاؤس کی خرید میں بھی آپ نے بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کی دو بیویاں تھیں ایک پاکستانی ایک رشین۔ دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ دو بیٹے ان کے رشین بیوی سے ہیں۔ رشین بیوی قرغزستان کی ہیں۔ قرغزستان سے انہوں نے بھی خط لکھا ہے اور ان کے کردار کی بڑی تعریف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کا بیویوں کا بھی حامی و ناصر ہو اور ہمیشہ جماعت سے اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ وہ نیکیاں جو انہوں نے جاری کی تھیں ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رمضان کا آخری عشرہ بھی بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس عشرے میں دو چیزوں کی طرف مسلمان زیادہ توجہ رکھتے ہیں یا انہیں بہت اہمیت دیتے ہیں ان میں سے ایک تو لیلۃ القدر ہے اور دوسری چیز جمعۃ الوداع۔ ان میں سے ایک یعنی لیلۃ القدر تو ایک حقیقی اہمیت رکھنے والی چیز ہے لیکن جمعۃ الوداع کو تو خود ہی مسلمانوں نے یا علماء کی اپنی خود ساختہ تشریح نے غلط رنگ دے دیا ہے۔
وہ گھڑی جس کی مناسبت سے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے وہ قومی اتفاق و اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد و اتفاق مٹ جائے اس سے لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔
جنگ بدر میں کفّار بھی مارے گئے اور مسلمان بھی لیکن کفّار کا مارے جانا لیلۃ القدر نہیں تھا ان کی قربانیاں لیلۃالقدر نہیں تھیں لیکن مسلمانوں کا شہید ہونا لیلۃ القدر تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کو مقبول قرار دیا۔
آج بڑے افسوس سے ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک کی بدقسمتی ہے کہ ان میں اتفاق و اتحادنہیں رہا۔ نہ صرف اتفاق و اتحادنہیں رہا بلکہ ظلم بھی ہو رہا ہے اور پھر ظلم پر زور بھی دیا جارہا ہے۔ پس اس اتفاق و اتحاد کی کمی کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو بھی جرأت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو چاہیں کریں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھی ظالمانہ طور پر اس وقت معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے مقابل پر فلسطینیوں کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حماس والے بھی ظلم کر رہے ہیں تو مسلمان ملکوں کو ان کو بھی روکنا چاہئے۔ لیکن ان دونوں کے ظلموں کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ڈنڈے سے ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک فوج توپیں چلا کر ظلم کر رہی ہے۔ اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں طرفوں کو سختی سے روکا جاتا۔ بہرحال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں اور معصوموں کو ان ظلموں سے بچائے اور امن قائم ہو۔
لیلۃ القدر اس قربانی کی ساعت کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو اور جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جائے اس سے بڑھ کر اور کوئی نفع کا سودا نہیں ہے۔ پس مقبول قربانیوں کی کوشش کرنی چاہئے۔
لیلۃ القدر کی مزید برکات سمیٹنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہمارا آپس کا اتفاق و اتحاد پہلے سے بڑھ کر ہو گا اور اگر اس میں کہیں رخنے پیدا ہو رہے ہیں، دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں تو ہم فوری طور پر انہیں بھریں گے۔ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی مثال بن کر لیلۃ القدر کا حقیقی فیض پائیں گے۔
اس رمضان میں ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپس کی انفرادی رنجشیں بھی ختم کریں تا کہ انفرادی طور پر لیلۃ القدر سے فیض پا سکیں اور لیلۃ القدر کے جو پھل، جو کامیابیاں، جو ترقیاں، جو انعامات جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہیں ان سے بھی ہم حصہ لے سکیں۔ یہ دو کام ہیں جو ہمارے ذمہ ہیں کہ اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی اونچا کریں اور اپنے اختلافات اور جھگڑوں کو مٹا کر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کریں۔
بہت سے غیر احمدیوں کا تو یہ خیال ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جائیں تو جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نمازیں یا جو بھی نمازیں ہیں ان کی بھی معافی مل جاتی ہے۔ اس نیت سے جمعہ پڑھنے والوں کو نہ جمعۃ الوداع کوئی فائدہ دیتا ہے نہ رمضان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ لیلۃ القدر کا آنا ان کے لئے کوئی فائدہ ہے۔
رمضان بھی ایک عبادت ہے اور عبادت گزرا نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ ایک حقیقی مومن کے دل میں رہتی ہے۔ پس ہمیں حقیقی مومن کی طرح رمضان کو اپنے دل میں بسانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ نیک اعمال کو اپنے دل میں سمیٹیں۔ اس رمضان میں جو نیکیاں کی ہیں وہ ہمارے اندر ہمیشہ قائم رہیں۔ مومنین کا فرض ہے کہ ان دنوں میں جو قرآن کریم کو پڑھنے اور سیکھنے کی طرف توجہ رہی ہے اسے سارا سال اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے رہیں۔ سارا سال قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔ سارا سال اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم کے نزول کا حقیقی مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔
مکرم نعیم اللہ خان صاحب آف قرغزستان کی وفات۔ مرحوم کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 25؍جولائی 2014ء بمطابق 25 وفا 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔