اجتماعی تکالیف اور ابتلا کے دور کرنے کے لئے دعاؤں کی ضرورت
خطبہ جمعہ 8؍ اگست 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (النمل:63) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اپنی جماعت کے افراد کو یہی تلقین فرمائی ہے کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دو کیونکہ جماعتی ترقی، جماعت کا غلبہ اور دشمنوں کے مکروں اور ان کی کارروائیوں سے نجات دعاؤں سے ہی ملنی ہے۔ آپ نے بڑا واضح فرمایا کہ ہمارا غالب آنے کا ہتھیار دعا ہی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ 303)
پس جب ہم نے ہر ترقی دعاؤں کے طفیل دیکھنی ہے اور ہر دشمن کو دعاؤں سے زیر کرنا ہے تو پھر دعا کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے کس قدر توجہ ہمیں دعاؤں کی طرف دینی چاہئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہم کس قدر توجہ دعاؤں کی طرف دے رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اور جائزہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالت کو دیکھ کر لگا سکتا ہے اور جائزہ لے سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے ایک عزیز نے اپنی ایک خواب سنائی کہ مَیں اس عزیز کو کہہ رہا ہوں کہ رمضان بڑی جلدی ختم ہو گیا۔ ابھی تو میں نے جماعت سے اور زیادہ دعائیں کروانی تھیں۔ اس میں ایک توجہ کا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے اور یقیناہے کہ رمضان میں جس طرح دعاؤں کی طرف توجہ رہتی ہے اس طرح اب توجہ نہیں رہے گی جبکہ جماعت کو دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔ کیونکہ اس خواب کے سننے سے پہلے ہی میرے دل میں یہ تحریک تھی اور اللہ تعالیٰ نے ڈالا کہ رمضان کے بعد کے خطبے میں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دلاؤں۔ اس لئے اس شخص کی خواب بھی میری توجہ کی تائید میں ہی تھی۔ اس نے مزید اس طرف توجہ دلائی۔ اللہ تعالیٰ کا یہی طریق ہے کہ بعض دفعہ بجائے براہ راست واضح توجہ دلانے کے مومنوں کو دوسرے مومنوں کے ذریعہ توجہ دلاتاہے گو کہ دل میں ڈالا ہوتا ہے۔
رمضان کے بعد ہم عموماً دعاؤں کی طرف اس لئے توجہ نہیں رکھتے، ان میں وہ شدت نہیں ہوتی جیسی کہ رمضان میں ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا کے حالات، مُسلم اُمّہ کے حالات خاص طور پر فلسطینیوں پر اسرائیل کا جو مسلسل ظالمانہ حملہ ہے جس میں کل تک تو عارضی روک پیدا ہوئی تھی لیکن آج سنا ہے پھر وہ سیز فائر جو ہے وہ ختم ہو گئی اور الزام بہر حال یہی دیا جا رہا ہے، اللہ بہتر جانتا ہے حقیقت، کہ فلسطینیوں کی طرف سے پہلے راکٹ حملے کئے گئے۔ بہر حال اللہ کرے کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ یہ جنگ بندی مستقل ہو جائے اور ظلم بند ہو۔ اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر ظلم اور گردنیں اڑانا اور قتل و غارت گری اس کی بھی انتہا ہو رہی ہے۔ اور پھر ظلم کی انتہا ان کلمہ پڑھنے والوں کی طرف سے یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے نام پر احمدیوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ڈھٹائی سے اس ظلم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور جاری رکھنے کے بہانے بھی تلاش کرتے ہیں اور بیانات بھی دئیے جاتے ہیں۔ ہر سطح پر اور ہر موقع پر احمدیوں کو اذیت دینا اور ان پر ظلم کرنا اب پاکستان میں مُلّاں کے زیر اثر غیر احمدیوں کی اکثریت کا یا بہت بڑی تعداد کا شیوہ بن چکا ہے۔ اور اگلی نسل میں بچوں میں بھی یہ زہر گھولا جا رہا ہے۔ ان کے دماغوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہے۔ ان بچوں کے منہ سے بھی اب یہ الفاظ نکلتے ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ دین کیا ہے یا کیا نہیں؟ یا دشمنی کیا ہوتی ہے کیا نہیں؟ کہ احمدی کافر ہیں اور ان کو قتل کرنا جائز ہے۔ سکولوں میں احمدی اساتذہ کے ساتھ بچے اس لئے بدتمیزی کرتے ہیں کہ یہ احمدی ہے جو مرضی اس کو کہو۔ سکولوں سے نکالنے کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ ان سے پڑھنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہی ایک گاؤں میں چھوٹی سی جگہ پر ایک ٹیچر کے خلاف بچوں نے اور ان کے والدین نے جلوس نکالا، ہڑتال کی کہ ہم نے اس سے نہیں پڑھنا۔ یہ قادیانی ہے۔ غالباً ہیڈ ماسٹر نے یا کسی عقل والے نے ان سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگی قیدیوں کو بھی اس شرط پر رہا کرنے کا کہا تھا کہ جو تعلیم تمہارے پاس ہے، جو لکھنا پڑھنا تم جانتے ہو وہ اگر تم مسلمانوں کو سکھا دو تو تمہیں قید سے آزادی مل جائے گی۔ حالانکہ یہ ان لوگوں کو کہا گیا جواس نیت سے جنگ میں آئے تھے کہ مسلمانوں کو ختم کر دیں۔ اس پر اس گاؤں کے لوگوں نے یہ کہا کہ ٹھیک ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو کہا ہو گا لیکن ہم نہیں مانیں گے کیونکہ یہ قادیانی ان کافروں سے بڑھ کر کافر ہیں اور ان کو توقتل کرنا بھی جائز ہے۔
اور یہ ڈھٹائی کسی بھی واقعہ کے بعد کم نہیں ہوتی۔ یہ نہیں کہ انسانیت سوز مظالم دیکھ کر پھر کسی قسم کی شرم کا احساس ان میں پیدا ہو جائے بلکہ وہی حال رہتا ہے۔ وہی لوگ جو گوجرانوالہ میں ہمارے احمدی گھروں کے ہمسائے تھے اور عام حالات میں بول چال اٹھنا بیٹھنا بھی تھا۔ جب یہ واقعہ ہوا تو ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو خالی گھروں کو دیکھ کر لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو گئے۔ جب گراوٹ اس حد تک پہنچ جائے تو پھر سوائے اِنَّا لِلّٰہ کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اب تو یہ لوگ اپنے خاتمے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اور ان ابتلاؤں کے دور میں ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔ پس اپنی دعاؤں میں کمی نہ آنے دیں۔ باقی مسلمان تو ایک دوسرے پر ظلم کا جواب ظلم سے دے کر اپنا حساب پورا کر لیتے ہیں لیکن ہم نے تو ہر ظلم کو آہ و فغاں میں ڈوب کر ختم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر اس سے دعا مانگ کر ختم کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں یہ فرمایا تھا کہ
عدُو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں
(الحکم جلد5 نمبر45 مورخہ 10 دسمبر 1901ء صفحہ 3 کالم2)(درثمین اردوصفحہ50شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پس یار نہاں میں ڈوبنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو عرش کے پائے ہلا دینے والی ہو۔ وہ دعائیں کرنے کی ضرورت ہے جن کا رخ ایک طرف ہو۔ متفرق دعائیں نہ ہوں۔ اس عزیز کی خواب میں جو یہ بتایا گیا ہے کہ مَیں اس کو کہہ رہا ہوں کہ ابھی میں نے جماعت سے دعائیں کروانی تھیں۔ تو جماعت سے من حیث الجماعت دعا کروانا جماعت کی کامیابیوں اور ترقیات کے لئے اور ان مشکلات کے دور ہونے کے لئے تھی۔ پس جب ہماری یہ خواہش ہے کہ ابتلا کا یہ دور جلد ختم ہو تو ہمیں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے اپنی دعاؤں، جماعتی دعاؤں کے دھارے اس طرف کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی دعاؤں کے دھارے اس طرف کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہم دشمن کے شر سے بچ سکیں اور اس کے شر سے بچنے کے لئے ہم جتنی بھی دعائیں کریں وہ آجکل کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر مجھے اپنی ایک پرانی خواب بھی یاد آ رہی تھی جس کا مَیں پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ اگر جلد حالات بدلنے ہیں تو جماعت کو ان ابتلاؤں سے بچانے کے لئے من حیث الجماعت اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص کرتے ہوئے، اپنی دعاؤں کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے ہمیں اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر اس کیفیت میں ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں گے، یہ کیفیت ساری جماعت میں پید اہو جائے اور ہماری راتیں اس کیفیت میں گزریں کہ ہم نے جماعت کے لئے دعائیں کرنی ہیں تو چند دن میں، چند راتوں کی دعاؤں سے انقلاب آ سکتا ہے۔ ورنہ انقلاب تو آنا ہے، حالات تو بدلنے ہیں لیکن اپنا وقت لیں گے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ حالات بدلیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ جو پیغام مجھے دیا گیا تھا اس میں تمام جماعت جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرتی ہے اُس کا خالص ہو کر دعا کرنا شرط ہے۔ اس وقت بھی خواب میں مجھے یہی تاثر تھا کہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے۔
پس پاکستان کے احمدیوں کو چاہے وہ امیر ہیں، غریب ہیں، مرد ہیں، عورتیں ہیں ان کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ احمدیت کے حوالے سے اس وقت سب سے زیادہ ظلم پاکستان میں ہی ہو رہا ہے۔ اور دنیا کے احمدیوں کو بھی عموماً اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ احمدیت کی فتح سے ہی دنیا کی بقا وابستہ ہے۔ مسلم اُمّہ کا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا احمدیت کی فتح سے ہی وابستہ ہے۔ ظلم و تعدی کا خاتمہ اسی سے وابستہ ہے۔ پس چاہے وہ فلسطینیوں کو ظلم سے آزاد کروانا ہے یا مسلمانوں کو ان کے اپنے ظالم حکمرانوں سے آزاد کروانا ہے اس کی ضمانت صرف احمدیوں کی دعائیں ہی بن سکتی ہیں۔ ان دعاؤں کا حق ادا کرنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس وقت ظلم کی چکّی میں سب سے زیادہ احمدی پِس رہے ہیں۔ اس لئے ہماری دعائیں ہی مضطر کی دعاؤں کا رنگ اختیار کر کے نہ صرف اپنی آزادی بلکہ انسانیت کے لئے بھی ظلموں سے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ پس ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ201۔ ایڈیشن 1984 ء مطبوعہ برطانیہ)
پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آج احمدیوں سے زیادہ اور کون ان ابتلاؤں میں ڈالا جا رہا ہے۔ آج احمدیوں سے زیادہ اور کون ہے جس پر ہر طرف سے ظلم بعض مسلمان ممالک میں روا رکھا جا رہا ہے۔ ان ملکوں کے اکثر شرفاء بلکہ تمام ہی کہنا چاہئے، ان کی شرافت جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ گونگی شرافت ہو چکی ہے۔ (ماخوذ از خطباتِ ناصر جلد ہشتم صفحہ 376 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ستمبر 1979ء) ایسے میں معجزانہ دعاؤں کے فیض حاصل کرنے کے لئے ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ دیکھو مصیبت زدہ لوگوں کی دعاؤں کو کون قبول کرتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی قبول کرتا ہے۔ اور جب وہ ایسی حالت میں ہوں جب مُضطر ہوں۔ مضطر اس کو کہتے ہیں جو اپنے چاروں طرف مشکلات اور ابتلاؤں کو دیکھتا ہے۔ اسے اپنی کامیابی کا کوئی مادی یا دنیاوی راستہ نظر نہیں آتا اور صرف اور صرف ایک راستہ نظر آتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ خداتعالیٰ کہتا ہے یہ مُضطر ہیں جو میری طرف آتے ہیں جن کے لئے دنیا کے تمام راستے بند اور مسدود ہو چکے ہوتے ہیں۔ مضطر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کوئی راستہ نظر نہ آئے تو گھبراہٹ میں اضطراب شروع ہو جائے کہ ہم کدھر جائیں۔ بلکہ مضطر کا مطلب جیسا کہ میں نے کہا یہ ہے کہ جب تمام راستے بند ہو جائیں، تمام راستے مسدود ہو جائیں تو ایک طرف روشنی کی کرن نظر آئے اور وہ اس کی طرف دوڑے۔ اگر ہر طرف آگ نظر آ رہی ہو تو دیوانوں کی طرح بے چین ہو کر دوڑنے والے کو مضطر نہیں کہتے۔ کیونکہ اگر اس طرح وہ گھبراہٹ میں دوڑے گا تو خود آگ میں پڑ جائے گا بلکہ ہر طرف کی آگ دیکھنے کے بعد جب اسے امن کا ایک راستہ نظر آ رہا ہو، اسے ایک طرف پناہ نظر آ رہی ہو اور وہ اس معین راستے کی طرف چلا جائے تو وہ شخص ایسا ہے جو مضطر کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے شخص کو پھر آگ سے بچانے والا ہوں۔ مَیں اس کی پناہ گاہ ہوں۔ آگ کی تپش سے بچانے والی ٹھنڈی چھاؤں میں ہوں۔ میری طرف آؤ۔ مجھ سے پناہ طلب کرو۔ میں تمہیں ان ابتلاؤں سے نکالوں گا۔ اس یقین سے میری طرف آؤ کہ ہمارا خدا ہے جو ہمیں اس ابتلا سے نکالنے والا ہے تو میں تمہیں تمہارے اس یقین کی وجہ سے اس ابتلا سے نکالوں گا۔ تمہاری دعاؤں کی وجہ سے تمہیں اس ابتلا سے نکالوں گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عجیب و غریب خواص اور اثر تمہارے حق میں ظاہر ہوں گے۔
پس جو شخص ایسا مضطر بن جائے جو خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اپنا ملجا و مأویٰ نہ سمجھے کوئی پناہ کی جگہ نہ سمجھے، جو خدا کے سوا کسی اور کو ان ابتلاؤں سے نجات دلانے والا نہ سمجھے تو وہی حقیقی مضطر ہے اور اس کی دعائیں عجائب دکھانے والی بنتی ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ یقین ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہو گاکہ ہر قسم کے اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جہاں ہمیں روشنی کی کرن نظر آتی ہو اور جب ایسی حالت پیدا ہو جائے، جب اس طرح کی اضطرار کی کیفیت آ جاتی ہے تو پھر اس قسم کے مضطر کے پاس اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق دوڑتا ہوا آتا ہے اور اس کی مشکلات اور مصیبتیں دور کر دیتا ہے۔ اس کی تکالیف ہوا میں اڑ جاتی ہیں۔ چاہے وہ ذاتی تکالیف اور مشکلات ہوں یا جماعتی تکالیف اور مشکلات ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں ہو گا کہ یَکْشِفُ السُّوٓئَ۔ ہو یعنی اللہ تکلیفوں کو دور کر دے اور بس۔ یہ کافی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ جب انعامات دیتا ہے تو اس کے انعامات لا محدود ہو تے ہیں۔ کسی بھی حد تک وہ انعامات کو بڑھا سکتا ہے۔ پس یہاں بھی جب تکلیف میں مبتلا مومنوں کی تکلیفوں کو دور کرنے کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ کہ وہ تمہیں زمین کے وارث بنا دیتا ہے۔ وہ بڑے بڑے ظالموں، جابروں اور سرکشوں کو تباہ کر کے مظلوم اور کمزور نظر آنے والوں کو ان کی جگہ بٹھا دیتا ہے۔ پس جہاں انفرادی طور پر مضطر کی دعا سن کر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے وہاں قومی رنگ میں بھی اس کی تکلیفوں اور ابتلاؤں کو دور کرتا ہے۔ اور یہی ہمیں قرآن کریم نے دوسری جگہ پر بھی بتایا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جب پہلی قوموں نے رسولوں کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور مظلوموں کو ان کی جگہ دے دی۔ پہلے لوگ بڑے بڑے جابر اور بڑے بڑے جاہ و جلال والے تھے لیکن ان کے نام تک مٹ گئے۔ پس یہ قانون آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلی قوموں کے لئے قائم تھا۔
پس اللہ تعالیٰ ظالموں کو ختم کرتا ہے لیکن جب مظلوم مضطر بن کر مَتٰی نَصْرُ اللّٰہ کی درد بھری دعائیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آ کر ظالموں کے جلد خاتمے کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ طاقت اور کثرت کے زعم میں آج ظلموں پر جو لوگ تلے بیٹھے ہیں اللہ تعالیٰ کرے کہ انہیں عقل آ جائے ورنہ ان کی یہی طاقت اور کثرت ان کے لئے تباہی کا باعث بننے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ جو اپنی طاقت اور کثرت کی وجہ سے تقویٰ سے کام نہیں لیتے ان کے انجام بھی بد ہوا کرتے ہیں۔ اگر کلمہ پڑھ کر اور اللہ اور رسول کا نام لے کر ظلموں کی داستانیں رقم ہوں گی تو کلمہ بھی اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بھی ایسے لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے بد انجام کی خبر دی ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ فلاں قوم یا مذہب کے ماننے والوں کا استثناء ہے وہ جو چاہیں کرتے پھریں۔ بلکہ جو بھی ایسے کاموں میں ملوّث ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں، جو ظلموں پر منتج ہوتے ہیں وہ اپنے بد انجام کو پہنچے گا۔ لیکن ہمارا کام ہے کہ ان ظلموں سے جلدی چھٹکارا پانے کے لئے ہم مضطر کی حالت اپنے اندر پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کو بے چین ہو کر پکاریں۔ پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح مدد کو آتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اسے کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 137۔ ایڈیشن 1984 ء مطبوعہ برطانیہ)
پس جماعتی مشکلات کے دور کرنے کے لئے بھی ہمیں اسی اضطراب کی ضرورت ہے جس طرح بعض دفعہ ہم دعاؤں میں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے دکھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کثرت سے اور بار بار دعا شرط ہے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ ہم نے رمضان میں دعائیں کر لیں اور کافی ہو گیا تو ہم پر واضح ہونا چاہئے کہ یہ کافی نہیں۔ ابھی ہمیں مسلسل دعاؤں کی ضرورت ہے اور انسان کو ہمیشہ مسلسل دعاؤں کی ضرورت رہتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہمیں کھلی فتح بھی عطا فرما دے گا تو پھر بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے مسلسل دعاؤں کی ضرورت ہو گی۔ غرض کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں کبھی بھی کمی نہیں ہونی چاہئے، نہ ایک مومن کبھی یہ برداشت کر سکتا ہے۔ تکلیفوں میں بھی ہمیں اضطراب کی ضرورت ہے اور آسانیوں اور آسائشوں میں بھی ہمیں یادِ خدا کی ضرورت ہے۔ پس ایک مومن کبھی خود غرض نہیں ہوتا۔ نہ ہی عارضی اور وقتی دعاؤں اور جوشوں کو کافی سمجھتا ہے بلکہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق رہتا ہے اور رہنا چاہئے۔ یہ ایمان اور تعلق ہی ایک مومن کو عام حالات میں بھی دعا کی قبولیت کے نشان دکھاتا رہتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’یاد رکھو غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد 4صفحہ 58۔ ملفوظات جلد 3 صفحہ 31۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یہ تو ایک حقیقی مومن کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ خدا سے تعلق کاٹے لیکن بعض دفعہ کمزوریوں کی وجہ سے دعاؤں میں کمی آ جاتی ہے اور دنیاوی معاملات کی وجہ سے اسباب کی طرف توجہ ہو جاتی ہے یا دعاؤں کا حق ادا نہیں ہوتا۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالتوں کے ہر وقت جائزے لیتا رہے کہ کبھی ہم اپنے مسائل میں اس قدر نہ الجھ جائیں کہ ان لوگوں کے لئے دعاؤں کا احساس نہ رہے جو جماعت کے افراد ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہیں۔ یاد رکھیں ہر فرد جماعت کی دعا اور اللہ تعالیٰ کو اس کے رحم، مغفرت، بخشش اور مختلف صفات کا واسطہ دے کر جو دعا ہے یہ جماعتی تکالیف کو بھی دُور کرنے کا باعث بنتی ہے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ پہلی اُمّتوں میں سے ایک اُمّت کے تین آدمی تھے۔ ایک دفعہ طوفان میں پھنس گئے۔ وہ طوفان سے پناہ لینے کے لئے ایک غار میں چلے گئے اور اتفاق سے اس طوفان کی وجہ سے ایک پتھر لڑھک کر اس غار کے منہ پر آ گرا اور ان کے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا۔ گویا ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کے لئے گئے تھے اور بڑی مصیبت ان پر پڑ گئی۔ ایسی حالت میں نہ ان کی اپنی کوشش سے وہ پتھر غار کے منہ سے ہٹایا جا سکتا تھا اور نہ ہی کوئی بیرونی مدد ان کو جنگل میں پہنچ سکتی تھی۔ ایک ایسی قید تھی جس میں سے کسی انسانی کوشش سے نکلنا ناممکن تھا۔ ایسی حالت میں ان پر شدید گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہوئی کہ اب یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یہی نہ ہو کہ ہماری قبر اب اس غار میں بن جائے۔ ایسی حالت میں جب انہوں نے دیکھا کہ نجات کی کوئی صورت نہیں تو ان میں سے ایک شخص کے دل میں دعا کی تحریک ہوئی۔ اس نے کہا آؤ ہم دعا کریں اور دعا اس حوالے سے کریں کہ ہم نے اپنی زندگی میں اگر کوئی عمل اور نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پتھر کو ہٹا دے۔ تب ان میں سے ایک نے کہا کہ اے خدا مجھے اپنی ایک رشتہ دار لڑکی سے محبت تھی۔ میں اس سے بدکاری کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی۔ آخر میں نے بعض ایسی تدابیر کیں، مال بھی خرچ کیا، وقت گزراتو آخر وہ بدفعلی پر راضی ہو گئی۔ جب میں اس پر قادر ہو گیا تو اس نے کہا کہ اے خدا کے بندے! میں تجھے خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ یہ گناہ نہ کر۔ تب میں اس کے قریب سے ہٹ گیا۔ اور اے خدا اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کی خاطر کیا تھا تو اس پتھر کو ہمارے راستے سے ہٹا دے۔ اس دعا سے اس طوفان کی وجہ سے وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیالیکن راستہ نہیں کھلا۔
پھر دوسرے نے کہا۔ اے خدا تُو جانتا ہے کہ ایک مزدور میرے پاس آیا۔ اس نے میری مزدوری کی۔ اس سے پہلے کہ وہ میرے سے مزدوری لے۔ وہ چلا گیا۔ یہ مزدوری جو نصاب بنتا ہے اس میں تقریباً نو سیر دانے کے برابر بنتی ہے۔ تو میں نے اس کی مزدوری کے جو دانے تھے ان کو بو دیا۔ اس کی فصل لگا دی۔ وہ فصل اچھی ہوئی۔ اور اس میں سے میں نے کچھ جانور خرید لئے جو بڑھتے بڑھتے بھیڑوں بکریوں کا ایک گلّہ بن گیا۔ پھر یوں ہوا کہ کئی سالوں کے بعد وہ میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری مانگی۔ میں نے کہا کہ یہ بکریوں کا گلّہ تمہارا ہے۔ تم لے جاؤ۔ ایک وادی میں پھیلا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ مزدوری لینے آیا ہوں اور تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ تب میں نے اس سے کہا کہ تمہاری مزدوری سے میں نے تجارت کی تھی جس سے اتنا بڑا ریوڑ بن گیا۔ یہ تمہارا ہے اس پر وہ ریوڑ لے کر چلا گیا۔ پس اے خدا! اگر یہ کام میں نے تیری خوشنودی اور رضا کی خاطر کیا ہے تو ہم پر رحم کر اور یہ پتھر ہٹا دے۔ اس پر ہوا کے ایک تیز جھکّڑ نے اس پتھر کو تھوڑا سا اور سرکا دیا لیکن ابھی بھی باہر نکلنے کا راستہ نہیں تھا۔
تب تیسرا شخص اس دعا کے ساتھ خدا کے حضور جھکا اور کہا کہ اے خدا! تو جانتا ہے کہ میں بکریاں چرایا کرتا ہوں اور دودھ پر میرا گزارا ہے۔ ایک دن گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی اور میرے ماں باپ جو میرے ساتھ تھے۔ بہت بوڑھے تھے۔ میرا طریق یہ تھا کہ اپنے چھوٹے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودھ پلایا کرتا تھا۔ جب میں دیر سے پہنچا تو میرے ماں باپ جو بوڑھے تھے سو چکے تھے۔ میں نے پسندنہ کیا کہ انہیں جگاؤں اور ان کے پاس دودھ لے کر میں کھڑا ہو گیا کہ جب وہ جاگیں گے مَیں پلا دوں گا۔ میرے بچے روتے رہے۔ انہیں بھی بھوک لگی تھی لیکن میں ماں باپ کے لئے دودھ لے کر کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور صبح تک دودھ لے کر کھڑا رہا۔ صبح جب وہ جاگے تو انہیں دودھ پلایا پھر اپنے بیوی بچوں کو بھی دیا۔ پس اے خدا اگر میرا یہ کام تیری رضا اور خوشنودی کے لئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض نہ تھی تو مجھ پر رحم فرما اور اس پتھر کو ہٹا دے۔ چنانچہ طوفان کے ایک زور نے اس پتھر کو اور آگے سرکا دیا اور راستہ صاف ہو گیا اور وہ باہر آ گئے۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار حدیث 3465)
اب تین اشخاص نے تین قسم کے کام کئے تھے۔ کسی نے مزدور کی مزدوری میں امانت کا حق اد اکیا۔ انصاف پر قائم رہتے ہوئے بندوں کے حق کی ادائیگی کی۔ کسی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت کا حق ادا کیا۔ تیسرا زنا کے گناہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بچا اور اس حوالے سے دعا کی لیکن ان سب کی دعاؤں کا مقصد مشترکہ تھا کہ پتھر ہٹ جائے اور وہ پتھر ہٹ گیا۔ پس یہ انفرادی نیکیاں اور انفرادی نیکیوں کے حوالے سے کی گئی دعائیں اجتماعی قبولیت کا نظارہ دکھانے والی بن گئیں۔ پس اس حدیث سے جہاں اور بہت سے سبق ملتے ہیں وہاں ایک یہ بہت بڑا سبق ہے کہ افراد کی انفرادی نیکیاں اور دعائیں اجتماعی مصیبت کو دور کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ پس جب ہم ایک جماعت میں پروئے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ سے اجتماعی تکالیف اور ابتلا کے دُور کرنے کے لئے دعائیں مانگنے کی ضرورت ہے۔ صرف اپنی ذاتی مشکلات اور پریشانیوں کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے لئے دعاؤں میں ہی نہ ڈوبے رہیں بلکہ جماعتی دعاؤں میں بھی وہ اضطراب اور اضطرار پیدا کریں جو اپنی ذاتی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ایک انسان میں پیدا ہوتا ہے۔ جماعت کی ترقی اور حالات کے بدلنے کے لئے جب دو نفل پڑھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ پڑھا کریں اور اکثریت مجھے لکھتی بھی ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو اس میں درد بھری دعائیں کریں۔ ان غار میں پھنسے ہوئے لوگوں کی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر دنیاوی مدد سے مایوس ہو کر انہوں نے بیشک اپنی کسی نیکی جو خالص خدا تعالیٰ کے لئے انہوں نے کی تھی اس کا حوالہ دے کر دعا مانگی لیکن ان کی جو اس وقت اضطراری کیفیت ہو گی جو اضطراب ان میں پیدا ہوا ہو گا، ہر طرف سے مادی ذرائع سے جو مایوسی تھی اس سے جو اضطراب پیدا ہو سکتا ہے اس کا انسان اندازہ کر سکتا ہے۔
پس جہاں ہمیں اپنے عمل خدا تعالیٰ کے لئے خالص کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اعمال قبولیت دعا میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں وہاں ہمیں جماعت کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہوئے بڑی تضرع اور عاجزی سے اسے دور کرنے کے لئے دعا کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ 27۔ ایڈیشن 1984 ء مطبوعہ برطانیہ)
پھر ایک جگہ ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ
’’اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنوگے تو خداتعالیٰ تم میں اور ان میں کچھ فرق نہ کرے گا۔ اور تم خو د اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کروگے تو پھر خدا بھی تمہارے لیے کچھ فرق نہ رکھے گا۔ عمدہ انسان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق چلے۔ لیکن اگر ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کافر سے بدتر ہے۔ سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے۔ ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اور قوت سے۔ ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیزگی۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 386۔ ایڈیشن 1984 ء مطبوعہ برطانیہ)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے سب کام خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق سرانجام دینے والے ہوں۔ اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں۔ اس کے حضور متضرعانہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اپنی دعاؤں میں جماعتی ترقی اور ابتلاؤں کے دور ہونے کے لئے وہی شدت پیدا کرنے والے ہوں جو اپنی ذاتی تکالیف میں ہم کرتے ہیں۔ جماعت کے لئے دعاؤں میں بھی وہ شدت ہم میں پیدا ہو جیسی ہم میں اپنی ذاتی تکالیف کے لئے پیدا ہوتی ہے۔ ایک ہو کر ہم مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ جب تک ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے ان اجتماعی تکلیفوں کے دور کرنے کے لئے نہیں جھکیں گے ہم اپنے مقصد کو جلد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہماری مشترکہ دعائیں ہی ہماری انفرادی تکالیف کو بھی دور کر سکتی ہیں۔ جب انسان دوسرے کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتے بھی اس کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ غار سے پتھر اس وقت ہٹتے ہیں جب دعاؤں کا رخ اور مقصد مشترک ہو۔ پس کسی فرد جماعت کو اس خود غرضی میں نہیں پڑنا چاہئے کہ میں ٹھیک ہوں تو بس سب ٹھیک ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے احمدی کی تکلیف ہم سب کی مشترک تکلیف ہے۔ اس کا احساس ہم میں پیدا ہونا چاہئے اور صرف احساس ہی پیدا نہ ہو اس کے لئے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہی ہتھیار ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ ہتھیار ہمیں ہماری فتوحات سے ہمکنار کرے گا۔
لیکن یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ جوش میں ہم دشمنوں کے بارے میں یا مخالفین کے بارے میں یہ دعا نہ کریں کہ خدا تعالیٰ ان پر وبال اور عذاب نازل کرے۔ بلکہ یہ دعا کریں کہ اے اللہ جب ہم اپنی کامیابیاں چاہتے ہیں۔ ابتلا اور مشکلات کو دُور کرنے کے لئے تجھ سے دعا مانگتے ہیں۔ مشکلات کے یہ دَور ختم ہونے کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہاں اے خدا ہم ان لوگوں کی بھی بہتری چاہتے ہیں تباہی نہیں چاہتے۔ ہم کمزوروں کو تیرے فضلوں نے ڈھانپا ہوا ہے اور باوجود سخت ترین حالات کے ہم تیرے فضلوں کے نظارے پھر بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ پس اگر تُو ان لوگوں کو بھی ڈھانپ لے اور ان کو ہدایت دے تو یہ ہماری بھی اور ان کی بھی بڑی خوش قسمتی ہے۔ لیکن اگر تیری حکمت بعض کو اس کا اہل نہیں سمجھتی اور ان کو فنا کرنے میں ہی بہتری ہے تو ان کو ہمارے راستے سے اس طرح ہٹا دے کہ اسلام کی ترقی جو اَب تو نے احمدیت اور حقیقی اسلام سے وابستہ کی ہے اس میں ان کا وجود روک نہ بن سکے۔
پس جہاں یہ دعا بھی ہے تو وہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت جہاں چاہتی ہے وہاں پر یہ بد دعا بھی بن جائے گی۔ اس لحاظ سے ہمیں دعا کرنی چاہئے نہ کہ کھلی بددعا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں کے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اپنی جماعت کے افراد کو یہی تلقین فرمائی ہے کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دو کیونکہ جماعتی ترقی، جماعت کا غلبہ اور دشمنوں کے مکروں اور ان کی کارروائیوں سے نجات دعاؤں سے ہی ملنی ہے۔
پس یار نہاں میں ڈوبنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو عرش کے پائے ہلا دینے والی ہو۔ وہ دعائیں کرنے کی ضرورت ہے جن کا رخ ایک طرف ہو۔ متفرق دعائیں نہ ہوں۔ پاکستان کے احمدیوں کو چاہے وہ امیر ہیں، غریب ہیں، مرد ہیں، عورتیں ہیں ان کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ احمدیت کے حوالے سے اس وقت سب سے زیادہ ظلم پاکستان میں ہی ہو رہا ہے۔ اور دنیا کے احمدیوں کو بھی عموماً اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ احمدیت کی فتح سے ہی دنیا کی بقا وابستہ ہے۔ مسلم اُمّہ کا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا احمدیت کی فتح سے ہی وابستہ ہے۔ ظلم و تعدی کا خاتمہ اسی سے وابستہ ہے۔ پس چاہے وہ فلسطینیوں کو ظلم سے آزاد کروانا ہے یا مسلمانوں کو ان کے اپنے ظالم حکمرانوں سے آزاد کروانا ہے اس کی ضمانت صرف احمدیوں کی دعائیں ہی بن سکتی ہیں۔ ان دعاؤں کا حق ادا کرنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس وقت ظلم کی چکّی میں سب سے زیادہ احمدی پِس رہے ہیں۔ اس لئے ہماری دعائیں ہی مضطر کی دعاؤں کا رنگ اختیار کر کے نہ صرف اپنی آزادی بلکہ انسانیت کے لئے بھی ظلموں سے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ پس ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جو بھی ایسے کاموں میں ملوّث ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہے جو ظلموں پر منتج ہوتے ہیں وہ اپنے بد انجام کو پہنچے گا۔ لیکن ہمارا کام ہے کہ ان ظلموں سے جلدی چھٹکارا پانے کے لئے ہم مضطر کی حالت اپنے اندر پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کو بے چین ہو کر پکاریں۔ پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح مدد کو آتا ہے۔
چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالتوں کے ہر وقت جائزے لیتا رہے کہ کبھی ہم اپنے مسائل میں اس قدر نہ الجھ جائیں کہ ان لوگوں کے لئے دعاؤں کا احساس نہ رہے جو جماعت کے افراد ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہیں۔ جب ہم ایک جماعت میں پروئے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اپنی دعاؤں کو خدا تعالیٰ سے اجتماعی تکالیف اور ابتلا کے دور کرنے کے لئے مانگنے کی ضرورت ہے۔ جماعتی دعاؤں میں بھی وہ اضطراب اور اضطرار پیدا کریں جو اپنی ذاتی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ایک انسان میں پیدا ہوتا ہے۔
جب تک ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے ان اجتماعی تکلیفوں کے دور کرنے کے لئے نہیں جھکیں گے ہم اپنے مقصد کو جلد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہماری مشترکہ دعائیں ہی ہماری انفرادی تکالیف کو بھی دور کر سکتی ہیں۔
فرمودہ مورخہ 08؍اگست 2014ء بمطابق08 ظہور 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔