حقیقی روحانی زندگی کے لئے آنحضرتﷺ کی آواز پر لبّیک
خطبہ جمعہ 15؍ اگست 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یٰٓا َیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال: 25)کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کی بات پر لبّیک کہو۔ جب وہ تمہیں بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو زندگی دینے کے لئے بھیجتا ہے۔ ان یعنی مومنوں کے بارے میں فرمایاکہ ان کی موت کو زندگی عطا کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہ زندگی روحانی زندگی ہے نہ کہ ظاہری موت سے زندگی۔ یہاں ایک صداقت کا بھی اظہار ہے کہ مومن کو ہمیشہ نبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلاح کے سامان کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہماری زندگی کے سامان کئے اور ایک کامل اور مکمل شریعت قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائی۔ اور اس پر عمل کرنے کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں نے محسوس کیا اور محسوس کرتے تھے۔ جو جتنا زیادہ آپ کے قریب تھا اتنا ہی زیادہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کا حسن نکھر کر واضح ہوتا تھا اور آپ کی بیویاں آپ کے اس حسن عمل کی سب سے زیادہ گواہ ہو سکتی تھیں اور تھیں۔ تبھی تو جب سوال کرنے والے نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ آپ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن۔ آپ کا خُلق قرآن تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 144حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا حدیث نمبر 25108 عالم الکتب بیروت 1998ء)
جو کچھ اس میں یعنی قرآن کریم میں ہے اس کا عملی نمونہ آپ تھے۔
پس انبیاء کا وجود دنیا میں نمونہ ہوتا ہے۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کے وجود یا ان کے نمونے سے کسی کو ٹھوکر لگے۔ یہاں اس آیت میں اللہ اور رسول کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو اللہ کہتا ہے وہی اس کے رسول کہتے اور کرتے ہیں۔ پس اگر روحانی زندگی چاہتے ہو تو آنکھیں بند کر کے رسول کے پیچھے چل پڑو۔ اس کی اتباع کرو۔ اس کے حکموں پر عمل کرو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو یہ بھی فرمایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے اور خدا کی محبت ہی وہ مقام ہے جس سے روحانی حیات ملتی ہے، روحانی زندگی ملتی ہے۔ پس حقیقی روحانی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبّیک کہنا ضروری ہے۔ اور جب تک ایک مسلمان کہلانے والا حقیقی رنگ میں اس بات کو نہیں مانتا جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں اعلان کروائی کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ(آل عمران: 32)۔ پس میری اتباع کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اس وقت تک ایک مسلمان کہلانے والا حقیقی متبع اور مومن نہیں کہلا سکتا۔ اور آپ کی اتباع کے لئے آپ کے نمونے کی لکھی ہوئی تفصیل جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا قرآن کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں ناانصافی پر مجبور نہ کرے۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ بلا وجہ کسی کا خون نہ بہاؤ۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے مخلوق کے حقوق ادا کرو۔ یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃٌ للعالَمین ہیں جو بلاتخصیص مذہب و ملّت ہر ایک کے لئے رحمت ہیں۔ رحمانیت اس بات کا ہی تقاضا کرتی ہے کہ وہ بلا تخصیص ہو۔
غرض کہ جیسے جیسے قرآن کریم کو پڑھتے جائیں اس میں ہر قسم کی رہنمائی اور ہدایت ملتی چلی جاتی ہے۔ پس قرآن کریم تو ہر اس شخص کے اعتراض کو ردّ کرتا ہے جو آجکل کے مسلمانوں کے غلط عمل دیکھ کر غیر مسلم یا معترضین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر کرتے ہیں کہ یہ زندگی ہے؟ تم کہتے ہو کہ رسول زندگی دینے والا ہے لیکن کیا یہ زندگی ہے جو دینے کے لئے تمہارا رسول اور تمہارا دین آیا ہے؟ انبیاء تو زندگیاں دیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے تو عمل بھی مردہ ہیں اور عملاً بھی انسانی زندگی کے خاتمے میں یہ پڑے ہوئے ہیں۔ معصوموں بیواؤں کے قتل ہو رہے ہیں۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے، کئی دفعہ لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں تو مَیں یہی کہا کرتا ہوں کہ تمہارے اس اعتراض کا جواب تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول چودہ سو سال پہلے اسلام کے ابتدا میں ہی قرآن کریم میں سورۃ جمعہ کی ان آیات میں دے چکے ہیں کہ ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْا ُ مِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(الجمعۃ: 4-3) کہ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے۔
پس یہ جہالت اور گمراہی جو اس وقت کے مسلمانوں کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہے وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی اور اس کے دُور کرنے کے لئے اور اصل زندگی بخش پیغام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اب یہ زندگی بخش پیغام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اس کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر جماعت احمدیہ مسلمہ یہ پیغام پہنچا رہی ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ یہ پہنچائے۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان حالات کے بارے میں، ان لوگوں کے بارے میں، ان علماء کے بارے میں جو آجکل یہ حرکتیں کر رہے ہیں واضح فرما دیا کہ یہ لوگ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں جو علماء بنے پھرتے ہیں۔ فتنوں کی اور فسادوں کی یہ لوگ آماجگاہ بن جائیں گے (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد سوم صفحہ 317 فصل قال وینبغی لطالب العلم…باب نشر العلم والا یمنعہ اھلہ… حدیث نمبر 1763)
اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہو گا جو زندگی بخشے گا۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ میں زندگی بخشنے آیا ہوں اور آپ کے ماننے والوں نے یہ زندگی پائی۔ پس یہ اعتراض کہ کیا یہ رسول ہے جو زندگی دینے والا ہے؟ یہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ نے اور اللہ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ حالات ہوں گے۔ یہ پیغام تو زندگی بخش ہے اور رہے گا۔ یہ رسول تو زندگی بخش ہے اور ہمیشہ تاقیامت رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے اس کی پیروی کرنے والے نہیں ہوں گے اور ایسے حالات میں پھر اللہ تعالیٰ آپ کی کامل اتباع اور پیروی میں مسیح موعود کو بھیجے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اِس آیت کے معنی یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گرو ہ ہیں۔ اوّل صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے ان میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئے۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا۔ اور آیت آخَرِیْنَ مِنْہُمْ میں جو اس گروہ کو مِنْہُمْ کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے۔ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا…‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’…طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا۔ ملک میں ریل کا تیار ہونا اونٹوں کا بیکار ہونا یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانے میں اس طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو مِنْہُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوۃ کا اور کس نے پایا۔ اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھارہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔ بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ305۔ 306)
پس آپ کا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کو زندگی دینے آیا ہوں بڑی شان سے پورا ہوا اور ہو رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے بھی دنیا کو زندگی بخش رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھنا آپ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر ناممکن ہے۔ قرآن کریم کے معارف و حقائق بتانا آپ کا ہی کام ہے۔ لوگوں کو روحانی زندگی اب آپ کے ذریعہ سے ہی مل رہی ہے اور مل سکتی ہے۔ چودہ سو سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور محبت میں فنا ہو کر کامل عملی نمونہ آپ نے ہی پیش فرمایا۔ پس یہ عملی اور اخلاقی زندگی بخشنے کا فیضان آج بھی جاری ہے۔ لیکن اسلام پر اعتراض کرنے والے اس طرف نظر نہیں کرتے۔ اگر مسلمانوں کے غلط عمل دیکھتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اعتراضوں کی بھرمار شروع ہو جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا کہ ایک پڑھے لکھے عیسائی سے اسلام کی خوبصورت تعلیم پر بات ہو رہی تھی اور خلافت کے جاری نظام اور جماعت دنیا میں کیا خدمات انجام دے رہی ہے اس بارے میں احمدی نے بتایا تو وہ کہنے لگا کہ میڈیا کو کیوں نہیں بتاتے۔ یہ دنیا کو کیوں نہیں پتا لگتا۔ اخباروں میں یہ کیوں نہیں آتا۔ اس دوست نے کہا کہ ہم تو بتاتے ہیں۔ ہماری تبلیغ بھی ہے، لیف لٹس کی تقسیم بھی ہے۔ اب تو تقسیم لاکھوں کروڑوں میں چلی گئی ہے۔ بسوں میں اشتہار ہیں اور ذریعے ہیں اشتہار کے۔ مختلف پروگرام ہیں۔ خبریں بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میڈیا اس کو اتنی کوریج نہیں دیتا جتنی وہ منفی خبروں کو دیتا ہے۔ تو عیسائی دوست خود ہی کہنے لگے کہ ہر چیزہی کمرشلائز ہو چکی ہے میڈیا کو بھی جس طرف رجحان زیادہ ہو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے چٹ پٹی خبروں کی ضرورت ہے تا کہ لوگ ان کو سنیں اور دیکھیں اور مسلمانوں کے خلاف کیونکہ آجکل رجحان ہے اس لئے ان کے خلاف خبریں لگانے میں یہ تیزی دکھاتے ہیں۔ خود ہی کہنے لگا کہ میڈیا والے انصاف سے کام نہیں لیتے اور حقائق سے گریز کرتے ہیں۔ بہر حال یہ ان کا کام ہے لیکن بعض اب ایسے بھی ہیں جو کچھ نہ کچھ حق میں کہنے یا بولنے لگ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ بی بی سی کے نمائندے نے مجھ سے انٹرویو لیا تھا۔ کافی لمبا تھا۔ اس کے کچھ حصے کو انہوں نے اپنی ایک ڈاکومنٹری میں بھی سنایا ہے جو کل ایک دفعہ دکھایا جا چکا ہے۔ بی بی سی ایشیا پر اور جو بی بی سی ورلڈ ریڈیو سروس ہے اس میں شاید ہفتے سے دکھائیں گے یا ہفتے سے شروع کریں گے یا صرف ہفتے والے دن انہوں نے دکھانا ہے۔ بہر حال اس دن انہوں نے کہا کہ ہم یہ سنائیں گے۔ (دکھائیں گے نہیں سنائیں گے کیونکہ ریڈیو سروس ہے۔) اس میں میری یہ بات بھی انہوں نے شامل کی ہے کہ جماعت جو خوبصورت تعلیم دیتی ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے اور اسی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر سال جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ پوری بات تو نہیں لیکن بہر حال انہوں نے کافی حد تک بتائی، کچھ کچھ الفاظ بھی بیچ میں سنائے ہیں کہ جو لوگ شامل ہوتے ہیں وہ اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم ان کو پتا لگتی ہے اور اسلام کے اس زندگی بخش پیغام کو سن کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پس اسلام کی تعلیم میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ایک کامل اور مکمل نمونہ اور تعلیم ہے۔ اگر خرابی ہے تو ان علماء اور لوگوں میں جو ان کی غلط رہنمائی کرتے ہیں اور جو غلط طریقے پر ان علماء کے پیچھے چلتے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہو کہ انبیاء زندگی بخشتے ہیں جس کا سب نبیوں نے دعویٰ کیا تو خدا تعالیٰ کی ذات پر بھی اعتماد اٹھ جائے۔ وہ مردہ مذاہب جو صرف دعویٰ کرتے ہیں اور اب زندگی بخشنے والی بات ان میں کوئی نہیں رہی۔ اس لئے لوگ ان مذاہب کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان مذاہب کے ساتھ رسمی تعلق تو ہے لیکن ایمان کی حالت نہیں۔ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے اس زمانے میں بھی اپنا رسول بھیج کر اپنی تعلیم کو تازہ کر کے ہمارے سامنے پیش فرمایا تا کہ ہم روحانی زندگی کو حاصل کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے مامور اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ لے کر آتے ہیں کہ جو قوم ان کے ساتھ شامل ہو گی، حقیقی پیروی کرے گی وہ اسے کامیابی تک پہنچائیں گے۔ انہیں روحانی زندگی عطا ہو گی اور باقی لوگ ناکام اور ذلیل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ آپ غالب آئیں گے۔ آپ کے ماننے والے ترقی کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ۔ خلافت کا نظام آپ کے بعد آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے چلتا چلا جائے گا۔ کوئی اور نظام اگر اس کے مقابل پر اٹھے گا تو ناکام و نامراد ہو گا۔ خلافت وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ چھین کر نہیں لیا جاتا۔ ظلم کر کے نہیں حاصل کیا جاتا۔ معصوموں کو زندہ درگور کر کے نہیں حاصل کیا جاتا۔ ظالمانہ طریقے پر قتل کر کے اس نظام پر قبضہ نہیں کیا جاتا۔ یہ تو زندگیاں دینے کا ذریعہ ہے نہ کہ زندگیاں لینے کا۔ جو خدا تعالیٰ کی تائید اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس کوئی اور نظام بھی جو چھین کر لیا جائے وہ خدا تعالیٰ کا تائید یافتہ نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا ہے۔
یہاں ایک چیز یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کو ماننے والے، زندگی حاصل کرنے والے اور زندگیاں دینے والوں کو قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور مامور کے ساتھ شامل ہونے والے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ ان کو قربانیوں کی اہمیت کا پتا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ بعض دفعہ اپنی اس ظاہری زندگی کو روحانی زندگی کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں بھی ایسے تھے جنہوں نے اپنے خاندان، رشتے دار، مال، کاروبار حتی کہ جان تک کی قربانی دی۔ ماننے والوں کو جذبات کی، رشتے داروں کی، مالوں کی تو اکثر قربانی دینی پڑتی ہے لیکن جان کی قربانیاں دینے والے بھی ہوتے ہیں۔ تو ان میں ایسے تھے جنہوں نے یہ سب کچھ قربان کیا لیکن اپنی روحانی زندگی پر موت نہیں آنے دی۔ اور آج بھی سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو قربانیاں دیتے ہیں۔ جذبات کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، رشتوں کی قربانی ہے۔ یہ سب قربانیاں وہ خوشی سے دے رہے ہیں اور جان کی قربانیاں بھی بعض جگہوں پہ دے رہے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو احمدیت قبول کرتے ہیں، اسلام کے حقیقی زندگی بخش پیغام کو قبول کرتے ہیں تو ساتھ ہی ان کے لئے مشکلات اور مصائب کا دَور شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ روحانی زندگی کو ظاہری زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لوگ مختلف تکالیف میں سے گزرتے ہیں، بہت تنگ کیا جاتا ہے لیکن پرواہ نہیں کرتے۔ ایسی مشکلات سے گزرنے والوں کی اب تو جماعت کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں۔ چند ایک کی مثالیں مَیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں جنہوں نے اگرچہ جان کی قربانی تو نہیں دی لیکن احمدیت قبول کی تو جذبات کی قربانی، معاشرے کی مشکلات اور مصائب کا ان کو سامنا کرنا پڑا۔ معاشرے میں احمدیت قبول کرنے کے ساتھ ہی ان پر دباؤ پڑنے شروع ہو گئے۔
ایک صاحب حسام الدین صاحب تھے۔ عرب ہیں۔ انہوں نے ہمارے عکرمہ صاحب کے لئے ایک دفعہ ایک پیغام چھوڑا کہ کچھ عرصہ قبل میں نے بیعت کی تھی اور اب بڑے مشکل حالات کا سامنا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو تسلی دلائی۔ حالات پوچھے کیا وجہ ہو گئی۔ تو انہوں نے کہا کہ میں اور میری بیوی تبلیغی جماعت سے منسلک تھے اور تبلیغی دوروں پر جایا کرتے تھے۔ پھر جب ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام پر مَیں ایمان لے آیا۔ مجھے سچا لگا، زندگی بخش لگا۔ میری بیوی نے بڑی شدید مخالفت کی اور میرے گھر والوں کو میرے خلاف بھڑکایا۔ تو کہتے ہیں مولویوں کو بھی میرے خلاف کیا۔ مولویوں کے کہنے پر میری بیوی الازہر سے میری تکفیر کا فتویٰ بھی لے آئی اور ہماری علیحدگی ہو گئی۔ نکاح ختم ہو گیا جو مولویوں کا طریق ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں گھر والوں نے مجھ پر بہت پریشر ڈالاکہ جماعت کو چھوڑ دوں لیکن میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ اس بیوی سے میرے چار بچے بھی ہیں لیکن سب کچھ چھوڑنے کے باوجود میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان پر قائم ہوں۔ بیعت کے بعد مجھے اجنبیت کی حقیقت معلوم ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھ آیا کہ ’’اسلام اجنبی ہونے کی حالت میں شروع ہوا اور آخر کار پھر اجنبی ہو جائے گا۔ پس اجنبیوں کو مبارک ہو۔‘‘ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود مجھے پناہ دی اور میرا کفیل ہوا ہے۔ اللہ کرے کہ میں کبھی نہ پھسلوں۔ میں پھسلنے والا نہیں اور ثابت قدم رہوں گا انشاء اللہ۔
اسی طرح مختلف علاقے ہیں۔ اب یہ ایسٹ افریقہ ہے جہاں تنزانیہ سے ہمارے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں شیانگا ریجن کے بعض علاقوں میں ایک تبلیغی پروگرام کا موقع ملا۔ کئی جگہ سے نئی بیعتیں آئیں۔ ان میں ایک گاؤں سونگامیلے ہے۔ وہاں غیر احمدیوں کی مسجد بھی ہے۔ اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں میں سے تقریباً نوّے فیصد مسلمانوں نے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے بعد پھر تنزانیہ میں غیر احمدیوں کی مسلمانوں کی تنظیم بکواٹا (Bakwata)ہے جو کہ مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت سمجھی جاتی ہے، اس نے شدید مخالفت شروع کر دی۔ پہلے انہوں نے احمدیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کیں اور کیونکہ انہوں نے یہاں فوری طور پر معلم بھی بھیج دیا تھا تا کہ تربیت شروع ہو جائے اور اس نے تربیت شروع کر دی تھی۔ اس لئے ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی رہی۔ اسلام کی حقیقی تعلیم کا علم ان کو ہو گیا۔ انہوں نے کسی کے ڈرانے دھمکانے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ آخر انہوں نے اپنی مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کر دیا۔ انہوں نے نماز پڑھنے کے لئے ایک متبادل جگہ بنا لی اور انہوں نے مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیاتو پھر انہو ں نے نیا رخ اختیار کیا اور جو ضلعی انتظامیہ تھی اور جو پولیس تھی اس کا افسر جو کہ خود سنی مسلمان تھا اس نے بھی بکواٹا کی ضلعی تنظیم کے ساتھ مل کے گاؤں کے نو احمدیوں کو تنگ کرنا شروع کیا۔ معلم صاحب سمیت دو آدمیوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر کچھ وقفے کے بعد چھوڑ بھی دیا اور پھر دوبارہ چند دنوں کے بعد معلم کو بھی اور ہمارے تین چار احمدیوں کو بھی گرفتار کر لیا اور یہی اصرار تھا کہ مقدمہ کریں گے۔ مختلف قسم کے الزامات احمدیوں پر لگاتے رہے کہ احمدی ہماری مسجد کو آگ لگانے آئے ہیں۔ اس لئے اپنی الگ مسجد بنا رہے ہیں۔ انتشار پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارا امن و سکون برباد کر دیا ہے۔ جو باتیں یہ خود کرتے ہیں وہ سب الزامات احمدیوں پر لگاتے چلے گئے۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور یہ سب لوگ اپنے ایمان پر قائم رہے اور انہوں نے کسی قسم کی پرواہ نہیں کی۔ یہ بڑی مشکلات میں سے گزرے ہیں۔ اب ایک اور تیسری مثال دیتا ہوں۔ پہلے ایسٹ افریقہ تھا۔ یہ ویسٹ افریقہ ہے۔ بورکینا فاسو۔ فرنچ علاقہ ہے۔ یہاں بھی گان زُور گُو (Ganzourgou) ایک جگہ ہے۔ وہاں پچھلے سال کی بات ہے کہ پانچ سو بیعتیں ہوئیں جس میں گاؤں کا چیف اور امام بھی بیعت میں شامل ہو گئے۔ آخر ان کے جو دوسرے گاؤں کے علاقے کے قریبی رشتے دار تھے انہوں نے مخالفت شروع کر دی۔ سوشل بائیکاٹ ہو گیا۔ سلام کرنا، میل جول، لین دین یہ سب ختم کر دیا۔ وہاں اس علاقے میں، قصبے میں یا گاؤں میں ایک چھوٹی سی جگہ تھی، جہاں نماز پڑھا کرتے تھے وہاں نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی اور مخالفت بڑھتی چلی گئی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اب یہ جو دور دراز علاقے میں رہنے والے لوگ ہیں اور بظاہر اَن پڑھ کہلاتے ہیں، انہوں نے کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور اپنے ایمان کو سلامت رکھا اور قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اب حالات بہتر کر دئیے ہیں۔ تو ان مخالفتوں میں سے ہر ایک کو گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ میں نے پرانے لوگوں کی مثالیں نہیں دی ہیں۔ بے شمار ایسی مثالیں ہیں۔ یہ تازہ مثالیں اس لئے دی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تیزی سے اپنے فضل سے دلوں میں ایمان بھرتا ہے اور دلوں میں ایمان بھر رہا ہے اور پھر اس کے بعد یہ ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے لوگ ہیں جو احمدیت اور حقیقی اسلام کے پیغام کو سمجھ کر اپنی روحانی زندگی کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ کام سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اپنے ماموروں کے شامل حال ہوتی ہے تو یہ کام ہوتے ہیں۔ مامور کی نہ اپنی ہمت سے ہو سکتا ہے۔ نہ ہی ہمارے مبلغین یا بعد کا نظام جو ہے وہ یہ کر سکتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی تائیدات شامل حال نہ ہوں۔ اور یہ تائیدات ہی ہیں جو قربانی کے لئے تیار کرتی ہیں اور استقامت عطا کرتی ہیں۔ کئی پاکستانی بھی ہیں جو احمدیت قبول کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ان سے مختلف جگہوں پر مختلف ملکوں میں ملاقات بھی ہوئی تو جب بھی میں نے ان سے کہا کہ بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، سختیاں جھیلنی پڑیں گے، پاکستان نہیں جا سکتے یا جاؤ گے، جیسا کہ بعض جاتے بھی ہیں تو مشکلات ہوں گی۔ تو انہوں نے کہا ہم نے بڑی سوچ سمجھ کے قبول کیا ہے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہیں گے۔
یہ تو دنیا کا بھی طریق ہے اور اسی اصل پر دنیا چلتی ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے محنت بھی کرنی پڑتی ہے، قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور بڑے مقاصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ پس دائمی روحانی زندگی کے لئے قربانیاں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ہر قربانی کے لئے تیار رہنے والوں کو بغیر قربانی کے ہی اس قدر نواز دیتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اگر انسان جو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اپنی استعداد کے مطابق معمولی نمونہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنا معمولی نمونہ دکھا کر دوسرے انسانوں کو نواز سکتا ہے تو خدا تعالیٰ جو بڑا دیالو ہے، جو نیتوں کے بھی بیشمار پھل لگاتا ہے اس کے نوازنے کی تو انتہا ہی نہیں ہے۔ انسان کی قربانی اور اس پر انعام کی ایک دنیاوی مثال ہم پیش کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے سنی ہو گی۔ کہاوت ہے کہ ایران کا ایک بادشاہ تھا۔ وہ اپنے وزیر کے ساتھ ایک کسان کے پاس سے گزرا جو درخت لگا رہا تھا۔ عمر کے لحاظ سے وہ ایسے حصے میں تھا جہاں ان درختوں کے پھلوں سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ تو بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں اس درخت لگانے سے کیا فائدہ ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ پہلوں نے جو درخت لگائے تھے، جو قربانیاں کی تھیں ان کو ہم کھا رہے ہیں اور جو ہم لگائیں گے ان کو آئندہ نسلیں کھائیں گی۔ بادشاہ کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی اچھی بات لگتی تو خوش ہو کر وہ زِہْ کہتا تھا۔ جس کا مطلب وزیر کے لئے یہ اشارہ ہوتا تھا کہ اس کو انعام دے دو۔ کسان کی یہ بات سن کر بادشاہ خوش ہوا اور اس نے زِہْ کہا تو وزیر نے اس کو اشرفیوں کی ایک تھیلی دے دی۔ یہ تھیلی لے کر کسان نے کہا کہ اس درخت نے تو لگاتے لگاتے ہی پھل دے دیا۔ اس کا تو ابھی فائدہ شروع ہو گیا۔ یہ بات پھر بادشاہ کو اچھی لگی۔ اس نے یہ سن کر پھر زِہْ کہہ دیا۔ وزیر نے پھر ایک تھیلی دے دی۔ اس پر اس نے کہا کہ درخت تو کئی سالوں میں تیار ہوتا ہے اور پھر ایک دفعہ پھل دیتا ہے۔ میرے درخت نے تو لگاتے لگاتے دو پھل دے دئیے۔ اس پر بادشاہ نے پھر زِہْ کہا اور کہا کہ اب چلو یہاں سے۔ نہیں تو بوڑھا ہمیں لوٹ لے گا۔ تو یہ تو دنیاوی بادشاہوں کا حال ہے جہاں انعاموں سے نوازتے ہیں وہاں خزانے خالی ہونے کا بھی ان کو ڈر رہتا ہے۔ لیکن ہمارا خدا تو وہ انعام دیتا ہے اور دیتا چلا جاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتے اور روحانی زندگی دینے کے بعد پھر دائمی زندگی دیتا ہے اور اس اخروی زندگی میں بھی انعام دیتا چلا جاتا ہے اور بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اس کے حصول کے لئے جیسا کہ یہ بوڑھا کسان قربانی کر رہا تھا قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ایسی قربانیاں جن کا فوری فائدہ نظر نہیں آتا مگر اس کے پیچھے بہت عظیم الشان فوائد ہوتے ہیں۔ انبیاء کے متبعین بھی اسی اصول کے تحت قربانیاں کرتے ہیں اور وہ اور ان کی جماعت دنیا میں پھر کامیاب ہوتے جاتے ہیں۔ اور باقیوں کو خدا تعالیٰ ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں پر کیا کیا ظلم نہیں کئے گئے۔ تقریباً تین صدیوں تک ان پر سخت مظالم ڈھائے گئے مگر وہ صبر سے مظالم برداشت کرتے رہے اور قربانی کرتے چلے گئے حتی کہ تیسری صدی میں جب روما کے بادشاہ نے عیسائیت قبول کی تو پھر ان کو آزادی حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس مشکلات کے دور میں غاروں میں چھپ کر بھی گزارا کیا۔ پس جس طرح عیسائیوں نے پہاڑوں کے غاروں میں چھپ کر اپنے ایمانوں کو سلامت رکھا۔ اپنی روحانی زندگی کو بچانے کے لئے چٹانوں کے پیچھے چلے گئے۔ اس لئے کہ انہیں یقین تھا کہ ایک دن ان کو آزادی ملنی ہے۔ اسی طرح آج مسیح محمدی کے غلاموں کو ان سے زیادہ یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا یہ غلبہ ہونا ہے۔ پس ہم نے بھی جہاں جہاں مشکلات کے دَور ہیں اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنی ہے۔ جو زندگی کا پانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں پلایا اس سے فیض پاتے چلے جانا ہے۔ عیسائیوں نے تو چٹانوں کے پیچھے چھپ کر اپنے ایمانوں کی حفاظت کی اور قربانیاں دیں۔ ہم نے اپنے ایمانوں کو پتھر کی چٹان کی طرح مضبوط کرنا ہے اور یہ ثابت کر کے دکھانا ہے تا کہ وہ انعام اور وہ فیض ہمیشہ جاری رہے۔ کچے ایمان تو پہلے بھی تھے اور بہت سوں میں ہیں۔ ہم نے اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ مامور کا کام نئی زندگی پیدا کرنا ہوتا ہے اور ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور وہ حالت بہر حال ہم نے انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اندر پید اکرنی ہے اور اس حالت کا اظہار اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہوں کہ غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا مقدر ہے اور بحیثیت فرد جماعت اس بات کو ہر ایک سمجھے کہ اس غلبے میں مَیں نے بھی حصہ ڈالنا ہے۔ دنیا کی نجات میرے ذریعہ سے ہونی ہے اور اس کے لئے میں نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود میں نے اپنی زندگی کے بھی سامان کرنے ہیں اور دنیا کی زندگی کے بھی سامان کرنے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں جو دنیا کو زندگی دے سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی فتوحات اور غلبے کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا‘‘ (اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے) ’’اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی۔ اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا۔ پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَا حَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِؤُوْنَ (یٰس: 31) پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اترے‘‘ (جیسا کہ غیر احمدیوں کا نظریہ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں ناں کہ آسمان سے اترنا ہے) ’’اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کرے گا۔ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ ہمارے سب مخالف جو اَب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبے کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰ اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدے سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدے کو چھوڑ یں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘ انشاء اللہ(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20صفحہ 66,67)
آج ہی مَیں ڈاک میں دیکھ رہا تھاکہ ایک جگہ ہمارے لڑکے لیف لٹ تقسیم کرنے گئے۔ غالباً جرمنی کی یا کسی اور ملک کی بات ہے۔ ذہن میں مستحضر نہیں۔ انہی یورپی ملکوں میں سے تھا۔ بہر حال ایک جگہ لیف لٹ تقسیم کر رہے تھے کہ عیسیٰ مسیح آ گیا۔ تو وہاں دو آدمی اپنے گھر کے باہربیٹھے ہوئے تھے وہ کہنے لگے ہم ابھی اسی بات پر ڈسکس (Discuss) کر رہے تھے کہ اگر عیسیٰ نے آنا تھا تو آسمان سے اب تک کیوں نہیں اترا۔ اور اگر نہیں آنا تو پھر کب آئے گا؟ اور اگر زمین سے آنا ہے تو کون آئے گا؟اور اسی ڈسکشن کے دوران ہی تم یہ لیف لٹ لے آئے کہ عیسیٰ علیہ السلام آ چکے ہیں۔ مسیح موعود علیہ السلام آ چکے ہیں۔ اور تمہارا یہ پروگرام ہے، نمائش بھی ہے۔ ہمیں یہ دعوت نامہ مل گیا ہم ضرور آئیں گے۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ نئے نئے راستے کھول رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں خود ڈال رہا ہے کہ وہ اس بات کو سوچیں۔ اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اس پھلنے پھولنے والے درخت کا حصہ بنے رہیں اور ہمارے ایمان مضبوط چٹان کی طرح قائم رہنے والے ہوں اور ہم اپنی ذمہ داریاں ہمیشہ ادا کرتے چلے جانے والے رہیں۔
خدا کی محبت ہی وہ مقام ہے جس سے روحانی حیات ملتی ہے۔
حقیقی روحانی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبّیک کہنا ضروری ہے۔
دنیا کو روحانی زندگی بخشنے کے لئے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور پیروی میں بھیجا ہے۔
آپ کا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کو زندگی دینے آیا ہوں بڑی شان سے پورا ہوا اور ہو رہا ہے۔ لوگوں کو روحانی زندگی اب آپ کے ذریعہ سے ہی مل رہی ہے اور مل سکتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ آپ غالب آئیں گے۔ آپ کے ماننے والے ترقی کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ۔ خلافت کا نظام آپ کے بعد آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے چلتا چلا جائے گا۔ کوئی اور نظام اگر اس کے مقابل پر اٹھے گا تو ناکام و نامراد ہو گا۔
خلافت وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ چھین کر نہیں لیا جاتا۔ ظلم کر کے نہیں حاصل کیا جاتا۔ معصوموں کو زندہ درگور کر کے نہیں حاصل کیا جاتا۔ ظالمانہ طریقے پر قتل کر کے اس نظام پر قبضہ نہیں کیا جاتا۔ یہ تو زندگیاں دینے کا ذریعہ ہے نہ کہ زندگیاں لینے کا۔ جو خدا تعالیٰ کی تائید اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے لوگ ہیں جو احمدیت اور حقیقی اسلام کے پیغام کو سمجھ کر اپنی روحانی زندگی کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ کام سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے ہو ہی نہیں سکتا۔
دائمی روحانی زندگی کے لئے قربانیاں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ہر قربانی کے لئے تیار رہنے والوں کو بغیر قربانی کے ہی اس قدر نواز دیتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا مقدر ہے اور بحیثیت فرد جماعت اس بات کو ہر ایک سمجھے کہ اس غلبے میں مَیں نے بھی حصہ ڈالنا ہے۔ دنیا کی نجات میرے ذریعہ سے ہونی ہے اور اس کے لئے میں نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
فرمودہ مورخہ 15؍اگست 2014ء بمطابق15 ظہور 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔