جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے اہم تربیتی و انتظامی ہدایات
خطبہ جمعہ 29؍ اگست 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج شام کو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ باقاعدہ شروع ہو گا۔ بہر حال یہ جمعہ بھی جلسے کا ایک حصہ ہے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمان ایک نیک مقصد لے کر آتے ہیں اور اس نیک مقصد کے ساتھ ہی آنا چاہئے اور وہ مقصد یہ ہے کہ دین کی حقیقت کا علم حاصل کریں دین سیکھیں روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کریں۔ نیک ماحول کے زیر اثر اپنی فطری نیکی کو پہلے سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو ہم نے عہد کیا ہوا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے اعلیٰ سے اعلیٰ راستوں کی نشاندہی کر کے علم پا کر پھر ان پر چلنے کی کوشش کریں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ پیدا کریں۔ اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر کرنے اور تر رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر پہلے سے اس پر عمل ہو رہا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اس کے لئے کوشش کریں۔ عبادتوں کی طرف توجہ دیں اور انہیں اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جو معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں اور وہ معیار یہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے جنّ و اِنس کی پیدائش کا مقصد عبادت کو قرار دیا ہے۔ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)۔ یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ 414)
غرض کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ اپنے اس سفر کو اور یہاں آنے کے مقصد کو خالصتہً للہی سفر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا مقصد بنائیں۔ اگر یہ نہیں تو جلسہ سالانہ میں تکلیف اٹھا کر اور خرچ کر کے آنے والے اس جلسہ کی غرض و غایت کو پورا کرنے والے نہیں ہوں گے۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی اور اس ذمہ داری کی ادائیگی ہی ان کی اہمیت کو بڑھاتی ہے اور اسی لئے ان کارکنوں کی بھی اہمیت ہے جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا جو اس نیک کام کے کرنے کے لئے آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ بلکہ کارکنوں کا ثواب اور اہمیت تو اس لحاظ سے دوگنی ہو جاتی ہے کہ وہ ایسے مہمانوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہی پروگراموں کو سن کر اس جلسے کے ماحول میں شامل ہو کر اپنی عملی اور اعتقادی زندگی کی بہتری کے سامان بھی کر رہے ہیں۔ پس اس بات کو مہمان بھی اور میزبان بھی، ڈیوٹی والے کارکنان بھی یاد رکھیں کہ یہ تین دن ان کی عملی اور اعتقادی بہتری کی ٹریننگ کا کیمپ ہے۔ پس اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے اپنی تمام تر توجہ اور طاقتوں سے اس میں حصہ لیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنے سامنے جلسے کے وہ مقاصد رکھنے ہیں اور رکھنے چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بیان فرمائے ہیں۔ آپ کی جلسے کی غرض و غایت اپنے ماننے والوں کو اس روحانی ماحول میں رکھ کر ایک ایسا نمونہ بنانا تھا جو دنیا کے لئے قابل تقلید ہو، جس کے پیچھے دنیا چلے۔ آپ نے فرمایا: میرے ماننے والوں کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ394)۔ یعنی انہیں ہر وقت آخرت کی فکر ہو۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ انسان اپنی کوشش سے یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ ہاں اس کے لئے جس حد تک عملی کوشش ہو سکتی ہے کر کے پھر دعاؤں میں لگ جائے کہ اے اللہ دنیا کے مسائل اور روکیں قدم قدم پر میری راہ میں حائل ہیں تُو اپنے فضل سے مجھے اس راستے پر چلا دے جو تیری رضا کا راستہ ہے۔ میرے دل میں اپنا خوف ایسا بھر دے جو ایک پیارے اور اپنے محبوب کے لئے ہوتا ہے۔ کسی ظلم کی وجہ سے وہ خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کہیں میرا کوئی عمل تیری ناراضگی کا موجب نہ بن جائے۔ میرا ہر قدم ان نیکیوں کی طرف اٹھے جن کے کرنے کا تُو نے حکم دیا ہے اور میری سوچ ہر اس بات سے نفرت کرتے ہوئے اسے اپنے دماغ سے نکالنے والی ہو جس کے نہ کرنے کا تُو نے حکم دیا ہے۔ مَیں تقویٰ پر چلتے ہوئے حقوق العباد بھی ادا کرنے والا بنوں اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف بھی ہر وقت میری توجہ رہے اور مَیں اس چیز کو حاصل کرنے والا بن جاؤں جو تُو نے میری زندگی کا مقصد قرار دیا ہے یعنی عبادت اور عبادت کا بھی وہ معیار حاصل کرنے والا بن جاؤں جو تُو اپنے بندوں سے چاہتا ہے۔ اخلاق فاضلہ میں بھی ایک ایسا نمونہ بن جاؤں جس کی تقلید کرنا لوگ فخر سمجھیں۔ پس اس جلسے میں شامل ہو کر اپنی دعاؤں اور سوچوں کے یہ دھارے بنانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر بڑا احسان ہے کہ جہاں اس نے قرآن کریم میں ہمیں عبادتوں کے طریق بتائے، اس کے معیار حاصل کرنے کے راستے دکھائے، وہاں اخلاق فاضلہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کی بھی نشاندہی فرمائی۔ اعلیٰ اخلاق کا حاصل کرنا اور اس کا مظاہرہ کرنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ آپ نے اس معیار کا ایک جگہ یوں ذکر فرمایا کہ:
’’مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جبتک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔‘‘ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ395) یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ معیار حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں ہے بہت سے ہیں جو دوسروں کے آرام کا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنے وسائل کے لحاظ سے اگر اپنے آرام کو قربان کئے بغیر یہ خیال رکھ سکیں تو رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی اپنے آرام پر دوسروں کے آرام کو ترجیح دے۔ خونی رشتوں میں بھی لوگ بعض دفعہ ایسی قربانی دے دیتے ہیں کہ اپنے آرام کو قربان کر دیتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور ہر ایک کے لئے اس معیار کی قربانی بہت مشکل ہے۔ بلکہ دوسروں کے آرام کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ دوسروں کی تکلیف کو جب تک اپنی تکلیف کی طرح نہیں سمجھتے حقیقی مومن نہیں بن سکتے۔ یہ الفاظ میرے ہیں مفہوم یہی ہے۔ آپ نے فرمایا اگر میرا بیمار بھائی تکلیف میں مبتلا ہے اور میں آرام سے سو رہا ہوں تو میری حالت پر حیف ہے۔ میرا فرض بنتا ہے کہ جہاں تک میرا بس چلے اس کے آرام کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کروں۔ اگر کوئی دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے سخت گوئی کرے تو تب بھی میری حالت پر افسوس ہے کہ میں دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں۔ میرا کام یہ ہے کہ میں صبر کا مظاہرہ کروں اور اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کہ یہ روحانی طور پر بیمار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کرے۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ396)
پس یہ وہ معیار ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے دین میں، قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (الفتح: 30) کہ مومن آپس میں رحم کے جذبات رکھتے ہیں اور رحم کے جذبات کی وجہ سے ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور درد کو محسوس کر کے اس کے لئے عملی کوشش بھی کرتے ہیں اور دعائیں بھی کرتے ہیں۔ پس ہمیں جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم اس پر عمل کرنے لگ جائیں تو جتنے چھوٹے بڑے جھگڑے ہمارے ہوتے ہیں یہ سب ختم ہو جائیں۔ ذاتی اناؤں کا وہیں سوال پیدا ہوتا ہے، بُغض اور غصّہ وہیں بھڑکتا ہے جب تقویٰ نہ ہو۔ جب خدا تعالیٰ کا خوف نہ ہو۔ جب ذاتی مفادات کو دوسروں کے مفادات پر ترجیح دی جا رہی ہو۔ پس یہ تقویٰ پیدا کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔ ہر اس شخص کا فرض ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ہر اس شخص کا فرض ہے جو جلسے میں شامل ہو رہا ہے۔ کیونکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی دعاؤں کا وارث بننا ہے، جلسے کی برکات سے فیض اٹھانا ہے تو تمام جھگڑوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے قدم قدم پر رہنمائی مل جاتی ہے۔ اسلام کی حقیقت اور تقویٰ کا پتا چل جاتا ہے۔ ان بکھرے ہوئے مسلمانوں کی طرح نہیں ہیں جن کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کس کے پیچھے چلیں اور کس کے پیچھے نہ چلیں۔ جن کی غلط رہنمائی کر کے ان کے نام نہاد لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں نے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر ان کو لگا دیا ہوا ہے۔ پس ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے غضب کا موردنہ بنیں۔ اسلام کا غلط تصور دنیا کے سامنے رکھ کر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے نہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ماننے والوں کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر مسلمان اور ہر سلامتی دینے والا بلا تخصیص محفوظ رہے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ یَدِہٖ حدیث نمبر10) اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں کھول کر بتایا کہ حقیقی مسلمان سے نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے مذہب کے ماننے والے بھی امن اور سلامتی میں رہتے ہیں۔ قرآن کریم نے جن اعلیٰ اخلاق کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے چند ایک مَیں بیان کرتا ہوں۔ پہلی بات کہ کیوں تم میں اعلیٰ اخلاق ہونے چاہئیں؟ فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران: 111) کہ تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔
پس ایک مومن کی نشانی یا اُمّت مسلمہ کا فرد ہونے کی نشانی یہ ہے کہ نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور بدی سے روکنے والے ہوں۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے ہوں اور نقصان سے بچانے والے ہوں۔ کاش یہ بات مسلمان سمجھ جائیں اور اپنے فرض کو نبھانے کی کوشش کریں۔ غلط رنگ میں اسلام کے نام پر انسانیت کا خون کرنے کے بجائے، اسلام کے حسن کو دنیا کو دکھائیں۔ ان لوگوں نے یا کم از کم ان کے لیڈروں نے تو مسیح موعود کا انکار کر دیا ہے۔ اس واسطے نہ یہ رہنمائی کر سکتے ہیں اور جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانتے کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا نہ ہے۔ اس بات کو یہ نہیں سمجھتے۔ آج خیرِ اُمّت بن کر اس فرض کی ادائیگی کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ تو یہ بھی ایک مومن کی خصوصیت ہے کہ وہ غرباء کا خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔ اپنے اموال معاشرے کے ضرورتمند اور محروم لوگوں پر خرچ کرنے والا ہو۔ احسان جتا کر نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ان کی خدمت کرنے والا ہو۔
یہاں اس بات کا بھی ذکر کر دوں کہ عام طور پر مسلمانوں کی برائیاں تو سب کو نظر آ جاتی ہیں اور اس کا چرچا بھی خوب ہوتا ہے۔ تو اگر کوئی خوبی ہے تو خوبیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ گزشتہ دنوں ایک سروے ہوا جو یہیں کے لوگوں نے کیا، کسی مسلمان نے نہیں کیا کہ دنیا میں صدقہ و خیرات اور چیریٹی دینے والے کون لوگ ہیں جو زیادہ ہیں؟ تو یہ بات سامنے آئی کہ خدا تعالیٰ کو ماننے والے، کسی مذہب کو ماننے والے، لا مذہبوں اور خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والوں کی نسبت زیادہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے آپس کے موازنے میں بھی یہ بات پتا لگی کہ مسلمان صدقہ و خیرات دوسروں سے زیادہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ نیکی صدقہ و خیرات کے حکم کی وجہ سے ہے۔ خدا کرے کہ یہ لوگ باقی نیکیاں بھی اپنانے والے بن جائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ جلسے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب بے شمار لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو بعض ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں تو ایسے وقت ایک حقیقی احمدی کا یہ کام ہے کہ اپنی ضرورت کو دوسروں کے لئے قربان کرے اور محبت و ایثار کا نمونہ دکھائے۔ نہ صرف قربان کرے بلکہ اس نمونے میں محبت و ایثار بھی ٹپک رہا ہو۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ394-395)
پھر اللہ تعالیٰ کو عاجزی بہت پسندہے۔ ایک مومن کو عاجزی کی تلقین کی گئی ہے۔ جب بہت سارے لوگ اکٹھے ہوں تو بعض دفعہ بہت سے مسائل معاشرے میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ تکبّر ان مسائل کو حل کرنے سے روک رہا ہوتا ہے۔ ایک احمدی کو تو خاص طور پر عاجزی اختیار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اس وصف کو خاص طور پر بڑا سراہا ہے اور فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں۔ (تذکرہ صفحہ595 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) پس جب ہم آپ کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان اوصاف کو اپنانے کی طرف بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح حُسن ظنّی ہے۔ سچائی ہے۔ سچائی کا اظہار ہے۔ اور ہر حالت میں سچائی کا اظہار ضروری ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ سچائی کا ایسا معیار ہو اور انصاف کا ایسا معیار ہو کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے پیاروں کے خلاف بھی بات جاتی ہو تو کرو لیکن سچائی کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو۔ معاف کرنا ہے، صبر کرنا ہے، یہ سب قسم کی نیکیاں ہیں جو ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئیں۔ اور ان کا اظہار ایسے موقعوں پر ہی ہوتا ہے جب بہت سارے لوگ جمع ہوں اور بعض ایسی باتیں ہو جائیں جن کی وجہ سے انسان کے اخلاق کا پتا لگتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو قرآنی تعلیم کی روشنی میں خاص طور پر ان کو اپنانے کا ارشاد فرمایا ہے۔
پھر عدل اور احسان کے معیار حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور عدل اور احسان کے جیسے معیار قرآن کریم نے قائم فرمائے ہیں کسی اور کتاب نے ایسے معیارقائم نہیں فرمائے کہ دشمن کی دشمنی بھی تمہیں عدل اور انصاف کرنے سے نہ روکے۔ یہ ہیں وہ معیار جو اسلام کا خاصّہ ہے اور ایک مسلمان کا خاصّہ ہے اور ہونا چاہئے۔ اور ان تمام نیکیوں کو اپنانے کا ہمیں حکم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جلسے میں کثرت سے لوگ آتے ہیں تو پھر وہ اخلاق فاضلہ کی ادائیگی کا حقیقی رنگ میں اظہار کریں اور اخلاق فاضلہ کی ادائیگی کا تبھی پتا چلتا ہے جب یہ اظہار ہو رہا ہو۔ جب لوگ اکٹھے ہوں اور اگر اخلاق کے اعلیٰ معیار کا اظہار ہو رہا ہو تو ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کے پیش کرنے والے بن جاتے ہیں۔ یہی نمونے ہیں جو احمدیت کی تبلیغ کا بھی باعث بن رہے ہوتے ہیں اور اخلاق کے یہ نمونے دکھانا ہی ایک احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے۔ بہت سے لوگ ان اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر ہی جماعت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ آپ میں سے بھی کئی ہوں گے جن کے بزرگ جلسے کی برکات کی وجہ سے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ آپ کے بزرگوں کے نمونوں سے ہی بہت سوں کو حق کو پہچاننے کی توفیق بھی ملی ہو گی بلکہ یہاں بیٹھے ہوئے بھی ایسے لوگ ہوں گے جن کے رویوں کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت ملی ہو گی۔ دنیا کے کئی ممالک سے یہ رپورٹس آتی ہیں کہ لوگ جلسے میں شامل ہوئے اور شامل ہونے والے یہ کہتے ہیں کہ جلسے کے نیک اثر کی وجہ سے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا بھی پتا چلا۔ لوگوں کے آپس کے تعلقات کی وجہ سے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا بھی پتا چلا۔ پر امن فضا کو دیکھ کر ہمیں پتا لگا کہ اتنا ہزاروں کا مجمع بھی کس طرح پُر امن رہ سکتا ہے۔ اور حتی کہ بعض دینی رہنما بھی یا افریقہ میں بعض ممالک میں جن کی طرف سے پہلے مخالفت تھی، کسی طرح، کسی ذریعہ سے ان کو جب جلسے پر لایا گیا تو نہ صرف مخالفت سے رک گئے بلکہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ تو یہ مخالف لوگ بھی اثر لیتے ہیں۔ ابھی دو مہینے پہلے جرمنی میں بھی جلسہ ہوا۔ اس میں ایک ہمسایہ ملک سے ایک غیر مسلم جوڑا میاں بیوی آئے ہوئے تھے جو اسلام کے مخالف بھی تھے یا کم از کم ان پر اسلام کا اچھا اثر نہیں تھا۔ احمدیوں سے کچھ واقفیت تھی۔ انہوں نے کہا کہ جا کے دیکھیں، احمدی بڑا شور مچاتے ہیں کہ اسلام بڑا پُر امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا سچائی ہے۔ زیادہ نیّت ان کی یہی تھی کہ جا کر اعتراض کریں گے اور کوئی اثر نہیں لیں گے۔ لیکن جلسے کے ماحول کو دیکھ کر اس کے بعد ان کی ملاقات بھی ہوئی، ان کی ایسی کایا پلٹی کہ انہوں نے بیعت کر لی۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جب بیعت لی جا رہی ہوتی ہے تو بیعت کا نظارہ ایسی صورت پیدا کر دیتا ہے کہ غیر ارادی طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی ہم بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے نمونے مختلف ہوں یا ہم میں سے اکثریت کے نمونے مختلف ہوں تو وقتی بیعت کا نظارہ ان لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا۔ یا کسی بھی قسم کی نیکی کا عارضی نظارہ وہ حالت پیدا نہیں کر سکتا جو دل کو کھینچنے والی ہو۔ پس جلسے میں شامل ہونے والا ہر شخص خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو مَیں نے کارکنوں کے حوالے سے بات کی تھی کہ ان کے عمل خاموش تبلیغ ثابت ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صرف کارکنان ہی نہیں بلکہ جلسے میں شامل ہونے والا ہر شخص مبلغ ہوتا ہے، دوسروں کو متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ پس(جلسہ میں) شامل ہونے والے ہر فرد، مرد عورت بچے بوڑھے کا فرض ہے کہ اپنے نمونے ایسے بنائے کہ توجہ کھینچنے والے ہوں اور یہ نمونے عارضی نہ ہوں بلکہ ہمیں اپنی حالتوں میں، اپنے اندر مستقل ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں حقیقی مسلمان بنائے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اہمیت اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم جلسے سے حقیقی فیض اٹھا سکیں۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے بارے میں ایک مسلمان کو یہ بھی حکم ہے کہ سلامتی کا پیغام پہنچائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تَقْرَءُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَن لَّمْ تَعْرِف کہ ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب افشاء السلام من الاسلام حدیث نمبر 28) یہ ایک ایسا حکم ہے اور نسخہ ہے کہ اگر اس پر اس کی روح کو سمجھتے ہوئے عمل کیا جائے تو دنیا کے فسادوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جب انسان ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دے رہا ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دل میں بغض، کینہ، نفرت یا تکبر کے جذبات ابھریں۔ شرط یہ ہے کہ دل سے آواز نکل رہی ہو۔ اگر یہ برائیاں نہ ہوں تو پھر اس بات کا بھی سوال نہیں کہ معاشرے میں کسی قسم کا فساد ہو۔
پس سلامتی کے پیغام کو بہت وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اسلام نے وسعت دے دی کہ صرف اپنوں اور اپنے جاننے والوں کے لئے یہ پیغام نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو یہ پیغام دو۔ پس جلسے پر آنے والے ہر شخص کو جہاں اس بات کی پابندی کرنی چاہئے، یہ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اس ماحول میں ایک دوسرے پر اس قدر سلامتی بکھیریں کہ پورا ماحول سلامتی بن جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور سلامتی کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔ بعض انتظامی باتیں بھی مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں گو اس بارے میں نسبتاً پہلے بھی کافی توجہ ہے لیکن پھر بھی یاددہانی کے لئے کہنا چاہتاہوں۔ خاص طور پر وہ مرد جن کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے تو عموماً ماؤں کے ساتھ ہوتے ہیں، آٹھ نو سال کے بچے جو مردوں کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ اتنے چھوٹے نہیں ہوتے کہ ان کو بہلانے کے لئے مرد باہر نکل جائیں اور جلسہ کی کارروائی کے دوران ان بچوں کو کھیلنے کی اجازت دیں۔ اس طرح تو بچوں میں کبھی بھی جلسے کا احترام پیدا نہیں ہو گا۔ سات سال کے بعدنماز کی یقین دہانی کی طرف توجہ اس لئے ہے کہ بچہ ہوش میں ہوتا ہے۔ اس لئے ان کو بتانا چاہئے کہ تم ایک مقصد کے لئے آئے ہو تو ابھی سے سیکھو۔ بچپن سے اگر ٹریننگ نہیں دیں گے تو پھر بڑے ہو کر بھی جلسے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہے گا۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ ان بچوں کا بہانا بنا کر باپ بھی باہر پھرتے رہتے ہیں، پھر شکایتیں آتی ہیں، بچے کھیل رہے ہوتے ہیں اور جلسے کا ایک غلط تاثر پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔
اسی طرح شکایتیں ہوتی ہیں کہ عورتیں بھی جلسہ کی کارروائی سننے کی بجائے باہر بیٹھ کر باتیں کر تی رہتی ہیں۔ انہیں بھی چاہئے کہ جلسے کی تقریریں سنیں کیونکہ ہر مقرر جو یہاں تقریر کرتا ہے اس کی تقریر علم اور روحانیت کے بڑھانے میں مددگار ہوتی ہے۔ کوئی احمدی مقرر قرآن حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے کلام سے باہر کوئی بات نہیں کرتا اور یہی آج وقت کی ضرورت ہے۔ پس اس بات کی اہمیت کو سمجھیں اور جلسے کی حاضری کو صرف شامل ہو کے نہ بڑھائیں بلکہ اندر بیٹھ کر، سن کر اس جلسے کا صحیح فائدہ اٹھائیں۔ پس یہ بھی نہیں کہنا چاہئے جو بعض کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کی تقریر سنیں گے اور فلاں کی نہیں۔ یا ہم نے پہلے سن لی۔ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ ہر مقرر تیاری کر کے آتا ہے، ان کی تقریروں کو سننا چاہئے۔ جلسے پر آئے ہیں تو جلسے کی مکمل کارروائی سننے کی کوشش کریں۔ چھوٹے بچوں کی ماؤں کے لئے جو علیحدہ مارکی ہے وہاں سے بھی شکایت آتی ہے کہ بچوں کے شور کم ہوتے ہیں اور بچوں کے شور کے بہانے عورتیں آپس میں زیادہ باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے اس طرف لجنہ کی انتظامیہ کو بھی اور عورتوں کو خود بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر عورتیں خود خاموش ہو جائیں تو صرف بچوں کا جو شور ہوتا ہے اس میں بہت ساری ایسی عورتیں ہوتی ہیں جن کے کانوں میں کچھ نہ کچھ تقریروں کی آواز پڑ رہی ہوتی ہے اور کچھ نہ کچھ ان کے لئے فائدہ مند ہو جاتا ہے۔ پس اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
کارکنوں کو مَیں دوبارہ یاددہانی کروانا چاہتا ہوں جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اپنے فرائض کو احسن رنگ میں انجام دینے کے لئے پوری طرح توجہ دیں۔ کسی بات کو معمولی نہ سمجھیں، کسی کام کو معمولی نہ سمجھیں۔ سکیورٹی والوں کے لئے بھی جہاں خوش اخلاقی ہے وہاں ہر چیز پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی بات کو بھی معمولی نہ سمجھیں اور سکیورٹی کارکنان کے علاوہ بھی جو دوسرے کارکنان ہیں وہ بھی ہوش و حواس کے ساتھ اپنے چاروں طرف نظر رکھیں۔ اور اسی طرح تمام شامل ہونے والے بھی، ہر احمدی ہماری سکیورٹی ہے۔ ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ اپنے ماحول پہ نظر رکھے اور کوئی بھی ایسی قابل توجہ بات دیکھیں تو فوراً انتظامیہ کو بتائیں۔ پھر داخلے کے وقت یا باہر نکلتے وقت جو رَش کے وقت ہوتے ہیں بعض دفعہ وہاں بھی بڑے صبر اور تنظیم کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح رَش کے دوران سکیورٹی کانشس بھی ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسے موقعوں پر بھی بعض دفعہ بعض واقعات ہو جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کریں۔ پھر ڈیوٹی کے کارکنان جو ہیں ان کی جو بھی ہدایت ہے اُسے شامل ہونے والے بغیر برا منائے مانیں، قطع نظر اس کے کہ ہدایت دینے والا بچہ ہے یا بڑا۔ اگر وہ اپنے فرائض ادا کر رہا ہے تو اس کو اہمیت دیں اور اس کی بات مانیں۔ پروگرام جو شائع ہوا ہے اس میں بھی ساری ہدایات درج ہیں یا کم از کم بہت ساری ہدایات درج ہیں اس لئے ان کو پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں۔ پھر ایک شکایت بعض دفعہ یہ بھی آ جاتی ہے جس کا بجائے اس کے کہ جلسے کے بعد ذکر کیا جائے پہلے ہی ضروری ہے کہ اپنے کارڈ کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال ہر ایک کا فرض ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی واقف کار ہے اس کو اپنا کارڈ دے دیا۔ جس جس جگہ بیٹھنے اور جانے کے لئے اس کارڈ کی accessہے وہیں استعمال ہو سکتا ہے اور اسی شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لئے اپنے کارڈ کسی بھی اپنے دوست یا واقف کار یا قریبی کو نہیں دینے۔ جو جس کا کارڈ ہے وہ استعمال کرے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسے کو بابرکت فرمائے اور جس کی جتنی جتنی توفیق ہے وہ روزانہ صدقہ بھی دے سکتا ہے بلکہ دینا چاہئے اور دے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو بابرکت فرمائے اور ہم تمام برکات سمیٹنے والے بھی بنیں۔
جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمان ایک نیک مقصد لے کر آتے ہیں اور اس نیک مقصد کے ساتھ ہی آنا چاہئے اور وہ مقصد یہ ہے کہ دین کی حقیقت کا علم حاصل کریں۔ دین سیکھیں۔ روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کریں۔ نیک ماحول کے زیر اثر اپنی فطری نیکی کو پہلے سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو ہم نے عہد کیا ہوا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے اعلیٰ سے اعلیٰ راستوں کی نشاندہی کر کے، علم پا کر پھر ان پر چلنے کی کوشش کریں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ پیدا کریں۔ اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر کرنے اور تر رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر پہلے سے اس پر عمل ہو رہا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اس کے لئے کوشش کریں۔ عبادتوں کی طرف توجہ دیں اور انہیں اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جو معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں۔
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ اپنے اس سفر کو اور یہاں آنے کے مقصد کو خالصتہً للّہی سفر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا مقصد بنائیں۔ اگر یہ نہیں تو جلسہ سالانہ میں تکلیف اٹھا کر اور خرچ کر کے آنے والے اس جلسہ کی غرض و غایت کو پورا کرنے والے نہیں ہوں گے۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی دعاؤں کا وارث بننا ہے، جلسے کی برکات سے فیض اٹھانا ہے تو تمام جھگڑوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
جلسے پر آنے والے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس ماحول میں ایک دوسرے پر اس قدر سلامتی بکھیریں کہ پورا ماحول سلامتی بن جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور سلامتی کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے احباب کے لئے بعض نہایت اہم تربیتی و انتظامی ہدایات۔
فرمودہ مورخہ 29؍اگست 2014ء بمطابق29 ظہور 1393 ہجری شمسی، بر موقع جلسہ سالانہ یوکیبمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔