حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ
خطبہ جمعہ 14؍ نومبر 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج بھی میں حضرت مصلح موعودؓ کے بیان کردہ کچھ واقعات بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی زندگی کے بھی بعض پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کا تھا تو میں نے مصمّم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو مَیں گھر سے نکل جاؤں گا مگر مَیں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا۔ حتی کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا۔ (سوانح فضل عمرجلد اوّل صفحہ 96)
پھر آپ نے بتایا کہ ’’جب میں نے دستی بیعت کی تو میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر دس سال کی عمر میں ایسی حرکت پیدا ہوئی کہ جو بیان نہیں کی جا سکتی‘‘۔ (ماخوذ ازیاد ایام۔ انوار العلوم جلد8صفحہ 365)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کی طرف (اشارہ کرتے ہوئے) کہ کس طرح وہ دعاؤں کی ترغیب دیا کرتے تھے، بچپن میں ہی دعاؤں کی طرف توجہ دلایا کرتے تھے، encourage کیا کرتے تھے۔ ایک جگہ آپ بیان کرتے ہیں کہ: ’’خدا کا فرستادہ مسیح موعود علیہ السلام جسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ۔ جس سے وعدہ تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا سوائے ان کے جو شرکاء کے متعلق ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے موقع پر مجھے جس کی عمر صرف نو سال کی تھی دعا کے لئے کہتا ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو نو سال کی عمر میں دعا کے لئے کہتے ہیں۔ ) گھر کے نوکروں اور نوکرانیوں کو بھی کہتے ہیں کہ دعائیں کرو۔ پس جب وہ شخص جس کی سب دعائیں قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا تھا دوسروں سے دعائیں کرانا ضروری سمجھتا ہے …‘‘ (خطبات محمود جلد 14صفحہ131-132) (تو پھر باقیوں کو کتنا اس طرف توجہ دینی چاہئے۔) یہ جو الہام ہے اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ۔ اس کا شاید بعضوں کو پتا نہ ہو۔ یہ آپ ایک مقدمے کے بارے میں دعا کر رہے تھے جو آپ کے شرکاء یعنی بعض قریبیوں نے آپ کی، آپ کے خاندان کی جائیداد میں حصہ دار بننے کے لئے کیا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم ان کی طرف سے، اپنے خاندان کی طرف سے یہ مقدمہ لڑ رہے تھے۔ دوسری طرف ایک گورنمنٹ کے افسر بھی تھے جو اُن کے عزیزوں میں سے بھی تھے۔ بہرحال مرزا غلام قادر صاحب کو یہ یقین تھا کہ مقدمہ ہمارے حق میں ہو گا۔ جائیداد ہمارے قبضے میں ہے اور پشتوں سے ہمارے قبضے میں ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تو آپ کو یہ الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ساری دعائیں قبول کروں گا مگر جو شرکاء کے متعلق ہیں یہ نہیں۔ اس پر آپ نے اپنے خاندان کو کہا کہ بلا وجہ وکیلوں پہ، مقدموں پہ رقم نہ ضائع کرومقدمہ ہار جاؤ گے۔ لیکن آپ کے بھائی کو بڑا یقین تھا۔ بہرحال لوئر کورٹ میں مقدمہ کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی کے حق میں ہوا۔ پھر دوبارہ اپیل ہوئی چیف کورٹ میں اور چیف کورٹ میں یہ مقدمہ ہار گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ یہ مقدمہ جیتتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا تھا۔ (ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 254-255)
یہاں دعاؤں کے حوالے سے آگے ایک اَور بات بھی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی۔ لیکن وہ بات آپ ڈاکٹروں کو سمجھا رہے تھے۔ یہاں تو ڈاکٹروں کی ٹیم بیٹھ جاتی ہے اگر کوئی ایسا سنجیدہ معاملہ ہو۔ اب پاکستان میں بھی یا دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح صورتحال ہے۔ لیکن بعض دفعہ بعض ڈاکٹر جو ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی مریض کا علاج کر رہے ہیں تو ہمارا ہی علاج ہونا چاہئے۔ کسی اور مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت سارہ بیگم صاحبہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی اہلیہ تھیں ان کے بچہ کی پیدائش کے وقت ان کی وفات بھی ہو گئی تھی اس وقت کے بارے میں آپ نے بیان کیا کہ ڈاکٹروں کو چاہئے کہ مشورہ کرتے۔ اگر اس صورت میں مشورہ ہوتا تو شاید ایک جان بچائی جا سکتی تھی۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی اللہ تعالیٰ نے تمام دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ دوسروں کو دعا کے لئے بھی کہتے تھے تو باقی لوگ جو ہیں انہیں اپنے اپنے پیشے میں اگر کہیں مشورے کی ضرورت ہو اور دعاؤں کی ضرورت ہو تو ضرور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14صفحہ 131-132)
اپنے بارے میں ایک اور بات بیان فرماتے ہیں ’’ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر اس سفر میں کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کسی ہندو پنشنر سیشن جج کی آمد کی خبر دینے آئے جو بغرض ملاقات آئے تھے۔ آپؑ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے اس وقت ان سے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں مگر محمود بھی بیمار ہے۔ مجھے اس کی بیماری کا زیادہ فکر ہے۔ آپ اس کا توجہ سے علاج کریں‘‘۔ (اصلاح نفس۔ انوار العلوم جلد5صفحہ 456)
اپنی بیماری کو بھول گئے اور آپ کو پتا تھا کہ یہ بیٹا جو ہے مصلح موعود بننے والا ہے اس لئے آپ کو فکر ہوئی۔
دیوار کا ایک مقدمہ بڑا مشہور مقدمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں لڑا گیا جس میں آپ کے خاندان کے مخالفین نے مسجد کے راستے پہ دیوار کھڑی کر دی اور راستہ بند کر دیا۔ اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں بچہ تھا لیکن مجھے خوب یاد ہے کہ یہاں ہمارے ہی بعض عزیز راستہ میں کیلے گاڑ دیا کرتے تھے تا کہ جب مہمان نماز پڑھنے آئیں تو رات کی تاریکی میں ان کیلوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا اور اگر کِیلے اکھاڑے جاتے تو وہ لڑنے لگ جاتے۔ اسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ مسجد مبارک کے سامنے دیوار مخالفوں نے کھینچ دی تھی۔ بعض احمدیوں کو جوش بھی آیا اور انہوں نے دیوار کو گرا دینا چاہا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرنا ہے۔ پھر مجھے یاد ہے میں بچہ تھااور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رؤیائے صادقہ ہوا کرتے تھے۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو چکی ہے۔ اسی حالت میں مَیں نے دیکھا (خواب میں) کہ مسجد کی طرف سے حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) جب مقدمے کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہٖ ایسا ہی ہوا۔ اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جا رہی تھی۔ مَیں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا مَیں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا۔ میاں دیکھو آج تمہارا خواب پورا ہو گیا۔‘‘ (خطبات محمود جلد15صفحہ 206-207)
پھر آپ اسی دَور کی بات کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مخالفین نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور آپ علیہ السلام کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کر لوگوں کو مسجد میں لاتے۔ (یعنی گھر کے اندر سے گزار کے لانا پڑتا تھا) اور کئی لوگ اوپر سے ہو کر آتے (لمبا چکر کاٹ کر)۔ سال یا چھ ماہ تک یہ راستہ بند رہا۔ آخر مقدمہ ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ دیوار گرائی گئی۔‘‘ (خطبات محمود جلد20صفحہ 574-575)
اب جو قادیان جانے والے ہیں وہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کشادہ راستے وہاں بنا دئیے گئے ہیں۔ بچوں کی دلداری کے بارے میں ایک جگہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اپنے بچپن کی بات یاد ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہو کر فرمایا کرتیں کہ اس کا سر بہت چھوٹا ہے (یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کا۔) تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ کوئی بات نہیں۔ راٹیکین جو بہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی بہت چھوٹا سا تھا‘‘۔ آپ کہتے ہیں کہ ’’بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ عقلمند ہیں۔ جو شخص اپنی اولاد کو علم اور عرفان سے محروم کرتا ہے اور اس کا سر اگرچہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے۔ جس شخص کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے کہ خدا اور رسول کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ وہ عرفان کیسے حاصل کر سکتا ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد2صفحہ174)۔ پس اصل چیز جو ہمیں چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے احکامات کو سمجھیں، ان پر غور کریں اور ان کی ذات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم کو سمجھیں۔ اور یہی حقیقت ہے جس سے دماغ روشن ہوتے ہیں۔ حکومت کی وفاداری کے بارے میں آپ ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب میں بچہ تھا اور ابھی میں نے ہوش ہی سنبھالا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے گورنمنٹ کی وفا داری کا میں نے حکم سنا اور اس حکم پر اس قدر پابندی سے قائم رہا کہ میں نے اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس بارے میں اختلاف کیا۔ حتی کہ اپنے جماعت کے لیڈروں سے اختلاف کیا‘‘۔ (خطبات محمود جلد15صفحہ323)
بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ بحث کریں کہ فلاں کام کی وجہ سے ہمیں حکومت کا حکم نہیں ماننا چاہئے۔ سوائے اس کے کہ جہاں شرعی روکیں ڈالنے کی حکومت کوشش کرے، باقی نہیں۔ پھر اس کو آپ آگے ایک جگہ مزید کھول کے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ انگریز قوم کے افراد بہت نیک اور اسلام کی تعلیم کے قریب ہیں۔ ان میں بھی ظالم، غاصب، فاسق، فاجر اور ہر قسم کا خبث رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور دوسری قوموں میں بھی (ہیں )۔ ان میں اچھے لوگ ہیں اور دوسری قوموں میں بھی (ہیں )۔ جو چیز رحمت ہے وہ یہ ہے کہ یہ حکومت افراد کی آزادی میں بہت کم دخل دیتی ہے۔ اور وہ جن جن معاملات میں دخل نہیں دیتی ان میں اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کا ہمارے لئے موقع ہے۔ پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسی قوم کو ہم پر مقرر کیا۔ (یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی کہ جو افراد کے معاملات میں بہت کم دخل دیتی ہے…‘‘۔
ابھی گزشتہ دنوں ہماری یہاں کانفرنس ہوئی۔ وہاں ایک پریس کی رپورٹر نے مجھے کہا کہ یہاں بھی وہی حالات ہیں۔ اس کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ مذہب کے معاملے میں یہ حکومت دخل نہیں دیتی۔ اس لئے حالات تو ہم کہہ ہی نہیں سکتے کہ پاکستان جیسے یا کسی اور ایسے ملک جیسے یہاں حالات ہوں جہاں احمدیت پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ بہرحال آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہو سکتا ہے کہ اگر ناٹسی یا فیشسٹ لوگ ہم پر حکمران ہوتے تو وہ دوسرے معاملات میں انگریزوں سے بھی اچھے ہوتے۔ ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والے اور زیادہ عدل کرنے والے ہوتے مگر انفرادی آزادی وہ اتنی نہ دیتے جتنی انگریزوں نے دی ہے۔ وہ اشخاص کے لحاظ سے تو اچھے ہوتے مگر سلسلے کے لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہوتے۔ (یعنی کسی شخص کے تعلقات کے بارے میں ہو سکتا ہے کہ اچھے ہوتے لیکن بحیثیت مجموعی جماعت کے لحاظ سے وہ مضر ہوتے۔) اور اس کے یہ معنی ہوتے کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو جاتی اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کا دائرہ ہمارے لئے بہت ہی محدود ہوتا اور اسلامی احکام میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے جن کو ہم قائم کر سکتے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی معنوں کے لحاظ سے انگریزی حکومت کو رحمت قرار دیا ہے‘‘۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں ناں انگریزوں کا خود کاشتہ پودا تو فرمایا اس لئے رحمت قرار دیا ہے اور اس قوم کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے آزادی دی ہے۔ ’’آپ کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز انصاف زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کوئی دوسری حکومت اس سے بھی اچھی ہو۔ قابل تعریف بات یہی ہے کہ اس قوم کے تمدن کا طریق یہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو انفرادی معاملات میں دخل اندازی کے اختیارات نہیں دئیے‘‘۔ (الفضل 21 جنوری 1938ء صفحہ4 جلد26 نمبر17)
قلم کے جہاد کے بارے میں آپ نے ایک ارشاد فرمایا کہ ’’انبیاء کا دل بڑا شکرگزار ہوتا ہے۔ ایک معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں جب دن رات چھپتیں تو باوجود اس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے لیکن جب کوئی شخص رات کو پروف لاتا تو اس کے آواز دینے پر خود اٹھ کر لینے کے لئے جاتے (یعنی کتابت ہو کر آتی تو خود لینے کے لئے جاتے) اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جَزَاکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاَء۔ اس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے۔ یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ خدا ان کو جزائے خیر دے۔ حالانکہ آپ خود ساری رات جاگتے رہتے تھے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سویا اور جب کہیں آنکھ کھلی تو کام کرتے ہی دیکھا حتی کہ صبح ہو گئی۔ دوسرے لوگ اگرچہ خدا کے لئے کام کرتے تھے لیکن آپ (علیہ السلام) ان کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انبیاء کے دل میں احسان کا بہت احساس ہوتا ہے۔ (الفضل 19اگست 1916ء صفحہ 7جلد 4نمبر13)
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے ادب اور آپ کے مقام کا کس قدر لحاظ رکھتے تھے، خیال رکھتے تھے اور اس کے لئے کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں اور یہ واقعہ بیان کر کے آپ نے توجہ دلائی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو اسلامی اخلاق اور آداب ہوتے ہیں، ان کی طرف ہمیشہ توجہ دیں۔ آپ اپنے ایک خطبہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’میں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی۔ نوجوان بے تکلفانہ ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں۔ حتی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا کیونکہ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بُری بات ہے۔ ان کے ماں باپ اور اساتذہ نے ان کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیاران کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ایک دفعہ مَیں ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے والد تھے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے۔ اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ اسی طرح ایک صوبیدار صاحب مرادآباد کے رہنے والے تھے ان کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’ہماری والدہ چونکہ دلّی کی ہیں اور دلّی بلکہ لکھنؤ میں بھی’تم‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بزرگوں کو بیشک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے ’’آپ‘‘ کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے۔ اس لئے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’تم‘‘ ہی کہا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان (صوبیدار صاحب) کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے‘‘۔ کہتے ہیں ’’صوبیدار محمد ایوب خان صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے۔ گورداسپور میں مقدمہ تھا اور میں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو’تم‘ کہہ دیا۔ وہ صوبیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لئے محل ادب ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ’’تم‘‘ کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اس کا استعمال مَیں بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ پہلا سبق تھا جو انہوں نے اس بارے میں مجھے دیا‘‘۔ (الفضل 11مارچ 1939ء صفحہ7جلد 27نمبر58)
پس اسلامی آداب میں ہمیں بھی خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ ان لوگوں کو جو آجکل ایم ٹی اے پر آتے ہیں۔ انہیں خیال رکھنا چاہئے۔ اس کے ذریعے عموماً تو نوجوان آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ان کے پروگرام بڑے اچھے ہیں لیکن ایک پروگرام جو آجکل ربوہ سے بن کر آ رہا ہے اور اس میں مربی اور واقف زندگی بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس میں ایک تو بیٹھنے کا انداز بڑا غلط ہوتا ہے۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ٹانگیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں، ساتھ ہلتے چلے جا رہے ہیں کوئی وقار نہیں ہے۔ سر پہ ٹوپی نہیں ہے اور اس قسم کے پروگرام جو ربوہ سے بن کے آئیں ان کو تو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے آئندہ سے ایم ٹی اے والے جو پاکستان میں ہیں ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ پروگرام بیشک اپنی نوعیت کے لحاظ سے اچھا ہو لیکن اگر اس کو conduct کرنے والا، اس کو present کرنے والا اچھا نہیں ہے تو وہ پروگرام کبھی نہیں لگایا جائے گا۔ اس لئے مَیں نے آئندہ سے وہ پروگرام روک بھی دئیے ہیں۔ اور خاص طور پر مربیان کو تو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا ایک اپنا وقار ہے اور ان کو یہی سمجھنا چاہئے کہ ہم نے اس وقار کو قائم کرنا ہے۔ ایک عام دنیادار لڑکا اگر ایسی حرکت کرتا ہے تو وہ قابل برداشت ہے لیکن اگر ایک مربی کرے تو ناقابل برداشت ہے۔ اور مجھے بعض لوگوں نے لکھا بھی ہے۔ توجہ بھی دلائی ہے۔ ہر کوئی اس چیز کو محسوس کر رہا ہے کہ ربوہ سے ایک پروگرام بنتا ہے اور اس میں اس قسم کا، وقار کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔
ایک واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ہم بھی بچپن میں مختلف کھیلیں کھیلا کرتے تھے۔ مَیں عموماً فٹبال کھیلا کرتا تھا۔ جب قادیان میں بعض ایسے لوگ آگئے جو کرکٹ کے کھلاڑی تھے تو انہوں نے ایک کرکٹ ٹیم تیار کی‘‘۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جاؤ حضرت صاحب سے عرض کرو کہ وہ بھی کھیلنے کے لئے تشریف لائیں۔ چنانچہ میں اندر گیا۔ آپ اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ جب میں نے اپنا مقصد بیان کیا تو آپ نے قلم نیچے رکھ دی اور فرمایا۔ تمہارا گیند تو گراؤنڈ سے باہر نہیں جائے گا لیکن میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند دنیا کے کناروں تک جائے گا۔ اب دیکھ لو کیا آپ کا گیند دنیا کے کناروں تک پہنچا ہے یا نہیں۔ اس وقت امریکہ، ہالینڈ، انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ، مڈل ایسٹ، افریقہ، انڈونیشیا، اور دوسرے کئی ممالک میں آپ کے جاننے والے موجود ہیں۔ فلپائن کی حکومت ہمیں مبلغ بھیجنے کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن پچھلے دنوں وہاں سے برابر بیعتیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ ابھی تین چار دن ہوئے ہیں فلپائن سے ایک شخص کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسے میری بیعت کا خط ہی سمجھیں اور مجھے مزید لٹریچر بھجوائیں۔ (یہ حضرت خلیفہ ثانی کے زمانے کی باتیں ہیں۔ ) مجھے جس مقام کے متعلق بھی علم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اسلام کی خدمت کرنے والا ہے میں وہاں خط لکھ دیتا ہوں۔ چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ میں نے انجمن اشاعت اسلام لاہور کو بھی ایک خط لکھا ہے۔ میں نے مسجد لنڈن کے پتے پر بھی ایک خط لکھا ہے۔ میں نے واشنگٹن امریکہ کے پتے پر بھی ایک خط لکھا ہے۔ اب دیکھ لو فلپائن میں ہمارا کوئی مبلغ نہیں گیا لیکن لوگوں میں آپ ہی آپ احمدیت کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہی گیند ہے جسے قادیان میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہِٹ ماری تھی‘‘ جو دنیا کے کناروں میں پہنچ رہا ہے۔ (الفضل 8فروری 1956ء صفحہ 4جلد45/10نمبر33)
اب تو اس کی اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ دنیا سے خود بخود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف کروا رہا ہے۔ کئی واقعات مختلف وقتوں میں لوگوں کے بیان بھی کر چکا ہوں کہ خود رہنمائی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کس طرح تعارف کروا رہا ہے۔ بعض لوگ عرصے کے بعد جب کہیں آپ کی تصویر دیکھتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں یا خلفاء کی تصویریں دیکھتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں کہ یہی تھے جو ہمیں اسلام کا صحیح پیغام دے رہے تھے۔
پھر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’بغیر محنت دینی یا محنت دنیاوی کے کوئی انسان عزت حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے زمانے میں تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ (یعنی اب اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو زمانہ ہے اس میں تمام عزت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہو گئی۔ ) اب عزت پانے والے یا ہمارے مرید ہوں گے یا ہمارے مخالف ہوں گے۔ (یعنی مخالفین کو بھی اگر عزت ملے گی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے ہی۔ ) چنانچہ (آپ) فرماتے تھے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب (ہی) کو دیکھ لو وہ کوئی بڑے مولوی نہیں۔ ان جیسے ہزاروں مولوی پنجاب اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ ان کو اگر اعزاز حاصل ہے تو محض ہماری مخالفت کی وجہ سے۔ وہ لوگ خواہ اس امر کا اقرار کریں یا نہ (کریں ) مگر واقعہ یہی ہے کہ آج ہماری مخالفت میں عزت ہے یا ہماری تائید میں۔ گویا اصل مرکزی وجود ہمارا ہی ہے۔ اور مخالفین کو بھی اگر عزت حاصل ہوتی ہے تو ہماری وجہ سے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد8صفحہ 614)
اس کو مزید کھول کر آپ نے ایک جگہ اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’جب تک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا۔ مذہب میں داخل ہونے سے بھی کمال ہی فائدہ دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل ہم سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یا تو پوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ۔ دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں یا کامل اخلاص رکھنے والے‘‘۔ اب چھوٹے مولویوں نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں اپنی روزی کمانے کا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کو بنایا ہوا ہے اور ان کو اگر روٹی مل رہی ہے تو اسی وجہ سے مل رہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ادنیٰ تعلق فائدہ نہیں دیتا۔ اصل میں کمال ہی سے فضل ملتا ہے۔ بغیر اس کے انسان فضل سے محروم رہتا ہے۔ اگر انسان ’ہر چہ بادہ باد کشتی مادر آب انداختیم‘ کہہ کر خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے۔ (یعنی اب چاہے جو بھی ہونا ہے ہو جائے ہم نے تو اپنی کشتی دریا میں ڈال دی ہے۔ اگر یہ کہہ کر خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے) تو اس کے ساتھ بھی پہلوں کا سا معاملہ ہوگا۔ آخر خدا تعالیٰ کو کسی سے دشمنی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کامل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دے اور اس کے آستانے پر گرا دے۔ اس سے آپ ہی آپ اسے سب کچھ حاصل ہو جائے گا اور جو ترقی اس کے لئے ضروری ہو گی وہ آپ ہی آپ مل جائے گی‘‘۔ (اس لئے ہر احمدی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مانا ہے تو مکمل اس کے آگے ڈالنا ہو گا)۔ آپ نے لکھا کہ ’’آگ کے پاس بیٹھنے والے کے اعضاء کو دیکھو سب گرم ہوں گے۔ اس کا چہرہ ہاتھ پاؤں جہاں ہاتھ لگاؤگے گرم محسوس ہو گا تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کے پاس آئے اور اس کے پاس بیٹھ جائے اور خدا تعالیٰ کا وجود اس کے اندر سے ظاہر نہ ہو۔ آگ کے اندر لوہا پڑ کر آگ کی خصوصیات ظاہر کرنے لگ جاتا ہے گو وہ آگ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگوں سے خاص معاملات ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں کُنْ فَیَکُوْن والی چادر پہنا دیتا ہے حتی کہ نادان ان کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ تو صرف خدا تعالیٰ کی صفات کا عکس پیش کررہے ہوتے ہیں۔ پس اگر کوئی مذہب سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے کُلّی طور پر ڈال دے۔ لیکن اگر قوم کی قوم اس طرح کرے تو اس پر خاص فضل ہوں گے اور وہ ہر میدان میں فتح حاصل کرے گی۔ ہماری جماعت کے لئے بھی یہی قدم اٹھانا ضروری ہے مگر بہت سے لوگ صرف کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کرنی چاہئے کہ ایک طبعی شئے بن جائے۔ صرف جھوٹا دعویٰ نہ ہو کیونکہ جھوٹ اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔ جھوٹ ایک ظلمت ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک نور۔ پس نور اور ظلمت کیسے جمع ہوسکتے ہیں‘‘۔ (خطبات محمود جلد17صفحہ 470-471)
پس ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے اور اکثر مَیں توجہ دلاتا بھی رہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہمیں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں بھی ہمیں دوسرے سے مختلف نظر آنا چاہئے اور بڑھے ہوئے ہونا چاہئے۔ عبادات میں بھی ہمیں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہئے۔ اعلیٰ معیاروں کو پانے کی کوشش کرنے والے بھی ہم دوسروں کی نسبت زیادہ ہونے چاہئیں۔ اعلیٰ اخلاق میں بھی ہمیں امتیازی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ قانون کی پابندی میں بھی ہم ایک مثال ہونے چاہئیں۔ غرض کہ ہر چیز میں ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز ہونے کی ضرورت ہے تبھی ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بیعت سے صحیح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ احسان اور حسن سلوک کا ایک واقعہ یہ بیان فرماتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک افسر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک معاملے میں (ملنے آئے اور ) کہا کہ یہ لوگ‘‘ (یعنی قادیان کے رہنے والے غیر از جماعت یا ہندو وغیرہ جو تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بعض دفعہ حکام کو، حکومت کے کارندوں کو غلط شکایات کیا کرتے تھے۔ تو بہرحال ایک دفعہ ایک افسر حکومت کے قادیان آئے اور کہا کہ یہ لوگ) ’’آپ کے شہری ہیں۔ آپ ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انہوں نے کہا۔) تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس بڈھے شاہ کو (وہاں ایک شخص تھا کوئی بڈھے شاہ اسی کو) پوچھو کہ آیا کوئی ایک موقع بھی ایسا آیا ہے جس میں اس نے اپنی طرف سے نیش زنی نہ کی ہو۔ (جتنا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے نہ کی ہو) اور پھر اس سے ہی پوچھو کہ کیا کوئی ایک موقع بھی ایسا آیا ہے کہ جس میں مَیں احسان کر سکتا تھا اور پھر میں نے اس کے ساتھ احسان نہ کیا ہو۔ (بس) وہ آگے سر ڈال کر ہی بیٹھا رہا، (بولا نہیں کچھ۔ ) یہ ایک عظیم الشان نمونہ تھا آپ کے اخلاق کا۔ پس ہماری جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ اخلاق میں ایک نمونہ ہو۔ معاملات کی آپ میں (ایک) ایسی صفائی ہو کہ اگر ایک پیسہ بھی گھر میں نہ ہو تو امانت میں ہاتھ نہ ڈالیں اور بات اتنی میٹھی اور ایسی محبت سے کریں کہ جو دوسروں کے دل پر اثر کرے۔‘‘ (خطبات محمود جلد10صفحہ 277-278)
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ انسان جس چیز کا عادی ہو جائے وہ تکلیف نہیں رہتی۔ جب عادی ہو جائے تو پھر تکلیف ختم ہو جاتی ہے، فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے خود اپنے کانوں سے یہ مضمون بارہا سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلا آیا کرتے ہیں۔ ایک تو وہ ابتلا ہوتے ہیں جن میں بندے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ تم اس میں اپنے آرام کے لئے خود کوئی تجویز کر سکتے ہو۔ چنانچہ اس کی مثال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے دیکھو! وضو بھی ایک ابتلا ہے۔ سردیوں کے موسم میں جب سخت سردی لگ رہی ہو۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو اور ذرا سی ہوا لگنے سے بھی انسان کو تکلیف ہوتی ہو۔‘‘ (اب تو یہاں ہمارے تصور نہیں غسل خانوں میں بھی ہیٹنگ ہوتی ہے گرم پانی آ رہا ہوتاہے۔ لیکن ہیٹنگ بھی کوئی نہ ہو باہر جانا ہو، ٹھنڈا پانی ہو تب سردیوں میں وضو کا ایک تصور قائم ہو سکتا ہے۔) فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو حکم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرو۔ بسا اوقات جب نماز کا وقت ہوتا ہے اس وقت گرم پانی نہیں ہوتا یا بسا اوقات اسے گرم پانی میسر تو آ سکتا ہے مگر اس وقت تیار نہیں ہوتا۔ پھر بسا اوقات اسے گرم پانی میسر ہی نہیں آ سکتا۔ یخ بستہ پانی ہوتا ہے اور اسی پانی سے اسے وضو کر کے نماز پڑھنی پڑتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ بھی ایک ابتلا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے رکھ دیا۔ مگر فرمایا یہ ایسا ابتلا ہے جس میں بندے کو اختیار دیا گیا ہے یعنی اسے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر پانی ٹھنڈا ہے تو گرم کر لے۔ گویا یہ ایک اختیاری ابتلا ہے۔‘‘ اس قسم کی اختیاری ابتلا کی بہت ساری مثالیں اور بھی دی جا سکتی ہیں۔ فرمایا کہ یہ ’’جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا اور انسان کو اس بات کی اجازت دی کہ اگر ٹھنڈے پانی سے تم وضو نہیں کر سکتے تو ہمت کرو اور آگ پر پانی گرم کر لو اور اپنے گھر میں آگ موجودنہیں تو ہمسائے کے گھر سے آگ لے کر پانی گرم کر لو اور گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد اچھی طرح گرم کپڑے پہن لو تا تمہیں سردی محسوس نہ ہو یا بعض اوقات لوگ مسجدوں میں حمام بنا دیتے ہیں جن میں پانی گرم رہتا ہے۔ پس جو لوگ غریب اپنے گھروں میں پانی گرم نہیں کر سکتے وہ مساجد میں جا کر حمام سے وضو کر سکتے ہیں‘‘۔ یہ جو غیرترقی یافتہ ممالک ہیں یا کم ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں جو لوگ سننے والے ہیں وہ اس کا صحیح تصور پیدا کر سکتے ہیں بلکہ آپ میں سے بھی جو سب بڑے ہیں۔ یہاں کے پیدا ہوئے ہوئے لوگ شاید اس کا تصور پیدا نہ کر سکیں۔ یہاں گرم پانی میسر آ جاتا ہے۔ لیکن بہرحال بہت سارے ہم میں سے جانتے ہیں کہ پاکستان ہندوستان وغیرہ میں کیا صورتحال ہوتی ہے۔ پھر فرمایا: ’’یا اگر مسجد میں گرم حمام کا انتظام نہ ہو تو پھر کوئی ہمت والا کنوئیں سے تازہ پانی کا ڈول نکال کر اس سے وضو کر لیتا ہے اس طرح بھی وہ سردی سے بچ جاتا ہے کیونکہ سردیوں میں کنویں کا تازہ پانی قدرے گرم ہوتا ہے۔ پس اگر کوئی ذریعہ اس کے پاس موجودنہیں تو وہ اس طرح اپنی تکلیف کو دور کر سکتا ہے۔ اسی طرح فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا کہ علی الصبح اٹھے اور نماز فجر پڑھے۔ اب سردیوں میں صبح کے وقت اٹھنا کتنا دوبھر ہوتا ہے لیکن انسان کے پاس اگر کافی سامان ہو تو یہ تکلیف بھی اسے محسوس نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اگر اسے تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ہے تو وہ یہ کر سکتا ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے وقت کمرے کے دروازے اچھی طرح بند کرے تا کمرہ گرم رہے اور باہر کی ٹھنڈی ہوا اندر نہ آ سکے۔ اسی طرح جب فجر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد کو جائے تو کمبل یا دُلائی اوڑھ سکتا ہے (جن کے پاس کوٹ نہیں ہیں )۔ یا گرم کوٹ پہن کر جا سکتا ہے اور اگر کوئی غریب بھی ہو تو وہ بھی پھٹی پرانی (کوئی) صدری یا کوٹ پہن کر جا سکتا ہے۔ اور سردی کے اثر سے اپنے آپ کو بچاسکتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص بالکل ہی غریب ہو اور اس کے پاس نہ کمبل ہو نہ دولائی نہ صدری نہ کوٹ تو اسے بھی زیادہ تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے شخص کو سردی کے برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جس چیز کا انسان عادی ہو جائے وہ اس کو تکلیف نہیں دیتی‘‘۔ (خطبات محمود جلد17صفحہ669-670)
بہت سارے لوگوں کو ہم نے پاکستان میں بھی سردیوں میں دیکھا ہے۔ ہم جب گرم کپڑے پہن رہے ہوتے ہیں تو ایک غریب آدمی بیچارہ معمولی سے گرم کپڑے پہن کے اور بغیر جرابوں کے آرام سے پھر رہا ہوتا ہے اور اسے کوئی سردی کا احساس نہیں ہوتا اس لئے کہ عادت پڑ جاتی ہے۔
پھر آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ (مثلاً) عورتیں بعض دفعہ جہاں لکڑی اور کوئلہ جل رہا ہوتا ہے وہاں کام کرتی ہیں تو ہاتھوں سے چوہلے سے کوئلہ یا انگارے نکال لیتی ہیں اور انہیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی جبکہ ہم لوگ جو ہیں اس کے انگارے کے قریب بھی نہیں جا سکتے‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد17صفحہ670)
تو کسی چیز کی جب یہ عادت پڑ جائے تو پھر تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اگر ابتلا ہے بھی تو تکلیف برداشت کر کے بھی اس کو اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کرنا چاہئے اور اگر اس کو دور کرنے کا حل نکل سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان سے حل نکال کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اگر نہیں بھی تو پھر انسان اپنے آپ کو عادت ڈالے اور اس کے مطابق کرنے کی کوشش کرے اور جب عادت پڑ جائے تو پھر وہ تکلیف، تکلیف نہیں رہتی۔
دوسرے حصے کا تو آپ نے ذکر نہیں کیا کہ دوسرا ابتلا (کیا ہے؟) لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس مَیں پڑھ دیتا ہوں جس میں آپ نے ابتلاؤں میں حکمت کیا ہے، اس کے بارے میں فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’دیکھو اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اپنے بندوں کو کسی قسم کا ایذاء نہ پہنچنے دیتا اور ہرطرح سے عیش وآرام میں ان کی زندگی بسر کرواتا۔ ان کی زندگی شاہا نہ زندگی ہوتی۔ ہر وقت ان کے لیے عیش وطرب کے سامان مہیاکئے جاتے۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس میں بڑے اسرار اور رازنہاں ہوتے ہیں۔ دیکھو والدین کو اپنی لڑکی کیسی پیاری ہو تی ہے بلکہ اکثر لڑکوں کی نسبت زیادہ پیاری ہو تی ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ والدین اس کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں۔ وہ وقت ایسا ہو تا ہے کہ اس وقت کو دیکھنا بڑے جگر والوں کا کا م ہوتا ہے۔ دونوں طرف کی حالت ہی بڑی قابل رحم ہو تی ہے (یعنی ماں باپ بھی رخصت کے وقت رو رہے ہوتے ہیں اور لڑکی بھی)قریباً چودہ پندرہ سال ایک جگہ رہے ہوئے ہوتے ہیں۔ آخر ان کی جدائی کا وقت نہایت ہی رقّت کا وقت ہو تا ہے۔ اس جدائی کو بھی کوئی نادان بے رحمی کہہ دے تو بجا ہے مگراس کی لڑکی میں بعض ایسے قویٰ ہو تے ہیں جس کا اظہار اس علیحدگی اور سسرال میں جا کر شوہر سے معاشرت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے جو طرفین کے لیے موجب برکت اور رحمت ہوتا ہے۔ یہی حال اہل اللہ کا ہے۔ ان لوگوں میں بعض خلق ایسے پوشیدہ ہوتے ہیں کہ جب تک ان پر تکالیف اور شدائدنہ آویں ان کا اظہار ناممکن ہوتا ہے۔ دیکھو اب ہم لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کر تے ہیں بڑے فخر اور جرأت سے کام لیتے ہیں یہ بھی تو صرف اسی وجہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پروہ دونوں زمانے آ چکے ہوئے ہیں ورنہ ہم یہ فضیلت کس طرح بیان کرتے‘‘۔ (یعنی آسائش کا بھی زمانہ آیا اور سختیوں اور تکلیفوں کا بھی) ’’دکھ کے زمانہ کو بری نظر سے نہ دیکھو۔ یہ خدا (تعالیٰ) سے لذّت کو اور اس کے قرب کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی لذت کو حاصل کرنے کے واسطے جو خدا کے مقبولوں کو ملا کرتی ہے دنیوی اور سفلی کُل لذات کو طلاق دینی پڑا کرتی ہے۔ خدا کا مقرب بننے کے واسطے ضروری ہے کہ دکھ سہے جاویں اور شکر کیا جاوے اور نئے دن ایک نئی موت اپنے اوپر لینی پڑتی ہے۔ جب انسان دنیوی ہواوہوس اور نفس کی طرف سے بکلی موت اپنے اوپر وارد کرلیتا ہے تب اسے وہ حیات ملتی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی۔ پھر اس کے بعد مرنا کبھی نہیں ہوتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ200-201۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے ابتلا کی حکمت کا مختصر خاکہ۔ حضرت مصلح موعودنے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’میری عمر جب نو یا دس برس کی تھی۔ مَیں اور ایک اور طالبعلم گھر میں کھیل رہے تھے۔ وہیں الماری میں ایک کتاب پڑی ہوئی تھی جس پر نیلا جزدان تھا اور وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی۔ نئے نئے علوم ہم پڑھنے لگے تھے۔ اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرائیل نازل نہیں ہوتا۔ مَیں نے کہا یہ غلط ہے۔ میرے ابّا پر تو نازل ہوتا ہے۔ اس لڑکے نے کہا۔ جبرائیل نہیں آتا کتاب میں لکھا ہے۔ ہم میں بحث ہو گئی۔ آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس) گئے۔ اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا۔ آپ نے فرمایا۔ کتاب میں غلط لکھا ہے۔ جبرائیل اب بھی آتا ہے۔
پھر اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے۔ کئی دفعہ اس واقعے کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے ہیں۔ مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک رات ہم صحن میں سو رہے تھے۔ گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گرجنے لگا۔ اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے …۔ اس کڑک اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے۔ جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اس وقت ہم بھی جو صحن میں سو رہے تھے اٹھ کر اندر چلے گئے۔ مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دئیے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے، ان پر نہ گرے۔ بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا، نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ (آپ) بجلی سے محفوظ رہتے‘‘۔ (سوانح فضل عمرجلد1صفحہ 149-150)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’1905ء آیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب بیمار ہوئے۔ میری عمر 17 سال کی تھی اور ابھی کھیل کود کا زمانہ تھا۔ مولوی صاحب بیمار تھے اور ہم سارا دن کھیل کود میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لئے گیا۔ اس کے سوا یادنہیں کہ کبھی پوچھنے بھی گیا ہوں۔ اس زمانے کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب فوت ہی نہیں ہو سکتے وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد فوت ہوں گے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی۔ ایک دو سبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دئیے۔ اس سے زیادہ ان سے تعلق نہ تھا۔ ہاں ان دنوں میں یہ بحثیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کون سا ہے اور بایاں فرشتہ کون سا ہے۔ بعض کہتے کہ مولوی عبدالکریم صاحب دائیں ہیں اور بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں۔ علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت ہی نہ تھی۔ (یعنی بچپن لڑکپن تھا۔ سوچ نہیں تھی) اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفہ اول مجھ سے کیا کرتے تھے میں نور الدینیوں میں سے تھا۔ ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا تھا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی۔ (یعنی کہ حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود کے زیادہ قریبی تھے)۔ غرض مولوی عبدالکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کے پُرزور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت ِحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معتقد تھا۔ مگر جونہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا۔ وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزر گئی۔ جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی۔ دوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازے بند کر لئے۔ پھر ایک بے جان لاش کی طرح چارپائی پر گر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ وہ آنسو نہ تھے ایک دریا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی، مولوی صاحب کی محبتِ مسیح علیہ السلام اور خدمت مسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے۔ دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں میں یہ بہت سا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اب آپ کو بہت تکلیف ہو گی اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جاتا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگتا تھا۔ اس دن مَیں نہ کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھمے حتی کہ میری لا ابالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تعجب ہوا اور آپ نے حیرت سے فرمایا محمود کو کیا ہو گیا ہے۔ اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا۔ یہ تو بیمار ہو جائے گا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’1908ء کا ذکر میرے لئے تکلیف دہ ہے۔ وہ میری کیا سب احمدیوں کی زندگی میں ایک نیا دور شروع کرنے کا موجب ہوا۔ اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کے لئے بمنزلہ روح کے تھی اور ہماری بے نور آنکھوں کے لئے بمنزلہ بینائی کے تھی اور ہمارے تاریک دلوں میں بمنزلہ روشنی کے تھی، ہم سے جدا ہو گئی۔ یہ جدائی نہ تھی۔ ایک قیامت تھی۔ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آسمان اپنی جگہ سے ہل گیا۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے اس وقت نہ روٹی کا خیال تھا نہ کپڑے کا۔ صرف ایک خیال تھا کہ اگر ساری دنیا بھی مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دے تو مَیں نہیں چھوڑوں گا اور پھر اس سلسلے کو دنیا میں قائم کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ میں نے کس حد تک اس عہد کو نبھایا مگر میری نیت ہمیشہ یہی رہی کہ اس عہد کے مطابق میرے کام ہوں۔‘‘ (یاد ایام۔ انوار العلوم جلد 8صفحہ 367-368)
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ہر فرد بلکہ بعد میں آنے والے بھی گواہ ہیں کہ آپ نے اس عہد کو خوب نبھایا بلکہ ہمارے لئے بھی عَہدوں کو نبھانے کے لئے صحیح راستوں کی طرف آپ نے رہنمائی فرما دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے عَہدوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت میں دو جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ حاضر ہے۔ (آ گیا ہوا ہے؟) یہ جنازہ حاضر جو ہے مکرمہ ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحیم صاحب مرحوم آف ملتان کا ہے جو آجکل مانچسٹر یوکے میں تھیں۔ ان کی 77سال کی عمر میں 11؍نومبر کو وفات ہوئی ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ نیک، صالح، نمازوں کی پابند خوش اخلاق، صابرہ شاکرہ خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ ان کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے عبدالمتین صاحب زعیم انصار اللہ مانچسٹر ہیں۔ بیٹی صدر لجنہ مانچسٹر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہی ہیں۔ ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ غائب ہے جو مکرم محمود عبداللہ شبوطی صاحب آف یمن کا ہے۔ شبوطی صاحب 9؍نومبر 2014ء کو لمبی بیماری کے بعد وفات پا گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کو آپ کے والدنے جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم کی غرض سے بھجوایا تھا جہاں سے آپ نے مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ مکرم غلام احمد صاحب مبلغ سلسلہ کے بعد آپ یمن میں مبلغ تعینات ہوئے۔ یمن میں 24؍مئی 1934ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مکرم عبداللہ محمد عثمان الشبوطی صاحب پہلے یمنی احمدی تھے جنہوں نے مبلغ سلسلہ مکرم غلام احمد صاحب کے ذریعہ بیعت کی تھی۔ مرحوم کے والد صاحب نے آپ کو جون 1952ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھنے کے لئے بھجوایا تھا جہاں مرحوم نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے والے آپ پہلے غیر ملکی تھے۔ اسی طرح آپ نے جامعہ سے شاہد کا امتحان بھی پاس کیا اور 1960ء میں مبلغ بن کے یمن واپس آئے۔ لیکن آپ کی واپسی سے قبل آپ کے والد صاحب نے ہدایت کی کہ ربوہ میں شادی کر کے آئیں اور پھر تحریک جدیدنے ان کا رشتہ مکرم سید بشیر احمد شاہ صاحب کی صاحبزادی محترمہ نسرین شاہ صاحبہ سے کروایا۔ یہ جو شبوطی صاحب کا سسرال ہے یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے خاندان میں سے ہے۔ مرحوم کے بارے میں ان کے صاحبزادے نے لکھا کہ جامعہ کے تمام طلباء یہ بتایا کرتے تھے کہ وہ نماز فجر مسجد محمود میں ادا کرتے تھے جو تحریک جدید کے کوارٹروں میں ہے لیکن شبوطی صاحب مسجد مبارک جا کے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مل کے سیر پہ جاتے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں اس زمانے کے جامعہ کے طلباء میں عثمان چینی صاحب، وہاب آدم صاحب وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے ستّر کی دہائی کے ابتدائی عرصے تک یمن میں بطور مبلغ کام کیا لیکن جب یمنی حکومت انگریزی حکومت سے آزاد ہوئی تو یمن میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت آئی جس نے ہر قسم کی مذہبی سرگرمیوں پر اور تبلیغ پر پابندی لگا دی۔ اس وجہ سے جماعت نے آپ کو جماعتی سرگرمیاں منقطع کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم آپ جماعت کے انتظامی اور مالی امور سرانجام دیتے رہے۔ جمعہ اور عیدین کی نمازیں آپ عدن یونیورسٹی کی مسجد میں پڑھایا کرتے تھے۔ یونیورسٹی کی یہ مسجد ایک احمدی کی ملکیت تھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ نے مسجد واپس ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو شبوطی صاحب مرحوم نے مسجد تو ان کے خاندان کو دے دی جو احمدی نہیں تھے۔ اور اپنا گھر مسجد کے لئے پیش کر دیا۔ پھر وہاں نمازیں ہوتی رہیں۔ آپ جماعت سے کوئی خرچ نہیں لیا کرتے تھے۔ ساری جماعتی ضروریات اپنی جیب سے پوری کیا کرتے تھے۔ جماعتی بجٹ سے کچھ نہ لیتے۔ سارا چندہ بغیر کسی کٹوتی کے مرکز بھجوا دیتے بلکہ ابتدائی مبلغین کو ربوہ میں پلاٹ الاٹ ہوئے تھے تو مرحوم شبوطی صاحب نے جو پلاٹ ان کو الاٹ ہوا وہ بھی جماعت کو دے دیا تھا۔ جس طرح میں نے وہاب آدم صاحب کے بارے میں بتایا تھا کہ انہوں نے بھی جماعت کو دے دیا تھا۔ مرحوم نے اپنی اولاد میں خلافت اور جماعت کی محبت پیدا کی۔ بہت محبت کرنے والے انسان تھے۔ یہاں بھی ایک دفعہ آئے ہیں۔ مجھے ملے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں سے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ باقاعدہ ان سے ملاقات میں تعلق رکھتے تھے۔ پسماندگان میں سیدہ نسرین شاہ صاحبہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور بارہ پوتے پوتیاں یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کینیڈا میں ہیں اور ناصر احمد صاحب یہاں یوکے میں ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی اپنی زندگی کے بھی بعض پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح۔
مکرم ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب مرحوم آف ملتان کی نماز جنازہ حاضر۔
مکرم محمود عبداللہ شبوطی صاحب آف یمن کی نماز جنازہ غائب۔ مرحومین کا ذکرِ خیر۔
فرمودہ مورخہ 14؍نومبر 2014ء بمطابق14نبوت 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔