توکل علی اللہ
خطبہ جمعہ 28؍ نومبر 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2 صفحہ53۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یعنی تمہیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے اگر کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو حقیقی رنگ میں تمہاری مدد کر سکتی ہے، مدد کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ ایک حقیقی مومن کو ہر وقت اسے اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ چاہے وہ مدد اور استعانت کی کوشش ذاتی ضروریات کے لئے ہو یا جماعتی ضروریات کے لئے۔ لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کے باوجود اس طرف لوگوں کی عموماً نظر نہیں ہوتی۔ جتنی توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہوتی۔ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بظاہر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، میری ضرورت پوری ہو گئی۔ لیکن اگر گہرائی سے جا کر وہ خود اپنے نفس کا جائزہ لیں تو اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے مختلف ذرائع کو وہ اپنے کام مکمل ہونے یا ضرورت پوری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ مثالیں دے کر ایسے مختلف مواقع بیان فرمائے ہیں جہاں انسان سمجھتا ہے کہ استعانت اور مدد مختلف لوگوں نے کی ہے۔ یا خود اپنے زور بازو سے اس نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور سب سے پہلی عموماً یہی حالت ہوتی ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ میں اپنی ساری ضرورتیں خود پوری کر لوں گا اور اپنی طاقت، اپنے علم، اپنی عقل سے وہ ضرورتیں پوری کر بھی لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے دیکھو مَیں نے اپنی قابلیت اور طاقت اور قوت سے اپنے مسائل خود حل کر لئے۔ اس بات پر گھمنڈ اور فخر کرتا ہے کہ میں کسی سے مددنہیں لیتا یا مَیں نے کسی سے مددنہیں لی۔
لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں جب وہ اپنی ضرورتیں خود پوری نہیں کر سکتا اور اسے باہر کی مدد چاہئے ہوتی ہے۔ تب اس کی نظر اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں کی طرف جاتی ہے۔ ان سے مدد لیتا ہے اور وہ اس کی مدد کر بھی دیتے ہیں۔ اس وقت اسے خیال آ تا ہے کہ رشتہ داری بھی اچھی چیز ہے۔ اگر آج میرے یہ رشتہ دار نہ ہوتے تو مَیں اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔
پھر بعض دفعہ یہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کے اہل و عیال، متعلقین، رشتہ دار اس کے کام نہیں کر سکتے یا اس کے کام نہیں آ سکتے یا نہیں کرتے تب وہ نظر دوڑاتا ہے تو اس کی نظر اپنے دوست احباب پر پڑتی ہے، ملنے والوں پر پڑتی ہے جو اس کے خیال میں اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ان سے مدد لیتا ہے۔ وہ مدد کر بھی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ دوست احباب بھی اچھے ہوتے ہیں جو آڑے وقت میں کام آ جاتے ہیں۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے جب دوستوں کے پاس جائے تو وہ بھی اپنی مجبوریاں بتا دیتے ہیں۔ جائز مجبوریاں ہوں یا کسی سے جان چھڑانے کا بہانہ ہو۔ بہر حال وہ اس کے کام نہیں آ سکتے۔ بعض دفعہ ایسی صورتحال بھی ہوتی ہے کہ دوستوں کے بس میں وہ مدد ہوتی بھی نہیں کہ وہ کر نہیں سکتے۔ ان کی پہنچ سے وہ کام باہر ہوتا ہے۔ تو ایسے وقت میں وہ انسان بعض نظاموں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اور وہ سلسلہ یا جماعت جس سے وہ تعلق رکھتا ہے وہ اس کی مدد کرتے ہیں اور جب اس کا کام ہو جاتا ہے، اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے بلکہ ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں تو اس کو خیال آتا ہے کہ سلسلہ یا نظام یا جماعت سے جڑنا بھی اچھی چیز ہے اور اس وجہ سے سلسلہ یا جماعت سے اس کی وابستگی بڑھ جاتی ہے۔ بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کو اس وجہ سے ٹھوکر بھی لگ جاتی ہے کہ مَیں نے فلاں وقت جماعت سے مدد مانگی تھی اور مددنہیں کی گئی۔ بہر حال یہ صحیح ہے کہ بعض لوگوں کی مرضی کے مطابق اگر کام ہوں تو تبھی یا ان کی مدد ہو تو وہی ان کی جماعت سے وابستگی بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر بعض انسانوں کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ان کے اہل و عیال، رشتہ دار، دوست احباب حتی کہ بعض مجبوریوں اور پابندیوں کی وجہ سے نظام اور جماعت بھی کوئی مددنہیں کر سکتی اور اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس وقت وہ حکومت جس سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کے پاس جاتا ہے۔ حکومت اس کی مدد کرتی ہے۔ اس وقت ایسے انسان کے لئے حکومت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ باقی سب چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ لیکن یوں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک وقت میں حکومت بھی انسان کا ساتھ نہیں دیتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے حقوق مجھے نہیں مل رہے۔ انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا۔ تو پھر وہ ان لوگوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت کام کرتے ہیں اور پھر یہ انسانی ہمدردی رکھنے والے اس کے کام آ بھی جاتے ہیں۔ انسانی ہمدردی کی ایک رَو پیدا ہوتی ہے جو کئی ممالک یا دنیا تک پھیل جاتی ہے اور اس انسانی ہمدردی کی وجہ سے وہ انسان یا وہ گروہ یا وہ چند لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اپنے مقصد کو پا لیتے ہیں۔ تب وہ سمجھتے ہیں یا اگر ایک انسان ہے تو سمجھتا ہے کہ تمام دنیا مل کر یا دنیا کی انسانی ہمدردی کی تنظیمیں مل کر اس کے کام آئی ہیں، اَور کوئی اس کے کام نہیں آ سکا۔ اور اگر یہ کام نہ آتیں تو وہ اپنے حقوق اور انصاف کو حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا۔
پس اس دنیاوی رشتے کو جو انسانی ہمدردی کے نام پر اس کے حق دلانے میں مددگار ہؤا وہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد12 صفحہ119-120)
آجکل تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قائم ہیں اور کام کر رہی ہیں اور حقوق کے لئے دنیاوی حکومتوں سے جنگیں بھی لڑتی ہیں، قانونی جنگیں لڑتی ہیں، بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بعض بہت اچھا کام بھی کر رہی ہیں اور مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب نہ اپنی کوششیں اور تدبیریں کام آتی ہیں نہ رشتہ دار کام آتے ہیں، نہ دوست احباب کام آتے ہیں، نہ قوم یا نظام کام آتا ہے، نہ حکومت اور انسانی ہمدردی کی تنظیمیں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہیں یا ان میں اسے کامیابی حاصل کرنا ممکن نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی انسان ان سب چیزوں کے باوجود اپنے مقصد کو حاصل کر لے، اسے کامیابی حاصل ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ میری کامیابی یقینا کسی غیبی مدد سے ہوئی ہے اور جتنا کسی کو غیبی مدد کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی کامیابی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔
انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا ذکر ہوا تو اس بارے میں تو آجکل احمدیوں کو تو کافی علم ہے۔ مختلف ممالک میں جو اسائلم کے لئے احمدی پھنسے ہوئے ہیں، انتظار میں بیٹھے ہیں۔ کئی ایسی تنظیمیں ہیں بلکہ ایک بڑی تنظیم جو یونائیٹڈ نیشن کی قائم کردہ ہے وہ بھی ہمدردی کی کوشش کرتی ہے لیکن حکومتیں ان کی بھی بات نہیں مانتیں۔ بعض دفعہ ایسے بھی حالات پیدا ہوتے ہیں۔ تو بہر حال جب سارے ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور کام بھی ہو جائیں تو انسان سمجھتا ہے کہ کسی غیبی ہستی نے میری مدد کی ہے اور اگر اس کو خدا پہ یقین ہے تو پھر وہ خیال کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرا کام کیا ہے۔ لیکن اگر انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہو اور یہ بات سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی استمداد کا حق رکھتا ہے، مدد کرتا ہے، مدد دے سکتا ہے تو وہ اس کام کی کامیابی کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرے گا جو کسی بیرونی مدد کے ذریعے اس نے تکمیل تک پہنچایا اور اس حقیقت کو بھی جانتا ہو گا کہ رشتہ داروں، دوستوں، نظام، قوم، حکومت یا انسانی ہمدردی کی تنظیمیں جنہوں نے بھی اس کی مدد کی وہ سب مدد بھی اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کی تھی۔ اور ان تمام ظاہری مددوں کے پیچھے خدا تعالیٰ کا طاقتور ہاتھ تھا۔ لیکن جو لوگ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہیں رکھتے وہ دنیاوی ذرائع کو سب کچھ سمجھتے رہتے ہیں اور انہی کی طرف ان کی توجہ رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف نظر نہیں اٹھتی۔ لیکن جب یہ تمام ذرائع ناکام ہو جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ یاد آتا ہے۔ کیونکہ اب خدا تعالیٰ کی یاد آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ تمام دنیاوی ذرائع جو تھے وہ استعمال ہو گئے۔ تب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ! تُو ہی مدد کرے تو یہ کام ہو گا۔ سب طاقتوں کا مالک تُو ہی ہے۔ سب تعریفیں تیری ذات کی ہی ہیں۔ پس یہ اس بات کی بھی دلیل ہے اور یہ بات اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی تدبیر یا حکومت اور تنظیم ایک محدود طاقت رکھتی ہے۔ اور یہ سب دنیاوی طاقتیں اور تدبیریں ایک حد کے بعدناکارہ اور بے فائدہ ہو جاتی ہیں۔ مَیں نے ابھی کہا تھا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہیں رکھتے وہ پہلے تو دنیاوی سہاروں کو بہت کچھ سمجھتے ہیں لیکن جب یہ سہارے ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن صرف خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق رکھنے والوں کی بات نہیں ہے بلکہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ایسی مایوسی کی حالت میں دہریہ اور مشرک بھی بے اختیار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا۔ (بنی اسرائیل: 68) یعنی وَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ۔ اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سوا ہر وہ ذات جسے تم بلاتے ہو ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا کر لے جاتا ہے تو اس سے اعراض کرتے ہو اور انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔
پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ طوفانوں اور مشکلات میں تو خدا تعالیٰ کو پکارنے لگ جاتے ہو اور جب نجات ہو جائے تو بھول جاتے ہو۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ مشکل وقت میں نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور دوسرے سارے مددگاروں کو بھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اگر ان کو اس مشکل سے، اس مشکل وقت سے نجات مل جائے تو وہ ہمیشہ خدا ہی کو مدد کا ذریعہ سمجھیں گے، اسے ہی پکاریں گے۔ لیکن خطرہ کے ختم ہوتے ہی دنیا داری، تکبر اور فخر دوبارہ ان میں پیدا ہو جاتا ہے۔ پس انسان انتہائی ناشکرا اور خود غرض ہے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ کا رحم کس قدر وسیع ہے کہ باوجود یہ علم ہونے کے کہ خشکی پر پہنچ کر یہ خدا تعالیٰ سے بغاوت کریں گے، پھر دُور ہٹ جائیں گے۔ ان کی عاجزی اور انکسار اور دعا اور اضطرار جو ہے یہ عارضی ہے۔ ان کی پھر بھی ان کی اضطرار کی حالت کی دعاؤں کو سنتے ہوئے انہیں بچا لیتا ہے۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ظالم ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خدا کو نہیں مانتے لیکن مشکل وقت میں ان کے منہ سے خدا کا ہی نام نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کی پیشگوئی فرمائی اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت لاہور میڈیکل کالج کا ایک طالبعلم جو ہر روز اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا بلکہ استہزاء کی حد تک چلا جاتا تھا۔ زلزلہ کے دوران وہ جس کمرے میں تھا اسے محسوس ہوا کہ کمرے کی چھت گرنے والی ہے اور یہ یقین ہو گیا کہ اب کوئی طاقت اسے گرنے سے یعنی چھت کو گرنے سے بچا نہیں سکتی تو کیونکہ وہ ہندو خاندان سے تھا، اس کے منہ سے بے اختیاررام رام نکل گیا۔ اگلے دن اس کے دوستوں نے پوچھا کہ تمہیں اس وقت کیا ہو گیا تھا؟ تم تو خدا کو مانتے ہی نہیں۔ تو اس حالت میں رام رام کا شور تم نے مچا دیا۔ ہندوؤں کے نزدیک رام خدا تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے۔ تو کہنے لگا کہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا، میری عقل ماری گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہی اس کی عقل نے کام کیا اور جب تمام دنیاوی سہارے اس کی نظروں سے چھپ گئے، اوجھل ہوگئے تو اسے ایک ہی سہارا نظر آیا جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اور مددگار دکھائی نہیں دیا۔
پس جب تک انسان کو دوسرے ذرائع نظر آتے ہیں ان سے کام بنتا رہتا ہے وہ ان کی طرف توجہ دیتا رہتا ہے۔ جب تک وہ دوسرے اسباب نظر آتے رہیں وہ ان اسباب کی، ان ذرائع کی خوشامدیں کرنے میں لگا رہتا ہے۔ کام کروانے کے لئے بلا وجہ خوشامد کو انتہا تک پہنچانے کے لئے دوسروں کی برائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی نظر نہ آئے تو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ جب سب طرف سے مایوس ہو جائے، کوئی ظاہری وسیلہ کام نہ کر سکے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے، اس کے سامنے اضطرار ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ عظیم اول کا سنایا کرتے تھے بلکہ خود بھی فرمایا کہ میں کئی مرتبہ یہ سنا چکا ہوں کہ ایسی حالت میں جب دہریہ بھی خدا تعالیٰ پر ایمان لے آتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں 1918ء میں جرمنی نے اپنی تمام طاقت جمع کر کے اتحادی فوجوں پر حملہ کر دیا۔ تو اس وقت انگریز فوجوں پر یا اتحادی فوجوں پر ایک ایسا وقت آیا کہ کوئی صورت ان کے بچاؤ کی نہیں تھی۔ سات میل لمبی دفاعی لائن ختم ہو گئی۔ فوج کا کچھ حصہ ایک طرف سمٹ گیا، کچھ حصہ دوسری طرف سمٹ گیا۔ اور اس میں اتنا خلاء پیدا ہو گیا کہ جرمن فوجیں بیچ میں سے آسانی سے گزر کر پچھلی طرف سے آ کے حملہ کر سکتی تھیں اور انگریز فوج کو تباہ کر سکتی تھیں۔ اس وقت محاذ پر جو جرنل تھا اس نے کمانڈر اِنچیف کو اطلاع دی کہ میرے پاس اتنی فوج نہیں ہے۔ یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اس ٹوٹی ہوئی صف کو درست کرنا اب میرے بس میں نہیں رہا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ آج ہماری فوج تباہ ہو جائے گی اور انگلستان اور فرانس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ایسے وقت میں جب وہاں کمانڈر کی تار پہنچی ہے، انتہائی بے بسی کی حالت کی تار کہ بس اب تباہی آئی کہ آئی۔ تو جب کمانڈر کی یہ تار پہنچی تو اس وقت وزیر اعظم وزراء کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھا تھا۔ کوئی اہم مشورہ ہو رہا تھا۔ اس وقت جب اطلاع پہنچی تو وزیر اعظم کر ہی کیا سکتا تھا۔ ایک تو کوئی زائد فوج موجودنہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو اتنی جلدی اس جگہ فوج بھیجی نہیں جا سکتی تھی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یورپ کا مذہب بیشک عیسائیت ہے لیکن اگر اسے اندر سے دیکھا جائے، چھان بین کی جائے تو بالکل کھوکھلا ہے اور عملاً لوگوں کی اکثریت مادہ پرست اور دہریہ ہیں۔ اور اِس زمانہ میں تو اسّی فیصد عملاً دہریہ ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ لیکن بہر حال اس وقت وہ مادہ پرست یورپ جس کی نگاہ عموماً خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھتی تھی، اپنے وسائل پر ان کو بڑا گھمنڈ اور مان تھا اور ایسا طبقہ جو حکومت کر رہا ہو اسے تو ویسے بھی اپنی طاقت اور قوت پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے۔ ان میں خدا تعالیٰ کا خانہ صرف نام کا ہی ہوتا ہے۔ تو ان کے اس وقت سب سے بڑے لیڈر، سردار نے جو اپنی طاقت اور قوت اور شان و شوکت کے فخر میں مست رہتا تھا اور ان کو یقین تھا کہ ہماری اتحادی فوجیں ہیں اب ہم جیت جائیں گے، اس نے بھی محسوس کیا کہ اس وقت کوئی ظاہری مددنہیں ہو سکتی جو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ آؤ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہماری مدد کرے۔ چنانچہ سب گھٹنوں کے بل جھک کر دعا کرنے لگے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ کیا تعجب ہے کہ وہ اس دعا کے نتیجہ میں ہی اس تباہی سے بچ گئے ہوں۔ پس جیسا کہ مَیں نے یہ آیت پڑھی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشکل وقت میں ہر دوسری ذات تمہارا ساتھ چھوڑ جاتی ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ساتھ رہتی ہے، جو کام آتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اضطرار میں کی گئی جو دعائیں ہیں وہ قبول ہوتی ہیں چاہے دہریہ بھی دعا مانگ رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ دہریوں کو بھی اپنی ہستی کا ثبوت دینے کے لئے بعض دفعہ نشان دکھاتا ہے۔ اگر اس کی قسمت میں ہو تو وہ نشان ہی اس کی عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور آجکل بھی ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں کہ دہریہ کسی نشان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ پر یقین لے آتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی کسی نبی یا اس کی جماعت کا مقابلہ کرے اور پھر چاہے وہ جتنی بھی اضطرار کی حالت میں دعائیں کر رہا ہو پھر وہ قبول نہیں ہوتیں کیونکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کے خلاف ہے جس نے ہو کر رہنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے انبیاء نے کامیاب ہونا ہے۔ بہر حال جرمنی اور انگلستان کی لڑائی میں تو دونوں فریق ایک ہی جیسے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کی عاجزی سے کی گئی دعا کو سن لیا اور ایسے سامان پیدا ہوئے کہ جرمن فوج کو خبر نہ ہو سکی کہ ان کے سامنے کی صف ٹوٹ چکی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس صف کے ٹوٹے ہوئے ہونے سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کا مزید یہ بھی واقعہ ہے کہ اس وقت صرف یہ نہیں ہوا تھا کہ جرمنوں کو پتا نہیں چلا اس لئے جنگ کا پانسا ان کے حق میں نہیں پلٹا بلکہ کمانڈر اِنچیف نے ایک افسر کو بلا کر کہا جس پر اس کو یقین تھا کہ یہ بڑے کام کا آ دمی ہے اور کوئی نہ کوئی تدبیر نکال لے گا کہ مجھ سے زیادہ سوال نہ کرنا۔ میدان جنگ کی یہ صورتحال ہے۔ وہاں فوج کوئی نہیں ہے۔ صف ٹوٹ چکی ہے۔ راستہ خالی ہے۔ اب جاؤ اور کوئی انتظام کرو کہ عارضی طور پر کسی طرح کوئی صف بندی ہو جائے۔ وہ افسر بجائے اس کے کہ کمانڈر اِنچیف سے یہ سوال کرتا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ صف جوڑی جا سکے جب کہ فوجیں اِدھر اُدھر ہو چکی ہیں اور کوئی ذریعہ نہیں، اپنی گاڑی میں بیٹھا۔ سیدھا اس جگہ گیا جہاں غیر فوجی کارکن فوج کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ وہاں گیا اور اس نے ان کو جمع کیا اور کہنے لگا کہ تمہیں ملک کی خدمت کا بڑا شوق ہوتا تھا اور فوج کو لڑتا دیکھ کر تمہارے جذبات بھی بھڑکتے تھے، دل میں تمنا پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ملک اور قوم کے کام آ سکیں تو آؤ آج موقع ہے۔ آگے بڑھو اور صف بندی کرو۔ جو تھوڑا بہت اسلحہ تھا انہیں دیا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں جو کارکن تھے ان کو لے گیا اور وہاں کھڑا کر دیا۔ اور بہر حال اس طرح چوبیس گھنٹے گزر گئے اور اس عرصہ میں دوسرے علاقے سے فوج سمٹ کر وہاں پہنچ گئی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد12 صفحہ 120تا122)
تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا دار لوگ بھی مشکل وقت میں جب کوئی سہارا نظر نہ آ رہا ہو تو خدا تعالیٰ کے سہارے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تدبیر تو اپنی جگہ ہے، جو ہوتی ہے۔ تو وہ لوگ جو مادہ پرست ہیں جب ایسے نظارے دکھاتے ہیں تو جن لوگوں کا دعویٰ اور اوڑھنا بچھونا ہی خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھنے کا ہے اور ہونا چاہئے ان کو کس قدر اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری نظر ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے یہ دعا سکھائی ہے جو ہر نماز میں پڑھنے کا حکم ہے اور ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری نظر نہ ہٹے۔ کبھی ہم دنیاوی سہاروں کی طرف نظر نہ رکھیں۔ کبھی ہم پہلے یہ نہ سوچیں کہ دنیاوی سہاروں کی طرف پہلے رجوع کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف بعد میں۔ ہاں ظاہری تدبیر کا بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کرو اور کرنی چاہئے۔ لیکن توکّل جو ہے خدا تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جب سمندر کے طوفان میں پھنس گئے تو خدا تعالیٰ کو پکارنا شروع کر دیا۔ جب صفیں ٹوٹ گئیں تو پھر خدا یاد آیا۔ بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا سکھا کر خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ میری طرف اور صرف میری طرف تمہاری نظر ہونی چاہئے۔ اور یہ دعا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن(الفاتحہ: 5)۔ ایک لمبی حدیث ہے، اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اسے دوں گا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ… حدیث نمبر878)
پس کیا یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی نہیں کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن یہ مستقل ضمانت اس وقت بنتی ہے جب عبادت کی طرف اور خالص ہو کر عبادت کی طرف مستقل نظر رہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا صرف مشکل وقت میں گرفتار ہو کر وہ دعا نہ ہو۔ یہ تو دہریہ بھی کر لیتے ہیں۔ ایسی دعا نہیں ہونی چاہئے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر عہدِ بیعت کیا ہے۔ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا ہے۔ ہم نے عُسراور یُسر، تنگی اور آسائش میں خدا تعالیٰ سے ہی مدد مانگنے اور غیر اللہ سے بیزاری کا عہد کیا ہے۔ ہمیں اپنے عہدنبھانے کے لئے کس قدر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ڈوبتے ہوئے دہریہ کی طرح خدا تعالیٰ کو نہیں پکارنا۔ ہم نے اعلیٰ معراج حاصل کرنے والے مومنین کی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور استعانت کا ادراک حاصل کر کے اس پر عمل کرنا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ ہماری ساری قوت ہماری ساری طاقت اور ہمارا مکمل سہارا خدا تعالیٰ کے سامنے خدا تعالیٰ کے آگے جھک جانے میں ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے اس کے لئے کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہماری عبادتیں اور ہماری خدا تعالیٰ سے مدد کی پکار کا وہ معیار ہے جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہے؟ یا روزانہ بتیس مرتبہ فرض نمازوں میں طوطے کی طرح اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کو دھراتے ہیں اور بس کام ختم ہو جاتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کمزور ہیں اور ہمارا دشمن بہت طاقتور ہے۔ ہمارے پاس دشمن کے مقابلے کے لئے نہ کوئی دنیاوی طاقت ہے، نہ وسائل ہیں، نہ کسی بھی قسم کا ذریعہ ہے۔ پس ایسے حالات میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کی روح کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے دَر کے ہو جائیں۔ آج دنیا میں شیطانی حملے کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ ہر جگہ ہمارے راستے میں مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔ مسلمان کہلانے والے بھی ہماری دشمنی میں بڑھ رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو کیوں مانا اور غیر بھی حسد میں بڑھ رہے ہیں کہ جماعت دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی بن رہی ہے اور اس حسد کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ دنوں جرمنی میں مختلف ذرائع سے میڈیا کی جماعت مخالفت میں بھی نظر آتی ہے۔ یقینا یہ حسد اور مخالفت کی آگیں اپنی آگ میں خود جل جائیں گی۔ انشاء اللہ۔ لیکن ہمیں اپنے فرائض کو ادا کرنا نہیں بھولنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مدد کے طلب کرنے سے کبھی ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ طاقت اتنی بڑی ہے کہ اس کا کوئی دنیاوی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ کوئی دنیاوی طاقت اس کی کامیابی کو روک نہیں سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد بہت وسیع ہے اور اس کی طاقتیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کی ذات محدود ہے، نہ اس کی صفات محدود ہیں۔ پس اس کے آگے جھکنا ہر احمدی کا کام ہے اور اس سے مدد چاہنا ہی ہر احمدی کا کام ہے۔ یہ کام صرف پاکستان کے احمدیوں کا نہیں ہے کہ وہ تو بہت زیادہ مشکلات میں گرفتار ہیں یا بعض مسلمان ممالک میں رہنے والے احمدیوں کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں بسنے والے احمدی کا کام ہے کہ کامل اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں اور اس کی مدد کے طالب ہوں۔ جماعت ایک مضبوط بندھن میں جڑی ہوئی ہے اور ہونی چاہئے۔ یہی جماعت کی خصوصیت ہے کیونکہ اس کے بغیر جماعت، جماعت نہیں رہ سکتی۔ ہر ایک کو دوسرے کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت ہر جگہ ہر احمدی کے شامل حال ہو۔ اور جب ہماری یہ حالت ہو گی تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حیرت انگیز نظارے ہم دیکھیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد10 صفحہ137۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس کثرت اور بار بار کی دعا ہماری کامیابیوں کا راز ہے۔ اس طرف ہمیں بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ جو مشکلات بھی ہمیں درپیش ہیں خواہ وہ کسی گروہ کی کھڑی کی ہوئی ہیں یا حکومتوں کی کھڑی کی ہوئی ہیں یا حاسدین نے معاشرے میں فساد پیدا کرنے کے لئے کھڑی کی ہیں، اس کے لئے چاہے میڈیا کو استعمال کیا گیا ہے یا کوئی اور ذریعہ استعمال کیا گیا ہے یا جو لوگ اس کام میں مصروف ہیں کہ جماعت کی عزت پر کیچڑ اچھالا جائے اُن سب کے خلاف اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔ اور ہم کسی اور سے مدد کی امید رکھتے بھی نہیں ہیں، نہ رکھ سکتے ہیں۔ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اگر ہمارے قصوروں نے اس اللہ تعالیٰ کی نصرت کو پیچھے ڈال دیا ہے تو ہم پررحم کرتے ہوئے ہمیں معاف فرما اور اپنی ناراضگی کی حالت سے ہمیں نکال کر ہمیں ان لوگوں میں شامل کر لے جن پر تیرے فضلوں اور انعاموں کی بارش ہر وقت ہوتی ہے۔ اور جن کو اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا حقیقی فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دیکھو اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے۔ اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دُور ہو جاتا۔ اس لئے ساتھ ہی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو مَیں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد1 صفحہ422۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اس اہم حقیقت کو بھی ہمیں ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس اہم مضمون کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مَیں دعا کے لئے دوبارہ یاددہانی کرواتا ہوں۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جماعت کی ترقی کا ذریعہ بنائے۔ یہ ترقی میں روک بننے والے نہ ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی مدد اور نصرت سے فیضیاب ہونے والے ہوں اور ہوتے چلے جائیں۔
تمہیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے اگر کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو حقیقی رنگ میں تمہاری مدد کر سکتی ہے، مدد کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ ایک حقیقی مومن کو ہر وقت اسے اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ چاہے وہ مدد اور استعانت کی کوشش ذاتی ضروریات کے لئے ہو یا جماعتی ضروریات کے لئے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر عہدِ بیعت کیا ہے۔ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا ہے۔ ہم نے عُسراور یُسر، تنگی اور آسائش میں خدا تعالیٰ سے ہی مدد مانگنے اور غیر اللہ سے بیزاری کا عہد کیا ہے۔ ہمیں اپنے عہدنبھانے کے لئے کس قدر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ڈوبتے ہوئے دہریہ کی طرح خدا تعالیٰ کو نہیں پکارنا۔ ہم نے اعلیٰ معراج حاصل کرنے والے مومنین کی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور استعانت کا ادراک حاصل کر کے اس پر عمل کرنا ہے۔
ہم کمزور ہیں اور ہمارا دشمن بہت طاقتور ہے۔ ہمارے پاس دشمن کے مقابلے کے لئے نہ کوئی دنیاوی طاقت ہے، نہ وسائل ہیں، نہ کسی بھی قسم کا ذریعہ ہے۔ پس ایسے حالات میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں۔ اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کی روح کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے دَر کے ہو جائیں۔ ہمیں اپنے فرائض کو ادا کرنا نہیں بھولنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مدد کے طلب کرنے سے کبھی ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ طاقت اتنی بڑی ہے کہ اس کا کوئی دنیاوی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ کوئی دنیاوی طاقت اس کی کامیابی کو روک نہیں سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد بہت وسیع ہے اور اس کی طاقتیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں بسنے والے احمدی کا کام ہے کہ کامل اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں اور اس کی مدد کے طالب ہوں۔ جماعت ایک مضبوط بندھن میں جڑی ہوئی ہے اور ہونی چاہئے۔ یہی جماعت کی خصوصیت ہے کیونکہ اس کے بغیر جماعت، جماعت نہیں رہ سکتی۔ ہر ایک کو دوسرے کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت ہر جگہ ہر احمدی کے شامل حال ہو۔ اور جب ہماری یہ حالت ہو گی تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حیرت انگیز نظارے ہم دیکھیں گے۔
مَیں دعا کے لئے دوبارہ یاددہانی کرواتا ہوں۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جماعت کی ترقی کا ذریعہ بنائے۔ یہ ترقی میں روک بننے والے نہ ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی مدد اور نصرت سے فیضیاب ہونے والے ہوں اور ہوتے چلے جائیں۔
فرمودہ مورخہ 28؍نومبر 2014ء بمطابق28نبوت 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔