صداقت حضرت مسیح موعودؑ
خطبہ جمعہ 12؍ دسمبر 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج بھی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت کے بعض واقعات پیش کروں گا۔ چاہے ہمارے علم میں پہلے بھی ہوں لیکن حضرت مصلح موعود جس طرح بیان فرماتے ہیں اس سے بعض باتیں مختلف زاویوں سے سامنے آتی ہیں اور اس سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبہ اور آپ کے ساتھ تائیدات الٰہی کا ایک اور رنگ میں بھی پتا چلتا ہے۔
سورۃ یونس کی آیت سترہ میں جو اصول اللہ تعالیٰ نے نبی کی صداقت کا بیان فرمایا ہے کہ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ یعنی پس پہلے مَیں تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں۔ کیا تم عقل نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ یہ کہیں یا آپؐ نے کفار کو یہ کہا۔ بہر حال یہ ایک اصول ہے نبی کی صداقت کا کہ جو اس کا ماضی ہے وہ اس کی زندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
حضرت مصلح موعود ایک جگہ اپنی تقریر میں فرماتے ہیں۔ یہ تقریر کا موقع بھی اس طرح پیدا ہوا کہ قادیان میں مخالفین کے بعض بڑے بڑے مخالف علماء جمع ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے خلاف بڑی دشنام طرازیاں کیں، بڑی تقاریر کیں اور بڑا منصوبہ کر کے وہ جلسہ انہوں نے منعقد کیا اور ارادہ ان کا یہ تھا کہ فساد پیدا کیا جائے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ وہ فساد تو نہ کر سکے لیکن انہوں نے جو بھی دریدہ دہنی کی جا سکتی تھی، گند بَکا جا سکتا تھا بَکا۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جلسہ منعقد کیا یا کہنا چاہئے کہ ایک اجلاس کی صورت تھی جہاں آپ نے ان اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کے جواب بھی دئیے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ثابت کی۔
بہر حال وہ ساری باتیں تو نہیں، ایک آدھ اقتباس مَیں اس میں سے لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’حضرت مرزا صاحب کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ نے یہاں کے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار باعلان یہ فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہو؟ مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۔ اس کے تحت ہر ایک نے یہ گواہی دی کہ آپ کی پہلی زندگی بالکل پاک تھی یا کم از کم اعتراض نہیں اٹھا سکے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہو گیا اس نے اپنے رسالے میں آپ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والدنے اپنے اخبار میں آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے۔ پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کس طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہو گیا اور بگڑ گیا۔ علمائے نفس نے مانا ہے کہ ہر عیب اور اخلاقی نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے۔ (جو نفسیات کے ماہر ہیں وہ یہ یہی کہتے ہیں کہ جو اخلاقی برائیاں ہیں وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں ) ایک دم کوئی تغیر اخلاقی نہیں ہوتا ہے۔ پس دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اور بے نقص اور روشن ہے‘‘ کہ کسی کو جرأت نہیں ہوئی۔ (معیار صداقت۔ انوار العلوم جلد6صفحہ 61)
پھر اللہ تعالیٰ سورۃ مومن فرماتا ہے میں کہ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا(المومن: 52) کہ ہم اپنے رسول کی مدد فرماتے ہیں۔ یہ مدد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے کس طرح دیکھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’آپ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ لوگ مارنے پر متعین ہوئے جن کا علم ہو گیا اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے۔ مقدمے آپ پر جھوٹے مقدمے اقدام قتل کے بنائے گئے۔ چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا بنایا اور ایک شخص نے کہہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا۔ مجسٹریٹ وہ جو اس دعوے کے ساتھ آیا تھا کہ اس مدعیٔ مہدویت و مسیحیت کو اب تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ مَیں پکڑوں گا مگر جب مقدمہ ہوتا ہے وہی مجسٹریٹ کہتا ہے کہ میرے نزدیک یہ جھوٹا مقدمہ ہے۔ بار بار اس نے یہی کہا اور آخر اس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کرکے (جس نے الزام لگایا تھا) پولیس افسر کے ماتحت رکھا گیا اور وہ شخص رو پڑا اور اس نے بتا دیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا اور خدا نے اس جھوٹے الزام کا قلع قمع کر دیا‘‘۔ اس کی باقی تفصیل بعد میں مَیں آگے بیان کروں گا۔
فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح ہماری جماعت کے پُرجوش مبلغ مولوی عمر دین صاحب شملوی اپنا واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پرکھ کر احمدی ہوئے ہیں۔ وہ سناتے ہیں کہ شملہ میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالرحمن سیاح اور چند اور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلہ میں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے۔ مولوی عبدالرحمن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ مَیں اب مباحثہ نہیں کروں گا۔ ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلے پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا تھا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کریں گے اور اب مباحثے کے لئے تیار ہو گئے اور اگر مباحثے پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچا دیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے ہیں۔ اس پر مولوی عمر دین نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ مَیں جاتا ہوں اور جا کر ان کو قتل کر دیتا ہوں۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے! تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے۔ مولوی عمر دین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہو گا۔ انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالے کے سٹیشن پر ملے اور کہا تُو کدھر؟۔ انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں۔ … (مولوی صاحب کہنے لگے کہ) تُو بہت شریر ہے، تیرے باپ کو لکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ تو آپ ہی کے ذریعہ ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے۔‘‘ (معیار صداقت۔ انوار العلوم جلد6صفحہ 61-62)
پس مخالف مارنا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بچاتا ہے۔ بلکہ دشمنی کرنے والا اگر نیک فطرت ہے تو وہ خود گھائل ہو کر جاتا ہے، خود اپنے دل کو بیچ کر جاتا ہے۔
میں نے پہلے مقدمہ قتل کا جو بتایا تھا یہ مقدمہ قتل عیسائیوں کی طرف سے ہوا تھا۔ اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کی ہے۔ یہ مارٹن کلارک کا مقدمہ تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی اس میں گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی ذلت کا سامان کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ یہ لکھتے ہیں بلکہ خطبے میں ذکر کیا ہے کہ ’’مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کے لئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے۔ مسلمانوں میں علماء کہلانے والے بھی اس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس مقدمے میں آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلّت کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کے لئے خاص ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے‘‘ (لیکن ہوا کیا؟) حضرت مصلح موعود کہتے ہیں۔ ’’مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی کر رہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت ہوتی تھی تو آپ علیہ السلام نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا۔ … مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بے حقیقت آدمی ہے۔ (کسی آدمی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے بعض سوال کئے جاتے ہیں)۔ مولوی فضل دین صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ سوالات سنائے جو وہ مولوی محمد حسین (صاحب) پر کرنا چاہتے تھے تو ان میں ایک سوال … سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوال کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی اس لئے کہ گواہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ وہ ایسا معزز نہیں۔ مگرآپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں۔ ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مولوی فضل دین صاحب احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے اور حنفیوں کے لیڈر تھے۔ انجمن لقمانیہ وغیرہ کے سرگرم رکن تھے۔ اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے۔ مگر جب کبھی غیر احمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پر زور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور اخلاق کے لحاظ سے مَیں نے بھی ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر آپ (علیہ السلام) کھڑے تھے۔ اب دیکھو اِدھر گواہ کے ذلیل ہونے کا الہام ہے۔ اُدھر اس کی گواہی آپ (علیہ السلام) کو مجرم بناتی ہے۔ مگر جو بات اس کی (مجرم کی یا گواہ کی) پوزیشن کو گرانے والی ہے۔ (گواہ کی پوزیشن کو گرانے والی تھی) وہ آپ پوچھنے ہی نہیں دیتے۔ لیکن جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی اس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق کو دکھا کر آپ کی عزت قائم کی (کہ غیر احمدی جو وکیل تھا اس کی نظر میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ہو گیا) اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرا دیا۔ اور یہ اس طرح ہوا۔ (مولوی صاحب کی ذلت) کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت تھا اس نے جونہی آپ کی شکل دیکھی (ایک طرف تو کہہ رہا تھا میں پکڑوں گا جب شکل دیکھی، آپ کا چہرہ دیکھا) اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ مقام ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگوا کر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھایا۔ جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی کے لئے آئے تو چونکہ وہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی یا کم از کم آپ کو ذلت کے ساتھ کھڑا کیا گیا ہوگا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصے سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی ملے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کرسی ملتی ہے مگر یہ عدالت ہے۔ مرزا صاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے۔ ان کا معاملہ اَور ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد17صفحہ 553تا555)
اب چہرہ دیکھ کرایک ڈپٹی کمشنر کے اور وہ بھی انگریز کے رویے میں جو تبدیلی پیدا ہوئی جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اب میں پکڑوں گا کیونکہ معمولی بات نہیں ہے۔ کیپٹن ڈگلس جو تھے ان کی مخالفت کوئی معمولی مخالفت نہیں تھی بلکہ اس نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا تھا۔ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’چند دن پہلے اس نے کہا تھا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح کا دعویٰ کیا ہے اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے اس کو آج تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ جب مسل آئی تو (ڈپٹی کمشنر کیونکہ اس پر وارنٹ کرنا چاہتا تھا۔ ) مسل خوان نے کہا۔ جناب والا! یہ کیس وارنٹ کا نہیں بلکہ سمن کا کیس ہے۔ اس لئے وارنٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ سمن بھیجا جا سکتا ہے۔ ان دنوں جلال الدین ایک انسپکٹر پولیس تھے جو احمدی تو نہیں تھے لیکن بڑے ہمدرد انسان تھے۔ انہوں نے بھی ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی کہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ وارنٹ جاری کیا جا رہا ہے۔ یہ وارنٹ کا کیس نہیں۔ سمن کا کیس ہے۔ لہٰذا وارنٹ کے بجائے سمن بھیجنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سمن جاری کیا گیا اور انہی جلال الدین صاحب کو اس کی تعمیل کرنے کے لئے قادیان بھیجا گیا۔ چنانچہ بعد میں مقررہ تاریخ پر آپ بٹالہ حاضر ہوئے جہاں ڈپٹی کمشنر صاحب دورہ پر آئے ہوئے تھے۔ جب آپ عدالت میں پہنچے تو وہی ڈپٹی کمشنر جس نے چند دن پہلے کہا تھا کہ یہ شخص خداوند یسوع کی ہتک کر رہا ہے اس کو کوئی پکڑتا کیوں نہیں؟ اس نے آپ کا بہت اعزاز کیا (جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ) عدالت میں کرسی پیش کی اور (یہ بھی) کہا کہ آپ بیٹھے بیٹھے میری بات کا جواب دیں۔ اس مقدمے میں (جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی بطور گواہ کے پیش ہوئے۔ (اس وقت) عدالت کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم بھی تھا اور لوگ بڑے شوق سے مقدمہ سننے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جب مولوی محمد حسین صاحب عدالت میں پہنچے اور (جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو کرسی پر بیٹھے دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے۔ کیونکہ وہ تو سوچ کے آئے تھے کہ جب میں جاؤں گا تو مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہو گی اور بڑی ذلت کی حالت ہو گی۔ (لیکن یہ تو بالکل الٹ ہو رہا تھا۔ ) مقدمہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا تھا۔ مدعی بھی ایک انگریز پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک تھا۔ (ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انگریز تھے لیکن درحقیقت وہ کسی پٹھان کی نسل میں سے تھے جس نے ایک انگریز سے شادی کی ہوئی تھی اور وہ انگریز کا لَے پالک بھی تھا۔ ) مولوی محمد حسین صاحب جیسے مشہور عالم بطور گواہ پیش ہو رہے تھے مگر پھر بھی دشمن ناکام و نامراد رہا اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعزاز کیا گیا وہاں آپ کے مخالفین کو ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ آپ کو کرسی پیش کی گئی ہے‘‘ (جیسے پہلے ذکر ہو چکا ہے) اور بجائے اس کے مجھے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے تو وہ اس پر بڑے سیخ پا ہوئے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے۔ ’’اس وقت انگریزمولویوں کو بہت ذلیل سمجھتے تھے۔ وہ (ڈپٹی کمشنر) کہنے لگا کہ ہماری مرضی ہے ہم جسے چاہیں کرسی پر بٹھائیں اور جسے چاہیں کرسی نہ دیں‘‘۔ وہ کہنے لگا کہ ’’میں نے دیکھا ہے کہ ان کا خاندان کرسی نشین ہے اس لئے میں نے انہیں کرسی دی ہے۔ تمہاری حیثیت کیا ہے؟ مولوی محمد حسین صاحب کہنے لگے کہ میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میں گورنر کے پاس جاتا ہوں‘‘ (اور بڑی باتیں کی)۔ تو اس نے کہا تم مجھے جاہل آدمی لگتے ہو۔ گورنر کے پاس تو کوئی بھی آدمی جائے گا کرسی پیش کی جائے گی۔ یہ عدالت ہے گورنر کا دربار نہیں ہے۔ بہرحال ان کی تسلی نہ ہوئی۔ پھر مولوی محمدحسین صاحب نے ڈپٹی کمشنر سے بحث کرنی شروع کر دی۔ ’’ڈپٹی کمشنر کو (بھی) غصہ آ گیا اور اس نے کہا بک بک مت کرو۔ پیچھے ہٹو اور جوتیوں میں کھڑے ہو جاؤ۔ چپڑاسی تو دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی نظر کس طرف ہے۔ چپڑاسی نے جب ڈپٹی کمشنر صاحب کے الفاظ سنے تو اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو بازو سے پکڑ کر جوتیوں میں لا کھڑا کیا۔ جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ میری ذلت ہوئی ہے۔ باہر ہزاروں آدمی کھڑے ہیں اگر انہیں میری اس ذلت کا علم ہوا تو وہ کیا کہیں گے؟ تو کمرہ عدالت سے باہر نکلے۔ برآمدے میں ایک کرسی پڑی تھی۔ مولوی صاحب نے سمجھا کہ اس ذلت کو چھپانے کا بہترین موقع ہے۔ جھٹ کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئے اور خیال کر لیا کہ لوگ کرسی پر بیٹھے دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے اندر بھی کرسی ملی تھی۔ چپڑاسی نے دیکھ لیا وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا انداز دیکھ چکا تھا۔ اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر خیال کیا کہ اگر ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں یہاں بیٹھا دیکھ لیا تو وہ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ اس خیال کے آنے پر اس نے مولوی صاحب کو وہاں سے بھی اٹھا دیا اور کہا کہ کرسی خالی کر دیں۔ چنانچہ برآمدے والی کرسی بھی چھوٹ گئی۔ باہر آگئے تو لوگ چادریں بچھائے انتظار میں بیٹھے تھے کہ مقدمے کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ ایک چادر پر کچھ جگہ خالی دیکھی تو وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ یہ چادر (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) میاں محمد بخش صاحب مرحوم بٹالوی کی تھی جو مولوی محمد حسین صاحب مربی سلسلہ کے والد تھے۔ (جن کی یہ چادر تھی ان کے بیٹے مربی سلسلہ تھے۔ بعد میں مربی بنے۔ ) اور اس وقت (یہ محمد بخش صاحب جو تھے) غیر احمدی تھے (احمدی نہیں ہوئے تھے) بعد میں احمدی ہوگئے۔ بہرحال کہتے ہیں یہ چادر ان کی تھی۔ ) انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو غصے میں آ گئے اور کہنے لگے۔ میری چادر چھوڑ۔ تُو نے تو میری چادر پلید کر دی ہے۔ تُو مولوی ہو کر عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے۔ چنانچہ اس چادرسے بھی انہیں اٹھنا پڑا اور اس طرح ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا۔ تو دیکھو یہ آیات بینات ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دشمن کے ہاتھوں سے بری فرمایا۔ پھر اس پر ہی بس نہیں۔ سر ڈگلس کو خدا تعالیٰ نے اور نشانات بھی دکھلائے جو مرتے دم تک انہیں یاد رہے اور (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) انہوں نے (سرڈگلس نے) خود مجھ سے بھی بیان کئے۔ 1924ء میں جب میں انگلینڈ گیا تو یہ سارا قصہ مجھ سے بیان کیا۔ سرڈگلس کے ایک ہیڈ کلرک تھے جن کا نام غلام حیدر تھا۔ وہ راولپنڈی کے رہنے والے تھے بعد میں وہ تحصیلدار ہو گئے تھے۔ (سرگودھا کے شاید رہنے والے تھے۔) انہوں نے خود مجھے یہ قصہ سنایا اور کہا جب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والا مقدمہ ہوا تو میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ہیڈ کلرک تھا۔ جب عدالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں۔ تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا انتظام کرو۔ ٹرین پر بکنگ کراؤ۔ چنانچہ مَیں مناسب انتظامات کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر آ گیا۔ مَیں اسٹیشن سے باہر نکل کر برآمدے میں کھڑا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں۔ وہ کبھی اِدھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر۔ ان کا چہرہ پریشان ہے۔ مَیں ان کے پاس گیا اور کہا۔ صاحب! آپ باہر پھر رہے ہیں۔ میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں آپ وہاں تشریف رکھیں۔ وہ کہنے لگے منشی صاحب! آپ مجھے کچھ نہ کہیں میری طبیعت خراب ہے۔ میں نے کہا کچھ بتائیں تو سہی۔ آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہوگئی ہے تا کہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ جب سے میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گناہگار نہیں۔ ان کا کوئی قصور نہیں۔ پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف نکل جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ پھر مَیں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں بھی مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ میں نے کہا صاحب! آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں۔ ان کو بلا لیتے ہیں۔ شاید ان کی باتیں سن کر آپ کو تسلی ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کا نام لیمار چنڈ تھا۔ سر ڈگلس نے کہا انہیں بلوا لو۔ چنانچہ مَیں انہیں بلا لایا۔ جب وہ آئے تو سر ڈگلس نے ان سے کہا کہ دیکھو یہ حالات ہیں۔ میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے۔ مَیں اسٹیشن پر ٹہلتا ہوں اور گھبرا کر اس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے۔ پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کے میری حالت پاگلوں کی سی ہو گئی ہے۔ اگر تم اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہو تو کرو ورنہ مَیں پاگل ہو جاؤں گا۔ تو سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کہا اس میں کسی اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے۔ آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالے کیا ہوا ہے۔ جو گواہ ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے اس کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تو آپ نے پادریوں کے حوالے کیا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو کچھ اسے سکھاتے ہیں وہ عدالت میں آ کر بیان دیتا ہے۔ آپ اسے پولیس کے حوالے کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیا بیان دیتا ہے۔ چنانچہ اسی وقت سرڈگلس نے کاغذ قلم منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبدالحمید کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔ اور حکم کے مطابق عبدالحمید کو پادریوں سے لے لیا گیا اور پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ دوسرے دن یا اسی دن اس نے فوراً اقرار کر لیا کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس کا بیان ہے کہ مَیں نے اسے سچ سچ بیان دینے کے لئے کہا تو اس نے پہلے تو اصرار کیا کہ وہ واقعہ بالکل سچا ہے۔ مرزا صاحب نے مجھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا لیکن میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص پادریوں سے ڈرتا ہے۔ چنانچہ میں نے کہا کہ میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے حکم لے لیا ہے کہ اب تمہیں پادریوں کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا۔ اب تم پولیس کے حوالات میں ہی رہو گے۔ تو وہ میرے پاؤں پر گر گیا اور کہنے لگا صاحب! مجھے بچا لو۔ مَیں اب تک جھوٹ بولتا رہا ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ صاحب آپ دیکھتے نہیں تھے کہ جب مَیں گواہی کے لئے عدالت میں پیش ہوتا تھا تو میں ہمیشہ ہاتھ کی طرف دیکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب پادریوں نے مجھے کہا کہ جاؤ اور عدالت میں بیان دو کہ مجھے مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا اور امرتسر میں مجھے فلاں مستری کے گھر میں جانے کے لئے ہدایت دی تھی۔ {حضرت مصلح موعود کہتے ہیں یہ دوست مستری قطب دین صاحب تھے جن کا ایک پوتا اس وقت (اس زمانے میں ) جامعہ میں پڑھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس نے کہا کہ} مَیں تو وہاں کے احمدیوں کو جانتا نہیں۔ مجھے اس کا نام یادنہیں رہے گا۔ اس پر مستری صاحب کا نام کوئلے کے ساتھ میری ہتھیلی پر لکھ دیتے تھے۔ جب میں گواہی دینے آتا تھا اور ڈپٹی کمشنر مجھ سے دریافت کرتے تھے کہ تمہیں امرتسر میں کس کے گھر بھیجا گیا تھا تو مَیں ہاتھ اٹھاتا تھا اور اس پر سے نام دیکھ کر کہہ دیتا تھا کہ مرزا صاحب نے مجھے فلاں احمدی کے پاس بھیجا تھا۔ (ہر دفعہ مختلف گواہوں کے لئے نام بھی لکھے جاتے تھے۔ ) غرض اس نے ساری باتیں بتا دیں اور سر ڈگلس نے اگلی پیشی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری کر دیا۔
تو دیکھو یہ سب واقعات ہمارے لئے آیات بینات ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سرڈگلس کے لئے اور آیات بینات بھی پیدا کئے۔ ایک آیت بیّنہ یہ تھی کہ انہیں ٹہلتے ٹہلتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آتی تھی اور وہ تصویر کہتی تھی کہ میں بے گناہ ہوں میرا کوئی قصور نہیں۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) پھر انہوں نے خود مجھے سنایا کہ ایک دن مَیں گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک ہندوستانی آئی سی ایس آیا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اپنی زندگی کے عجیب حالات میں سے کوئی ایک واقعہ بتائیں تو میں نے اسے یہی مرزا صاحب والا واقعہ سنایا۔ مَیں یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ ان کا جو بیرا تھا، کام کرنے والا تھا اس نے ایک کارڈ لا کر دیا اور کہا باہر ایک آدمی کھڑا ہے جو آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا اس کو اندر بلا لو۔ جب وہ شخص اندر آیا تو میں نے کہا نوجوان! مَیں آپ کو جانتا نہیں آپ کون ہیں؟ اس نوجوان نے کہا کہ آپ میرے والد کو جانتے ہیں آپ ان کے واقف ہیں ان کا نام پادری وارث دین تھا۔ مَیں نے کہا ہاں میں ابھی ان کا ذکر کر رہا تھا۔ وہ نوجوان کہنے لگا کہ ابھی تار آئی ہے کہ پادری وارث دین فوت ہو گئے ہیں۔ وارث دین ایک پادری تھا جس نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو خوش کرنے کے لئے اس کی طرف سے یہ ساری کارروائی کی تھی۔ (مقدمہ وغیرہ کروایا تھا) مگر خدا تعالیٰ نے ڈپٹی کمشنر صاحب پر حق کھول دیا اور خود جو گواہ تھا اس نے بھی اقرار کر لیا کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے۔ مگر عین اس وقت جب سر ڈگلس وارث دین کا ذکر کر رہے تھے۔ ان کے بیٹے کا وہاں آنا اور اپنے والد کی وفات کی خبر دینا عجیب اتفاق تھا۔ سر ڈگلس اپنی موت تک جس احمدی کو بھی ملتے رہے اسے یہ واقعہ بتاتے رہے۔ انہوں نے مجھے بھی یہ واقعہ سنایا، چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھی اور چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو بھی یہ سب واقعہ سنایا۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) 1924ء میں جب مَیں لندن آیا تو ان کی صحت اچھی تھی۔ کہتے ہیں یہ 32سال قبل کا واقعہ ہے اور اب وہ (سر ڈگلس) 93سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں۔ 24ء میں ان کی 61 سال عمر تھی۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اب جب مَیں 1953ء میں دوبارہ گیا تو مَیں نے انہیں بلایا تو انہوں نے معذرت کر دی اور کہا۔ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت کمزور ہوں۔ اب میرے لئے چلنا پھرنا مشکل ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اب سنا ہے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں تو مجھے افسوس ہوا کہ موٹر ہمارے پاس تھی۔ ہم موٹر میں ہی انہیں منگوا لیتے۔ یا ان کے گھر چلے جاتے۔ تو (لکھتے ہیں کہ) یہ آیات بیّنات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے اور مومن کو چاہئے کہ وہ سچے معنوں میں مومن بننے کے لئے کوشش کرے۔ اگر وہ حقیقی مومن بنے تو اللہ تعالیٰ ضرور غیب سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے اس کا ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے اور درحقیقت ایسے ایمان کے بغیر کوئی مزہ بھی نہیں۔ جس ایمان نے آنکھیں نہ کھولیں اور انسان کو اندھیرے میں رکھا اس کا کیا فائدہ۔ جو اس جہان میں اندھا رہے گا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا رہے گا اور جسے اسی جہان میں آیات بیّنات نظر نہیں آتیں اس کو اگلے جہان میں بھی آیات بیّنات نظر نہیں آئیں گی۔ اس دنیا میں آیات بیّنات نظر آئیں تو دوسری دنیا میں بھی آیات بیّنات نظر آتی ہیں۔‘‘ (ماخوذ از الفضل 30مارچ 1957صفحہ 6-7جلد 46/11نمبر77)
اب یہ نشانات کی بات ہے تو نشانات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ گو اس بات کو سو سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے جو ایک بڑا نشان تھا۔ اور یہ نشان اب اس طرح ظاہر ہو رہا ہے کہ کیپٹن ڈگلس کے نواسے نے مجھے پیغام بھجوایا کہ مَیں بیعت کرنی چاہتا ہوں اور کہا کہ مَیں سوچتا ہوں کہ کون سا نیک کام میرے نانا سے ہوا تھا اور اتنی بڑی نیکی ہوئی تھی کہ میرے دل میں شدت سے خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ مَیں احمدیت میں شامل ہو جاؤں۔ اور یہ ہے نشان کہ آج اس کے نواسے کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ سچائی جو سر ڈگلس کو دکھائی گئی تھی اس کو اس نے تو قبول نہیں کیا لیکن اس سچائی کو دیکھ کر مَیں آج قبول کرتا ہوں اور مارٹن کلارک کے پڑپوتے کا قصہ تو آپ لوگ سن ہی چکے ہیں۔ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ اس نے یہاں (جلسہ پر) آ کے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ میرا پردادا غلط تھا اور حضرت مرزا صاحب سچے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ’’پس مومن کو ہمیشہ دعاؤں اور ذکر الٰہی میں لگے رہنا چاہئے کہ وہ دن اسے نصیب ہو جب اللہ تعالیٰ اسلام اور اپنی ذات کی سچائی اس کے لئے کھول دے اور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منور چہرہ اور خدا تعالیٰ کا نورانی چہرہ نظر آ جائے۔ جب یہ ہو جائے تو پھر رات اور دن اور سال تکلیف کے سال ہوں یا خوشی کے سال ہوں اس کے لئے برابر ہو جاتے ہیں۔ بس اگر اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر آ جائے، آپ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نظر آ جائے تو پھر کوئی خوشی غمی کا احساس نہیں رہتا۔ بس ایک ہی احساس رہتا ہے اور اسی محبت میں انسان ڈوبا رہتا ہے۔ فرماتے ہیں اور چاہے کچھ بھی ہو ایسا آدمی ہمیشہ خوش رہتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کسی سے ڈرتا نہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھیں والا مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ ہندو تھا۔ آریوں نے اسے ورغلایا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور کچھ سزا دے اور اس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے جب یہ بات سنی تو وہ ڈر گئے۔ کہنے لگے کہ حضور! بڑے فکر کی بات ہے۔ آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے۔ آپ کسی طرح قادیان تشریف لے چلیں۔ گورداسپور میں مزید عرصہ نہ ٹھہریں۔ اگر آپ گورداسپور میں ٹھہرے تو مجسٹریٹ نے کل آپ کو کوئی نہ کوئی سزا ضرور دے دینی ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ خواجہ صاحب! اگر میں قادیان چلا جاؤں تو وہاں سے بھی مجھے پکڑا جا سکتا ہے۔ پھر میں کہاں جاؤں۔ مجسٹریٹ کو اختیارات حاصل ہیں اگر قادیان گیا تو وہاں بھی وارنٹ آ سکتا ہے اور وہاں سے کسی دوسری جگہ گیا تو وہ بھی محفوظ جگہ نہیں ہو گی۔ وہاں بھی وارنٹ جاری کئے جا سکتے ہیں۔ پھر میں کہاں کہاں بھاگتا پھروں گا۔ خواجہ صاحب کہنے لگے حضور! آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے۔ آپ اٹھ کر بیٹھے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ کیوں پریشان ہو گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ وہ دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی۔ ان میں سے ایک تو معطّل ہوا اور ایک کا بیٹا پاگل ہو گیا اور چھت پر سے چھلانگ مار کر مر گیا۔ پھر اس پر یہ اثر تھا کہ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) میں دلّی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانے کے اسٹیشن پر مجھے ملا اور کہنے لگا دعا کریں۔ میرا ایک اور بیٹا ہے خدا تعالیٰ اسے بچا لے۔ مجھ سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں۔ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے اور آریوں کو ان کے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔
پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے تو پھر دنیا کی ہر شئے اس کی ہو جاتی ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ ’’جے تُو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘۔ یعنی اگر تُو خدا تعالیٰ کا ہو جائے تو سب جہان تیرا ہو جائے گا۔ دنیا کی کوئی چیز تمہیں ضرر نہیں پہنچا سکے گی اور کوئی دشمن تمہارے خلاف کوئی شرارت نہیں کر سکے گا۔ پس تم اللہ تعالیٰ کے بنو اور دعا کرتے رہو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ۔ اس طرح تم بھی امن میں آ جاؤ اور تمہاری اولاد اور دوسرے عزیز اور دوست بھی امن میں آ جائیں۔ یاد رکھو جب تک جماعت امن میں نہیں رہے گی تم بھی امن میں نہیں رہ سکتے اور جماعت اسی وقت امن میں رہ سکتی ہے جب تمہاری آئندہ نسلیں امن میں ہوں‘‘۔ (ماخوذ از الفضل 30مارچ 1957صفحہ 6-7 جلد 46/11نمبر77)
پھر اسی مقدمے کے سلسلے میں ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے گھبرا کر دعا کی۔ رات کو رؤیا میں دیکھا کہ میں سکول سے آ رہا ہوں اور اس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے۔ پہلے تو ان میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا مگر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے۔ جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا۔ ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانے میں اترتی تھیں۔ بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے۔ (یعنی کاٹھ کباڑ ہوتا تھا۔ ) جب میں گھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ صرف آپ کی گردن مجھے نظر آرہی ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو مَیں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور مَیں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں۔ اسی دوران میں اچانک میری نظر اوپر اٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’’جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں ان کو کون جلا سکتا ہے۔ تو (فرماتے ہیں کہ) اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مومنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گو نہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامان حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دئیے‘‘۔ (سیر روحانی (3)انوار العلوم جلد16صفحہ 383)
کیپٹن ڈگلس صاحب نے جو واقعہ ایک آئی سی ایس افسر کو بیان کیا تھا۔ اس میں ایک بات یہ بھی بیان کی تھی کہ مجھے بڑی سخت گھبراہٹ تھی کہ مقدمہ غلط ہے تو کہتے ہیں بہرحال میں نے فیصلہ کر لیا اور حق ثابت ہو گیا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مَیں نے مرزا صاحب جیسا وسیع الحوصلہ بھی کوئی نہیں دیکھا۔ باوجود اس کے کہ ان پر ایک خطرناک جرم لگا کر انہیں خطرے میں ڈالا گیا تھا پھر بھی جب میں نے انہیں کہا یعنی عدالت نے جب انہیں کہا کہ آپ ان پر اپنی ہتک کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہہ دیا کہ مَیں نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ (ماخوذ از ضمیمہ اخبار الفضل قادیان 21اکتوبر1927ء صفحہ21-22 جلد 15 نمبر 33)
ان تمام مخالفتوں کے باوجود جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سامنا کرنا پڑا یہ آپ کا حوصلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نہ صرف آپ محفوظ رہے بلکہ آپ کی جماعت بھی بڑھتی رہی۔ قادیان بھی ترقی کرتا رہا۔
اسی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’ایک زمانہ تھا کہ یہاں احمدیوں کو مسجدوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا۔ مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ چوک میں کِلّے گاڑ دئیے گئے تھے تا نماز پڑھنے کے لئے جانے والے گریں اور کنویں سے پانی نہیں بھرنے دیا جاتا تھا بلکہ یہاں تک سختی کی جاتی تھی کہ کمہاروں کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ احمدیوں کو برتن بھی نہیں دینے۔ جو مٹی کے برتن بنانے والے ہیں ان کو بھی منع کر دیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں یہ ساری مشکلات تھیں مگر اب وہ لوگ کہاں ہیں۔ ان کی اولادیں احمدی ہو گئی ہیں اور وہی لوگ جنہوں نے احمدیت کو مٹانے کی کوشش کی ان کی اولاد اسے پھیلانے میں مصروف ہے۔ یہی مدرسہ جس جگہ واقعہ ہے(مدرسے میں خطاب فرما رہے تھے) یہاں پرانی روایات کے مطابق جنّ رہا کرتے تھے۔ (پہلی روایات تھیں کہ یہاں اس جگہ پر جنّ رہتے ہیں) اور کوئی شخص دوپہر کے وقت بھی اس راستے سے اکیلا نہ گزر سکتا تھا۔ اب دیکھو وہ جنّ کس طرح بھاگے۔ مجھے یاد ہے اس (ہائی سکول والے) میدان سے جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رؤیا سنایا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے اور شمال کی طرف بھی بہت دُور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے۔ اس وقت یہاں صرف آٹھ دس گھر احمدیوں کے تھے اور وہ بھی تنگدست۔ باقی سب بطور مہمان آتے تھے۔ لیکن اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کس قدر ترقی اسے دے دی ہے‘‘۔ (الفضل قادیان 9فروری 1932ء صفحہ6جلد 19نمبر95)
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جگہ سے بھی نکل کے باہر قادیان کی وسعت ہوتی چلی جا رہی ہے۔ احمدی بھی خوبصورت مکانات بنا رہے ہیں۔ فلیٹ بنا رہے ہیں۔ جماعت کے بھی گیسٹ ہاؤسز بن رہے ہیں۔ فلیٹس بن رہے ہیں۔ کوارٹر بن رہے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعودؑ کی بستی کی ترقی تو ہم دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب وہ مخالف ہندو جو مسجد اقصیٰ میں اس وجہ سے غصے میں آتا تھا اور احمدیوں سے لڑتا تھا کہ بچوں کا شور ہوتا ہے اور یہاں زیادہ لوگ آگئے ہیں کیونکہ اس کا گھر مسجد اقصیٰ کے صحن کے شرقی جانب تھا اور ساتھ جڑا ہوا تھا۔ آج وہ گھر جو ہے وہ مسجد اقصی کی جب extension ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد اقصیٰ کا حصہ بن چکا ہے۔
مخالفین کی بائیکاٹ اور ایذا رسانی کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ بھی ہم نے دیکھا۔ وہ وقت بھی دیکھا جب چوہڑوں کو صفائی کرنے اور سَقّوں کو پانی بھرنے سے روکا جاتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی دیکھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے جاتے تو آپ پر مخالفین کی طرف سے پتھر پھینکے جاتے اور وہ ہر رنگ میں ہنسی اور استہزاء سے پیش آتے۔ مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود کیا ہوا۔ اس وقت حضرت مصلح موعود خطبہ دے رہے تھے۔ کہتے ہیں ’’آپ جتنے لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں آپ میں سے پچانوے فیصدی وہ ہیں جو اُس وقت مخالف تھے یا مخالفوں میں شامل تھے مگر اب وہی پچانوے فیصدی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جماعت میں شور اٹھا۔ اس کا کیا حشر ہوا۔ اس فتنہ کے سرگروہ وہ لوگ تھے جو صدر انجمن پر حاوی تھے اور تحقیر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا ہم ایک بچے کی غلامی کر لیں۔ خدا تعالیٰ نے اسی بچے کا ان پر ایسا رعب ڈالا کہ وہ لوگ قادیان چھوڑ کر بھاگ گئے اور اب تک یہاں آنے کا نام نہیں لیتے۔ انہیں لوگوں نے اس وقت بڑے غرور سے کہا تھا کہ جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے اور دو فیصدی ان کے ساتھ۔ (یعنی خلافت کے ساتھ۔) مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو فیصدی بھی ان کے ساتھ نہیں رہا اور اٹھانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکا ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد15صفحہ 207)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس وقت جب خطبہ دے رہے تھے تو جتنے لوگ ان کے سامنے بیٹھے ہوں گے اِس وقت لندن میں میرے خیال میں اُس سے زیادہ تعداد میں لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں بلکہ مسجد فضل میں بھی جمعہ ہو رہا ہے وہاں بھی شاید اس سے زیادہ لوگ ہوں۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات کی نشانی ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو پھیلا دیا ہے۔
پس یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہیں اور آپ کے بعد جاری خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی دلیل ہیں اور ہمارے ایمانوں میں اضافہ کرنے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان باتوں کو ہم ہمیشہ سامنے رکھیں اور یہ باتیں ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمانوں میں ہمیشہ اضافہ کرتی رہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی حیات طیّبہ سے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ۔
ان واقعات سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مقام و مرتبہ اور آپ کے ساتھ تائیدات الٰہی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
نشانات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کیپٹن ڈگلس کے نواسے نے مجھے پیغام بھجوایا کہ مَیں بیعت کرنی چاہتا ہوں۔ مارٹن کلارک کے پڑپوتے نے یہاں (جلسہ پر) آ کے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ میرا پردادا غلط تھا اور حضرت مرزا صاحب سچے تھے۔
یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی صداقت کی دلیل ہیں اور آپ کے بعد جاری خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی دلیل ہیں اور ہمارے ایمانوں میں اضافہ کرنے والی ہیں۔
فرمودہ مورخہ 12؍دسمبر 2014ء بمطابق12فتح 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔