پاکستان میں درندگی اور سفّاکی کی بدترین مثال
خطبہ جمعہ 19؍ دسمبر 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ ظلم و بربریت کے جتنے نمونے یا واقعات ہمیں مسلمان کہلانے والے ممالک میں نظر آتے ہیں وہ دوسرے غیر مسلم ممالک میں نہیں ہیں۔ یا کم از کم وہاں ظاہراً یہ نمونے اتنی کثرت سے نہیں ہیں اور جب واقعات ہوتے ہیں تو عموماً ان کے خلاف ان ترقی یافتہ ممالک میں یا غیر مسلم ممالک میں آواز بھی بڑے زور دار طریقے سے اٹھائی جاتی ہے۔ چاہے یہ ظلم حکومتی کارندوں کی طرف سے ہو یا کسی گروپ یا فرد کی طرف سے ہو رہا ہو۔ گزشتہ دنوں میں امریکہ میں بھی واقعات ہوئے اور وہاں بڑے پرزور احتجاج ہوئے۔ لیکن اسلام پیار محبت اور بھائی چارے کی جتنی تلقین کرتا ہے آجکل کی مسلمان حکومتیں اور اسی طرح اسلام کے نام پر جو دوسرے گروپ بنے ہوئے ہیں وہ گروہ یا تنظیمیں اتنا ہی ذاتی مفادات کی خاطر یا امن قائم کرنے کے لئے یا اسلام کے نام پر ظلم کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گویا کہ اسلام کی تعلیم کے بالکل الٹ چل رہے ہیں اور آجکل اسلام کے نام پر یا شریعت کے نافذ کرنے کے نام پر بے شمار شدت پسند تنظیمیں بن چکی ہیں جو ایسے ایسے ظلم کے مظاہرے کر رہی ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ حرکتیں انسان کر رہے ہیں یا انسانوں کے رُوپ میں حیوانوں سے بھی بدتر کوئی مخلوق کر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں ظلم کی ایک ایسی صورت ہمارے سامنے آئی جو صرف ظلم ہی نہیں تھا بلکہ درندگی اور سفّاکی کی بدترین مثال تھی۔ ایسی چیز جس سے ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا واقعہ جس سے انسانیت چیخ اٹھی۔ ہر شخص جس میں انسانیت کی ہلکی سی بھی رمق ہے چیخ اٹھا اور بے چین ہو گیا۔ ایسے ہی خون کی ہولی آج سے قریباً ساڑھے چار سال پہلے لاہور میں ہماری مساجد میں بھی کھیلی گئی تھی۔ یہاں کے ایک ٹی وی چینل نے غالباً بی بی سی نے پاکستان میں ہونے والے پانچ ایسے بدترین واقعات کا ذکر کیا جو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں رونما ہوئے تو ان میں لاہور میں ہماری مساجد کا جو واقعہ تھا اس کا بھی ذکر کیا گیا۔ بہرحال ہمارے اس صدمے کو اور ہم پر کئے گئے ظلم کو شاید مولوی کے خوف سے نہ ہی حکومت نے قابل توجہ سمجھا اور نہ ہی عوام النّاس کی اکثریت نے ہمدردی اور افسوس کے قابل سمجھا یا کیا گیا۔ لیکن ہم احمدی تو انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے ہیں اور انسانیت کو تکلیف میں دیکھ کر ہم بے چین ہو جاتے ہیں اور پھر جو پاکستان میں گزشتہ دنوں واقعہ ہوا یہ تو ہمارے ہم وطن اور شاید تمام ہی مسلمان کہلانے والے تھے جن کے لئے ہمارے دل رحم کے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے ہم بے چین ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارے اندر ہمدردی ہے۔ ان پر ظلم دیکھ کر تو ہم نے بے چین ہونا ہی تھا اور ہوئے کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا یہ پاکستانی نہ صرف ہم میں سے یہاں بیٹھے ہوئے اکثر کے ہموطن بلکہ مسلمان بھی ہیں۔ اور پھر اس واقعہ میں بہیمیت کی انتہا کی گئی ہے کیونکہ اس ظلم کی بھینٹ چڑھنے والوں کی اکثریت جو تھی وہ معصوم بچوں کی تھی۔ پانچ چھ سات سال کے بچے بھی تھے۔ دس گیارہ بارہ تیرہ سال تک کی عمر کے بچے تھے۔ ایسے بچے بھی بیچ میں شہید ہوئے جو پانچ چھ سال کے تھے جن کو شاید دہشت گردی اور غیر دہشت گردی کا کچھ علم بھی نہیں تھا۔ مسلمان اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے۔ یہ بھی نہیں پتا ہوگا۔ لیکن بڑے ظالمانہ طریقے سے ان کی جان لی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
ان بچوں کو اس لئے ظلم کا نشانہ بنایا گیا کہ پاکستان میں فوج سے ان نام نہاد شریعت کے نافذ کرنے والوں نے بدلہ لینا تھا۔ یہ کونسا اسلام ہے اور کونسی شریعت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ کی صورت میں غیر مسلموں کے بچوں اور عورتوں پر بھی تلوار اٹھانے کی سختی سے ممانعت فرمائی تھی۔ جنگ کے دوران ایک مشرک کے بچے کو قتل کرنے پر جب آپ نے اپنے صحابی سے بازپُرس کی تو صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ مشرک کا بچہ تھا۔ اگر غلطی سے قتل ہو بھی گیا تو کیا ہوا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ انسان کا معصوم بچہ نہیں تھا؟ (ماخوذازمسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ365مسند الاسود بن سراح حدیث15673 مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)
پس یہ معیار ہیں جو ہمیں انسانیت کے تقدّس کو قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ سے نظر آتے ہیں۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ہے اور اسلام کے نام پر ظلم کرنے والوں کے یہ عمل ہیں جو ہم عموماً دیکھتے رہتے ہیں۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا اس سفّاکانہ ظلم پر ہر انسان نے دکھ کا اظہار کیا۔ چاہے وہ مسلمان تھے یا غیر مسلم تھے۔ یہاں دو دن پہلے چرچ آف انگلینڈ نے عورت کو اپنی پہلی بشپ بنایا۔ ان کی تقریب ہو رہی تھی تو انہوں نے بھی اپنی تقریب سے پہلے اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا۔ ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی۔ اپنے انداز میں دعائیں کیں۔ تو بہر حال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ ہر انسان کو اس واقعہ سے تکلیف پہنچی قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہب کیا تھا۔ لیکن ان مسلمان کہلانے والوں نے، ایک دو نہیں بلکہ تین چار تنظیموں نے اکٹھی ہو کربڑے فخر سے اس بات کا اعلان کیا کہ ہاں ہم ہیں جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے اور ہمیں اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی شرافت رکھنے والے انسان نے بھی اس پر دکھ کا اظہار کیا، افسوس کیا اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ احمدیوں کے دل میں تو انسانیت کے لئے درد انتہائی زیادہ ہے۔ ہم تو انسانی ہمدردی کے لئے ہر وقت تیار رہنے والے ہیں۔ ذرا سا واقعہ ہو جائے تو ہمارے دل پسیج جاتے ہیں۔ مجھے کئی خطوط موصول ہوئے کہ اس واقعہ سے سارا دن ہم بے چینی اور تکلیف میں رہے اور یہ حقیقت ہے۔ میرا اپنا یہ حال تھا کہ سارا دن طبیعت پر بڑا اثر رہا اور جب ایسی کیفیت ہوتی ہے تو پھر ظالموں کے نیست و نابود ہونے کے لئے بددعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور بدبختوں سے جلد ملک کو پاک کرے بلکہ تمام اسلامی ممالک کو پاک کرے۔ یہ واقعات دیکھ کر احمدیوں پر ہوئے ہوئے ظلموں کے زخم بھی تازہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان معصوموں کے لئے بھی شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی حوصلہ دے، صبر دے اور ان پر رحم فرمائے، ان کا کفیل ہو جن کے ماں باپ بھی اُن سے چھن گئے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ شدت پسندی اور ظلم کے یہ واقعات تقریباً تمام مسلمان کہلانے والے ملکوں کا المیہ ہے۔ یہ ایک پاکستان کی بات نہیں ہے۔ عراق، شام، لیبیا وغیرہ سب ملکوں میں ظلم ہو رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ سب ظلم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے۔ شام میں ہی حکومتی اور سنّی فسادوں میں ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ہیں۔ کُل جتنی اموات ہوئی ہیں ان میں سے چھ ہزار چھ سو بچے مارے گئے۔ ایک بٹا تین (1/3) سے زیادہ شہری مارے گئے۔ ISIS کے ذریعے ہزاروں لوگ مارے گئے۔ سینکڑوں عورتوں اور لڑکیوں کو اس لئے مار دیا گیا، ایک لائن میں کھڑا کر کے گولی سے اڑا دیا گیا کہ انہوں نے ان لوگوں سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ بعض ذرائع کے مطابق ظلموں اور موتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ ساری چیزیں دیکھ کر اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والے انسان کا دماغ چکرا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ یہ دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ کس اسلامی تعلیم کے نام پر یہ عمل ہو رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس خدا کے نام پر ہو رہا ہے جو رحمان خدا ہے، جو رؤوف و رحیم خدا ہے، جو اتنا مہربان ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس رسول کے نام پر یہ ظلم ہو رہا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے رحمۃٌ للعالمین کہا ہے۔ اس شریعت کے نام پر یہ ظلم ہو رہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے بھی عدل وانصاف کو پکڑے رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ۔ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدۃ: 9)کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
اب یہاں تو اللہ تعالیٰ انصاف کے معیاروں کو ایک مومن کے لئے اونچا کر رہا ہے۔ اگر یہ نہیں تو ایمان نہیں کہ کسی قوم کی دشمنی بھی انصاف کے معیاروں سے نیچے آنے پر تمہیں مائل نہ کرے۔ انصاف کی تعلیم میں ایسے نمونے دکھاؤ کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا پر ظاہر ہو جائے۔ تمہارے انصاف اور نیکی کے نمونے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے گواہ بن جائیں۔ کسی کی انگلی اسلامی تعلیم پر نہ اٹھے۔ کاش کہ یہ مسلمان کہلانے والے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کے نمونے اسلامی تعلیم کی طرف غیر مسلموں کو کھینچ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے عمل تو اپنوں کو بھی دُور دھکیل رہے ہیں۔ جن بچوں نے اپنے ساتھیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے دیکھا ہے کیا وہ ان لوگوں کو کبھی مسلمان سمجھیں گے؟ اور اگر سمجھیں گے تو یہ سوال ان کے ذہنوں میں پیدا ہوں گے کہ کیا یہ اسلام ہے جس کو ہم مانیں؟ پس یہ لوگ صرف ظاہری ظلم اور قتل و غارت نہیں کر رہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ اسلام سے دور لے کر جا رہے ہیں۔ کاش کہ مسلمان علماء کہلانے والے جنہوں نے جہاد اور فرقہ واریت کے نام پر ان شدت پسند گروہوں کو جنم دیا ہے اپنے قبلے درست کر کے اپنی نسلوں کو حقیقی اسلام کے بتانے والے بنیں اور ان شدت پسند گروہوں کی بیخ کنی کے لئے حقیقی اسلامی تعلیم کے ہتھیار کو استعمال کریں۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ زمانے کے امام کی بات مان کر حقیقی اسلام پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور دوسروں کو بھی عمل کروائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق نے ان مولویوں کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’اگر اسلام کے مولوی اتفاق کر کے اس بات پر زور دیں کہ وہ وحشی مسلمانوں کے دلوں سے اس غلطی کو نکال دیں (یعنی شدت پسندی اور غلط قسم کے جہاد کی غلطی کو نکال دیں) تو وہ بلاشبہ قوم پر ایک بڑا احسان کریں گے اور نہ صرف یہی بلکہ ان کے ذریعہ سے اسلام کی خوبیوں کی بھاری جڑھ لوگوں پر ظاہر ہو جائے گی اور وہ سب کراہتیں جو اپنی غلطیوں سے مذہبی مخالف اسلام کی نسبت رکھتے ہیں وہ جاتی رہیں گی۔‘‘ (گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے، روحانی خزائن جلد18صفحہ634)
پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے لئے ایک درد ہے اور جس کی آپ نے ان غیر احمدی مولویوں سے بھی اپیل کی ہے کہ خدا کے لئے اس تعلیم کو جو شدت پسندی کی ہے اپنے ذہنوں سے نکالو اور محبت اور پیار کی تعلیم کو رائج کرو۔ لیکن یہ بات سننے کو کب یہ نام نہاد مولوی تیار ہوتے ہیں۔ ان کے مقاصد تو اب دین اسلام کے تقدس کو قائم کرنے کی بجائے سیاسی اور ذاتی مفاد کا حصول ہو گیا ہے۔ جہاں تک مَیں نے دیکھا ہے اس واقعہ پر غم و غصے کا اظہار بھی علماء کی طرف سے پُرزور طریقے پر نہیں ہوا۔ شاید آج جمعہ پر بعض لوگوں نے کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ وَاتَّقُوا اللّٰہ۔ کہ اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ اس بات سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ہر معاملے کی خبر صرف خبر رکھنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر عمل انسان کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ظلم کرنے والے جو ہیں وہ یقینا اپنے بد انجام کو پہنچتے ہیں۔ پس اگر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھیں کہ دشمن سے بھی انصاف کا سلوک کریں اور پھر کلمہ گوؤوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30)۔ لیکن یہاں رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تو دُور کی بات ہے یہ تو اپنوں سے بھی دشمنوں سے بڑھ کر سلوک کرتے ہیں جس کے نظارے ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ اب یہ لاکھ، ڈیڑھ لاکھ، دو لاکھ آدمی جو صرف ایک ملک میں مار دئیے یہ اپنوں کے ساتھ ظلم کے سلوک ہی ہیں ناں یا یہ بھی ظلم کی انتہا ہی ہے کہ اس سلوک میں بچوں کو مارا، شہید کر دیا۔
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ جو ظلم انہوں نے کیا ہے یا یہ کرتے رہتے ہیں اس پر سے بغیر پکڑ کے یہ گزر جائیں گے۔ نہیں اس طرح کبھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء: 94) کہ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔ جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے۔ وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے۔ اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی۔ اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
پھر آگے اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ مومن کون ہے؟ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء: 95)۔ کہ جو تمہیں سلام کہے اسے یہ نہ کہا کرو کہ تم مومن نہیں۔ پس بھائی چارے کا ایک تقدّس اسلام نے قائم کر دیا۔ اگر اس تقدس کو کوئی پامال کرتا ہے اور کلمہ گو کو قتل کرتا ہے تو پھر یقینا جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہمیشہ رہے گا۔ جو لوگ خود کش حملہ کر کے یا مقابلہ میں مارے گئے اور غلط تعلیم کی وجہ سے جو ان کو ان کے علماء نے دی خیال کیا کہ ہم مر کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ تو خدا تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ مومن کو مار کر تم خدا تعالیٰ کی رضا نہیں بلکہ اس کی لعنت کے مورد بن رہے ہو اور ہمیشہ کے لئے جہنّم تمہارا ٹھکانہ ہے۔ اور مومن ہونے کے لئے کہا کہ اگر تمہاری طرف کوئی سلامتی کا پیغام بھیجتا ہے تو پھر تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ اسے قتل کرو۔ اب کوئی بتائے کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا۔ وہ معاشرے کا ایک بہتر حصہ بننے کے لئے اور ملک کا سرمایہ بننے کے لئے اور سلامتی پھیلانے کے لئے علم حاصل کر رہے تھے۔ اس لئے وہ تعلیم حاصل کرنے ان سکولوں میں آئے ہوں گے۔ ان نام نہاد علماء کی باتیں سن کر حیرت ہوتی ہے جو شدت پسندی کی تعلیم، اس خوبصورت اسلامی تعلیم کے باوجود دیتے ہیں۔ ان کی یہ باتیں سن کر ہی کم علم اور جاہل متاثر ہوتے ہیں اور پھر وہ حرکات کرتے ہیں جن میں سوائے بہیمیت کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ اور اس کا انجام پھر خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ جہنم ہے۔ لیکن شاید یہ لوگ جہنم کو کوئی افسانوی بات سمجھتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی باتوں پر ایمان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان تنبیہوں کے باوجود ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر آخرت پر کامل یقین نہیں تو خدا تعالیٰ نے اس دنیا کی حالت کے بارے میں بھی ان کو بتا دیا کہ پھر تمہارا کیا حشر ہوگا۔ اگر تم نے بھائی بھائی کے تقدس کو پامال کیا تو پھر یہاں بھی تمہاری ساکھ ختم ہو جائے گی۔ اس دنیا میں بھی جو مفادات ہیں وہ تم حاصل نہیں کر سکو گے۔ جس دنیا کی خاطر تم یہ سب کچھ کر رہے ہو وہ بھی تمہیں نہیں ملے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اَطِیْعُوا اللّٰہ َ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (الانفال: 47)اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی یہ بات آج مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سو فیصد ان پر پوری ہوتی نظر آتی ہے کہ انہی لڑائی اور جھگڑوں کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ آپس کے بے شمار شدت پسند گروہوں کی وجہ سے اکثر ملک جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے آگے یہ لوگ ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ بیشک مسلمان ممالک کی ایک تنظیم ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے لیکن اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ نہ آپس کا اتحاد ہے جس کی وجہ سے ملکوں میں امن و سکون قائم ہو۔ نہ غیر مسلم مما لک کے سامنے ان کی کوئی حیثیت ہے۔ ان کی باگ ڈور بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان مسلمان ملکوں میں سے کسی ملک کا صدر یا وزیر اعظم حتی کہ فوجی سربراہ بھی کسی مغربی ملک میں آ کر یہاں کے صدروں یا وزیر اعظموں سے بات کرتے ہیں یا یہ لوگ ان کی کچھ پذیرائی کردیتے ہیں تو ہمارے یہ لیڈر سمجھتے ہیں کہ جیسے دنیا جہان کی نعمتیں ان کو مل گئیں۔ خدا تعالیٰ کا خانہ خالی ہے۔ اس کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس کو چھوڑ کر دنیاداروں کی طرف جھکاؤ ہے اور یہ لوگ اسی کو اپنی بقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پس کس کس بات کا ذکر کیا جائے جو مسلمان کہلانے والے ممالک کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ ایک ظلم ہوتا ہے۔ چند دن عوام پر اثر رہتا ہے، شور مچاتے ہیں اور پھر عوام الناس کی بھی جو اکثریت ہے وہ انہی ظالموں کے ہاتھوں آلہ کار بن جاتی ہے۔ پس جب تک خدا تعالیٰ کی بات نہیں مانیں گے جب تک دشمنوں سے بھی انصاف کے معیار قائم نہیں کریں گے۔ جب تک ہر سلام کرنے والے کو امن نہیں دیں گے جب تک اپنے بھائی چارے کے معیاروں کو قائم نہیں کریں گے جب تک حکومت رعایا کا خیال نہیں رکھے گی جب تک رعایا حکومت کی اطاعت گزار نہیں ہو گی۔ جب تک خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا نہیں ہو گا اس وقت تک ایسے ظالمانہ واقعات ہوتے رہیں گے۔ کاش کہ یہ باتیں ہمارے لیڈروں اور علماء کہلانے والوں کو بھی اور عوام الناس کو بھی سمجھ آجائیں۔ مسلمان اُمّہ کی تکلیف ہمیں بھی تکلیف میں ڈالتی ہے۔ اس لئے کہ یہ ہمارے پیارے آقا کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔ ہمیں تو زمانے کے امام نے اپنے آقا اور مطاع کی طرف منسوب ہونے والوں سے ہمدردی اور پیار کرنے کے گر سکھائے ہیں۔ ہمیں تو یہ بتایا ہے کہ
اے دل تو نیزخاطر اینان نگاہ دار
کاخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ
(ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 182)
کہ اے دل! تو ان لوگوں کا لحاظ کر۔ ان پر ہمدردی کی نظر رکھ کیونکہ آخر یہ لوگ میرے پیغمبر کی محبت کا دعوی کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اگر ظلم کا رویہ ہے تب بھی ہمیں افسوس ہے اور ہم دعا کرتے ہیں بدلے نہیں لیتے کہ خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو صاف کرے اور یہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ مسلم اُمّہ کے لئے حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی احمدی ہی اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی پیدا کیا ہے۔ آپ نے اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی ہمدردی کے جذبے کو اپنوں اور غیروں سب پر حاوی کرنے کی ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
’’مومنوں اور مسلمانوں کے لئے نرمی اور شفقت کا حکم ہے۔ پس اس کو ہمیشہ سامنے رکھو۔‘‘ (ملفوظات جلد10صفحہ232، ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرماتے ہیں: ’’ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پرواہ کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد7صفحہ280، ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرمایا: ’’تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے اور بنی نوع انسان اور اِخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے۔ جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ95، ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرمایا کہـ: ’’اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔‘‘
پھر فرمایا: ’’خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں۔‘‘ فرمایا ’’آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو۔‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ30)
پس جب ہمدردی کے ایسے معیار ہم حاصل کرنے والے ہوں یا ہمدردی کے ایسے معیاروں کو حاصل کرنے کی تعلیم ہمیں ملی ہو اور اس پر ہم عمل کرنے والے بھی ہوں تب ہی انسان دوسرے کے درد کو محسوس کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے اکثریت بنی نوع انسان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں اور ایک احمدی کو ایسے جذبات رکھنے والا ہونا چاہئے۔ جب عام انسانوں کے لئے یہ جذبات ہوں تو پھر مسلمانوں کے لئے تو ہم اس سے بڑھ کر جذبات رکھنے والے ہیں۔ ہر ظلم جو کسی بھی مسلمان پر ہو ہم اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اور یہ ظلم جو پاکستان میں ہوا ہے یقینا ہمارے لئے انتہائی تکلیف کا موجب ہے۔ اور جو ظلم مسلمان دنیا میں کسی کی طرف سے بھی ہو رہا ہے ہمارے لئے تکلیف کا باعث ہے۔ اور اس تکلیف کا احساس اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ہم دنیا کو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان ظلموں کے خاتمے کے لئے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود کو بھیج دیا ہے جس نے جنگوں اور سختیوں کا خاتمہ کر کے پیار اور محبت کو پھیلانا تھا۔ پس اس کی بات سنو تا کہ دنیا میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو لاگو کر سکو۔ لیکن اس پکار کے باوجود علماء کہلانے والے سب سے زیادہ ہماری دشمنی میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور جب ایسی صورتحال ہو تو پھر انصاف اور ہمدردی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور نتیجۃً پھر ہر معاشرے میں فتنہ و فساد ہی نظر آتا ہے اور معصوموں کا خون ہوتا ہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کاش کہ مسلمان علماء کہلانے والے اس بات کو سمجھیں اور مُسلم اُمّہ کو فرقہ واریت میں ڈال کر تباہ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسلام کی امن، محبت اور پیار کی تعلیم کو مسلمانوں کے اندر راسخ کریں۔ جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اور غیر مسلموں میں بھی اسلام کے بارے میں اس غلط تاثر کو زائل کریں کہ اسلام نعوذ باللہ شدت پسندی اور تلوار کا مذہب ہے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کو یہ عقل آ جائے۔ پاکستان کے لئے اور مسلم ممالک کے لئے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں امن قائم فرمائے اور حکومتیں بھی اور عوام الناس بھی حقیقی اسلامی قدروں کی پہچان کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شام، عراق، لیبیا وغیرہ میں احمدی ان حالات کی وجہ سے جن میں سے یہ ملک اس وقت گزر رہے ہیں ایک تو وہاں کے شہری ہونے کی وجہ سے اور پھر احمدی ہونے کی وجہ سے بھی تکلیف میں ہیں۔ ان کے لئے بھی خاص دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان مشکلات سے نجات دے۔ بعض بڑی کسمپرسی کی حالت میں آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ دونوں گروہ احمدیوں کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ کوئی مدد بھی ایسے حالات میں نہیں پہنچ سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنا فضل فرمائے اور رحم فرمائے اور جلد ان لوگوں کو ان تکلیف کے دنوں سے نکالے۔
نمازوں کے بعد میں کچھ جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ تو ہمارے ایک شہید بھائی کا ہے۔ مبارک احمد صاحب باجوہ ابن مکرم امیر احمد باجوہ صاحب چک 312 جب کتھو والی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ہیں۔ ان کو شہید کیا گیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو کچھ نامعلوم افرادنے 26؍اکتوبر 2009ء کو ان کے ڈیرے سے اغوا کر لیا تھا اور ان کے بارے میں اب تک معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ تا ہم چند روز قبل گجرات کے ایک علاقے سے گرفتار ہونے والے چند دہشتگردوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے کتھو والی کے ایک مبارک باجوہ کو بھی گستاخ رسول قرار دے کر قتل کر کے بھمبھر نالہ واقع ضلع گجرات میں گڑھا کھود کر دبا دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اب یہ سارے فتوے دینے والے بھی بن گئے ہیں۔ مبارک احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم پیر محمد صاحب کے ذریعے ہوا۔ انہیں جماعت سے بہت لگاؤ تھا۔ نہایت دیندار گھرانہ ہے۔ شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔ شہید مرحوم 1953ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کی اور زمیندارہ کرتے تھے۔ شہید مرحوم نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے والد امیر احمد باجوہ صاحب اور بھائی مکرم رشید احمد باجوہ صاحب دونوں یکے بعد دیگرے کتھو والی جماعت کے صدر جماعت بھی رہے۔ ایک بیٹا ظہور احمد اس وقت بطور قائد مجلس خدمت کی توفیق پا رہا ہے۔ ان کی اہلیہ شاہد بیگم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے ظہور احمد، منصور احمد اور نصیر احمد اور عتیق احمد ہیں۔ اسی طرح ان کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں جو سوگوار ہیں۔ واقعہ کی کچھ مزید تفصیل اس طرح ہے کہ مبارک احمد باجوہ صاحب اور ان کے غیر از جماعت ملازم سکندر محمود کو جس کی عمر چودہ سال تھی کچھ لوگوں نے 26، 27؍اکتوبر 2009ء کی رات کو آج سے پانچ سال پہلے ان کے ڈیرے سے اغوا کر لیا۔ اغوا کار دو کاروں پر سوار تھے۔ چند دن بعد اغوا کاروں نے مذکورہ ملازم کو ایک موبائل دے کر چھوڑ دیا۔ پھر اس موبائل نمبر پر تاوان کے لئے رابطہ کیا۔ دو کروڑ تاوان کی رقم کا مطالبہ کیا گیا جو کم ہو کے دس لاکھ پر آ گیا۔ اغواکاروں کی شرط یہ تھی کہ رقم کوہاٹ یا پارہ چنار پہنچائی جائے۔ پھر اغواکاروں سے رابطہ ختم ہو گیا۔ پولیس بھی کسی نتیجہ تک نہ پہنچ سکی۔ اب مکرم امیر صاحب ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ نے اطلاع دی کہ ڈی پی او ضلع نے مغوی کے بھائی عزیز احمد باجوہ صاحب کو بلا کر کہا ہے کہ آپ کے بھائی کے بارے میں کچھ معلومات ڈی پی او گجرات کے پاس ہیں ان سے مل لیں۔ وہ وہاں گئے۔ ڈی پی او گجرات سے ملاقات ہوئی۔ تو ڈی پی او گجرات نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان افضل فوجی گروپ (یہ بھی بہت سارے گروپ وہاں بنے ہوئے ہیں ) کے چند لوگ پکڑے گئے ہیں۔ جن میں واجدنامی شخص نے مبارک احمد باجوہ صاحب کو اغوا کرنے کے بعد چھریوں سے ذبح کر کے نعش کو بھمبھر نالے میں دبانے کا انکشاف کیا ہے۔ جب عزیز احمد باجوہ صاحب اور دیگر افراد مذکورہ زیر تفتیش واجدنامی شخص سے ملے تو اس نے بھی اس قتل کی تصدیق کی۔ اس سوال پر کہ کیا کوئی مقامی آدمی بھی اس کے ساتھ تھا تو مذکورہ ملزم نے کہا کہ ساتھ والے گاؤں کا احمدنامی ایک شخص ساتھ تھا جس نے ہمیں مبارک احمد باجوہ مرحوم کے گستاخ رسول ہونے کا بتایا تھا۔ یہ شخص پہلے عیسائی تھا۔ بعد میں مسلمان ہو کر تحریک طالبان میں شامل ہو گیا۔ اس کا والد باجوہ فیملی کا ملازم رہا تھا۔ اور پھر اس نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے اغوا کیا اور کوٹلی گاؤں میں مسجد کے تہہ خانے میں ان کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا اور پھر ایک دن ہم نے عشاء کی نماز کے بعد ان کو اسی طرح جیسا کہ بتایا گیا ہے گردن پر چھری پھیر کے اور پھر ٹکڑے ٹکڑے کر کے گڑھے میں دبا دیا۔ تو پولیس اہلکار نے مذکورہ مجرم سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا کہ ہمیں ہمارے کمانڈر کا حکم ہے کہ یہ لوگ گستاخ رسول ہیں۔ لہٰذا ان کو قتل کردو۔ اور اس کا حکم ماننا ہمیں ضروری تھا۔ یہ حال ہے۔ ابھی جو بچوں کو قتل کیا تو اب یہ کس پاداش میں کیا؟ یہ بھی طالبان کا ہی کام ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ بہرحال پتا تو لگ گیا پہلے صرف اغوا کی خبر تھی۔
دوسرا جنازہ مکرمہ امینہ عسّاف صاحبہ (کبابیر) کا ہے جو 12؍دسمبر 2014ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پیدائشی احمدی تھیں۔ آپ کے والد مکرم عسّاف صاحب حیفا کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ آپ کو صدر اور سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماء اللہ کبابیر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ نہایت عبادت گزار، دعا گو، بہت مہمان نواز، بکثرت مالی قربانی کرنے والی تھیں۔ نیک، مخلص اور صالح خاتون تھیں۔ دارالتبلیغ میں آنے والے مہمانوں کی ضیافت کا خصوصی اہتمام کرتی تھیں۔ مستورات کو بڑی عمدگی سے تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ مبلغین کے اہل و عیال سے بہت محبت اور حسن سلوک سے پیش آتیں۔ مسجد محمود کبابیر کی تعمیر ہو رہی تھی تو آپ نے اس کے لئے خطیر رقم ادا کی اور دوران تعمیر کام کرنے والوں کی ضیافت کا بھی انتظام کیا۔ خلفائے احمدیت سے انتہائی محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ بڑی توجہ سے میرے خطبات سنتی تھیں جو یہاں ایم ٹی اے پر نشر ہوتے ہیں۔ دوسروں کو بھی اس کا خلاصہ سنایا کرتی تھیں۔ ہر ارشاد پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کے لئے تیار رہتی تھیں۔ بہت سے بچوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔ کبابیرکے تمام احباب ان سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کو عمرہ کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ قادیان جانے کی بھی شدید خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر جا کر دعا کروں۔ تو یہ خواہش بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی پوری فرمائی۔ بلکہ ایک دفعہ نہیں تین دفعہ جلسہ سالانہ میں آپ کو جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مرحومہ موصیہ تھیں اور مکرم محمد شریف عودہ صاحب امیر جماعت کبابیر اور منیرعودہ صاحب ڈائریکٹر ایم ٹی اے پروڈکشن کی خالہ محترمہ تھیں۔ منیرعودہ صاحب لکھتے ہیں کہ خالہ امینہ نے اپنی زندگی اسلام احمدیت کی خدمت میں گزاری۔ انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہماری پرورش کی تھی اور جب میرے والدین کام کے سلسلے میں گھر سے دور جاتے تو وہ ہماری پرورش کرتیں۔ بروقت نمازیں پڑھنے پر سختی سے کاربند کیا۔ جماعت کے اوّلین وصیت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ آپ کپڑے سینے کا کام کرتی تھیں اور محدود وسائل کے باوجود کسی سے مددنہیں لیتی تھیں بلکہ خاندان میں بچوں کی تعلیم میں مدد کی۔ اس طرح مشکلات میں کام آتی تھیں۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ غیر احمدی گھرانوں سے شادی کے پیغامات آئے لیکن آپ نے انکار کر دیا کہ میں احمدی ہوں اور احمدیت پر قائم رہیں اور کبھی شادی نہیں کی۔ کہتے ہیں کہ وفات کے وقت مَیں آپ کے قریب موجود تھا اور آپ کے آخری الفاظ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تھے۔ وفات سے قبل آپ نے وصیت کی تھی کہ آپ کا تمام مال و اسباب جماعت کے سپرد کر دیا جائے۔ اسی طرح وہاں جو مشنری انچارج جو ہیں ان کی اہلیہ بشریٰ شمس صاحبہ بھی کہتی ہیں کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق تھا۔ کہتی ہیں ایک دن دوائی پلا رہی تھیں تو انہوں نے ایک گھونٹ لیا تو میں نے ان کو کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین گھونٹ لینا پسند فرمایا ہے تو یہ سن کر فوراً دو گھونٹ اور پی لئے باوجود یکہ پہلے انکار کر رہی تھیں۔ تیسرا جنازہ غائب مکرم ابراھیم عبدالرحمن بخاری صاحب مصر کا ہوگا جو 13؍دسمبر2014ء کو 63سال کی عمر میں مصر میں ہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے جوانی کی عمر میں، اٹھارہ سال کی عمر میں 1969ء میں بیعت کی توفیق پائی تھی۔ ان دنوں جماعت احمدیہ مصر کے صدر مکرم محمد بسیونی صاحب تھے۔ مرحوم نے تین خلفاء کا دور دیکھا اور مکرم محمد بسیونی صاحب، مکرم مصطفی ثابت صاحب اور مکرم حلمی شافی صاحب جیسے ابتدائی احمدیوں کی صحبت سے مستفیض ہوئے۔ بیعت کے بعد آپ نے باوجود اپنے گھر والوں اور سسرال کی طرف سے ظلم و زیادتی کے عہدِ بیعت کو پوری استقامت، ہمت اور اخلاص و وفا کے ساتھ نبھایا حتی کہ آپ کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ میاں بیوی میں علیحدگی کرا دیں گے۔ اسی طرح آپ کے کام میں بھی کافی پریشانیاں اور روکیں پیدا کی جاتی تھیں۔ آپ کو اپنا کام جاری رکھنے کے لئے ایک پرمَٹ کی ضرورت ہوتی تھی جو احمدیت کی وجہ سے محض تنگ کرنے کی خاطر کافی لیٹ ایشو کیا جاتا تھا جس سے نفسیاتی الجھن کے علاوہ آپ کا کام بھی کافی متاثر ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف بہانوں سے تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن آپ نے کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔ اس وجہ سے مالی تنگی کے حالات کے باوجود بڑی باقاعدگی سے چندے اور صدقات وغیرہ دیا کرتے تھے۔ شادی کے بعد آپ کی اہلیہ نے بھی آپ کی تبلیغ اور نمونہ کو دیکھ کر بیعت کر لی۔ 1988ء میں فیملی کے ساتھ نائیجیریا کا سفر اختیار کیا جہاں جماعتی سکول میں اڑھائی سال تک عربی زبان کے مدرس کی حیثیت سے خدمت کی۔ نمازوں کی ادائیگی اور چندوں میں باقاعدہ تھے۔ اور بیماری کے باوجود آخری دنوں میں بھی جمعہ کے لئے باقاعدگی سے آتے تھے۔ یہاں بھی آتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مخلص انسان تھے۔ خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ مرحوم نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی عزیزہ مریم اور تین بیٹے عزیزان احمد، محمود اور محمد یادگار چھوڑے ہیں جو خدا کے فضل سے سبھی پیدائشی احمدی ہیں۔ بیٹی شادی شدہ ہے اور امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ بیٹے احمد اور محمود یوکے میں ہیں۔ چھوٹا بیٹا اپنی والدہ کے ساتھ مصر میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
آجکل اسلام کے نام پر یا شریعت کے نافذ کرنے کے نام پر بے شمار شدت پسند تنظیمیں بن چکی ہیں جو ایسے ایسے ظلم کے مظاہرے کر رہی ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ حرکتیں انسان کر رہے ہیں یا انسانوں کے رُوپ میں حیوانوں سے بھی بدتر کوئی مخلوق کر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں ظلم کی ایک ایسی صورت ہمارے سامنے آئی جو صرف ظلم ہی نہیں تھا بلکہ درندگی اور سفّاکی کی بدترین مثال تھی، ایسا واقعہ جس سے انسانیت چیخ اٹھی، ایسے ہی خون کی ہولی آج سے قریباً ساڑھے چار سال پہلے لاہور میں ہماری مساجد میں بھی کھیلی گئی ہے۔
اس واقعہ میں بہیمیت کی انتہا کی گئی ہے کیونکہ اس ظلم کی بھینٹ چڑھنے والوں کی اکثریت جو تھی وہ معصوم بچوں کی تھی۔ بڑے ظالمانہ طریقے سے ان کی جان لی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور بدبختوں سے جلد ملک کو پاک کرے بلکہ تمام اسلامی ممالک کو پاک کرے۔ یہ واقعات دیکھ کر احمدیوں پر ہوئے ہوئے ظلموں کے زخم بھی تازہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان معصوموں کے لئے بھی شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی حوصلہ دے، صبر دے اور ان پر رحم فرمائے، ان کا کفیل ہو جن کے ماں باپ بھی اُن سے چھن گئے۔
یہ شدت پسندی اور ظلم کے واقعات تقریباً تمام مسلمان کہلانے والے ملکوں کا المیہ ہے۔ یہ ایک پاکستان کی بات نہیں ہے۔ عراق، شام، لیبیا وغیرہ سب ملکوں میں ظلم ہو رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ سب ظلم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے۔
آپس کے بے شمار شدت پسند گروہوں کی وجہ سے اکثر ملک جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے آگے یہ لوگ ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ نہ آپس کا اتحاد ہے جس کی وجہ سے ملکوں میں امن و سکون قائم ہو نہ غیر مسلم مما لک کے سامنے ان کی کوئی حیثیت ہے۔ ان کی باگ ڈور بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ خدا تعالیٰ کا خانہ خالی ہے۔ اس کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس کو چھوڑ کر دنیاداروں کی طرف جھکاؤ ہے اور یہ لوگ اسی کو اپنی بقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جب تک خدا تعالیٰ کی بات نہیں مانیں گے، جب تک دشمنوں سے بھی انصاف کے معیار قائم نہیں کریں گے، جب تک ہر سلام کرنے والے کو امن نہیں دیں گے، جب تک اپنے بھائی چارے کے معیاروں کو قائم نہیں کریں گے، جب تک حکومت رعایا کا خیال نہیں رکھے گی، جب تک رعایا حکومت کی اطاعت گزار نہیں ہوگی، جب تک خداتعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا نہیں ہو گا اس وقت تک ایسے ظالمانہ واقعات ہوتے رہیں گے
مکرم مبارک احمد صاحب باجوہ ابن مکرم امیر احمد باجوہ صاحب چک 312جب کتھووالی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی شہادت۔ مکرمہ امینہ عسّاف صاحبہ آف کبابیر اور مکرم ابراہیم عبد الرحمن بخاری صاحب آف مصر کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 19؍دسمبر 2014ء بمطابق19فتح 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔