خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت احمدیہ اور جلسہ سالانہ قادیان
خطبہ جمعہ 26؍ دسمبر 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج قادیان میں جلسہ سالانہ شروع ہوا ہے۔ اسی طرح دنیا کے بعض اَور ممالک ہیں، بعض افریقن ممالک ہیں جہاں اِن دنوں میں جلسہ سالانہ ہورہا ہے۔ اور اس وقت وہاں کا بھی یہی وقت ہے۔ یہ خطبہ ان کے جلسے کے پروگرام کا حصہ ہی بن گیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ قادیان میں صرف جلسہ سالانہ ہوا کرتا تھا۔ پھر پارٹیشن ہوئی تو پاکستان میں بھی جلسہ سالانہ شروع ہو گیا۔ لیکن مخالفین احمدیت اور حکومتوں کو پاکستان میں احمدیوں کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنا سخت ناگوار گزراجس کی وجہ سے ایک قانون کے تحت جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے اور نام لینے سے روک دیا گیا اور اس پر عمل درآمد کے لئے پاکستان میں جلسوں پر پابندی لگا دی گئی اور یوں جماعت احمدیہ کے پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افراد کو اپنے زعم میں ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر سے محروم کر دیا۔ لیکن مخالفین احمدیت یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ظاہری قانونی پابندیاں جسموں کو تو پابند کر سکتی ہیں لیکن دلوں کو نہیں۔ باوجود جذباتی اذیّت کے، باوجود مالی نقصان کے، باوجود جان کی قربانی لینے کے دشمن احمدیت ہمارے دلوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں چھین سکتا۔ ہمارے دلوں سے تمام تر تکلیفیں دینے کے باوجود اور نقصان پہنچانے کے باوجود ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں نکال سکتا۔ ہمارے مخالفین جو بظاہر ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں یہ کلمے سے محبت کا عجیب دعویٰ کرتے ہیں کہ بجائے اس بات پر خوش ہونے کے کہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کلمے کی محبت میں نہ صرف ہر چیز قربان کرنے کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ عملاً ثابت بھی کر چکا ہے کہ کلمے کی محبت ان کے بچّے بچّے کے دل میں راسخ ہے۔ پھر بھی کلمہ پڑھنے سے روکنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز کوشش کرتے ہیں۔ مخالفین احمدیت کی احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں کو ہر منصف مزاج احمدیت کی مخالفت نہیں بلکہ اسلام کی ہی مخالفت کہے گا۔ بہر حال جلسے کے حوالے سے پاکستان کے احمدیوں اور پاکستان کے جلسے کا بھی ذکر آ گیا۔ ہر سال دسمبر کا مہینہ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے جلسے کے حوالے سے جذبات میں ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے والا بن کے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے یہ جذبات خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح بہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے ہر مخالفت، ہر تنگی، ہر مشکل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں اور پاکستان کے احمدی بھی ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جن سے آج دنیائے احمدیت فیض پا رہی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پہلے یہ جلسہ صرف قادیان میں ہوتا تھا پھر قادیان سے نکل کر ربوہ میں شروع ہوا لیکن ربوہ میں پابندیاں لگ گئیں۔ مخالفین نے تو سمجھا تھا اور حکومتِ وقت نے بلکہ حکومتوں نے جو بھی وقتی حکومتیں رہی ہیں انہوں نے مخالفین پر ہاتھ رکھ کر یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ پر پاکستان میں پابندیاں لگا کر وہ احمدیت کی ترقی کو روک دیں گے۔ لیکن ہوا کیا؟ جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ آج ان دنوں میں دنیا کے کئی ممالک میں جلسے ہو رہے ہیں اور دوران سال اپنی اپنی سہولت اور حالات کے مطابق دنیا کے تقریباً تمام ان ممالک میں جلسے ہوتے ہیں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ اس جلسے کے نظام نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ گو چند ممالک میں پہلے بھی جلسے ہوتے تھے جب ربوہ میں جلسے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان جلسوں کی بھی وسعت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور مزیدنئے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے دنیاوی لیڈر اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بلکہ بعض شریف الطبع مسلمان بھی جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کو ایک ایسی تقریب قرار دیتے ہیں جو دنیا کو اسلام کی حقیقت بتا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرتی ہے۔ پس یہ نتائج تو نکلنے تھے اور نکل رہے ہیں کہ دنیا کو جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کا پتا لگ رہا ہے۔ دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پتا چلنا تھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے جس کے بارے میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281اشتہار 7دسمبر 1892ء اشتہار نمبر 91)
یعنی یہی جلسہ ہے جس کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کا نام بلند ہونا ہے کیونکہ اس جلسہ میں آنے والے وہ کچھ سیکھیں گے جو ان کی علمی اور عملی حالتوں میں ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہو گا اور پھر یہ علمی اور عملی انقلاب دنیا پر اپنی خوبصورتی ظاہر کر کے دنیا کو اسلام کی خوبصورتی اور اس کے سب سے کامل، مکمل اور سب مذاہب سے بالا تر مذہب ہونا ثابت کرے گا کیونکہ صرف انسانی کوششیں ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید یہ کام دکھائے گی۔
آپ علیہ السلام نے مزید واضح فرمایا کہ ’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے۔ اور خدا تعالیٰ اس امّت وسط کے لئے بَین بَین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا۔ وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا۔ وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی۔ وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے۔ یہی ہو گا۔ ضرور یہی ہو گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔‘‘ فرمایا: ’’مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281-282اشتہار 7دسمبر 1892ء اشتہار نمبر 91)
پس یہ جلسہ یقینا طبیعتوں میں انقلاب لانے کا ذریعہ ہے اور ہونا چاہئے۔ دنیا میں جو جلسے ہوتے ہیں ان میں مختلف قومیں شامل ہیں کیونکہ یہ مختلف قوموں کے جلسے ہیں، مختلف ممالک کے جلسے ہیں۔ افریقہ میں افریقن شامل ہیں۔ مشرق بعید میں وہاں کے لوگ شامل ہیں۔ یورپ میں، امریکہ میں بھی بہت سارے لوگ شامل ہو گئے ہیں۔ عربوں میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کی عملاً تائید فرما دی ہے کہ قومیں تیار ہو کر اس میں مل رہی ہیں۔ مختلف قومیں مسیح محمدی کی بیعت میں آ کر اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا اعلان کر رہی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ آج اس وقت قادیان میں جلسہ ہو رہا ہے تو اکتیس (31) ممالک کی نمائندگی ہے۔ افریقہ کی نمائندگی بھی ہے اور ایشیا کی بھی، عرب بھی ہیں اور عجم بھی ہیں۔ امریکہ کی نمائندگی بھی ہے اور یورپ کی بھی۔ آسٹریلیا کی بھی اور مشرق بعید اور جزائر کی بھی۔
پس ایک ملک میں جلسے پر پابندیاں لگا کر مخالفین نے سمجھا تھا کہ ہم نے احمدیت کو بڑی کاری ضرب لگا دی۔ دشمن نادان ہے سمجھتا نہیں کہ امام الزمان ہونے کا اعلان کرنے والے نے، مسیح محمدی کا اعلان کرنے والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ مَیں جماعت قائم کر رہا ہوں بلکہ فرمایا تھا کہ ’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے‘‘۔ پس اگر دشمنان احمدیت میں ہمت ہے تو خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر لیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ آپ کو تو اس زمانے میں اپنے دین کی عظمت قائم کرنے کے لئے مامور ہی خدا تعالیٰ نے کیا ہے۔ پس مخالفت سے پہلے آپ کے اس اعلان پر غور کرنا چاہئے جس میں آپ نے فرمایا۔ ایک شعر کا ایک مصرع ہے کہ
’’اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 133)
مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ افراد جماعت کو دی جانے والی عارضی تکلیفیں جماعتوں کو ختم نہیں کر سکتیں۔ چند افراد کو تو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اور پھر وہ جماعت جس کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہو اور خود اسے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہو، کھڑا کیا ہو اس کو یہ کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پس ایک حکومت کیا تمام دنیا کی حکومتیں مل کر بھی دنیا سے جماعت احمدیہ کو نہیں مٹا سکتیں۔ انشاء اللہ۔ کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کامل اور مکمل دین کو، حقیقی دین کی حقیقی تعلیم کو تمام افراط و تفریط سے پاک کر کے اس اصلی شکل میں قائم کرنا ہے جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔
اپنے اس دعویٰ کے بارے میں کہ جماعت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ یوں بھی فرمایا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو ختم نہیں کر سکتی۔ فرماتے ہیں کہ:
’’جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے۔ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری ہی دکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ148۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ الفاظ ہیں پُرشوکت الفاظ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ الفاظ پیش کئے گئے ہیں۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دشمن اپنی کوششیں کریں اور سلسلہ کو ختم کر سکیں۔ لیکن ہمیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہم جلسے منعقد کرتے ہیں، ہم جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ نہ یہ سلسلہ معمولی سلسلہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے۔ نہ یہ جلسے معمولی جلسے ہیں جو آپ نے جاری فرمائے۔ نہ ایک احمدی کا احمدی کہلانا معمولی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ہر احمدی پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی کمزور ہیں چلے بھی جائیں گے بلکہ ساری دنیا بھی مجھے چھوڑ دے گی تب بھی خدا تعالیٰ نہیں چھوڑے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ پس احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت میں حصہ دار بننے کے لئے وہ انقلاب اپنے اندر پیدا کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس ہمارا صرف جلسے میں شامل ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے ہیں۔ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں ہیں ان کو حاصل کرنے والے ہوں، ان کے وارث بنیں۔ کیا ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم جلسے میں شامل ہو گئے۔ تین چار گھنٹے جلسے کی کارروائی سن لی۔ نعرے لگا لئے اور بس کام ختم ہو گیا۔ نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہم سن رہے ہیں یا جس ماحول میں ہم نے ایک جوش پیدا کیا ہوا ہے یہ عارضی ہے یا مستقل ہماری ذمہ داریوں کا حصہ بننے والا ہے۔ پس اگر یہ اثر جو جلسہ کے دوران ہوا ہمیں اس عہد کے ساتھ جلسے کی ہر مجلس سے اٹھاتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں وہ انقلاب لانے کی اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بیان فرمائی ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے چلے جانے والے ہوں گے ورنہ تو پھر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے والی بات ہے کہ ہم نے تو کچھ کرنا نہیں۔ تیری بات تو ہم نے ماننی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ (البقرۃ: 187)۔ کہ میرے حکم کو بھی قبول کرو (وہ تو ہم نے ماننی نہیں) لیکن دعاؤں کا ہم نے وارث بننا ہے۔ پس جلسے کے ماحول سے اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پید اکرنے کی کوشش اور پھر اس کے حصول کے لئے دعا ہمیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے گی۔ پس کوشش اور دعا یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بن سکیں۔ اور پھر یہ وارث بنا کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نوازے گی۔ اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ میرے حکم کو مانو، میری بات بھی سنو تو وہ کون سی باتیں ہیں جو ہم نے ماننی ہیں؟ اور وہ باتیں کیا ہیں؟ یہ ہم سب کو پتا ہے کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے وہ احکامات ہیں جو قرآن کریم میں ابتدا سے آخر تک موجود ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے زمانے کے امام کو بھیج کر ان احکامات کی گہرائی اور اہمیت کو ہم پر واضح فرما دیا ہے۔ پس اس کے بعد ہمارے پاس کوئی عذر نہیں رہ جاتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے حوالے سے ہی جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے۔ آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں کو نیکی تقویٰ پرہیزگاری کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس طرف بھی توجہ دلائی بلکہ بڑے درد سے اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھی کہ وہ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں بھائی چارے میں ایک نمونہ بن جائیں۔ انکسار دکھانے والے ہوں۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے اور سچائی اور راستبازی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ وہ بدخوئی کرنے اور کج خُلقی دکھانے سے دور رہنے والے ہوں۔ پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان میں ہم نمونہ ہیں؟ کیا دوسرے کی خاطر قربانی کرنے میں ہم مثال بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا عاجزی اور انکساری کے ہم میں وہ معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے اور جن کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے۔ اگر نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ہماری کوشش تو پھر نہ ہونے کے برابر ہے اور توقع ہم بڑی رکھ رہے ہیں۔ پس دنیا میں جماعتہائے احمدیہ کے جو مختلف جلسے ہیں ان جلسوں میں شامل ہونے والے عموماً اور قادیان کے جلسے میں شامل ہونے والے خاص طور پر کہ مسیح پاک کی بستی میں جلسے میں شامل ہو رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو خاص طور پر محسوس کریں جس کا اظہار آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں سے فرمایا ہے۔ اگر حقیقت میں ہم نے ان دعاؤں کا وارث بننا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم عام دنیاوی رشتوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ ماں باپ کی قربت اور ان کی دعاؤں سے وہی بچے زیادہ حصہ لیتے ہیں جو اُن کی ہر بات ماننے والے ہیں، خدمت کرنے والے ہیں، اطاعت اور فرمانبرداری میں بڑھے ہوئے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو ہمارا رشتہ قائم ہے اس رشتے سے تعلق کے بہترین پھل بھی ہم اسی وقت کھائیں گے جب اپنے تعلق میں بڑھنے والے ہوں گے۔ جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے دعاؤں کا خزانہ تو ایسا خزانہ ہے جو تا قیامت چلتا چلا جانے والا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس سے فیضیاب ہونے والے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے اپنی جماعت کے افراد سے جو توقعات رکھی ہیں ان کا کچھ اظہار ہوتا ہے۔
آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے۔ بہت سی ریاکاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد6صفحہ177۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’چاہیے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو۔ ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندیٔ احکام الٰہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں؟ اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ پس ان تمام باتوں کو یاد رکھو۔‘‘ (ملفوظات جلد6 صفحہ265۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’قرآن شریف فرماتا ہے۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ (المائدۃ: 33)۔ یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے۔ ایسا ہی میں کہتا ہوں‘‘ فرمایا: ’’ایسا ہی مَیں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی۔‘‘ فرمایا: ’’زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ352۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر فرماتے ہیں: ’’یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوّت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہو گی۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ353۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی۔ ہاں خدمتگار کے طور پر تو بیشک ہو سکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہرگز نہیں ہو سکتی۔ یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ جس کا تعلق صافی اللہ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں، یہ سننے والی بات ہے: ’’ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد7 صفحہ411۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ نے بڑے درد سے فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ نری لفّاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشاء کو پورا کرنے والی ہو۔ اندرونی تبدیلی کرنی چاہئے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں‘‘۔ فرمایا: ’’اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ (کوشش کرو)۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلے سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70)۔ میں شامل ہو جاؤ۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ188۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ چندنصائح ہیں جو مَیں نے لی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے روحانی اور اخلاقی معیار کو بلند کرنے کے لئے بے شمار نصائح فرمائی ہیں۔ ہمیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے اپنے میں اور غیر میں ایک واضح فرق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بغیر ہم بیعت کے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے۔ آپ علیہ السلام نے واضح فرمایا کہ صرف علمی ترقی سے یا مسائل کو جاننے سے یا مسائل کی بحث میں مخالفین کا منہ بند کر کے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اتنا کافی نہیں ہے کہ علم حاصل کر لیا۔ بیشک علمی ترقی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے، اس کے پیار کو جذب کرنے کے لئے عملی ترقی ضروری ہے۔ اپنی حالتوں کو بدلنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنی حالتوں پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70)۔ یعنی اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوشش وہ اپنے نفس کی قربانی سے کرتے ہیں۔ دعا اور نمازوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات دے کر کرتے ہیں اور ہر وہ طریقہ آزماتے ہیں جس سے خدا راضی ہو جائے۔ تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کی اس تڑپ کو دیکھ کر فرماتا ہے کہ لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ کہ ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے پہلے خود کوشش کرنے کی ضرورت ہے تبھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی دعاؤں کا وارث بننے کے لئے بھی اپنے آپ کو ان دعاؤں کی قبولیت کا حقدار بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پس یہ جلسے ہمیں ان دعاؤں سے حصہ لینے والا ماحول میسر کرتے ہیں۔ ان میں ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے پانے کے راستوں کو ہم جلد سے جلد طے کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسری بات جو قادیان جلسے میں شامل ہیں ان کے لئے مَیں خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کو موسم کے لحاظ سے بستر بھی اپنے ساتھ لانے کا فرمایا ہوا ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281اشتہار 7دسمبر 1892ء اشتہار نمبر 91)۔ اس لئے ہندوستان میں رہنے والے خاص طور پر جس حد تک اس پر عمل کر سکتے ہیں ان کو کرنا چاہئے بلکہ پاکستانیوں کو بھی۔ گو کہ اب کچھ حد تک جلسے کے انتظامات کے تحت بستروں کا انتظام تو ہے لیکن مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہندوستان سے آنے والوں کو زیادہ امیدنہیں رکھنی چاہئے کہ ان کے لئے مکمل انتظام ہو گا۔ باہر سے آنے والے بھی گرم کپڑے جس حد تک لے جا سکتے ہیں انہیں ہمیشہ لے جانے چاہئیں اور اب بھی لے کے گئے ہوں گے کیونکہ موسم ٹھنڈا ہے اور موسم کو دیکھتے ہوئے لے گئے ہوں گے۔ ان کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بجائے اس کے کہ اس بات کی تلاش کریں کہ ہمیں گرم بستر میسر ہوں اور گرم کمرے اور گرم جگہیں میسر ہوں ان کو رات کو بھی گرم کپڑے پہن کر سونا چاہئے تا کہ پھر شکوہ نہ ہو کہ ہمیں بستر گرم نہیں ملا۔ رضائی موٹی نہیں ملی۔ کمرہ بہت ٹھنڈا تھا۔ اب تو اتنی سردی نہیں پڑتی پہلے تو اس سے زیادہ سردی پڑا کرتی تھی۔ دنیا میں جو موسم change ہوا ہے تو وہاں بھی موسم بدل گیا ہے۔ بیشک دھند بہت ہے لیکن سردیوں کا جو ٹمپریچر ہے اس میں بہت فرق پڑ گیا ہے۔ اس وقت بھی مہمان آتے تھے اور قربانی کر کے رہتے تھے۔ اصل مقصد تو روحانی ماحول سے فیضیاب ہونا ہے۔ اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ یورپ سے جانے والے بعض بھی شاید سردی محسوس کریں۔ کیونکہ یہاں تو گھروں میں ہیٹنگ کا انتظام ہوتا ہے، وہاں نہیں ہو گا یا بعض امیر لوگ جو پاکستان سے گئے ہوئے ہیں ہیٹر اور گرم کپڑوں کے مطالبے کریں، کمروں کے مطالبے کریں تو ان سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ جلسے کا انتظام جو کچھ بھی مہیا کرتا ہے اس پر صبر اور شکر کریں اور جو کچھ مل جائے اس پر الحمد للہ کریں۔ جماعتوں کو بھی اپنے اپنے ملکوں سے شامل ہونے والوں کو تمام صورتحال بتا کر تیاری کروا کر بھیجنا چاہئے تا کہ تمام صورتحال پہلے ہی علم میں ہو اور شکوے نہ ہوں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جماعتیں بھی باہر سے بڑا لمبا عرصہ لگا دیتی ہیں اور نمائندوں کی فہرستیں بھی نہیں بھجواتیں۔ اس میں کافی سستی ہے۔ آئندہ ہمیشہ یاد رکھیں اگر وہاں جلسے پہ بھیجنا ہو تو مرکز کوائف کا جو کچھ مطالبہ کرتا ہے وہ امراء جماعت کا کام ہے کہ مرکز کو مہیا کروائیں۔ نہیں تو وہاں جا کر پھر ان لوگوں کو دقّت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض لوگ مطالبات شروع کر دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں جگہ ٹھہرایا جائے یا فلاں جگہ ٹھہرایا جائے۔ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا جائے، دارالضیافت میں، لنگر خانے میں یا فلاں جگہ، یہ مطالبے غلط ہیں۔ اب اس وقت تو جلسے میں شامل ہونے والوں کی حاضری زیادہ نہیں ہوتی۔ پندرہ سولہ ہزار یا بیس ہزار تک ہے ان کے مطابق رہائش کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس حد تک سہولت سے انتظام کیا جا سکتا ہے ہوتا ہے اور اچھا انتظام ہوتا ہے۔ لیکن اگر پھر بھی بعض لوگوں کو اپنی بیماریوں اور بعض اور وجوہات کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے اور عمر کا تقاضا بھی ہے تو پھر بہتر ہے کہ جلسے پہ نہ جائیں۔ جلسے پر آنا اور اس کے ماحول سے فیضیاب ہونا بہرحال تھوڑی سی تکلیف میں سے گزر کر ہی ہو گا۔ قربانی تو دینی پڑے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ اپنے مہمانوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے پھر بھی جلسے کے دنوں میں آپ نے خاص طور پر فرمایا کہ سب سے ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ اس لئے کوئی خاص مطالبے جو ہیں وہ نہیں ہونے چاہئیں۔ وہاں اور کہیں بھی دنیا میں جہاں جلسے ہوتے ہیں نہیں ہونے چاہئیں۔ قادیان میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے رہائش کی بہت سہولتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو الہام تھا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ (سراج منیر روحانی خزائن جلد12صفحہ73)۔ اس کے نظارے ہر سال جانے والوں میں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رہائش میں وسعت پیدا کرتا چلا جا رہا ہے اور وہاں کی انتظامیہ بھی کوشش کرتی ہے کہ اس کے مطابق جس حد تک جائز سہولتیں دے سکتی ہے دے لیکن پھر بھی جب وسیع پیمانے پر انتظام ہو تو کچھ کمیاں رہ بھی جاتی ہیں۔ پس ایسے مہمان جو مطالبوں کے عادی ہیں انہیں اگر تکلیف بھی ہو تو پھر بھی انتظامیہ سے تعاون کریں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس بات پر خوش ہوں اور اس بات کی تلاش کریں کہ ہم نے مسیح پاک کی بستی میں آکر زیادہ سے زیادہ فیض کس طرح اٹھانا ہے اور اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیاوی آراموں پر نظر رکھنے کی بجائے ان باتوں کی تلاش کریں اور انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند ایک کے علاوہ تمام شاملین جلسہ جو وہاں ہیں یا جب بھی وہ جاتے ہیں اخلاص و وفا کا ایک نمونہ ہوتے ہیں۔ چاہے وہ روس سے آئیں یا امریکہ سے یا یورپ سے مسیح موعود کی بستی میں جا کر جب وہ اپنے تاثرات لکھتے ہیں تو ان کی ایک عجیب روحانی کیفیت ہوتی ہے۔ ایک عجیب رنگ ان میں پیدا کر دیتی ہے۔ پس چند ایک وہ اور ان میں سے وہ جو پرانے احمدی ہیں ان میں سے بھی اگر مجھے کسی سے کچھ شکایت ہے تو ان سے زیادہ ہے۔ پس ان لوگوں کو جن پر دنیاداری غالب آ رہی ہے انہیں بھی میں کہوں گا کہ ان نئے شامل ہونے والوں کے اخلاق و وفا کو دیکھیں۔ جلسے میں ہر شامل ہونے والا بجائے ان چیزوں کی تلاش کے اپنے آپ کو اس روحانی ماحول میں ڈبونے کی کوشش کرے۔ دعاؤں میں وقت گزاریں۔ ان دنوں میں خاص طور پر جہاں اپنے ایمان و ایقان کے لئے دعائیں کریں وہاں خاص طور پر جماعت کی ترقی، خلافت سے وابستگی اور اس تعلق میں بڑھتے چلے جانے کے لئے بھی دعا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت سے جو توقّعات وابستہ کی ہیں ان کے حاصل کرنے کے لئے بھی دعا کریں۔ مومنین کی دعائیں ایک دوسرے کی مددگار ہوتی ہیں۔ پس جماعت کے لئے، خلیفۂ وقت کے لئے، ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں تو وہ خود دعا کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہوں گی۔ انشاء اللہ۔ آپ کی دعائیں ان دعاؤں میں حصہ دار بنیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں۔ جلسہ کے بخیر و خوبی اختتام پذیر ہونے اور دشمن کے ہر شر کے اس پر الٹنے کے لئے بھی دعائیں کریں کیونکہ دشمن کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن اور مقصد کو جلد پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دعائیں کریں۔ اپنے رات دن، صبح شام ذکر الٰہی میں گزاریں۔ تبھی جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہمیں وہ نظارے دکھائے جب ہم دنیا کو مسیح محمدی کے ساتھ جڑ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوتا ہوادیکھنے والے ہوں۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک سابق مبلغ سلسلہ مکرم احمد شمشیر سوکیہ صاحب کا ہے جو 24؍دسمبر 2014ء کو ماریشس میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مئی 1933ء میں آپ پیدا ہوئے۔ آپ ماریشس کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد عبدالستار سوکیہ صاحب لمبا عرصہ صدر جماعت رہے۔ آپ کے دادا عبدالمناف سوکیہ صاحب نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مبلغ سلسلہ کے ذریعہ بیعت کی تھی۔ 1952ء میں مکرم شمشیر سوکیہ صاحب نے سینئر سکول سرٹیفکیٹ کا امتحان کیمبریج یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 53ء میں آپ نے سول سروس میں نوکری شروع کی۔ 1962ء میں جب آپ بطور انسپکٹر انکم ٹیکس کام کر رہے تھے تو رخصت پر زیارت مرکز قادیان اور ربوہ گئے۔ ایک لمبا عرصہ سے آپ کی خواہش تھی کہ زندگی وقف کرنی چاہئے۔ ربوہ پہنچ کر اس خواہش نے اتنا جوش مارا اور وہاں کا ماحول اتنا اچھا لگا کہ آپ نے وہیں سے نوکری سے استعفیٰ کا خط لکھا اور زندگی وقف کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ 6؍نومبر 1962ء کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے۔ جولائی 1966ء کو جامعہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ جامعہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ واپس ماریشس تشریف لائے۔ یہاں آپ کی شادی اوّلین احمدی الحاج عظیم سلطان غوث صاحب کی بیٹی سعیدہ سوکیہ صاحبہ سے ہوئی۔ ابتدائی تقرر آپ کا ماریشس کے لئے ہوا۔ اس کے بعد جولائی 1967ء سے ستمبر 1977ء تک آئیوری کوسٹ میں بطور مبلغ خدمت سرانجام دی۔ بعد ازاں ربوہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مارچ 1978ء میں دوبارہ آئیوری کوسٹ تشریف لے گئے۔ اگست 1981ء میں آپ کا تبادلہ آئیوری کوسٹ سے بینن ہو گیا اور اپریل 1987ء تک آپ نے بینن میں خدمات کی توفیق پائی۔ 1987ء میں آپ باقاعدہ سروس سے ریٹائر ہوئے لیکن مختلف حیثیت سے جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ خطبات کے تراجم اور علمی کام کرنے کی آپ کو توفیق ملی۔ افریقہ میں آپ نے بڑے صبر کے ساتھ مشکل حالات میں خدمت کی توفیق پائی۔ بینن میں آپ نے اپنے والدین کی طرف سے مسجد بھی تعمیر کروائی۔ آپ کو ماریشس اور روڈرگ جزیرے کے علاوہ قریبی ممالک مڈغاسکر، جزائر کومورز اور ری یونین آئی لینڈ میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ ماریشس میں قیام کے دوران آپ نے لٹریچر کے تراجم اور کتب کی تیاری کے حوالے سے بھرپور خدمات سرانجام دیں۔ متعدد جماعتی لٹریچر کے فرنچ زبان میں ترجمہ کی توفیق ملی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب کشتی نوح کا فرنچ ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کے فرنچ ترجمے کی کیسٹ ریکارڈ کروا کر فرنچ ممالک کو بھجواتے رہے۔ قرآن کریم کا کریول زبان میں ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ نئے شائع ہونے والے فرنچ قرآن کریم کی فائنل چیکنگ اور تصحیح کی توفیق ملی۔ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ نے ایک مختصر کتاب لکھی۔ بڑے بے نفس سادہ اور ریا سے پاک انسان تھے۔ آپ میں بہت عاجزی تھی بلکہ شروع سے ہی ان میں عاجزی تھی۔ مجھے یاد ہے ربوہ میں جب پڑھتے تھے تو جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہم اکٹھے ہی ڈیوٹیاں دیتے تھے۔ انتہائی عاجزی دکھانے والے شخص تھے۔ ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے اور بڑے بارونق اور خوش مزاج بھی تھے۔ وفات سے چند ماہ قبل تقریباً ساڑھے چار ہزار یورو خاموشی سے آئیوری کوسٹ میں مسجد کی تعمیر کے لئے دئیے۔ ایک احمدی کو رقم کی ضرورت تھی تو اس کی فیملی میں سے جب کوئی مددنہ کر سکا تو آپ کو علم ہوا۔ فوراً بلا کر خاموشی سے مطلوبہ رقم دے دی۔ ربوہ کے اساتذہ کا جن سے آپ نے پڑھا بڑی محبت سے ذکر کیا کرتے تھے۔ علم دوست انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ابھی جیسا کہ مَیں نے کہا نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج قادیان میں جلسہ سالانہ شروع ہوا ہے۔ اسی طرح دنیا کے بعض اَور ممالک ہیں، بعض افریقن ممالک ہیں جہاں اِن دنوں میں جلسہ سالانہ ہورہا ہے۔ اور یہ خطبہ ان کے جلسے کے پروگرام کا حصہ ہی بن گیا ہے۔
ہر سال دسمبر کا مہینہ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے جلسے کے حوالے سے جذبات میں ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے والا بن کے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے یہ جذبات خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح بہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے ہر مخالفت، ہر تنگی، ہر مشکل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں اور پاکستان کے احمدی بھی ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جن سے آج دنیائے احمدیت فیض پا رہی ہے۔
آج اس وقت قادیان میں جلسہ ہو رہا ہے۔ اکتیس (31) ممالک کی نمائندگی ہے۔ افریقہ کی نمائندگی بھی ہے اور ایشیا کی بھی، عرب بھی ہیں اور عجم بھی ہیں۔ امریکہ کی نمائندگی بھی ہے اور یورپ کی بھی۔ آسٹریلیا کی بھی اور مشرق بعید اور جزائر کی بھی۔
ایک ملک میں جلسے پر پابندیاں لگا کر مخالفین نے سمجھا تھا کہ ہم نے احمدیت کو بڑی کاری ضرب لگا دی۔ مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ افراد جماعت کو دی جانے والی عارضی تکلیفیں جماعتوں کو ختم نہیں کر سکتیں۔ چند افراد کو تو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اور پھر وہ جماعت جس کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہو اور خود اسے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہو، کھڑا کیا ہو اس کو یہ کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پس ایک حکومت کیا تمام دنیا کی حکومتیں مل کر بھی دنیا سے جماعت احمدیہ کو نہیں مٹا سکتیں۔ انشاء اللہ۔
جلسے کے ماحول سے اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پید اکرنے کی کوشش اور پھر اس کے حصول کے لئے دعا ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے گی۔ پس کوشش اور دعا یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بن سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے حوالے سے ہی جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کو موسم کے لحاظ سے بستر بھی اپنے ساتھ لانے کا فرمایا ہوا ہے۔ اس حوالہ سے جلسہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کو خصوصی نصائح۔
مکرم احمد شمشیر سوکیہ صاحب آف ماریشس، سابق مبلغ سلسلہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 26؍دسمبر 2014ء بمطابق26فتح 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔