نئے سال اور شرائط بیعت کے حوالہ سے نہایت اہم نصائح

خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کا جمعہ اس نئے سال 2015ء کا پہلا جمعہ ہے۔ مجھے مختلف لوگوں کے نئے سال کے مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں۔ فیکسیں بھی اور زبانی بھی لوگ کہتے ہیں۔ آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو۔ لیکن ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجا لانے سے ہی ادا ہو گا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔ تو واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لئے جو احمدیت میں داخل ہو تا ہے اور احمدی ہے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود مہیا فرما دئیے ہیں، بیان فرما دئیے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم از کم سال میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گا۔ اور ہمارے لئے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دئیے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہے۔ پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے۔ بیشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے۔

بہر حال ان باتوں کی تھوڑی سی تفصیل یاددہانی کے طور پر آج مَیں بیان کروں گا۔ یہ یاددہانی انتہائی ضروری ہے۔ ہماری بیعت کا مقصد ہمارے سامنے آتا رہنا چاہئے۔

پہلی بات جو آپ نے ہمیں فرمائی ہے وہ شرک سے بچنے کا عہد ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

ایک مومن جو خدا پر ایمان لانے والا ہو اور خدا پر ایمان کی وجہ سے ہی خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں زمانے کے امام کی بیعت کر رہا ہو۔ ایسے شخص کا اور شرک کا تو دُور کا بھی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مشرک اللہ تعالیٰ کی بات مانے۔ لیکن نہیں جس باریک شرک کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام توجہ دلا رہے ہیں وہ کوئی ظاہری شرک نہیں ہے بلکہ مخفی شرک ہے جو ایک مومن کے ایمان کو کمزور کر دیتا ہے۔ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پرایسا بھروسہ رکھتا ہے جوخدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔ بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگہ میں بُت ہے۔‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 349)

پس آج ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے جن تدبیروں اور حیلوں پر انحصار کیا، انہی کو سب کچھ سمجھا یا یہ چیزیں صرف ہم نے تدبیر کے طور پر استعمال کیں اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی خیر اور برکت چاہی۔ اپنے آپ کا انصاف کی نظر سے جائزہ خود ہمیں اپنے عہد کی حقیقت بتا دے گا۔

پھر آپ علیہ السلام نے ہم سے یہ عہد لیا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

کون عقلمند انسان ہے جو کہے کہ جھوٹ اچھی چیز ہے یا جھوٹ بولنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرّک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 360)

پس نفسانی غرض ہو، کوئی مفاد ہو تبھی انسان جھوٹ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن اعلیٰ اخلاق یہ ہیں کہ جان مال یا آبرو کو خطرہ ہو پھر بھی جھوٹ نہ بولے اور سچ کا دامن کبھی نہ چھوڑے۔ جھوٹے اور سچے کا تو پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب کوئی ابتلا درپیش ہو۔ ذاتی مفاد متاثر ہونے کا خطرہ ہو لیکن پھر بھی اس میں سے سرخرو ہو کر نکلے۔ اپنے ذاتی مفادات کو سچائی پر قربان کر دے۔

آجکل یہاں اور یورپیئن ممالک میں بھی اسائلم کے لئے لوگ آتے ہیں لیکن باوجود میرے بار بار سمجھانے کے ان وکیلوں کے کہنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں۔ جھوٹ پر مبنی کہانی لکھواتے ہیں اور پھر بھی بعضوں کے بلکہ بہت ساروں کے کیس rejectہو جاتے ہیں۔ باقی دنیا میں بھی اور یہاں بھی جماعتی طور پر وکیلوں کی ایک مرکزی ٹیم ہے۔ وہ اسائلم لینے والوں کی مدد کرتی ہے۔ ان کو وکیلوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے یا انہیں بعض ایسی ضروری باتیں بتاتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں جو اُن کے کیس کے لئے مفید ہوں۔ کئی مرتبہ ہوا ہے کہ مجھے کمیٹی کے صدر نے کہا کہ فلاں کا کیس اس لئے reject ہوا ہے کہ بے انتہا جھوٹ تھا۔ صرف ایک دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ جھوٹ اور شرک کو اللہ تعالیٰ نے اکٹھا کر کے بیان فرمایا ہے۔ پھر اسی طرح بعض benefits لینے کے لئے غلط بیانی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’جھوٹ بھی ایک بُت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 361) پس اس باریکی سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

پھر فرمایا یہ عہد کرو کہ زنا سے بچو گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 342)

اب آجکل ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے اس پر ایسی بیہودہ فلمیں چلتی ہیں یا کھولنے سے نکل آتی ہیں جو نظر کا بھی زنا ہے، خیالات کا بھی زنا ہے، پھر برائیوں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اپنے خاوندوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سارا دن انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں اور بیٹھ کر گندی فلمیں دیکھتے ہیں۔ بعض مرد بھی اپنی بیویوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اور پھر نتیجۃً خلع اور طلاق تک نوبت آ جاتی ہے۔ یا انہی فلموں کی وجہ سے جانوروں سے بھی زیادہ بدترین بن جاتے ہیں۔ احمدی معاشرہ عموماً تو اس سے بچا ہوا ہے۔ شاذ و نادر کے سوا کوئی ایسے واقعات نہیں ہوتے لیکن اگر اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس گند سے اپنے آپ کو بچانے کی بھر پور کوشش نہ کی تو پھر کسی پاکیزگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس اس بارے میں بھی بہت فکر سے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا کہ بدنظری سے بچوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں غضّ بصر کا حکم دیا ہے تا کہ بدنظری کا موقع ہی پیدا نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے۔ (سنن الدارمی، کتاب الجہاد، باب فی الذی یسھر … الخ حدیث2404 صفحہ 773 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت 2000ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں …۔‘‘ فرماتے ہیں: ’’ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 343)

آپ نے فرمایا کہ: ’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مَردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مَردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غضّ بصر کا۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 346۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اس بات پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ پھر آپ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہر ایک فسق و فجور سے بچوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلنا فسق ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’گالی گلوچ کرنا فسق ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ باب اجتناب البدع والجدل حدیث 46)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ: ’’قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 367۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا: ’’جب یہ‘‘ (یعنی مسلمان) ’’فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب و زینت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلاکو، چنگیز خان وغیرہ سے برباد کرایا۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 133۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آجکل بھی دنیا کا، مسلمانوں کا یہی حال ہے۔

پھر ایک عہد بیعت کرنے والے سے یہ لیا گیا ہے کہ ظلم نہیں کرے گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

ظلم ایک انتہائی بڑا گناہ ہے۔ کسی کا حق غلط طریق سے دبانا بہت بڑا ظلم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ کونسا ظلم سب سے بڑا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبا لے۔ فرمایا اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے ازراہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ 61 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث 3772 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

یعنی اس زمین کے نیچے گہرائی تک جتنی زمین ہے، (اللہ جانتا ہے کتنی زمین ہے) اس کا ایک طوق بنے گا اور اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ وہ لوگ جو مقدمات میں اَناؤں کی وجہ سے یا ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کی وجہ سے لوگوں کے حق مارتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے۔

پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا گیا ہے کہ خیانت نہیں کریں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

اور خیانت نہ کرنے کا معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا پیش فرمایا؟ فرمایااس شخص سے بھی خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آ چکا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ حدیث 3535)

پس یہ معیار ہیں جو ہمیں حاصل کرنے ہیں۔ کوئی عذر نہیں کہ فلاں کی امانت میں نے اس لئے قبضے میں کر لی یا اس کی چیز دبا لی کہ اس نے فلاں وقت میرے ساتھ خیانت کا معاملہ کیا تھا۔ اپنے حقوق کے لئے قضا یا اگر دوسرا فریق غیر از جماعت ہے تو عدالت میں جاؤ۔ اگر جماعت کہتی ہے تو عدالت میں جائیں لیکن خیانت کا تصور ہی مومن کے ایمان کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔

پھر یہ عہد ہے کہ ہر قسم کے فساد سے بچوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اپنوں کے ساتھ جھگڑوں اور فساد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیروں سے جو ہمیں تکلیفیں پہنچا رہے ہیں ان سے بھی سلوک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ کیا ہے؟

فرمایا: ’’وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ …‘‘۔ فرمایا: ’’دیکھو میں اس امر کے لئے مأمور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو…‘‘ فرمایا: ’’جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہرگز پسندنہیں کرتا۔ اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 203-204۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس نہ اپنوں سے (جھگڑیں ) نہ غیروں سے۔ ہم میں سے وہ لوگ جو (لڑائی جھگڑا کرنے والے ہیں ) اگر بیویوں کے ساتھ سلوک میں یا اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلقات میں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے ساتھ سلوک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو سامنے رکھیں تو تھوڑے بہت معاملات بھی جو ان شکایات کے سامنے آتے ہیں یہ بھی نہ آئیں۔ یا کم از کم ان میں غیر معمولی کمی واقع ہو جائے۔

پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا کہ بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

یہ باغیانہ رویّہ چاہے نظام جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن کے خلاف ہے یا حکومت وقت کے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے رویّوں سے بھی بچنے کی ہدایت فرمائی ہے جن سے بغاوت کی بُو آتی ہے۔ دین میں دخل اندازی کے علاوہ حکومت وقت کے باقی احکامات کے خلاف ایسے رویّے دکھانا جو خود کو قانون شکن بنا رہے ہوں یا دوسروں کو قانون کے خلاف بھڑکا سکتے ہوں یہ اسلامی طریق نہیں ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونے کا بھی عہد کرو۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

پہلے بھی مَیں نے بتایا کہ آجکل ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے نفسانی جوشوں سے مغلوب ہونے کے بہت سے مواقع ہیں۔ پھر لڑائی جھگڑے، دنگا فساد بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان نفسانی جوشوں سے مغلوب ہوتا ہے۔ پس چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو کسی بھی طرح نفسانی جوشوں کو ابھارنے والی یا ان سے مغلوب کرنے والی ہے ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا ایک احمدی کا فرض ہے۔

پھر فرمایا کہ احمدیت میں داخل ہو کر اس بات کا بھی عہد کرو کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی پابندی کرنی ہے کہ نمازوں کو پانچ وقت اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

دس سال کے عمر کے بچے پر بھی نماز فرض ہے۔ پس والدین کو اس کی نگرانی کی ضرورت ہے اور اس نگرانی کا حق تبھی ادا ہو گا جب خود والدین نمازوں میں نمونہ ہوں گے۔ بہت ساری شکایتیں میرے پاس آتی ہیں۔ بعض بچے بھی کہتے ہیں کہ ہمارے والدین نماز نہیں پڑھتے یا بیویاں کہتی ہیں کہ خاوندنماز نہیں پڑھتے۔ بچے کیا نمونہ دیکھ رہے ہوں گے؟ مردوں کے لئے پانچ وقت کی نماز شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا مطلب ہے کہ مسجد جا کر باجماعت نماز ادا کریں سوائے بیماری یا کسی بھی خاص جائز عذر کے۔ اگر اس پر عمل شروع ہو جائے تو ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھر جائیں۔ صرف عہدیداران ہی اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ اس بارے میں مَیں وقتاً فوقتاً کہتا رہتا ہوں لیکن ابھی بھی بہت کمی ہے اور کوشش کی ضرورت ہے۔ جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو اس بارے میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 254ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ پس اس طرف ہر احمدی کو بہت بڑھ کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر یہ عہد ہم سے لیا کہ نماز تہجد کا بھی التزام کریں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہئے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے اور برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے‘‘۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 112 حدیث 3549)

پس نہ صرف روحانی علاج ہے بلکہ جسمانی علاج بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہرحال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 245۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس طرف بھی ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پھر آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا ہم سے عہد لیا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ …حدیث 849)

پس بڑی اہمیت ہے درود کی اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی درود انتہائی ضروری ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی پر درودنہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی اوپر نہیں جاتا۔ (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی فضل الصلٰوۃ علی النبیﷺ حدیث 486)

پھر بیعت میں ایک عہد ہم یہ کرتے ہیں کہ استغفار میں باقاعدگی اختیار کریں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی بہت زیادہ استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کے لئے کشائش کی راہ پیدا کردیتا ہے اور ان راہوں سے رزق دیتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1518)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو، اسے علم ہو یا نہ ہو …استغفار کرتا رہے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 275۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس اہمیت کو بھی ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔

پھر ہم سے یہ عہد لیا کہ خدا تعالیٰ کے احسانوں کو ہم یاد رکھیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے سب سے بڑا احسان تو یہی ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان یاد رہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خالص تعلق جوڑنے کی کوشش بھی ہر وقت رہے گی اور آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ رہے گی۔

پھر یہ عہد ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اہم کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح باب خطبۃ النکاح حدیث نمبر 1894)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کر پاتا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 297 مسندنعمان بن بشیرؓ حدیث 18640 مطبوعہ بیروت1998ء)

پس اللہ تعالیٰ کی حمد کو اس طرح کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی ممنون احسان رہیں۔ پھر ایک عہد ہم نے یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام مخلوق کو تکلیف نہیں دیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

پھر یہ عہد ہے کہ مسلمانوں کو خاص طور پر اپنے نفسانی جوشوں سے ناجائز تکلیف نہیں دیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

جس حد تک عفو کا سلوک ہو سکتا ہے کرنا ہے۔ لیکن اگر مجبوری سے کسی کے حد سے زیادہ تکلیف دِہ رویّے کی وجہ سے اصلاح کی خاطر، ذاتی عناد کی وجہ سے نہیں، غصّے کی وجہ سے نہیں بلکہ اصلاح کی خاطر کسی کو سزا دینی ضروری ہے تو پھر اپنے ہاتھ میں معاملہ نہیں لینا بلکہ حکّام تک بات پہنچانی ہے۔ جو اصلاح بھی کرنی ہے صاحب اختیار نے کرنی ہے۔ ہر ایک کا کام نہیں کہ اصلاح کرتا پھرے۔ خود کسی سے بدلے نہیں لینے۔ عاجزی اور انکساری کو اپنا شعار بنانا ہے۔

پھر یہ عہد ہے کہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا وفادار رہنا ہے۔ خوشی اور تکلیف ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا دامن ہی پکڑے رکھنا ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کا کام بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لئے ہی خاص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی اور مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکرگزاری اس کے لئے مزید خیر وبرکت کا موجب بنتی ہے اور اگر اس کو کوئی دکھ، رنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کے ثواب کو حاصل کرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھدوالرقاق باب المؤمن امرہ کلہ خیر حدیث 7500)

پس ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دوڑنا ایک مومن کا کام ہے۔

اور جب یہ ہو گا تو اس عہد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر ذلّت اور دکھ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اور کبھی کسی مصیبت کے وارد ہونے پر منہ نہیں پھیریں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے۔ نہ مصیبت سے، نہ لوگوں کے سبّ و شتم سے، نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے‘‘۔ (انوارالاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 24)

پس ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بن کر رہنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے انشاء اللہ اور دکھ اور ذلت بھی دئیے جائیں تو کبھی اس کی پرواہ نہیں کرنی یہ ہمارا عہد ہے۔

پھر یہ عہد ہے کہ رسم و رواج کے پیچھے نہیں چلیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دین کے معاملے میں کوئی ایسی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علیٰ صلح جور… حدیث 2697)

پس اس بارے میں ہر وقت ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ آجکل شادی بیاہ کے معاملے میں غلط قسم کے رسوم و رواج پیدا ہو گئے ہیں۔ احمدیوں کو اس سے بچنا چاہئے۔ اپنے دائیں بائیں دیکھ کر، دوسروں کو دیکھ کر ان رسوم میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اس بارے میں تفصیل سے بھی ایک دفعہ مَیں بتا چکا ہوں۔ سیکرٹریان تربیت اور لجنہ کو چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً جماعت کے سامنے یہ باتیں رکھتے رہیں تا کہ غیر مقبول فعل سے افراد جماعت بچتے رہیں۔ پھر یہ عہد ہے کہ کبھی ہوا و ہوس کے پیچھے نہیں چلوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جو کوئی اپنے ربّ کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے تو جنّت اس کا مقام ہے۔ ہوائے نفس کو روکنا یہی فنا فی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے اِسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 7صفحہ 413تا414۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ عہد ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کروں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26)

پھر یہ عہد ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو ہم اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 125۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

پھر یہ عہد ہے تکبّر اور نخوت کو مکمل طور پر چھوڑ دیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رُسوا کرتی ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ598)

پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ پھر فرمایا: ’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے‘‘۔ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ402)

پھر یہ عہد لیا گیا ہے کہ فروتنی اور عاجزی اختیار کروں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر عاجزی اور انکساری اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا، اس کو بلند کر دے گا اور یہاں تک کہ اس کو علّیین میں جگہ دے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 191 مسند ابی سعید الخدریؓ حدیث نمبر 11747 مطبوعہ بیروت 1998ء)

عاجزی انکساری اختیار کرنے سے ایک درجہ بلند ہوتا جائے گا۔ اگر یہ مسلسل رہے تو یہاں تک بلند ہوتا جائے گا کہ جنّتوں کے جو اعلیٰ ترین معیار ہیں ان میں جگہ دے دے گا۔

پھر یہ عہد ہے کہ ہم ہمیشہ خوش خُلقی اپنا شیوہ بنائیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اس کو بھی ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے۔

پھر یہ عہد ہے کہ حلیمی اور مسکینی سے اپنی زندگی بسر کریں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد 6صفحہ 54۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ عہد لیا کہ دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد سے زیادہ عزیز سمجھوں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

پھر یہ عہد لیا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمیشہ ہمدردی کروں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو اللہ تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے… پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 285-284۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ عہد لیا کہ خداداد طاقتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤں گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طُرق کی راہ سے قَسّامِ ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض لِلّٰہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے‘‘۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 61-62)

پس دنیا کی روحانی ترقی کے لئے کوشش بھی بنی نوع کو فائدہ پہنچانے میں داخل ہے اور مادی اور روحانی فائدہ پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ پس جہاں ظاہری ہمدردی اور مدد پہنچانی ہے، انہیں فائدہ پہنچانا ہے، خدمت خلق کرنی ہے، وہاں تبلیغ بھی بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ایک احمدی کا فرض ہے۔

پھر یہ عہد آپ نے لیا کہ آپ سے ایک ایسا قریبی رشتہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم نے قائم کرنا ہے جس میں اطاعت کا وہ مقام حاصل ہو جو نہ کسی رشتے میں پایا جاتا ہے نہ کسی خادمانہ حالت میں پایا جاتا ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

ان تمام باتوں کی اطاعت کرنی ہے جو آپ ہماری دینی، علمی، روحانی اور عملی تربیت کے لئے ہمیں فرما گئے ہیں یا آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے جماعت کے افراد تک وہ پہنچتی ہیں جو شریعت کے قیام کے لئے ہیں۔ جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کے مطابق ہیں کہ اس کے بغیر نہ ہی ہماری ترقی ہو سکتی ہے، نہ ہماری اِکائی قائم رہ سکتی ہے۔

پس ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے عہد کو کس حد تک نبھایا اور اگر کمیاں ہیں تو اس سال ہم نے کس طرح انہیں پورا کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے۔ اور اپنی ہمّت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 439۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہم سے صَرفِ نظر فرماتے ہوئے ہماری گزشتہ سال کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور اس سال میں ہمیں زیادہ سے زیادہ بھرپور کوشش کے ساتھ اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آج نمازوں کے بعد میں دو غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ تو ہمارے شہید بھائی مکرم لقمان شہزاد صاحب ابن مکرم اللہ دِتّہ صاحب کا ہے۔ آپ کو بھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ میں مخالفین احمدیت نے مؤرخہ 27؍دسمبر کو صبح بعدنماز فجر فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

لقمان شہزاد صاحب کو اپنے خاندان میں اکیلے ہی بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ شہید مرحوم نے 27؍نومبر 2007ء کو بیعت کر کے نظام جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بیعت سے قبل شہید مرحوم کا علاقے کے احمدی احباب کے ساتھ کافی ملنا جلنا تھا۔ بھڑی شاہ رحمان کے صدر جماعت مکرم سلطان احمد صاحب کو گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مذاکرے کرتے دیکھ کر اور جماعت کی کامیابی دیکھ کر اور دلائل سن کر ان کا صدر صاحب کے ساتھ تعلق مزید گہرا ہو گیا۔ اس کے بعد ایم ٹی اے کے پروگرام بالعموم سنا کرتے تھے اور میرے خطبات خاص طور پر سننا شروع کئے۔ یہی عمل آپ کی قبولیت احمدیت کا سبب بنا۔ احمدیت کی قبولیت کے بعد آپ کو شدید مخالفانہ حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین نے احمدیت سے دستبردار کروانے کی کوشش میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ شہید مرحوم کو تشدد اور دھمکیوں کے علاوہ بہت سے مولویوں سے ملایا گیا۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ کوئی مولوی آپ کے سامنے ٹِک نہ سکا۔ ایک مرتبہ آپ کے پھوپھا زبردستی آپ کو مقامی مسجد میں لے گئے جہاں چند مولوی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے احمدیت سے دستبرداری کے اصرار پر شہید مرحوم نے کہا کہ اگر یہ لوگ دلائل سے ثابت کر دیں کہ جماعت احمدیہ جھوٹی ہے تو مَیں انکار کر دوں گا۔ جس پر مولوی نے کہا کہ اب بحث کا وقت ختم ہو گیا۔ تم صرف جماعت سے انکار کا اعلان کرو۔ کوئی بحث نہیں ہم نے کرنی۔ دلیل کوئی نہیں۔ شہید مرحوم کے نہ ماننے پر ان کے پھوپھا اور وہاں موجود مولویوں اور دیگر لوگوں نے ڈنڈوں وغیرہ سے مارنا شروع کر دیاجس کی وجہ سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید چوٹ آئی اور شدید زخمی ہو گئے۔ مخالفین مارتے مارتے آپ کو ایک گاڑی میں ڈال کر آپ کے چچا کے پاس لے گئے اور جانوروں کے باڑے میں بند کر دیا۔ ان کی والدہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو ان کے چچا کے ڈیرے پر پہنچیں اور اپنے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ پہلے تو انہوں نے انکار کیا۔ ان کی والدہ کو بھی تھپڑ مارا حالانکہ وہ غیر احمدی تھیں۔ والدہ کے بار بار اصرار پر شہید مرحوم کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا گیا اور ساتھ ہی کہا کہ آج کے بعد ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہید مرحوم کی بیعت کے ایک سال بعد رشتہ داروں نے ان کو زبردستی ان کے والد کے پاس سعودی عرب بھجوا دیا تا کہ احمدیت سے دستبردار کیا جا سکے۔ سعودی عرب میں بھی آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا کیونکہ رشتہ داروں کی طرف سے آپ کے سعودی عرب پہنچنے سے پہلے ہی آپ کے احمدی ہونے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ شہید مرحوم نے سعودی عرب میں بھی جماعت کی تلاش جاری رکھی۔ کئی ماہ کی کوششوں کے بعد ایک انڈین احمدی دوست کے توسّط سے جماعت سے رابطہ ہوا۔ شہید مرحوم اس بات پر بہت خوش ہوئے اور وہاں قیام کے دوران مرحوم کو حج کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ تین سال کے بعد شہید سعودی عرب سے واپس آ گئے۔ اپنا زمیندارہ شروع کر دیا۔ 26؍نومبر 2014ء کو بھڑی شاہ رحمان میں مخالفین جماعت نے ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے نام نہاد مولویوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں مولویوں نے احباب جماعت کے خلاف واجب القتل ہونے کے فتوے دئیے اور لقمان شہزاد صاحب کے خلاف بالخصوص لوگوں کو بھڑکایا۔ اس کانفرنس کے بعد آپ کو مخالفین کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا تھا۔ بالآخر 27دسمبر کو جب آپ فجر کی نماز ادا کر کے اپنے ڈیرہ پر جا رہے تھے تو مخالفین نے تعاقب کر کے پیچھے سے سر میں گولی ماری جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے۔ ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں جام شہادت نوش فرمائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم 5؍اپریل 1989ء (eighty nine) کو پیدا ہوئے۔ مرحوم نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس، ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے۔ اس وقت جماعت احمدیہ بھڑی شاہ رحمان میں سیکرٹر مال کے عہدے پر خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتے تھے۔ مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ آپ احمدی دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا تو وہ دوست ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرے۔ شہید مرحوم کہا کرتے تھے کہ مجھے اس وقت سکون آئے گا جب اپنے سارے گھر والوں کو جماعت میں شامل کر لوں گا۔ آپ کی وفات پر ہمسایوں کی ایک مخالف خاتون نے کہا کہ میں نے اس لڑکے میں احمدی ہونے کے بعد بڑی تبدیلی دیکھی ہے۔ جب سے یہ احمدی ہوا تھا اس نے تہجد شروع کر دی تھی۔ باقاعدگی سے صبح تین بجے اس کے کمرے کی لائٹ جل جاتی تھی اور جب میں اس کو احمدیت کی وجہ سے برا بھلا کہتی تھی تو شہید مرحوم کی والدہ بھی جواباً ناراضگی کا اظہار کرتی تھیں۔ اس پر شہید مرحوم اپنی والدہ سے کہا کرتے تھے کہ یہ باتیں تو اب ہمیں سننا پڑیں گی۔

ابھی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے سنا کہ مخالفین تمہیں جو کہیں تم نے صبر کرنا ہے اور شہیدنے یہی بات حالانکہ والدہ غیر احمدی تھیں ان کو کہی کہ میری وجہ سے تم کو یہ باتیں سننی پڑیں گی۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے خاندان کو بھی احمدیت کے نور سے فیضیاب ہونے کی توفیق دے۔

رفیع بٹ صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شہادت سے ایک ہفتہ قبل ربوہ میں میرے پاس آئے اور پورا وقت جماعت کی خوشحالی اور ترقی کی باتیں کرتے رہے۔ ان کے اندر دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ میں انہیں محلہ باب الابواب میں ایک دوست کے پاس لے گیا۔ وہاں حوالہ جات کی کاپیاں وغیرہ دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اپنے موبائل میں کافی حوالہ جات کی تصویریں لیں اور کہا کہ مَیں جلد واپس آؤں گا اور ان کے پاس جو قیمتی خزانہ ہے اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔

لقمان شہزاد صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی روحانیت بہت ترقی کر گئی تھی۔ ان کی مجلس میں بیٹھنے کے بعد ہر فرد ایک نیا جوش و جذبہ لے کر اٹھتا تھا۔

الماس محمودناصر صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ لقمان صاحب اس گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں خاکسار بعد تکمیل تعلیم جامعہ پہلی مرتبہ تعینات ہوا۔ لقمان صاحب خاکسار کے پاس دیر تک بیٹھے رہتے حالانکہ انہوں نے ابھی بیعت بھی نہیں کی تھی۔ علمی مسائل پوچھنے کے ساتھ ساتھ وہ جماعت سے اس قدر قریب ہو چکے تھے کہ دوران گفتگو خود کو جماعت احمدیہ کا فرد ہی سمجھتے اور احمدی اور غیر احمدی کے فرق پر بات کے دوران وہ اپنا ذکر بطور احمدی کرتے۔ بوقت بیعت کم عمری کے باوجود بہت ہی بلند حوصلہ نوجوان تھے۔ ماریں بھی کھائیں جیسا کہ بتایا گیااور ان پر بڑا دباؤ ڈالا گیا۔ لکھتے ہیں کہ جب ان کو مسجد میں مارا گیا تو ڈنڈوں سے اور جو رحلیں ہوتی ہیں، جن پر قرآن شریف رکھ کر پڑھا جاتا ہے ان سے بھی مارا گیا۔ گن پوائنٹ پر اغوا بھی کیا گیا جہاں وہ ڈیرے پر گئے اور وہاں سے ان کی والدہ لے کے آئیں اور اس وقت ڈاکٹر بھی کوئی نہیں تھا۔ ان کے دوست غیر احمدی ڈاکٹر نے ہی چھپ کے ان کو اس وقت ابتدائی طبّی امداد دی۔

لکھتے ہیں کہ خاکسار نے جو بات شدّت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ لقمان احمد صاحب کا پہاڑ جیسا عزم و استقلال تھا۔ تمام تر ظلم و بربریت پر ذرہ بھر بھی پریشان نہ تھے اور نہ ان کے قدم ڈگمگائے بلکہ بہت ہی حوصلہ اور غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابہ کا سا نمونہ پیش کیا۔

رانا رؤوف صاحب سعودی عرب سے لکھتے ہیں کہ جماعت سے باقاعدہ اور مستقل رابطہ رکھا لیکن کفیل کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہے۔ کفیل کو ان کے رشتہ داروں اور کام کرنے والوں نے ان کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ کافر ہے مگر ان کے کفیل نے کہا کہ یہ لڑکا ہمیشہ فارغ وقت میں قرآن پڑھتا رہتا ہے اور نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے۔ یہ کیسا کافر ہے جبکہ تم لوگ نہ نمازیں پڑھتے ہو اور نہ قرآن پڑھتے ہو۔ خصوصی طور پر روزگار کی مشکلات اور احمدی ہونے کی وجہ سے رشتے داروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا رہا۔

سعودی عرب میں مقیم ان کے گاؤں کے ایک احمدی دوست امتیاز صاحب نے ایک واقعہ بتایا کہ جب یہ نئے نئے احمدی ہوئے تو ان کے ننھیال میں کسی کی وفات ہو گئی۔ اس موقع پر ان کے ماموؤں نے غیر احمدی مولویوں کو جمع کیا اور لقمان احمد کو وہاں لے گئے۔ لقمان صاحب اپنی جیب میں احمدیہ پاکٹ بک رکھتے تھے۔ غیراحمدی مولوی ان سے طرح طرح کے سوال اور بحث کرتے رہے اور یہ ان کو دلیل سے جواب دیتے رہے۔ بعد میں مولویوں نے شور مچانا شروع کر دیا تو ان کے غیر احمدی بزرگ نے ان مولویوں سے کہا کہ ایک لڑکے نے تم سب کا منہ بند کر دیا ہے۔ یہ انتہائی ادب اور دلیل کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ اس لئے تم لوگ بھی شور نہ مچاؤ بلکہ ایک ایک کر کے اس کی بات کا جواب دو۔ لیکن کوئی جواب ہو تو دیں۔ جلسہ سالانہ سعودی عرب میں پہلی دفعہ شامل ہوئے تو کہتے ہیں خواب میں یہ نظارہ مَیں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔

دوسرا جنازہ غائب ہو گا مکرمہ شہزادے ستانوسکا (Scherher Zada Destanouska) صاحبہ۔ یہ مقدونیہ کی رہنے والی ہیں۔ یہ 19؍نومبر 2014ء کو 49سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1996ء میں اپنے میاں کے احمدیت قبول کرنے کے چند ماہ بعد ان کو بیعت کرنے کی سعادت ملی تھی۔ مارچ اپریل 1995ء میں شریف دروسکی صاحب اور شاہد احمد صاحب تبلیغی سفر پر جرمنی سے برووو (Berove) گئے جہاں شریف دروسکی صاحب نے مرحومہ کے میاں اور اپنے عزیز مکرم جعفر صاحب کو احمدیت کا پیغام پہنچایا جو انہوں نے قبول کرلیا۔ مرحومہ کے شوہر نے بتایا کہ ان کی شادی کو گیارہ بارہ سال ہو چکے تھے اور ان کے ہاں کوئی اولادنہیں تھی۔ شاہد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں ان کے لئے دعا کا خط لکھا۔ اس سے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹا عطا فرمایا۔ ابتدا میں یہاں احمدیوں کو مخالفت اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر آپ صبر اور ثابت قدمی سے اپنے ایمان پر قائم رہیں۔ قبول احمدیت سے قبل آپ کو نماز نہیں آتی تھی اور احمدی ہو کر آپ نے نماز سیکھی۔ مقامی لجنہ میں فعّال ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔ مخلص احمدی خاتون تھیں۔ نماز سینٹر سے باقاعدہ رابطہ تھا۔ جماعتی پروگراموں میں ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں۔ مبلغین کو اپنے گھروں میں بلاتیں۔ لوکل زبان میں شائع ہونے والی کتب کا مطالعہ کرتی رہتیں۔ مقدونیہ میں ہمارا سینٹر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی وفات پر غیر احمدیوں کی مسجد میں نہلانے کے لئے لے گئے تو انہوں نے نعش پر قبضہ کر لیا اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے اور پھر جنازہ بھی انہوں نے پڑھا اور احمدیوں کو جنازہ نہیں دیا۔ احمدیوں نے بعد میں جنازہ غائب پڑھا ہے۔ لیکن بہر حال ان کے خاوندنے بڑی ہمت اور حوصلہ دکھایا ہے۔ لڑائی نہیں کی۔ وہاں فساد پیدا ہو سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچے اور خاوند کو بھی جماعت کے ساتھ اخلاص اور وفا میں بڑھاتا چلا جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 2؍ جنوری 2015ء شہ سرخیاں

    آج کا جمعہ اس نئے سال 2015ء کا پہلا جمعہ ہے۔ مجھے مختلف لوگوں کے نئے سال کے مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں۔ آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو۔ لیکن ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجا لانے سے ہی ادا ہو گا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔ ہمارے لئے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دئیے ہیں۔ پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیان فرمودہ شرائط بیعت کے حوالہ سے افراد جماعت کو نہایت اہم نصائح۔

    مکرم لقمان شہزاد صاحب ابن مکرم اللہ دتہ صاحب آف بھڑی شاہ رحمان کی شہادت۔

    مکرمہ شہزادے ستانوسکا صاحبہ آف مقدونیہ کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 02؍جنوری 2015ء بمطابق02صلح 1394 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور