تقویٰ، اطاعت اور مالی قربانی۔ وقف جدید
خطبہ جمعہ 9؍ جنوری 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
فَاتَّقُوْااللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفُِقُوْا خَیْرًا لِّاَ نْفُسِکُمْ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (التغابن: 17۔ 18) پس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرویہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اگر تم اللہ کو قرضۂ حسنہ دو گے تووہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے۔
جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور کامل اطاعت سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کے جو بیشمار احکامات ہیں ان میں سے ایک اہم حکم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ہے۔ پس مومن کو مالی قربانی کے وقت کبھی تردّد اور ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ مالی قربانی جو مومنین کرتے ہیں ایک نیک مقصد کے لئے ہوتی ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس کی خاطر نیک مقاصد کی ترقی کے لئے خرچ کرتی ہے اور خرچ کرنے کی خواہشمند ہے۔ اسلام کی تبلیغ ہے۔ مبلغین کی تیاری اور ان کو میدان عمل میں بھیجنا ہے۔ لٹریچر کی اشاعت ہے۔ قرآن کریم کی اشاعت ہے۔ مساجد کی تعمیر ہے۔ مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے۔ سکولوں کا قیام ہے۔ ریڈیو اسٹیشنوں کا مختلف ممالک میں اجراء ہے جہاں سے دین کی تعلیم پھیلائی جاتی ہے۔ ہسپتالوں کا قیام ہے۔ دوسرے انسانی خدمت کے کام ہیں۔ غرض کہ اسی طرح کے مختلف النوع کام ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں جو آج دنیا کے نقشے پر حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق صرف جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔ یہ اس لئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر ان کاموں کی روح کو سمجھا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے نفس کی کنجوسی سے بچتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہونے کا اِدراک حاصل کیا ہے جن کا شمار مُفْلِحُوْن میں ہے۔ صرف کامیابی اس کے معنی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو کشائش پانے والے ہیں۔ اس کے معنی میں وسعت ہے۔ کامیابیوں سے بہت بڑھ کے اس کی تفصیل ہے۔ وہ لوگ جو کشائش پانے والے ہیں جو کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں۔ اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جو خوشگوار زندگی کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے ہیں۔ ایسی خوشگوار زندگی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو۔ جن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاتی ہیں۔ جن کی کشائش کو دوام حاصل ہوتا ہے۔ جو مستقل رہتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اطمینان حاصل کرنے والے ہیں۔ جن پراس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ نازل ہوتے رہتے ہیں۔ پس جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کامیابیاں پاتے ہیں ان کی کامیابیاں محدودنہیں ہوتیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ان کامیابیوں کی بے انتہا وسعت ہے۔ پس کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس قسم کی کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان سے صرف خرچ کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ جو خرچ کرنے والے ہیں یہ تم لوگ ہو۔ اور یہ جو خرچ ہے یہ خرچ کرنے والوں کی فلاح کا ایک ذریعہ ہے۔ خدا تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا۔ تمہاری مالی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ اس طرح پیار کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کی اس طرح قدر کرتا ہے جیسے تم نے خدا تعالیٰ کو قرضۂ حسنہ دیا ہو اور جب قرض کی واپسی کا وقت آ تاہے تو خدا تعالیٰ بڑھا کر دیتا ہے اور صرف یہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری اس قربانی کی وجہ سے تمہارے گناہ بخش دے گا اور نہ صرف گناہ بخش دے گا بلکہ تمہیں مزیدنیکیوں کی توفیق بخشے گا۔ پس تم اللہ تعالیٰ کی قدر شناسی کا اندازہ کر ہی نہیں سکتے۔ اس قدر شناسی کی کچھ تفصیل مُفْلحون کے لفظ کی وضاحت میں بیان ہو گئی ہے۔
پس کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے فیض سے اس طرح فیض پاتے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا آج اس دنیا میں احمدی ہی ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا اِدراک ہے اور اس وجہ سے احمدی ہی ہیں جو اس فیض سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اور یہ صرف کوئی زبانی باتیں ہی نہیں ہیں ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں ہیں جو میرے سامنے وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں۔ جو لوگ مالی قربانیاں کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں، اور لکھتے ہیں۔ وہ ایک تڑپ کے ساتھ یہ قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مالی قربانی یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا اِدراک نہ ہو تو کون اس طرح تڑپ کے ساتھ مالی قربانی کر سکتا ہے؟ اور پھر یہی نہیں ایسے بھی بہت سے ہیں جو اس مالی قربانی کے بعد فوری طور پر اس تجربے سے بھی گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح بڑھا کر واپس کرتا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس پیار کے سلوک کا ان پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھے ہوئے مال کو پھر اسی کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں اور یوں وہ مالی لحاظ سے بھی فضلوں کے حاصل کرنے والے بنتے چلے جاتے ہیں اور جو دوسرے مفادات ہیں، جو دوسرے فیض ہیں وہ بھی ان کو پہنچتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو بڑے جذباتی انداز میں احمدی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان پر اللہ تعالیٰ نے فرض فرمایا۔ کس طرح ان کو قربانی کی توفیق ملی اور ان کی امیدوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ حصہ پانے والے بنے۔ ایسے چند واقعات اس وقت مَیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
بینن سے ہمارے مبلغ سلسلہ نے لکھا کہ کوتونو شہر سے ایک معمر احمدی سلمان صاحب ہیں۔ مالی لحاظ سے بہت کمزور۔ دسمبر میں جلسہ سالانہ بینن میں شرکت کے لئے ان کے پاس اتنی حیثیت بھی نہیں تھی کہ خود آنے جانے کا پندرہ سو سیفا کرایہ لگتا ہے وہ دے سکتے۔ جلسے میں شرکت کے لئے جب انہیں کہا گیا، زور دیا گیا تو بہر حال کوشش کر کے ایک طرف کا کرایہ خرچ کر کے جلسہ گاہ تو پہنچ گئے مگر واپس جانے کا کرایہ نہیں تھا۔ پھر ان کا انتظام کرنا پڑا۔ جلسے کے بعد گھر پہنچے۔ چار پانچ دن کے بعد جو وقف جدید کے محصّلین ہیں وہ چندہ لینے ان کے گھر گئے تو بتایا آپ کے چندہ وقف جدید کی ادائیگی ابھی رہتی ہے جو آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ سلمان صاحب نے بڑی بشاشت سے ان کا گھر پر استقبال کیا اور وقف جدید کے چندہ کا سن کے گھر کے اندر گئے اور چھ ہزار فرانک سیفا لا کے دے دیا۔ یہ لکھنے والے لکھتے ہیں ان کی حیثیت کے مطابق یہ بہت بڑی رقم تھی۔ اس پر محصّل راجی شھود صاحب پہلے تو جذباتی ہو گئے۔ پھر انہوں نے ان کو کہا کہ آپ بیشک تھوڑی رقم دیں۔ اتنی بڑی رقم نہ دیں۔ بچوں کے لئے بھی رکھیں کیونکہ یہ آپ کی حیثیت سے زیادہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جب خدا نے مجھے یہ رقم دی ہے تو میں اس کی راہ میں کیوں نہ دوں۔ یہ میری رقم نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ میرے پاس تو جلسہ جانے کے لئے کوئی رقم نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے ایک طرف کا کرایہ خرچ کر کے گیا تھا۔ واپسی پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر نوازا ہے کہ میں یہ رقم خوشی سے اس کی راہ میں دینے کو تیار ہوں۔ اور نیز کہنے لگے کہ دو دن کے بعد دوبارہ آئیں۔ مَیں پھر رقم دوں گا اور دو دن کے بعد انہوں نے دو ہزار سیفا مزید ادائیگی کی۔
پھر تنزانیہ کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے ایک ریجن کے احمد مَنْیَوپِے صاحب نو مبائع ہیں۔ دو سال پہلے احمدی ہوئے ہیں۔ انہوں نے بار بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ جو بھی ہم وقف جدید اور تحریک جدید میں دیتے ہیں ہمیں خدا تعالیٰ زیادہ کر کے واپس کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے سے پہلے ہمیں پتا نہیں لگتا تھا کہ پیسہ کہاں جاتا تھا لیکن جب سے جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور چندہ دینا شروع کیا ہے تو ایک دلی تسکین ملتی ہے اور ہمارے معاشی حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ پھر برونڈی کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں وہاں ایک ابوبکر صاحب ہیں۔ بہت غریب نو احمدی ہیں۔ معمولی تنخواہ پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اپنے والدین کی بھی مدد کرتے ہیں تو کہتے ہیں جب مَیں ان کے پاس چندہ وقف جدید کے لئے گیا تو فوراً کچھ ادا کیا اور کہا کہ ان کے والد صاحب کے پاؤں میں زخم ہونے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ بیمار ہیں۔ تین ماہ سے ہسپتال میں بھی کافی علاج کروا چکے ہیں۔ دیسی علاج بھی کروا چکے ہیں۔ اب ڈاکٹر ان کا پاؤں کاٹنے کا سوچ رہے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ مبلغ لکھتے ہیں کہ دو ہفتے بعد ابوبکر صاحب جمعہ پر آئے اور سب سے پہلے تو اپنا بقایا چندہ وقف جدید ادا کیا اور بڑے درد بھرے الفاظ میں شکریہ ادا کرنا شروع کیا اور بتایا کہ جب چندہ وقف جدید کی معمولی رقم ادا کی تھی (کچھ رقم انہوں نے پہلے دے دی تھی) تو اس کا یہ فضل ہوا کہ جہاں مَیں کام کرتا تھا میرے مالک نے میری تنخواہ میں اضافہ کر دیا اور اس سے بڑھ کر یہ فضل ہوا کہ میرے والد صاحب بھی ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔ پہلے وہ سوٹی کے سہارے، چھڑی کے سہارے چلتے تھے، اب بغیر سہارے کے چلنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ سب چندہ دینے کی برکت ہے۔ اور پھر انہوں نے کہا کہ مجھے آمد کے مطابق چندہ عام کا حساب بھی بتائیں تا کہ مَیں باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کروں۔ پھر تنزانیہ کے ایک لِنڈی ریجن کے سلیمانی صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں دکاندار ہوں۔ پچھلے سال میرے کاروبار میں خسارہ ہوا لیکن میں نے تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدہ جات میں کمی نہیں ہونے دی اور رمضان المبارک میں ہی اپنے وعدے سے بہت زیادہ ادائیگی کی تا کہ خلیفۃ المسیح کی دعا کا حصہ بن سکوں اور اس خسارے سے نکلوں۔ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اس وقت میری ایک دکان تھی وہ بھی خسارے میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے چندے میں اتنی برکت ڈالی کہ اب میری دو دکانیں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رکھتا نہیں ہے۔ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔
پھر تنزانیہ سے ہی بٹوارا ریجن کے ایک نو مبائع شَانگْوِے زبیری صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں جماعت میں شامل ہوا تھا پھر میں نے جماعت چھوڑ دی۔ پھر میں مقامی معلم کی کوششوں سے واپس دوبارہ جماعت میں آیا۔ جب میں جماعت کے نظام سے باہر تھا تب میرا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ چھوٹا سا کاروبار تھا۔ ہر روز خسارے میں رہتا تھا۔ میرے پاس ایک سائیکل تھی جس پر برتن رکھ کر بیچنے جاتا تھا اور کبھی پورے دن میں کچھ بھی نہیں بِکتا تھا لیکن جب سے جماعت کے نظام میں شامل ہوا ہوں۔ تحریکات میں چندہ دینا شروع کر دیا ہے، تھوڑے ہی عرصے بعد میری معاشی حالت تبدیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے چندہ دینے سے اتنی برکت ڈالی ہے کہ اب سائیکل کے بجائے مَیں نے موٹر سائیکل لے لی ہے اور اپنے سابقہ حال سے کئی گنا بہتر حال میں ہوں۔ پھر کانگو برازاویل سے مبلغ لکھتے ہیں ایک غریب احمدی دوست آلیپا صاحب مزدوری کرتے ہیں۔ ہر ماہ چندہ باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ جب ہم نے وقف جدید کے چندے کا اعلان کیا تو یہ جو غریب احمدی ہیں کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف دو ہزار فرانک سیفا تھا اور کہیں کام بھی نہیں مل رہا تھا۔ میں نے مسجد میں جا کر دو نوافل ادا کئے اور صدر صاحب کو جا کر جو دو ہزار فرانک موجود تھے وہ چندہ دے دیا۔ شام کو کہتے ہیں کہ مجھے ایک شخص نے بیس ہزار فرانک سیفا بھیجوا دیا۔ وہ رقم وہ تھی جو ایک عرصہ پہلے میں نے مزدوری کی تھی لیکن اس نے مجھے ادائیگی نہیں کی تھی۔ کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ چندے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اسے مجبور کیا کہ وہ مجھے میری رقم ادا کر دے اور اس طرح دس گنا بڑھا کے اللہ تعالیٰ نے رقم ادا کروا دی۔
پھر بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک وہاں کے احمدی کائینڈے (Kainjnide) صاحب ہیں۔ ان کا تعلق گوگورو (Gogoro) جماعت سے ہے۔ انہوں نے حال ہی میں بیعت کی ہے اور ساتھ ہی چندہ جات کی ادائیگی بھی شروع کر دی۔ یہ اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ جب ان سے اس بار وقف جدید کا چندہ لیا گیا تو بڑے شوق سے دیتے ہوئے کہنے لگے کہ جب سے مَیں نے چندہ دینا شروع کیا ہے میرا کاروبار بفضلہ تعالیٰ بڑھتا جا رہا ہے اور میرے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ احمدیت میں داخل ہونے اور چندہ دینے کی برکت سے ہے۔
پھر سیرالیون کینما ریجن کے مبلغ ہیں وہ حاجی شیخو صاحب کے بارے میں کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میں اپنے بچوں کی طرف سے چندہ وقف جدید خود دیا کرتا تھا مگر اس دفعہ مَیں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اپنا وعدہ خود لکھوائے اور اس کی ادائیگی بھی خود اپنی جیب سے کرے۔ جب سیکرٹری صاحب وقف جدید، وقف جدید کا وعدہ لینے کی غرض سے گئے تو ڈاکٹر حاجی شیخو صاحب نے بیٹی سے کہا کہ وعدہ لکھواؤ تو بیٹی نے کہا کہ وہ دس ہزار لیون دے گی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ شاید تین چار ہزار لکھوائے گی۔ جب بیٹی نے دس ہزار کہا تو اس کی والدہ نے کہا کہ اتنے پیسے کہاں سے ادا کرو گی۔ ڈاکٹر صاحب نے اہلیہ کو منع کیا کہ چُپ رہو اپنی مرضی سے لکھوایا ہے لکھنے دو۔ چند دن گزرے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کے کچھ عزیز ان سے ملنے آئے اور جاتے وقت انہوں نے بیٹی کو پندرہ ہزار لیون دئیے۔ بیٹی نے اسی وقت ڈاکٹر صاحب کو دس ہزار لیون دئیے اور کہا کہ یہ میرا چندہ ہے جو میں نے وعدہ کیا تھا۔
تو ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی اور احمدیوں کے بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے انتہا اخلاص دیا ہوا ہے اور وہ چندوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ کون ہے جو ان کے دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے؟ یقینا خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی دنیا کے اندھوں کو نظر نہیں آتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی جو روح ہے اس طرف پرانے احمدیوں کو، پرانے خاندانوں کو بھی توجہ دینی چاہئے اور بڑی فکر سے توجہ دینی چاہئے۔
پھر ہمارے کنشاسا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے احمدی ابراہیم صاحب ہیں۔ بھیڑ بکریوں کی خریدو فروخت کا کام کرتے ہیں۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے ان کے کاروبار کی حالت کافی خراب تھی اور کوئی منافع نہیں ہوتا تھا۔ قبول احمدیت کے بعد انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ ادا کرنا شروع کیا۔ چندے کی برکت سے ان کے کاروبار کی حالت بہتر ہو گئی۔ موصوف اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب اس مالی قربانی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے جماعت میں داخل ہونے کے بعد کی ہے۔
کانگو کنشاسا کے ہی مبلغ لکھتے ہیں کہ صوبہ باکونگو سے مبانزا گُنگُو (Mbanza Ngungu) جماعت کے رہائشی مصطفی صاحب ہیں۔ اس سال رمضان میں انہوں نے بیعت کی۔ اس دوران ان کی بہن جو کہ عیسائی تھی بہت بیمار رہنے لگی اور ایک بڑی رقم ان کے علاج کے لئے صَرف ہونے لگی۔ چنانچہ اسی ماہ جب انہوں نے مسجد میں مالی قربانی کی تحریک سنی تو چندہ ادا کیا اور اپنی بہن کی طرف سے بھی صحت کی دعا کرتے ہوئے چندہ ادا کر دیا۔ چنانچہ اس کے بعد ان کی بہن صحت یاب ہو گئیں۔ خود کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ مالی قربانی کی برکت ہے جو خدا کی راہ میں کی۔
پھر مالی کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہاں کے ایک احمدی محمد جارا صاحب جماعتی چندہ دینے سے پہلے بہت غریب تھے مگر جب سے انہوں نے جماعتی چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے ان کی غربت دُور ہونا شروع ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی میں اب بعض احباب بہت نمایاں مالی قربانی کرنے لگے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان داؤ سالف (Dao Salif) صاحب جو غریب مستری ہیں انہوں نے شروع میں ایک ہزار فرانک سیفا ہفتہ وار چندہ دینا شروع کیا اور ان کے کام میں اور اخلاص میں اتنی برکت ہوئی کہ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک لاکھ ترپّن ہزار فرانک چندہ دیا جو کہ دو سو دو پاؤنڈ کے برابر بنتا ہے۔ نومبائعین میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندے کا رجحان اب ترقی کر رہا ہے اور بڑے اخلاص سے وہ چندہ دیتے ہیں۔ اسی طرح جماعت کے ایک اور مخلص فوفانہ صاحب ہیں۔ ہر ماہ ایک لاکھ پچاس ہزار فرانک، تقریباً دو سو پاؤنڈ ادا کرتے ہیں۔ یہ ان غریب ممالک میں بڑی بڑی رقمیں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو لاکھ پچاس ہزار فرانک تقریباً تین سو تیس پاؤنڈ زکوۃ کی بھی ادائیگی کی۔ اور اللہ کے فضل سے ایمان اور ایقان میں ترقی کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے کشمیر کے انسپکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں صوبہ کشمیر میں جو سیلاب آیا تھا اس سے شہر سرینگر کے تقریباً تمام احمدی گھر متاثر ہوئے تھے۔ ستمبر میں سیلاب آیا۔ پانی اس قدر تھا کہ دو منزلہ مکان تک پانی میں ڈوب گئے تھے۔ کہتے ہیں جب میں دورے پر جماعت سرینگر پہنچا تو پریشان تھا کہ اب سرینگر جماعت کے چندوں کی سو فیصد وصولی نہیں ہو سکے گی کیونکہ لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پورے گھروں میں کیچڑ وغیرہ بھر گیا تھا۔ اور سارے مکان بُری حالت میں تھے۔ انسپکٹر صاحب کہتے ہیں جب کسی بھی گھر جاتا تو یہ کہنے کی ہمت نہیں پاتا تھا کہ چندوں کی وصولی کے لئے آیا ہوں۔ لیکن کہتے ہیں لوگ خود ہی مجھے دیکھ کر چندے کے بارے میں پوچھتے اور مَیں حیران رہ گیا کہ لوگ بڑی خوشی سے اپنے بقایا چندے ادا کر رہے ہیں اور ان کے چہروں پر اتنی تکلیف کے باوجود کوئی شکن تک نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سرینگر کا بجٹ مکمل ہو گیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی یاد آتی تھی جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا مگر قربانیوں میں سبقت لے جایا کرتے تھے۔ حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت کو دیکھ کر ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
بینن سے ہمارے معلم لکھتے ہیں۔ ایک نومبائع باقاعدگی سے اس نیت کے ساتھ چندہ ادا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی فیملی کو احمدی بنا دے۔ وہ احمدی ہو گئے۔ فیملی احمدی نہیں تھی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے چندے دینے کی برکت سے میری ساری فیملی احمدی ہو گئی ہے۔ اس خواب سے مجھے انہیں تبلیغ کرنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ پہلے تبلیغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن خواب کی وجہ سے پھر انہیں تبلیغ بھی کرنی شروع کر دی۔ کہتے ہیں چنانچہ مَیں نے انہیں تبلیغ کی اور اس مقصد کے لئے بھی خاص طور پر چندہ دینا شروع کر دیا اور آج میں یہ بتانے میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میری ساری فیملی احمدی ہو چکی ہے۔ یہ محض دین کی راہ میں مالی قربانی کی برکت سے ہوا۔
بینن سے گُوگُورُو (Gogoro) گاؤں کی ایک خاتون شابی لیماتا (Chabi Limita) صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ سال میری یہ حالت تھی کہ میں جو کام یا کاروبار شروع کرتی، خسارہ اٹھاتی اور کوئی بھی کام سرے نہ چڑھتا۔ ایک دن معلم صاحب نے مجھے دیانتداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے اور باقاعدگی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی تو میں نے سوچا کہ چلو یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ صحیح طرح ایمانداری سے جو آمد ہے اس پہ چندہ دوں تو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ کہتی ہیں جب سے میں نے باقاعدہ چندہ دینا شروع کیا ہے میرا کاروبار چلنے لگا ہے۔ گھر میں مالی فراخی ہے۔ میرے سارے کام درست ہونے لگے ہیں۔ خدا کا وعدہ سچا ہے کہ وہ خرچ کرنے والوں کو بہت دیتا ہے۔
پھر انڈیا سے ہی قمر الدین صاحب انسپکٹر کہتے ہیں کیرالہ کے صوبہ میں مالی سال کے شروع میں وقف جدید کا بجٹ بنانے کے سلسلے میں ایک جماعت میں پہنچا جہاں ایک چھبیس سالہ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ موصوف نے کہا کہ میں نے انٹیریئر (interior) ڈیزائننگ میں پڑھائی مکمل کی ہے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار شروع کرنے لگا ہوں۔ چندہ وقف جدید کی اہمیت کے بارے میں ان کو بتایا تو اسی وقت موصوف نوجوان نے دولاکھ روپیہ اپنا بجٹ لکھوایا اور کہا کہ اب کام شروع کیا ہے۔ خدا جانے وعدہ کہاں سے پورا ہو گا۔ پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بھی خط لکھا۔ انسپکٹر صاحب نے ان کو تحریک کی کہ دعا کے لئے مجھے لکھیں اور وہ خود بھی لکھیں گے۔ انسپکٹر صاحب کہتے ہیں چنانچہ جب دوبارہ وصولی کے سلسلے میں وہاں گیا توا نہوں نے خوشی سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً کئی بنکوں سے مجھے انٹیریئر (interior) ڈیزائننگ کا کام ملا اور جس سے آمدنی میں بہت برکت ملی ہے اور اسی وقت انہوں نے اپنا وعدہ جو دو لاکھ روپیہ تھا مکمل طور پر ادا کر دیا۔
پھر انڈیا سے ہی نائب ناظم مال وقف جدید لکھتے ہیں کہ صوبہ اتر پردیش کے مالی دورے کے دوران محمد فرید انور صاحب سیکرٹری مال کانپور سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنا وعدہ وقف جدید کی مکمل ادائیگی کر دی اور ساتھ ہی شام اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ شام کو گھر پہنچا تو موصوف نے بتایا کہ ان کی آٹھ سالہ بیٹی دو دن سے خاکسار کا انتظار کر رہی تھی۔ بچی کا نام سجیلہ ہے۔ چنانچہ سجیلہ خاموشی سے اندر کمرے میں گئی۔ اور تھوڑی دیر بعد جب باہر آئی تو ہاتھ میں اس کے غلّہ تھا اور خاکسار کو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پورے سال میں اس میں چندے دینے کے لئے رقم جمع کی ہے۔ آپ اس سے ساری رقم نکال لیں اور رسید دے دیں۔ اس میں سات سو پینتیس (735) روپے تھے۔ کہتے ہیں مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک آٹھ سال کی بچی ہے اور اللہ کے فضل سے وقف نو کی تحریک میں بھی شامل ہے۔ اپنا وعدہ وقف جدید خود لکھوا کر اس کی ادائیگی اپنے وعدے سے زیادہ کرتی ہے۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ روح جو بچوں میں پیدا ہو رہی ہے یہ کون کر سکتا ہے؟ صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہے جو بچوں کے دل میں ڈالتا ہے۔ لیکن والدین کا بھی کام ہے کہ گھر کے ماحول کو دینی رکھیں اور باقی نیکیوں کے ساتھ، عبادتوں کے ساتھ چندوں کی اہمیت کے بارے میں بھی وقتاً فوقتاً بچوں کے دلوں میں ڈالتے رہیں۔ ایسے بھی واقعات ہیں کہ بچے جب چندہ لے کر آئے اور انہیں کہا گیا کہ آپ کے والدنے آپ کی طرف سے چندہ دے دیا ہے تو کہنے لگے کہ جو والد صاحب نے دیا ہے اس کا ثواب تو والد صاحب کو ہو گا ہم تو اپنے جیب خرچ میں سے خود ادا کریں گے۔
فرانس کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک دوست کو جب چندہ وقف جدید کے بارے میں بتایا گیا تو کہتے ہیں کہ میرے پاس اس وقت جو بھی رقم تھی وہ ساری چندے میں دے دی۔ گھر والوں نے کہا کچھ تو رکھ لو۔ گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ وقف جدید کے چندہ کا میں نے وعدہ کیا ہوا ہے یہ تو میں نے دینا ہی دینا ہے۔ گھر کا اللہ تعالیٰ خود انتظام کرے گا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے ماہ حکومت کے صحت کے ادارے کی طرف سے انہیں خط موصول ہوا کہ آپ کی میڈیکل کی رپورٹ دیکھتے ہوئے ہم نے آپ کو دو سال کا خرچ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں تین ماہ کی ادائیگی بھی ساتھ ہی ارسال کر دی۔ جب اس رقم کو دیکھا تو یہ اس رقم سے سو گنا زیادہ تھی جو انہوں نے وقف جدید میں دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے مالی قربانی کا پھل ایک ماہ کے اندر عطا کر دیا۔
لجنہ یوکے (UK) کی جو سیکرٹری تحریک جدید ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ یہاں کی ایک حلقے کی سیکرٹری وقف جدیدنے انہیں کہا کہ ایک خاتون مالی لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ چندہ نہیں ادا کر سکتی تھیں تا ہم پھر بھی جتنا کم از کم ممکن ہو سکتا تھا انہوں نے وعدہ لکھوا دیا۔ تو وہ خاتون کہتی ہیں کہ وعدہ لکھوانے کے بعد انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس وعدے کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ یہ خاتون سلائی کرنا جانتی تھیں۔ چنانچہ چند ہی دنوں بعد انہیں سلائی کے آرڈر ملنے شروع ہوئے اور اس کے بعدنہ صرف وہ اپنا وعدہ ادا کرنے کے قابل ہو گئیں بلکہ اس سے کافی زیادہ آمد ہو گئی۔ لہٰذا انہوں نے اپنا وعدہ بھی بڑھا دیا۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ تحریک جدید میں بھی اور وقف جدید میں بھی یو۔ کے کی لجنہ نے ماشاء اللہ بہت محنت اور ہمت سے صرف ٹارگٹ نہیں پورے کئے بلکہ ٹارگٹ سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقم ادا کی ہے۔
امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ بینن کے نارتھ اور سینٹر میں بڑی تعداد میں فولانی قبیلہ آباد ہے۔ گزشتہ سالوں میں اس قبیلے میں بھی بیعتیں ہوئیں تھیں۔ اس قبیلے کے تین گاؤں اس علاقے کے مولویوں کی مخالفت اور شدید دباؤ کی وجہ سے بیعت کے کچھ عرصے بعد پیچھے ہٹ گئے تھے۔ بورکینا فاسو سے فولانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک معلم کو بینن بھیجا گیا تا کہ وہ اس علاقے میں رابطہ کر کے ان لوگوں کی غلط فہمیاں دور کریں۔ چنانچہ انہوں نے ایک ماہ اس علاقے میں کام کیا اور یہ تینوں گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ جماعت میں داخل ہوئے اور ان کے ایمان میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہ تینوں گاؤں ٹرانسپورٹ کے لئے بسوں پہ ایک بڑی رقم خرچ کرکے خود بینن کے جلسے میں شامل ہوئے اور جلسہ کے بعد واپس اپنے گاؤں پہنچے تو کچھ ہی دنوں بعد جماعت کے معلّم ان کے گاؤں گئے اور میری طرف سے ان کو یہ بتایا کہ میں نے کہا ہے کہ نومبائعین کو مالی قربانی میں شامل کریں، چاہے تھوڑا ہی دیں۔ اب یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور چندہ وقف جدید کی ادائیگی کا آخری مہینہ ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ انہوں نے جلسے کے لئے ٹرانسپورٹ کی بڑی رقم خرچ کی تھی اور مالی تنگی بھی تھی لیکن ایمان میں اس قدر جوش تھا کہ یہ بات سن کر فوراً انہوں نے، تینوں گاؤں کے تمام افرادنے وقف جدید کے چندے میں بھی شمولیت اختیار کی۔ اس طرح اس قبیلے میں اس دوران کم و بیش ایک ہزار نئی بیعتیں بھی حاصل ہوئیں۔ تو یہ مالی قربانیوں کے چند واقعات ہیں کہ کس طرح تڑپ سے یہ لوگ چندوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ بڑھا کر لوٹاتا بھی ہے۔ پس خدا تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے۔ ان واقعات کو دیکھ کر جہاں خدا تعالیٰ کے کلام کی سچائی ظاہر ہوتی ہے اور خود ہمیں بھی تجربہ ہوتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ساتھ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے بھی نظر آتے ہیں۔ مَیں پہلے بھی گزشتہ سالوں میں بتا چکا ہوں کہ وقف جدید کی تحریک بیرون از پاکستان ممالک میں خاص طور پر افریقہ و بھارت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے شروع کی تھی۔ پہلیپاکستان سے باہر خاص طور پر یورپ کے ممالک میں یا امیر ممالک جو ہیں ان میں اتنا زور نہیں دیا جاتا تھا تو ان ملکوں کی یہ رقم اب افریقہ میں خرچ ہوتی ہے۔
اس وقت تھوڑا سا آپ کو جائزہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ کے اٹھارہ ممالک میں 95مساجد زیر تعمیر ہیں اور بعض بڑی بڑی مساجد بھی بن رہی ہیں کیونکہ وہاں تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور تبلیغ کے نئے میدان بھی کھل رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو، تبلیغ کرنی ہو تو مسجد بنا دو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
افریقہ کے علاوہ بھی دنیا میں یہ کام ہو رہے ہیں۔ اس وقت افریقہ سمیت قریباً پچیس ممالک ہیں، سات ممالک دوسرے بھی ہیں، جہاں اس سال میں 204 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ اسی طرح 184 مشن ہاؤسز تعمیر ہوئے ہیں۔ یورپ اور مغربی ممالک کے چندہ وقف جدید کا تقریباً اسّی فیصد افریقن ممالک میں خرچ ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ افریقن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مالی قربانی دیتے ہیں لیکن ان کی ضروریات اور وہاں بیعتوں کی تعداد بڑھنے کے باوجودنومبائعین چونکہ غریب ہیں اس لئے پوری طرح اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔ ان کو بہر حال مدد کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ واقعات میں بھی بیان ہوا ہے کہ کس طرح وہ قربانیاں کر رہے ہیں لیکن یہاں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ مخالفین نئے بیعت کرنے والوں کو مختلف دباؤ ڈال کر دُور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں جو پھر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مَیں نے دو واقعات ایسے بھی بتائے ہیں لیکن بہت سے ایمان میں مضبوطی والے ایسے بھی ہیں جو کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔
بہر حال ان کو اس طرف توجہ دلانے کے لئے جماعتوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ بیعتیں کروانے کے بعد مسلسل رابطے رکھیں اور ہمیشہ رابطوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں۔ وہاں بار بار جائیں تا کہ تربیتی پہلو بھی سامنے آتے رہیں اور تربیت ہوتی رہے۔ اب افریقن ممالک میں بہت سارے ایسے علاقے ہیں جو بہت دُوردراز علاقے ہیں جہاں جنگلوں میں سے گزر کے جانا پڑتا ہے، وہاں رابطے بھی مضبوط نہیں رہتے یا بڑی دقّت کے ساتھ وہاں رابطے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بڑا لمبا عرصہ ان جماعتوں سے یا نئے احمدیوں سے تعلق نہیں رہتا۔ پھر مبلغین اور معلمین کی بھی کمی ہے کہ وہ بھی بار بار جائیں تو رابطے ہو سکیں۔ تکلیف اٹھا کے ہی چلے جائیں لیکن اس کمی کی وجہ سے وہاں جا بھی نہیں سکتے۔ اس لئے بہت سی بیعتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا ضائع بھی ہو جاتی ہیں۔ تو جماعتوں کو، خاص طور پر ان ملکوں کی جماعتوں کو اس بات کا انتظام کرنا چاہئے کہ کم از کم شروع میں ایک سال خاص طور پر بہت توجہ دیں۔ اس لئے میں نے خلافت کے پہلے سال میں ہی جماعتوں کو کہا تھا کہ بے شمار بیعتیں ضائع ہو رہی ہیں۔ جو پرانی ہوئی ہوئی بیعتیں ہیں ان کا کم از کم ستّر فیصد رابطے کر کے واپس لائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجے میں جماعتوں نے خاص طور پر افریقہ میں کوششیں بھی کیں اور پھر جب رابطے ہوئے تو ان لوگوں نے شکوے کئے کہ تم بیعت کروا کر ہمیں چھوڑ کے چلے گئے تھے۔ دل سے احمدی ہیں۔ بہت سارے ایسے تھے جو دل سے احمدی تھے لیکن آگے احمدیت کی تعلیم کا نہیں پتا تھا۔ تربیت کی کمی تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی تعداد میں نئے رابطے ہوئے اور وہ لوگ واپس آئے اور اب تربیت کے لئے فعّال نظام شروع ہے۔ اس میں مزید مضبوطی کی ضرورت ہے۔ رابطوں کی بحالی میں سب سے زیادہ کوشش گھانا نے کی ہے۔ پھر نائیجیریا کا دوسرا نمبر آتا ہے۔ اور اس طرح باقی افریقن ممالک ہیں۔ تنزانیہ میں بہت زیادہ کمی ہے ان کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے رابطے زیادہ فعّال کریں کیونکہ وہاں بھی کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں بڑی بیعتیں ہوئی تھیں۔ ان ساروں کو تلاش کریں۔ یورپ میں بیس سال پہلے یا اس سے زیادہ عرصہ پہلے جب بوسنیا کے حالات خراب ہوئے ہیں تو جرمنی میں بہت بوسنین لوگ آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں بوسنین تھے جنہوں نے بیعت کی تھی۔ لیکن جب وہ اپنے ملکوں میں واپس گئے۔ رابطے ختم ہوئے تو ان کا پتا نہیں لگا کہ وہ کہاں ہیں۔ اس لحاظ سے تو ان ملکوں میں بھی رابطوں کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں رابطے ہیں۔ مغربی بنگال میں کہتے ہیں بیعتیں ہوئی تھیں تو وہاں احمدی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر نومبائعین کو چندوں کے نظام میں لایا جائے تو پھر ہی مضبوط رابطہ بھی رہتا ہے اور ایمان میں مضبوطی کے ساتھ نظام جماعت سے بھی تعلق قائم ہوتا ہے۔ اسی لئے مَیں نے یہ کہا تھا کہ تحریک جدید اور وقف جدید میں نئے آنے والوں کو بھی شامل کریں۔ پرانوں کو بھی ان کا احساس دلائیں۔ بعض جماعتیں تو اس سلسلے میں بہت فعّال ہیں اور کام کر رہی ہیں لیکن بہت جگہ سُستی بھی ہے۔ مَیں نے تو یہ کہا تھا کہ چاہے کوئی سال میں قربانی کا دس پینس (pence) دیتا ہے تو وہ بھی اس سے لے لیں۔ کم از کم اس کا ایک تعلق تو قائم ہو گا۔ ہر ایک کو پتا ہونا چاہئے کہ ہم نے مالی قربانی کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ تو ہوتا ہے لیکن جتنا ہونا چاہئے اتنا نہیں ہے۔ مثلاً اس سال وقف جدید میں پچاسی ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور الحمد للہ یہ جماعت کی ترقی کا معیار ہے کہ مالی قربانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اگر کوشش کرتے اور اس سال کے بیعت کرنے والوں میں سے بیس فیصد بڑوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کرتے تو بیعتوں کے لحاظ سے ہی ایک لاکھ دس ہزار سے اوپر اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ پس ترقی بیشک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہی ہے لیکن اس میں مزید گنجائش ہے۔ آئندہ سال نئے سرے سے جماعتوں کو افراد کو شامل کرنے کا ٹارگٹ وکالت مال کے ذریعہ سے ملے گا اس طرف بھرپور توجہ دیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخراجات کی فکر نہیں کہ وہ کس طرح پورے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ وہ انشاء اللہ پورے کرے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ ہمیں اپنے اندر قربانیوں کی روح پیدا کرنے والے زیادہ سے زیادہ چاہئیں اور اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے عہدیداران دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں اور دوسرے عام احمدی بھی رابطوں کی مہم جاری رکھیں۔ جو نیک فطرت ہیں اور جن کو خدا تعالیٰ بچانا چاہتا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ واپس آئیں گے اور کمزور اگر دُور ہٹ گئے ہیں تو ہمیں ان سے ہمدردی ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعام کو حاصل کر کے پھر گنوا بیٹھے لیکن اپنی تعداد کی کمی کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تعداد سے زیادہ اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھے ہوئے مخلصین کے بارے میں زور دیا کہ وہ جماعت میں پیدا ہونے چاہئیں۔ پس نومبائعین اور پرانے احمدیوں کے بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو مالی قربانیوں میں اضافے کے معیار بڑھنے کی وجہ سے ان کے اخلاص کا پتا دیتے ہیں۔ اس سے ان کے اخلاص کے معیاروں کا پتا لگتا ہے۔ لیکن جماعتی نظام کو بھی ضائع ہونے والوں کا پتا لگانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ ہندوستان میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا بنگال کے علاقے میں بیعتیں ہوئی تھیں۔ جائزہ لینے کے لئے پروگرام بنانے چاہئیں تا کہ رابطوں کے ٹوٹنے یا پیچھے ہٹنے والوں کی وجوہات کا پتا چلے اور آئندہ کے لئے ان کمیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پھر تبلیغ اور تربیت کی جامع منصوبہ بندی ہو۔ اسی طرح باقی دنیا میں بھی اس نہج پر کام کرنا چاہئے کہ جو جماعت میں شامل ہوتا ہے اس سے ہم کس طرح مسلسل رابطہ رکھیں چاہے وہ کتنا ہی دور دراز علاقے میں رہتا ہو۔ رابطہ انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنے کی جماعتوں کو توفیق عطا فرمائے۔
اب مَیں جیسا کہ طریق ہے جنوری کے پہلے یا دوسرے جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے، اس کا اعلان کرتا ہوں اور گزشتہ سال کے کچھ کوائف بھی سامنے رکھتا ہوں۔ وقف جدید کا ستاونواں (57) سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے 31؍ دسمبر کو ختم ہوا اور اٹھاونواں (58) سال یکم جنوری سے شروع ہو گیا۔ جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کو اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں باسٹھ لاکھ نو ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی جو گزشتہ سال سے سات لاکھ اکتیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمد للہ۔
پاکستان سرفہرست ہی ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ اوپر آیا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ۔ پھر امریکہ۔ پھر جرمنی۔ پھر کینیڈا۔ پھر ہندوستان۔ پھر آسٹریلیا۔ آسٹریلیا میں بھی ماشاء اللہ تعداد بڑھانے کے لحاظ سے بھی اور وصولی کے لحاظ سے بھی بہت کام ہوا ہے۔ آسٹریلیا کے بعد انڈونیشیا ہے۔ پھر دبئی، بیلجیئم اور پھر ایک عرب ملک ہے۔
کرنسی کے حساب سے جو اضافہ کیا ہے، وہ جیسا کہ مَیں نے کہا آسٹریلیا نے نمایاں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک سو تیئس فیصد اضافہ کیا ہے۔ کینیڈا نے اکیس فیصد۔ اس کے بعد انڈیا کا سولہ فیصد یا تقریباً سترہ فیصد۔
فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ نمبر ایک پر ہے۔ ستّر پاؤنڈ فی کس انہوں نے ادائیگی کی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی انسٹھ پاؤنڈ ہے۔ آسٹریلیا چھپن۔ یوکے (UK) کی اکاون پاؤنڈ۔ پھر بیلجیئم۔ پھر فرانس۔ پھر کینیڈا۔ پھر جرمنی۔ ان بڑی جماعتوں میں سے جرمنی کی سب سے آخر میں ہے۔
شاملین کی تعداد: وقف جدید کے شاملین کی تعداد گیارہ لاکھ انتیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور تعداد میں اضافے کے اعتبار سے مالی، بینن، نائیجر، بورکینا فاسو، گیمبیا اور کیمرون کی جماعتیں قابل ذکر ہیں۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے افریقہ میں غانا سب سے اوّل ہے۔ پھر نائیجیریا۔ پھر ماریشس ہے۔
بالغان میں پاکستان کی پہلی تین جماعتوں میں اوّل لاہور ہے۔ دوم ربوہ۔ سوم کراچی۔ وہاں بالغان اور اطفال کا علیحدہ علیحدہ (دفتر) ہوتا ہے۔ اور اضلاع کی پوزیشن اس طرح ہے۔ راولپنڈی نمبر ایک پر۔ پھر فیصل آباد۔ سرگودھا، گوجرانوالہ، گجرات، عمر کوٹ، ملتان، حیدر آباد، بہاولپور، پشاور ہیں۔ اطفال کی تین بڑی جماعتیں جو ہیں وہ (اوّل) لاہور، دوم کراچی اور سوم ربوہ۔ اور اطفال کے لحاظ سے اضلاع کی پوزیشن ہے سیالکوٹ، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، نارووال، گجرات، عمر کوٹ، حیدرآباد، ڈیرہ غازی خان۔
مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں برمنگھم ویسٹ، رینز پارک، مسجد فضل، جلنگھم، ووسٹر پارک، برمنگھم سینٹرل، ومبلڈن پارک، نیو مولڈن، ہونسلونارتھ اور چیم ہیں۔ ریجن جو ہیں ان کی پوزیشن یہ ہے۔ لندن ریجن نمبر ایک ہے۔ پھر مڈ لینڈز۔ پھر مڈل سیکس۔ اسلام آباد۔ نارتھ ایسٹ اور ساؤتھ ریجن۔
چھوٹی جماعتیں پانچ یہ ہیں۔ سپن ویلی، لیمنگٹن سپا، براملے اینڈ لیوشم، سکنتھورپ اور ولور ہیمپٹن۔
وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی دس جماعتیں ہیں۔ سلیکون ویلی نمبر ایک۔ پھر ڈیٹرائٹ۔ پھر سیئٹل۔ پھر یارک ہیرس برگ۔ پھر لاس اینجلس ایسٹ۔ پھر بوسٹن۔ پھر سنٹرل ورجینیا۔ پھر ڈیلس۔ پھر ہیوسٹن اور فلاڈلفیا۔
جرمنی کی پانچ لوکل امارات یہ ہیں۔ نمبر ایک پر ہیمبرگ۔ پھر فرینکفرٹ۔ پھر گروس گراؤ۔ پھر ڈامسٹڈ۔ پھر ویز بادن۔
اور وصولی کے لحاظ سے جو دس جماعتیں ہیں وہ روڈر مارک، نوئس، نِڈا، فلورز ہائم، کولون، فریڈ برگ، کوبلنز، مہدی آباد، فلڈا، ھنوور ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی بڑی جماعتیں یہ ہیں۔ ایڈمنٹن، ڈرھم، ملٹن جارج ٹاؤن، سسکاٹون ساؤتھ، سسکاٹون نارتھ۔
وصولی کے لحاظ سے بھارت کے جو صوبہ جات ہیں اس میں پہلی دس جماعتیں یہ ہیں۔ کیرالہ نمبر ایک پر ہے، جموں و کشمیر، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، ویسٹ بنگال، اڑیسہ، کرناٹکا، قادیان پنجاب، اترپردیش، مہاراشٹرا، بِہار، لکشدیپ اور راجھستان۔
وصولی کے لحاظ سے بھارت کی جماعتیں کیرولائی، کالی کٹ، حیدر آباد، کلکتہ، قادیان، کانُورٹاؤن، سُولُور، پینگاڈی، چنائی، بنگلور ہیں۔ آخر میں تین جماعتیں ہیں کرونہ گاپلی، پاتھاپریام اور کیرانگ۔
آسٹریلیا کی دس جماعتیں یہ ہیں۔ نمبر ایک پر بلیک ٹاؤن، ملبرن، ماؤنٹ ڈرائٹ، ایڈیلیڈ، مارسیڈن پارک، برسبن، کیمبرا، پرتھ، تسمانیہ، ڈارون۔
اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔
آخر میں اس دعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں۔ ربوہ میں بھی چند روز سے مخالفین اور معاندین کی طرف سے حالات خراب کرنے کی کافی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہراحمدی کو بچائے اور ان کے شر انہی پر الٹائے اور ربوہ میں امن و امان کی صورتحال قائم رہے۔ انتظامیہ اور حکومت کو بھی اللہ تعالیٰ عقل دے کہ وہ صحیح طرح اس معاملے کو سنبھال سکیں۔ اسی طرح مسلمان دنیا اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں۔ فرانس میں جو ایک ظالمانہ واقعہ ہوا ہے اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قانون ہاتھ میں لے کر کسی کو اس طرح مارنا، قتل کرنا جس کا اسلام کی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم سے اس کا واسطہ نہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ تعلیم سے واسطہ نہیں۔ لیکن پھر بھی نام نہاد مسلمان اور یہ مسلمان تنظیمیں اپنی حرکتوں سے اور ان ظلموں سے باز نہیں آتے۔ اس کے نتیجہ میں یہاں مسلمانوں کو بھی جو یورپین ملکوں میں رہتے ہیں یا مغرب میں رہتے ہیں ان ملکوں کے مقامی لوگوں کے غلط ردّ عمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ اس ردّ عمل میں یہ اخبار جس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے، جس کے ایڈیٹر کو اور لوگوں کو ظلم کر کے مارا ہے یہ اخبار بھی اور یہاں کے لوگ بھی اور یہاں کا پریس بھی غلط ردّعمل دکھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غلط حملے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں کی حکومتوں کو بھی توفیق دے کہ اس غلط ردّ عمل کو روکنے کی کوشش کریں۔ جو مجرم ہیں انہیں پکڑیں اور قانون کے مطابق سزا دیں۔ لیکن اگر غلط ردّ عمل ہوئے تو مسلمان جن کو سمجھانے والا کوئی نہیں وہ بھی پھر ردّ عمل دکھلائیں گے اور یوں فتنہ و فساد کا سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کے زیادہ ہونے کا خطرہ ہے۔
آج جماعت احمدیہ کے افراد کا ہی یہ کام ہے کہ دونوں طرفوں کو ظلموں سے بچانے کے لئے دعا کریں۔ اسی طرح درود شریف ان دنوں میں کثرت سے پڑھنے کی طرف توجہ دیں اور جو اپنے دائرے میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے عملی کوشش کر سکتے ہیں ان کو کوشش بھی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو فساد کی صورت سے نجات دے اور فساد کی یہ جو صورت ہے وہ جلد امن میں بدل جائے۔
آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس کی خاطر نیک مقاصد کی ترقی کے لئے خرچ کرتی ہے اور خرچ کرنے کی خواہشمند ہے۔ اسلام کی تبلیغ ہے۔ مبلغین کی تیاری اور ان کو میدان عمل میں بھیجنا ہے۔ لٹریچر کی اشاعت ہے۔ قرآن کریم کی اشاعت ہے۔ مساجد کی تعمیر ہے۔ مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے۔ سکولوں کا قیام ہے۔ ریڈیو اسٹیشنوں کا مختلف ممالک میں اجراء ہے جہاں سے دین کی تعلیم پھیلائی جاتی ہے۔ ہسپتالوں کا قیام ہے۔ دوسرے انسانی خدمت کے کام ہیں۔ غرض کہ اسی طرح کے مختلف النوع کام ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں جو آج دنیا کے نقشے پر حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق صرف جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔ یہ اس لئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر ان کاموں کی روح کو سمجھا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے نفس کی کنجوسی سے بچتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہونے کا اِدراک حاصل کیا ہے جن کا شمار مُفْلِحُوْن میں ہے۔
وقف جدید کے58 ویں سال کے آغاز کا اعلان۔
گزشتہ سال جماعت کو وقف جدید میں 62لاکھ 9ہزار پونڈز کی قربانی کی توفیق ملی۔
دنیا کے مختلف ممالک کے مالی قربانی کے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ۔
وقف جدید میں مالی قربانی پیش کرنے میں پاکستان اوّل رہا ہے، برطانیہ دوم اور امریکہ تیسرے نمبر پر ہے۔
مختلف ممالک اور بعض بڑی جماعتوں کی وقف جدید کی مالی قربانی کا جائزہ۔
پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں۔ ربوہ میں بھی چند روز سے مخالفین اور معاندین کی طرف سے حالات خراب کرنے کی کافی کوشش کی جا رہی ہے۔
مسلمان دنیا اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں۔ فرانس میں حال ہی میں ہونے والے دہشتگردی کے ظالمانہ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمّت اور ممکنہ ردّ عمل کے خطرات کے پیش نظر اہم نصائح۔
ان دنوں میں کثرت سے درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ دیں اور جو اپنے دائرے میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے عملی کوشش بھی کر سکتے ہیں ان کو بھی کوشش کرنی چاہئے۔
فرمودہ مورخہ 09؍جنوری 2015ء بمطابق 09صلح 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔