حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ: آنحضرتؐ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی غیرت ایمانی
خطبہ جمعہ 23؍ جنوری 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ واقعات پیش کروں گا جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام اور آپؑ کا اس بارے میں معیار کیا تھا اور ردّ عمل کس طرح ہوتا تھا اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ لیکھرام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لاہور یا امرتسر کے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں آیا اور اس نے آپ کو آ کر سلام کیا۔ چونکہ پنڈت لیکھرام آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اس لئے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ بہت خوش ہوئے کہ لیکھرام آپ کو سلام کرنے آیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی۔ اور جب یہ سمجھ کر کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں کہ پنڈت لیکھرام صاحب سلام کر رہے ہیں آپ کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے آ کر سلام کرتا ہے۔ گویا آپ نے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ لیکھرام آیا ہے۔ لیکن عام لوگوں کے نزدیک یہی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ کسی بڑے رئیس یا لیڈر سے ان کو ملنے کا اتفاق ہوجائے۔ چنانچہ جب کوئی ایسا شخص ان کے پاس آتا ہے وہ بڑی توجہ سے اس سے ملتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب آ جائے تو پرواہ بھی نہیں کرتے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد8 صفحہ161)
اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ نے اس طرح بھی فرمایا کہ آریوں میں لیکھرام کی جو عزت تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے کہ پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں کہ میرے آقا کو گالیاں دینا چھوڑ دے تب ملوں گا۔‘‘ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114)
یہاں اس واقعہ میں جہاں غیرت رسول کا پتا چلتا ہے وہاں یہ بھی سبق ہے کہ صرف بڑے لوگوں کو اس وجہ سے سلام کر دینا کہ وہ بڑے ہیں اور ہماری عزت قائم ہو گی کافی نہیں بلکہ غریب کی عزت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور اصل چیز غیرت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑا آدمی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو چاہے وہ کتنا بڑا ہو اس کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہرحال اس کے مختلف زاویے ہیں۔ پھر اسی طرح ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مرزا صاحب کا سلوک اپنی اولاد سے ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ قطعاً خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کبھی ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں ’’ہم چھوٹے ہوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ حضرت صاحب کبھی غصّے ہوتے ہی نہیں۔‘‘ اولاد سے محبت کا معیار اس قدر بلند تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ سے ہی بیان کیا کہ ’’حضرت مرزا صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ میری پسلی میں درد ہے جہاں ٹکور کی گئی لیکن آرام نہ ہوا۔ آخر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی جیب میں اینٹ کا ایک روڑا پڑا تھا جس کی وجہ سے پسلی میں درد ہو گیا۔ پوچھا گیا کہ حضور! یہ کس طرح آپ کی جیب میں پڑ گیا۔ فرمایا محمودنے مجھے یہ اینٹ کا ٹکڑا دیا تھا کہ سنبھال کر رکھنا۔ مَیں نے جیب میں ڈال لیا کہ جب مانگے گا نکال دوں گا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ مجھے دے دیں مَیں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ فرمایا نہیں، مَیں اپنے پاس ہی رکھوں گا۔ تو آپ کو اولاد سے ایسی محبت تھی‘‘۔ اور حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’ہم سب سے بہت پیار اور محبت کرتے تھے اور خاص طور پر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی مرزا مبارک احمد جو تھے ان سے بہت محبت تھی۔ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس سے زیادہ آپ کسی سے محبت نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر غالب نہیں آئی۔ جب اس لاڈلے بچے نے ایک دفعہ بچپن کی ناسمجھی کی وجہ سے منہ سے کوئی ایسی بات نکال دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف تھی تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے زور سے اسے جسم پہ مارا۔‘‘ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114-115)
پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں شامل ہونے کی دعوت حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو بھی دی گئی اور بانیان جلسہ نے اقرار کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بُرا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن جلسے میں سخت گالیاں دی گئیں۔ ہماری جماعت کے بھی کچھ لوگ وہاں گئے تھے جن میں مولوی نور الدین صاحب بھی تھے جن کی حضرت مرزا صاحب خاص عزت کیا کرتے تھے۔ جب آپؑ نے سنا کہ جلسے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں ہیں تو مولوی صاحب کو کہا کہ وہاں بیٹھا رہنا آپ کی غیرت نے کس طرح گوارا کیا؟ کیوں نہ آپ اٹھ کر چلے آئے؟ اس وقت آپ علیہ السلام ایسے جوش میں تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ مولوی صاحب سے بالکل ناراض ہو جائیں گے۔ مولوی صاحب نے کہا حضور! غلطی ہو گئی۔ آپ نے فرمایا یہ کیا غلطی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں اور آپ وہاں بیٹھے رہیں۔ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114-115)
پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ساتھ میں بھی گیا ہوا تھا اور مجھے بھی بڑی سختی سے ڈانٹا کہ تم وہاں بیٹھے کیوں رہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد16 صفحہ298)
پس آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ لوگ جو الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ کیا یہ لوگ ان جذبات کا، اس اظہار کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کاش یہ الزام لگانے والے آپ کے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔ پھر جو عبداللہ آتھم سے ایک مباحثہ ہوا تھا اس کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کہتے ہیں ’’کتاب جنگ مقدس جس میں آتھم کا مباحثہ چھپا ہے یہ حضرت مسیح موعودؑ کا مباحثہ اس وقت ہوا جبکہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور مولوی آپ کے کافر ہونے کا اعلان کر چکے تھے اور فتویٰ دے چکے تھے کہ آپ واجب القتل ہیں۔ وہ امن جو (اس زمانے میں جب آپ 1923ء میں یہ بات فرما رہے تھے) اَب جماعت کو حاصل ہے اس وقت ایسا بھی نہ تھا بلکہ اب جیسے ان مقامات پر جہاں تھوڑے احمدی ہیں اور ان کا جو حال ہے ایسا ساری جماعت کا حال تھا اور ہر جگہ یہی حالت تھی۔ ایسے موقع پر جنڈیالہ کے ایک غیر احمدی کا عیسائی سے مقابلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ مقابلہ غیر احمدیوں کا تھا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعوت دی تھی کہ آپ ہماری طرف سے یہ مباحثہ کریں، مقابلہ کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک غیر احمدی کا عیسائی سے مقابلہ ہوتا ہے اس نے حضرت صاحب سے درخواست کی تھی کہ آپ مقابلہ کریں۔ اس پر آپ جھٹ کھڑے ہو گئے۔ آپ نے اس وقت یہ نہ کہا کہ عیسائی ہمارے ایسے دشمن نہیں ہیں جیسے غیر احمدی ہیں کیونکہ عیسائیوں نے تو قتل کا فتویٰ نہیں دیا ہوا تھا لیکن ان غیر احمدیوں نے، مولویوں نے قتل کا فتویٰ دیا ہواتھا۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے کے لئے، اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے مطالبہ ہوتا ہے، خواہ وہ غیراحمدیوں کی طرف سے ہی ہو تو پھر آپ مباحثے کے لئے چلے گئے اور قادیان سے باہر گئے۔ (الفضل22 مارچ 1923ء صفحہ5 جلد10 نمبر73) یہ آپ کی غیرت ایمانی تھی جس کے لئے آپ نے کچھ بھی پرواہ نہ کی۔
بہرحال یہ ایک لمبا مباحثہ تھا اور 15دن کے لئے چلا۔ اس کے آخر میں آپ نے دعا کی اور ایک معیار مقرر کیا اور پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تُو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی۔‘‘ (جنگ مقدس روحانی خزائن جلد6 صفحہ291-292)
سچے خدا کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ماننے والے تھے۔ عیسائیوں نے تو یسوع کو خدا بنایا ہوا تھا اور اس پر بحث کر رہے تھے۔ بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے جیسا کہ میں نے کہا اس کا انجام بھی دنیا نے دیکھا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دو واقعات بیان کئے ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ یہ ذکر کرتے ہوئے آپ نے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کا ذکر کیا ہے کہ’’ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذاری پیشگوئی فرمائی تھی (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ مَیں پڑھ چکا ہوں) جب اس کی میعاد گزر گئی اور آتھم نہ مرا۔ (پندرہ ماہ کی میعاد تھی۔ ) تو ظاہر بین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابھی تک زندہ ہے۔ اس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے۔ باتوں باتوں میں نواب صاحب کے منہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس پر خواجہ غلام فرید صاحب جوش میں آ گئے اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے آتھم زندہ ہے۔ مجھے تو اس کی لاش نظر آ رہی ہے۔ اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے۔‘‘ یہ واقعہ بیان کر کے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً مردہ ہوتے ہیں اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً زندہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ خدا کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ درحقیقت زندہ ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ زندہ ہوتے ہیں ان میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مردہ دکھائی دیتے ہیں۔ (جو زندہ لوگ ہیں وہ روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مردہ دکھائی دیتے ہیں۔ ) کسی بزرگ کے متعلق یہ لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آ گئے ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے تو شہر میں سب مردے ہی مردے نظر آتے ہیں اور یہاں مجھے زندہ لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ پس روحانی مُردوں اور روحانی زندوں کو پہچاننا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد2 صفحہ292)
اس کو پہچاننے کی حقیقی مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن روحانی نظر ہو تو پھر ہی زندوں کا اور مُردوں کا فرق نظر آتا ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
عبداللہ آتھم کے بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی موت بھی اس کو آ گئی تھی اور پیشگوئی کے مطابق ہوئی تھی۔ ہاں تھوڑا سا اس میں وقفہ پڑا تھا اور اس کی بھی وجوہات تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بیان فرمائی ہیں۔ پھر اسی آتھم کی پیشگوئی کے بارے میں ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’مومن کا کام اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنا ہوتا ہے۔ کام تو خدا تعالیٰ کرتا ہے لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم وہی کچھ کریں، ہم وہی کچھ سوچیں اور ہم وہی کچھ کہیں جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے۔ (ہم وہ کریں، وہ سوچیں اور وہ کہیں جو خدا تعالیٰ کہتا ہے۔ ) حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور پیشگوئی کی میعاد گزر گئی۔ مَیں اس وقت چھ سات سال کی عمر کا تھا۔ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جس جگہ قادیان میں بُک ڈپو ہوا کرتا تھا اور اس کے ساتھ والے کمرے میں موٹر کھڑی ہوتی تھی۔ اس کے مغرب والے کمرے میں خلیفۃ المسیح الاوّلؓ پہلے درس دیا کرتے تھے یا مطبّ کیا کرتے تھے۔ آخری ایام میں مولوی قطب الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں مطبّ کرتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ پھر ایک کوٹھڑی تھی (جگہ بھی بتا رہے ہیں) اس میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس وقت وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پریس ہوتا تھا اور اس کمرے میں جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ مطبّ فرمایا کرتے تھے فرمہ بندی ہوتی تھی اور پھر وہاں سے کوٹھڑی میں کتابیں رکھ دی جاتی تھیں۔ بہرحال حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بعض شاگرد بھی وہاں رہا کرتے تھے۔ ان دنوں میں بہت کم لوگ ہوا کرتے تھے۔ اس لئے عام طور پر جو لوگ وہاں آتے تھے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے شاگرد بن جاتے تھے۔ یہی مدرسہ تھا اور حضرت خلیفہ اول ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اور کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ وہ لوگ آپ کے شاگرد بھی ہوتے تھے اور سلسلے کے خادم بھی ہوتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ مَیں چھوٹا سا تھا کہ جب آتھم کی پیشگوئی کا وقت پورا ہوا۔ غالباً یہ چورانوے کے آخر یا پچانوے کے شروع کی بات ہے۔ میں اس وقت ساڑھے پانچ یا چھ سال کا تھا ابھی تک وہ نظارہ مجھے یاد ہے۔ اس وقت تو میں اسے نہیں سمجھتا تھا کیونکہ میری عمر بہت چھوٹی تھی لیکن اب واقعات سے مَیں سمجھتا ہوں کہ جس دن آتھم کی پیشگوئی پوری ہونے کا آخری دن تھا یعنی پندرہ مہینے ختم ہونے تھے اس دن اتنا قہر مچا ہوا تھا کہ لوگ رو رو کر چیخیں مار رہے تھے اور دعا کرتے تھے کہ خدایا آتھم مر جائے۔ یہ عصر کے بعد اور مغرب سے پہلے کی بات ہے۔ پھر نماز کا وقت ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد آپ مجلس میں بیٹھ گئے۔ گو اس عمر میں مَیں باقاعدہ مجلس میں حاضر نہیں ہوتا تھا لیکن کبھی کبھی مجلس میں بیٹھ جاتا تھا۔ اس دن مَیں بھی مجلس میں بیٹھ گیا۔ اس دن جو لوگ رو رو کر دعائیں کر رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان کے اس فعل پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کیا خدا تعالیٰ سے بھی بڑھ کر کسی انسان کو اس کے کلام کے لئے غیرت ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے جب یہ بات کہی ہے کہ ایسا ہو گا تو پھر ہمیں ایمان رکھنا چاہئے کہ ایسا ضرور ہو گا اور اگر ہم نے خدا تعالیٰ کی بات کو غلط سمجھا ہے تو خدا تعالیٰ اس بات کا پابندنہیں ہو سکتا کہ وہ ہماری غلطی کے مطابق فیصلہ کرے۔ (اگر ہم نے بات کو غلط سمجھ لیا تو خدا تعالیٰ اس بات کا پابندنہیں کہ فیصلہ اسی طرح کرے جس طرح ہم نے سمجھا ہے۔) ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ جب ہم نے ایک شخص کو راستباز مان لیا ہے تو اس کی باتوں پر یقین رکھیں۔ غرض مومن کا کام یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل کرے۔ خداتعالیٰ کی بات بہرحال پوری ہو کر رہتی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد30 صفحہ109-110)
اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ پیشگوئی پوری ہوئی تھی۔ بڑی شان سے پوری ہوئی۔ ہاں وقتی طور پر عبداللہ آتھم کی توبہ کی وجہ سے یہ ٹل گئی لیکن آخر وہ اس پکڑ میں آ گیا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ ایک دو جگہ کا ذکر مَیں کر دیتا ہوں۔ آپ نے آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کو یہ مسائل مستحضر ہونے چاہئیں۔ (ہمیشہ یادر کھنے چاہئیں) آتھم کے رجوع کے متعلق یاد رہے کہ پیشگوئی سنتے ہی اس نے اپنی زبان نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھا اور کانپا اور زرد ہو گیا۔ ایک جماعت کثیر کے سامنے (اور بڑی جماعت کے سامنے) اس کا یہ رجوع دیکھا گیا۔ پھر اس پر خوف غالب ہوا اور وہ شہر بشہر بھاگتا پھرا۔ اس نے اپنی مخالفت کو چھوڑ دیا اور کبھی اسلام کے مخالف کوئی تحریر شائع نہ کی۔ جب انعامی اشتہار دے کر قسم کے لئے بلایا گیا تو وہ قسم کھانے کو نہ آیا۔ اخفائے شہادت حقّہ کی پاداش میں اس پیشگوئی کے موافق جو اس کے حق میں کی گئی تھی وہ ہلاک ہو گیا۔ (آخر گواہی کو چھپانے کے نتیجہ میں گو دیر سے ہلاک ہوا لیکن ہلاک ہو گیا۔ ) یہ باتیں اگر عیسائی منصف مزاج کے سامنے پیش کی جاویں تو اس کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ غرض اس طرح پر مسائل کو یاد رکھنا ایک فرض ہے اور کتابوں کو دیکھنا ایک ضروری (امر) ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ442۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں تو پھر ہی پتا لگتا ہے۔
پھر ایک جگہ آپ نے اس طرح فرمایا کہ ’’یہ پیشگوئی مشروط تھی۔ وہ سراسیمہ رہا۔ شہر بشہر پھرتا رہا۔ اگر اس کو خداوند مسیح پر پورا یقین اور بھروسہ ہوتا پھر اس قدر گھبراہٹ کے کیا معنی؟ لیکن ساتھ ہی جب اس نے اخفائِ حق کیا اور ایک دنیا کو گمراہ کرنا چاہا کیونکہ اخفائِ حق بعض ناواقفوں کی راہ میں ٹھوکر کا پتھر ہو سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے صادق وعدہ کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر اس کو دنیا سے اٹھا لیااور جس موت سے وہ ڈرتا اور بھاگتا پھرتا تھا اس نے اس کو آ لیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آتھم کے معاملہ میں لوگوں کو کیا مشکل پیش آ سکتی ہے۔ اس قدر قوی قرائن موجود ہیں اور پھر انکار!!!۔ قرائن قویہ سے تو عدالتیں مجرموں کو پھانسی دے دیتی ہیں۔ غرض یہ آتھم کا ایک بڑا نشان تھا اور براہین احمدیہ میں اس فتنہ کی طرف صاف صاف اور واضح لفظوں میں الہام درج ہو چکا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ109۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک جگہ ایک موقع پر اس کا ذکر کرتے ہوئے پیشگوئی کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’وہاں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یہ تو نہیں لکھا کہ بشرطیکہ مسلمان ہو جاوے۔ اس سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) دجّال لکھ چکا تھا اور یہی وجہ مباحثے کی تھی۔ پھر جب میں نے پیشگوئی سنائی تو اس نے اسی وقت کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ توبہ توبہ۔ مَیں تو دجّال نہیں کہتا۔ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ صرف عیسائی ہونا یا بُت پرست ہونا اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ دنیا میں عذاب آوے۔‘‘ (عیسائی ہونا یا بُت پرست ہونا اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ دنیا میں عذاب آوے۔ ) ’’ایسے عذابوں کے لئے تو قیامت کا دن مقرر ہے۔ عذاب ہمیشہ شوخیوں پر آتا ہے۔ اگر ابوجہل وغیرہ شرارتیں نہ کرتے تو عذاب نازل نہ ہوتا۔ نرا باطل مذہب پر پابند ہونے پر نہ کوئی عذاب آتا ہے نہ کوئی پیشگوئی (کی جاتی ہے)۔ ہمیشہ زیادہ شوخیوں پر پیشگوئیاں ہوتی ہیں‘‘ …۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کیسے ہی بُت پرست یا انسان پرست کیوں نہ ہو مگر جب تک شرارت نہ کرے عذاب نہیں آتا۔ اگر ان باتوں پر بھی عذاب دنیا ہی میں آ جائے توپھر قیامت کو کیا ہو گا؟‘‘ پھر آپ نے فرمایا۔ ’’کافروں کے لئے اصل زندان (قید خانہ) تو قیامت ہی ہے۔‘‘ (جہاں فیصلے ہونے ہیں وہ تو قیامت ہی ہے۔ ) ’’اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر دنیا میں کیوں عذاب آتا ہے؟‘‘ (اس کا مختصر جواب آپ نے دیا۔ ) ’’تو جواب یہی ہے کہ شوخیوں کی وجہ سے آتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد4 صفحہ158)۔ دنیا میں جو عذاب آتے ہیں وہ شوخیوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ جب بحث ہو رہی تھی تو اس بحث کے دوران عیسائی مشنریوں نے ایک چال چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے خیال میں نیچا دکھانے کی کوشش کی اور خیال کیا کہ ایک ایسا طریقہ آزمایا جائے جس سے آپ کی لوگوں کے سامنے سُبکی ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا شر ان پر الٹا دیا اور وہ گھبراہٹ ان پر طاری ہوئی کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ان کی ایسی گھبراہٹ دیکھنے والی تھی۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے حوالے سے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے (مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں تو ابھی بچہ تھا اس وقت چھوٹا تھا۔) کہ آتھم کے مباحثے میں مَیں نے جو نظارہ دیکھا اس سے پہلے تو ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں اور پھر ہمارے دماغ آسمانوں پر پہنچ گئے۔ فرماتے تھے کہ جب عیسائی تنگ آ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی داؤ نہیں چلا تو چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انہوں نے ہنسی کرنے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے، کچھ بہرے اور کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بلا لئے اور انہیں مباحثے سے پہلے ایک طرف بٹھا دیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو جھٹ انہوں نے اندھوں، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے۔ (بہت بحث ہو چکی اب تو۔ ) آپ کہتے ہیں کہ مَیں مسیح ناصری کا مثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے، بہروں کو کان بخشا کرتے تھے اور لولوں لنگڑوں کے ہاتھ پاؤں درست کیا کرتے تھے۔ ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس وقت چند اندھے، بہرے اور لولے لنگڑے اکٹھے کر دئیے ہیں۔ اگر آپ فی الواقع مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے۔ حضرت خلیفۃ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ ہم لوگوں کے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے۔ (بڑے پریشان ہوئے) اور گو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یوں ہی ہے مگر اس بات سے گھبرا گئے کہ آج ان لوگوں کو ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کا موقع مل جائے گا۔ مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے کو دیکھا تو آپؑ کے چہرے پر ناپسندیدگی یا گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے۔ جب وہ (عیسائی) بات ختم کر چکے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دیکھئے پادری صاحب! مَیں جس مسیح کے مثیل ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو اچھا نہیں کیا کرتا تھا مگر آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں، جسمانی بہروں، جسمانی لنگڑوں لولوں کو اچھا کیا کرتا تھا اور آپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے بائبل میں ہے کہ اگر تم میں ایک ذرّہ بھر بھی ایمان ہو اور تم پہاڑوں سے کہو کہ وہ چل پڑیں تو وہ چل پڑیں گے اور جو معجزے مَیں دکھاتا ہوں (یعنی عیسیٰ مسیح) وہ سب تم (اس کے ماننے والے) بھی دکھا سکو گے۔ پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ میں تو وہ معجزے دکھا سکتا ہوں جو میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے۔ آپ ان معجزوں کا مطالبہ کریں تو مَیں دکھانے کے لئے تیار ہوں۔ باقی رہے اس قسم کے معجزات سو آپ کی کتاب نے بتا دیا ہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اندر ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے ویسے ہی معجزے دکھا سکتا ہے جیسے مسیح ناصری نے دکھائے۔ سو آپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچا لیا اور ان اندھوں، بہروں، لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر دیا۔ اب یہ اندھے، بہرے اور لولے لنگڑے موجود ہیں۔ اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے۔ آپ فرماتے تھے کہ اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے پادری ان لولوں اور لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کر الگ کرنے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مقرّبین کو ہر موقع پر عزت بخشتا ہے اور ان کو ایسے ایسے جواب سمجھاتا ہے جن کے بعد دشمن بالکل ہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد23 صفحہ88-89)
ایک صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے معتقد تھے اور بعد میں پھر مرتد ہوگئے۔ بگڑ گئے۔ ان کے بارے میں حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ لدھیانہ میں ایک شخص میر عباس علی صاحب تھے وہ حضرت صاحب سے بہت خلوص رکھتے تھے حتی کہ ان کی موجودہ حالت کے متعلق حضرت صاحب کو الہام بھی ہوا تھا۔ لدھیانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی کا مباحثہ ہوا تو میر عباس علی حضرت صاحب کا کوئی پیغام لے کر گئے۔ ان کے مولوی محمد حسین وغیرہ مولویوں نے بڑے احترام اور عزت سے ہاتھ چومے (اور) کہا آپ آلِ رسول ہیں۔ آپ کی تو ہم بھی بیعت کرلیں لیکن یہ مغل کہاں سے آ گیا۔ اگر کوئی مامور آتا تو سادات میں سے آنا چاہئے تھا۔ پھر کچھ تصوّف اور صوفیاء کا ذکر شروع کر دیا۔ میر صاحب کو چونکہ صوفیاء سے بہت اعتقاد تھا۔ مولویوں نے (مختلف قسم کے واقعات بیان کئے) کچھ اِدھر اُدھر کے قصّے بیان کر کے کہا کہ صوفیاء تو اس قسم کے عجوبے دکھایا کرتے تھے۔ اگر مرزا صاحب بھی کچھ ہیں تو کوئی عجوبہ دکھلائیں۔ ہم آج ہی ان کو مان لیں گے۔ مثلاً وہ کوئی سانپ پکڑ کر دکھائیں یا اور کوئی اس قسم کی بات کریں۔ میر عباس علی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور جب حضرت صاحب کے پاس آئے تو کہا کہ حضور اگر کوئی کرامت دکھائیں تو سب مولوی مان لیں گے۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جب کرامت کا لفظ میر صاحب کی زبان سے نکلا تو اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ بس میر صاحب کو مولویوں نے پھندے میں پھنسا لیا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو بہت سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔‘‘ (الفضل5نومبر1918ء صفحہ9 جلد6 نمبر34)۔ اور پھر نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایمان ضائع ہوا اور وہ اعتقاد و اخلاص جو تھا وہ سب جاتا رہا۔
پھر میر عباس علی صاحب کے اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میر عباس علی لدھیانوی کے متعلق ایک وقت علم دیا گیا کہ وہ نیک ہے (جیسا کہ بتایا تھا کہ الہام بھی ہوا) تو آپ اس کی تعریف فرمانے لگے مگر چونکہ اس وقت آپ کو اس کے انجام کا علم نہیں تھا اس لئے آپ کو پتا نہ لگا کہ ایک دن وہ مرتد ہو جائے گا۔ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا علم دے دیا۔ غرض انسانی علم بہت محدود ہے۔ صرف خدا تعالیٰ ہی کامل علم رکھتا ہے جو سب پر حاوی ہے اور کوئی شخص اس کے علوم کا احاطہ نہیں کرسکتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد2 صفحہ583)۔ اللہ تعالیٰ نبیوں کو بھی جتنا بتاتا ہے وہ آگے بھی اتنا ہی آگے بتاتے ہیں۔ انہی میر صاحب کا مزید ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے متعلق الہام ہوا تھا جو آپ سے بڑی گہری ارادت رکھتے تھے اور ایک دفعہ الہام ہوا جس میں ان کی روحانی طاقتوں کی بہت بڑی تعریف کی گئی تھی مگر بعد میں وہ مرتد ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کے متعلق تو الہام الٰہی میں تعریف آ چکی ہے پھر یہ کیوں مرتد ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ بیشک الہام میں اس کی تعریف موجود تھی اور اللہ تعالیٰ کا کلام بتا رہا تھا کہ وہ اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتا تھا لیکن جب اس نے ان طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایااور اس میں کبر اور غرور پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو گیا اور وہ مرتد ہو گیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی دعا بھی ہمیں بتاتی ہے کہ نفاق اور کفر یہ دو چیزیں انسان کے ساتھ ہر وقت لگی ہوئی ہیں اور یہ دونوں مرضیں منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد انسان پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ (خطبات محمود جلد18 صفحہ385)
اس گروہ میں جن پر اللہ تعالیٰ انعام کرتا ہے، شامل ہونے کے بعد حملہ آور ہوتی ہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر ہے تو وہ حالت ان پر ان کے انعام کے بعد طاری ہوئی ہے۔ اگر منعم علیہ اپنے اصل مقام کو نہ پہچانیں تو پھر تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں مغضوب علیہم میں شامل کر دیتا ہے اور یا پھر ضالّین میں شامل کر دیتا ہے۔ پس اس نکتہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں برائیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے اور پھر ہمیشہ اس دعا کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انعام یافتہ لوگوں میں ہی شامل رکھے اور اس کے جو بد اثرات ہیں وہ کبھی پیدا نہ ہوں۔ پھر ظاہری علم پر بزرگی کی بنیادنہیں رکھی جا سکتی اس کے بارے میں ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ’’اگر ظاہری علم پر ہی فضیلت اور بزرگی کی بنیاد رکھی جائے تو نعوذ باللہ دنیا کے سارے انبیاء کو جھوٹا کہنا پڑے گا کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والے‘‘ علماء ’’ہی ہوتے ہیں۔ (نبیوں کا مقابلہ کرنے والے ظاہری علماء ہوتے ہیں۔ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی انہی لوگوں نے مقابلہ کیا جو اپنے آپ کو ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑا عالم سمجھا کرتے تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نہایت حقارت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’منشی غلام احمد‘‘ لکھا کرتے تھے گویا آپ نعوذ باللہ صرف منشی ہیں کہ دو چار سطریں لکھ لیتے ہیں عالم نہیں اور وہ اس بات پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے انہیں منشی لکھا۔ (پھر آپ نے بیان فرمایا کہ) مَیں چھوٹا تھا جب مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے کسی مجلس میں بیان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میری نسبت تو یہ لکھا کہ مولوی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق انہوں نے یہ لکھا کہ وہ منشی ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مَیں چھوٹا تھا مگر مجھے اس وقت بھی ان کی یہ بات بری لگی تھی کہ مجلس میں کیوں بیان کی ہے اور اب بھی بری لگتی ہے۔ (خطبات محمود جلد18 صفحہ389) بہرحال ایک تو الفاظ کا چناؤ بھی اچھا کرنا چاہئے یا بعض واقعات کو اس طرح بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
سچائی کے بارے میں واقعہ ہم سنتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود کی زبانی بھی سن لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’حضرت صاحب کا ہی واقعہ ہے۔ آپ نے ایک پیکٹ میں خط ڈال دیا۔ اس کا ڈالنا ڈاکخانے کے قواعد کی روسے منع تھا مگر آپ کو اس کا علم نہ تھا۔ ڈاکخانے والوں نے آپ پر نالش کر دی اور اس کی پیروی کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا کہ آپ کو سزا ہو جائے اور اس پر بڑا زور دیا اور کہا کہ ضرور سزا ملنی چاہئے تاکہ دوسرے لوگ ہوشیار ہو جائیں۔ حضرت صاحب کے وکیل نے آپ کو کہا کہ بات بالکل آسان ہے۔ آپ کا پیکٹ گواہوں کے سامنے تو کھولا نہیں گیا۔ آپ کہہ دیں کہ میں نے خط الگ بھیجا تھا۔ شرارت اور دشمنی سے کہا جاتا ہے کہ یہ پیکٹ میں ڈالا تھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جھوٹ ہو گا۔ وکیل نے کہا کہ اس کے سوا تو آپ بچ نہیں سکتے۔ آپ نے فرمایا کہ خواہ کچھ ہو میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا۔ چنانچہ عدالت میں جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پیکٹ میں خط ڈالا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں مَیں نے ڈالا تھا مگر مجھے ڈاکخانے کے اس قاعدے کا علم نہ تھا۔ اس پر استغاثہ کی طرف سے لمبی چوڑی تقریر کی گئی اور کہا گیا کہ اسے سزا ضرور دینی چاہئے تا دوسرے لوگوں کو عبرت ہو۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں تقریر چونکہ انگریزی میں تھی اس لئے مَیں اور تو کچھ نہ سمجھتا تھا لیکن جب حاکم تقریر کے متعلق no-noکہتا تو اس لفظ کو سمجھتا تھا۔ آخر تقریر ختم ہوئی توحاکم نے کہہ دیا کہ ’’بری‘‘۔ اور کہا کہ جب اس نے اس طرح سچ سچ کہہ دیا تو میں بری ہی کرتا ہوں۔‘‘ (اصلاح نفس۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ434-435)
تو یہ واقعہ ہم میں سے بہت سوں نے بہت دفعہ سنا ہے، پڑھا ہے۔ مَیں بھی کئی جگہ بیان کر چکا ہوں لیکن ہم صرف سن کر لطف اٹھا لیتے ہیں۔ یہ سچائی کے معیار کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ لیکن جو لوگ اپنے مفاد کے لئے سچائی کے معیار سے نیچے گرتے ہیں انہیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان ملکوں میں حکومت سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اسائلم کے لئے، انشورنس کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسے احمدیوں کو جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں سوچنا چاہئے کہ غلط طریق سے جو یہ دنیاوی فائدے اٹھانا ہے، یہ ایک احمدی کو زیب نہیں دیتا۔
ٹونے ٹوٹکے کرنا جائز ہے کہ نہیں۔ بعض دفعہ لوگ یہ بھی بہت زیادہ کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تفقّہ کا مادہ دوسرے صحابیوں سے کم تھا۔ مولویوں نے اس پر شور مچایا۔ مگر جو صحیح بات ہو وہ صحیح ہی ہوتی ہے۔ آجکل جس قدر عیسائیوں کے مفید مطلب احادیث ملتی ہیں (یعنی جو عیسائیوں کو سپورٹ کررہی ہیں) وہ سب حضرت ابوھریرۃؓ سے ہی مروی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاق و سباق کو نہ دیکھتے اور گفتگو کے بعض ٹکڑے بغیر پوری طرح سمجھے آگے بیان کر دیتے مگر باقی صحابہ سیاق و سباق کو سمجھ کر روایت کرتے۔ اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق روایتیں چھپنی شروع ہوئی ہیں جن میں سے کئی ایسے لوگوں کی طرف سے بیان کی جاتی ہیں جنہیں تفقّہ حاصل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ایسی روایتیں چھپ جاتی ہیں جن پر لوگ ہمارے سامنے اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ یہ روایت چھپ گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب آتھم کی میعاد میں سے صرف ایک دن باقی رہ گیا تو بعض لوگوں سے کہا کہ وہ اتنے چنوں پر اتنی بار فلاں سورۃ کا وظیفہ پڑھ کر آپ کے پاس لائیں۔ جب وہ وظیفہ پڑھ کر چنے آپ کے پاس (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس) لائے تو آپ انہیں قادیان سے باہر لے گئے اور ایک غیر آباد کنوئیں میں پھینک کر جلدی سے منہ پھیر کر واپس لوٹ آئے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میرے سامنے جب اس کے متعلق اعتراض پیش ہوا تو مَیں نے روایت درج کرنے والوں سے پوچھا کہ یہ روایت آپ نے کیوں درج کر دی۔ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صریح عمل کے خلاف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام بھی نعوذ باللہ ٹونے (ٹوٹکے) وغیرہ کیا کرتے تھے۔ اس پر جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے جب اس خواب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اسے ظاہری شکل میں ہی پورا کر دو۔ اب خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک کام کرنا بالکل اور بات ہے اور ارادۃً ایسا فعل کرنا اور بات ہے۔ اور ظاہر میں خواب کو بعض دفعہ اس لئے پورا کر دیا جاتا ہے کہ تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کا مُضرّ پہلو اپنے حقیقی معنوں میں ظاہر نہ ہو۔ چنانچہ معبّرین (جو خوابوں کی تعبیر کرتے ہیں) نے لکھا ہے کہ اگر منذر خواب کو ظاہری طور پورا کر دیا جائے تو وہ وقوع میں نہیں آتی۔ اور خدا تعالیٰ اس کے ظاہر میں پورا ہو جانے کو ہی کافی سمجھ لیتا ہے۔ اس کی مثال بھی ہمیں احادیث سے نظر آتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں کسریٰ کے سونے کے کنگن ہیں۔ اس رؤیا میں اگر ایک طرف اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ ایران فتح ہوگا۔ (عموماً ہم یہی مراد لیتے ہیں کہ ایران فتح ہوگا) تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ تھا کہ ایران کی فتح کے بعد ایرانیوں کی طرف سے بعض مصائب و مشکلات کا آنا بھی مقدر ہے کیونکہ خواب میں اگر سونا دیکھا جائے تو اس کے معنی غم اور مصیبت کے ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا کے اس مفہوم کو سمجھا اور سراقہ کو بلا کر کہا کہ پہن کڑے ورنہ مَیں تجھے کوڑے ماروں گا۔ (سونے کے کڑے پہننا مَردوں کو منع ہے۔ یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے بھی کیا کہ اگر کوئی مُضرّ پہلو اس میں ہے تو وہ بھی ٹل جائے۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے کڑے پہنوائے۔ ) چنانچہ اسے سونے کے کڑے پہنائے گئے اور اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رؤیا کے غم اور فکر کے پہلو کو دُور کرنا چاہا۔‘‘ (خطبات محمود جلد16 صفحہ41-42)
تو بعض باتیں جو سیاق و سباق کے بغیر کی جائیں مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خطبہ بیان فرمایا۔ یہ 1931ء کی بات ہے۔ اور اس میں آپ نے جماعت کے افراد کو یہ تلقین کی کہ جھگڑوں اور فسادوں سے بچو کہ جماعت اب بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو، اپنے ایمان کو، اپنے دینی علم کو اس کے مطابق صحیح کرنا چاہئے۔ اپنے عمل کو اس کے مطابق کرنا چاہئے جو علم ہے۔ دین ہمیں جس کی تلقین کرتا ہے۔ اور یہ بیان کرنے کے بعد خطبے میں ایک شخص کے متعلق بتایا کہ اس کا اس وجہ سے اب اخراج بھی ہوا ہے۔ خطبے کے بعد جب خطبہ ثانیہ شروع ہوا تو اس خطبے کے دوران ہی ایک صاحب کھڑے ہو کر حضرت خلیفہ ثانی سے پوچھنے لگے کہ حضور! جس شخص کا اخراج کا اعلان ہوا ہے اس کا نام کیا ہے؟ اس پر ایک دوسرے صاحب بولے۔ خطبے میں بولنا نہیں چاہئے۔ حضرت مصلح موعود مسکرائے اور پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ مجلس میں اپنی تلاشی کا واقعہ سنا رہے تھے۔ یہ تلاشی پنڈت لیکھرام کے واقعہ کے قتل کے سلسلے میں سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور نے لی تھی۔ آپ نے فرمایا ’’سپرنٹنڈنٹ پولیس ایک چھوٹے دروازے میں سے گزرنے لگا تو اس کے سر کو سخت چوٹ آئی۔ دروازے کی چوگاٹ سے ٹکرا گیا اور سر چکرا گیا۔ ہم نے اسے دودھ پینے کو کہا لیکن اس نے انکار کیا کہ اس وقت میں تلاشی کے لئے آیا ہوں اور یہ میرے فرض منصبی کے مخالف ہو گا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے یہی جواب دیا۔) حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ’’اس پر یہی صاحب جو اَب بولے ہیں جھٹ بولے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہوں نے سوال کیا کہ) حضور! اس کے سر میں سے خون بھی نکلا تھا یا نہیں؟ حضرت صاحب ہنسے اور فرمایا مَیں نے اس کی ٹوپی اتار کر نہیں دیکھی تھی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد13 صفحہ110)
تو بعض لوگوں کو اسی طرح بلاوجہ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ بہرحال خطبے میں بولنا منع ہے لیکن دوسرے صاحب نے بول کر جو نصیحت کی تھی کہ خطبے میں بولنا منع ہے ان کا بھی عمل غلط تھا۔ اشارہ کیا جاتا ہے یا بعد میں کہا جاتا ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودنے ایک اور لطیفہ سنایا کہ ایک شخص مسجد میں آیا۔ نماز باجماعت ہو رہی تھی۔ اُس نے اونچا سلام کیا تو نمازیوں میں سے ایک نے وعلیکم السلام اسی طرح اونچا کہہ دیا۔ تو اس کے ساتھ جو دوسرا نمازی کھڑا تھا اس کو کہنے لگا تمہیں پتا نہیں نماز میں بولا نہیں کرتے۔ تم نے جواب کیوں دیا؟ بہرحال یاد رکھنا چاہئے کہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے اس لئے خطبے میں بھی بولنا منع ہے۔ سوائے اس کے کہ اگر کہیں بولنا ہو، کسی کو روکنا ہو تو امام جو خطبہ دے رہا ہے وہ بول سکتا ہے۔ نماز میں تو امام بھی نہیں بول سکتا۔ گھروں میں بھی خاص طور پر بچوں کی ابھی سے اس بات کی تربیت کرنی چاہئے کہ جس طرح نماز میں بولنا منع ہے اسی طرح خطبے میں بھی بولنا منع ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیرت ایمانی اور آپؑ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ
فرمودہ مورخہ 23؍جنوری 2015ء بمطابق23صلح 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔