حضرت مصلح موعودؓکے بیان فرمودہ واقعات اور احباب جماعت کو نصائح
خطبہ جمعہ 6؍ فروری 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے پڑھنے کے منفی اور مثبت اثرات جس طرح جس سوچ کے ساتھ انسان پڑھتا ہے اسی طرح کے اثرات قائم ہوتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ
’’مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ آپ بیان فرما رہے تھے کہ ڈیبیٹنگ سوسائٹیز (debating societies) جو ڈیبیٹ(debate) کرتی ہیں اور بلا وجہ ایک مقرر حق میں بولتا ہے، دوسرا خلاف بولتا ہے۔ اس سے بعض دفعہ سوچوں میں فرق پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ جو بھی بولنے والے ہیں وہ وہ نہیں کہہ رہے ہوتے جو ان کے دل میں ہوتا ہے بلکہ ایک مقابلے کی صورت ہوتی ہے جس میں بولنا ہوتا ہے۔ تو بہر حال اس کا بیان فرماتے ہوئے کہ یہ باتیں بعض دفعہ ایمان میں خرابی کا باعث بن جاتی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ مولوی بشیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مؤید تھے اور کہتے ہیں کہ مَیں بہت مخالف تھا۔ (یعنی مولوی محمد احسن صاحب بہت مخالف تھے۔ ) مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے جس نے یہ کتاب لکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ آخر مَیں نے ان سے کہا (مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی بشیر صاحب کو کہا) کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں کہ آیا یہ مجدّد ہیں کہ نہیں۔ لیکن مباحثے کی صورت کیا ہو گی؟ آپ تو چونکہ مؤید ہیں تائید کرنے والے ہیں آپ مخالفانہ نقطۂ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالف ہوں اس لئے میں موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا۔ اور سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مَیں جو مخالف تھا (مولوی محمد احسن صاحب کہتے ہیں کہ مَیں جو مخالف تھا) احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل دُور چلے گئے۔ مولوی احسن صاحب کی سمجھ میں بات آ گئی اور بشیر صاحب کے دل سے ایمان جاتا رہا۔ اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ علم النفس کے رو سے ڈیبیٹس (debates) کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرّس اہلیت نہیں رکھتا۔ (ماخوذ از الفضل 11 مارچ 1939 صفحہ 8نمبر58جلد27)
پس اچھی بات میں بھی اگر تنقید کی نظر سے، اعتراض کی نظر سے مطلب نکالنے کی کوشش کریں تو وہی ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر بہت سے لوگ اس لئے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ پڑھتے ہی اعتراض کرنے کے لئے ہیں اور پھر سیاق و سباق سے بھی نہیں ملاتے کہ ہم نے پڑھا یہ لکھا ہوا ہے اور وہ لکھا ہوا ہے۔ تو یہ کچھ نئی چیز نہیں ہے۔ اعتراض کرنے والے تو خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی اعتراض نکال لیتے ہیں۔ اس لئے قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ یہ مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے لیکن اعتراض کرنے والے جو ہیں، ظالم لوگ جو ہیں ان کو یہ خسارے میں ڈالتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اور مزید اعتراض خدا تعالیٰ کی ذات پر کرنا شروع کر دیتے ہیں، اسلام پر کرنا شروع کر دیتے ہیں، مذہب کی ضرورت پر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس چاہے خدا تعالیٰ کا کلام ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک فائدہ نہیں دیتا جب تک پاک دل ہو کر پڑھنے کی کوشش نہ کی جائے۔
پھر نماز کی اہمیت کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپؑ مقدمے کی پیروی کے لئے گئے اور مقدمے کے پیش ہونے میں دیر ہو گئی۔ نماز کا وقت آ گیا۔ آپ باوجود لوگوں کے منع کرنے کے نماز کے لئے چلے گئے اور جانے کے بعد ہی مقدمہ کی پیروی کے لئے بلائے گئے مگر آپ عبادت میں مشغول رہے۔ اس سے فارغ ہوئے تو عدالت میں آئے۔ حسب قاعدہ جو حکومت کا قاعدہ ہے، عدالت کا جو قاعدہ ہے چاہئے تو یہ تھا کہ مجسٹریٹ آپ کے خلاف یکطرفہ ڈگری کر دیتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجسٹریٹ کی توجہ اس طرف کروائی کہ یہ نماز پڑھ رہے ہیں عبادت کر رہے ہیں اور اس نے آپ کی غیر حاضری کو نظر انداز کر کے فیصلہ آپ کے حق میں یا آپ کے والد صاحب کے حق میں کر دیا۔ (ماخوذ از دعوۃ الامیر۔ انوار العلوم جلد7 صفحہ575)
اپنے تو مقدمے ہوتے نہیں تھے۔ جائیدادوں کے مقدمے تھے۔ اگر کبھی مجبوری سے جانا پڑے تو والد صاحب کی وجہ سے ہی جایا کرتے تھے۔
پھر ایک جگہ نماز باجماعت کی مزید اہمیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ کس طرح ہمیں نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ’’نماز باجماعت کی ایک یہ ترکیب ہے کہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرا لی جائے۔ عادت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز کی قیمت لوگوں کے دلوں میں نہیں رہی۔ کیونکہ باجماعت نماز کی عادت نہیں ہے اس لئے یہ اندازہ ہی نہیں رہا کہ باجماعت نماز کی کس قدر قیمت ہے۔ اس عادت کو ترک کر کے یعنی جو علیحدہ نماز پڑھنے کی عادت ہے اس کو ترک کر کے نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مواقع پر جب نماز کے لئے مسجد میں نہ جا سکتے تھے تو گھر میں ہی جماعت کرا لیا کرتے تھے اور شاذ ہی کسی مجبوری کے ماتحت الگ نماز پڑھتے تھے۔ اکثر ہماری والدہ کو ساتھ ملا کر جماعت کرا لیتے تھے۔ والدہ کے ساتھ دوسری مستورات بھی شامل ہو جاتی تھیں۔ پس اوّل تو ہر جگہ دوستوں کو جماعت کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنی چاہئے اور جس کو یہ موقع نہ ہو اسے چاہئے کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی مل کر نماز باجماعت کرا لیا کرے۔ ہر جگہ دوستوں کو نماز باجماعت کا انتظام کرنا چاہئے۔ جہاں شہر بڑا ہو۔ دوست دور دور رہتے ہوں۔ وہاں محلے دار جو ہیں ان کو جماعت کا انتظام کرنا چاہئے۔ جہاں مساجدنہیں ہیں وہاں مساجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘ (بعض اہم اور ضروری امور۔ انوار العلوم جلد16 صفحہ493)
بہرحال نماز باجماعت کی اہمیت یہ ہے کہ اگر گھروں میں بھی ہوں تو بچوں کو ساتھ ملا کر نماز پڑھا کریں تا کہ بچوں میں بھی نماز باجماعت کا احساس رہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی بڑی تلقین فرمائی کہ نماز اپنی تمام تر شرائط کے ساتھ پڑھا کریں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ433۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مصلح موعودنے اس بارے میں فرمایا کہ: ’’تمام قیود اور پابندیوں کے ساتھ‘‘ نماز پڑھنا’’ایک انتہا درجہ کی خوبصورت چیز ہے مگر جب ہم اپنی غفلت اور نادانی کی وجہ سے اس کو چھانٹتے چلے جائیں تو وہ بے فائدہ اور لغو چیز بن جاتی ہے۔‘‘ (نماز کی خوبصورتی اس کو سنوار کر پڑھنے میں ہے لیکن اگر سنوار کر نہ پڑھیں تو پھر وہ لغو چیز ہو جاتی ہے) ’’اور ایسی نماز کبھی بابرکت نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح مرغ ٹھونگے مار کر دانے چُگتے ہیں۔ ایسی نماز یقینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض دفعہ ایسی نماز لعنت کا موجب بن جاتی ہے۔ (ماخوذ از الفضل20 مئی 1939 صفحہ4 جلد27 نمبر115)
ایک دفعہ کسی نے حضرت مصلح موعودؓ کو شکایت کی کہ ماتحت ہمیں سلام نہیں کرتے یا چھوٹے جو ہیں وہ بڑوں کو سلام نہیں کرتے۔ اس پر آپ نے یہ نصیحت فرمائی کہ ’’سلام کرنے کا حکم دونوں کے لئے یکساں ہے۔‘‘ ایک جیسا ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شعر سنا ہوا ہے کہ
وہ نہ آئے تو تُو چل اے میرؔ تیری کیا اس میں شان گھٹتی ہے‘‘
فرماتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ایک بھائی نہیں مانتا تو کیوں نہ ہم خود اس پر عمل کر لیں۔ پس اگر شکایت درست ہے تو یہ فعل عقل کے خلاف اور اَخلاق سے گرا ہوا ہے۔ یہ کہیں حکم نہیں کہ سلام صرف چھوٹا کرے، بڑا نہ کرے۔ اگر ماتحت نے نہیں کیا تو افسر خود پہل کر دے۔ فرماتے ہیں کہ میرا اپنا یہ طریق ہے کہ جب خیال کرتا ہوں تو میں خود پہلے سلام کہہ دیتا ہوں۔ بعض دفعہ خیال نہیں ہوتا تو دوسرے کہہ دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں ایسی باتوں میں ناظروں کو اعتراض کرنے کی بجائے خودنمونہ بننا چاہئے۔ (خطبات محمود جلد22 صفحہ173)
پس ہمارے ہر عہدیدار کو چاہے وہ جس بھی سطح کے عہدیدار ہیں، چاہئے کہ اپنے نمونے قائم کریں۔ سلام کرنے میں پہل کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ انتظار کریں کہ چھوٹا یا ماتحت مجھے سلام کرے۔ بعض بڑے یا عہدیدار ایسے بھی ہیں جو سلام کا جواب بھی مشکل سے دیتے ہیں ایسی بھی شکایتیں میرے پاس آتی ہیں۔ تو افسروں کو اگر شکوہ ہے تو لوگوں کو بھی شکوہ ہوتا ہے کہ سلام کا جواب نہیں دیتے یا اتنی ہلکی (آواز سے) منہ میں دیتے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آتی یا ایسی بے اعتنائی سے دے رہے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کیا مصیبت پڑ گئی۔ بہرحال جماعت کے اندر ہر طبقے کو سلام کو رواج دینا چاہئے۔ یہ حدیث بھی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان انہ لا یدخل الجنۃ الا المومنون… حدیث نمبر194)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت آپ کے زمانے میں کس طرح لوگ کیا کرتے تھے اس کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اکتوبر 1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا۔ وہاں سے شہادت دے کر جب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں کے لئے لاہور بھی ٹھہرے۔ یہاں جن جن گلیوں سے آپ گزرتے ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر برے الفاظ آپ کی شان میں نکالتے۔ (حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ) میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور مَیں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لئے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے بھی آپ گزرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹُنڈا شخص جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ نہیں معلوم ہاتھ کے کٹنے کا ہی زخم باقی تھا یا کوئی نیا زخم تھا۔ بہرحال وہ زخمی ہاتھ تھا۔ وہ بھی لوگوں میں شامل ہو کر غالباً مسجد وزیر خان کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا تھا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ ہائے ہائے مرزا نَٹھ گیا۔ یعنی میدان مقابلہ سے فرار ہوگئے۔ نعوذ باللہ۔ اور مَیں اس نظارے کو دیکھ کر سخت حیران تھا خصوصاً اس شخص پر جس کا ہاتھ ہی نہیں ہے اور وہ تالیاں بجانے کی کوشش کر رہا ہے اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا۔ لاہور سے پھر حضرت مسیح موعودؑ قادیان تشریف لے آئے۔‘‘ (ماخوذ از سیرت مسیح موعودؑ۔ انوار العلوم جلد3 صفحہ360)
ایک مقدمے میں مجسٹریٹ کی یہ پکّی نیت تھی بلکہ اس سے عہد لیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور سزا دینی ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے ایک جگہ فرمایا۔ آپ نے پہلے تمہید باندھی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد سات سو تھی۔ صحابہ نے خیال کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپ کو خیال ہے کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے۔ اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں۔ کیا اب بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا۔ یہ کیا شاندار ایمان تھا کہ وہ سات سو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا۔ (آپ نے واقعہ کو بیان کر کے فرمایا کہ) ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے۔ مَیں (یعنی حضرت مصلح موعود) وہاں تو تھا لیکن اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہوا۔ مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے سنایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لاہور گیا تھا۔ آریوں نے اس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ان کو ضرور سزا دو خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو۔ یہ تمہاری قومی خدمت ہو گی اور وہ ان سے وعدہ کر کے آیا ہے کہ مَیں ضرور سزا دوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔ یہ سن کر آپ کہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ کیا کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزا دی کہ پہلے تو اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا۔ پھر اس کا تنزل ہوگیا۔ یعنی وہ ای ایس سی سے منصف بنا دیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آکر کیا۔ تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
پس جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اس صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو۔ صرف تعداد میں اضافہ کسی خوشی کا باعث نہ ہو۔ اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اس کا دودھ بیس سیر ہو گیا۔ خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھا دیا جائے اور دودھ ڈال کے دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہے۔ (بعض اہم اور ضروری امور۔ انوار العلوم جلد16 صفحہ293-294)
پس چاہے وہ نئے ہیں یا پرانے ہمیں اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے کی طرف کوشش کرنی چاہئے۔ اگر وہ سات سو کا ایمان ایسا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ دنیا کا کوئی (دشمن) ہمیں شکست نہیں دے سکتا اور دنیا نے دیکھا کہ نہیں دی۔
اسی مقدمے کے بارے میں ایک جگہ آپ مزید فرماتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ بہت لمبی بات کرتے تھے۔ انہوں نے کہا حضور! مجسٹریٹ ضرور قید کر دے گا اور سزا دے گا۔ بہتر ہے کہ فریق ثانی سے صلح کر لی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہنیوں پر سہارا لے کر بیٹھ کر فرمایا۔ خواجہ صاحب خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان بات نہیں۔ میں خدا تعالیٰ کا شیر ہوں۔ وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دو مجسٹریٹوں میں سے جو اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر تھے ایک کا لڑکا پاگل ہو گیا۔ اس کی بیوی نے اسے لکھا (گو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا مامور تو نہیں مانتی تھی لیکن اس نے لکھا) کہ تم نے ایک مسلمان فقیر کی ہتک کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک لڑکا پاگل ہو گیا ہے۔ اب دوسرے کے لئے ہشیار ہو جاؤ۔ وہ مجسٹریٹ چونکہ پڑھا لکھا تھا اس نے کہا کیا جاہلانہ باتیں میری بیوی کر رہی ہے۔ اسے ایسی باتوں پر یقین نہیں ہوتا تھا۔ اس نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دوسرا لڑکا دریا میں ڈوب کر مرگیا۔ وہ دریائے راوی پر گیا تھا وہاں نہا رہا تھا کہ مگرمچھ نے اس کی ٹانگ پکڑ لی۔ اس طرح وہ بھی ختم ہو گیا۔ اس مجسٹریٹ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تنگ کرنے کی انتہا یہ تھی، اس قدر تنگ کیا کرتا تھا کہ مقدمے کے دوران سارا وقت آپ کو کھڑا رکھتا۔ اگر پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو پانی پینے کی اجازت نہ دیتا۔ ایک دفعہ خواجہ صاحب نے پانی پینے کی اجازت بھی مانگی مگر اس نے اجازت نہ دی۔ (ماخوذ از خطبات محمود۔ جلد اول صفحہ428-429)
ایک دوسرا مجسٹریٹ بھی تھا جو اس کے بعد گیا، وہ بھی معطل ہو گیا جیسا کہ ذکر آیا ہے۔ بہرحال یہ دونوں لوگ جو تھے وہ بڑے سخت ظلم پر آمادہ تھے اور پھر انہوں نے اپنا انجام بھی دیکھا۔ اس مجسٹریٹ کے انجام کی حالت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں دہلی جا رہا تھا کہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے ملا۔ وہ مجسٹریٹ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا لدھیانے کے اسٹیشن پر حضرت مصلح موعود کو ملا اور بڑے الحاح سے بڑے درد سے کہنے لگا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے۔ مجھ سے بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں پاگل نہ ہو جاؤں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ359-360)
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ رستم کے گھر چور آ گیا۔ رستم بیشک بہت بہادر تھا مگر اس کی شہرت فنونِ جنگ میں تو تھی۔ وہ جنگ کرنے میں تو ماہر تھا۔ تلوار چلانی خوب جانتا تھا لیکن ضروری نہیں ہے کہ جو جنگ کا ماہر ہو وہ کُشتی کرنے میں بھی ماہر ہو۔ بہرحال چور آ گیا اس نے چور کو پکڑنے کی کوشش کی۔ چور کُشتی لڑنا جانتا تھا۔ اس نے رستم کو نیچے گرا دیا۔ جب رستم نے دیکھا کہ اب تو میں مارا جاؤں گاتو اس نے کہا آ گیا رستم۔ چور نے جب یہ آواز سنی تو فوراً اسے چھوڑ کر بھاگا۔ غرض چور رستم کے ساتھ تو لڑتا رہا بلکہ اسے نیچے گرا لیا مگر رستم کے نام سے ڈر کر بھاگا۔ اس حوالے سے آپ نے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ بعض دفعہ بعض لوگ ایسی افواہیں پھیلا دیتے ہیں جس سے لوگوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی آدمی کے گھر میں آگ لگی ہو تو ٹھیک ہے وہ بجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا یہ خبر سن کر ہوتا ہے کہ اس کے گھر کو آگ لگ گئی اور وہ وہاں موجودنہیں تھا۔ (ماخوذ از بعض اہم اور ضروری امور۔ انوار العلوم جلد16 صفحہ277)
پھر آپ نے فرمایا کہ کسی جگہ بموں کا پڑنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا یہ شور پڑ جانا کہ بم پڑ رہے ہیں۔ تو غلط افواہیں جو ہیں بعض دفعہ بزدلی پیدا کر دیتی ہیں۔ پس اپنی بہادری اور جرأت کو قائم کرنے کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔ (ماخوذ از بعض اہم اور ضروری امور۔ انوار العلوم جلد16 صفحہ276)
رستم کو چور نے قابو کر لیا لیکن اس کے نام کا خوف تھا تو اس نام سے دوڑ گیا۔ اسی طرح بعض دفعہ افواہیں جو ہیں غلط رنگ میں ماحول کو خوفزدہ کر دیتی ہیں اس لئے ہمیشہ افواہوں سے بھی بچنا چاہئے اور ایسے حالات میں جرأت کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔
یہ جو مقدمہ کرم دین تھا۔ اس کے بارے میں بھی فرماتے ہیں۔ 1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعودؑ پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوا۔ چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گویا آپ ایک فوجداری مقدمے کی جوابدہی کے لئے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اترے ہیں اس وقت وہاں اس قدر انبوہ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کی جگہ نہ رہی بلکہ سٹیشن کے باہر بھی دو رویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہو گیا تھا۔ حتی کہ افسران ضلع کو انتظام کے لئے خاص اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے۔ آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر ہجومِ خلائق کے سبب راستہ نہ ملتا تھا۔ اہل شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لئے آئے تھے۔ قریباً ایک ہزار آدمی نے اس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لئے گئے تو اس قدر مخلوق کارروائی مقدمہ سننے کے لئے موجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا۔ دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے۔ (بہرحال) پہلی پیشی میں آپ بری کئے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے۔ (ماخوذ از سیرت مسیح موعودؑ۔ انوارالعلوم جلد 3 صفحہ 366)
بہرحال اس کے بعد جس طرح کہ آپ نے ذکر کیا تعداد بھی بڑھنی شروع ہو گئی۔ 1903ء سے آپ کی ترقی حیرت انگیز طریق سے شروع ہو گئی اور بعض دفعہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے۔ ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی یہ پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔ (ماخوذ از بعض اہم اور ضروری امور۔ انوار العلوم جلد16 صفحہ276)
اللہ تعالیٰ گستاخی کی سزا کس طرح دیتا ہے۔ ایک تو مجسٹریٹ کا واقعہ سنا۔ ایک اور واقعہ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ہم ایک دفعہ لکھنؤ گئے وہاں ایک سرحدی مولوی عبدالکریم تھا جو ہماری جماعت کا شدید مخالف تھا۔ اس نے ہمارے آنے کے بعد ایک تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک واقعہ کو اس نے نہایت تحقیر کے طور پر بیان کیا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام دلّی گئے۔ وہاں ہمارے ایک رشتے کے ماموں مرزا حیرت دہلوی تھے۔ انہیں ایک دن شرارت سوجھی اور وہ جعلی انسپکٹر پولیس بن کر آ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ڈرانے کے لئے کہنے لگے کہ میں انسپکٹر پولیس ہوں اور مجھے حکومت کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں آپ کو نوٹس دوں کہ آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں ورنہ آپ کو نقصان ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو اس کی طرف توجہ نہ دی مگر بعض دوستوں نے تحقیق کرنی چاہی کہ یہ کون شخص ہے تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم سرحدی نے جو غیر احمدی مولوی تھا اس رنگ میں بیان کیا کہ دیکھو وہ خدا کا نبی بنا پھرتا ہے مگر وہ دلی گیا تو مرزا حیرت انسپکٹر پولیس بن کر اس کے پاس چلا گیا۔ وہ کوٹھے پر بیٹھا ہوا تھا‘‘ (حالانکہ یہ بھی بات بالکل جھوٹ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت نیچے دالان میں، گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ) مولوی عبدالکریم حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’جب اس نے سنا کہ انسپکٹر پولیس آیا ہے تو ایسا گھبرایا کہ سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کا پیر پھسلا اور وہ منہ کے بل زمین پر آ گرا۔ لوگوں نے یہ تقریر سن کر بڑے قہقہے لگائے اور بڑے ہنستے رہے لیکن اس بات کے بعد واقعہ کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ پکڑ کس طرح کرتا ہے۔ اسی رات مولوی عبدالکریم کو خدا تعالیٰ نے پکڑ لیا۔ وہ اپنے مکان کی چھت پر سویا ہوا تھا۔ رات کو کسی کام کے لئے اٹھا اور چونکہ اس چھت کی کوئی منڈیر نہیں تھی اور نیند سے اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اس کا ایک پاؤں چھت سے باہر جا پڑا اور وہ دھڑام سے نیچے آ گرا اور گرتے ہی مرگیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو اگر اس کو غیب کا پردہ نہ ہونے کی صورت میں پتا ہوتا کہ مجھے گستاخی کی یہ سزا ملے گی تو کبھی گستاخی نہ کرتا بلکہ آپ پر ایمان لے آتاگو ایسا ایمان اس کے کسی کام نہ آتا کیونکہ جب غیب ہی نہ رہا تو ایمان کا کیا فائدہ۔ ایمان تو اسی وقت آتا ہے جب کچھ غیب پر بھی ایمان لایا جائے۔ ایمان تو وہی کارآمد ہو سکتا ہے جو غیب کی حالت میں ہو۔ ثواب یا عذر سامنے نظر آنے پر تو ہر کوئی ایمان لا سکتا ہے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد7 صفحہ23)
بہر حال اس سے یہ بات بھی اس کا انجام دیکھنے والوں پر ظاہر ہو گئی کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ تمسخر کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔
آج جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمسخرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں یا بیہودہ گوئیاں کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی ہیں۔ کیا آپ کے بارے میں لوگوں کی بیہودہ گوئیوں کو اللہ تعالیٰ یونہی جانے دے گا؟ نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ایسوں کو دنیا میں بھی عبرت کا نشان بناتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کا علاج مسلمانوں کو ہاتھ سے نہیں یا بندوق سے نہیں کرنا بلکہ دعاؤں کے ذریعہ سے کرنا چاہئے۔ لیکن اس کا بھی حقیقی اِدراک احمدیوں کو ہی ہے۔ اس لئے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنے دردوں کو دعاؤں میں ڈھالنا چاہئے اور ان دنوں میں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا جو پہلے مولوی کا بیان ہو چکا ہے، ذکر کرتے ہوئے آگے مزید فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگ ایسے تھے جو کہتے تھے کہ مرزا صاحب کو کوڑھ ہو جائے گا۔ خدا نے انہیں ہی کوڑھ میں مبتلا کر دیا۔ بہت کہتے تھے کہ مرزا صاحب کو طاعون ہو جائے گا۔ خدا نے یہ کہنے والوں کو طاعون سے ہلاک کیا۔ جب ہزاروں مثالیں اس قسم کی موجود ہیں تو ہم کہاں تک انہیں اتفاقات پر محمول کریں۔ پس اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا اسے محسوس کرے۔ تمہاری حالت یہ ہو کہ تمہارے تقویٰ و طہارت تمہاری دعاؤں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں۔ یاد رکھو کہ احمدیت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہو گی اور آپ لوگ اس مقام پر یا اس کے قریب تک پہنچ جائیں گے تو پھر اگر آپ باہر بھی قدم نہ نکالیں گے بلکہ کسی پوشیدہ گوشے میں بھی جا بیٹھیں گے تو وہاں بھی لوگ آپ کے گرد جمع ہو جائیں گے۔‘‘ (ماخوذ از جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب۔ انوار العلوم جلد12 صفحہ86)
اور انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت میں داخل ہوں گے۔
ایک واقعہ کا ذکر آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں گئے تو مولویوں نے فتویٰ دیا کہ جو اُن کے لیکچر میں جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا لیکن چونکہ حضرت مرزا صاحب کی کشش ایسی تھی کہ لوگوں نے اس فتوے کی بھی کوئی پرواہ نہ کی۔ راستوں پر پہرے لگا دئیے گئے تا کہ لوگوں کو جانے سے روکیں۔ سڑکوں پر پتھر جمع کر لئے گئے کہ جو نہ رکے گا اسے ماریں گے۔ پھر جلسہ گاہ سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جاتے تھے کہ لیکچر نہ سنیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک بی ٹی صاحب تھے جو اس وقت سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر تھے اور پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی ہو گئے تھے۔ وہاں پر امن قائم کرنے کے لئے یا نگرانی کرنے کے لئے ان کا انتظام تھا۔ بہرحال فرماتے ہیں جب لوگوں نے بہت شور مچایا اور فساد کرنا چاہا تو چونکہ حضرت صاحب کی تقریر انہوں نے یعنی بی ٹی صاحب نے، انسپکٹر پولیس نے بھی سنی تھی۔ وہ حیران ہو گئے کہ اس تقریر میں حملہ تو آریوں اور عیسائیوں پر کیا گیا ہے اور جو کچھ مرزا صاحب نے کہا ہے اگر وہ مولویوں کے خیالات کے خلاف بھی ہو تو بھی اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔ اور اگر وہ باتیں سچی ہیں تو اسلام کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پھر مسلمانوں کے فساد کرنے کی کیا وجہ ہے؟ پھر فرماتے ہیں کہ اگرچہ وہ سرکاری افسر تھا مگر وہ جلسے میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا اس پر اے مسلمانو! تم کیوں غصہ کرتے ہو؟‘‘ (ماخوذ از تحریک شدھی ملکانہ۔ انوار العلوم جلد7 صفحہ192)
حضرت مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ہی مخلص صحابی گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’احمدیت سے پہلے وہ وہابیوں کے مشہور عالم تھے اور ان میں انہیں بڑی عزت حاصل تھی۔ جب احمدی ہوئے تو باوجود اس کے کہ ان کے گزارے میں تنگی آ گئی پھر بھی انہوں نے پرواہ نہ کی اور اسی غربت میں دن گزار دئیے۔ بہت ہی مستغنی المزاج آدمی تھے۔ انہیں دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہیں بلکہ بظاہر انسان یہی سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بہت ہی مزدور پیشہ یا کمّی ہیں۔ بہت ہی منکسر طبیعت کے آدمی تھے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے ان کا ایک لطیفہ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں سخت مخالفت ہوئی تو اس کے بعد جب آپ واپس آئے تو مخالفوں کو جس جس شخص کے متعلق پتا لگا کہ یہ احمدی ہے اسے سخت تکلیفیں دینی شروع کر دیں۔ مولوی برہان الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹرین پر سوار کرا کے اسٹیشن سے واپس جا رہے تھے کہ لوگوں نے ان پر گوبر اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور ایک نے تو گوبر آپ کے منہ میں ڈال دیا۔ مگر وہ بڑی خوشی سے اس تکلیف کو برداشت کرتے گئے اور جب بھی ان پر گوبر پھینکا جاتا تو بڑے مزے سے کہتے کہ ’’ایہہ دِن کِتّھوں، اے خوشیاں کِتّھوں‘‘۔ اور بتانے والے نے بتایا کہ ذرا بھی ان کی پیشانی پر بل نہ آتا۔ غرض اس کے مختلف وَرژن ہیں۔ مختلف بیان ہیں۔ لیکن بہرحال اصل الفاظ یہ نہ بھی ہوں تو مطلب یہی ہے کہ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے ماتھے پر کوئی بل نہیں آیا اور اس کو یہ سمجھا کہ اس مخالفت کی وجہ سے جو مجھ پر ہو رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ بہرحال فرماتے ہیں کہ غرض بہت ہی مخلص انسان تھے۔ وہ اپنے احمدی ہونے کا موجب ایک عجیب واقعہ سنایا کرتے تھے۔ احمدی گو وہ کچھ عرصہ بعد میں ہوئے ہیں مگر انہوں نے دعویٰ سے بہت ہی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا تھا۔ درمیان میں کچھ وقفہ پڑ گیا۔ انہوں نے ابتدا میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا تو پیدل قادیان آئے۔ یہاں آ کر پتا لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ شاید کسی مقدمے میں پیشی تھی یا کوئی اور وجہ تھی۔ مجھے صحیح معلوم نہیں۔ آپ فوراً گورداسپور پہنچے۔ وہاں انہیں حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم ملے۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیرینہ خادم اور دعویٰ سے پہلے آپ کے ساتھ رہنے والے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذیل گھر میں یا کہیں اور ٹھہرے ہوئے تھے اور جس کمرے میں آپ مقیم تھے اس کے دروازے پر چِک پڑی ہوئی تھی۔ مولوی برہان الدین صاحب کے دریافت کرنے پر حافظ حامد علی صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے (مولوی برہان الدین صاحب نے) کہا مَیں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ حافظ صاحب نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصروفیت کی وجہ سے منع کیا ہے اور حکم دے رکھا ہے کہ آپ کو نہ بلایا جائے۔ مولوی صاحب نے منتیں کیں۔ کسی طرح ملاقات کروا دو۔ مگر حافظ صاحب نے کہا میں کس طرح عرض کر سکتا ہوں جبکہ آپ نے ملنے سے منع کیا ہوا ہے۔ لیکن آخر بہت سی منتوں کے بعد انہوں نے حافظ صاحب سے اتنی اجازت لے لی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چِک سے جھانک کر زیارت کر لیں۔ یا یہ کہ ان کی نظر بچا کر انہوں نے دیکھ لیا۔ بہرحال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں اس وقت مجھے تفصیل یا دنہیں۔ وہ اس کمرے کی طرف گئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور چِک اٹھا کر جھانکا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے ہیں۔ اس وقت آپ کی دروازے کی طرف پشت تھی اور بڑی تیزی سے دیوار کی دوسری طرف جا رہے تھے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی جب آپ کتاب، اشتہار یا کوئی مضمون لکھتے تو بسا اوقات ٹہلتے ہوئے لکھتے جاتے اور آہستہ آواز سے اسے ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے۔ اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی مضمون لکھ رہے تھے اور بڑی تیزی سے ٹہلتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے۔ دیوار کے قریب پہنچ کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس مڑنے لگے تو مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں وہاں سے بھاگا تا آپ کہیں مجھے دیکھ نہ لیں۔ حافظ حامد علی صاحب نے یا کسی اور نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر لی۔ وہ کہنے لگے بس پتا لگ گیا اور پنجابی میں کہنے لگے کہ جیڑا کمرے وِچ ایناں تیز تیز چلدا اے اس نے کسی دور جگہ ہی جانا ہے۔ یعنی جو کمرے میں اس قدر تیز چل رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ منزل مقصود بہت دور ہے اور اسی وقت آپ کے دل میں یہ بات جم گئی کہ آپ دنیا میں کوئی عظیم الشان کام کر کے رہیں گے۔‘‘
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ’’یہ ایک نکتہ ہے مگر اس کو نظر آ سکتا ہے جسے روحانی آنکھیں حاصل ہوں۔ وہ اس وقت بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات کئے چلے گئے۔ مگر چونکہ یہ بات دل میں جم چکی تھی اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی اور پھر اس قدر اخلاص بخشا کہ انہیں کسی کی مخالفت کی پرواہ ہی نہ رہی۔‘‘
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’تیزی کے ساتھ کام کرنے سے اوقات میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔‘‘ اور پھر آپ نے فرمایا کہ ’’بچوں کو جلدی کام کرنے اور جلدی سوچنے کی عادت ڈالی جائے۔ مگر جلدی سے مراد جلد بازی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیزی سے کام کرنا ہے۔ جلد باز شیطان ہے۔ لیکن سوچ سمجھ کر جلدی کام کرنے والا خدا تعالیٰ کا سپاہی ہے۔‘‘ یہ سستی بہت سوں میں پیدا ہوتی ہے کہ آرام کر لیں، بعد میں کام کر لیں گے تو پھر ہمیشہ کام لیٹ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس صرف بچوں کی بات نہیں ہے۔ بڑوں اور عہدیداروں کو بھی اپنے کاموں میں تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اس مسیح کے ماننے والے ہیں جنہوں نے وقت کو بڑی قدر کرتے ہوئے استعمال کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً بھی فرمایا کہ ان کا وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ پس ہمیں اس طرف توجہ رکھنی چاہئے۔
پھر حضرت مسیح موعود کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپ دن بھر گھر کے اندر کام کرتے لیکن روزانہ ایک دفعہ سیر کے لئے ضرور جاتے۔‘‘ (تحریر، تقریر، ملاقاتیں یہ سارے کام ہوتے لیکن سیر کے لئے ضرور جاتے۔ ) اور چوہتر پچہتّر برس کی عمر کے باوجود سیر پر اس قدر باقاعدگی رکھتے۔ (اب آپ نے عمر یہاں اندازاً (بیان) فرمائی ہے۔ اس میں بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو عادت پڑ جاتی ہے کہ یہاں حوالہ سن لیا تو پھر بحث شروع ہو جائے گی یہ تہتر سال تھی یا چوہتر سال تھی یا پچہتّر سال تھی اندازاً حضرت مصلح موعود بیان فرما رہے ہیں تو بہر حال فرماتے ہیں کہ اتنی عمر کے باوجود سیر پر اس قدر باقاعدگی رکھتے) ’’کہ آج وہ ہم سے نہیں ہو سکتی۔ ہم بعض دفعہ سیر پر جانے سے رہ جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور سیر کے لئے تشریف لے جاتے۔‘‘ (آپ نے فرمایا) ’’کھلی ہوا کے اندر چلنا پھرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا دماغ کے لئے مفید ہوتا ہے اور جب تحریک جدید کے بورڈر، (بورڈرز کو یہ نصیحت فرما رہے ہیں ) کھلی ہوا میں رہ کر مشقت کا کام کریں گے تو جہاں ان کی صحت اچھی رہے گی وہاں ان کا دماغ بھی ترقی کرے گا اور وہ دنیا کے لئے مفید وجود بن جائیں گے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد16 صفحہ836تا 839)
پس آجکل کھلی فضا میں کھیلنے کی طرف بھی بچوں اور نوجوانوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور توجہ دلانے کی ضرورت بھی ہے اور جامعات کے طلباء کے لئے تو خاص طور پر کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر کھیلنا لازمی قرار دیا جانا چاہئے۔ آجکل ٹی وی اور اس سے متعلقہ کھیلوں نے جو باہر کی ورزشیں ہیں ان کو بالکل بند کر دیا ہے۔ اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو بہر حال سیر اور کھیلیں ہونی چاہئیں۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ موت سے ڈرنے والوں کو دشمن ڈراتا ہے، آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واقعہ کو جو مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا ہے اُسے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولویوں نے فتویٰ دے دیا کہ جو شخص مرزا صاحب کے پاس جائے گا یا ان کی تقریروں میں شامل ہو گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ یہ کافر اور دجال ہیں۔ ان سے بولنا، ان کی باتیں سننا اور ان کی کتابیں پڑھنا بالکل حرام ہے بلکہ ان کو مارنا اور قتل کرنا ثواب کا موجب ہے‘‘۔ (تو مولویوں کی یہ بات کوئی نئی نہیں ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔ ) مگر آپ کی موجودگی میں انہیں فساد کی جرأت نہ ہوئی (کیونکہ اس وقت وہاں پولیس کا بھی پہرا تھا اور سرکاری افسر بھی تھے اور لوگ بھی کافی تھے اس لئے اس وقت تو فساد کی جرأت نہ ہوئی) کیونکہ چاروں طرف سے احمدی جمع تھے۔ انہوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ ان کے جانے کے بعد فساد کیا جائے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں سے روانہ ہوئے اور گاڑی میں سوار ہوئے تو دور تک آدمی کھڑے تھے جنہوں نے پتھر مارنے شروع کر دئیے مگر چلتی گاڑی پر پتھر کس طرح لگ سکتے تھے۔ شاذ و نادر ہی ہماری گاڑی کو کوئی پتھر لگتا۔ وہ مارتے تو ہم کو تھے اور لگتا ان کے کسی اپنے آدمی کو جا کے تھا۔ پس ان کایہ منصوبہ تو پورا نہ ہو سکا۔ باقی احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے وہاں جمع تھے ان میں سے کچھ تو ارد گرد کے دیہات کے رہنے والے تھے جو آپ کی واپسی کے بعد ادھر ادھر پھیل گئے اور جو تھوڑے سے مقامی احمدی رہ گئے یا باہر کی جماعتوں کے مہمان تھے ان پر مخالفین نے سٹیشن پر ہی حملے شروع کر دئیے۔ ان لوگوں میں سے جن پر حملہ ہوا ایک مولوی برہان الدین صاحب بھی تھے۔ (ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ ) مخالفوں نے ان کا تعاقب کیا۔ پتھر مارے اور برا بھلا کہا (اور پھر وہی واقعہ ایک دکان میں لے جا کے ان کے منہ میں گوبر ڈالا گیا۔ تو یہ بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں تو جب مولوی صاحب کے ساتھ یہ زیادتی ہو رہی تھی ظلم ہو رہا تھا) تو بجائے اس کے کہ مولوی صاحب گالیاں دیتے یا شور مچاتے۔ جنہوں نے وہ نظارہ دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ وہ بڑے اطمینان اور خوشی سے یہ کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ یہ دن کسے نصیب ہوتا ہے۔ یہ دن تو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے آنے پر ہی نصیب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے جس نے مجھے یہ دن دکھایا۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں جو لوگ حملہ کر رہے تھے ان کے نفس نے ملامت کی اور وہ شرمندگی اور ذلت سے آپ کو چھوڑ کے چلے گئے۔ تو بات یہ ہے کہ جب دشمن دیکھتا ہے کہ یہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو کہتا ہے آؤ ہم انہیں ڈرائیں‘‘۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد7 صفحہ582-583)
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈراتا ہے۔ پس جب کوئی شخص ڈرتا ہے تو دشمن سمجھتے ہیں کہ یہ شیطانی آدمی ہے۔ لیکن اگر وہ ڈرتا نہیں بلکہ ان حملوں اور تکلیفوں کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ عزت کا مقام عطا فرمایا اور اس نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ میں اس کی خاطر ماریں کھا رہا ہوں تو دشمن مرعوب ہو جاتا ہے اور آخر اس میں ندامت پیدا ہو جاتی ہے۔
مولوی برہان الدین صاحب کے تعلق میں ایک اور واقعہ بھی ہے۔ ’’مولوی برہان الدین صاحب (جیسا کہ بتایا گیا) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مخلص صحابی تھے۔ نہایت خوش مذاق آدمی تھے۔ انہی کی وفات اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مدرسہ احمدیہ کے قیام کا خیال پیدا ہوا تھا (جو بعد میں پھر جامعہ احمدیہ بن گیا۔ تو فرماتے ہیں کہ) وہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور ذکر کیا کہ میں نے خواب میں اپنی فوت شدہ ہمشیرہ کو دیکھا ہے۔ وہ مجھے ملی ہے۔ میں نے اسے پوچھا کہ بہن بتاؤ وہاں تمہارا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگی خدا نے بڑا فضل کیا ہے مجھے اس نے بخش دیا اور اب میں جنت میں آرام سے رہتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ بہن وہاں کرتی کیا ہو؟ وہ کہنے لگی یہ بھی لطیفہ ہے۔ کہنے لگی بیر بیچتی ہوں۔ مولوی برہان الدین صاحب کہنے لگے مَیں نے خواب میں ہی کہا۔ ’بہن ساڈھی قسمت وی عجیب اے، سانوں جنت دے وِچ وی بیر ای ویچنے پئے‘۔ ان کے خاندان میں چونکہ غربت تھی اس لئے خواب میں بھی ان کا خیال ادھر گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رؤیا سن کر فرمایا مولوی صاحب! اس کی تعبیر تو اور ہے مگر خواب میں بھی آپ کو تمسخر ہی سوجھا اور آپ کو مذاق کرنا نہ بھولا۔ (کیونکہ مذاق کیا کرتے تھے۔) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بیر درحقیقت جنتی پھل ہے اور اس سے مراد ایسی کامل محبت ہوتی ہے جو لازوال ہو۔ کیونکہ سِدْرَۃْ لازوال الٰہی محبت کا مقام ہے۔ پس اس کی تعبیر یہ تھی کہ میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی ہوں تو بہن کا مطلب یہ تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی ہوں۔ (پھر آپ وضاحت میں فرماتے ہیں ) غرض مومن تو کسی جگہ رہے اسے کام کرنا پڑے گا یعنی یہ نہیں کہ مرنے کے بعد جنت میں چلے گئے تو صرف آرام ہی آرام ہے۔ کام کرنا پڑے گا جیسا کہ ان کی ہمشیرہ نے انہیں بتایا کہ میں کیا کام کرتی ہوں اور اگر کسی وقت کسی کے ذہن میں یہ آیا کہ اب آرام کا وقت ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس نے اپنے ایمان کو کھو دیا کیونکہ جس بات کو اسلام نے ایمان اور آرام قرار دیا ہے وہ تو کام کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ(الانشراح: 8-9)۔ کہ جب تم فارغ ہو جاؤ تو اور زیادہ محنت کرو اور اپنے رب کی طرف دوڑ پڑو۔ یہ نکتہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ تمہارے لئے ان معنوں میں کوئی آرام نہیں جسے دنیا کے لوگ آرام کہتے ہیں۔ لیکن جن معنوں میں قرآن کریم آرام کا وعدہ کرتا ہے اسے تم آسانی سے حاصل کر سکتے ہو۔ دنیا جن معنوں میں آرام کا مطلب لیتی ہے وہ یقینا غلط ہے اور ان معنوں سے جس شخص نے آرام کی تلاش کی وہ اس جہان میں بھی اندھا رہے گا اور آخرت میں بھی اندھا اٹھے گا‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد16 صفحہ612-613)
پس مومن کا کام ہے کہ اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھے۔ ایک ہدف کو حاصل کر کے دوسرے ٹارگٹ کی تلاش کے لئے کمربستہ ہو جائے۔ اور یہی انفرادی اور قومی ترقی کا نسخہ ہے اور راز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت، نماز با جماعت کا التزام، معاندین و مخالفین کی مخالفتوں کا انجام، افواہوں کے پھیلانے سے باز رہنے، وقت کے ضیاع سے بچنے، سیر کی باقاعدگی وغیرہ متفرق امور سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و فرمودات سے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ مختلف واقعات کا دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ اور احباب جماعت کو نصائح۔
فرمودہ مورخہ 06؍فروری 2015ء بمطابق 06تبلیغ 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔