پیشگوئی مصلح موعود کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات
خطبہ جمعہ 20؍ فروری 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج 20؍فروری کا دن ہے اور یہ دن جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے نشان مانگا تھا کیونکہ غیر مسلموں کے اسلام پر حملے انتہا تک پہنچ چکے تھے اس لئے آپ علیہ السلام نے چلّہ کشی فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی نشان کی قبولیت دعا کے نتیجے میں آپ کو خبر دی۔ اس کی تفصیلات کا تو مَیں اس وقت ذکر نہیں کروں گا۔ اس بارے میں پہلے کئی خطبات دے چکا ہوں۔ پھر ہر سال جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے جلسے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ان میں بھی علماء اور مقررین اس بارے میں بیان کرتے ہیں۔ یہ تفصیل تو جماعت کے سامنے آتی رہتی ہے۔ اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ آئے گی۔ آجکل جلسے ہو رہے ہیں۔ آج مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے الفاظ میں، پیشگوئی کے بارے میں جو آپ نے مختلف مواقع پر فرمایا، وہ آپ کے سامنے رکھوں گا۔ تمام پہلوؤں کا تو احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ چند ایک باتیں، چند ایک حوالے پیش کروں گا۔
1944ء میں پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’آج سے پورے اٹھاون سال پہلے جس کو انسٹھ واں سال شروع ہو رہا ہے 20؍ فروری کے دن 1886ء میں (یہ ہوشیار پور کی تقریر ہے) اس شہر ہوشیارپور میں اس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے (جہاں آپ تقریر فرما رہے تھے۔ میدان کے سامنے ہی مکان تھا)۔ ایک ایسا مکان تھا جو اُس وقت طویلہ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنا رکھا ہویا حسب ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جاتے تھے لوگوں کی اس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانیٔ اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اس کی نصرت اور تائید کا نشان طلب کرنے کے لئے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں۔ چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اس کو ایک نشان دیا۔ وہ نشان یہ تھا کہ مَیں نہ صرف ان وعدوں کو جو میں نے تمہارے ساتھ کئے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اس وعدے کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لئے مَیں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متّصف ہو گا۔ وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ کلام الٰہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا۔ رحمت اور فضل کا نشان ہو گا اور وہ دینی اور دنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اسے عطا کئے جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘۔ (ماخوذاز دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ146-147)
پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ دشمنان سلسلہ یہ اعتراضات کرتے رہتے ہیں کہ جب یہ اشتہار شائع ہوا۔ پیشگوئی کا پورا حوالہ نہیں دیا گیا۔ الفاظ نہیں پڑھے گئے کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ پہلے تو آپ نے فرمایا کہ جب یہ اشتہار شائع ہوا تو دشمنوں نے اس پر بھی اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ تب 22؍مارچ 1886ء کو آپ نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا۔ دشمنوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ ایسی پیشگوئی کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا۔ کیا ہمیشہ لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا نہیں ہوا کرتے؟ شاذ و نادر کے طور پر ہی کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کا کوئی لڑکا نہ ہو یا جس کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں ورنہ عام طور پر لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کبھی ان کی پیدائش کو کوئی خاص نشان نہیں قرار دیا جاتا۔ پس اگرآپ کے ہاں بھی کوئی لڑکا پیدا ہو جائے تو اس سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ دنیا میں اس ذریعے سے خدا تعالیٰ کا کوئی خاص نشان ظاہر ہوا ہے۔ آپ نے لوگوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے 22؍مارچ کے اشتہار میں تحریر فرمایا کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا۔ پھر اسی اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ’بفضلہ تعالیٰ و احسانہ وببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پرپھیلیں گی‘۔ بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ہاں محض ایک بیٹا ہونے کی خبر دیتے تب بھی یہ خبر اپنی ذات میں ایک پیشگوئی ہوتی کیونکہ دنیا میں ایک حصہ خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو بہر حال ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں کوئی اولادنہیں ہوتی۔ اور دوسرے آپ نے جب یہ اعلان کیا اس وقت آپ کی عمر پچاس سال سے اوپر تھی اور ہزاروں ہزار لوگ دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ہاں پچاس سال کے بعد اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔ اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں مگر پیدا ہونے کے تھوڑے عرصے کے بعد مر جاتے ہیں۔ اور یہ سارے شبہات اس جگہ موجود تھے۔ پس اوّل تو کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہو سکتا لیکن آپ بطور تنزّل اس اعتراض کو تسلیم کر کے فرماتے ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ محض کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا تو سوال یہ ہے کہ میں نے محض ایک لڑکے کی پیدائش کی کب خبر دی ہے؟ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرما کر ایک ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری اور باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ (ماخوذ از الموعود۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ529-530)
پس یہ اس الہام کا خلاصہ تھا کہ کس طرح حضرت مصلح موعود کی برکتیں، یہ ساری باتیں پھیلیں۔ مَیں اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا۔ آگے کچھ بیان بھی ہو گا۔
پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں، اُس زمانے میں بھی یہ اعتراض تھے کہ آپ مصلح موعودنہیں بلکہ بعد میں کہیں تین چار سو سال بعد یا سو سال یا دو سو سال بعد مصلح موعود پیدا ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی آئندہ نسل سے تین چار سو سال کے بعد آئے گا موجودہ زمانے میں نہیں آ سکتا۔ مگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا خوف نہیں کرتا کہ وہ پیشگوئی کے الفاظ کو دیکھے اور ان پر غور کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں اِس وقت اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اندر نشان نمائی کی کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ پنڈت لیکھرام اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ اِندرمَن اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! تُو ایسا نشان دکھا جو اِن نشان طلب کرنے والوں کو اسلام کا قائل کر دے۔ تو ایسا نشان دکھانا تھا جو اِندرمَن مرادآبادی وغیرہ کو اسلام کا قائل کر دے۔ اور یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو خدا نے آپ کو یہ خبر دی کہ آج سے تین سو سال کے بعد ہم تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گے جو اسلام کی صداقت کا نشان ہو گا۔ کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ہے جو اس بات کو معقول قرار دے سکتا ہے؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص سخت پیاسا ہو اور کسی شخص کے دروازے پر جائے اور کہے بھائی مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے، خدا کے لئے مجھے پانی پلاؤ۔ اور وہ آگے سے یہ جواب دے کہ صاحب آپ گھبرائیں نہیں۔ مَیں نے امریکہ خط لکھا ہوا ہے۔ وہاں سے اِسی سال کے آخر تک ایک اعلیٰ درجے کا ایسنس (essence) آ جائے گا اور اگلے سال آپ کو شربت بنا کر پلا دیا جائے گا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات نہیں کر سکتا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات خدا اور اس کے رسول کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔
پنڈت لیکھرام، منشی اِندرمَن مرادآبادی اور قادیان کے ہندو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ اس کا خدا دنیا کو نشان دکھانے کی طاقت رکھتا ہے ایک جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اگر اس دعوے میں کوئی حقیقت ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تُو مجھے رحمت کا نشان دکھا تُو مجھے قدرت اور قربت کا نشان عطا فرما۔ پس یہ نشان تو ایسے قریب ترین عرصے میں ظاہر ہونا چاہئے تھا جبکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 1889ء میں جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نشان مانگا تھا۔ پھر جوں جوں میں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے۔‘‘ (ماخوذ از ’’مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ222-223)
اپنی ایک رؤیا کا ذکر فرماتے ہوئے کہ کس طرح یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مصلح موعود پر منطبق ہوتی ہے، حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ان مشابہتوں کو بیان کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے ساتھ میری رؤیا کو ہیں۔ (ایک رؤیا آپ نے دیکھی تھی جیسا کہ مَیں نے کہا۔ فرماتے ہیں کہ) رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا کہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ۔ ان الفاظ کا میری زبان پر جاری ہونا میرے لئے اس قدر عجوبہ تھا۔ (ظاہر میں تو یہ حیرت انگیز عجوبہ ہوہی سکتا ہے لیکن خواب میں ہی میری ایسی کیفیت ہو گئی) کہ قریب تھا اس تہلکہ سے مَیں جاگ اٹھتا کہ میرے منہ سے یہ کیا الفاظ نکل گئے ہیں۔ بعد میں بعض دوستوں نے توجہ دلائی کہ مسیحی نفس ہونے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشتہار مؤرخہ 20؍فروری 1886ء میں بھی آتا ہے۔ گو اُس روز میں یہ اشتہار پڑھ کر آیا تھا لیکن جب مَیں خطبہ پڑھ رہا تھا اس وقت اشتہار کے یہ الفاظ میرے ذہن میں نہ تھے۔ خطبے کے بعد غالباً دوسرے دن مولوی سید سرور شاہ صاحب نے یہ توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشتہار میں بھی لکھا ہے کہ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ اس پیشگوئی میں بھی مسیح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دوسرے مَیں نے رؤیا دیکھا کہ میں نے بت تڑوائے ہیں۔ اس کا اشارہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں پایا جاتا ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ فرماتے ہیں کہ روح الحق توحید کی روح کو کہا جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اصل چیز خدا تعالیٰ کا وجود ہی ہے، باقی سب چیزیں اظلال اور سائے ہیں۔ پس روح الحق سے مراد توحید کی روح ہے جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ اس کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ تیسرے میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں بھاگ رہا ہوں۔ چنانچہ خطبہ میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ رؤیا میں یہی نہیں کہ میں تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں اور زمین میرے قدموں کے تلے سمٹتی چلی جاتی ہے۔ پسر موعود کی پیشگوئی میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اسی طرح رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں اور پھر وہاں بھی میں نے اپنے کام کو ختم نہیں کیا بلکہ میں اور آگے جانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ جیسے مَیں نے کہا اے عبدالشکور! اب میں آگے جاؤں گا اور جب اس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ اس عرصے میں تُو نے توحید کو قائم کر دیا ہے، شرک کو مٹا دیا ہے اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے جو کلام نازل فرمایا اس میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ یہ الفاظ بھی اس کے دُور دُور جانے اور چلتے چلے جانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ پھر یہ پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اس کی طرف بھی میری رؤیا میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ خواب میں مَیں بڑے زور سے کہہ رہا ہوں کہ مَیں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے۔ پھر لکھا تھا وہ جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ اس کے متعلق بھی رؤیا میں وضاحت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ رؤیا میں میری زبان پر تصرّف کیا گیا اور میری زبان سے خدا تعالیٰ نے بولنا شروع کر دیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے کلام فرمایا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور آپ نے میری زبان سے بولنا شروع کر دیا۔ یہ جلال الٰہی کا ایک عجیب ظہور تھا جس کا پیشگوئی میں بھی ذکر پایا جاتا تھا۔ پس یہ بھی ان دونوں میں ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔
پھر لکھا تھا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا اور یہ الفاظ ہیں پیشگوئی کے اور رؤیا میں بھی یہ دکھایا گیا کہ ایک قوم ہے جس میں مَیں ایک شخص کو لیڈر مقرر کرتا ہوں اور ان الفاظ میں جیسے ایک طاقتور بادشاہ اپنے ماتحت کو کہہ رہا ہو اسے کہتا ہوں کہ اے عبدالشکور! تم میرے سامنے اس بات کے ذمہ دار ہو گے کہ تمہارا ملک قریب ترین عرصے میں توحید پر ایمان لے آئے۔ شرک کو ترک کر دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کو اپنے مدنظر رکھے۔ یہ صاحب شکوہ اور عظمت کے ہی کلمات ہو سکتے ہیں جو رؤیا میں میری زبان پر جاری کئے گئے۔
اور یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس پر کلام الٰہی نازل ہو گا اور رؤیا میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ چنانچہ الٰہی تصرف کے تحت رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ اب مَیں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں۔ پس اس حصے میں پیشگوئی کے انہی الفاظ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔
پھر رؤیا کا یہ حصہ بھی پیشگوئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتا ہے کہ رؤیا میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر قدم جو مَیں اٹھا رہا ہوں وہ کسی پہلی وحی کے مطابق اٹھا رہا ہوں۔ اب مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ جو مَیں سمجھتا ہوں کہ آئندہ میں جو سفر کروں گا وہ ایک سابق وحی کے مطابق ہو گا۔ اس سے اشارہ مصلح موعود والی پیشگوئی ہی کی طرف تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ میری زندگی اس پیشگوئی کا نقشہ ہے اور الٰہی تصرف کے ماتحت ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ پہلی پیشگوئی کے متعلق جو یہ ابہام رکھا گیا کہ یہ کس کی پیشگوئی ہے اس میں یہ حکمت تھی تا مصلح موعود کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلا کر اس ذہنی علم کا رؤیا میں دخل نہ ہو جائے جو مجھے اس پیشگوئی کی نسبت حاصل تھا۔ اس قسم کی تدابیر رؤیا اور الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اختیار کی جاتی ہیں اور اسرار سماویہ میں سے ایک سرّ ہیں۔ یہ وہ مشابہتیں ہیں جو میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں پائی جاتی ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد25 صفحہ69تا71۔ خطبہ جمعہ 4 فروری 1944ء)
1936ء کی شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے جب صحابہ کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور تابعین کی بھی کثرت تھی، حضرت مصلح موعودنے فرمایا۔ اب یہ 1936ء میں کافی عرصہ پہلے، قریباً آٹھ سال پہلے کا ذکر تھا جب آپ نے پیشگوئی مصلح موعود کے مطابق یہ اعلان فرمایا کہ مَیں ہی مصلح موعود ہوں۔ آٹھ سال پہلے آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’اس وقت ہماری جماعت کے لئے تو خلافت کا ہی سوال نہیں۔ دو اور سوال بھی ہیں۔ ایک تو قرب زمانہ نبوت کا سوال اور دوسرا موعود خلافت کا سوال۔ یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو ہر خلیفہ کے ماننے والے کو نہیں مل سکتیں۔ اس کا مختصر ذکر مَیں پہلے بھی ایک دفعہ گزشتہ سال شاید کسی خطبے میں کر چکا ہوں۔ فرمایا کہ آج سے سو دو سو سال بعد بیعت کرنے والوں کو یہ باتیں حاصل نہیں ہو سکیں گی۔ اس زمانے کے عوام تو الگ رہے خلفاء بھی اس بات کے محتاج ہوں گے کہ ہمارے قول، ہمارے عمل اور ہمارے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں۔ ہماری بات تو الگ رہی وہ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ آپ لوگوں کے قول، آپ لوگوں کے عمل اور آپ لوگوں کے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں۔ (اس وقت جو صحابہ موجود تھے ان سے یہ ذکر ہو رہا ہے۔) فرماتے ہیں کہ وہ خلفاء ہوں گے مگر کہیں گے زیدنے فلاں خلافت کے زمانے میں یوں کہا تھا، یوں کیا تھا۔ ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے۔ پس یہ صرف خلافت اور نظام کا ہی سوال نہیں بلکہ ایسا سوال ہے جو مذہب کا سوال ہے۔ پھر صرف خلافت کا سوال نہیں، ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے۔ الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے۔ ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کرواتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں ہے۔ آپ نے اپنی خلافت کے بارے میں فرمایا کہ یہ ویسی خلافت نہیں۔ یعنی مَیں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ مَیں خلیفہ ہوں گا۔ پس مَیں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ مَیں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اس کو رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز نہیں آتے۔ پھر یہ کہنے کا موقع کہ فلاں بات ہم سے پچیس تیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے نبی نے یوں کہی یہ بھی روز روز میسّر نہیں آتا۔ جو روحانیت اور قرب کا احساس اس شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آج سے تیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے مامور اور مُرسَل نے یہ فرمایا تھا اس شخص کے دل میں کیونکر پیدا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ آج سے دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ کے فرستادے نے فلاں بات یوں کہی تھی کیونکہ دوسو سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق نہیں کر سکتا لیکن بیس تیس سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق کر سکتا ہے‘‘۔ (ماخوذ از خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ18-19)۔ اور اس لحاظ سے آپ نے فرمایا کہ اس زمانے کے لوگوں کی جو باتیں ہیں وہ آئندہ خلفاء ان سے سبق لے کر بیان کیا کریں گے۔
پھر لوگوں کے یہ کہنے پر کہ اگر آپ مصلح موعود ہیں تو پھر اعلان کیوں نہیں کرتے کیونکہ اعلان تو آپ نے 1944ء میں کیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ’’لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعویٰ کرائیں کہ میں مصلح موعود ہوں مگر مَیں نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ مخالف کہتے ہیں کہ آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں مگر آپ خود دعویٰ نہیں کرتے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ مجھے دعویٰ کی ضرورت کیا ہے۔ اگر مَیں مصلح موعود ہوں تو میرے دعویٰ نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آ سکتا۔ جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں۔ فرمایا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں اور مجدّد بھی غیر مامور ہوتا ہے تو پھر ایسے دعویٰ کی مجھے کیا ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ریل دعویٰ کرے۔ دَجّال کی پیشگوئی موجود ہے مگر کیا دجّال کا دعویٰ کرنا ضروری ہے؟ ہاں مامور کی پیشگوئی میں دعویٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔ باقی غیر مامور کو تو خواہ پتا بھی نہ ہو کہ وہ پیشگوئی اس کی ذات میں پوری ہو گئی کوئی حرج کی بات نہیں۔ امّت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا۔ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اور نگزیب بھی اپنے زمانے کا مجددنظر آتا ہے۔ مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا؟ عمر بن عبدالعزیز کو مجدد کہا جاتا ہے۔ کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے؟ پس غیر مامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں۔ دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے۔ غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کام پورا ہوتا نظر آ جائے تو پھر اس کے دعویٰ کی کیا ضرورت ہے۔ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اگر عمر بن عبدالعزیز مجدد ہونے سے انکار بھی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعوی کی ضرورت نہیں۔ دعویٰ صرف ان مجددین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں۔ ہاں جو غیر مامور اپنے زمانے میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کر دے، دشمن کے حملوں کو توڑ دے، اسے چاہے پتا بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے۔ (مجدد کا کام اسلام میں کیا ہے؟ یہی کہ جو اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو، تعلیم کو کھڑا کر دے، اس کے دشمن کے حملوں کو اسلام کے خلاف توڑ دے وہ مجدد ہے۔ فرمایا کہ) ہاں مامور مجدّد وہی ہو سکتا ہے جو دعویٰ کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے۔ پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے گھبراہٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی ہتک کی بات نہیں۔ اصل عزّت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے رستے پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا۔ اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے کر اپنے غلط دعوے کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کر لے تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کر سکتا۔ اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے، حاصل نہیں کیا۔ اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہو کر رہے گا‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد21 صفحہ59-60)
پھر 1944ء میں جب آپ نے دعویٰ کیا اور حضرت مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بار بار میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ میں ان کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں۔ (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے) مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کرتی ہے۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خود بخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا مَیں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانے کی گواہی میرے خلاف ہو گی۔ دونوں صورتوں میں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو مَیں یہ کہہ کر کیوں گناہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔ اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے، وقت خود بخود ظاہر کر دے گا۔ غرض جیسے الہام الٰہی میں کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔ دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا، اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ اس لئے لمبے عرصے کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا۔ اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔ اسی طرح یہ الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے آ رہی ہے بتاتا تھا کہ خداتعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصے کے بعد ظاہر ہو گی۔ میں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خود بخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانے میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لئے میں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ کسی کشف کا، الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیّت کے ماتحت اگر اس امر کو ظاہر کر دیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔ چنانچہ آج میں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اس نیّت کے ساتھ دیکھیں کہ میں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے۔ ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لئے میں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہو جائے۔ مگر آج پہلی دفعہ مَیں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد25 صفحہ59تا61)
یا تو وہ وقت تھا کہ جب آپ نے فرمایا کہ مجھے ضرورت نہیں کہ کسی قسم کا اعلان کروں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ پر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا اور کھول دیا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں اس لئے اعلان کریں تو اس وقت آپ نے معترضین اور نہ ماننے والوں کو کھلا چیلنج دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مَیں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائیں۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ مَیں نے افتراء سے کام لیا ہے یا اس بارے میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملے میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی مؤکّد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق‘‘۔ (ماخوذ ازالموعود۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ645)
پھر پیشگوئی کے جو بعض حصے تھے ان میں سے کچھ حصے بیان کرتا ہوں۔ مثلاً پیشگوئی کا ایک حصہ یہ ہے کہ ’وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا‘۔ علوم ظاہری کا ایک حصہ حضرت مصلح موعودنے لیا ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علوم ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ علوم ظاہری میں خوب مہارت رکھتا ہو گا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور طاقت اسے یہ علوم ظاہری سکھائے گی اس کی اپنی کوشش اور محنت اور جدوجہد کا اس میں دخل نہیں ہوگا۔ یہاں علوم ظاہری سے مراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں ’پُر کیا جائے گا‘ کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سائنس اور حساب اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھایا جاتا ہے۔ پس پیشگوئیوں کے ان الفاظ کا کہ ’وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا‘ یہ مطلب ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور خدا خود اس کا معلّم ہو گا۔ فرمایا میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا۔ میرے اساتذہ میں سے بعض زندہ ہیں اور بعض فوت ہو چکے ہیں۔ میری تعلیم کے سلسلے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا ہے‘‘۔ (ماخوذ از ’الموعود‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ565-566)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعے مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے۔ جس طرح کسی کو خزانے کی کنجی مل جاتی ہے اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور مَیں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں‘‘۔
لاہور میں آپ لیکچر دے رہے تھے۔ فرمایا کہ ’’یہ لاہور شہر ہے۔ یہاں یونیورسٹی موجود ہے۔ کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے علوم کے ماہر اس جگہ پر پائے جاتے ہیں۔ ان سب سے کہتا ہوں کہ دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے۔ دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آ جائے۔ دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آ جائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے۔ مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا ردّ ہو گیا ہے اور مَیں دعویٰ کرتا ہوں کہ مَیں خدا کے کلام سے اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو ردّ کر کے دکھا دوں گا‘‘۔ (ماخوذ از ’’میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ227)
آپ نے ایک مضمون ’’احمدیت کا پیغام‘‘ لکھا تھا جس میں احمدیت کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لئے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ وضاحت فرمائی تھی۔ اس مضمون میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے ہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک فرشتے نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر پڑھائی اور اُس وقت سے لے کر اس وقت تک سورۂ فاتحہ کے اس قدر مطالب مجھ پر کھلے ہیں کہ ان کی حد ہی کوئی نہیں ہے۔ اور میرا دعویٰ ہے کہ کسی مذہب و ملّت کا آدمی روحانی علوم میں سے کسی مضمون کے متعلق بھی جو کچھ اپنی ساری کتاب میں سے نکال سکتا ہے اس سے بڑھ کر مضامین خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں صرف سورۃ فاتحہ میں سے نکال سکتا ہوں۔ مدّتوں سے مَیں دنیا کو یہ چیلنج دے رہا ہوں مگر آج تک کسی نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ ہستیٔ باری تعالیٰ کا ثبوت، توحید الٰہی کا ثبوت، رسالت اور اس کی ضرورت، شریعت کاملہ کی علامات اور بنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت، دعا، تقدیر، حشر و نشر، جنت و دوزخ ان تمام مضامین پر سورۃ فاتحہ سے ایسی روشنی پڑتی ہے کہ دوسری کتب کے سینکڑوں صفحات بھی اتنی روشنی انسان کو نہیں پہنچاتے۔‘‘ (ماخوذ از ’’احمدیت کا پیغام‘‘۔ انوار العلوم جلد20 صفحہ567)
پھر آپ نے فرمایا کہ عہدۂ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت سے کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اٹھائے۔ وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا۔ مسئلہ نبوت، مسئلہ کفر، مسئلہ خلافت، مسئلہ تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجودنہیں تھا۔ مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے ہی اس مضمون کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جس کو آج دوست اور دشمن سب نقل کر رہے ہیں۔ مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ برا بھلا کہے، جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا۔ مجھ سے بہر حال مدد لینی پڑے گی اور میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جا سکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری۔ ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہوں گی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں بلکہ مَیں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارے میں سب سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں، خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ سے ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ اے نادانو! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے۔ پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو؟ (ماخوذ از ’’خلافت راشدہ‘‘۔ انوار العلوم جلد15 صفحہ587-588)
پھر ایک خطبے میں آپ نے فرمایا کہ ہمارے ایک استاد تھے۔ استاد کا قصہ یہ ہے کہ وہ حضرت مصلح موعود کے درس میں شامل ہوتے تھے لیکن اپنے اور باقی ساتھیوں کے درس میں شامل نہیں ہوتے تھے کہ وہاں مجھے نکات نہیں ملتے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد22 صفحہ472)۔ بہرحال یہ خلاصہ ہے۔
پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’1907ء میں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی۔ جلسے کا موقع تھا بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی موجود تھے۔ مَیں نے سورۃ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب مَیں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ پھر اس وقت حضرت خلیفۃ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ اس لئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریر آدھ گھنٹے یا پون گھنٹے جاری رہی۔ جب مَیں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ میاں ! میں تم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی۔ مَیں تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ رہا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں بہت پڑھنے والا ہوں اور میں نے بڑی بڑی تفسیریں پڑھی ہیں مگر میں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے وہ مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نہ میرا مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر اس وقت ایسے معارف جاری کر دئیے جو پہلے بیان نہیں ہوئے تھے‘‘۔ (ماخوذ از ’’خطبات محمود‘‘ جلد22 صفحہ472-473)
’’وہ علوم باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔ اس کے بارے میں بتاتا ہوں۔ پہلے ظاہری علوم سے پُر ہونے کا ذکر تھا۔ اب باطنی علوم سے پُر کیا جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں۔ جیسے علم غیب ہے جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تا کہ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان کو تازہ کر سکیں۔ سو اس شق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں خوابیں اور الہام مجھے ہوئے ہیں جو علوم غیب پر مشتمل ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی جبکہ خلافت کا کوئی سوال بھی ذہن میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ۔ یعنی وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائیں گے ان لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے قیامت تک غالب رہیں گے۔ یہ الہام میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا۔ یہ وہی آیت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتی ہے مگر وہاں الفاظ یہ ہیں کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ (آل عمران: 56) کہ مَیں تیرے منکروں پر تیرے مومنوں کو قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں۔ مگر مجھے جو الہام ہوا وہ یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ۔ جو پہلے سے زیادہ تاکیدی ہے۔ یعنی مَیں اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں یقینا تیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا۔ یہ الہام جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا۔ میں عرصہ دراز سے یہ الہام دوستوں کو سناتا چلا آ رہا ہوں۔ اس کے نتیجے میں دیکھو کہ کس کس طرح میری مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح دی۔ غیر مبائعین نے حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں یہ کہہ کہہ کر کہ ’ایک بچہ ہے جس کی خاطر جماعت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ پروپیگنڈہ کیا مگر بالکل بے اثر ثابت ہوا۔ مَیں ان باتوں سے اس وقت اتنا ناواقف تھا کہ ایک دن صبح کی نماز کے وقت میں حضرت امّاں جان کے کمرے میں جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد میں سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آوازیں آنی شروع ہو گئیں جیسے کسی بات پر جھگڑ رہے ہوں۔ ان میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی۔ میں نے سنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تقویٰ کرنا چاہئے۔ خدا کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنا چاہئے۔ ایک بچے کو آگے کر کے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے۔ میں اس وقت ان باتوں سے اس قدر ناواقف تھا کہ مجھے ان کی یہ بات سن کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے باہر نکل کر غالباً شیخ یعقوب علی صاحب سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچے کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے۔ وہ بچہ ہے کون جس کی طرف شیخ صاحب اشارہ کر رہے تھے۔ وہ مجھ سے ہنس کر کہنے لگے کہ وہ بچہ تم ہی ہو اور کون ہے۔ گویا میری اور ان کی مثال ایسی تھی جیسی کہتے ہیں کہ ایک نابینا اور بینا دونوں کھانا کھانے بیٹھے۔ نابینے نے سمجھا کہ مجھے تو نظر نہیں آتا اور اسے سب کچھ نظر آتا ہے۔ لازماً یہ مجھ سے زیادہ کھا رہا ہو گا۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی اس نے جلدی جلدی کھانا کھانا شروع کر دیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہو گی اور اب یہ بھی جلدی جلدی کھانے لگ گیا ہو گا تو مَیں کیا کروں۔ چنانچہ اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا۔ پھر سمجھا کہ اب یہ بھی اس نے دیکھ لیا ہو گا اور اس نے بھی دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ہوگا۔ مَیں اب کس طرح زیادہ کھاؤں۔ اس خیال کے آنے پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دئیے۔ پھر اسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہو گی اور اس نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا ہو گا۔ یہ خیال آنے پر اس نے تھالی اٹھائی (جو بڑا ڈش تھا)۔ کہنے لگا کہ اب میرا حصہ رہ گیا ہے تم اپنا حصہ لے چکے ہو۔ اور جو دوسرا آدمی تھا اس بیچارے کی یہ حالت تھی کہ اس نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایا تھا۔ وہ اس نابینا کی حرکت دیکھ دیکھ کر ہی دل میں ہنس رہا تھا کہ یہ کر کیا رہا ہے۔ (فرماتے ہیں کہ) یہی میرا اور ان کا حال ہے۔ یہ بھی اس نابینا کی طرح ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں کہ اب یہ یوں کر رہا ہو گا۔ اب یہ اس طرح جماعت کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ اور مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ میرے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے۔ میں سوائے خدا تعالیٰ کی ذات پر توکّل رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور حالات سے ایسا ناواقف تھا کہ سمجھتا تھا کہ کوئی اور بچہ ہے جس کا یہ ذکر ہو رہا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ اس وقت بڑا رسوخ رکھتے تھے اور جماعت پر ان کا خاص طور پر اثر تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پروپیگنڈے کو بے اثر کیا اور مجھے اس نے فتح اور کامرانی عطا فرمائی‘‘۔ (ماخوذ از ’’الموعود‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ579تا581)
پھر ’’تین کو چار کرنے‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی صحیح نہیں کہ تین کو چار کرنے والے کی علامت مجھ پر چسپاں نہیں ہوتی۔ مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی رنگ میں تین کو چار کرنے والا ہوں۔ اوّل اس طرح کہ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرزا فضل احمد صاحب اور بشیر اول پیدا ہوئے اور چوتھا مَیں ہوا۔ دوسرے اس طرح کہ میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے اور اس طرح میں نے ان تین کو چار کر دیا یعنی مرزا مبارک احمد، مرزا شریف احمد اور مرزا بشیر احمد اور چوتھا میں۔ تیسرے اس طرح بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندہ اولاد میں سے ہم صرف تین بھائی یعنی مَیں، مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان رکھنے کے لحاظ سے آپ کے روحانی بیٹوں میں شامل تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب آپ کی روحانی ذریّت میں شامل نہیں تھے۔ انہیں حضرت خلیفہ اول پر بڑا اعتقاد تھا مگر باوجود اعتقاد کے آپ کے زمانے میں وہ احمدی نہ ہوئے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک رؤیا سے معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے ہدایت مقدر کی ہوئی ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانے میں وہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے۔ جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ وہ میرے ذریعہ سے احمدیت میں داخل ہو گئے۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے اور بڑے بھائی کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ بیعت کے بعد انہوں نے خود بتایا کہ مَیں ایک عرصے تک اس وجہ سے بیعت کرنے سے رکتا رہا کہ اگر مَیں بیعت کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتا یا حضرت خلیفہ اوّل کی کرتا جن پر مجھے بڑا اعتقاد تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کر لوں۔ مگر کہنے لگے (یعنی مرزا سلطان احمد صاحب نے کہا کہ) آخر مَیں نے (اپنے دل میں) کہا کہ یہ پیالہ مجھے پینا ہی پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تین کو چار کرنے والا بنا دیا کیونکہ پہلے روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریّت میں ہم صرف تین بھائی تھے مگر پھر تین سے چار ہو گئے۔ پھر اس لحاظ سے بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ مَیں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا۔ 1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی تھی۔ (فرماتے ہیں کہ) پھر اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ میں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا۔ 1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی تھی اور 1889ء میں میری پیدائش ہوئی۔ 1886ء ایک، 1887ء دو، 1888ء تین اور 1889ء چار۔ گویا تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ میری پیدائش پیشگوئی سے چوتھے سال ہو گی اور اس طرح میں تین کو چار کرنے والا ہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے مطابق میری ولادت ہوئی۔‘‘ (ماخوذ از ’’الموعود‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ635تا637)
’’جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’پانچویں خبر یہ دی گئی تھی کہ اس کا نزول جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ یہ خبر بھی میرے زمانے میں پوری ہوئی۔ چنانچہ میرے خلافت پر متمکن ہوتے ہی پہلی جنگ ہوئی اور اب دوسری جنگ شروع ہے جس سے جلال الٰہی کا دنیا میں ظہور ہو رہا ہے۔ شاید کوئی شخص کہہ دے کہ اس وقت لاکھوں کروڑوں لوگ زندہ ہیں اگر ان لڑائیوں کو تم اپنی صداقت میں پیش کر سکتے ہو تو اس طرح ہر زندہ شخص ان کو اپنی تائید میں پیش کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہ جنگیں میری صداقت کی علامت ہیں۔ اس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ اگر ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو جو اس وقت زندہ ہیں ان جنگوں کی خبریں دی گئی ہیں تو پھر یہ زندہ شخص کی علامت بن سکتی ہے۔ اور اگر اُن کو اِن لڑائیوں کی خبریں نہیں دی گئیں تو پھر جس کو ان جنگوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اس کے متعلق جلال الٰہی کا یہ ظہور کہا جائے گا۔‘‘ (ماخوذ از الموعود۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ627)
’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘۔ (فرماتے ہیں) ’’جب مَیں خلیفہ ہوا اس وقت ہمارے خزانے میں صرف چودہ آنے کے پیسے تھے اور اٹھارہ ہزار کا قرض تھا۔ یہاں تک کہ مَیں نے اپنے زمانہ خلافت میں جو پہلا اشتہار لکھا اور جس کا عنوان تھا ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘ اس کو چھپوانے کے لئے بھی میرے پاس کوئی روپیہ نہ تھا۔ اس وقت ہمارے نانا جان کے پاس کچھ چندہ تھا جو انہوں نے مسجد کے لئے لوگوں سے جمع کیا تھا۔ انہوں نے اس چندے میں سے دو سو روپیہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لئے دیا اور کہا کہ جب خزانہ میں روپیہ آنا شروع ہو جائے گا تو یہ دو سو روپیہ ادا ہو جائے گا۔ غرض وہ روپیہ ان سے قرض لے کر یہ اشتہار شائع کیا گیا۔ مگر اس وقت جب جماعت کے سرکردہ لوگ میرے مخالف تھے۔ جب جماعت کے لیڈر میرے مخالف تھے۔ جب جماعت کا خزانہ خالی تھا۔ جب صرف چودہ آنے کے پیسے اس میں موجود تھے۔ (چودہ آنے کا مطلب ہے ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے ہیں۔ پورا ایک روپیہ نہیں تھا۔ آجکل کے حساب سے ستاسی اٹھاسی پیسے۔) اور جب اٹھارہ ہزار کا انجمن پر قرض تھا۔ جب انجمن کی اکثریت میرے مخالف تھی۔ جب انجمن کا سیکرٹری میرا مخالف تھا۔ جب مدرسے کا ہیڈ ماسٹر میرا مخالف تھا۔ میرے یہ الفاظ ہیں جو مَیں نے خدا کے منشاء کے ماتحت اس اشتہار میں شائع کئے کہ ’خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اس ارادے کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اکھاڑ کر پھینک دیں۔ جو کچھ ہو چکا ہو چکا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہو گا۔‘‘ فرمایا کہ ’’پھر میں نے لکھا کہ اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی اور سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی میری خلافت میں فرق نہیں آ سکتا۔ جیسے نبی اکیلا ہی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے۔ پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلے کو قبول کرے۔ خدا تعالیٰ نے جو بوجھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اس کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی۔ غرض طرح طرح کی مخالفتیں ہوئیں۔ سیاسی بھی اور مذہبی بھی۔ اندرونی بھی اور بیرونی بھی مگر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مَیں جماعت کو اور زیادہ ترقی کی طرف لے جاؤں۔‘‘ (ماخوذ از ’’مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ219تا221)
’’وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا‘‘۔ ایک پیشگوئی یہ بھی کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو میرے ذریعہ سے پورا کیا۔ اول تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ان قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ نہایت ذلیل اور پست حالت میں تھیں۔ وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں۔ نہ ان میں تعلیم پائی جاتی تھی۔ نہ ان کا تمدن اعلیٰ درجے کا تھا۔ نہ ان کی تربیت کا کوئی سامان تھا۔ جیسے افریقن علاقے ہیں کہ ان کو دنیا نے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بیگار اور خدمت کے کام آتے تھے۔ ابھی مغربی افریقہ کا ایک نمائندہ (وہاں آپ جلسے میں تقریر فرما رہے ہیں۔ اس جلسے میں مغربی افریقہ کے ایک نمائندے نے تقریر بھی کی تھی۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ) آپ لوگوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ اس ملک کے بعض لوگ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اندرون ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے اور ننگے پھرا کرتے تھے اور ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزارہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت ان علاقوں میں ہمارے مبلغ گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے۔ اس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کے لئے مقرر ہے۔ اس نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے۔ اس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے۔ غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں ملکوں میں حبشی قومیں کثرت سے اسلام لا رہی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کر مجھے ان اسیروں کا رستگار بنایا ہے اور ان کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ بھی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے اور ہر شخص جو اِن واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے ہی کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی۔‘‘ (ماخوذ از ’’الموعود‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ614-615)
آپ فرماتے ہیں ’’یہ جو پیشگوئی ہے اس کے دو بہت بڑے اور اہم حصے ہیں۔ پہلا حصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اب خالی بیٹا ہونے سے آپ کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جن سے ساری دنیا میں آپ مشہور ہو جاتے۔ بعض بڑے بڑے مصنّف ہوتے ہیں وہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں اس وجہ سے ان کا نام مشہور ہو جاتا ہے۔ بعض برے کام کرتے ہیں اور اس وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعض بڑے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے نام سے بھی لوگ آشنا ہوتے ہیں۔ لیکن بہر حال ان کی اچھی یا بری شہرت ساری دنیا تک نہیں ہوتی۔ کسی ایک علاقے یا ایک حصہ ملک میں ان کی شہرت ہوتی ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ خبر دی تھی کہ وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا۔ پس یہ پیشگوئی اسی صورت میں عظیم الشان پیشگوئی کہلا سکتی تھی جب آپ کی شہرت غیر معمولی حالات میں ہوتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ہی ہوا۔ جب میں پیدا ہوا تو اس کے دو اڑھائی ماہ کے بعد آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں قائم ہو گئی۔‘‘ (ماخوذ از ’’میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ207)
فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دئیے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے اس وقت صرف ہندوستان اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمدیہ مشن قائم نہیں تھا۔ مگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بتایا تھا وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کروں۔ چنانچہ مَیں نے اپنی خلافت کی ابتدا میں ہی انگلستان، سیلون اور ماریشس میں احمدیہ مشن قائم کئے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ چنانچہ ایران میں، روس میں، عراق میں، مصر میں، شام میں، فلسطین میں، لیگوس نائیجیریا میں، گولڈ کوسٹ میں (گولڈ کوسٹ آجکل گھانا کہلاتا ہے)، سیرالیون میں، ایسٹ افریقہ میں، یورپ میں۔ پھر انگلستان کے علاوہ سپین میں، اٹلی میں، چیکو سلواکیہ میں، ہنگری میں، پولینڈ میں، یوگو سلاویہ میں، البانیہ میں، جرمنی میں، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، ارجنٹائن میں، چین میں، جاپان میں، ملایا میں، سٹریٹ سیٹلمنٹس میں، سماٹرا میں، جاوا میں، سُرابایا میں، کاشغر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہوئے۔ ان میں سے بعض مبلغ اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قید ہیں۔ بعض کام کر رہے ہیں۔ اور بعض مشن جنگ (یعنی جو دوسری جنگ عظیم تھی) کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دئیے گئے ہیں۔ غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آ رہا ہے۔ حکومتیں اس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ (اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں آجکل بھی یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں)۔ چنانچہ روس میں جب ہمارا مبلغ گیا تو اسے مارا بھی گیا، پیٹا بھی گیا اور ایک لمبے عرصے تک قید رکھا گیا۔ لیکن چونکہ خدا کا وعدہ تھا کہ وہ اس سلسلے کو پھیلائے گا اور میرے ذریعے سے اس کو دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا اس لئے اس نے اپنے فضل و کرم سے ان تمام مقامات میں احمدیت کو پہنچایا بلکہ بعض مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم کرد یں‘‘۔ (ماخوذ از ’’دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ155-156)
پیشگوئی کے تو مختلف حصے ہیں جو آپ میں بڑی شان سے پورے ہوئے اور کئی مرتبہ پورے ہوئے۔ مختلف جگہوں پر پورے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو ظاہر کرتے رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی شان کو بڑھاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمت ہمیشہ برساتا رہے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم مولانا محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری (مبلغ سلسلہ) کا ہے۔ یہ مکرم میاں کرم دین صاحب کے بیٹے تھے اور مورخہ 15؍فروری 2015ء کو 87سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ کو مختلف ممالک میں اور مرکز سلسلہ میں مختلف حیثیتوں سے ساٹھ سال تک خدمات سلسلہ بجا لانے کی توفیق ملی۔ آپ کی ساری زندگی خدمات دینیہ، مسلسل جدو جہد، دعوت الی اللہ اور اطاعت خلافت سے معمور ہے۔ جب تک صحت نے اجازت دی آپ دینی امور میں ہمہ تن مصروف رہے۔ کچھ عرصہ قبل آپ کو فالج ہوا جس کی وجہ سے آپ صاحب فراش ہو گئے تھے۔ 31؍اکتوبر 1928ء کو لودھی ننگل تحصیل بٹالہ میں آپ پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں کرم دین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے 1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی تھی۔ مولانا صدیق صاحب نے پرائمری پاس کرنے کے بعد 1940ء میں قادیان آ کر مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہشیار طلباء میں سے تھے۔ اول دوم پوزیشن آیا کرتی تھی۔ 1947ء میں مدرسہ احمدیہ پاس کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1949ء میں جامعہ احمدیہ کے دوران ہی مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ 1950ء میں جامعۃ المبشرین کی پہلی مربیان کلاس میں داخلہ لیا اور 1952ء میں شاہد پاس کر لیا۔ اس کے بعد دعوت الی اللہ کے سلسلے میں آپ ربوہ سے پہلی مرتبہ سیرالیون مغربی افریقہ تشریف لے گئے۔ 23؍اکتوبر 1952ء کو آپ کراچی سے بذریعہ بحری جہاز لندن کے لئے روانہ ہوئے۔ یہاں ایک ماہ قیام کے بعد دسمبر میں بحری جہاز کے ذریعہ سے سیرالیون پہنچے۔ وہاں چار سال فریضہ دعوت الی اللہ ادا کرنے کے بعد 19؍اکتوبر 1956ء کو واپس پاکستان پہنچے۔ تین سال مرکز میں مختلف فرائض ادا کرتے رہے۔ دسمبر 1959ء کو دوبارہ سیرالیون کے امیر اور مشنری انچارج بنا کر بھیجے گئے۔ 1962ء تک یہ خدمات بجا لاتے رہے۔ پھر 15؍جنوری 1966ء کو اکرا (Accra) گھانا پہنچے اور سالٹ پانڈ میں تقریباً دو سال تک پرنسپل احمدیہ مشنری ٹریننگ کالج کے فرائض انجام دئیے۔ جولائی 1968ء کو تیسری مرتبہ سیرالیون میں متعین ہوئے اور 24؍مئی 1972ء تک امیر اور مشنری انچارج کے فرائض ادا کرتے رہے۔ 31؍جولائی 1973ء کو امریکہ تشریف لے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار سال تک امریکہ میں خدمات کی توفیق عطا فرمائی۔ سیرالیون میں جب آپ امیر تھے تو وہاں اس زمانے میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کا افریقہ کا پہلا دورہ ہوا تھا۔ آپ اس وقت وہیں تھے۔ پاکستان میں متعدد شعبہ جات میں خدمات بجا لاتے رہے۔ بہت منکسر المزاج، بے نفس، بے ریا، محنتی اور خاموش خدمتگار تھے۔ طبیعت میں سادگی تھی۔ گہرا علم اور تحریر کا ذوق تھا۔ اپنے علم اور تجربات و مشاہدات کے ذریعے روزنامہ الفضل کے ذریعہ احباب جماعت کو مستفید کرتے رہتے۔ آپ کے مضامین وقتاً فوقتاً الفضل کی زینت بنتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے جب مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بعض مبلغین کے متعلق فرمایا کہ یہ مقام نعیم پر فائز ہیں اور ان میں سے ایک نام آپ کا بھی لیا۔
آپ کی شادی محترم خلیل احمد صاحب آف گولبازار کی بیٹی امۃ المجید صاحبہ سے ہوئی جنہوں نے اپنے شوہر کا ساتھ وقف کی روح کے ساتھ نبھایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا جو صاحب اولاد ہیں۔ ایک بیٹی مبلغ سلسلہ مقصود احمد قمر صاحب کے ساتھ بیاہی گئی ہیں اور آپ کے ایک بیٹے سعید خالد صاحب امریکہ میں مربی سلسلہ ہیں۔ سعید خالد صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کے والد بزرگوار فدائی خادم سلسلہ، منکسر المزاج، عابد و زاہد اور متوکل وجود تھے۔ کہتے ہیں جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے آپ کی سیرت کے دو پہلو نمایاں مشاہدہ کئے ہیں۔ اول عبادت میں شغف یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی اور دوم دین کی خدمت اور سلسلہ و نظام جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا۔ نماز ہر حال میں مسجد جا کر ادا کرتے تھے۔ زندگی کے آخری سالوں میں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے مسجد میں چل کر یا سائیکل پر نہیں جا سکتے تھے تو خاکسار کی یہ ڈیوٹی تھی کہ ابّا جان کو گاڑی پر مسجدنصرت جہاں لے کر جاتا۔ اگر کسی کام سے لیٹ ہو جاتا تو ناراض ہوتے کہ میری نماز ضائع ہو گئی۔ فرض نماز کی طرح نماز تہجد کا بھی ہمیشہ التزام رہا۔ اس میں بھی ناغہ نہ کرتے تھے۔ کبھی سفر سے تھکے ہوئے پہنچتے تو تب بھی نماز تہجد کبھی ضائع نہیں کی اور کہتے ہیں کہ ہنڈیا ابلنے والی کیفیت میں نے ان کی نمازوں میں یعنی تہجد کی نمازوں میں مشاہدہ کی ہے۔ اپنی اولاد کی نمازوں کی بھی فکر رہتی تھی اور اولاد کے ساتھ اگر کبھی سختی رکھی تو وہ نماز باجماعت کی ادائیگی کے لئے ہی سختی تھی۔ ہمارے مبلغ سعید خالد صاحب جو ہیں یہ لکھتے ہیں کہ 2010ء میں ان کا تقرر امریکہ میں ہوا تو کیونکہ اپنے والد کی خدمت کیا کرتے تھے تو کہا کہ مجھے فکر ہے میں خلیفہ وقت کو عذر پیش کر دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بالکل نہیں کرنا۔ تم وقف زندگی ہو فوراً جاؤ۔
پھر یہ کہتے ہیں کہ خلافت کے ساتھ والہانہ عشق تھا۔ خطبات امام میں بیان شدہ ایک ایک ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ بڑے متوکل تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میرے بڑے بھائی امریکہ سے آئے تو ان کو معلوم ہوا کہ گھر کی کوئی ضرورت رقم نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ ہو سکی۔ بھائی نے ابا جان سے کہا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تو آپ نے بھائی کو پاس بٹھایا اور فرمایا کہ اگر میں نے پیسے مانگنے ہی ہیں تو کیوں نہ اپنے خدا سے مانگوں۔ اس لئے تم سے پیسے نہیں مانگوں گا۔ تم اپنی توفیق کے مطابق جو خدمت کرنا چاہتے ہو کرو۔
ان کے ایک بیٹے امریکہ میں انجنیئر ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے لاہور سے انجنیئرنگ کی اور امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمشن (admission) کے لئے اپلائی کیا۔ ایڈمشن ہونے پر سٹڈی ویزہ کے لئے اپلائی کیا مگر اس میں کچھ مشکلات تھیں۔ امریکہ میں کلاسز شروع ہونے والی تھیں۔ پریشانی بھی تھی۔ والد صاحب افریقہ میں تھے۔ دعا کے لئے آپ کو لکھا کہ یہ بات ہے۔ ابھی لاہور میں ہی تھا کہ ایک روز صبح اٹھا تو ذہن میں آیا کہ امیریکن قونصلیٹ جانا چاہئے۔ میں وہاں چلا گیا۔ امریکن قونصلیٹ نے کہا کہ ابھی تو تم نے ٹیسٹ پاس نہیں کیا تو یہاں کیسے آ گئے ہو۔ میں نے ساری تفصیل بتائی۔ ایڈمشن کا بتایا کہ کلاسیں شروع ہونے والی ہیں۔ اس کو کہا کہ اگر میرا معیار نہ ہوتا تو مجھے یونیورسٹی ایڈمشن نہ دیتی۔ اس پر امریکن قونصلیٹ نے کہا کہ بیٹھو اور آدھے گھنٹے کے بعد پھر ویزہ دے دیا۔ جب میں ربوہ واپس آیا تو والد صاحب کا خط آیا ہوا تھا جو کہ افریقہ سے دس بارہ دن پہلے لکھا گیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ میں نے خدا سے دعا کی ہے۔ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ویزہ مل گیا ہے۔
ان کے داماد جو مربی ہیں لکھتے ہیں کہ دعا پر یقین تھا۔ جب آپ سیرالیون سے واپس آ رہے تھے اور چارج خلیل احمد مبشر صاحب کو دے دیا تو خلیل صاحب نے پوچھا کہ نازک حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے اور جماعت کو کیسے سنبھالوں اور آپ کیسے سنبھالتے تھے تو انہوں نے ایک ہی بات کہی کہ جب بھی مشکل حالات پیدا ہو جاتے تودروازہ بند کر لیتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ پھر میں ہوتا ہوں اور خدا ہوتا ہے۔ یہی نسخہ ہر مشکل سے نکلنے کا علاج ہے۔
مجید سیالکوٹی صاحب بھی لکھتے ہیں کہ مربّیوں سے اگر سستی ہوتی تو سختی بڑی کرتے لیکن خیال بھی بہت رکھا کرتے تھے۔ پیار بھی بہت کیا کرتے تھے۔ اپنے کھانے پینے کے اخراجات سفر میں بھی ہوتے تو ہمیشہ خود برداشت کرتے چاہے سوکھی مونگ پھلی کھا لیں یا سوکھی مچھلی کھا لیں۔ جماعت پر اخراجات کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے۔
حنیف قمر صاحب مربی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں سیرالیون گیا تو مَیں پرانے مبلغین کے حالات کا جائزہ لیتا تھا۔ وہاں ہمارے ایک افریقن احمدی بھائی پاسلمان ماتسرے صاحب تھے۔ ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ مولوی صاحب کے بارے میں جب ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو فرشتہ تھے۔ ہمارے اس افریقن بھائی کا تبصرہ یقینا بہت سچا ہے اور بہت ساری صفات میں وہ فرشتہ صفت بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ایسے واقفین زندگی جماعت کو ہمیشہ عطا فرماتا رہے۔ بڑے متوکّل اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے پیاروں کے قرب سے نوازے۔ ان کے بچوں میں بھی ہمیشہ جماعت اور خلافت کے ساتھ وفا پیدا کرے اور خاص طور پر ان کے داماد اور بیٹے جو واقف زندگی ہیں انہیں مکرم مولانا صاحب کی خواہش کے مطابق وفا سے اپنے وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
پیشگوئی مصلح موعود کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ۔
مکرم مولانا محمد صدیق شاہد صاحب گورداسپوری مبلغ سلسلہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 20؍فروری 2015ء بمطابق20تبلیغ 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔