تقویٰ
خطبہ جمعہ 6؍ مارچ 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔ وَاتَّقُوااللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ۔ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوااللّٰہَ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ۔ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (الحشر: 19۔ 20)
یہ سورۂ حشر کی دو آیات ہیں جن کا ترجمہ اس طرح پر ہے کہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔ یہی بدکردار لوگ ہیں۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ ہر برائی اور گناہ کی جڑ ان برائیوں اور گناہوں کو معمولی سمجھتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش نہ کرنا ہے یا ان پر توجہ نہ دینا ہے لیکن یہی بے احتیاطی پھر انسان کو بڑے گناہوں میں مبتلا کر دیتی ہے کیونکہ پھر انسان آہستہ آہستہ نیکیوں کو بھول جاتا ہے نیکی کے ان معیاروں کو بھول جاتا ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف کم ہو جاتا ہے۔ تقویٰ سے دوری ہو جاتی ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی پر کامل ایمان نہیں رہتا۔ گویا کہ ایک ایمان کا دعویٰ کرنے و الا عملاً ایمان کی شرائط سے دُور ہٹتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں پھر مومن نہیں رہتا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرف مومنوں کی توجہ دلائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بڑا زور دے کر فرمایا کہ صرف آج کی اور اس دنیا کی لہو و لعب کی دلچسپیوں کی، آراموں اور آسائشوں کی یا عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات کی فکر نہ کرو بلکہ جو فکر کرنے والی چیز ہے وہ تمہاری کل ہے۔ تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا معیار اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا تمہاری اصل ترجیح اور فکر ہونی چاہئے۔ تمہارا مرنے کے بعد کی زندگی اور حساب کتاب پر ایمان تمہاری فکر کا مرکز ہونا چاہئے۔ اور اگر یہ ہو گا تو تبھی تمہاری حقیقی اخلاقی ترقی بھی ہو گی جو صرف سطحی اخلاق نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کا مقصود لئے ہوئے ہوں گے۔ تمہاری روحانی ترقی اور یہ دعویٰ کہ میں مومن ہوں اسی وقت حقیقی ہو گا جب کل پر نظر ہو گی۔ تمہارا یقینی، بے غرض اور سچائی پر مبنی خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان بھی اُس وقت اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی ہو گا جب اپنے کل کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرو گے۔
جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’اے ایمان والو خدا سے ڈرتے رہو اور ہریک تم میں سے دیکھتا رہے کہ مَیں نے اگلے جہان میں کونسا مال بھیجا ہے اور اس خدا سے ڈرو جو خبیر اور علیم ہے اور تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے۔ یعنی وہ خوب جاننے والا اور پرکھنے والا ہے۔ اس لئے وہ تمہارے کھوٹے اعمال ہرگز قبول نہیں کرے گا۔‘‘ (ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 225۔ 226)
پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہم میں سے ہر ایک کو بڑے غور اور کوشش سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں۔ ان باتوں پر نظر رکھیں جو ہماری کل سنوارنے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو ہمارے دلوں کی پاتال تک نظر رکھنے والا ہے اور اسے ہمارا سب علم ہے اس کو صرف ان باتوں سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا جو سطحی باتیں ہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ کھوٹے کھرے کی تمیز کرتا ہے۔ کھوٹے اعمال وہ قبول نہیں کرے گا۔ پس ایک مومن کے لئے یہ بہت بڑا فکر کا مقام ہے کہ اپنے کل کی فکر کریں جہاں اعمال کا حساب ہونا ہے۔ غیر مومنوں کی طرح ہم صرف اس دنیا ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لیں بلکہ حقیقی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے تقویٰ پر چلیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: دنیا و عقبیٰ میں کامیابی کا ایک گُر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان کل کی فکر آج کرے۔ اس سے دنیا میں بھی سنوار پیدا ہو گا اور آخرت کی زندگی میں بھی سنوار پیدا ہو گا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ’’قرآن پاک کی تعلیم وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ پر عمل کرنے سے انسان نہ صرف دنیا میں کامران ہوتا ہے بلکہ عقبیٰ میں بھی خدا کے فضل سے سرخرو ہوگا۔ ہم کبھی آخرت کے لئے سرمایۂ نجات جمع نہیں کر سکتے جب تک آج ہی سے اس دارالقرار کے لئے تیاری نہ شروع کر دیں۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ66-67)
اس حوالے سے مَیں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آیت نکاح کے خطبے میں بھی ہم پڑھتے ہیں۔ یہ نکاح کے خطبے میں پڑھی جانے والی آیات میں سے سب سے آخری آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے خطبہ میں پڑھی جانے والی آیات میں مختلف امور کی طرف توجہ دلا کر کہ اپنے رِحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ اس بندھن کے ساتھ جو ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ان کا بھی خیال رکھو۔ سچائی اختیار کرو۔ سچائی پر قائم رہو گے تو اس کے ذریعہ سے نیک اعمال کی اور رشتے نبھانے کی توفیق ملتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر چلو اس میں تمہاری کامیاب زندگی ہے۔ پھر مزید زور دیا کہ اگر کل پر نظر رکھو گے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر بھی نظر رہے گی۔ اب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بیشمار احکامات ہیں جو عائلی معاملات کو خوبصورت بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر انسان غور کرے تو اس کا فائدہ انسان کو ہی ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفہ اول نے یہ فرمایا کہ دنیا بھی سنور جائے گی اور عقبیٰ بھی سنور جائے گی۔ اس دنیا میں گھریلو زندگی بھی جنت نظیر بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے آخرت کے انعامات بھی ملیں گے۔ پھر صرف اپنی ذات تک ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے اولاد بھی نیکیوں پر چلنے والی ہو گی۔ گویا صرف اپنی کل نہیں سنوار رہے ہوں گے بلکہ اگلی نسل کی کل کی بھی ایک حقیقی مومن ضمانت بننے کی کوشش کرے گا۔ بلکہ ضمانت بن جاتا ہے کہ عموماً پھر آئندہ نسل بھی نیکیوں پر قدم مارنے والی ہو گی۔
پس اگر وہ گھر یا وہ خاندان جو اپنے گھروں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر برباد کر رہے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے بن جائیں تو نہ صرف اپنے گھروں کے سکون کے ضامن ہو جائیں گے، اپنے بچوں کی صحیح تربیت اور ان کو تقویٰ پر چلنے کی طرف رہنمائی کرنے والے بھی بن جائیں گے اور ان کی زندگیاں سنوارنے والے بھی بن جائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ پس ایسے گھروں کو جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر صرف دنیا داری کی خاطر اپنے گھروں کو برباد کر رہے ہیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے۔ اگلی نسلیں صرف آپ ہی کی اولادنہیں ہیں بلکہ جماعت اور قوم کا بھی سرمایہ ہیں۔ ان کو صحیح راستے دکھانا ماں باپ کا کام ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ماں باپ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ تو ایک پہلو ہے جس کی طرف ہر مومن کو اللہ تعالیٰ نے کوشش کرنے کی طرف اور عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ اپنی اور بچوں کی دنیا و آخرت سنوار سکیں۔ ہماری زندگی میں بیشمار ایسے مواقع آتے ہیں جب ہم تقویٰ سے کام نہیں لیتے۔ آخرت پر نظر نہیں رکھتے۔ اس دنیا کے وسائل اور ضروریات کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ دنیا کے سہاروں کو اللہ تعالیٰ کے سہاروں پر لاشعوری طور پر ترجیح دیتے ہیں۔ پھر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے، نا اہلیوں کی وجہ سے، سستیوں کی وجہ سے اس دنیا کے مستقبل کو بھی برباد کرتے ہیں۔ اس دنیا میں جو اپنی کل ہے اس کو بھی برباد کرتے ہیں اور اگلے جہان کی کل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک دفعہ مختصر الفاظ میں یوں توجہ دلائی کہ ’’مومن کو چاہئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے۔ گالی نکالتا ہے۔ مگر سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ اس اصل کو مدنظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ67)
اگر ہم دیکھیں تو تمام برائیاں اور تمام گناہ اس لئے سرزد ہوتے ہیں کہ ان کے کرتے وقت ہمارے دماغ میں ایک خنّاس سمایا ہوتا ہے، شیطان گھسا ہوتا ہے۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر کام ہوتا ہے۔ بہت شاذ ایسا ہوتا ہے کہ قتل و غارتگری کرنے والے یا گناہ کرنے والے اقرار کر کے خود اپنے آپ کو اس کے نتائج بھگتنے کے لئے پیش کر دیں۔ ایسے لوگوں کے جنون کی کیفیت جو خود ہی پیش کرتے ہیں تقریباً مستقل کیفیت ہوتی ہے۔ باقی ہر عقل والا، عام عقل والا انسان جب اس جنونی کیفیت سے باہر آتا ہے تو اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ عادی مجرموں کا معاملہ تو اَور ہے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی بات نہیں فرما رہا جو عادی لوگ ہیں یا بالکل پاگل ہیں بلکہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو فرماتا ہے کہ مومن کی نشانی کل پر نظر رکھنا ہے۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ نتائج پر یا کل پر نظر رکھنے کا خیال کس طرح پیدا ہو، کس طرح نظر رکھی جائے۔ اس کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس بات پر ایمان رکھے کہ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ جو کام تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ انسان اگر یہ یقین رکھے کہ کوئی خبیر و علیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری، دغا، فریب، سستی اور کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا تو وہ بچ سکتا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ایسا ایمان پیدا کرو۔ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری، حرفہ، مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا‘‘۔ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ67-68)
یعنی دنیاوی معاملات میں بھی جو سستی کرتے ہیں اور ان کا حق ادا نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے بھی اپنی کل کو برباد کر لیا اور اپنا رزق جو انہوں نے حاصل کیا وہ بھی حلال نہیں رہا۔ یہ دھوکے کا رزق ہے۔
پس یہ آیت جو اپنے کل پر نظر رکھنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے بڑی وسعت رکھتی ہے اور ہر قدم پر ایک حقیقی مومن کے پاؤں پکڑ کر کسی بھی معمولی کمزوری اور گناہ کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔
پس یہ یقین ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس یقین پر ہم قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور پھر اس بات پر بھی یقین کہ وہ ہمارے ہر قسم کے دھوکے، فریب چاہے وہ ہم معمولی سمجھ کر تھوڑا سا منافع کمانے کے لئے کر رہے ہیں یا اپنے کام میں سستی دکھا رہے ہیں یا معاہدے کے مطابق اس نیّت سے جان بوجھ کر کام ختم نہیں کر رہے کہ شاید کسی کو دباؤ میں لا کر مزید مفاد اٹھا سکیں تو یاد رکھیں ایسی باتیں خدا تعالیٰ کو پسندنہیں۔ اور جب خدا تعالیٰ کو پسندنہیں تو پھر جیسا کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی فرمایا کہ اس کا بدلہ ہو گا اور اس کا بدلہ پھر سزا کی صورت میں ہی ہے۔
پس مومن کو کل پر نظر رکھنے کا کہہ کر اپنے معمولی گھریلو معاملات سے لے کر اپنے معاشرتی، کاروباری، ملکی، بین الاقوامی تمام معاملات میں تقویٰ پر چلنے کی طرف توجہ دلا دی اور جو تقویٰ پر نہیں چلتا وہ پھر اس بات کو بھی ذہن میں رکھے کہ ایسا انسان خدا کی پکڑ میں آئے گا۔ انسان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ دنیاوی معاملات کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ مومن کے لئے تقویٰ پر چلنے کا حکم ہے اور تقویٰ میں تمام دینی اور دنیاوی کاموں کو خدا تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔ انسان بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ دنیاوی نقصان کے ابتلا سے بچنے کی کوشش کروں۔ مالی منفعت حاصل کر لوں چاہے جو بھی ذریعہ اپنایا جائے۔ لیکن یاد رکھناچاہئے کہ کوئی ایسا طریق جس سے دھوکہ دے کر فائدہ حاصل کیا جائے دین سے اور ایمان سے دُور لے جانے والا ہے اور یہ بظاہر دنیاوی معاملہ دینی ابتلا بن جاتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ آہستہ آہستہ دین اور خدا سے دُور لے جاتا ہے۔ اس لئے ایک مومن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان کا ابتلا دنیاوی ابتلاؤں سے بہت زیادہ ہے جس کے نتیجہ میں دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جاتی ہیں۔ پس ہمیں اس سوچ کے ساتھ اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے اور ہر کام کے انجام پر نظر رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی میرے ہر کام پر نظر ہے۔ یہ سوچ جب پیدا ہو جائے تو مومن ایک حقیقی مومن بن جاتا ہے یا بننے کی طرف قدم بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اس معیار کو دیکھنے کے لئے کسی جماعتی یا ذیلی تنظیم کے رپورٹ فارم کو دیکھنے اور اس پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر ایک شخص خود اپنے جائزے لے سکتا ہے کہ کیا یہ اس کے معیار ہیں کہ ہر کام کرنے سے پہلے اسے یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ میرے اس کام کو دیکھ رہا ہے۔ اگر میں نیک نیّتی سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا کئی گنا جزا کا بھی وعدہ ہے، اجر کا بھی وعدہ ہے۔ اور اگر نیت بد ہے تو پھر انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں بھی آ سکتا ہوں۔ جب ہم میں سے ہر ایک ایسی سوچ کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرے گا اور اس کے لئے کوشش کرے گا تو جماعت کے جو تقویٰ کے عمومی معیار ہیں وہ بھی بلند ہوں گے اور یہ تقویٰ کا معیار بلند ہوتا ہوا جماعتی طور پر بھی خودبخودنظر آنا شروع ہو جائے گا۔ نہ تربیت کے شعبے کے لئے مشکلات اور مسائل ہوں گے، نہ امور عامہ اور قضاء کے شعبے کے لئے مسائل، نہ ہی دوسرے شعبوں کو یاددہانیوں کی ضرورت اور فکر پڑے گی۔
پس اپنے دلوں کو ہر وقت صبح شام ٹٹولتے رہنا چاہئے اور شیطان کے حملوں سے نفس کو بچانے کی انتہائی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر نہیں خیال آتے تو یہ شیطان کی وجہ سے ہی نہیں آتے۔ اس بات کو بھلانے میں شیطان ہی کردار ادا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھلایا جائے تو شیطان ہی ہے جو کردار ادا کرتا ہے۔ کل کی اگر فکر نہ ہو تو وہ شیطان ہی ہے جو بھلاتا ہے۔ یہ شیطان ہی ہے جو یہ کہتا ہے اس بات کو بھول جاؤ کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں کہ اکثر اس بات کو نہیں سوچتے کہ میرے کام کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ اس کے جسم میں چلتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاعتکاف باب زیارۃ المرأۃ زوجہا فی اعتکافہٖ حدیث نمبر2038)
بہت سی بیماریاں انسان کو اس لئے نقصان پہنچاتی ہیں کہ وہ خون میں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں اور ایک وقت میں آ کر جسم پر بہت زیادہ اثر ڈالنا شروع کر دیتی ہیں۔ کسی وجہ سے انفیکشن ہو جاتا ہے اور اس کا اثر ہو جاتا ہے تو انسان کو شروع میں پتا نہیں چلتا کہ بیماری نے حملہ کر دیا ہے۔ بلکہ بہت ہی کوئی محتاط ہو، ذرا سی کسل مندی کے بعد وہ ڈاکٹر کے پاس جائے بھی تو ابتدائی حالت میں بعض ڈاکٹروں کو بھی پتا نہیں چلتا کہ بیماری اندر ہے، خون میں گردش کر رہی ہے۔ اور یہ بیماریاں آتی ہیں جیسا کہ میں نے کہا فضا میں بعض دفعہ جراثیم ہوتے ہیں ایک دوسرے سے بیماریاں لگتی ہیں اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں بہت ساری وبائیں پھیلی ہوئی ہیں جن کا شروع میں پتا نہیں لگتا۔ آہستہ آہستہ جب پھیل جاتی ہیں تب پتا لگتا ہے۔ لیکن آجکل کے زمانے میں جو سب سے خطرناک چیز ہے وہ اس زمانے میں روحانی بیماریاں ہیں۔ اور روحانی بیماریوں کی تو فضا میں بھرمار ہوئی ہوئی ہے اور انسان کو پتا نہیں لگتا کہ کس وقت شیطان ہمارے خون میں چلا گیا ہے اور روحانی بیماری کو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ لیکن شیطان کے خون میں گردش کرنے سے جو بیماری آتی ہے وہ جسمانی بیماری کی نسبت اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ جسمانی بیماری سے جسم پر اثرات پڑنے شروع ہو تے ہیں۔ جسم ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ کسل مندی کی کیفیت ہو جاتی ہے پھر آہستہ آہستہ مزید تکلیف بڑھتی ہے۔ انسان خود محسوس کرتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کہ مَیں بیمار ہوں مجھے دوائی دو۔ لیکن روحانی بیماری خطرناک اس وجہ سے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے انسان دُور ہٹتا ہے اور شیطان کے حملے کے نیچے آ جاتا ہے تو تب بھی خود کو بیمار محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو اچھا ہی سمجھتا ہے۔ لیکن جب اس کے دوستوں، اس کے ہمدردوں کو پتا چلتا ہے کہ یہ بیمار ہے تو وہ اس کو سمجھاتے ہیں۔ جو بیماری کی انتہا کو پہنچ جائیں وہ دوستوں کے کہنے پر بھی خود کو بالکل ٹھیک سمجھتے ہیں اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو غلط سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میرے دوست مجھے غلط کہہ رہے ہیں۔ پس شیطان کا حملہ یا روحانی بیماری جو ہے جسمانی بیماری سے بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بسا اوقات اس کے علاج کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا۔ دوسرے توجہ بھی دلائیں کہ علاج کروا لو تو اس طرف توجہ نہیں ہوتی۔
پس ایک مومن کو اس سے پہلے کہ بیماری حملہ کرے اپنے جائزے لیتے ہوئے حفظ ماتقدم کے عمل کو شروع کر دینا چاہئے اور اس معاشرے میں جیسا کہ میں نے کہا کہ ر وحانی بیماریاں مستقل فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اس لئے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مستقل عمل کی بھی ضرورت ہے یا مستقل علاج کی بھی ضرورت ہے۔ حفظ ما تقدم کی ضرورت ہے اور یہی ایک حقیقی مومن کے لئے ضروری ہے اور اس کو چاہئے کہ وہ اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہے۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مومن کبھی اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آپ جب بھی رات کو اٹھتے تو نہایت عجز اور انکسار سے دعائیں کرتے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی اسی حالت کو دیکھ کر عرض کیا کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ معاف کر دیا ہے۔ آپ کو اتنے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ اتنی خشیت سے اپنے لئے دعائیں کیوں کرتے ہیں؟ اپنے لئے اتنی خشیت کیوں ہے؟ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب لیغفرلک ما تقدم من ذنبک وما تأخر…حدیث نمبر 4837) بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بھی فرمایا تھا جیسا کہ مَیں نے کہا کہ انسان کے خون میں شیطان ہے تو آپ نے فرمایا تھا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین و احکامہم باب تحریش الشیطان و بعثہ…حدیث نمبر 7108) یعنی کسی روحانی بیماری کے حملہ آور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ میری نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ مجھے بھی ہر وقت اس کی طرف جھکے رہنے کی ضرورت ہے۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سب کے باوجود اس قدر خشیت کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اور کون ہے جو کہہ سکے کہ مجھے ہر وقت ہر کام میں کل پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں اور کام کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ پس ہر وقت ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے کاموں اور اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت یہ خیال دل میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ میں نے اپنے ایمان کو کس طرح بچانا ہے۔ اور اس کی طرف جو اگلی آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے آپ سے غافل کر دے گا۔
جیسا کہ مَیں نے مثال دی ہے کہ روحانی بیماری والے اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ہمدرد جب ان کو بیمار سمجھ کر ان کا علاج کروانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ الٹا ان ہمدردوں کو بیمار اور پاگل سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ گویا روحانی بیماری ان کو اپنے نفس کی حالتوں کو دیکھنے سے بالکل لاپرواہ کر دیتی ہے اور پھر نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ عموماً انسان خدا تعالیٰ کو تین طریقوں سے بھلاتا ہے یا یہ تین قسم کے لوگ ہیں جو ہمیں عموماً دنیا میں نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے دُور ہیں یا دُور ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے وجود کے انکاری ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کوئی چیز نہیں ہے۔ جیسا کہ آج کل کی بہت بڑی تعداد اسی نظریے پر قائم ہے جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہتے ہیں۔ اپنی تعلیم پر بڑا زعم ہے اور یہ لوگ میڈیا اور انٹرنیٹ اور مختلف طریقوں سے نوجوانوں اور کچے ذہنوں کو اپنے خیالات سے زہر آلود کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو حقیقی اور سچا ایمان تمام طاقتوں والے خدا پر نہیں ہے جس کے سامنے انہیں ایک دن پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ ایمان ہے یا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک خدا ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور اس کے تابع ایک نظام چل رہا ہے لیکن پھر بھی اس کے کہنے پر عمل نہیں ہے۔
تیسرے وہ لوگ ہیں جو دنیاوی بکھیڑوں میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں۔ کبھی خیال آ جائے تو نماز بھی پڑھ لیں گے، دعا بھی کر لیں گے لیکن کوئی باقاعدگی نہیں ہے۔ اس طرف توجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو بھلاتے ہیں وہ آخر کار ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا اخلاقی انحطاط بھی ہوتا ہے اور روحانی تنزل بھی ہوتا ہے اور آخر کار ذہنی سکون بھی جاتا رہتا ہے۔ وہ سمجھتے تو یہ ہیں کہ دنیا کے کاموں میں ان کے فوائد ہیں۔ اس لئے یہ تو پہلے کرو۔ خدا تعالیٰ کے حق بعد میں ادا ہوتے رہیں گے۔ کیونکہ دنیاوی منفعت میں بظاہر انہیں فوری آرام اور آسائش نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ ایسا سلوک کرتا ہے کہ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ۔ اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا اور ایسے لوگ کبھی ذہنی سکون نہیں پاتے۔
پس مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر حقیقی تقویٰ تمہارے اندر ہے اور تم مومن ہو، خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین رکھتے ہو، اس کی وحدانیت پر ایمان و یقین ہے تو پھر ان شرائط کے مطابق اپنی زندگی بسر کرو جن کے مطابق زندگی بسر کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اپنے ہر کام کے انجام کو دیکھو اور اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ تمہارے ہر عمل اور فعل کو دیکھ رہا ہے اور جب انسان کی ایسی سوچ ہو تو پھر ہر کام کرنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے اور انسان خود محسوس کرتا ہے کہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل بھی مجھ پر بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں کینیا میں دورے پر گیا ہوں تو وہاں کے ایک پرانے سیاستدان تھے جو ایک receptionمیں وہاں ملے۔ کہنے لگے کہ مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی ملا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک نصیحت کی تھی جس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا ہے اور وہ نصیحت یہ تھی کہ تم ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کے پاس تمہاری تمام باتوں کا ریکارڈ بھی ہے۔ اب مجھے یادنہیں کہ مسلمان تھے یا عیسائی، غالباً عیسائی تھے۔ اگر ان کو فائدہ ہو سکتا ہے تو ایک حقیقی مومن جس کو خاص طور پر خدا تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اس کو کس قدر فائدہ ہو گا کہ اپنے کام کے انجام پر نظر رکھے اور ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ علیم و قدیر خدا میرے ہر کام اور ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور اسی وجہ سے میں نے اپنے ہر کام کو اس کی رضا کے لئے کرنا ہے۔ اگر یہ سوچ نہیں ہو گی، خدا تعالیٰ کو بھول جاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاسقوں میں شمار ہو گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فاسق کہہ کر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو واضح کر دیا کہ اگر تقویٰ پر نہیں چلتے۔ اپنے کل کی فکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلتے تو پھر فاسقوں میں شمار ہو گا اور فاسق وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو توڑنے والے ہیں۔ جو گناہوں میں مبتلا رہنے والے ہیں۔ جو اطاعت سے نکلنے والے ہیں۔ جو سچائی سے دُور ہٹنے والے ہیں۔ پس اگر ہم اپنے جائزے نہیں لیتے، اپنے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار پر پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے تو بڑے خوف کا مقام ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن کی نسبت فرمایا کہ نَسُوااللّٰہَ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ یعنی جنہوں نے اس رحمت اور پاکی کے سرچشمہ قدّوس خدا کو چھوڑ دیا اور اپنی شرارتوں، چالاکیوں، ناعاقبت اندیشیوں، غرض قسم قسم کے حیلہ سازیوں اور رُوبہ بازیوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ (روبہ بازیوں کا مطلب ہے جو لومڑیوں کی طرح چالاکیاں کرتے ہیں۔ اردو میں محاورہ ہے لومڑی کی طرح بڑا چالاک ہے۔)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’مشکلات انسان پر آتی ہیں۔ بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں۔ کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے۔ دوست بھی ہوتے ہیں۔ دشمن بھی ہوتے ہیں مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو‘‘ (یعنی خدا تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھتا ہے اور وہ اسے دوستوں پر بھی اور فائدہ مند چیزوں پر بھی مقدم رہتا ہے۔ پھر فرمایا ’’دوست پر بھروسہ ہو۔ ممکن ہے وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے (کہ کام آئے۔ پھر) حاکم پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور ان احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس قدر دُور ڈال دے کہ وہ کام نہ آ سکیں۔‘‘
فرمایا کہ’’پس ہر آن خدا (تعالیٰ) سے تعلق نہ چھوڑنا چاہئے جو زندگی، موت کسی حالت میں ہم سے جدا نہیں ہوسکتا‘‘۔ (زندگی اور موت میں خدا تعالیٰ کا ہی ساتھ ہے۔)
فرمایا کہ ’’پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے اور سکھ نہ پاؤ گے بلکہ ہر طرف سے ذلّت کی مار ہو گی اور ممکن ہے کہ وہ ذلّت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آ جاوے۔ ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق، فاجر ہوتے ہیں۔ ان میں سچا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا۔ یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچے ہیں۔ نہیں۔ ان میں شفقت علی خلق اللہ بھی نہیں ہوتی!۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 68)۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے شفقت بھی نہیں کرتے۔ یعنی نہ خدا کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بندوں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے عارضی فائدوں کی بجائے اپنے کل پر نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
مومن کے لئے یہ بہت بڑا فکر کا مقام ہے کہ اپنے کل کی فکر کریں جہاں اعمال کا حساب ہونا ہے۔ غیر مومنوں کی طرح ہم صرف اس دنیا ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لیں بلکہ حقیقی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے تقویٰ پر چلیں۔ انسان اگر یہ یقین رکھے کہ کوئی خبیر و علیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری، دغا، فریب، سستی و کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا تو وہ بچ سکتا ہے۔
اس یقین پر ہم قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور پھر اس بات پر بھی یقین کہ وہ ہمارے ہر قسم کے دھوکے، فریب چاہے وہ ہم معمولی سمجھ کر تھوڑا سا منافع کمانے کے لئے کر رہے ہیں یا اپنے کام میں سستی دکھا رہے ہیں یا معاہدے کے مطابق اس نیّت سے جان بوجھ کر کام ختم نہیں کررہے کہ شاید کسی کو دباؤ میں لا کر مزید مفاد اٹھا سکیں تو یاد رکھیں ایسی باتیں خدا تعالیٰ کو پسندنہیں۔ انسان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ دنیاوی معاملات کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ مومن کے لئے تقویٰ پر چلنے کا حکم ہے اور تقویٰ میں تمام دینی اور دنیاوی کاموں کو خدا تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔
شیطان کا حملہ یا روحانی بیماری جو ہے جسمانی بیماری سے بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بسا اوقات اس کے علاج کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا۔ دوسرے توجہ دلائیں بھی کہ علاج کروا لو تو اس طرف توجہ نہیں ہوتی۔
یہ بات یقینی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو بھلاتے ہیں وہ آخر کار ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا اخلاقی انحطاط بھی ہوتا ہے اور روحانی تنزل بھی ہوتا ہے اور آخر کار ذہنی سکون بھی جاتا رہتا ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے عارضی فائدوں کی بجائے اپنے کل پر نظر رکھیں۔
فرمودہ مورخہ 06؍مارچ 2015ء بمطابق06امان 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔