سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات
خطبہ جمعہ 13؍ مارچ 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ بعض باتیں بیان کروں گا جن کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہے۔ ان سے بہت سی سبق آموز باتیں سامنے آتی ہیں جن سے آجکل بھی اپنے راستے متعین کرنے کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔
پہلا واقعہ یا پہلا بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبلیغ کے بارے میں جوش اور کس طرح جماعت کو دیکھنا چاہتے تھے کے متعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ اسلام کے لئے جو جوش اور درد تھا جس کا اثر وہ اپنے جماعت کے افراد پر بھی دیکھنا چاہتے تھے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ سلسلہ کے لئے عجیب عجیب خیال آتے تھے اور وہ رات دن اسی فکر میں رہتے تھے کہ یہ پیغام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جائے۔ ایک مرتبہ آپ نے تجویز کی کہ ہماری جماعت کا لباس ہی الگ ہو تا کہ ہر شخص بجائے خود ایک تبلیغ ہو سکے۔ … اس پر مختلف تجویزیں ہوئیں۔‘‘ (ماخوذ از الفضل جلد 10نمبر 1 صفحہ 16) یعنی یہ پہچان ہو جائے کہ یہ احمدی ہے۔ اب صرف ایک علیحدہ پہچان تو کوئی چیز نہیں ہے۔ یقینا آپ کی یہی خواہش ہو گی کہ اس طرح جہاں ایک لباس دیکھ کر اور پھر عملی اور اعتقادی حالت دیکھ کر غیروں کی توجہ ہو گی وہاں خود بھی احساس رہے گا کہ میں ایک احمدی کی حیثیت سے پہچانا جاؤں گا۔ اس لئے میں نے اپنی عملی اور اعتقادی حالت کو درست بھی رکھنا ہے۔
پس آج بھی ہمیں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ لباس کوئی چیز نہیں لیکن کم از کم ہماری حالتیں ایسی ہوں کہ ہر ایک ہمیں دیکھ کے پہچان سکے کہ یہ احمدی ہے اور یہ دوسروں سے منفرد ہے۔
لباس کا ذکر ہو رہا تھا۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک مبلغ یا دین کے کام کرنے والے کی شکل کس طرح کی ہونی چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’تبلیغ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ مبلغ کی شکل مومنانہ ہو۔‘‘ خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’پس میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی داڑھیوں میں، بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے۔ اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہننے سے نہیں روکتا۔ (صاف لباس ہو۔ نفاست ہو۔ اس سے نہیں روکتا۔) بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہری صفائی کو ملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جاؤ مگر لباس میں تکلف اختیار کرنا منع ہے۔ اسی طرح (بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہیں۔ ) تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اس پر گرد تو نہیں پڑ گئی۔ یہ ایک لغو بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کروا رہے ہوں اور دل میں یہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گردنہ پڑ جائے۔ (آپ کہتے ہیں کہ کپڑوں پر) برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اپنے وقت کا بیشتر حصہ ان باتوں پر صرف کر دینا پسندیدہ نہیں سمجھا جاسکتا…۔ (آپ کہتے ہیں) بعض لوگوں کو لباس کا اتنا کمپلیکس ہوتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ دعوت کے موقع پر رونی شکل بنا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں ہے یا فلاں قسم کا لباس نہیں ہے۔ انسان کے پاس جس قسم کا بھی لبا س ہو اس قسم کے لباس میں اسے دوسروں سے بڑے اعتماد سے ملنے چلے جانا چاہئے۔ اصل چیز تو ننگ ڈھانکنا ہے۔ (نفاست ہے۔ نظافت ہے۔ صفائی ہے۔) جب ننگ ڈھانکنے کا لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اس لئے محروم ہو جاتا ہے کہ میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلاں قسم کا کرتہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے۔ (ماخوذ از خدام الاحمدیہ سے خطاب۔ انوار العلوم جلد 16صفحہ441، 442)
پس واقفین زندگی کے لئے خاص طور پر مبلغین کے لئے اور عام طور پر عمومی جماعت کے افراد کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ ظاہری رکھ رکھاؤ کی طرف اتنی توجہ نہ دیں کہ اصل مقصد پیچھے چلا جائے۔ یا بعض ایسے ہیں جو نظافت کا خیال بھی نہیں رکھتے انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نظافت ایمان کا حصہ ہے۔ پس ہر معاملہ میں اعتدال ہونا چاہئے۔ نہ اِدھر جھکاؤ ہو نہ اُدھر جھکاؤ ہو۔
تبلیغ کے حوالے سے آپ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ تبلیغ پر خاص طور پر زور دیا جائے۔ (دہلی آپ گئے تو کہتے ہیں) اس دفعہ یہاں دہلی میں میرے لئے ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اب دلّی والوں نے کج بحثی کو چھوڑ دیا ہے ورنہ اس سے پہلے جب کبھی مجھے یہاں آنے کا (موقع ملا یا) اتفاق ہوا دہلی کے ہر قسم کے لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آیا کرتے تھے اور عجیب عجیب قسم کی بحث شروع کر دیا کرتے تھے اور کسی نے بھی کبھی معقول بات نہ کی تھی۔ (فرماتے ہیں کہ) مجھے یاد ہے مَیں اس وقت چھوٹا سا تھا۔ میں یہاں آیا اور اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ حیدرآباد کے ایک رشتے کے بھائی بھی ہماری رشتے کی اس نانی کے پاس ملنے آئے تھے جن کے پاس حضرت امّاں جان ٹھہری ہوئی تھیں۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے پوچھا (اس رشتے کے بھائی نے) کہ یہ لڑکا کون ہے؟ نانی نے کہا کہ فلاں کا لڑکا ہے۔ یعنی حضرت امّاں جان کا نام لیا۔ حضرت امّاں جان کا نام سن کر وہ مجھے کہنے لگے کہ تمہارے ابّا نے کیا شور مچا رکھا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف کئی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ) اس وقت میری عمر چھوٹی تھی مگر بجائے اس کے کہ میں گھبراؤں کیونکہ مجھے وفات مسیح کی بحث اچھی طرح یاد تھی میں نے وفات مسیح کے متعلق بات شروع کر دی۔ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس زمانے میں جو مسیح موعود اور مہدی معہود آنے والا ہے وہ اسی امّت میں سے آئے گا۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے قرآن کریم کی ان آیات میں سے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ(آل عمران: 56) والی آیت یاد تھی تو میں نے اس کے متعلق سارے مضمون کو اچھی طرح کھول کر بیان کیا تو وہ بڑے حیران ہو کر کہنے لگے کہ واقعی اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں مگر یہ مولوی لوگ کیوں شور مچاتے ہیں؟ تو مَیں نے انہیں کہا کہ یہ بات تو پھر ان مولویوں سے پوچھئے۔ لیکن نانی کا ردّ عمل کیا ہوا۔ فرماتے ہیں کہ ہماری نانی نے شور مچا دیا کہ توبہ کرو، توبہ کرو۔ اس بچے کا دماغ پہلے ہی ان باتوں کو سن کر خراب ہؤا ہؤا تھا تم نے تصدیق کر کے اسے کفر پر پکا کر دیا۔ (ماخوذ از ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے۔ انوار العلوم جلد 18صفحہ453، 454)
پھر تبلیغ کے حوالے سے ہی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کے تبلیغ کے طریق کو بیان فرماتے ہیں کہ ’’میاں شیر محمد صاحب اَن پڑھ آدمی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے۔ وہ فنا فی الدین قسم کے آدمیوں میں سے تھے۔ یکّہ چلاتے تھے۔ غالباً پھلور سے (یہ جگہ کا نام ہے) سواریاں لے کر بنگہ جاتے تھے۔ ان کا طریق تھا کہ سواری کو یکّے میں بٹھا لیتے اور یکّہ چلاتے جاتے اور سواریوں سے گفتگو شروع کر لیتے۔ اخبار الحکم منگواتے تھے۔ جیب سے اخبار نکال لیتے اور سواریوں سے پوچھتے آپ میں سے کوئی پڑھا ہوا ہے؟ اگر کوئی پڑھا ہوا ہوتا، اسے کہتے کہ یہ اخبار میرے نام آئی ہے۔ ذرا اس کو سنا تو دیجئے۔ یکّہ میں بیٹھا ہوا آدمی جھٹکے کھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کوئی شغل مل جائے۔ وہ خوشی سے پڑھ کر سنانا شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ اخبار پڑھنا شروع کرتا تو وہ (یعنی یہ خود میاں شیر محمد صاحب) جرح شروع کر دیتے کہ یہ کیا لکھا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اس طرح جرح کرتے کہ اس کے ذہن (یعنی پڑھنے والے کے ذہن کو جو احمدی نہیں ہوتا تھا) سوچ کر جواب دینا پڑتا اور بات اچھی طرح اس کے ذہن نشین ہو جاتی۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) یہ واقعہ انہوں نے مجھے سنایا تھا تو اس وقت تک (صرف الفضل یا الحکم پڑھانے کے ذریعہ سے) ان کے ذریعے درجن سے زیادہ احمدی ہو چکے تھے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی سال تک زندہ رہے۔ نامعلوم کتنے آدمی ان کے ذریعہ اسی طریق پر احمدیت میں داخل ہوئے۔ غرض ضروری نہیں کہ ہمیں کام شروع کرنے کے لئے بڑے عالم آدمیوں کی ضرورت ہے بلکہ ایسے علاقوں میں جہاں کوئی پڑھا ہوا آدمی نہیں مل سکتا اگر اَن پڑھ احمدی مل جائے تو اَن پڑھ ہی ہمارے پاس بھجوا دیا جائے اس کو زبانی مسائل سمجھائے جا سکتے ہیں۔ (بعض جو چھوٹی جماعتیں ہیں، دُور کی جماعتیں ہیں ان کے لئے خاص ہدایت ہے تا کام شروع ہو جائے۔) اگر ہم اس انتظار میں رہیں کہ عالم آدمی ملیں تو نامعلوم ان کے آنے تک کتنا زمانہ گزر جائے گا؟ (ابھی بھی باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعات میں بڑی خاصی تعداد مربّیان کی آ رہی ہے لیکن پھر بھی مستقبل قریب میں ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔ ) کیونکہ علماء کو مذہب کی باریکیوں میں جانا پڑتا ہے اس لئے ان کو علم حاصل کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ مذہب میں باریکیاں ہوتی ہیں ان کو سیکھنے کے لئے ایک لمبے عرصے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے متعلق فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ کہ دین آسانی کا نام ہے۔ (ماخوذ از الفضل قادیان مورخہ 7نومبر1945 صفحہ3 جلد 33نمبر261)
پس دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے بڑے سیمیناروں اور فنکشنوں کا سہارا لیا جائے۔ حالات کے مطابق طریق نکالنے چاہئیں۔ اس زمانے میں بھی بہت سے احمدی ایسے ہیں جو اپنے طورپر تبلیغ کے طریقے نکالتے ہیں اور اللہ کے فضل سے بڑے کامیاب ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے ایک مشترک دوست کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ آپ کے ایک دوست تھے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے۔ ان کا نام نظام الدین تھا۔ انہوں نے سات حج کئے تھے۔ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے۔ چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٔ ماموریت کیا اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا تو ان کے دل کو بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیکی پر بہت یقین تھا۔ وہ لدھیانہ میں رہا کرتے تھے اور مخالف لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کچھ کہتے تو وہ ان سے جھگڑ پڑتے اور کہتے کہ تم پہلے حضرت مرزا صاحب کی حالت کو تو جا کر دیکھو۔ وہ تو بہت ہی نیک آدمی ہیں اور میں نے ان کے پاس رہ کر دیکھا ہے کہ اگر انہیں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو) قرآن شریف سے کوئی بات سمجھا دی جائے تو وہ فوراً ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ فریب ہرگز نہیں کرتے۔ اگر انہیں قرآن سے سمجھا دیا جائے کہ ان کا دعوی غلط ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ فوراً مان جائیں گے۔ بہت دفعہ وہ لوگوں کے ساتھ اس امر پر جھگڑتے اور کہا کرتے کہ جب میں قادیان جاؤں گا تو دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنے دعویٰ سے توبہ نہیں کرتے۔ (یہ کہنے لگے کہ) میں قرآن کھول کر ان کے سامنے رکھ دوں گا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے) اور جس وقت قرآن کی کوئی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق بتاؤں گا وہ فوراً مان جائیں گے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ وہ قرآن کی بات سن کر پھر کچھ نہیں کہا کرتے۔ آخر ایک دن انہیں خیال آیا اور لدھیانہ سے قادیان پہنچے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور قرآن سے انکار کر دیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ کس طرح ہو سکتا ہے قرآن کو تو مَیں مانتا ہوں اور اسلام میرا مذہب ہے۔ کہنے لگے الحمد للہ۔ میں لوگوں سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ وہ قرآن کو چھوڑ ہی نہیں سکتے۔ پھر کہنے لگے اچھا اگر میں قرآن مجید سے سینکڑوں آیتیں اس امر کے ثبوت میں دکھا دوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں تو کیا آپ مان جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ سینکڑوں آیات کا تو ذکر کیا اگر آپ ایک ہی آیت مجھے ایسی دکھا دیں تو میں مان لوں گا۔ کہنے لگے الحمد للہ۔ مَیں لوگوں سے یہی بحثیں کرتا آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب سے منوانا تو مشکل بات نہیں یونہی لوگ شور مچا رہے ہیں۔ پھر کہنے لگے اچھا سینکڑوں نہ سہی مَیں اگر ایک سو آیتیں ہی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کر دوں تو کیا آپ مان لیں گے؟ آپ نے فرمایا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر آپ ایک ہی آیت ایسی پیش کر دیں گے تو مَیں مان لوں گا۔ قرآن مجید کی جس طرح سو آیتوں پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایک یا سو آیتوں کا سوال ہی نہیں ہے۔ کہنے لگے اچھا۔ سو نہ سہی پچاس آیتیں اگر میں پیش کر دوں تو کیا آپ کا وعدہ رہا کہ آپ اپنی باتیں چھوڑ دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک ہی آیت پیش کریں میں ماننے کے لئے تیار ہوں۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جوں جوں اس امر پر پختگی کا اظہار کرتے جائیں انہیں شبہ ہوتا جائے کہ شاید اتنی آیتیں قرآن کریم میں نہ ہوں۔ آخر کہنے لگے کہ اچھا دس آیتیں اگر میں پیش کر دوں تو پھر تو آپ ضرور مان جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا میں تو اپنی پہلی بات پر ہی قائم ہوں۔ آپ ایک آیت ہی ایسی پیش کریں۔ کہنے لگے اچھا میں اب جاتا ہوں۔ چار پانچ دنوں تک آؤں گا اور آپ کو قرآن سے ایسی آیتیں دکھلا دوں گا۔
ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور میں تھے اور حضرت خلیفہ اوّل بھی وہیں تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے اس وقت مباحثے کے لئے شرائط کا تصفیہ ہو رہا تھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ مباحثہ ہونا تھا اس کا تصفیہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی محمد حسین کے درمیان ہو رہا تھا) جس کے لئے آپس میں خط و کتابت بھی ہو رہی تھی۔ مباحثے کا موضوع وفات مسیح تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ کہتے تھے کہ چونکہ قرآن مجید کی مفسّر حدیث ہے اس لئے جب حدیثوں سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کی ہی بات سمجھی جائے گی اس لئے حدیثوں کی رُو سے وفات و حیات مسیح پر بحث ہونی چاہئے۔ اور حضرت مولوی صاحب فرماتے (یعنی خلیفہ اوّل) کہ قرآن مجید حدیث پر مقدّم ہے اس لئے بہر صورت قرآن سے اپنے مدّعا کو ثابت کرنا ہو گا۔ اس پر بہت دنوں تک بحث رہی اور بحث کو مختصر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ تا کسی نہ کسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ ہو جائے حضرت خلیفہ اوّل اس کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اور مولوی محمد حسین صاحب بہت خوش تھے کہ جو شرائط میں منوانا چاہتا ہوں وہ مان رہے ہیں۔ اس دوران میں میاں نظام الدین صاحب وہاں پہنچے اور کہنے لگے تمام بحثیں بند کردو۔ مَیں اب حضرت مرزا صاحب سے مل کر آیا ہوں اور وہ بالکل توبہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ میں چونکہ آپ کا بھی دوست ہوں اور حضرت مرزا صاحب کا بھی اس لئے مجھے اس اختلاف سے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت میں نیکی ہے۔ اس لئے میں ان کے پاس گیا اور ان سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ قرآن سے دس آیتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق دکھا دی جائیں تو وہ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہو جائیں گے۔ آپ مجھے ایسی دس آیتیں بتلا دیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طبیعت میں بڑا غصہ تھا۔ جلد باز تھے۔ کہنے لگے کمبخت تو نے میرا سارا کام خراب کر دیا۔ میں دو مہینے سے بحث کر کے ان کو حدیث کی طرف لایا تھا اب تُو پھر قرآن کی طرف لے گیا ہے۔ میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اچھا تو دس آیتیں بھی آپ کی تائید میں نہیں۔ وہ کہنے لگے تُو جاہل آدمی ہے تجھے کیا پتا کہ قرآن کا کیا مطلب ہے۔ وہ کہنے لگے اچھا تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں بھی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
تو آپ فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو قرآن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قدر اعتماد تھا اور آپ کتنے وثوق سے فرماتے تھے کہ قرآن آپ کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قرآن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی خاص رشتہ ہے یا اس کا جماعت احمدیہ سے کوئی خاص تعلق ہے۔ قرآن تو سچائی کی راہ دکھائے گا اور جو فریق سچ پر ہو گا اس کی حمایت کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ یقین تھا کہ آپ حق پر ہیں اس لئے قرآن بھی آپ کے ساتھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرا کوئی دعویٰ قرآن کے مطابق نہ ہو تو میں اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دوں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعویٰ کے متعلق کوئی شک تھا بلکہ یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ قرآن میری تصدیق ہی کرے گا۔ یہ امید ہے جس نے دنیا میں آپ کو کامیاب کر دیا۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 13صفحہ416تا418 خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اپریل 1932ء)
پس ہر احمدی کو ہمیشہ پُر اعتماد رہنا چاہئے کہ قرآن کریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے۔ اور یہ قرآن کریم کی تائید ہی ہے جو ہر روز جماعت کی تعداد کو پاک فطرت لوگوں کے سینے روشن کر کے بڑھا رہی ہے۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ مخالفت بھی ہدایت کا موجب ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی ہے اور جب مخالفت بڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیدات اور نصرتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب کوئی دوست یہ ذکر کرتے کہ ہمارے ہاں بڑی مخالفت ہے تو آپ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے۔ جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں جماعت بھی بڑھتی ہے کیونکہ مخالفت کے نتیجے میں کئی ناواقف لوگوں کو بھی سلسلے سے واقفیت ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ان کے دل میں سلسلے کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ کتابیں پڑھتے ہیں تو صداقت ان کے دلوں کو موہ لیتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک دوست حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی بیعت کی۔ بیعت لینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی۔ وہ بے ساختہ کہنے لگے مجھے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حیرت سے فرمایا، وہ کس طرح؟ وہ کہنے لگے کہ میں مولوی صاحب کا اخبار اور ان کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور میں ہمیشہ دیکھتا کہ ان میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت ہوتی تھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ میں خود بھی تو اس سلسلے کی کتابیں دیکھوں کہ ان میں کیا لکھا ہے۔ اور جب میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا۔ تو مخالفت کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے الٰہی سلسلے کو ترقی حاصل ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو ہدایت میسر آ جاتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6صفحہ487)
آج بھی مخالفین کی مخالفتیں لوگوں کے سینے کھولنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اکثر مبلغین کی رپورٹوں میں بھی یہ ذکر ہوتا ہے اور کئی خط مجھے براہ راست بھی آتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے جماعت سے تعارف حاصل کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ یہ بیان فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ احمدی ہونے کے بعد ایک اَن پڑھ کو بھی کس طرح عقل دے دیتا ہے اور وہ حاضر جواب ہو جاتا ہے، ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’لدھیانہ کے علاقے کے ایک شخص میاں نور محمد صاحب تھے۔ انہوں نے ادنیٰ اقوام میں تبلیغ اسلام کا بیڑہ اٹھایا ہوا تھا۔ وہ خاکروبوں میں (صفائی کرنے والوں میں جن میں سے اکثریت عیسائی بھی تھی) تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اور سینکڑوں خاکروب ان کے مرید ہو گئے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کے بعض مرید بعض دفعہ یہاں بھی آ جایا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ہمارے پیر کے پیر ہیں۔ یہاں ہمارے ایک رشتے میں چچا نے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کے دعوے کا تمسخر اڑانے کے لئے اپنے آپ کو چوہڑوں کا پیر مشہور کیا ہوا تھا۔ (اور کچھ تو نہیں کر سکے چوہڑوں کا پیر مشہور کر دیا) اور ان کا دعویٰ تھا کہ میں لال بیگ ہوں یعنی خاکروبوں کا پیشوا ہوں۔ ایک دفعہ بعض وہ لوگ جو خاکروبوں سے مسلمان ہو چکے تھے یہاں آئے۔ انہیں حُقّے کی عادت تھی۔ (ان صاحب کی مجلس میں یعنی یہ جو اپنے آپ کو خاکروبوں کا پیر کہتے تھے ویسے مغل تھے۔ ان صاحب کی مجلس میں ) جو انہوں نے حقّہ دیکھا تو حُقّے کی خاطر ان کے پاس جا بیٹھے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہمارے (ان رشتے کے) چچا نے ان سے مذہبی گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ تم مرزا صاحب کے پاس کیوں آئے ہو؟ تم تو دراصل میرے مرید ہو۔ مرزا صاحب نے تمہیں کیا دیا ہے۔ وہ لوگ اَن پڑھ تھے جیسے خاکروب عام طور پر ہوتے ہیں۔ (اس زمانے کی بات ہے جب بیان کر رہے ہیں۔ وہ بھی آج سے ستر سال پہلے کی۔ ) تو آپ فرماتے ہیں کہ ’’آجکل تو پھر بھی خاکروب کچھ ہوشیار ہو گئے ہیں لیکن یہ آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی) اس وقت یہ قوم بالکل ہی جاہل تھی۔ لیکن جب ان سے ہمارے چچا نے سوال کیا کہ مرزا صاحب نے تم کو کیا دیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اور تو کچھ نہیں جانتے لیکن اتنی بات پھر بھی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ پہلے ہم کو چوہڑے کہتے تھے لیکن مرزا صاحب سے تعلق کی وجہ سے اب ہمیں مرزائی کہتے ہیں۔ گویا ہم چوہڑے تھے اب ان کے طفیل مرزا بن گئے۔ لیکن آپ پہلے مرزا تھے اور مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے چوہڑے بن گئے۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ’’اب یہ باتیں ہیں تو بظاہر لطائف مگر ان کے اندر معرفت کا فلسفہ بھی موجود ہے۔ اِن اَن پڑھ لوگوں نے اپنی زبان سے اس مفہوم کو ادا کر دیا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے مخالفوں کو تباہ کر دیتا ہے اور ماننے والوں کو ترقی دیتا ہے۔ پس سچی بات یہ ہے کہ احمدی ہوتے ہی انسان کی عقل مذہبی امور میں تیز ہو جاتی ہے اور وہ علماء پر بھی بھاری ہوتا ہے۔ لیکن اس امر کو نظر انداز کر دو تو بھی کونسا ایسا احمدی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اس کے طبقے کے لوگ دنیا میں موجودنہیں بلکہ ہر احمدی اپنی عقل اور سمجھ میں کم سے کم اپنے طبقے کے ہر عیسائی، ہندو، سکھ اور غیر احمدی سے زیادہ ہوشیار ہو گا‘‘ (یعنی مذہبی امور میں )۔ (خطبات محمود جلد16صفحہ796 تا 798۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 13دسمبر 1935ء)
احمدیوں کے اخلاص کے انوکھے انداز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کو پورا کرنے کی خواہش اور پھر احمدیت کی وجہ سے دشمنی کا سامنا اور احمدیت کی وجہ سے ہی دشمنی کا محبت میں بدل جانے کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اپنے بچپن کے زمانے میں ضلع گجرات کے لوگوں کا یہاں آنا یاد ہے (یعنی قادیان آنا)۔ اس وقت سیالکوٹ اور گجرات سلسلے کے مرکز سمجھے جاتے تھے۔ گورداسپور بہت پیچھے تھا کیونکہ قاعدہ ہے کہ نبی کی اپنے وطن میں زیادہ قدر نہیں ہوتی۔ اس زمانے میں سیالکوٹ اول نمبر پر تھا اور گجرات دوسرے نمبر پر۔ مجھے گجرات کے بہت سے آدمیوں کی شکلیں اب تک یاد ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سے اس اخلاص کی وجہ سے کہ تا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے بنیں کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ نہ اس وجہ سے کہ انہیں مالی تنگی ہوتی، پیدل چل کر قادیان آتے۔ (مالی تنگی کی وجہ سے نہیں بلکہ الہام پورا کرنے کے لئے سیالکوٹ اور گجرات سے پیدل چل کر قادیان آتے تھے۔ ) ان میں بڑے بڑے مخلص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قرب رکھتے تھے۔ یہ بھی ضلع گجرات کے لوگوں کا ہی واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے اور میں بھی اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آ رہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے (پیدل چل کے آ رہے تھے)۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا وہ دونوں گروہ (جو ایک طرف سے آ رہا تھا، ایک دوسری طرف سے آ رہا تھا وہ دونوں گروہ) جب ایک دوسرے کو ملے تو رونے لگ گئے۔ میں نے پوچھا تم کیوں روتے ہو؟ کہنے لگے کہ ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا۔ (ان آنے والے دو گروپوں میں سے ایک حصہ وہ تھا جو پہلے ایمان لایا) اور اس وجہ سے دوسرے حصے کی طرف سے اسے اس قدر دکھ دیا گیا۔ (اسی علاقے کے رہنے والے تھے) اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمدیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے، تھے (مخالفین تھے) خود احمدی ہو گئے۔ (پہلے بیعت کرنے والوں کو نکالنے کے بعد وہ بھی جو مخالفین تھے پھر احمدی ہو گئے۔ ) کہتے ہیں اب ’’ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف سے آ نکلے۔ جب ہم نے ان کو آتے دیکھا تو ہمارے دل اس درد کے جذبے سے پُر ہو گئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم ان سے دشمنی اور عداوت کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ آج خد انے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف۔ انوار العلوم جلد 13صفحہ 86، 87) پس اس وجہ سے ہم جذباتی ہو کے رو رہے تھے۔
پس یہ احمدیت کی برکات ہیں کہ بچھڑے ہوؤں کو اکٹھا کرتی ہے۔ شیطان جن کے بیچ میں رخنہ ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پھر ان کو ملا دیتی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی ایسے نظارے ہوں گے۔
مولویوں نے جو یہ غلط تأثر عامّۃ المسلمین کو دیا ہوا ہے کہ حضرت مسیح ہاتھ سے پرندے بناتے تھے اور پھر ان میں جان ڈالتے تھے اور وہ عام پرندوں کی طرح اڑنے لگ جاتے تھے یہ قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ روحانی قابلیت کے لوگوں کو تربیت دے کر اس قابل بنا دیتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف روحانی پرواز کرنے لگ جائیں۔ بہر حال ایک ایسے نظریہ رکھنے والے مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کر رہے تھے۔ تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو جو پرندے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں ان میں سے کچھ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہوں گے اور کچھ مسیح کے۔ کیا آپ ان دونوں میں کوئی امتیازی بات بتا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کون سے خدا کے پیدا کردہ ہیں اور کون سے مسیح کے۔ اس پر وہ مولوی صاحب پنجابی میں بولے۔ ’ایہہ تے ہُن مشکل اے اوہ دونوں رَل مل گئے نیں‘۔ یعنی یہ کام تو اب مشکل ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ اور مسیح کے پیدا کئے ہوئے پرندے آپس میں مل جُل گئے ہیں۔ اب ان دونوں میں امتیاز مشکل ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 96)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ نے عیسائیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور ہے۔ آپ نے خود کبھی پہل نہیں کی تھی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’بعض دفعہ جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر کسی حد تک ان باتوں کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔ عیسائی ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کیا کرتے تھے اور مسلمان چونکہ ان کے حملوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ اس لئے عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے بانی میں عیب ہی عیب ہیں۔ اگر کسی میں عیب نہیں تو وہ یسوع کی ذات ہے۔ وہ مسلمانوں کی شرافت کے غلط معنی لیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم گند اچھالتے ہیں اور یہ نہیں اچھالتے اس لئے معلوم ہوا کہ واقعہ میں ان کے سردار میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’دنوں کے بعد دن گزرے، ہفتوں کے بعد ہفتے، سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں۔ سات آٹھ سو سال تک عیسائی متواتر (مسلمانوں پر یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر) گند اچھالتے رہے اور مسلمان انہیں معاف کرتے رہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اب ذرا تم بھی ہاتھ دکھاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہمیں تم میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یسوع کو مخاطب کرتے ہوئے وہ باتیں لکھنی شروع کیں جو یہودی آپ کے متعلق کہا کرتے تھے یا خود مسیحیوں کی کتابوں میں لکھی ہوئی تھیں۔ ابھی اس قسم کی دو چار کتابیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھی تھیں کہ ساری عیسائی دنیا میں شور مچ گیا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا طریق اچھا نہیں مگر تم ہماری بات کو سمجھا نہیں کرتے تھے۔ آخر جب خود تم پر زَد پڑنے لگی تو تمہیں ہوش آ گیا اور تم کہنے لگے کہ یہ طریق درست نہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ 8دسمبر 1938ء صفحہ 6، 7 جلد 26نمبر 283) بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سخت الفاظ استعمال کئے ہیں تو جواب میں کئے ہیں نہ کہ پہل کی ہے۔
پنجاب کے ایک بڑے مشہور طبیب جن کی حضرت خلیفہ اوّل بھی بڑی قدر کرتے تھے، ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ طبیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے لیکن اس عقیدت کے باوجود آپ کے دعوے کو نہیں مانتے تھے۔ ان کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ حکیم صاحب کے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو وفات مسیح کا اعلان ہے اس کی وجہ کچھ اور تھی۔ بہرحال حضرت مصلح موعودنے شروع اس طرح کیا کہ حضرت شعیب جو لوگوں سے کہتے کہ تم دوسروں کا مال نہ لوٹو۔ اپنے مال کو ناجائز کاموں میں صرف نہ کرو تو آپ کی باتوں سے آپ کی قوم حیران ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ شعیب پاگل ہو گیا ہے اور دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) اِس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لوگوں نے (نعوذ باللہ) پاگل کہا۔ جب آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ دنیا میں پیش کیا تو مسلمان سمجھ ہی نہ سکے کہ جب تیرہ سو سال تک سے یہ مسئلہ امت محمدیہ کے اکابر پیش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو وہ فوت کس طرح ہو گئے۔ لوگوں کو اس مسئلے کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ اس ایک واقعہ سے (حکیم صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہیں ) اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ کتنا یقین اور وثوق تھا کہ کبھی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت عیسیٰ وفات پا گئے ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبّی عظمت کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے طبیب بھی قائل تھے اور جن کا نام حکیم اللہ دین تھا۔ اور بھیرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک دفعہ ان کے پاس مولوی فضل دین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گہرے دوست اور نہایت مخلص احمدی تھے گئے اور انہوں نے (حکیم صاحب کو) کچھ تبلیغ کی۔ حکیم صاحب باتیں سن کر کہنے لگے۔ میاں تم مجھے کیا تبلیغ کرتے ہو، تم بھلا جانتے ہی کیا ہو اور مجھے تم نے کیا سمجھانا ہے۔ مرزا صاحب کے متعلق تو جو مجھے عقیدت ہے اس کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقیدت نہیں ہو گی۔ مولوی فضل دین صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا اس بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزا صاحب سے عقیدت ہے اور میں خوش ہوں گا اگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اور بھی سنوں۔ وہ کہنے لگے آجکل کے جاہل نوجوان بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے اور یونہی تبلیغ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔ اب تم آ گئے ہو مجھے وفات مسیح کا مسئلہ سمجھانے حالانکہ تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ مرزا صاحب کی اس مسئلے کو پیش کرنے میں حکمت کیا ہے؟ وہ کہنے لگے آپ ہی فرمائیے۔ انہوں نے کہا سنو! اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی۔ تیرہ سو سال میں بھلا کوئی مسلمان کا بچہ تھا جس نے ایسی کتاب لکھی ہو۔ مرزا صاحب نے اس میں ایسے ایسے علوم بھر دئیے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ اسلام کے لئے ایک دیوار تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچا لیا لیکن مولوی ایسے احمق اور بے وقوف نکلے کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے اور زانوئے ادب تہہ کر کے آپ سے کہتے کہ آئندہ ہم آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے انہوں نے الٹا آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں اور کسی نے نہ کی یہ مولوی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیت جتانے لگے اور سمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں۔ اس پر مرزا صاحب کو غصہ آنا چاہئے تھا اور آیا۔ (یہ حکیم صاحب فرماتے ہیں۔ اب یہاں سے حکیم صاحب اپنی دلیل شروع کر رہے ہیں۔ ) چنانچہ انہوں نے مولویوں سے کہا کہ اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو۔ اگر تمہیں اپنی علمیت پر ایسا ہی گھمنڈ ہے تو دیکھ لو کہ حیات مسیح کا عقیدہ قرآن سے اتنا ثابت ہے، اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنا ناممکن نظر آتا ہے لیکن میں قرآن سے ہی حضرت مسیح کی وفات ثابت کر کے دکھاتا ہوں۔ اگر تم میں ہمت ہے تو اس کا ردّ کرو۔ چنانچہ انہوں نے مولویوں کو ان کی بیوقوفی جتانے کے لئے وفات مسیح کا مسئلہ پیش کر دیا اور قرآن سے اس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے۔ (حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ) اب مولوی چاہے سارا زور لگا لیں، چاہے ان کی زبانیں گھس جائیں اور قلمیں ٹوٹ جائیں، سارے ہندوستان کے مولوی مل کر بھی مرزا صاحب کے دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مرزا صاحب نے انہیں ایسا پکڑا ہے کہ ان میں سر اٹھانے کی تاب نہیں رہی۔ (حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ) اب اس کا ایک ہی علاج ہے۔ (ویسے تو وفات مسیح کا مسئلہ کوئی نہیں۔ حیات مسیح قائم ہے لیکن مولویوں کو ٹھیک کرنے کا یعنی اس مسئلے، جھگڑے کو دُور کرنے کا ایک ہی علاج ہے) اور وہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہو گئی ہے۔ ہمیں معاف کیا جائے۔ پھر دیکھیں مرزا صاحب قرآن سے ہی حیات مسیح ثابت کر کے دکھاتے ہیں یا نہیں۔ (تفسیر کبیر جلد 7صفحہ 107، 108)
یہ بھی انہوں نے خوب من پسند تشریح کی ہے۔ اب دیکھیں کہ باوجود عقیدت ہونے کے ان میں حیات مسیح کا مسئلہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں نہیں آ سکے لیکن عقیدت رکھتے تھے۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر ہو کہ اس کو زمانے کے امام کو حقیقت میں ماننے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وفات مسیح کا مسئلہ کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ توحید کے قیام کے لئے انتہائی ضروری ہے اور حضرت مسیح موعودنے آ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا تھا۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ کی وفات کو ثابت کر کے توحید کامل کے رستے میں جو روک تھی اسے دور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس مسئلے پر بہت زور دیتے تھے۔ رات دن یہی ذکر فرماتے رہتے تھے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے یاد ہے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ حضور اس مسئلے کو اب چھوڑ بھی دیں۔ تو حضور کو جلال آ گیا اور فرمایا کہ مجھے تو بعض اوقات اس کے متعلق اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید جنون نہ ہو جائے۔ اس مسئلے نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور ہم جب تک اسے پِیس نہ ڈالیں گے آرام کا سانس نہیں لے سکتے۔ اب بھی بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے۔ مگر یہ احدیت کے رستے میں روکیں ہیں جنہیں دُور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر جوش تھا۔ اور یہی وہ جوش تھا جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچا اور صداقت کے لئے بنیاد قائم کر دی۔ اور ہم میں ہر ایک جسے اسلام سے محبت ہے سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اس آگ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھی۔ اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اسلام کو پھیلانے کی تڑپ ہے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اس آگ کی جو حضور علیہ السلام کے دل میں تھی۔ پس ہماری تمام کوششیں اسی نقطہ پر گھومنی چاہئیں اور اسی میں محصور ہونی چاہئیں۔ لیکن اگر ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تو جو کام ہم کریں گے وہ گو بظاہر توحید ہو گا مگر دراصل وہ کسی شرک کا پیش خیمہ ہو گا۔ (الفضل قادیان مورخہ 18مئی 1943ء صفحہ 3 جلد 31نمبر 177)
توحید بھی ہو لیکن شرک کا پیش خیمہ بھی ہو، یہ کس طرح ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے ایک واقعہ پیش فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک صاحب یہاں پڑھا کرتے تھے۔ وہ روزانہ یہ بحث کیا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے۔ ان کے سر پر رومی ٹوپی تھی۔ ایک دن ایک شخص نے اسے بلایا اور کہا کہ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا۔ اس شخص نے بغیر کوئی شرم محسوس کئے ہوئے کہہ دیا کہ ہاں ضرور ہوا۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ وحدانیت تک جاتے ہیں اَحدیت تک نہیں پہنچتے۔ (اب یہ دو چیزیں سمجھنے والی ہیں۔ وحدانیت اور اَحدیت۔ کہ وحدانیت تک تو جاتے ہیں اور اَحدیت تک نہیں پہنچتے) جس پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک انسان بھی ایک حد تک خالق ہے، رازق ہے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ الگ ہے اور مخلوق الگ ہے۔ دونوں میں کوئی اتحاد ذاتی ہرگز نہیں ہے۔‘‘ نہ ہو سکتا ہے۔ (الفضل قادیان مورخہ 18مئی 1943ء صفحہ 3 جلد 31نمبر 177)
واحد اور اَحد کی لغت کے حوالے سے مختصر وضاحت کر دیتا ہوں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ واحد بھی ہے اور اَحد بھی ہے۔ وحدانیت سے مراد صفات میں واحد ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک حد تک انسان پرتَو ہو سکتا ہے اور اس کی اعلیٰ ترین مثال جو کسی انسان میں آ سکتی ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ لیکن صفات میں کامل تو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔
اور اَحد سے مراد اللہ تعالیٰ کا اکیلا ہونا ہے اور اَحد کے مقابلے پر دوسری کسی چیز کا تصور بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس جیسا کہ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ حقیقی توحید اس وقت قائم ہو گی جب اَحدیت کی حقیقت کو ہم سمجھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کو پورا کرتے ہوئے حقیقی توحید کے قائم کرنے والے ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت سے تعلق رکھنے والے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ اور ان کی روشنی میں احباب جماعت کو نصائح۔
فرمودہ مورخہ 13؍مارچ 2015ء بمطابق13امان 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔