اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل
خطبہ جمعہ 3؍ اپریل 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک روز اپنے احباب کے ساتھ باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ راستے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور تائیدات کا ذکر ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلے کی تائید میں اس قدر کثرت کے ساتھ زور دے رہا ہے پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’ایک مخالف نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے کچھ کمی نہیں کی مگر ایک بات کا جواب ہمیں نہیں آتا کہ باوجود اس مخالفت کے آپ ہر بات میں کامیاب ہی ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 239-238۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ اللہ تعالیٰ کے آپ سے وعدے تھے جس کے نتیجے اُس وقت بھی ظاہر ہوئے اور صرف اُسی وقت ہی نہیں بلکہ آج تک مخالفین اپنا زور لگاتے چلے جا رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی مخالفین نے احمدیوں کو دبانے یا ختم کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں جہاں احمدیوں کی قربانیوں کے معیار بڑھائے وہاں دنیا کے دوسرے ممالک میں خود ہی جماعت کی ترقی کے لئے ایسے راستے کھولے کہ اگر ہم صرف اپنی کوشش سے کھولنے کی کوشش کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہو سکتے۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق پھلنا، پھولنا اور بڑھنا ہے۔ انشاء اللہ۔
اس وقت مَیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے کچھ واقعات پیش کرتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کس طرح فضل فرماتا ہے۔ کس طرح لوگوں کے دلوں کو کھولتا ہے۔ کس طرح ان تک احمدیت کا پیغام پہنچتا ہے۔
ہمارے نائیجر کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک تبلیغی دورے کے دوران ایک کچا راستہ پکڑا اور اس پر تبلیغ کرتے ہوئے آگے روانہ رہے۔ تین دن کے بعد اسی راستے سے واپسی پر ایک جگہ، ایک گاؤں گِڈاں عِیدی (Gidan Idee) ہے وہاں سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے ہمیں روک لیا اور کہا کہ ہم سب آپ کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ آپ ابھی امام صاحب کے پاس چلیں۔ جب ہم امام کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ آپ ہمیں ابھی بیعت فارم دیں۔ ہم سب بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے انہیں سمجھایا کہ بیعت کے لئے جلدی نہ کریں۔ امام صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری تسلی کرا دی ہے۔ اس لئے ہمیں جماعت کی سچائی میں اب کوئی شک نہیں رہا۔ تسلی کس طرح اللہ تعالیٰ نے کرائی؟ اس کا واقعہ انہوں نے یہ سنایا کہ یہاں سے جب آپ گزرے تھے تو آپ کے جانے کے بعد مارادی شہر کے وہابیوں کے بڑے امام صاحب اپنے قافلے کے ساتھ یہاں آئے اور یہ کہتے رہے کہ احمدی تو کافر ہیں اور تم لوگوں نے کافروں کو اپنی مسجد میں گھسنے دیا اور تبلیغ کی اجازت دی۔ ایسا کیوں کیا۔ جس پر گاؤں کے امام صاحب نے ان سے کہا کہ یہی فرق ہے آپ میں اور احمدیوں میں۔ آپ جب سے یہاں آئے ہیں آپ نے کافر کے سوا کوئی بات نہیں کی اور وہ یعنی احمدی جب تک یہاں رہے انہوں نے قرآن کریم اور حدیث کے سوا کوئی بات نہیں کی۔ اگر احمدیوں کی یہی بات کفر ہے تو ہمیں ان کا یہ کفر پسند ہے اور ہم ایسے ہی کافر بننا چاہتے ہیں۔ اس پر وہابیوں کا یہ بڑا مولوی نامراد ہو کر وہاں سے واپس چلا گیا اور گاؤں والوں کا ہمارے مربی کو، مبلغ کو اصرار تھاکہ بیعت فارم دے کے جائیں جو اس وقت تو نہیں تھے۔ بہرحال وہاں بیعتیں ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی۔
پھر تنزانیہ سے ٹبورا کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک بڑی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ یہ جماعت ٹبورا شہر سے پینتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس جگہ جماعت کا قیام ایک احمدی دوست سلیمان جمعہ صاحب کے ذریعہ سے ہوا۔ موصوف وہاں تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور پمفلٹ تقسیم کرتے تھے۔ پھر اس پر کچھ افرادنے بیعت کر لی۔ اس کے بعد معلم سلسلہ نے بار بار اور مسلسل وہاں دورہ کر کے تبلیغ کی جس پر کچھ اور افرادنے بیعت کی اور اللہ کے فضل سے اب وہاں تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ افرادِ جماعت غریب ہیں لیکن ایمان کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں کے مناسب حال انہوں نے وہاں ایک کچی مسجد بھی بنا دی ہے اور چندہ کے نظام میں بھی سب شامل ہیں۔ اسی طرح مالی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ تیجانیہ فرقہ کے ایک بڑے امام آدم تَنْگَارَا صاحب نے بیعت کی۔ انہوں نے بیعت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے جماعت کی کیسٹس اور ریڈیو سن رہے تھے۔ مالی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کافی ریڈیو اسٹیشن ہیں۔ اور ان کا دائرہ ستّر اسّی میل تک ہے۔ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن ہے۔ اللہ کے فضل سے کافی پھیلا ہوا ہے، وسیع پیمانے پر تبلیغ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے (یعنی جو آدم صاحب تھے، ) والد مرحوم فرقہ تیجانیہ کے بڑے امام تھے اور انہوں نے اس علاقے کے 93 مشرک دیہاتوں کو مسلمان کیا تھا۔ ایک رات ان آدم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ان کے والد کہتے ہیں کہ احمدیت ہی سچا راستہ ہے اور وہ (یعنی ان کا بیٹا) احمدیت کے پیغام کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرے۔ تو اس کے بعد یہ ہمارے معلم کو ملے۔ معلم صاحب کے ساتھ تبلیغ کے لئے ایک گاؤں میں گئے۔ اس گاؤں کے لوگ پہلے مشرک تھے اور ان کے والد صاحب کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے۔ چنانچہ اس گاؤں کے امام جن کی عمر اس وقت ستاسی سال ہے وہ آدم صاحب کے والد صاحب کے گہرے دوست تھے۔ جب ان سے ملے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ریڈیو پر جماعت کی تبلیغ سنی ہے۔ یقینا احمدیت ہی سچا راستہ ہے۔ نیز انہوں نے آدم تنگارا صاحب کو نصیحت کی کہ وہ اس پیغام کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کریں اور اس امام نے بھی وہی الفاظ کہے جو ان کے والدنے خواب میں کہے تھے یعنی والد کے دوست کے ذریعہ سے وہی الفاظ ان کو کہلوا دئیے گئے۔ اس رات انہوں نے تبلیغ کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار چار سو بیعتیں وہاں ہو گئیں۔ پھر ایک اور گاؤں سگرالہ ڈاکا (Sagrala Daka) میں تبلیغ کے لئے گئے۔ وہاں لوگ جمع ہو گئے تو انہیں تبلیغ کی۔ کچھ دیر کے بعد کچھ لوگ اٹھ کر گئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہاں کوئی احمدی نہیں لیکن ہوا یہ کہ کچھ لوگ اٹھ کے گئے اور گھر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور میری کچھ تصویریں لے کر آئے اور کچھ پمفلٹ لے کر آئے اور انہیں بتایا کہ جب آپ نے تبلیغ شروع کی تو ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ وہی جماعت ہے جس کا ذکر ہمارے مرحوم بھائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک بھائی گاؤسو فوفانا (Gaousso Fofana) صاحب گھانا میں گئے تھے۔ انہوں نے احمدیت قبول کی۔ بعد میں پھر وہ وہیں برکینا فاسو کے شہر بوبوجلاسو میں سیٹ ہو گئے۔ 2010ء میں وہ ہمیں ملنے کے لئے آئے تو ان کے پاس یہ تصاویر اور کتب تھیں۔ وہ یہاں بیمار ہوئے اور یہیں فوت ہو گئے۔ آج اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ہمارے پاس لے آیا جس کی تبلیغ ہمارا بھائی کیا کرتا تھا۔ ہم سب گاؤں والے بیعت کرتے ہیں۔ اس دن اللہ کے فضل سے ایک ہزار کے قریب لوگ جماعت میں شامل ہوئے۔
پھر مالی کے ریجن جیما (Djema) سے وہاں کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن ہمارے ریجن کے ایک احمدی عبدالسلام تراوڑے صاحب اپنے قریبی گاؤں میں گئے تو وہاں موجود گاؤں والوں نے ان سے کہا کہ کافی عرصے سے یہاں بارش نہیں ہو رہی۔ اگر آپ کی جماعت سچی جماعت ہے تو آپ دعا کریں کہ بارش ہو اور اگر بارش ہو گئی تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی آپ کی جماعت سچی جماعت ہے اور خدا کی مدد آپ کے ساتھ ہے۔ اس پر مکرم عبدالسلام نے نوافل پڑھے۔ گڑگڑا کر دعا کی کہ اے اللہ! اپنے مہدی کی سچائی کے لئے آج ہی یہاں بارش نازل فرما۔ یہ جو معلم ہیں یہ وہیں مالی کے مقامی رہنے والے ہیں۔ انہوں نے دعا کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا نشان دکھا۔ اور کہتے ہیں کہ اس دعا کے بعد وہاں بادل جمع ہونا شروع ہوئے اور اس قدر شدید بارش ہوئی کہ ہر طرف پانی جمع ہو گیا۔ اس کے کچھ دیر بعد لوگ عبدالسلام صاحب کے پاس آئے اور بتایا کہ ہمیں پتا لگ گیا ہے کہ جماعت احمدیہ واقعی سچی اور خدائی جماعت ہے اور اس طرح سارا گاؤں بیعت کرکے جماعت میں داخل ہو گیا۔
دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لئے نشان دکھاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر جگہ نشان دکھائے جائیں لیکن ان لوگوں کی نیک فطرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان کو ہدایت دے۔ اس لئے وہ نشان ظاہر بھی ہو گئے۔
غانا کے مبلغ ہمارے یوسف ایڈوسئی صاحب لوکل مشنری تھے، وہ وفات پا گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک واقعہ لکھا کہ لامبونا (Lambuna) ایک جگہ ہے، وہاں کے مقامی لوگوں نے ہمارے ایک داعی الی اللہ عبداللہ صاحب کو تبلیغ کے دوران بارش کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا۔ جس پر انہوں نے اعلان کیا کہ کیونکہ وہ امام مہدی کے پیغام کو پہنچانے کے لئے تبلیغ کر رہے ہیں اس لئے ان کی دعا قبول ہو گی اور رات کو بارش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی رات ایک بجے اس علاقے میں موسلا دھار بارش ہوئی اور قبولیت دعا کے اس نشان کو دیکھتے ہوئے اس علاقے سے ایک بڑی تعداد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
پھر آئیوری کوسٹ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نومبائعہ فاطمہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد انہیں حقیقی اطمینان اور راحت نصیب ہوئی ہے۔ احمدیت نے انہیں حقیقی اسلام سے روشناس کرایا ہے۔ اسلام پر عمل کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔ ساری بدعات چھٹ گئی ہیں کیونکہ احمدیت کی تعلیم ہی حقیقی اسلام کی تعلیم ہے۔ یہ ہر قسم کی بدعات، مشکلات اور پیچیدگیوں سے پاک ہے اور انہوں نے کہا کہ میں عہد کرتی ہوں کہ مرتے دم تک احمدیت پر قائم رہوں گی۔
پس حقیقی اسلامی تعلیم کو اپنایا جائے۔ صرف منہ سے بیعت کرنا یا احمدی کہلانا کوئی چیز نہیں ہے۔ تمام قسم کی بدعات سے بچنا اور صحیح اسلامی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا یہ حقیقی بیعت ہے۔ جو نئے احمدی ہونے والے ہیں یہ جس روح سے احمدیت قبول کرتے ہیں پرانے احمدیوں کو بھی اگرچہ بعض دفعہ ان سے سستیاں ہو جاتی ہیں یہ چاہئے کہ اس روح کو اپنے اندر پیدا کریں اور جاری رکھیں۔ نہیں تو جو نئے آنے والے ہیں یہ کل آپ کے استادنہ بن جائیں۔ آئیوری کوسٹ سے ایک نومبائع دوست طورے الولی صاحب لکھتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد ان کی روحانیت میں ترقی ہوئی۔ نمازوں میں ذوق و شوق اور سرور آنے لگا۔ عملی حالت بھی بہتر ہوئی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر عمل کرنا آسان ہو گیا۔ کہتے ہیں اس کے علاوہ احمدیت کے علم کلام کے ذریعہ علم و عرفان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تو یہ دور دراز بیٹھے ہوئے لوگ جب احمدیت قبول کرتے ہیں تو کس طرح ان میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں، عملی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو رہا ہے۔ اور یہی چیز ہر احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر مبلغ انچارج گنی کناکری لکھتے ہیں کہ ایک دوست سیلا (Sylla) صاحب اس غرض سے مشن ہاؤس آئے کہ اپنے گاؤں میں مسجدکی تعمیر کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ سے مدد لی جائے۔ تو کہتے ہیں میں نے انہیں جماعت کا تعارف کروایا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتایا۔ ایک بڑی لمبی نشست کے بعد یہ اتنے خوش تھے کہ کہنے لگے آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ اور کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے گاؤں چلیں تا کہ یہ پیغام سب لوگوں تک پہنچ جائے۔ چنانچہ پروگرام کے تحت ان کے گاؤں گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا گاؤں اور قریب کے پانچ گاؤں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے۔ یہ دوست، سیلا صاحب کہتے ہیں کہ جب سے میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے اس وقت سے مجھ میں ایک روحانی تبدیلی پیدا ہوئی ہے جسے میں نے کبھی پہلے محسوس نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے دو بچوں کو وقف کر دیا ہے جس میں ایک بچہ ان کا اس سال جامعہ احمدیہ سیرالیون جائے گا اور دوسرا اگلے سال۔ کہتے ہیں مجھے وہ روحانی سکون ملا ہے جس کی برسوں سے مجھے تلاش تھی۔
بینن تیْننگو ریجن کے مبلغ کہتے ہیں کہ کافی عرصہ پہلے جب یہاں مسجد تعمیر ہو رہی تھی تو وہاں سے ایک عیسائی پادری کا گزر ہوا۔ خوبصورت مسجد کی تعمیر دیکھ کر تعریف کی اور پوچھا کہ یہ کس کی مسجد ہے تو وہاں موجود معلم اسحاق صاحب نے کہا کہ احمدیوں کی مسجد بن رہی ہے اور ہم سب احمدی ہیں۔ عیسائی پادری نے کہا کہ میں سَوالُو (Savalou) شہر میں کافی عرصہ رہا ہوں۔ وہاں احمدیوں کی تبلیغ سننے کا موقع ملا ہے اور یہ سچے لوگ ہیں۔ آپ لوگوں نے صحیح مذہب چنا ہے اور اب اس کی بہترین رنگ میں پیروی کریں۔ اس پر ہمارے معلم نے پوچھا کہ اگر آپ کے نزدیک یہ سچے ہیں تو پھر آپ ان میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے؟ اس پر پادری نے کہا کہ احمدیت یعنی اسلام یقینا سچا مذہب ہے۔ آپ اس مذہب میں رہیں اور میں جس جگہ ہوں مجبوریوں کی وجہ سے ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ تم لوگ درست ہو۔
لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کو دنیا کا خوف نہیں، مجبوریاں نہیں اور پھر خدا تعالیٰ ان کے دل بھی کھولتا ہے۔
کانگو کے ایک عیسائی پادری نے احمدیت قبول کی اور ان میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے سالہا سال بطور پادری کام کیا ہے اور لوگوں کو مذہبی تعلیم دی ہے لیکن جو دل کو تسلی اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا احساس احمدیت میں ہوا ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔ اب احمدیت ہی میرا سب کچھ ہے۔
الجزائر کے ایک دوست اپنے خاندان کے احمدیت میں داخل ہونے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شیخ ان کے گھر آئے ہیں اور ان کے بچوں کو اسلام کی نیک تعلیم دے رہے ہیں جس سے ان کے گھر میں بہت نیک اثر پڑا ہے اور گھر میں اس شخص کی بہت عقیدت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کی والدہ لکھتی ہیں کہ ایک دن ان کی بیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی اور مختلف سٹیشنز تبدیل کر رہی تھی کہ اچانک ایم ٹی اے پر جا کر رک گئی۔ کہتی ہیں اس وقت وہاں ایم ٹی اے پر میری تصویر آ رہی تھی تو وہ تصویر دیکھ کر خوشی سے اچھلی اور کہنے لگی کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا جس سے انہیں معلوم ہوا کہ امام مہدی جس کا زمانہ منتظر ہے تشریف لا چکے ہیں اور اس طرح انہوں نے نومبر 2013ء میں بیعت کی اور جماعت میں داخل ہو گئے۔ بیعت کے بعد وہ لکھتی ہیں کہ وہ تمام دکھ اور پریشانیاں جو مجھے تھیں احمدیت میں داخل ہونے کی وجہ سے خوشیوں میں بدل گئیں۔ اس غلط معاشرے کی وجہ سے جو اولاد کی تربیت کا ڈر تھا جماعتی ماحول اور جماعتی تربیت سے وہ دُور ہو گیا۔ تو جماعتی ماحول میں اپنے بچوں کو لانا بھی بڑا ضروری ہے۔ نئے آنے والے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں بھی، پرانوں کو بھی ہر ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی ماحول میں اگر بچوں کو رکھیں گے تو صحیح تربیت ہو سکے گی اور جب آپ اپنے صحیح نمونے دکھائیں گے تربیت ہو سکے گی۔ یہ جو کہتی ہیں میری پریشانیاں دور ہوئیں اور خوشیوں میں بدل گئیں تو اس لئے کہ عملاً اپنے آپ میں انہوں نے تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
پھر ہمارے کانگو کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ صوبہ باکونگو کے ایک شہر کنزاؤٹے (Kinzauete) کے مقامی رہائشی احمد ٹوٹو (Toutou) صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ اس نے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ یعنی قبلے کو مختلف سمت میں پایا ہے۔ باقی لوگ پرانے قبلے کی طرف نماز پڑھ رہے ہیں لیکن وہ اور بعض اور لوگوں نے اپنا قبلہ تبدیل کر لیا ہے۔ اس خواب کی ان کو سمجھ نہیں آئی۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کسی طریقے سے یہاں جماعتی پمفلٹ پہنچے تو ان میں سے ایک آدمی 260 کلو میٹر کا سفر کر کے جماعتی صوبائی ہیڈ کوارٹر میں مزید تحقیق کے لئے آیا۔ تحقیق کے بعد جب یہ وہاں آیا تو اس کے کہنے پر معلم کو وہاں بھجوایا گیا۔ جب ہمارے معلم صاحب وہاں پہنچے اور حقیقی اسلام کا پیغام دیا تو انہوں نے، گاؤں والوں نے قبول کر لیا اور نہ صرف اس شخص نے قبول کر لیا بلکہ ان کے کچھ عزیزوں نے بھی اور باقی لوگوں کو بتایا کہ میں نے تو پہلے ہی آپ کو اس بارے میں خواب سنایا تھا تو یہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح مزید سترہ لوگوں نے بیعت کی۔ اور پھر اس کے بعد وہاں مزید تبلیغی کیمپ بھی لگائے گئے۔ میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے۔ وہاں کے میڈیکل کے ایک طالبعلم نے اسی روز جماعت قبول کر کے مسجد کے لئے اپنا پلاٹ پیش کر دیا اور الحمد للہ وہاں کی جماعت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور مزید بیعتیں ہو رہی ہیں۔ یہاں جو قبلہ تبدیل کرنے کی بات ہے تو قبلہ تو ہر مسلمان کا وہی ہے۔ جو غیر احمدیوں کا وہی احمدیوں کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ظاہری قبلہ کی طرف منہ نہیں کیا بلکہ دلوں کا قبلہ بدلنا ضروری ہے اور خالص خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہونا ضروری ہے۔ پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف قبلے کی طرف منہ کر کے عبادت نہیں ہو جاتی بلکہ دل اس طرف مائل ہونا چاہئے کہ میں اس قبلے کی طرف اس لئے منہ کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص ہو کر کرنی ہے اور خدائے واحد کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرنی ہے۔
پھر مبلغ انچارج گنی کناکری لکھتے ہیں کہ کناکری کیپٹل (capital)سے دو سو کلو میٹر دور سُوْمْبُویادِی (Sou Bouyade) ایک بہت بڑا گاؤں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال یہاں مسلسل رابطے کے نتیجے میں سارا گاؤں اور مزید دیہات بھی احمدی ہو گئے۔ کہتے ہیں اتنی بڑی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا خیال تھا کہ یہاں باقاعدہ جماعت کا قیام کیا جائے۔ ہم جماعتی نظام کے قیام کے لئے وہاں پہنچے تو احباب جماعت پہلے سے ہمارے منتظر تھے جن میں وہاں کی جامع مسجد کے امام بھی تھے جو کہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے تھے۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ اب ہم یہاں باقاعدہ جماعت کا قیام کرنا چاہتے ہیں تو گاؤں کے چیف نے کہا ہمارا مال و اسباب اور سب کچھ حاضر ہے اور یہ بڑی مسجد آپ کی ہے بلکہ سارا گاؤں آپ کا ہے اور کہنے لگے ہم تو اتنے خوش ہیں کہ احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کر کے ہم نے اپنی زندگی میں اس نعمت کو پا لیا ہے جو انتہائی قیمتی ہے اور اب ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور ہمیں حقیقی اسلام کا چہرہ نظر آیا ہے۔
کانگو کے امیر صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ایک دور دراز علاقے لُوبُوتُو (Lubutu) میں جماعت کا پیغام ایک پمفلٹ کے ذریعہ پہنچا۔ ان لوگوں نے پمفلٹ پر دئیے گئے ای میل ایڈریس کے ذریعہ جماعتی مرکز سے رابطہ کیا۔ چنانچہ لوکل مبلغ مصطفی محمود صاحب کو ان کے پاس بھجوایا گیا۔ انہوں نے وہاں تین ماہ قیام کر کے جماعت کا پیغام دیا۔ اعلیٰ حکّام سے ملاقاتیں کیں۔ ان کو جماعت کا پیغام دیا۔ سنّی مسلمانوں اور عیسائیوں سے کئی روز مجالس سوال و جواب ہوئیں۔ وہ کہتے ہیں الحمد للہ کہ اللہ کے فضل سے وہاں جماعت قائم ہو چکی ہے اور ساٹھ سے زائد افراد احمدیت میں داخل ہو گئے۔ اس جماعت کے بعض لوگ اخلاص میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جماعت کے ایک فرد جون 2014ء میں جلسے کے لئے آئے اور کشتی پر چھ سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے شامل ہوئے۔
اب یہاں یورپ میں رہنے والوں، ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والوں کو اندازہ نہیں کہ چھ سو کلو میٹر کا سفر کتنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہہ دیں گے کہ چھ گھنٹے میں طے ہو گیا۔ جہاں سڑکیں نہ ہوں، سواری نہ ہو وہاں انتہائی مشکل ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ یہاں کانگو میں تو دریاؤں کی زیادتی کی وجہ سے بہت جگہوں پر سڑکیں ہی نہیں ہیں۔ کشتیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ تو تین سو کلو میٹر کا سفر انہوں نے کشتی کے ذریعے سے کیا اور پھر باقی تین سو کلو میٹر کا سفر جو خشکی کا تھا اس کے لئے ان کے پاس کرائے کی رقم نہیں تھی۔ ان کا کوئی دوست مل گیا۔ اس سے انہوں نے سائیکل ادھاری لی اور ایک ٹوٹی سائیکل پر یہ انتہائی تکلیف دِہ سفر انہوں نے کیا جس کا تصور بھی یورپ میں رہنے والوں کو ہلا کے رکھ دے۔ شاید آپ لوگوں میں تصور پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ مبلغ کہتے ہیں اگر اس سائیکل کی حالت دیکھی جائے تو یقین کرنا مشکل ہے کہ اس نے کس طرح ٹوٹی پھوٹی سائیکل پے اتنا لمبا سفر اختیار کیا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو نومبائعین کے ایمانوں کو اس حد تک ترقی دے رہا ہے۔
پھر ہمارے ایک مبلغ سلسلہ لُنگی سے لکھتے ہیں کہ لُنگی ریجن میں پچھلے سال ایک گاؤں کے افراد کو تبلیغ کی جس کے نتیجے میں ان افرادنے جماعت احمدیہ کو قبول کرنا چاہا لیکن ایک غیر از جماعت امام جو سعودی عرب سے پڑھ کر آئے تھے اور علاقے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں انہوں نے لوگوں کے پاس جا کر جماعت کے خلاف باتیں کیں جس کی وجہ سے اس گاؤں کے لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ سیرالیون پر ان کو بلایا گیا تو اس امام کو بھی جلسے میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ یہ امام صاحب جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ جلسے کی کارروائی دیکھتے رہے۔ جلسے کے دوسرے دن رات کے وقت اپنے علاقے کے چند لوگوں کے ساتھ یہ مبلغ کے پاس آئے اور سب کی موجودگی میں کہنے لگے کہ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ سچی ہے اور اب میں کبھی بھی جماعت کی مخالفت نہیں کروں گا بلکہ ان لوگوں کو جو بیعت کرنا چاہتے ہیں کہوں گا کہ بیعت کر لیں۔ تو ایسے بھی بعض صاف فطرت، نیک فطرت علماء ہیں۔ صرف وہی نہیں ہیں جو لوگوں کے ایمانوں کو بگاڑنے والے ہوں۔ ہمارے حافظ محمد صاحب اٹلی کے ہیں۔ انہوں نے کبابیر سے ایم ٹی اے پر لائیو نشر ہونے والے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کو دیکھنے کے بعدکہا کہ میں عرصہ چھ ماہ سے اپنے دل میں بیعت کر چکا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس پر گواہ ہے لیکن ابھی تک فارم بھر کر نہیں بھیج سکا۔ میں تن تنہا رہتا ہوں۔ میری خوشی کا کوئی انتہا نہیں کہ میں نے حق کو پہچان لیا۔ امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے لئے میں بذات خود ایک نشان ہوں۔ وہ اس طرح ہے کہ سال 2008ء میں پہلی بار اچانک میں نے ایم ٹی اے دیکھا جس میں ناسخ منسوخ کے اوپر گفتگو چل رہی تھی اس وقت مجھے آپ لوگوں کے بارے میں یا امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ پروگرام اچھا لگا اور دیکھتا چلا گیا۔ اس کے بعد جنّوں کی حقیقت کے موضوع پر الحوار المباشر کا پروگرام دیکھا۔ اس پروگرام کے ذریعہ سے میں نے اس جماعت کی صداقت پر اعتراف کر لیا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور کہتے ہیں اس کے بعد چھ مہینے قبل 2013ء میں حضرت مسیح کی صلیبی موت سے رہائی اور ان کی وفات کے اوپر پروگرام دیکھ کر اس قدر تسلی ہوئی کہ بیعت کئے بغیر رہ نہیں سکا اور اب اس پروگرام کے ذریعہ اپنی بیعت کا اعلان کرتا ہوں۔ پھر الجزائر سے عبدالحکیم صاحب کہتے ہیں۔ میں نوّے کی دہائی میں سول ڈیفنس اسکواڈ میں شامل ہوا کیونکہ ملک میں مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر ملک میں دہشتگردی پھیلا رہی تھیں اور لوگوں کو قتل کر کے اموال کو لوٹ رہی تھیں۔ (یہی حال سبھی دہشت گرد تنظیموں کا ہے جو اسلام کے نام پر کام کر رہی ہیں۔) کہتے ہیں اور ہمارا کام ایسے لوگوں سے ان کے اموال کو بچانا تھا۔ ہم اسلام سے کوسوں دور تھے مگرمَیں دعا کیا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حالت سے نکالے۔ مجھے اس بات پر سب سے زیادہ حیرت ہوتی تھی کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے اور وہ بھی جہاد اور اسلام کے نام پر؟ کیا امام مہدی جب آئیں گے تو وہ بھی ایسے ہی قتل کا حکم دیں گے؟ مسلمان اپنے تمام تر اختلافات اور کفر کے فتووں کے باوجود ان کے ہاتھ پر کیسے اکٹھے ہو جائیں گے؟ کہتے ہیں۔ میرے ایک پرانے دوست عباس صاحب جو اس وقت احمدی ہو چکے تھے مگر مجھے علم نہیں تھا وہ ایک مرتبہ مجھے ملے اور مختلف امور پر بات کی۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی اور عقل کے عین مطابق تھی۔ دل اس کو سن کر مطمئن ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک صدی پہلے امام مہدی کو ہندوستان میں مبعوث فرما دیا ہے اور انہیں قلم اور علم و معرفت کا ہتھیار دے کر بھیجا ہے جس کے ذریعے انہوں نے بڑے بڑے پادریوں کو شکست فاش سے دوچار کیا اور اب ان کی جماعت اسی راہ پر گامزن ہے۔ یہ سن کر مجھے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرما لیا ہے۔ چنانچہ میں نے اسی وقت بیعت فارم پُر کیا اور اس پیاری جماعت میں شامل ہو گیا۔ کہتے ہیں اس کے چند دن بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک اندھیرے میدان میں رات کو چل رہا ہوں۔ پھر ایک بزرگ نظر آتے ہیں جومیرا ہاتھ تھام کر چل پڑتے ہیں۔ ہم سمندر کے کنارے پہنچتے ہیں تو وہاں ایک کشتی ہوتی ہے جس کے پاس ایک اور صاحب کھڑے نظر آتے ہیں جو ایسے لگتا ہے ہمارا ہی انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم تینوں اس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ مَیں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں تو جو بزرگ مجھے ساتھ لائے تھے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور یہ امام مہدی اور مسیح موعود مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔ اس کے بعد یہ کشتی چلتے چلتے ایک بحری جہاز کے پاس پہنچ جاتی ہے تو وہ دونوں مجھ سے فرماتے ہیں اس بحری جہاز میں سوار ہو جاؤ اور اس جہاز کے سواروں کے ساتھ جا ملو وہ تمہارے حقیقی اہل خانہ ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام بھی کس طرح دلوں پر اثر ڈالتا ہے۔ (اس کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔)
مراکش کے عبدالعزیز صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں: مَیں تاریخ اور جغرافیہ کا استاد ہوں اور باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے میری ترقی بھی ہو گئی۔ مکان بھی ہے۔ لیکن میں نفس کی ضلالتوں میں پڑا رہا اور گناہوں میں گھرتا گیا حتی کہ خدا تعالیٰ نے بیعت کی توفیق دی اور میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ میرے زخموں کا مرہم اور میری روح کا علاج ہیں اور مجھے اپنے تزکیۂ نفس کی فکر پیدا ہوئی اور حضور انور کی خدمت میں اس غرض سے لکھنے کا احساس بیدار ہوا کہ خدا تعالیٰ مجھے صادقین میں لکھ لے۔
پھرجماعت میں جو شہادتیں ہوتی ہیں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کس طرح تائید و نصرت فرماتا ہے۔ اس بارہ میں جاپان سے ہمارے صدر جماعت لکھتے ہیں کہ شیخو پورہ میں جو خلیل احمد صاحب شہید ہوئے۔ جب میں نے خطبہ میں ان کا ذکر کیا تو ایک جاپانی دوست جن کا چھ ماہ سے جماعت کے ساتھ اس لحاظ سے تعلق تھا کہ تبلیغ ان کو کیا کرتے تھے ان کا فون آیا کہ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں تو میں نے انہیں مسجد میں بلا لیا اور بیعت کی کارروائی ہوئی اور انہوں نے شہادت کے متعلق ان کا ذکر سن کے اس کے بعد بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کے نظام میں شامل ہیں۔ یادگیر کے امیر صاحب ضلع لکھتے ہیں کہ شہر یادگیر کے ایک نوجوان منجو ناتھ جن کا تعلق ہندو مذہب سے تھا وہ بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی ہمارے ایک خادم بھی پڑھائی کر رہے تھے۔ ایک دن ان کو نوٹس لکھنے کے لئے نوٹ بک کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ہمارے خادم کی نوٹ بک لے لی جس پر انسانیت زندہ باد اور محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں لکھا ہوا تھا۔ یہ پڑھ کر ان کے دل میں کافی اثر ہوا کہ اس زمانے میں جہاں اس قدر بدامنی پھیلی ہوئی ہے اس سے زیادہ پیارا پیغام دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس نعرہ نے ان کے دل پر بہت پیارا اثر چھوڑا اور مزید معلومات کے لئے موصوف نے ہمارے خادم سے احمدیت کے بارے میں پوچھا۔ ان کو جماعت کا لٹریچر مہیا کر دیا گیا۔ گہرے مطالعہ کے بعد ان کو اس بات کا علم ہوا کہ جماعت احمدیہ ایک منظم اور سچی جماعت ہے جو قیام امن کے لئے اور خدمت انسانیت کے لئے انتہا کی کوشش کر رہی ہے۔ جماعت کے بارے میں کافی کچھ جاننے کے بعد ان کے دل کو تسلی ہو گئی اور موصوف نے مارچ 2014ء میں بیعت کر لی۔
پس احمدیوں کے صرف نعرے نہیں بلکہ عملی حالتیں بھی ایسی ہونی چاہئیں کیونکہ یہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کئی دفعہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں۔ اس لئے صرف اپنی تعلیم کو بتانے سے اثر نہیں ہو گا لیکن حقیقت میں جب لوگ عمل بھی دیکھیں گے تو پھر ہی توجہ پیدا ہوگی۔ اس لئے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہر احمدی پر پڑتی ہے۔
مصر سے ایک دوست محمود صاحب لکھتے ہیں کہ خدا کی قسم! خدا کی قسم!! آپ لوگ حق پر ہیں اور کاش کہ تمام دنیا آپ کے نہج کی پیروی کرنے لگ جائے۔ الحمد للہ کہ ہمارے والد صاحب نے بیعت کی۔ پھر میرے بھائی نے، پھر والدہ نے اور پھر میں نے اور پھر میرے کزن نے اور میرے والد صاحب کے کزن نے بھی بیعت کر لی ہے۔ پھر بوسنیا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ میں نے گزشتہ سال عملی اصلاح کے جو خطبات دئیے تھے ان کے نتیجے میں خصوصاً نماز فجر کی حاضری میں غیر متوقع طور پر افراد شامل ہو رہے ہیں جبکہ اس ملک میں برفباری کی وجہ سے کافی سردی بھی ہوتی ہے۔ بعض نئے نئے احمدی لوگ بڑی بڑی دور سے چالیس چالیس میل سے سفر کر کے آتے ہیں۔ اور بعض دس کلو میٹر سے سفر کر کے آتے ہیں جبکہ ان کے گھر پہاڑی علاقے میں ہونے کی وجہ سے رستہ بھی بہت مشکل ہے لیکن نمازوں میں خود بھی آتے ہیں اور دوستوں کو بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔ احمدیت میں شامل ہونے سے تبدیلیاں بھی کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔ ایک تو نمازوں کی طرف توجہ ہے کہ موسم کی شدت کا بھی احساس نہیں کرنا، مسجدوں کو آباد کرنا ہے۔
دوسرے ایک اَور مثال دیتا ہوں۔ میسیڈونیا سے احمدی دوست کہتے ہیں کہ میری اہلیہ کا نام رضا ہے۔ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئیں اس سے پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھیں تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں آپ کا بڑا مشکور ہوں کہ جب لجنہ میں خطاب سنا تو انہوں نے حجاب لینا شروع کر دیا اور اب باقاعدہ پردہ کرتی ہیں اور احمدیت پر ثابت قدم ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں بھی ترقی کر رہی ہیں۔ تو ایسی نئی آنے والیاں جو اسلام کی تعلیم سے پیچھے ہٹ گئی تھیں وہ عورتیں بھی جب احمدیت قبول کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح اسلامی تعلیم کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس لئے ہماری بچیوں کو، نوجوان بچیوں کو بھی، عورتوں کو بھی اس طرف دھیان دینا چاہئے کہ جو اسلامی شعار ہیں ان کی پابندی کریں۔ جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو کرنا ضروری ہے اور پردہ بھی ان میں سے ایک اہم حکم ہے۔
بہرحال یہ ان بیشمار واقعات میں سے چند ایک ہیں جن کو میں اکثر اپنی رپورٹس میں سے دیکھتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات دکھا رہا ہے۔ کس طرح لوگوں کی خوابوں کے ذریعہ رہنمائی فرما رہا ہے۔ کس طرح مخالفین کی مخالفتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف نیک فطرت لوگوں کے دل پھیر رہی ہیں۔ کس طرح عیسائی پادری بھی اسلام کی حقانیت کا اعتراف کر رہے ہیں۔ کس طرح مسیح موعود کو مان کر لوگ علم و عرفان میں ترقی کر رہے ہیں۔ کس طرح اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ پس کیا یہ سب باتیں کسی انسان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ نہیں بلکہ یقینا یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کاپتا دیتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جو آخری زمانے میں امام آیا اس کی سچائی ثابت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی برتری ثابت کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین کی جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کا پتا دے کر آج بھی خدا تعالیٰ کے وجود کا فہم و ادراک پیدا کر رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کہاں ہے اور خدا ہے بھی کہ نہیں۔ جو نیک لوگ ہیں، نیک فطرت ہیں وہ دکھاتے ہیں کہ خدا ہے۔ لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پر باوجود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے ایمان نہیں لاتے، جو اپنے نام نہاد علماء کی باتوں میں آ کر سچائی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ایک عیسائی کو، ایک لامذہب کو، ایک ہندو کو تو اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ یہ نشانات اسلام کے سچا ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی دلیل ہیں لیکن مسلمان ہو کر خدا کو رہنما بنانے کی بجائے، اس سے ہدایت کا راستہ پوچھنے کی بجائے، اکثریت ان علماء سے راستہ پوچھتی ہے جن کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس زمانے کے فتنہ و فساد کی جڑ یہ لوگ ہیں۔ پس ہمیں نئے آنے والوں کے واقعات سن کر جہاں اپنے اور ان کے ایمانوں میں ترقی کی دعا کرنی چاہئے وہاں مسلم امّہ کے متعلق بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور یہ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن سکیں۔ اس وقت مسلم دنیا کی حالت قابل رحم ہے۔ لیڈر عوام پر ظلم کر رہے ہیں۔ عوام انصاف اور رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے لیڈروں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہر مفاد پرست لیڈر بن کر اپنا گروہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے۔ مختلف فرقے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پہلے اگر شیعہ سنّی فساد ہوتے تھے تو حکومتیں کنٹرول کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اب حکومتیں ہی فرقہ واریت کی جنگ میں ملوث ہو گئی ہیں۔ عراق، شام، لیبیا کے حالات تو گزشتہ سالوں سے بد سے بدتر ہوہی رہے ہیں اب سعودی عرب اور یمن کے جو حالات ہیں وہ بھی بگڑتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب یمن کی مدد کے بہانے جنگ میں کود پڑا ہے اور یہ حالات بھی بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور اب پتا نہیں کہاں جا کے یہ رکیں گے۔ اس جنگ کے وسیع تر ہونے کا بہت بڑا خطرہ ہے۔ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کو جس طرح کمزور کرنا چاہتی ہیں وہ اس میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ پہلے یہ تھا کہ براہِ راست حملے ہوتے تھے اب بجائے براہ راست حملوں کے یہ طاقتیں آپس میں لڑا کر اپنے مقصد کو حاصل کر رہی ہیں اور مسلمان دنیا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سوچتے نہیں کہ اس کی کیا وجوہات ہیں۔ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ کیوں اللہ تعالیٰ کے اس آخری نبی کے ماننے والوں میں اتنا فتنہ و فساد ہے۔ کیوں ترقی کے عروج پر پہنچ کر زوال کی پستیوں میں تقریباً تمام مسلمان ملک گر رہے ہیں۔ اس زوال سے بچنے اور ترقی کی منزل پر دوبارہ چلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ وہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس مسیح موعود کو مانو جس نے آخرین کو پہلوں سے ملانا ہے۔ فرقہ بندیوں کی بجائے ایک امّت بن کر مسیح موعود اور مہدی موعود کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے۔ اس کے لئے ہمیں بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کی توفیق دے اور انہیں قبول بھی فرمائے۔
نماز جمعہ کے بعد میں دو جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ حاضر ہے جو مکرم انتصار احمد ایاز صاحب ابن مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب کا ہے جو 28؍مارچ 2015ء کو پچاس سال کی عمر میں بوسٹن امریکہ میں وفات پا گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ وِاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب لکھتے ہیں کہ عزیزم انتصار تنزانیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری خالد احمدیت کے نواسے اور مختار احمد ایاز صاحب کے پوتے تھے۔ نیک، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، تہجد پڑھنے والے۔ لندن یونیورسٹی سے انہوں نے کیمیکل انجنیئرنگ میں بی ایس سی اور بعد ازاں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹر کیا۔ نظام جماعت اور نظام خلافت کی کامل اطاعت کرتے تھے۔ طوالو کے پہلے صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھی مقرر ہوئے۔ لندن میں شعبہ اطفال الاحمدیہ میں پہلے سیکرٹری رہے اور پھر مجلس کے قائد بھی رہے۔ کافی عرصے تک اپنی مقامی جماعت کے سیکرٹری مال بھی رہے۔ ایک پُرجوش داعی الی اللہ بھی تھے۔ ان کے ذریعہ سے بیعتیں بھی ہوئیں۔ چندوں کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے اور گزشتہ تین سالوں سے اپنے شعبہ میں مزید مہارت کے لئے امریکہ میں رہائش پذیر تھے۔ وہاں شدید بیمار ہوگئے اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ ان کے لنگز (lungs) پر اثر ہو گیا یا شائد لیور (lever) پر اثر ہوا۔ بہر حال ایک اچھے مثالی بیٹے، بھائی، شوہر، اور باپ تھے۔ اپنے بیٹے کی تربیت کا بھی انہیں خیال تھا۔ ان کے لواحقین میں والدین اور بہنوں کے علاوہ ان کی اہلیہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اور نو سالہ بیٹا افنان ایاز شامل ہیں۔ یہ عطاء المجیب راشد صاحب کے بھانجے بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر اور سکون عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ غائب ہے جو عزیزم وسیم احمد طالبعلم جامعہ احمدیہ قادیان کا ہے جو 25؍مارچ 2014ء کو دریائے بیاس میں ڈوب کر وفات پا گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ وِاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ چار دن کی مسلسل کوشش اور تلاش کے بعد ڈوبنے کی جگہ سے تقریباً دو کلو میٹر دور جا کر مرحوم کی نعش الٹی پڑی ہوئی ملی۔ مرحوم کے جسم پر کسی قسم کا نشان نہیں تھا اور نہ ہی نعش پھولی ہوئی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی بدبو تھی۔ پوسٹ مارٹم اور قانونی کارروائی کے بعدنعش کو بذریعہ ایمبولینس قادیان لایا گیا اور وہیں نماز ظہر سے قبل دو دن پہلے ان کا جنازہ پڑھا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ مرحوم 23؍اگست 1995ء کو پیدا ہوئے۔ صوبہ تلنگانہ سے ان کا تعلق تھا۔ پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے دادا دیسی باشو میاں صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دور خلافت میں حضرت سیٹھ حسن احمد صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ عزیزم وسیم احمد مرحوم 2013ء میں جامعہ قادیان میں تعلیم کی غرض سے وقف کر کے آئے اور اللہ کے فضل سے اچھے پڑھنے والے اور ہوشیار بچوں میں سے تھے۔ انتہائی خوش مزاج اور دین کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے تھے۔ جب یہ موسمی تعطیلات میں واپس اپنے گھر گئے تو غیر احمدی بچوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہو گیا۔ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں، والدہ بڑی پریشان ہوئیں کہ وہ اس کو ورغلا نہ دیں۔ اس پر وسیم احمدنے اپنی والدہ کو کہا کہ اب میں قادیان میں ایک سال تعلیم حاصل کر کے آیا ہوں۔ میں اب ان غیر احمدی دوستوں کو جماعت کی تبلیغ کر رہا ہوں۔ یہ میرے ہم عمر ہونے کی وجہ سے بات بھی سن رہے ہیں۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق دے۔ باقی طلباء کہتے ہیں کہ ہمیشہ ہم نے دیکھا کہ ان کو تہجد کے لئے جب جگانے جاؤ تو یہ پہلے ہی تہجد پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ہمیشہ مسکرا کر بات کرنے والے۔ مرحوم نے اپنے پیچھے اپنی والدہ محترمہ امۃ الحفیظ صاحبہ جو کہ کافی ضعیف ہیں اور اکثر بیمار رہتی ہیں اور دو بڑے بھائی چھوڑے ہیں جن میں سے ایک واقف زندگی ہیں اور بطور معلم کام کررہے ہیں۔ اور ان کی دو بہنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کی والدہ کو اور باقی لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
آج تک مخالفین اپنا زور لگاتے چلے جا رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی مخالفین نے احمدیوں کو دبانے یا ختم کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں جہاں احمدیوں کی قربانیوں کے معیار بڑھائے وہاں دنیا کے دوسرے ممالک میں خود ہی جماعت کی ترقی کے لئے ایسے راستے کھولے کہ اگر ہم صرف اپنی کوشش سے کھولنے کی کوشش کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہو سکتے۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے انشاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ اپنے نشانات دکھا رہا ہے۔ لوگوں کی خوابوں کے ذریعہ رہنمائی فرما رہا ہے۔ مخالفین کی مخالفتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نیک فطرت لوگوں کے دل پھیر رہی ہیں۔ عیسائی پادری بھی اسلام کی حقّانیت کا اعتراف کر رہے ہیں۔ مسیح موعودؑ کو مان کر لوگ علم و عرفان میں ترقی کر رہے ہیں۔ اپنی عملی حالتوں میں بہتری کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ کیا یہ سب باتیں کسی انسان کی کوشش کا نتیجہ ہیں؟
مکرم انتصار احمد ایاز صاحب ابن مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب (حال امریکہ) اور عزیزم وسیم احمدصاحب طالبعلم جامعہ احمدیہ قادیان کی وفات۔ مکرم انتصار احمد ایاز صاحب کی نمازِ جنازہ حاضر اور مکرم وسیم احمد صاحب کی نمازِ جنازہ غائب۔ مرحومین کا ذکرِ خیر۔
فرمودہ مورخہ 03؍اپریل 2015ء بمطابق03 شہادت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔